وحدت نیوز(آرٹیکل) دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر اسرائیلی کی کھلی جارحیت کے بعد جس دن سے سید مقاومت علامہ مجاھد سید حسن نصراللہ (حفظہ اللہ) کا خطاب سنا، تو اس دن سے ارادہ کیا، کہ کچھ جوہری نکات جن کی طرف سید مقاومت نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا، ان کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کروں، اور ساتھ ہی جو مقاومت نے دشمن کو پوری طاقت کے ساتھ نہ بھولنے والا جواب دیا اس بارے کچھ لکھوں، لیکن اس کے سامنے دو رکاوٹیں حائل تھیں.

1- میری دیگر مصروفیات اتنی تھیں، کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر لکھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا.
2- جن عسکری وسیاسی عربی اصطلاحات کو سید مقاومت نے اپنے خطاب میں بیان کیا تھا، اسے میں خود اپنی ناقص فھم کے مطابق سمجھ چکا تھا، لیکن ان اصطلاحوں کو صاحب اختصاص نہ ہونے، اور ایک ادنی سے دینی طالب علم ہونے کے ناطے، اور اردو زبان پر زیادہ دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے اس کو بیان کرنا قدرے مشکل نظر آ رہا تھا.
لیکن ایک عزیز کہ جن کو میں یہ ساری باتیں بیان کر چکا تھا انکے اصرار اور تشویق دلانے پر آج قلم اٹھانے کی حامی بھر لی، تاکہ آپ تک یہ اہم باتیں پہنچا سکوں۔
لیکن اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے، چند اصطلاحات کی تشریح ضروری ہے، کیونکہ ان الفاظ کو سید حسن نصر اللہ اپنے خطابات میں بہت استعمال کرتے ہیں، اور اردو قارئین کے لئے شاید یہ الفاظ اس طرح سے واضح نہ ہوں۔

ان میں سے اہم اصطلاحات قدرة الردع ( deterrence)، اس کے شرائط اور قواعد اشتباکات ( Rules of Engagement) ہیں۔
قدرة الردع اور قواعد اشتباكات کی وضاحت

1- قدرۃ الردع (Deterrence) کا مطلب کیا ہے؟ انگریزی زبان میں اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
(The deterrence is the act of stopping something from happening.)
دوسرے معنی میں مفھوم الردع کی وضاحت یوں ہے، کہ اپنے دشمن یا مدمقابل کو اس فعل سے منع کرنے کی صلاحیت رکھنا، اور اسے مجبور کرنا، کہ اگر اس نے کوئی غلط اقدام اٹھایا، یا کوئی بھی کاروئی کی، تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا. اور وہ جو مقاصدحاصل کرنا چاہتا ہے، ان سے زیادہ نقصان اٹھائے گا.

قدرۃ الردع (Deterrence) کی شرائط
اس صلاحیت اور طاقت کے حصول کی مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں.
1- الاتصال (communication )
یہ اتصال اور پیغام رسانی خطابات اور بیانات کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، اور اس کے علاوہ سفراء، اعلی سطح کےحکومتی اہلکار، یا کسی ثالث کے ذریعے بھی اس کام کو سر انجام دیا جا سکتا ہے. یہ علی الاعلان بھی ہوتی ہے اور مخفیانہ طور طریقوں سے بھی ہوتی ہے.
2- القدرۃ (capability)
یہ صلاحیت اور طاقت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی.
3- المصداقية (credibility)
آمادگی اور تیاری میں بھی سنجیدگی اور مصمم ارادے ہوں اور اقدامات اور کاروائی میں بھی غیر متزلزل اور پختہ ارادہ رکھتا ہو. صداقت اور سچائی شعار ہونا چاھیے.

2 قواعد اشتباکات Rules of Engagement کا مطلب کیا ہے ؟
عسکری علوم کے مطابق دشمن کے خلاف کارروائی اور طاقت کا استعمال کرتے وقت، جن قواعد وضوابط کی ملٹری فورسز پابند ہوتی ہیں. ایسے تمام قانونی، عسکری، اسٹریٹجک، سیاسی اور عملیاتی اصول، قواعد اشتباکات کہلاتے ہیں.

( اصل موضوع)
ان اہم اصطلاحات کی وضاحت بعد، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
چند دن پہلے المنار ٹی وی چینل پر اسرائیلی تجزیہ نگار کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اسرائیل کی قومی سلامتی کے انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے. کہ ” اسرائیل کو اب اپنی شمالی سرحد پر نئے Deterrence Equation (معادلۃ الردع) کا سامنا ہے.” اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقاومت نے صھیونیوں کے لئے نئی ریڈ لائنز کھینچ دی ہیں.
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مقاومت نے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ” اب ہمارے سامنے کوئی ریڈ لائنز نہیں. اب ہم لبنان کے مقبوضہ علاقوں (مزارع شبعا اور کفر شوبا کی ھائٹس) کی بجائے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین سے دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کریں گے، اور اس کے ساتھ Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کو بہتر بنائیں گے. ”
اور سید مقاومت نے واضح پیغام دیا کہ ” اگر ہمارے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی تو تمھاری ساری فوج اور ساری سرحدیں ہماری جوابی کاروائی کی زد میں ہونگی.” اور مزید فرمایا کہ “ہمارے ملک، ہمارے مورچوں اور ہمارے مجاھدین کے خلاف ہر کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا. ”

اقوام متحدہ کی قرارداد (1701) کہ جسے لبنان نے سیاسی اور عسکری طور پر قبول کیا تھا، اور محور مقاومت بھی اس کی پابندی کرتی تھی، اب وہ عملی طور پر کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے. کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے لبنانی سرحدوں کو عبور کر کے اس قراداد کی خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اور اقوام متحدہ کی یونیفل فورسسز بھی اسے روکنے اور منع کرنے سے بے بس اور عاجز نظر آتی ہیں۔
اس لئے حزب اللہ نے Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کی نئی پیش رفتہ صورتحال کے پیش نظر تین اصولوں کا اعلان کر دیا.

1- مقبوضہ لبنانی علاقوں سے کاروائی کی بجائے اب مقاومت اسرائیل کی سرحد پر صہیونی فوج کو نشانہ بنائے گی.
2- جو بھی اسرائیل کے ڈرون طیارے لبنان کی فضا میں آئیں گے انہیں نشانہ بنایا جائے گا.
3- اگر اسرائیل نے لبنان کی سرزمین کے اندر کوئی بھی کاروائی کی تو اسرائیل کے اندر تک حملوں کے ذریعے اس کا جواب دیا جائے گا .

“حزب الله کے ایگزیکٹو کونسل کے نائب صدر شیخ علی دعموس نے 6 ستمبر 2019 کے جمعہ کے خطبے میں اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ مقاومت کی افیفیم عسکری کارروائی نے اسرائیل کو اسی زبان میں اچھی طرح سمجھایا کہ جو زبان وہ سمجھتا ہے. اور deterrence Equations (معادلۃ الردع) کو تقویت دی ہے، اور اسکی شرائط کو بہتر کیا ہے. جبکہ دشمن کی کوشش تھی کہ دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر کھلی جارحیت کے ذریعے اسے تبدیل کرے، اور شرائط کو نظر انداز کرے.

مزید کہا کہ: اگر لبنانی مقاومت کے پاس یہ طاقت، عزم وارادہ اور حکومت اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی، تو لبنان آج دشمن کے سامنے ایک آسان ھدف ہوتا اور لبنان کمزوری وپستی وذلت میں ڈوب چکا ہوتا. ”

جب اسرائیل نے بیروت کے نواحی علاقے پر ڈرون حملہ کیا اور دمشق کے اطراف میں میزائیل حملے کے ذریعے حزب اللہ کے دو مجاھد شہید کئے، اور اس کے جواب میں سید مقاومت نے بدلہ لینے اور جوابی کاروائی کا اعلان کیا، تو پورا اسرائیل سہم گیا، ان پر حزب اللہ کی دفاعی طاقت اور عزم و ارادے کا خوف طاری رہا، اور تقریبا ایک ھفتہ سید مقاومت کے امر پر وہ ڈیڑھ قدم پر کھڑے نظر آئے، اور جب حزب اللہ نے اپنی نوعیت کی جوابی کاروائی کی، اور شمالی جبھہ کے قائد، ایک فوجی جنرل کو اپنے ھدف کا نشانہ بنایا، (اور جو میزائل استعمال ہوئے سوریہ ساخت کورنیٹ میزائل تھے) تب جا کر اسرائیل نے ٹھنڈا سانس لیا، وگرنہ انکی نیندیں اڑ چکی تھیں. لبنان کے ساتھ بارڈر کے قریب اپنی بارکیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے، اس منظر کو روسی چینل کی صحافی خاتون اور کیمرہ مینوں نے پوری دنیا کو لائیو دکھایا.

اس کاروائی سے پہلے مختلف ممالک نے لبنان کے اعلی سطح حکومتی اہلکاروں سے رابطے کیے، کہ وہ حزب اللہ سے کہیں، کہ جوابی کاروائی نہ کرے، اور اس کے بدلے ہم لبنان کی مالی مدد کریں گے، اور اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ آئندہ اسرائیل کبھی بھی حماقت نہیں کرے گا، لیکن مقاومت نے اپنا انتقام لیکر دشمن کو اسی کی زبان میں ناقابل فراموش درس دیا.

قارئین محترم!

اس دنیا میں (جہاں کمزوروں کی کوئی سنتا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی عزت کرتا) اگر عزت و آبرو کے ساتھ جینا ہے، اور ملک میں امن و امان لانا ہے تو اس کے لئے معادلة الردع کا فارمولہ اپنانا ہوگا اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں، اس اہم ترین فارمولے کو سمجھنے کے لئے درجہ ذیل پانچ نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔

1- معروف ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب اسرائیل کے سابق وزیراعظم موشی دایان سے جب پوچھا گیا کہ لبنان پر کاروائی کے لئے کس فوجی دستے کو بھیجیں گے، تو اس نے جواب دیا تھا کہ لبنان کی طرف فوج بھیجنے کی ہرگز ضرورت نہیں وہاں تو بینڈ باجے کا دستہ بھیجیں گے، اور وہی کافی ہو گا.

لیکن آج جب لبنانی مقاومت نے اپنی دفاعی پوزیشن کا لوہا دنیا سے منوایا ہے تو اس سے انکے ملک کے امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، اور اگر کوئی بیرونی دشمن جارحیت کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھرپور جوابی کاروائی ہوتی ہے.

2- ایران اگر آج محفوظ ہے اور امن و امان کے لحاظ سے پر سکون ہے، اور پوری دنیا میں اسکا احترام ہے، اور خطے کی مضبوط طاقت شمار ہوتا ہے، تو وہ اس کی طاقت ردع یا مضبوط دفاعی صلاحیت ہے. گذشتہ 10 جون میں دنیا کی سپر پاور امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، اور اپنا جاسوسی طیارہ ایران کی حدود میں بھیج کر خوب اندازہ لگا لیا کہ ایران کتنا طاقتور ہے، برطانیہ نے ایک بحری جہاز پر قبضہ کیا تو ایران نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے انکے چار بحری جہاز اپنے قبضے میں لے لئے. امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے نئے مشرق وسطی کا پلان لانچ کیا، لیکن ایران کی سربراہی میں مقاومت کے بلاک نے انہیں عراق وشام ویمن میں شرمناک شکست سے دوچار کیا.

3- یمن پر ساڑھے چار سال سے سعودی اتحادیوں نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، اب جب یمن کے غیرت مند فرزندوں نے انصار اللہ کی شکل میں اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط کر لی ہے اور انکے ڈرون اور بیلسٹک میزائل دشمن کے حساس علاقوں پر حملے کرنے کی قابل ہوئے ہیں، تو اب یہ اتحادی خود آپس میں جنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور فوجوں کا انخلاء شروع ہو چکا ہے.

4- عراقی وفلسطنی مقاومت نے بھی اپنی مضبوط دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے امریکہ واسرائیل کو بے بس کر دیا ہے. آج عراق میں حشد شعبی امریکیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے، اور تمام تر امریکی سازشوں کو انہوں نے خاک میں ملایا ہے. اسی طرح آج اگر فلسطین پر میزائل حملہ ہوتا ہے، تو تل ابیب پر میزائل داغے جاتے ہیں، اسی دفاعی صلاحیت کے بہتر ہونے سے امن و امان کی صورتحال آج پہلے سے بہتر ہے.

5- اگر پاکستان نے بھی 27 فروری کو انڈیا کے جنگی جہازوں کو نہ گرایا ہوتا اور ہماری دفاعی صلاحیت مضبوط نہ ہوتی، تو آج پورا ملک دشمن کے رحم وکرم پر ہوتا. جو آئے دن مختلف بہانوں سے ہماری سر زمین کے تقدس کو پامال کیا جاتا. اور اسرائیل کو اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ ہمارے شاھین میزائل کی زد میں ہے، تو جیسے اس نے شام، عراق اور سوڈان کے علمی ابحاث اور ایٹمی ہتھیاروں کے مراکز کو نشانہ بنایا تھا، وہ ہمارے ایٹمی مراکز بھی تباہ کر چکا ہوتا. پاکستان کی طاقتور فوج اور مضبوط دفاعی صلاحیت نے اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ کر رکھا ہے.

یہ ایک واضح حقیقت ہے، کہ قیام امن کے لئے پاور اور طاقت کا حصول اور مضبوط دفاعی صلاحیت اور وسائل بہت ضروری ہیں. آپکی قوت ردع ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہے۔

تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) صہیونیوں کی غاصب و جعلی ریاست اسرائیل گذشتہ کئی برس سے مسلسل کئی ایک محاذوں پر شکست سے دوچار ہو رہی ہے، اگر اندرونی طور پر بات کی جائے تو جعلی ریاست کے اندر اس کے حکمرانوں پر کرپشن سمیت نہ جانے کئی ایک ایسے الزامات ہیں جس کے باعث کسی بھی وقت ان کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔انہی مسائل میں سیاہ فام صہیونیوں کے ساتھ نسلی امتیاز کا معاملہ بھی صہیونیوں کی جعلی ریاست اور اس کی حکومت کے لئے وبال جان بن چکا ہے۔


اگر بیرونی سطح پر جائزہ لیں تو گذشتہ سات برس میں صہیونیوں کے نئے ہتھکنڈے جو انہوں نے سنہ2006ء کے جنگ میں شکست کھانے کے بعد شروع کئے تھے سب کے سب بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم داعش شام، عراق، لبنان سرحد سمیت متعددمقامات پر شکست کھا چکی ہے اور داعش مخالف قوتوں جن میں ایران، شام، لبنان، حزب اللہ سمیت روس اور چین کی حمایت شامل ہے ان کاپلڑا بھاری نظر آ رہاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی اسی شکست کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کے لئے براہ راست میدان میں کود پڑا ہے۔کبھی براہ راست شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہاہے تو کبھی شام کے انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن شام بھی مسلسل اسرائیل کی جارحیت کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کے تمام حملوں کو پسپا کر رہا ہے اور اپنے دفاع پر کسی قسم کا دباؤ اور سودے بازی کرنے پر رضامند نہیں ہے۔

دنیا کی نام نہاد امن پسند قوتو ں بشمول امریکہ وبرطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے شام کے خلاف تمام ہتھکنڈے آزما لئے ہیں لیکن شا م صہیونی اسکیم کے تحت شروع کی گئی اس جنگ میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔
اسرائیل نے گذشتہ دنوں پچیس اور چھبیس اگست کی درمیانی شب کو شام،لبنان اور عراق کی فضائی حدود کی خلا ف ورزی کی ہے لیکن دنیا کی بڑی بڑی نام نہاد حکومتیں اس خلاف ورزی پر خاموش ہیں۔

شام میں ایک فوجی ٹھکانہ کو اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنا کر وہاں پر موجود دو حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے کمانڈروں کو شہید کیا، اسی طر ح عراق میں بھی ایک سینئر کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی رات لبنان کے دارلحکومت بیرو ت کے مضافاتی علاقہ ضاحیہ کی سول آبادی والے علاقے کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تاہم اس کوشش میں اسرائیل کے دونوں ڈرون طیارے تباہ ہو گئے جبکہ دوسری طرف کوئی جانے نقصان نہیں ہوا ہے۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے جس دن حملہ کا انتخاب کیا اسی دن حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے شا م کو ایک سالانہ تقریب بعنوان لبنان و شام سرحد پر داعش کے خلاف فتح کے خطاب کرنا تھا۔اسرائیل کی اس بھونڈی حرکت سے پوری دنیا کی سیاست کی نظریں لبنان پر اس وقت گڑھ گئیں جب صبح دو اسرائیلی ڈرون طیارے تباہ ہوئے اور مغربی میڈیا نے خبر دی کہ حزب اللہ نے دونوں ڈرون طیاروں کو تباہ کر دیا ہے لیکن تنظیم کے عہدیدار محمد عفیف نے واضح کیا کہ حزب اللہ نے کسی ڈرون کو نشانہ نہیں بنایا او ر مزید تفصیلات تنظیم کے سربراہ سید حسن نصر اللہ آج شام اپنے خطاب میں بیان کریں گے۔

غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے صہیونی آبادکار اور حکومت پہلے ہی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب اللہ قیادت اس طرح کی بھونڈی حرکتوں پر خاموش بیٹھنے والی نہیں ہے اور یقینا سید حسن نصر اللہ کوئی اہم اعلان کریں گے۔اسی طرح امریکی اعلیٰ عہدیدار مائیک پومپیو نے بھی لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ کسی بھی طرح معاملہ کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس بارے میں سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ لبنان حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ سمیت سلامتی کونسل اراکین کو اسرائیل کی کھلی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرے لیکن حزب اللہ اسرائیل سمیت کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما ہو اور ہماری فضائی حدود کی خلاد ورزی کی جائے۔واضح رہے کہ اسرائیل نے سنہ2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے بعد پہلی مرتبہ براہ راست لبنان کے کسی علاقہ کو اس طرح نشانہ بنانے کی جرات کی ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کے اندر خطرے کا سائرن بج چکا ہے کیونکہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر کے دوران صہیونی فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظارکرو اور دیکھو کہ ہم کس وقت کس طرح تم سے اس کا انتقام لیتے ہیں۔انہوں نے نیتن یاہو کو کہا کہ تمھیں ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیں گے۔ہم کسی صورت اسرائیل کو معافی نہیں دے سکتے۔

صہیونی آباد کارپہلے ہی سید حسن نصر اللہ کے بارے میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے اور جب بھی جو کہتا ہے وہ کرتا ہے۔صہیونیوں آباد کاروں نے اپنے بنکروں میں جانا شروع کر دیا ہے کیونکہ گذشتہ دو روز سے لبنان کے شمالی سرحدی علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں کی پریشانی بھی بڑھتی ہوئی پائی گئی ہے اور اسرائیل کا سب سے جدید سسٹم آئرن ڈو م کی بیٹریاں بھی نصب کی جا رہی ہیں تاہم یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اسرائیلی فوجی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور جانتے ہیں کہ حزب اللہ کے سربراہ نے بات کی ہے وہ یقینا عمل کریں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ وقت بتائے گا،کیونکہ خود حزب اللہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ انتظار کرو ہم تمھیں سبق سکھائیں گے۔ایک دن، دون، تین یا چار دن، کس وقت،کیسے اور کب یہ ہم خود فیصلہ کریں گے۔اسرائیل کے لئے یہ صورتحال شدید سنگین اور خطرناک صورتحال میں تبدیل ہو تی چلی جا رہی ہے ایک طرف اندرونی خلفشار بڑھ رہا ہے دوسری طرف حزب اللہ کے ساتھ ماضی کی 33روزہ جنگ میں پہلے ہی اسرائیل کو بدترین شکست کا سامناہو اتھا جس کو کوئی بھی صہیونی فراموش نہیں کر سکا ہے۔

خود جعلی ریاست اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ دیواروں پر دیواریں کھڑی کر کے خود کو محدود کر رہی ہے۔ایسی صورتحال میں اسرائیل کے لئے کسی بھی جنگ کا متحمل ہونا نا ممکن ہے۔

بہر حال اسرائیل نے لبنان سمیت کئی ایک ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے جس پر یقینا خاموش رہنا مناسب عمل نہیں ہے۔حزب اللہ کے سربراہ نے پہلے بھی مقبوضہ فلسطین میں آ کر آباد ہونے والے صہیونی آباد کاروں کو متنبہ کیا تھا کہ اپنے اپنے وطن میں واپس لوٹ جائیں ورنہ نیتن یاہو اس جنگ میں ایندھن کے طور پر انہی آباد کاروں کو استعمال کرے گا۔

اسرائیل پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں لہذا صہیونی آباد کار اپنے بنکروں میں چلے جائیں۔ اور عنقریب صہیونیوں کی جعلی ریاست ایسے ہی کسی معرکہ میں نابود و زوال پذیر ہو گی اور اللہ کا وعدہ بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ حتمی پورا ہو کر رہے گا۔


تحریر۔۔۔۔صابر ابو مریم

 

لے سانس بھی آہستہ

وحدت نیوز(آرٹیکل)کل ہی کی تازہ خبر ہے کہ سماجی رابطوں کی مقبول ترین ویب ساٸٹ فیس بک کمپنی پر 5 ارب ڈالر کا تاریخی جرمانہ اور حکومتی قواعد و ضوابط کی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا۔

امریکی حکومتی ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن(FTC) نے امریکی صدارتی الیکشن 2016 کے دوران کیمبرج انالیٹیکا سکینڈل کی بنیاد پر طویل گفت و شنید اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے امریکی قانون سازوں کے کٸی دنوں تک جرح کے ایک سال بعد بالآخر فیس پر پانچ ارب ڈالرز کا بھاری اور تاریخی جرمانہ عاٸد کرنے کے ساتھ ساتھ آٸندہ کیلٸے سخت پابندیوں کا پابند کردیا۔ یاد رہے اس اسکینڈل میں فیس بک کیجانب سے 50 ملین افراد کا ڈیٹا پراٸیویٹ فرم کیمبرج انالیٹیکا کو فراہم کرکے امریکی صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہونے کا الزام ہے۔ جس کی وجہ سے نسبتا غیر مقبول ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر منتخب ہوا تھا۔
اس تناظر میں عام افراد کی جانب سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ فیس بک نے آخر کیا کیا تھا جو اتنا بھاری جرمانہ عاید ہوگیا؟

اس زمانے کو ڈیٹا ساٸنس کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ آج کی دنیا چھے ارب سے زیادہ انسانوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ جہاں روزانہ لاکھوں افراد پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ روزانہ کڑوڑوں افراد مختلف ملکوں اور شہروں میں سفر کرتے ہیں۔ اربوں نہیں تو کڑوڑوں افراد تعلیم ،کاروبار اور دیگر ضروریات کیلٸے ٹیکنالوجی کا استعمال یقینا کررہے ہوتے ہیں۔ اربوں کی تعداد میں لوگوں کا کاروباری معاملات سے روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اور تقریبا سبھی افراد مختلف حوالوں سے دوسروں سے روابط کیلٸے ٹیکنالوجی کے استعمال پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں روابط کیلٸے بنے ان ٹیکنالوجیز کی ہیٸت تقریبا ملتی جلتی ہے۔ اور مختلف سروے رپورٹس کے مطابق سماجی رابطے کی ویب ساٸٹ فیس بک کو استعمال کرنیوالے افراد کی تعداد بھی اربوں میں ہے۔

اب جو شخص دنیا کے کسی بھی کونے میں اور جیسی بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہو، ساٸنس سے شد بد رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہر شخص ڈیٹا استعمال کرتا اور پیدا بھی کر رہا ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ”ڈیٹا“ ہوتا کیا ہے ؟ نیٹ پر تصویریں، ویڈیوز، آڈیو ریکارڈز، اور مختلف زبانوں میں لکھی گٸی تحریریں؟ جی یہ بھی ڈیٹا کی مختلف صورتیں ہیں جنہیں عام افراد دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر ڈیٹا کا صرف ان چار حالتوں میں ہونا بالکل بھی ضروری نہیں۔ فیس بک پر لگی پابندیوں کے تذکرے کے بعد اگلی لاٸنوں میں ہم اس جانب نظر کریں گے۔

بزنس انساٸیڈر کیمطابق فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی جانب سے فیس بک پر عاٸد کردہ پابندیوں میں درج ذیل اہم اور چیدہ چیدہ پواٸنٹس شامل ہیں۔

١ ۔ فیس بک ان تمام تھرڈ پارٹی اپلکیشنز کو ٹرمنیٹ کرنے کا پابند ہوگا جو ڈیٹا حاصل کرنے کیلٸے فیس بک کی پالیسیوں کی پابندی کرنے کے ساتھ مخصوص ڈیٹا کے استعمال کو واضح بیان نہیں کرتے۔

٢۔ فیس بک کسی بھی صارف کے فون نمبر کو، جو سکیورٹی کیلٸے حاصل کیاجاتا ہے، اسے کسی تشہیری مقصد کیلٸے استعمال نہیں کرسکتا۔

٣۔ فیس بک پابند ہوگا کہ وہ کسی بھی صارف کی فیشل ریکوگنیشن ڈیٹا کو حاصل کرنے کے مقصد کو بیان کرے۔ اور اسکو کسی بھی ایسے مقصد کیلٸے استعمال نہ کرے جس سے صارف کو پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا ہو۔ (یعنی صارفین کی تصاویر کو فیشل ریکوگنیشن ٹیکنالوجی میں استعمال کرنے کیلٸے بھی صارف کی اجازت درکار ہوگی۔)

٤۔ فیس بک ڈیٹا سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لٸے پروگرام بنانے ، اس پر عملدرآمد کرنے اور اسکی باقاعدگی کا بھی پابند ہوگا۔

٥۔ فیس بک صارفین کے پاسورڈز کو انکرپٹ کرنے کا پابند ہوگا۔ اور اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کہ کسی بھی صارف کا پاسپورڈ عام ٹیکسٹ کی شکل میں نا رہے۔

٦۔ صارف کیجانب سے کسی بھی تیسری سروس (تھرڈ پارٹی اپلکیشن) کے استعمال کرنے پر فیس بک کی جانب سے صارف سے ای میل اور پاسورڈ پوچھنے پر پابندی ہوگی۔

تلخ ٹیکنیکل حقاٸق سے صرف نظر کرتے ہوٸے سرسری طور پر دیکھاجاٸے تو یہ امریکی حکومت اور اداروں کیجانب سے سماجی رابطے کی کمپنی کے کھرب پتی مالک سے اربوں روپے بٹورنے کا بہانہ لگتا ہے۔ مگر حقیقت میں معاملہ اتنا آسان بھی نہیں۔ دراصل ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ٹرینڈ سیٹ ہونے جارہا ہے کہ کس طرح ایک عام انفرادی رابطے کی ویب ساٸٹ نظر آنیوالی کمپنی کے زیر اثر ٹیکنالوجی نے سیاسیات، اخلاقیات، پراٸیویسی اور دیگر سماجی اقدار کو کس قدر سختی کیساتھ چکرانا شروع کر رکھا ہے۔

یہ نیا زمانہ ہے۔ لوگ آج تک شناختی کارڈ کیلٸے انگوٹھے کا نشان لگانے سے واقف تھے۔ مگر کمپیوٹر ساٸنس میں ترقیوں کی مرہون منت اب آہستہ آہستہ ڈیٹا، پراٸیویسی، تھرڈ پارٹی اپلکیشنز، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلجینس) اور اسکے اپلکیشنز فیشل ریکوگنیشن، ڈیٹا ساٸنسز، انٹرنیٹ آف تھنگس، مشین لرنگ، بگ ڈیٹا، وغیرہ وغیرہ سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں۔ روزانہ اپنے سمارٹ فونز میں ہم بیشمار اپلکیشنز کو استعمال کرتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک میں بھی اب ایک سمارٹ فون سے ہی لوگ بجلی، گیس وغیرہ کا بل دیتے، ٹرین، جہاز، بس اور ٹیکسی تک کا کیرایہ ادا کرتے ہیں۔ یوں جیب میں بٹوا اور کاغذی رقم لیکر رکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چند روپوں سے لیکر کڑوڑوں روپوں تک کی اداٸیگی اور منتقلی موباٸل فون اپلکیشن کے ذریعے کرتے ہوتے ہیں۔ موسم کا صورتحال کٸی مہینوں بعد تک کا معلوم کرتے اور نامعلوم شہروں میں بھی ایک اپلکیشن کے ذریعے گلی گلی چپہ چپہ کا صرف ایڈریس ہی نہیں معلوم کرتے بلکہ وہاں اردگرد مطلوبہ ریسٹورنٹ، دفاتر، اسٹور، اور دیگر ضرورت کی سروسز تک اسطرح سے رساٸی حاصل کرلیتے ہیں جیسے آپ اسی علاقے میں ہی برسوں سے رہ رہے ہوں۔ یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے سمجھ سکتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے کتنا بڑا معجزہ برپا کر کے ہماری زندگیوں کو آسان بنایا ہے۔ اور یہ سبھی سہولیات آپ بظاہر چند اپلیکیشن کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں جنکو بنانیوالی کمپنیوں کے پاس ان امور سے متعلق ”ڈیٹا“ موجود ہوتا ہے جنہیں ٹیکنالوجی کی مدد سے پراسس کرکے آٸندہ نسلوں تک کیلٸے بھی آسانیاں فراہم کی جا رہی ہوتی ہیں۔

آج ہم جن جن اپلکیشنز کو استعمال کرکے اپنے امور میں آسانیاں پیدا کر تے ہیں وہ دراصل صرف آپکو گزشتہ صارفین سے اکٹھے کٸے گٸے ڈیٹا سے سہولیت نہیں دے رہے بلکہ ان اپلکیشنز کے ہمارے استعمال سے بھی ان کمپنیوں کے پاس ”ڈیٹا“ جمع ہورہا ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ اپنے سسٹم کو مزید موثر بنارہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل پر کس ملک میں سب سے زیادہ کس شخص یا چیز وغیرہ کی بابت گزشتہ ایک گھنٹے، ہفتے، ایک مہینے، سال اور دس سال کے دوران کتنے لوگوں نے سرچ کیا۔ یہ جاننا گوگل کمپنی کیلٸے سیکنڈز کا کام ہے۔ اسی طرح واٹس ایپ، ٹویٹر، اور دیگر اپلکیشنز اس طرح کے کام بہ آسانی کرسکتے ہیں اور کر رہے ہوتے ہیں جنکی بنیاد پر انکا نہ صرف کاروبار پھیلتا ہے بلکہ انہیں مختلف ممالک میں لوگوں کے رجحانات، ضروریات، اور انکے معاملات سے بھی واقفیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ معاملہ صرف فیس بک اور دیگر  متذکرہ اپلکیشنز تک محدود نہیں بلکہ تمام دیگر ٹیکنالوجیز میں بھی ایسے سارے کام ہورہے ہوتے ہیں مثلا اس حالیہ ایشو جس میں فیس بک ڈیٹا کے استعمال کے ذریعے سے امریکی صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہوا  اور نتیجتا بھاری جرمانے عاٸد کرنے کیساتھ پابندیاں عاٸد کی گٸیں۔ یہی کام ٹویٹر، واٹس ایپ کے ذریعے بھی ہوسکتا تھا اور ہو سکتا ہے۔

ڈیٹا ساٸنسز سے مربوط فیلڈ کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے ناطے یہ بات وثوق کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی لینے والی ہر سانس، اٹھنے والا ہر قدم بات کرنے، ہنسنے، رونے یا کسی اور وجہ سے ماتھے اور چہرے پر پڑنے والا ہر بل اور جھپکنے والی پلکیں بھی ڈیٹا میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں دن کے اٹھارہ گھنٹے لٸے سمارٹ فون، ہاتھ میں پہنی سمارٹ واچ، گاڑی میں لگی جی پی ایس، اور ہر وہ سمارٹ ڈیواٸس جو ہم اپنی آسانی کیلٸے استعمال کرتے ہیں ان میں موجود ٹیکنالوجی آپ سے لمحہ بہ لمحہ جمع ہونیوالے ڈیٹا سے معلومات اور انکے استعمال سے پوشیدہ راز طشت از بام کرسکتی ہے۔ اور بطور مسلمان جوں جوں ساٸنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ہمارا ایمان غیر متزلزل ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ دوفرشتے ہمارے اعمال کا حساب کتاب رکھنے کیلٸے مامور ہیں۔ اور روز حشر  ہمارا ہر عضو اعمال کی گواہی دے رہے ہونگے۔ اب جبکہ ہماری ہر سانس اور قدم قدم کا حساب معمولی ٹیکنیکل اپلکیشن کے ذریعے رکھا جارہا اور ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے ہیں تو اس خداٸے قادر مطلق کیلٸے ہمارے اعمال کا حساب رکھنے کا انتظام رکھنا کوٸی بڑی بات نہیں۔ البتہ کمزور ایمان والوں کیلٸے اب اس بات پر شک و شبہے کی کوٸی گنجاٸش نہیں بچتی۔
جہاں تک ڈیٹا اور اسکے استعمال کی بات ہے تو میر صاحب تو زمانہ قبل اس حقیقت کو بھانپ گٸے تھے۔ فرمایا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا


شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ
جولاٸی 25، 2019 .

وحدت نیوز (آرٹیکل) گذشتہ ماہ بحرین کے دارلحکومت منامہ میں امریکی و اسرائیلی تیار کردہ پلان یعنی صدی کی ڈیل کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس اور ورکشاپ کے بعد عرب دنیا سمیت مسلم دنیا اور بالخصوص فلسطین میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہاہے کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے عرب حکمرانوں کے تعلقات کس کروٹ بیٹھیں گے؟ ان تعلقات کے پس پردہ اور عیاں مقاصد پر بھی عرب دنیا کے سیاست مدار سوالات اٹھا رہے ہیں اور شدید مضطرب ہیں۔

امریکہ و اسرائیل کی جانب سے مغربی ایشیائی ممالک کو کنٹرول کرنے اور خاص طور پر فلسطین کا سودا کرنے کے عنوان سے جس کانفرنس کو ترتیب دیا گیا تھا اس کے انعقاد کے لئے امریکہ نے نہ تو مغربی ممالک اور نہ ہی یورپی ممالک میں سے کسی کا انتخاب کیا بلکہ اس کانفرنس یعنی صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کانفرنس کو عرب دنیا کے ایک ایسی ریاست میں منعقد کیا گیا جس کا خود اسرائیل کے ساتھ رسمی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے تاہم اس پلان کے تحت ایک طرف جہاں فلسطین کا سودا بحرین میں بیٹھ کر کرنے کی کوشش کی گئی وہاں ساتھ ساتھ بحرین اور اس جیسی اور چھوٹی چھوٹی عرب خلیجی ریاستوں کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب لانا بھی اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا۔

بہر حال منامہ کانفرنس اور اس میں پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل دونوں ہی بری طرح اس لئے بھی ناکام ہو گئیں کیونکہ مغربی ایشیاء کے متعدد عرب ممالک نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا اور اسے مسترد کیا تاہم بحرین کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات نہ صرف غرب ایشیاء کی ریاستوں کے لئے تشویش کا باعث ہیں بلکہ مسلم دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو بھی ایسے معاملات پر شدید تشویش لاحق ہے۔فلسطین بھر میں منامہ کانفرنس کے آغاز سے پہلے ہی بحرین اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سمیت امریکہ کے شیطانی منصوبوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری تھے البتہ ان مظاہروں میں اس وقت شدت دیکھنے میں آئی تھی جب بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی انتہائی حیرت انگیز بیانات دئیے۔ وہ اسرائیل کے ٹی وی چینل نمبر 10 سے بات چیت کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا: ''ہمارا عقیدہ ہے کہ اسرائیل باقی رہے گا اور ہم اس سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسرائیل سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔'' بحرین کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ایک عرب حکمران کا اسرائیلی ٹی وی چینل سے انٹرویو کوئی معمولی بات نہیں، کہا: ''یہ کام بہت عرصہ پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں سے بات چیت ہمیشہ تناؤ میں کمی کا باعث بنتی ہے۔'' خالد بن حمد بن عیسی آل خلیفہ کے اس انٹرویو کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور فلسطین کی تما م اکائیوں نے بحرینی وزیر خارجہ اور حکومت کے اسرائیل کے ساتھ روابط اور اسرائیل کی حمایت میں بیانات کو فلسطین کش اقدامات قرار یتے ہوئے فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے بحرینی وزیر خارجہ کے اس بیان کو فلسطین کاز کے خلاف منحوس ارادے سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حماس اپنی طاقت اور مضبوط ارادے کے ذریعے فلسطین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔

آئیں ہم بحرین اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور قربت کے پس پردہ اور عیاں مقاصد کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک طویل عرصہ سے صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ عادی سازی یعنی نارملائزیشن کا نعرہ بلند کر رکھا ہے اور اسی عادی سازی کے عنوان سے اسرائیل کے وفود جہاں عرب دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ عرب خلیجی ممالک کے وفود بھی فلسطین و قبلہ اول پر قابض صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔

گذشتہ چند ماہ میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کا مسقط کا دورہ اور صہیونی ریاست کی خاتون وزیر کا عرب امارات کا مفصل دورہ اور پھر اسرائیلی اولمپئین ٹیم کا دبئی میں شاندار استقبال سمیت عرب امارات کے گراؤنڈ میں اسرائیلی دھن پر قومی ترانہ چلایا جانا چیدہ چیدہ واقعات ہیں اور پھر حال ہی میں بحرین میں فلسطین کے خلاف منعقد ہونے والی کانفرنس جس کا مقصد فلسطین کا سودا کرنا تھا منعقد کی گئی یہ سب وہ اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ عرب خلیجی دنیا کے حکمران رفتہ رفتہ صہیونیوں کی دوستی قبول کر چکے ہیں۔

ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ عرب دنیا خاص طور سے سعودی عرب، عرب امارات اور بحرین سمیت چند دیگر خلیجی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ظاہری مقاصد کے حصول میں ایران دشمنی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے جبکہ پس پردہ مقاصد میں ان عرب دنیا کے حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ان کی بادشاہتیں قائم و دائم رہیں گی اور جمہوریت کے نعروں سے ان کو دور رکھا جائے گا۔جیسا کہ منامہ کانفرنس میں پیش ہونے والی صدی کی ڈیل میں امریکہ نے عرب بادشاہوں کو پیش کش کی ہے کہ وہ فلسطین کے سودے پر راضی ہونے والے خلیجی ممالک کے بادشاہوں کو آئندہ پچاس سال تک بادشاہت پر براجمان رہنے کی ضمانت دے گا۔

سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ پر نظر رکھنے والے ماہرین کی جانب سے پیش کردی آرا ء کو باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو اس میں کسی قسم کا مغالطہ نظر نہیں آتا ہے اور بحرین اور اسرائیل کے تعلقات کے مابین پس پردہ اور عیاں مقاصد میں درج بالا بیان کردہ دو ہی باتیں نظر آتی ہیں، ایران سے دشمنی جو کہ عرب خلیجی ممالک کے بارے میں پوری دنیا واقف ہے اور دوسری اہم بات عرب حکمرانوں کے تخت وتاج اور بادشاہتوں کا قائم رکھنا یا یوں کہا جائے کہ ذاتی مفادات۔خلاصہ یہ ہے کہ عرب خلیجی دنیا امریکہ اوراسرائیل جیسے شکست خوردہ کھلاڑیوں پر تکیہ کر کے کہیں صدی کی ڈیل کی آڑ می صدی کا سب سے بڑا دھوکہ تو نہیں کھا رہے کیونکہ امریکہ پوری دنیا میں ہر محاز پر ناکامی کا شکار ہے خود امریکی معیشت تیزی سے ڈوب رہی ہے۔

دوسری طرف اسرائیل ہے جو کھی عظیم تر اسرائیل کے خواب دیکھا کرتا تھا آج ان خوابوں کے چکنا چور ہونے کی صدائیں فلسطین سے نکل کر پوری دنیا تک سنی جا رہی ہیں۔آخر ایسے شکست خوردہ مہروں کا سہارا لے کر عرب دنیا کے حکمران کس طرح اپنی بقاء کو یقینی رکھ پائیں گے؟ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عرب دنیا امریکہ اور اسرائیل کا سہارا لینے کے بجائے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کے عنوان سے کوئی کارنامہ سر انجام دے۔کاش بحرین میں ہونے والی کانفرنس اور صدی کی ڈیل اگر مسلم امہ کے اتحاد کے بارے میں ہوتی تو یقینا اس ڈیل اور معاہدے کو صدی کی سب سے بڑی ڈیل اور صدی کی سب سے بڑی حقیقت قرار دیا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکی و صہیونی شیطانی چالوں میں پھنسی عرب خلیجی دنیا صدی کا سب سے بڑا دھوکہ اپنے مقدر میں لکھنے پر فخر محسوس کر رہی ہے۔


تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

پاکیزگی کا سفر

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں  جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب  کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی  شروع سے ہی یہی کوشش  رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔

اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا  را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں  جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں  ہزار ہا  رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔

 حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت  و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے  گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔

حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔

حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔

حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ  مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج  کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء  ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای اس عظیم عبادت اور حجاج کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:(قال الله تعالی: وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَج یا ْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاتِينَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشہَدُوا مَنَافِعَ لہُمْ وَيَذکُرُوا اسْمَ اللہ ِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَات} آسمانی آواز بدستور دلوں کو بلا رہی ہے اور صدیاں اور زمانے بیت جانے کے بعد بھی انسانیت کو توحید کے محور پر جمع ہو جانے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ دعوت ابراہیمی تمام انسانوں کے لئے ہے اور اس اعزاز سے سب کو نوازا گیا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ سماعتیں اسے نہ سنیں اور غفلت و جہالت کی گرد تلے دبے بعض دل اس سے محروم رہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنے اندر اس دائمی اور عالمی ضیافت کا حصہ بننے کی صلاحیت پیدا نہ کر پائيں یا کسی بھی وجہ سے یہ توفیق انھیں حاصل نہ ہو۔ آپ اس نعمت سے بہرہ مند ہیں اور ضیافت الہی کی پرامن وادی میں آپ وارد ہو چکے ہے۔ عرفات و مشعر و منی، صفا و مروہ و بیت، مسجد الحرام و مسجد نبوی، ان مناسک اور شعائر کی ہر ایک جگہ روحانیت اور روحانی ارتقا کی ایک کڑی ہے اس حاجی کے لئے جو اس توفیق کی قدر و منزلت سے آگاہ ہے اور اس سے اپنی طہارت کے لئے استفادہ کر رہا ہے اور اپنی بقیہ عمر کے لئے زاہ راہ جمع کر رہا ہے۔

ایک اہم نکتہ جو ہر صاحب فکر اور تجسس رکھنے والے انسان کو دعوت فکر دیتا ہے، وہ تمام انسانوں، تمام نسلوں کے لئے ہر سال ایک خاص جگہ اور ایک خاص وقت پر دائمی جائے ملاقات کا تعین ہے۔ وقت اور مقام کی یہ وحدت فریضہ حج کے اصلی رموز میں سے ایک ہے۔ بے شک "لِّيَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ" کا ایک نمایاں مصداق خانہ خدا کے پہلو میں امت اسلامیہ کے افراد کی یہی سالانہ ملاقات ہے۔ یہ اسلامی اتحاد کا راز اور اسلام کی امت سازی کا ایک نمونہ ہے جو بیت اللہ کے زیر سایہ ہونا چاہئے۔ خانہ خدا کا  تعلق سب سے ہے۔ سَوَاءً الْعَاکِفُ فِيہِ وَالْبَادِ ۔
ہمیشہ اور ہر سال اس مقام پر اور ایک خاص وقت پر حج اپنی زبان گویا اور صریحی منطق سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور یہ دشمنان اسلام کی خواہش کے بالکل برعکس ہے جو تمام ادوار میں اور خاص طور پر دور حاضر میں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل محاذ آرا ہونے کی ترغیب دلاتے تھے اور دلا رہے ہیں۔ آج آپ مستکبر اور جرائم  پیشہ امریکہ کا رویہ دیکھئے۔ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اس کی اصلی پالیسی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس کی خباثت آمیز خواہش اور کوشش، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام، ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دینا، ظالم محاذ کی پشت پناہی کرنا، اس کے ہاتھوں مظلوم دھڑے کی بے رحمی سے سرکوبی کرنا اور اس ہولناک فتنے کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھنا ہے۔ مسلمان ہوشیار رہیں اور اس شیطانی پالیسی کو ناکام بنائیں۔ حج اس ہوشیاری کی زمین فراہم کرتا ہے اور یہی حج میں مشرکین اور مستکبرین سے اعلان برائت کا اصلی فلسفہ ہے۔

ذکر خدا حج کی روح ہے۔ اپنے دلوں کو ہم اس باران رحمت سے زندگی اور نشاط بخشیں اور اس پر اعتماد و توکل کو، جو در اصل قوت و شکوہ اور عدل و خوبصورتی کا سرچشمہ ہے، اپنے دلوں میں گہرائی تک اتاریں۔ ایسی صورت میں ہم دشمن کی چالوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ حجاج کرام! آپ شام، عراق، فلسطین، افغانستان، یمن، بحرین، لیبیا، پاکستان، کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں کے مظلوموں اور امت اسلامیہ کو اپنی دعا میں فراموش نہ کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ امریکہ، دیگر مستکبرین اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھ کاٹ دے۔)

آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئےشیطان صفت تکفیری  داعشی گروہ کی مادی  مدد کر کےاورانہیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے  مظلوم مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔یمن کے مظلوم مسلمانوں کو حج جیسے عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ آخر میں تمام حجاج کرام سے التماس ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق جبکہ ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے خصوصی دعا کریں۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل )اسلامی تعلیمات کے مطابق نعمت پر شکر ادا کرنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے، کیونکہ شکر نعمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور پہلے سے عطا شدہ نعمتوں کی بقاء کی ضمانت بھی ہے

اس وقت اللہ تعالی کے فضل لامتناہی سے ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت وجود رکھتی ہے جو بہت سی خوبیوں کا ایک حسین مرقع ہے۔

اگر ان کی علمی زندگی پہ نظر کریں، تو انہوں نے قم المقدسہ سرزمین قیام وانقلاب پر تحصیلات علوم آل محمد کے لئے تقریبا اٹھارہ سال کا عرصہ گزارا اور حوزہ علمیہ کے عظیم علماء وفقہاء سے کسب فیض کیا. صرف بحث خارج جیسے عمیق، مفید اور انتہائی اہم درس میں تقریبا دس سال مسلسل شرکت کی، اور جن مجتہدین سے کسب فیض کیا، وہ اپنے زمانے کے بہترین استاد شمار ہوتے ہیں، جن میں آية الله العظمى المرحوم مرزا الشيخ جواد تبريزي قدس سرہ ، آية الله الشيخ وحيد خراساني، آیۃ اللہ العظمی الشیخ مکارم شیرازی  اور العلامة استاذ الشیخ اعتمادی (جو درس وتدریس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) شامل ہیں۔

جبکہ عرفان وتفسیر جیسے عظیم علوم میں، آیة اللہ العظمی الشیخ جوادی آملی و آیۃ اللہ العظمی حسن زادہ آملی سے فیض حاصل کیا جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔

عربی ادب جو دینی تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس علم کو اپنے زمانے کے بہترین استاد علامہ الشیخ مدرس افغانی سے حاصل کیا، اور بلا شبہ مدرس افغانی صاحب، عربی ادب میں ید بیضا کے مالک تھے

اور جب تک قم میں رہے، ہمیشہ درس وتدریس میں مشغول رہے، اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ علمیہ قم کے ایک نمایاں محصل واستاذ اور مدیر حوزہ تھے.

بلاشبہ اگر اجتماعی ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان نہ آتے، تو آج درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے

۔جہاں تک محور مقاومت سے وابستگی کا تعلق ہے، تو یہ وابستگی پچھلے 35 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، یہ اس زمانے میں قم رہے، کہ جب محور مقاومت کے اعلی سطح کے رہنما وہیں قم میں موجود تھے، اور ان سے ہمیشہ رابطہ میں رہے، سید حسن نصر اللہ اور شہید محراب آیۃ اللہ السید باقر الحکیم ان رہنماؤں میں سرفہرست ہیں، یہ نعمت ان کے علاوہ شاید بہت کم پاکستانی علماء کو میسر ہوئی ہے۔امام خمینی ، فرزند امام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینى اور رھبر معظم انقلاب اور ان کے خط سے وابستگی انقلاب کی ابتداء سے رہی اور آج تک قائم ودائم ہے۔قائد شہید کے زمانے میں تحریک کے ایک فعال اور نہ تھکنے والی شخصیت کے طور پر سامنے آئےاور شہید مظلوم بھی ان سے کافی لگاؤ رکھتے تھےاور انکی قیادت کے زمانے میں تحریک قم کے روح رواں تھے۔

معاشرے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا امام علی (علیہ السلام) کے ان ارمانوں میں سے ہے، جن کی خاطر آپ کوفہ کے ویرانوں میں روتے رہے، اس مقدس فریضے کے انجام دینے کے لئے ان کی خدمات کسی سے چھپی نہیں۔ان کے تربیت یافتہ طلبہ اس وقت حوزہ قم، نجف اشرف اور دمشق (راقم الحروف کے علاوہ) کے بہترین طلبہ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے کئی ایک اسلامک یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں، یہ طلبہ اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ جو کہ ایک دینی طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے

عزاداری جو کہ ہمارے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے وہ خود ایک بہت بڑے عزادار اور مجالس عزاء کے بانی ہیں. اس کے علاوہ اس کے معیار کو بلند کرنا، اسے صحیح جہت دینا، اس سلسلے میں ان کی کوششیں قابل قدر ہیں، باقی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اچھے، پڑھے لکھے اور درد رکھنے والے خطباء تیار کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی ہمیشہ صف اول میں نظر آئے

ذاکرین امام حسین (علیہ السلام) کی تاثیر معاشرے پر کسی سے چھپی ہوئی نہیں، ان سے رابطہ رکھنا، انہیں صحیح جہت دینا، انہیں قریب کرکے ان کی بعض غلطیوں کی انتہائی اچھے انداز سے اصلاح کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی، اور پڑھے لکھے نئے ذاکروں کی تربیت (جو ذاکری کو ہدایت خلق کا وسیلہ سمجھتے ہیں) بھی کر رہے ہیں۔

جس زمانے میں اجتماعی وسیاسی امور کی قیادت سنبھالی وہ ایک پر آشوب اور تشیع پاکستان کے لئے ایک کٹھن دور تھا. سب ذمہ دار افراد جانتے ہیں کہ وہ زمانہ اندورنی اور بیرونی دونوں حوالوں سے انتہائی مشکل اور حساس زمانہ تھا، مشکلات کے پہاڑ اور انہیں حل کرنے کے لئے ایک ایسے رستے سے گزرنا جہاں سوائے خاردار جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ ہولیکن جہاں صرف بھروسہ اللہ پہ ہو، اور عزم و ارادے کی پختگی انتہاء پہ ہو، اخلاص اور بصیرت وفہم و فراست کی بیساکھی ہاتھ میں لئے، انہوں نے قوم کی بکھری ہوئی طاقت کو اندرون ملک کے ساتھ ساتھ  بیرون ملک بھی تسبیح کے دانوں کی طرح پھر سے یکجا کرکے، بہت سارے قومی مسائل حل کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجے میں  ہم ایک دفعہ پھر ایک سیاسی اور اجتماعی قوت کے طور پر سامنے آئیں، اور جیسے پہلے آپ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا، اب نہیں کیا جاتا

اس زمانے میں انہوں نے قوم کی آواز کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کی جہاں ایک طرف بیرونی مخالفین کی جانب سے سخت دباو اور مشکلات کا سامنا تھا، تو دوسری جانب اندورنی طور پر انتخابات اور دیگر مسائل کو کچھ اس طرح سے پیچیدہ کرکے پیش کیا گیا کہ اس میں شرکت گویا دین خدا کے خلاف اعلان جنگ کی مانند ہے، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود، سب طعن وتشنیع کے باوجود انہوں نے بھر پور انداز میں، انتخابات میں شرکت کی، اور حالیہ حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کے بعد جو کہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا آپکی جماعت ایک پر امن، سنجیدہ، قومی مسائل پر حل اور مشورہ دینے والی اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی

بعض دفعہ مذہبی جماعتیں یا مذہبی رہنما اپنے مذہبی ہونے اور وطن سے محبت کرنے میں توازن نہیں پیدا کر پاتے، لیکن یہ ان کی فہم وفراست اور حکمت و دانشمندی کی وجہ ہے کہ خود بھی وطن سے محبت کرنے والوں میں سرفہرست رہے، اور وطن کی ترقی کو بھی ہمیشہ اولین ترجیح سمجھا۔

اتحاد بین المسلمین جہاں ہمارا انسانی، اخلاقی، دینی اور مذہبی فریضہ ہے وہاں یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس سلسلے میں ان کی کوششیں آپ سب کے سامنے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جماعت کے ساتھ دھرنوں میں شرکت ہو، یا دوسرے اہل سنت رہنماؤں اور پارٹیوں کے ساتھ انتہائی اچھے انداز سے تعلق قائم رکھنا ہو۔

بین الاقوامی سطح پر ان کی وابستگی اور تعلق ایسے افراد یا جماعتوں سے ہے جو اس وقت نہ صرف عالمی استکبار اور ظلم و ستم کے علمبرداروں سے نبرد آزما ہیں بلکہ ہمارے مملکت خداد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی بھی ہیں۔(طوالت کے لئے معذرت چاھتا ھوں لیکن یقین رکھیں  اس وقت ہمارے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک انتہائی مخلص شخصیت موجود ہیں، جو علم وعمل کے ساتھ ساتھ، عالمی حالات سے نہ صرف باخبر بلکہ گہری نظر رکھنے والے ایک مضبوط سیاسی بصیرت کے حامل وطن سے محبت کرنے والے اپنی قوم کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں،میں اپنے مربی واستاد اور ایک شفیق روحانی باپ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی بات کر رہا ہوں، اللہ ان کی توفیقات خیر میں اضافہ کرے اور انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ طولانی عمر عطا کرے۔)


محمد اشفاق۔23/7/2019۔

Page 9 of 70

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree