عزت چاہیئے یا ذلت؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، کسی کو دشمنوں کے جنگی طیارے گرا کر عزت ملتی ہے اور کسی کو اپنوں پر ٹینک چڑھا کر تمغے ملتے ہیں۔ ہر تمغہ عزت کا باعث نہیں بنتا، کبھی کبھی ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ آیئے! آج دو بھولی بسری کہانیاں سنیں۔ ایک عزت کی کہانی ہے، دوسری ذلت کی کہانی ہے۔ پہلی کہانی فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم کی ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے اس بہادر شاہین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور بہادری سے نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ 1965ء میں وہ پی اے ایف بیس سرگودھا میں تعینات تھے۔ بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھارتی ایئر فورس کا جنگی طیارہ مار گرانے پر انہیں ستارۂ جرأت ملا۔ اگلے ہی سال انہیں اردن بھیج دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن پر حملہ کیا تو سیف الاعظم نے دو اسرائیلی جہاز تباہ کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں عراق بھیج دیا گیا اور وہاں بھی انہوں نے دو اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اردن کے حکمران شاہ حسین نے سیف الاعظم کو فوجی اعزازات تو دیئے، لیکن وہ سیف الاعظم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر عمان کی سڑکوں پر گھومنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

سیف الاعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وہ بنگلہ دیش ایئر فورس کا حصہ بن گئے اور 1979ء میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسری کہانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی ہے۔ وہ 1970ء میں پاکستان کی طرف سے اردن بھیجے گئے۔ ستمبر 1970ء میں شاہ حسین نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اردن سے نکالنے کیلئے ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں ٹینک بھی استعمال ہوئے۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی۔ اس آپریشن کے دوران پی ایل او اور اردن کی فوج میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مہاجرین بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کی کامیابی پر شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو بھی ایک تمغہ دیا، لیکن یہ تمغہ ضیاء الحق کیلئے کبھی عزت کا باعث نہ بن سکا۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کے آپریشن پر احمد ندیم قاسمی نے ’’اردن‘‘ کے نام سے اپنی نظم کو ان الفاظ پر ختم کیا؎
جو ہاتھ ہم پہ اٹھے
ہمارے ہی ہاتھ تھے
مگر ان میں کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس سے پوچھیں؟
چلو، چلیں آئینوں سے پوچھیں
آئینوں سے کیا پوچھتے؟

یہی بریگیڈیئر ضیاء الحق 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے کہا کہ افسوس اردن میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھانے والا پاکستان کا حکمران بن گیا۔ ضیاء الحق نے فلسطینیوں کیساتھ جو کیا، اسے پاکستانی قوم بھول چکی ہے، لیکن فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پی اے ایف کے ایک اور بہادر شاہین عبدالستار علوی نے شامی ایئر فورس کے مگ 21 کے ذریعے اسرائیلی طیارہ مار گرایا اور پاکستان کیلئے عزت کمائی۔ مجھے لبنان اسرائیل جنگ کے دوران لبنان اور شام میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں مجھے مصر کے راستے غزہ جانے کا اتفاق بھی ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں سے ننھے فلسطینی سنگ بازوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے فائر سے خون میں نہاتے دیکھا۔ بیروت سے غزہ تک اور دمشق سے قاہرہ تک، میں جہاں بھی گیا عربوں کو پاکستان کے پائلٹ یاد تھے۔ وہ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی تحسین کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ جنرل ضیاء الحق کی مذمت کرنا نہیں بھولتے تھے۔

یہ مت دیکھئے کہ عرب ممالک کے حکمران پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ عرب ممالک کے عوام پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کیخلاف اتحاد ختم ہو جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کیساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ کیا اس مشورے کے پیچھے پاکستان کا مفاد ہے یا کسی اور کا مفاد ہے؟ 2018ء میں امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کی نئی کتاب Fear یعنی ’’خوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق، شام، لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی داہام الانازی نے عربی اخبار ’’الخلیج‘‘ میں ’’ریاض میں اسرائیلی سفارتخانہ کیلئے ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہیئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے، کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عرب میڈیا میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں یا نہیں؟ سعودی حکومت اس معاملے پر فی الحال خاموش ہے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ مسلم ممالک کی بڑی اکثریت نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کئے۔

ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، الجزائر، صومالیہ، سوڈان، شام، ایران، یمن، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، تیونس اور دیگر ممالک شامل ہیں، لہٰذا پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کر لو، تاکہ باقی مسلم ممالک کو بھی یہ مشکل کام کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے اسرائیل اور بھارت کا پاکستان دشمن اتحاد ختم ہو جائیگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے ایک نئے اتحاد میں شامل کرنے کی تیاری ہے۔ کیا پاکستان کا یہ اقدام ہمارے آئین کی دفعہ 40 کی خلاف ورزی نہیں ہوگا، جو پاکستانی ریاست کو اسلامی اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کا پابند بناتی ہے؟ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے یا کرائے کا گوریلا بننا ہے۔؟

کوئی مانے یا نہ مانے، آج پاکستان کو اسرائیل کی نہیں، اسرائیل کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے یورپ میں حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 28 یورپی ممالک میں سے 9 یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسپین، فرانس اور آئرلینڈ بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کو نہیں مانتی۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے، کیونکہ دنیا پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر حریمی کاربن کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل جیوش اینٹی زیاونسٹ نیٹ ورک (آئی جے اے این) کے نام سے یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے اور اسرائیلی ریاست کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔

اس تنظیم کی بانی برطانوی مصنفہ سیلما جیمز خود یہودی ہیں۔ آج اسرائیل کیلئے سیلما جیمز اور نوم چومسکی جیسے دانشور دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز کی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھائیں، اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فائدہ کسے ہوگا؟ پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ مسئلۂ فلسطین کا حل مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہیں کھولے گا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے دبائو یا چند ارب ڈالر کے عوض مشرقِ وسطیٰ میں وہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے، جو 1970ء میں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے اردن میں کی تھی۔


تحریر: حامد میر
"بشکریہ روزنامہ جنگ"

وحدت نیوز (آرٹیکل) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حالیہ دنوں ابو ظہبی میں او آئی سی کی وزرائے کارجہ کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے لئے ان کو خصوصی دعوت ابو ظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر ممبر ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچی جس کے جواب میں پاکستان فضائیہ نے بھی ایک کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا جسے دو روز بعد امن مقاصد کے خاطر واپس بھارت کو دے دیا گیا۔ان تمام باتوں سے ایک طرف کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ایسے ایام میں کہ ایک طرف پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اور اس حد تک کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناًپہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں،۔

دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے ؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جد وجہد کو صرف نظر کرے؟ بہر حال اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کر لی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کیجا رہی ہے ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں ۔سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے کافی اہمیت دی گئی،سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہئیے کسی کو حق نہیں کوئی کسی پر زور زبردستی کرے، لیکن سشما جی یہاں پر یہ بتانا بھول گئی تھیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیر اعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بھی ہیں تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آ کر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کو خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ شیخ عبد اللہ بن زید کو سشما سوراج کو اس کانفرنس میں خطاب کی دعوت دینے کے لئے زبردست شکریہ کے کلمات ادا کئے اور ان کو اپنا بہتری دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں ۔

انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت وشرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نقاط پر بھی زور دار گفتگو کی۔بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے تاہم یہاں پر ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کشمیر میں کوئی مظلوم بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیں ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لا پتہ کر رکھا ہے؟ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے ؟کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں ان کو معافی دے دی جائے گی ؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تونہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کر لی جائے ؟بہر حال سشما جی کو سوچنا چاہئیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تا کہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔انہوں نے خلیج ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو، سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں موجود ایسے عرب حکمران موجود تھے کہ جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن شاید یہ حکمران اس لئے بھی برداشت کر گئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔

سشما سورا ج نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اظہار خیا ل کیا اور کہا کہ اس وقت خطر ناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے ۔یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ساتھ دیں ۔انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں،سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے،سنسکریت مذہبی کتاب ،سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں ، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے کیان ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں ہے۔جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت انہی رکن ممالک کی ہے ، اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کے لئے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے ۔جہاں قطر ، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کرے۔

 

 

 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز (آرٹیکل)عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکہ و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکے ہیں۔سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہے اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کے لئے کامیابی کی کنجی ہے۔اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیہ کے مطابق عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔

فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اْن پر دباؤ بڑھانے کے لیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیاہے۔انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔‘دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہو گیا ہے۔اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک" خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔

بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح موقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر سراہا تھا۔اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اس تمام تر صورتحال پر اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو چکا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کر کے آنے والا طیارہ کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اورا سرائیل کے لئے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کیلئے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظیاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکہ کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں تاہم اس مریدی میں یقیناًپاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہو گا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔بہر حال خلاصہ یہی ہے کہ حالیہ دور میں فلسطینی اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ مثالی ہے جبکہ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ قربتیں پیدا کر کے جس طرح سے نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جا رہاہے اور اس صورتحال سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم دنیا اور عالم انسانیت کا خطر ناک دشمن صہیونی جعلی ریاست اسرائیل ہے جو عنقریب ان عرب قرابت داروں کو بھی اپنے شکنجہ میں دبوچ ڈالے گی اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔مقالہ کے اختتام پر سابق پاکستانی جنرل غلام مصطفی کی بات کو دہراتا ہوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان تل ابیب میں بیٹھ کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی چوکیداری بھی کر لے تب بھی یہ اسرائیلی پاکستان کو نہیں چھوڑے گا اور موقع ملتے ہی پاکستان کے خلاف اپنا ہر قسم کا وار کرے گا۔ اب پاکستان سمیت تمام عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہئیے کہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئیے۔ختم شد

تحریر: صابر ابو مریم   
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر
، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کا ناسور اس خطہ ء ارضی سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،بس تھوڑا وقفہ ہوتا ہے اور پھر کوئی بڑی واردات سب کو ہلا بلکہ جگا دیتی ہے،پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کو اضلاع میں بدل دیا گیاہے مگر ابھی تک اس پہ بہت کام ہونا باقی ہے ابھی تو ابتدائی مراحل ہیں،اسی لیئے ہم ان کو ایجنسی کے طور پہ ہی لے رہے ہیں،اورک زئی ایجنسی جو ضلع کوہاٹ اور ہنگو سے منسلک ہے اس میں میں اہل تشیع کے ایک مدرسہ و مرکز کے ساتھ جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھر یہ بتلا دیا کہ دہشت گردی کا جن ابھی تک بوتل سے باہر ہے اور جو دعوے کیئے جاتے ہیں وہ بس اخباری و کاغذی کاروائی سمجھی جائے،اورک زئی ایجنسی واحد قبائیلی ایریا ہے جس کی سرحد افغانستان سے نہیںملتی،عمومی طور پہ ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی قبائلی ایریامیںہونے والے بم دھماکوں سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد ہمسایہ ملک یعنی افغانستان سے حملہ آوار ہوئے ،یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ،یہاں کسی بھی طرف سے سرحد افغانستان سے نہیں ملتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ایجنسی میں بھی دوسری ایجنسیز کی طرح اس مائنڈ سیٹ کی حمایت اور سہولت کاری موجود ہے جو پاکستان بھر میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے،ہماری مراد طالبان ہیں جو کسی بھی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں کبھی طالبان تحریک کے نام سے تو کبھی کسی اور گروہ کے نام سے ،حقیقت میں ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے اور وہ ہے بے گناہوں کا قتل عام اور اس ملک کے در و دیوار کو ہلا کے رکھ دینا،اس کے اداروںکو کمزور ثابت کرنا اور ریاست پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پہ سامنے لانا تاکہ دنیا اس ایٹمی ملک کو پریشرائز کر سکے کہ وہ ایک کمزور اور غیر ذمہ دار ریاست ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کاہونا دنیا کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ۔

اورک زئی ایجنسی کے علاقے کلایہ کے جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 35کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں دو ہندو بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی پچاس کے لگ بھگ ہے جن میںکچھ کی حالت نازک بھی ہے ،یاد رہے کہ کلایہ کی اس جگہ جہاں بم دھماکہ ہوا ہے ایک مدرسہ انوار اہلبیت ؑ ہے جہاں جمعہ کا اجتماع ہوتا ہے اور جمعہ کے بعد بڑی تعداد میںلوگ خریداری کرتے ہیں،یہ بازار اور مدرسہ کافی قدیم ہیں،راقم الحروف کو پہلی بار یہاں 1988ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور ہم ایک ماہ تک ادھر ایک دینی تربیتی ورکشاپ کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے اس وقت صرف مدرسہ ہوتا تھا اور بعد ازاں تو مدرسہ سے منسلک اسکول بھی بنایا گیا،یہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے ،اور یہیں سے علامہ عارف الحسینی کے بزرگوں نے ہجرت کی اور کرم ایجنسی میں جا کے آباد ہوئے ،اب بھی یہاں ان کا خاندان نمایا ںمقام و احترام رکھتا ہے ،جبکہ اورک زئی کے اسی علاقے میں علامہ عارف الحسینی کے بڑے بزرگ معروف عرفانی و ادبی شخصیت میاں انورشاہ کا بھی مزار ہے جو اہلسنت کی آبادی والی طرف ہے ،شائد اس وقت اس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔اورک زئی ایجنسی میں اس سے قبل بھی شدت پسند عناصر کی طرف سے مختلف حملے کیئے جاتے رہے ہیں اور دیگر ایریاز کی طرح یہاں پر بھی طالبان نے اپنے قبضہ کی پوری کوشش کی ہے یہاں سے سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو اغوا اور بے دخل کیا گیا جو یہاں کے قدیمی رہائشی تھے،اسی طرح اہل تشیع پر بھی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اہل تشیع کی گاڑیوں کو روڈ سائیڈ بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔جبکہ انہی عناصر نے کوہاٹ اور ہنگو میں بھی دہشت گردی کے ذریعے اہل تشیع کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ،مگر یہاں کے غیرت مند قبائل نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ان کے ارادوں میں ناکامی سے دوچار کیا۔

جس دن اورک زئی ایجنسی میں نمازیوں اور غریب قبائلیوں کو نشانہ بنایا گیا اسی دن کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی ایک دہشت گردانہ حملہ کیا گیا،فائرنگ اور بم دھماکوں میں دو پولیس اہلکار،دو کوئٹہ سے آئے باپ بیٹا اور تین مسلح دہشت گرد مارے گئے،یہ حملہ اس حوالے سے ہولناک اور خطرناک رہا کہ پہلی بار بلوچ علیحدگی پسندوں نے فدائی سٹائل میں کاروائی کی ،اور دہشت گردوں کی باقاعدہ فلم بنا کر نشر کی بالکل داعش اور طالبان حملہ آوروں کی طرح انہیں تیار کیا گیا اور ان کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی جاری کی گئی،کسی کو شک نہیں ۃونا چاہیئے کہ اس حملے کے مقاصد کیا تھے اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہو سکتی ہیں، بلوچ علیحدگی پسند بھارت اور مغربی ممالک میں کھلے عام پھرتے ہیں ،کچھ افغانستان میں بھی پناہ لیئے ہوئے ہیں ان کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا اور سی پیک جس سے پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کو نقصان پہنچانا ہے،بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی این ڈی ایس اس وقت پاکستان کے خلاف مشترکہ منصوبوں پہ کام کر رہی ہیں ،یہ کاروائی بھی دراصل انہی کی کارستانی ہے جو کسی بھی صورت میں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔

کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں دہشت گردی اسلحہ و منشیات کی ریل پیل دراصل اٖفغان پناہ گزینوں کی دین ہیں جن کی بدولت پاکستان گذشتہ چالیس برس سے عذاب بھگت رہا ہے،پاکستان نے روسی حملے کے بعد اسی کی دہائی کے شروع میں افغانوں کو برادر ہمسایہ مسلم ملک کے مہاجرین کے طور پہ قبول کیا چالیس لاکھ افغان پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور آج تک ہمارے حکمران انہیں اپنے ملک اور وطن بھیجنے میں ناکام نظر آتے ہیں ان افغانوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر کاروبارا ور شادیاں کر رکھی ہیں اور اب ان کی اگلی نسلیں یہاں کی شہریت کی حامل ہو چکی ہیں،ان کو واپس بھیجنا تقریبا ناممکن ہو چکاہے ،کے پی کے اور بلوچستان کے پختون قبائل کو ان کے ووٹس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے لہذا وہ کسی بھی طور ان کو واپس بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں ان کا تعلق دینی جماعتوں سے ہو یا قوم پرستوں سے  اس مسئلہ میںسب کی ایک ہی بات ہے اس مسئلہ میں سب یک جان ہیں،لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ان افغانوں سے جان چھڑوانے کا مطالبہ اب زور پکڑ چکا ہے،پاکستان کے گوش و کنار میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ بھی انہی عناصر کا ہاتھ ہے ہمارے خفیہ اداروں نے کتنے ہی کیسز میں ان کی نشاندہی کی ہے اور دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ملا ہے،چاہے وہ آرمی پبلک سکول پشاور کی دلخراش داستان ہو یا پاکستان کے خلاف برسر پیکار نام نہاد کمانڈرز اور طالبان قیادت کے قیام و طعام کا بندوبست ہو،سب ہی افغانستان میں بیٹھ کے پاکستان پہ حملہ آوار رہے،اس وقت بھی عالمی طاقتیں پاکستان اور اس خطے کو سبوتاژ کرنے کیلئے داعش کی سرپرستی کر رہی ہیں،داعش کو افغانستان میں لا کے بٹھایا اور بنایا گیا ہے اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ان کے کیمپ قائم کیئے گئے ہیں ،اورک زئی ایجنسی میں ہونے والے حملے کو بھی داعش کے نام سے قبول کیا گیا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروائی عالمی ایجنڈے کا حصہ تھی،وہ قوتیں جو داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں انہی کی طرف سے کلایہ بم دھماکہ( جسے خود کش کہا جا رہا ہے )کیا گیا ہے اور کراچی میں ہونے والی چینی قونصلیٹ کی دہشت گردی سے بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلح بلوچ علیحدگی پسند اور نام نہاد مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گرد اپنے اصل آقا کی چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں،ہمارے سیکیورٹی اداروں اورحکمرانوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے پس پردہ در اصل ایک ہی دشمن ہے جو کہیں بلوچوں کو استعمال کر رہا ہے تو کہیں اسلام کے نام پر بد ترین دھبہ سفاک دہشت گردوں کو ،انکا نام بی ایل اے ہو یا داعش،لشکر جھنگوی ہو یا طالبان سب ایک ہی تھالی کے کچے چھٹے ہیں ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے اور ملک کو ان کے شر سے بچایا جائے،ہمارا پیارا ملک اور اس کے باسی ایک عرصہ سے امن،شانتی،سکون اور شادمانیوں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں،ان بجھے چہروں پر خوشی و مسرت کی علامات نظر آنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں،اب اس پاک دھرتی سے شر اور فساد کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے اس کیلئے ردالفساد کے نام سے میدان سجایا جائے یا ضرب عضب کے نام سے،دہشت گردی کا خاتمہ ہمارے اداروں اور حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے ورنہ ہم اسیطرح مارے جاتے رہینگے۔

 تحریر: ارشادحسین ناصر
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) اسرائیل جو کہ ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے اور اس کا وجود چونکہ صہیونیوں نیبوڑھے استعمار برطانیہ کی مدد سے عالم اسلام کے قلب فلسطین پرغاصبانہ طور پر سنہ1948ء میں قائم کیا تھاتاہم ستر برس کے اس غاصبانہ قبضہ اور تسلط کے نتیجہ میں آج بھی صہیونیوں کے اندر خوف اور شکست کا خطرہ پہلے کی نسبت زیادہ پایا جا تا ہے اور اس بات کا ثبوت صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ اور فلسطین کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پیداوار سمیت ان کی مدد کرنا جیسے معاملات ہیں۔جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

دوسری طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ ہے کہ جس کا ہر حکمران اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کو اپنے ایمان اور امریکی دستور کا کلیدی حصہ سمجھ کر صہیونیوں کے تمام جرائم کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان جرائم کی انجام دہی کے لئے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی امداد کے نام پر دیا جاتا ہے جبکہ فلسطینی قوم جو کہ نہتے اور پا برہنہ ہیں ہر طرح سے ان تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ اپنے وطن اور سرزمین سے کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا پہلا ہدف یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر ڈالے۔اس کام کو انجام دینے کے لئے ماضی میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبری طور پر ہجرت کروائی گئی تھی اور یوم نکبہ کو سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی وطن سے آوارہ کر کے نکال دئیے گئے تھے جو پڑوسی ممالک بشمول لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں جا کر آباد ہوئے اور آج ان کی تیسی نسل وہاں پر جوان ہو رہی ہے۔اسرائیل گذشتہ ستر برس سے یہی کوشش کر رہاہے کہ ظلم وجبر اور استبداد کے ذریعہ ملت فلسطین کو اپنے ہی وطن اور گھر سے بے گھر کر دے اور پورے فلسطین پر قابض ہو کر اسے ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ بنا لے۔

امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم سمیت تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود بھی فلسطینی قوم بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم بزرگوں اور ہر طبقہ فکر کے فلسطینی باشندوں کے دلوں سے ان کے وطن کے محبت اور لگن کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم اب امریکی شیطان اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے حالیہ دور میں نیا ہتھکنڈا جو اپنایا ہے اس میں خطے میں موجود عرب حکمرانوں اور ریاستوں کو اسرائیل کا دوست بنانے کا کام کیا جا رہاہے تا کہ ان عرب بادشاہوں کی مدد سے فلسطینیوں کی باقی ماندہ زمین اور علاقوں پر شب خون مارا جا سکے۔عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں کہ جو پہلے خفیہ تھے لیکن اب کافی حد تک اعلانیہ بھی ہو چکے ہیں ۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پر قائم ہوا ہے کہ جس کے باشندے اپنی زمین کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہیں اور ستر سالوں سے اسرائیل کے مقابلہ پر کھڑے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ایسی صورتحال کے تسلسل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا ہے ۔لیکن گزشتہ چند ایک سالوں میں اور بالخصوص گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سے عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اب صہیونیوں کا خیال ہے کہ کچھ خطرات کم ہو رہے ہیں لیکن اس کے برعکس فلسطینی مسلسل اپنی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جد وجہد نہ تو کسی عرب ملک کے حاکم کے کہنے پر شروع ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عرب ملک کے بادشاہ کے کہنے پر ختم کی جا سکتی ہے۔

فلسطین کے عوام اپنے حقوق کی بقاء اور اپنے دفاع کی جنگ اپنے حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں کافی اہم رہی ہیں، اور اس بات کی دلیل ہیں کہ سنہ1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا اب شاید اس تصور نے منحرف ہو رہے ہیں۔اسرائیلی تجزیہ نگار دورے گولڈ کے مطابق عرب اسرائیل تعلقات کی اہم پیشرفت میں گزشتہ چند ماہ میں عمان اورعرب امارات میں ہونے والے واقعات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے مطابق اسرائیلی اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئی اور گہرء پیشرفت وجود میں آ چکی ہے۔اکتوبر2018ء کے آخری دنوں میں صہیونیوں کے وزیرا عظم نیتن یاہو نے اچانک ہی عمان کا دورہ کیا اور اس دورے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی ’بات چیت بہت اچھی‘ رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم کی درج بالا بات بالکل درست ثابت ہوئی۔کیونکہ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں خوش خبری سنائی تو اس موقع پر کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں موجود تھیں جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔

ان مقابلوں میں اسرائیل کی ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا تو اس موقع پر عرب امارات کے دارلحکومت میں اسرائیلی ترانہ کی دھن بھی بجائی گئی یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔اس موقع پر صہیونی جعلی ریاست کی وزیر کھیل و ثقافت قومی ترانہ کی دھن سن کر آب دیدہ ہو گئیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کو بھی حتمی شکل دے چکا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔جاری ہے۔۔۔


تحریر: صابر ابو مریم
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز (آرٹیکل)  بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹیکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹیکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پرٹیکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟…

ابھی تک جو کچھ بھی کہا گیا ہے محض باتوں کی حد تک ہے اور پتہ نہیں ہے کہ شام سے کتنے فوجی نکل رہے ہیں چونکہ ابھی تک ٹرمپ انتطامیہ کے پاس اسکا جواب نہیں ہے کہ وہ نکل تو رہیں ہیں لیکن ایران کے بڑھتے اثر کا کیا کریں گے اسی لئے فیصلہ کے بعض مخالفین اسے ایران کے بڑھتے اثرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں [۱] یہی وجہ ہے کہ فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن ابھی اسکے عملی ہونے کے لئے ہنوز دہلی دور است اور فی الحال امریکہ کی جانب سے بی بی سی کے مطابق اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ” روس، ایران، شام دولتِ اسلامیہ کے مقامی دشمن ہیں۔ ہم وہاں ان کا کام کر رہے تھے اور اب گھر واپسی کا وقت ہے، البتہ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں جبکہ امریکی محکمۂ دفاع کا کہنا ہے کہ ’مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔‘ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں ہیں ۔[۲]

گزشتہ بیان کئے گئے تمام ہی نکات وہ ہیں جنکی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بڑا محاذ جنگ تشکیل پا رہا ہے اور اس محاذ کی تشکیل کو امریکی انتظامیہ کے بین السطور میں پڑھا جا سکتا ہے جہاں ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ” میں دنیا میں طاقت ور ترین فوج کی تعمیر میں جٹا ہوں جبکہ داعش نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔[۳] شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ فوجی نقل و حرکت کو شام میں چھپی ہوئی جنگ hidden war in Syria” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے [۴] چونکہ صرف شام ہی کی بات نہیں ہے افغانستان سے بھی فوج کی واپسی کی باتیں ہو رہی ہیں [۵] جبکہ دوسری طرف عراق سے فوجیں بلانے کو یکسر مسترد کیا جا رہا ہے سب کچھ اپنے آپ میں اپنی نوعیت کے اعتبارے ایسا کہ کسی بھی صاحب فکر کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔

ایران کی ایک نیوز ایجنسی [۶]نے امریکی انخلاء کے پیش نظر کچھ خدشات بیان کئے ہیں جو گزشتہ و حال کی پیش نظر تحریر کو اگر سامنے رکھا جائے تو کافی حد تصویر کو واضح کر سکنے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ ایرانی تجزیہ نگار لکھتے ہیں :

“گزشتہ چند مہینوں میں ایسے متعدد امریکی اقدامات سامنے آئے ہیں جنکے پیش نظر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعا امریکہ شام سے نکل رہا ہے کیوں کہ ایسی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ امریکہ ۴۰ ہزار مقامی فورسز کی ٹریننگ کر رہا ہے اور بھاری اسلحوں کی کھیپ انکے حوالے کی گئی ہے ، دوسری طرف وہائٹ ہاووس نے گزشتہ چند دنوں قبل یہ کہا تھا کہ جب تک ایرانی فورسز شام میں ہیں، امریکا کی فورسز بھی رہیں گی، ان تمام باتوں کے پیش نظر کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے، اگر ہم امریکیوں کے شام سے نکلنے کی بات کو مان بھی لیں تو چند سوالات پھر بھی قائم ہوتے ہیں جن میں اہم سوال یہ ہے کہ امریکی بالکل آسانی سے کیوں کر اس بات کے لئے تیار ہو گئے کہ ہم شام سے باہر نکل رہے ہیں ؟

نمبر ۱ ۔پہلا مفروضہ یہ ہے کہ امریکی فورسز کا یہ انخلاء ممکن ہے جان بولٹن ، ٹرمپ اور مائیک پامییو کی مشترکہ پالیسی ہو اور وہ یہ چاہتے ہوں کہ ایران کے مسئلہ پر فوکس کر سکیں ، اس سناریو کے مطابق واشنگٹن اپنی فورسز کو خلیج فارس کی طرف منتقل کر رہا ہے اور دوسرے مرحلہ میں ممکن ہے ایران کے خلاف قدم اٹھایا جائے ، ممکن ہے یہاں پر یہ سوال اٹھے کہ یہ مفروضہ کس قدر حقیقت سے نزدیک اور قابل قبول ہے ؟

اس سلسلہ سے ہمیں چند اشاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے؛

الف ۔ ایک طر ف امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی توانائی کے جامع معاہدہ سے خارج ہو گیا ہے تو دوسری طرف ایران کے صبر کا پیمانہ بھی اب یورپ کے خالی وعدوں سے لبریز ہو گیا ہے اور یہ احتمال بعید نہیں کہ ایران بھی اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کر دے ۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکا سیدھا سا مطلب ہے کہ ایٹمی توانائی سے متعلق سر گرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی ، یہاں پر ممکن ہے کہ امریکہ اس سرگرمیوں کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کر ے ،لہذا جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ب ۔ دوسرا قابل غور اشارہ امریکیوں کی جانب سے زبردست طریقے سے ایران کے باہر موجود ایرانی حکومت کے مخالف عناصر کی حمایت و پشت پناہی ہے خاص کر رضا پہلوی ، اور واشنگٹن آلٹرنیٹ کی تلاش میں ہے ،انکی کوشش ہے کہ ایک متبادل سامنے رہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔

ج۔ تیسری نشانی امریکہ کا دوبارہ خلیج فارس پر توجہ دینا ہے چنانچہ امریکی بیڑوں کا وہاں جانا اسکی ایک مثال ہے۔

نمبر ۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے انخلاء کا اعلان درحقیقت روس اور ترکی کے ساتھ امریکہ کے مشترکہ سمجھوتے کا نتیجہ ہے، جسکے چلتے کچھ نہ کچھ تو واشنگٹن کے ہاتھ آہی جائے گا اور ممکن ہے اس بارے میں روس سے ڈیل بھی ہو چکی ہو کہ ہم نکل رہے ہیں اب ایران کو بھی نکالا جائے ۔

نمبر ۳ ۔ایک اور فرض یہ ہے کہ امریکیوں کا شام سے نکلنا خاشقجی کے قتل کا خون بہا ہے ، اور امریکہ نے ترکی کے خلاف جمے کردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ روک کر ممکن ہے انہیں یہ بونس دیا ہو کہ تم سکون کی سانس لو اور سعودی شہزادے کو چین سے جینے دو باقی کردوں سے خود نبٹ لو ساتھ ہی ساتھ ممکن ہے کہ امریکیوں کے ذہن میں شام میں موجود ایرانی فورسز کے اوپر حملہ کرنے کی دھن سوار ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہیں اور ایرانی مسلح افواج کے جوا ب سے بچنے کے لئے پہلے ہی اپنی فورسز کو وہاں سے نکال لیں کہ بالمقابل ایران کے ہاتھ بہت زیادہ کھلے نہ رہیں۔

نمبر ۴۔ ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ امریکہ مکمل طور پر شام سے نہ نکلے بلکہ یہ ایک طرف یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ ہم انقرہ کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر پابند ہیں تودوسری طرف بشار اسد کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل کو سجانے کی کوشش کرے ۔

نمبر ۵ ۔ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ شمالی علاقوں میں ترکی کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے اور ایسا شگاف بنایا جا سکے جس میں ایران ، روس اور ترکی کے اتحاد میں سیندھ لگائی جا سکے اسکا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا کہ شام کے بنیادی دستور کے لئے جو کمیٹی بنی ہے وہ اپنا کام نہ کرسکے “۔

یہ سب کے سب مفروضے ہیں جن میں سے کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن جو بات یقین سی کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ میدان جنگ تبدیل ہو رہا ہے اور ہر ایک مفروضے میں ایران جھلک رہا ہے، بعید نہیں کہ مسلسل ہر محاذ پر شکست کے بعد امریکہ میں موجود یہودی لابیوں نے ایک نا ممکن ہدف کو حاصل کر نے کی چاہت ٹرمپ کے ذہن میں ڈال دی ہو اور یہاں بھی صدام کی طرح دن میں تارے دیکھنے کی خواہش جاگ اٹھی ہو اور یوں ایران کو واقعی طور پر گھیرنے کی کوشش تیز ہو گئی ہو بہرحال آہستہ آہستہ وقت سب کچھ بتا دے گا کہ کون کسے گھیرتا ہے، امریکہ اپنی ٹکنالوجی کے بل پر ایران کو زیر کرتا ہے یا ایران اپنی آئیڈیالوجی کے بل پر ہمیشہ کی طرح امریکن ٹکنالوجی کے پرخچے اڑا دیتا ہے، ایسے میں اہم یہ نہیں ہے کہ کل کیا ہوگا اہم یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے دل و دماغ پر ٹکنا لوجی کا غلبہ ہے یا ہم اپنی آئیڈیالوجی کو روز بروز مستحکم کر رہے ہیں ؟

(بقلم:سید نجیب الحسن زیدی)

بشکریہ ابنا نیوز

Page 12 of 70

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree