وحدت نیوز (آرٹیکل) گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے تم سے محبت تو بہت ہے لیکن یاد رکھوں امریکہ کی مدد کے بغیر تم اور تمھارا اقتدار دو ہفتے سے بھی زیادہ نہیں چل پائے گا۔دراصل امریکی صدر نے آل سعود حکمران طبقہ کو خبر دار کیا ہے کہ جس طرح سے آل سعود کی جانب سے امریکہ سے اسلحہ لینے کی مد میں اور امریکہ کو سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں تک رسائی حاصل ہے وہ اسی طرح سے جاریر ہنا چاہئیے بصورت دیگر امریکی صدر نے شاہ سلمان کو زبردست طریقے سے ان کی اصلیت کی پہچان کروا دی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دوراقتدار کے پہلے روز سے ہی دنیا کے امن کو تہس نہس کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے حالانکہ ان سے پہلے والی امریکی حکومتوں نے بھی دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی تھی تاہم امریکی صدر کے چند ایک جارحانہ عزائم اور فیصلہ واضح دلیل ہیں کہ وہ دنیا کے امن و امان کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کر کے دنیا کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔جیسا کہ پہلے انہوں نے میکسیکو کے حوالے سے بیانات دئیے، پھر سیاہ فام امریکیوں کے خلاف عزائم سامنے لائے اور سب سے بڑھ کر امریکی صدر نے فلسطین کے ابدی دارلحکومت ’’القدس‘‘ کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا جسے پوری دنیا نے اقوام متحدہ میں مستردکیا تاہم ٹرمپ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس شہر میں منتقل کر دیاگیا البتہ اب امریکیوں کو وہاں درپیش مشکلات کیا ہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
بہر حال اس مرتبہ امریکہ نے سعودی عرب کو ایک ایسا آئینہ دکھایا ہے جسے شاید دنیاکے بہت سے لوگوں نے نہ دیکھا ہو۔پہلے امریکہ ہی کے کہنے پر سعودی عرب کی حکومت نے یمن میں جنگ مسلط کی اور اس جنگ کو گذشتہ پانچ برس سے جاری رکھنے کے لئے امریکہ کہ ساتھ اسلحہ کے بڑے بڑے معاہدے کئے اور اسلحہ کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں کی اس جنگ میں شمولیت کی بہت بڑی رقم اور معاوضہ کبھی تیل کی صورت میں اور کبھی مال ودولت کی صورت میں ادا کیا۔اسی طرح امریکی صدر یعنی دنیا کے سب سے بڑی شیطان ٹرمپ کو مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر بلا کر مسلمان ممالک کو امریکہ کی غلامی پر مجبور کرنے کا میدان بھی سجایا گیا تھااور اس کے نتیجہ میں پھر نام نہاد اسلامی ملٹری الائنش تشکیل دیا گیا جس کا مقصد سعودی عرب کا نام نہاد دفاع تھا۔

اب امریکہ کاکہنا یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کی مدد کے بغیر دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتا ۔ یہ نہ صرف سعودی حکمرانوں کے لئے دھمکی ہے بلکہ خطر ناک صورتحال ہے کہ ایسے وقت میں جب سعودی عرب نے یمن میں جنگ مسلط کر رکھی ہے تو دوسری طرف خطے میں اور کئی ایک محاذکھول رکھے ہیں تا کہ خطے میں ظاہری بالا دستی سعودی عرب کی ہو لیکن حقیقت میں امریکہ کی۔

سیاسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے سعودی عرب کو ایک دودھ دینے والی گائے کے طور پر رکھا ہوا ہے اور اس سے جتنا دودھ درکار ہے وہ نکال رہاہے تا کہ امریکی مفادات کا ایک طرف خطے میں تحفظ بھی قائم رہے اور مالی مفادات میں بھی اضافہ ہو اور عرب دنیا ہمیشہ امریکہ کی غلام بنی رہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اسلحہ کی فروخت کے بڑے سودے سعودی حکومت کے ساتھ کئے ہیں اور یمن جنگ میں بھی سعودی عربکو پھنسانے والا یہی امریکہ ہی ہے تا کہ امریکی اسلحہ فروخت ہوتا رہے اور خطے میں موجود ذخائر اور وسائل پر امریکی دسترس قائم رہے۔

میری نظر میں امریکی صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی اور بھی بہت سے پیغام دے گئی ہے۔ یعنی اگر گذشتہ چند ایام کی بات کریں سعودی عرب کے اندر اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں سعودی حکومت کے نمک خوار تو ہر طرف بس ایک ہی واویلا کر رہے تھے کہ یمن کے حوثیوں سے مکہ مکرمہ کو خطرہ ہے اور ایسا ہی سوال پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے سعودی عرب کے دورہ کے وقت میڈیا والوں نے کیا تھا جس کا عمران خان مناسب جواب دینے کی بجائے کچھ اور ہی کہتے چلے گئے ۔حالانکہ عمران خان صاحب کو اس وقت اس سوال کے جواب میں پوچھنا چاہئیے تھا کہ مکہ مکرمہ کو خطرہ کس سے ہے؟ حوثیوں نے تو آج تک پانچ سال کے عرصہ میں ایک بھی گولی مکہ مکرمہ کی طرف نہیں چلائی البتہ میدان میں سعودی و امریکی فوجیوں سے نبرد�آزما ضرور ہیں۔ بہر حال اس سوال کا جواب اب امریکی صدر کے بیان کے بعد واضح ہو چکا ہے ۔جیسا کہ پہلے بھی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ امریکی پشت پناہی میں اسرائیل اپنی سرحدوں کو قبلہ اول بیت المقدس سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک لانے کے نقشہ بنا چکا ہے اور اسی فارمولے کے تحت پورے خطے میں کہیں داعش، کہیں القاعدہ، کہیں طالبان، کہیں النصرۃ، کہیں دیگر گروہوں کے ذریعے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم تاحال ناکامی کا سامنا ہے، لیکن اب امریکی صدر کا سعودی عرب کو دھمکانہ واقعا ایک سنگین فعل ہے جس پر مسلم دنیا کی خاموشی و بے حسی بھی سوالیہ نشان ہے۔
یمنی حوثی کہ جنہوں نے آج تک ایک بھی حملہ مکہ مکرمہ پر نہیں کیا ہے ان کے خلاف تو بھرپور واویلا کیاجاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی ایماء پر سعودی جارحیت کے نتیجہ میں یمن میں دسیوں ہزار لوگ موت کی نیند سلا دئیے گئے ہیں، لاکھوں بچوں کی زندگیاں وبائی امراض کے باعث داؤ پر لگی ہوئی ہیں،یمن کے مظلوم عوام کا شدید محاصرہ کیا گیا ہے اور نہ جانے کیا کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
دوسرا اہم پیغام جو امریکی صدر کی دھمکی میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح امریکی صدر نے فلسطین کے بارے میں یکطرفہ اعلان اور فیصلہ کیا تھا اور مسلم دنیا کی بڑی تعداد بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے؟

یہاں ایک مرتبہ پھر میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی کی فکر اور ان کی شخصیت کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی بنیاد ڈالی اور تفرقہ کو مٹا کر امت مسلمہ کو وحدت کی رسی میں پیرونے کا کام انجام دیا۔ ایران ہی ایسا ملک ہے جس نے فلسطین کو صیہونی شکنجہ سے آزادی دلوانے کی خاطر جس طرح امریکہ و اسرائیل سے دشمنی لے رکھی ہے آج جب سعودی عرب کے حکمرانوں کی تذلیل کی گئی ہے اور عرب اقوام کو ٹرمپ نے ذلیل کیا ہے تو ایران نے آگے بڑھ کر امریکہ کو پیش کش کی ہے کہ آئیں مسلم دنیا اور امت کے وقار کے تحفظ کی خاطر مل کر اسلام ومسلمین کے ازلی دشمن شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف متحد ہو جائیں ۔یقیناًیہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی اور اب فیصلہ بالآخر سعودی عرب کی حکومت کو کرنا ہے کہ کیا وہ اس ذلت کے ساتھ امریکہ کی گود میں بیٹھے رہیں گے یا عرب غیرت و حمیت کے مطابق اس ذلت کا انتقام یمن کے مظلوم عوام سے نہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی ناک زمین پر رگڑ کر لیں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے صرف سعودی عرب کے حکمرانوں اور عوام کی ذلت و رسوائی نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ذلت پورے مسلمانوں کی ہے کیونکہ سعودی عرب میں موجود مقدس مقامات آل سعود کی ملکیت نہیں بلکہ مسلم امہ کا اثاثہ ہے۔تاہم مسلمان ممالک کو امریکہ کے خلاف سخت سے سخت انداز میں سامنے نکل کر آنا چاہئیے اور اپنے اختلافات کو بھلا کر اسلام ومسلمین کے سب سے بڑے دشمن شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف متحد ہونا چاہئیے۔

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز (آرٹیکل) طول تاریخ میں ہمیں امریکہ کی سیاست اور حکومت کی ایک ایسی بد ترین مثال نظر آتی ہے کہ جو زبان سے تو انسانیت اور انسانی حقوق کا واویلا کرتی نظرآتی ہے لکن عملی طور پر امریکی سیاست و حکومت دنیا کی اقوام کے لئے نہ صرف ایک بدی اور برائی کے طور پر ثابت ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کی بد ترین دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔امریکی سیاست کا ہمیشہ سے وتیرہ ہی رہا ہے کہ امریکی مفادات یعنی امریکہ کے چند ایک سیاستدان جو کہ بذات خود اب صیہونیوں کے زیر اثر ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے دنیا کے کسی بھی گوش وکنار میں کتنا ہی قتل عام کیوں نہ کرنا ہو کرتے رہو، چاہے نت نئے دہشت گرد گروہ ہی کیوں نہ بنانے پڑیں ، چاہے اسرائیل جیسی خونخوار جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دے کر نہتے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے یمن میں امریکی اسلحہ کی کھیپ کی کھیپ سعودی حکمران خاندان کو پہنچا کر یمن کے عوام کا قتل عام اور ان پر زندگی تنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے ، چاہے کشمیر میں بھارتکی جارحیت کی حمایت اور مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے، اسی طرح چاہے عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، ویت نام میں انسانیت کی دھجیاں اڑانا، ہیرو شیما ناگا سا پر ایٹم بم گرانا اور اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستان میں ڈروں حملوں کے ذریعہ اور کبھی دہشت گرد گروہوں کا قیام عمل میں لا کر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسی ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلانا پڑے، چاہے فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینا پڑے، چاہے لسانیت کو پھیلانا پڑے، شام میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنا اور اسلحہ پہنچانا ،چاہے کسی ملک پر معاشی شکنجہ لگانا پڑے تولگاؤ، ایران و ترکی جیسے ممالک جو حالیہ دنوں امریکہ کی معاشی دہشت گردی کا شکارہیں، اس طرح کے متعدد دیگر مسائل کو پیدا کرنا پڑے امریکہ یہ سب کرتا آیا ہے اس اس عنوان سے امریکہ ایک ایک سو سالہ تاریخ دہشت گردی کے سیاہ ترین ابواب سے تاریک تر ہو چکی ہے۔حالیہ دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی سیاست کا دارومدار صرف اور صرف غاصب صیہونیوں کے تحفظ کی خاطر دنیا کے امن کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے، وہ غاصب صیہونی کہ جنہوں نے پہلے امریکہ وبرطانیہ کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کر کے ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود میں لائے اور پھر فلسطینیوں کا ستر برس سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے ہیں، اسی طرح پوری دنیا میں ان صیہونیوں کے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ عجب مذاق کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجہ میں فلسطین سے کشمیر تک مظلوم انسان اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کئے جا رہے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید قتل عام جاری رہے گا۔

رواں ماہ امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہو اہے ، در اصل اقوام متحدہ کے کردار پر بھی ایک تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا آج تک اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام کیوں رہاہے ہے؟ مزید یہ کہ اس ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گرد قوتوں اور قاتلوں کو بھی اس ادارے کی سرپرستی کہہ لیجئے یا پھر خاموش حمایت کیوں حاصل رہی ہے۔خیر یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کسی اور مقالہ میں تفصیلی گفتگو پیش کیجائے گی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں دنیا کے متعدد ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سمیت وزرائے خارجہ نے خطاب کیا ہے اور اگر ان سب کے خطابات کا خلاصہ نکال لیا جائے تو افریقہ و یورپ سمیت ایشیاء و آسٹریلیا تک اور لاطینی امریکائی ممالک تک، تمام کے تمام اقوام امریکی ظلم اور ستم ظریفی کو براہ راست اور بالواسطہ بیان کرتے رہے ہیں، چین کی بات کریں تو چین نے بھی امریکی شیطانی سیاست پر سخت اعتراض کیا، افغانستان ، عراق، شام تو پہلے ہی امریکی ناپاک سازشوں کو بھگت ہی رہے ہیں، فرانس و جرمنی نے بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ایران نے بھی امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں اس کی شیطانی سیاست پر آئینہ دکھایاہے، ترکی نے بھی کھری کھری سنا دی ہیں، اسی طرح لاطینی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک بولیویا نے بھی امریکی سازشوں اور دہشت گردانہ سیاست کو مسترد کیا ہے، ونیزویلا، شمالی کوریا، روس، پاکستان سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں نے امریکا کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یعنی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی سیاست و حکومت کے کارناموں پر جس طرح سے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں سے اظہار خیال کیا ہے یہ اس بات کی کھلی دلیل اور ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کی سیاست دنیا کے اقوام کی بد ترین دشمن ہے جیسا کہ ایک سو سالہ تاریخ میں امریکہ کے ہاتھوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکا ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے ، سخت مخالف کر رہے ہیں، مثال کے طور پر ، فلسطین، یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، کشمیر، برما و دیگر ممالک میں جہا ں جہاں دہشتگردی ہے سب امریکی حمایت یافتہ دہشت گردگروہوں کے مرہون منت ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب امریکی حکومت کی حالت اس قدر نا گفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر کی انتھک کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کسی بھی ایک ملک نے ووٹ نہیں دیا اور امریکی صدر کو تنہا ئی کا سامنا کرنا پڑا جو کہ خود امریکی سیاست اور حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے باعث آج ہر ذی شعور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد حکومت ہے کہ جو دنیا بھر کی اقوام کی بدترین دشمن ہے۔


 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز(آرٹیکل)  پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل پر تول رہا ہے لیکن اس وقت  اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔  معاشی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  امریکا کا احترام نہ کرنے والے ممالک کو امداد نہیں ملے گی ،قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کو اپنا تابعدار ملک نہیں سمجھتا۔ انہوں نے تقریر میں یہ بھی کہا کہ چین سے تجارت میں عدم توازن برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے  کھلے لفظوں میں اسرائیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کی عالمی عدالت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

یاد رکھیئے کہ امریکا کسی بھی عالمی عدالت کی حیثیت کا قائل نہیں ۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ  دنیا میں صرف دو مرتبہ ایٹم بم داغا گیا ہے اور وہ بھی امریکہ نے ہی داغا ہے ، ایک مرتبہ ہیرو شیما پر اور دوسری دفعہ ناگا ساکی پر۔

ہولوکاسٹ پر واویلا مچانے والے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں لاکھوں انسانوں کے بھسم ہوجانے پر خاموش ہیں چونکہ ان کی رگِ اقتصاد امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔  اس کے علاوہ ۱۹۵۵ سے ۱۹۷۵ تک امریکہ نے ویتنام میں قتلِ عام کیا، اس قتلِ عام میں تیس لاکھ سے زیادہ سول لوگ مارےگئے اور ان سول لوگوں کومارنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جس کی کسی عدالت میں باز پرس نہیں ہوئی۔ امریکہ نے سالانہ پچاس ہزار بمب ویتنام میں گرائے لیکن کسی  عالمی ادارے نے امریکہ کا راستہ نہیں روکا۔

امریکہ نے ستمبر ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۴ تک افغانستان پر جنگ مسلط کئے رکھی، اس جنگ میں  لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔نہتے افغانیوں کے خلاف امریکہ نے جدید ترین ہتھیار استعمال کئے لیکن عالمی برادری نے  امریکی جارحیت کو رکوانے کے لئےکوئی کردار ادا نہیں کیا۔وجہ پھر یہ تھی کہ دنیا کا اقتصاد ڈالر کے گرد گھوم رہا تھا۔

۲۰ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۰ تک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، ان سات سالوں میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں متاثر ہوئی اور عراق کی سڑکیں اور پل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے لیکن ایک مرتبہ پھر عالمی برادری امریکی ڈالر کی بھیک ملنے کی وجہ سے چپ سادھے رہی۔

امریکی مزاج کو سمجھنے کے لئے یہ چند تاریخی نمونے ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔امریکی مزاج کو سمجھئے، امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی قانون یا عدالت کا پابند نہیں۔

امریکہ نے پاکستان پر جو معاشی جنگ مسلط کر رکھی ہے ،اس کی وجہ سے سی پیک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بہاتا اور پاکستان کو عسکری دباو میں رکھنے کے لئے جہاں ایک طرف سے بھارت اور افغانستان سے دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں وہیں دوسری طرف  سےافغانستان میں داعش کو بھی لاکر آباد کیا جا رہا ہے۔نیز اب معاشی طور پر پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔

 اس سلسلے میں  فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کا اعلیٰ سطح کا وفد اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گا، عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی ، مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوگا  نیز  ملکی معیشت پر شدیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اب جبکہ پاکستان شدید معاشی جنگ سے گزر رہا ہے تو پاکستان کی تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اس معاشی جنگ کا جواب دے۔ ہر محاز پر اس محاز کے مجاہد ہی لڑا کرتے ہیں۔ معاشی محاز پر ہمارے ماہرین معاشیات، تاجروں، ٹریڈ یونینز ، تجارت سے مربوط انجمنوں اور تنظیموں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں امریکی جنگ  اور جارحیت کا دندان شکن جواب دیں۔

 ہمارے  وزیرِ خزانہ، تاجروں  اور عوام کو مشترکہ اور انفرادی طور پر امریکی مصنوعات اور ڈالر کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔  تاجر برادری کو  یقین کرنا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور ہر غیرت مند پاکستانی اس میدان میں اپنی تاجر برادری کے ہم قدم ہے۔

اگر ہم تجارت کے میدان میں امریکہ کا بائیکاٹ کردیں تو بھارت ، افغانستان اور داعش سمیت تمام خطرات خود بخود ٹل جائیں گے چونکہ یہ سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔

تجارت کا محاز ایک اہم محاز ہے، ہمیں اسے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، ہماری میڈیا،  خطبا، علمائے کرام ، کالم نگار وں اور دیگر دانشمند طبقات سے گزارش ہے کہ وہ تاجر برادری سے رابطے کریں  اور اپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجر برادری کو امریکہ کے خلاف صف آرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم سب امریکہ کے مقابلے میں ایک ہو جائیں تو جہاں امریکی ڈالر کی کمر ٹوٹے گی وہیں اقتصاد  اور خوشحالی کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔

ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل بھی  پر تول رہا ہے لیکن  اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایام محرم الحرام ہے اور ہمیں دنیا کے ہر کونے میں یا حسین کی صدائیں سنائی دیتی ہے، ساری کائینات ہمیں حسین کا دیوانہ لگتا ہے، لاکھوں جانیں حسین پر قربان ہونے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا عاشق حسین ہے؟ مسلمان ہو یا غیر مسلم جب اسم حسین کو زبان پر ورد کرتے ہیں تو سب احترام کرتے ہیں اور امام حسین کے یثار و قربانی کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی سچائی، خلوص، جزبہ شہادت، جذبہ ایمانی اور بہادری کو داد دیتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ۱۳۷۹ سال گزرنے کے باوجود کربلا ابھی تک زندہ ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے ایسا کیا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے ساری دنیا امام حسین کو فراموش نہیں کرسکے؟ کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا، مسلمان، مسیحی، ہندو، کافر سب امام حسین کو اور ان کے اہداف و قربانی کو یاد کرتے ہیں؟ کیا دنیا میں واقعہ کربلا کے بعد کوئی ظلم و ستم نہیں ہوا؟ کسی کو بھوکا پیسا قتل نہیں کیا گیا؟ آخر کیوں دوسرے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے مگر واقعہ کربلا ہر زمانے اور ہر دور میں نیا لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہدف و درس کربلا اسی زمانے کے لئے ہے۔

اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے شخصیت حسین کو دیکھنا ہوگا کہ آخر خود امام حسین کون ہے ان کی شخصیت کیا ہے، امام حسین کو پہچانے کے بعد ہم ان کے اہداف اور مقصد کو سمجھ سکتے ہیں۔ امام جسین کی شخصیت کے بارے میں رسول اکرم ص کی بے شمار احادیث موجود ہیں، ان میں سے ایک حدیث میں یہاں نقل کرنا چہتا ہوں کہ رسول اکرم ص فرماتے ہیں: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"۔ یعنی کردار، گفتار و رفتار میں حسین رسول اکرم ص کی طرح ہے، جس طرح رسول اللہ ص ساری انسانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اسی طرح امام حسین بھی انسانوں کے لئے ہادی و امام امت ہیں اور ظلم و بربریت کے اندھیری میں ڈوبی ہوئی قوموں اور انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حسین اور رسول اللہ ص میں فرق صرف یہ ہے کہ حضرت محمد خدا کے آخری نبی ہیں اور حسین امام ہے جنہوں نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لئے اپنی جان، مال، ناموس سب کو قربان کیا اور دین محمدی کو بچایا۔

واقعہ کربلا اور دنیا میں رونما ہونے والے دوسرے حادثوں میں بہت بڑا فرق ہے، ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ تاریخ انسانی ظلم و بربریت، جنگ و جدال کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کے پیچھے خودغرضی، مفاد پرستی، شخصیت پرستی، ہوس پرستی، قوم پرستی، طاقت پرستی نظر آتا ہے لیکن حق و باطل اور خداپرستی کا معیار کہی نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ جس حادثہ کی اہداف و مقصد محدود ہوتا ہے وہ اسی محدودیت میں دفن ہو جاتا ہے۔

لیکن واقعہ کربلا اور شخصیت حسینی ان سب سے ہٹ کر ہے یہ حماسئہ کربلا و حماسئہ حسینی ہے، یہ ایک حادثہ اور ایک شخصیت نہیں ہے بلک یہ ایک ایسا جامع واقعہ ہے جو زمان، مکان، رنگ نسل،  مفادات، ریاکاری و دنیاوی خواہشات سے بالاتر ہے، یہ حق و باطل کا میزان ہے، یہ مظلومیت و بہادری کا درس گاہ ہے، یہ ایمان و سچائی کا مرکز ہے، یہ وفا و بہادری کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے، یہ ایک ایسا درس گاہ ہے جو ہر زمانے کے انسانوں کے لئے درس فرق مابین حق و باطل سیکھاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا مادہ پرستی و ظلم و ستم کی جانب رواں ہے درس کربلا و اہداف حسینی انسانوں کے سامنے واضح ہو رہی ہے۔ اسی لئے واقعہ کربلا اور شخصیت امام حسین ہر ایک کے دلوں میں زندہ ہے، ہر باشعور انسان کردار و گفتار امام حسین کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتا ہے۔

۔ روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے: "امام حسین ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔"

۔ عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کے لیے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے۔"

۔ تھامس کارلائل نے کہا کہ: "واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسین کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔"

۔ تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ: "امام حسین کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔"

۔ روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ: "حسین ہر اس طبقے کے لیے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کر دیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔"
۔ انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب "انسائیڈس عراق" میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انہیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا کو ہلا کے رکھ سکتے ہیں۔ تھامس ۱۹۱۸-۱۹۲۱ میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی۔"

۔ وولف انسٹی ٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ: "موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کے لیے امام حسین بہترین رول ماڈل ہیں۔"

۔ انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ: "امام حسین نوع انسان کے لیے رول ماڈل ہیں، میرے لیے امام حسین کئی جہتوں سے مسیح  کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسین کی یہ بات مجھے بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے۔"

۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ "میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسین ابن علی کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

. جواہر لعل نہرو پنڈت نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کے لئے صراط مستقیم کی اعلی ترین مثال ہے۔اسی لئے جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے:

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشرکے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہے حسین


تحریر۔۔۔ناصررینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) اُس زمانےکےامام، انسانیت کےپیشوا، اور آزاد لوگوں کے رھبر ومقتدیٰ،حسین ابن علی ع نےاپنے زمانے کی سپر پاور اور دنیاکی سب سے بڑی حکومت وسلطنت(جسکی سرحدیں موجودہ افغانستان سے افریقہ، اور چنوبی یمن سی ترکی و آذربائیجان تک پھیلی ہوئی تھیں)کیخلاف سیاسی، اصلاحی، وفکری انقلاب برپا کرنے کیلئےقیام کیااور اپنے قیام کے مقاصد وہ خود بیان فرماتے ہیں:1؛ ظالم وفاسد حکومت کی عملا مخالفت (صرف زبانی نہیں)2؛ امت وقوم کی اصلاح (سیاسی، اجتماعی، فکری، واخلاقی اصلاح)3؛ امربالمعروف ونہی عن المنکر،جیساکہ خودفرماتے ہیں:اِنِّی لَم اَخرُج اَشِراً وَلابَطِراً وَلاظالِماً وَلامُفسِداً، بَل اِنَّماخَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلاحِ فے اُمَۃِجَدِی،وَاَن اَءمُرَبِالمَعرُوف وَاَنہیٰ عَنِ المُنکَرِ،وَاَسِیرُ بِسِیرَۃِجَدِی وَ اَبِی،یعنی میرے قیام کامقصد، امت کی اصلاح، امربالمعروف، نہی عن منکر، اور رسول اللہ ص وعلی مرتضی ع کی سیرت وسنت پر عمل کرانا ہے،یا فرماتےہیں: کیاتم نہیں دیکھتے کہ(حکومت وقت) حق پر عمل نہیں کراتی، اور باطل سے منع نہیں کراتی،یافرماتے ھیں کہ:میرا پیروکار، یزید جیسوں کی بیعت وپیروی نہیں کرسکتا، (یعنی اسکو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم نہیں کرسکتا)اور حسینی انقلاب یقیناکامیاب ہوگیابہتر72 افراد سے شروع ہوکر، 72 کروڑ یعنی پوری دنیاتک یہ انقلابی فکر پھیل گئ،حسینی انقلابی افکار کے پھیلنے میں تین3 عناصر مؤثر تھے1: حسینی انقلاب زمان ومکان وساتھیوں کےلحاظ سے،مکمل منصوبہ بندی کیساتھ، ناپاتولا، حساب وکتاب کیساتھ، عقلی، فطری اور حماسائی تھا، اسلیۓ خود مؤثر رہا،2: انقلاب کو اچھے وارث مل گئے،(بی بی شریکۃ الحسین ع واسیران کربلا، و ائمہ اھلیبیت ع، اور سالہاسال تک انکے عالم فاضل ومخلص شاگرد،3: عزاداری، جس نے اس انقلاب کو دلوں میں اتار دیا، بھولنے نہیں دیا، پرانا نہ ہونے دیا، عزاداری کیاھے ؟: عزاداری چار عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں خود امام حسین ع اور آئمہ اطھارع نےبیان کیا ھے،1: حسینیت، عدالت اور حق واھل حق کیساتھ اظہار وِلاء ومؤدت (جسکو ھم "تَوَلّٰا" کہتےہیں،2: یزیدیت، ظلم، باطل واھل باطل سے احتجاج و اظہار براءت (جسکو "تبراء" کہتے ھیں)3: "امربالمعروف"،4: "نہی عن المنکر"،یعنی؛ تولاء،تبراء،امر،ونہی۔رسم عزاداری:جہاں تک رسم عزاداری کی بات ہے،تو یہ مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے ھوسکتاہے،ہاں اپنی مرضی وخواہشات کےمطابق نہیں بلکہ قرآن وسنت محمدص وآل محمد کےمطابق ہو، اور خلاف نہ ہو ،مقصد عزاداری:حسینی پیغام کو مناسب، معقول ومقبول ومؤثر طریقے سے، آج کے میڈیا کے دور، اور ماڈرن وجدید دنیا (ایشیا سے یورپ، مسلم وغیرمسلم) تک پہنچانا ھے،کہ لوگ حسینی پیغام کو سنیں، اس پر سوچیں، اور اسکو قبول کریں،اسکا مطلب یہ ھے کہ: اگرعزاداری صرف اپنےلئے ہوتی، پھرتو ھماری مرضی، جیسے کرتے،لیکن عزاداری ھم صرف اپنے لئے نہیں کرتے، بلکہ اپنےساتھ دوسرے مختلف مذاھب وممالک کے لوگوں کیلئےبھی کرتےہیں،یعنی خود بھی پیغام حسینی یاد رکھنا ہے اور لوگوں کو بھی پہنچانا ہے،پس لوگوں کو بھگانا نہیں بلکہ بلانا ہے،پس رسم بھی ایسا ہو جسمیں دعوت ہو، جاذب ہو، مقبولیتہو، عقلانیتہو،پس آپس میں جھگڑنے اور لعن طعن کرنے سے بہتر ہے کہ آپ مندرجہ بالا نقاط پر ذراغور فرمائیں،اگر مناسب لگے تو قبول فرمائیں،اگر مناسب نہ ھو تو میری اصلاح فرمائیں۔


وما علینا الا لبلاغ


تحریر:محمداقبال بہشتی

پیغامِ کربلا

وحدت نیوز (آرٹیکل) چودہ سو سال سے وقت کھڑا ہے، ایک سا سماں ہے، ایک ہی ساعت ہے، کوئی تھرتھراہٹ نہیں، کوئی آہٹ نہیں، کوفے میں چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں، لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں،دروازوں پر تبدیلی دستک دے رہی ہے مگر ضمیروں کے کواڑ بند ہیں۔

جب بانی اسلامﷺ کی جان کو خطرہ تھا تو حضرت ابوطالب سائبان بن کر بھتیجے کے سر پر کھڑے ہو گئے، یہ چچا اور بھتیجے کی محبت نہیں تھی بلکہ عقیدے کی جنگ تھی ورنہ چچا تو ابولہب بھی تھا۔جب دشمنوں کی سازشیں عروج پر پہنچیں تو آمنہؓ کے لخت جگرﷺ  نے شعب ابی طالب میں جا کر پناہ لی، جب حضرت ابوطالب ؑ  اورام المومنین  حضرت خدیجہؑ  کا وصال ہوگیا تو اس سال کو عام الحزن قرار دیا گیا،اس میں کوئی خاص بات تھی ورنہ رسولﷺ کے چچے اور بھی تھے اور امہات المومنین بھی دیگر تھیں  کسی کی وفات کے سال  کو عام الحزن قرار نہیں دیا گیا۔

مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کفار کا ایک وفد مسلمانوں کے تعاقب میں بادشاہِ حبشہ کے دربار میں پہنچا۔ بادشاہَ حبشہ ،یعنی  نجاشی  کے دربار میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے  کے لئے پھر کوئی اور نہیں حضرت ابوطالب کا بیٹا جعفر ابن ابیطالبؑ اٹھا ۔

اسلام کے ساتھ حضرت ابو طالبؑ کا عجیب رشتہ ہے۔ ہر غزوے میں اسلام کا علمدار حضرت ابوطالب ؑ کا بیٹا “ علیؑ ”رہا۔ یہانتک کہ غزوہ خیبر میں ختم نبوت کا تاجدار پکار اٹھا:۔

قالَ: لاءُعطِيَنَّ الرّايَةَ غَدا رَجُلا يُحِبُّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ و يُحِبُّهُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ كَرّارٌ غَيْْرُ فَرّارٍ، لا يَرْجِعُ حَتّى يَفْتَحُ اللّهُ عَلَى يَدَيْهِ

کل میں علم اس کو دوںگا کہ جو خدا اور رسول کودوست رکھتا ہوگا اور خداو رسول اس کو دوست رکھتے ہونگے ،مردہوگا کرار ہوگا ، فرار نہ ہوگا یعنی جم کر لڑنے والا ہوگا بھاگنے والا نہ ہوگا اور اس کے ہاتھوں کامیابی و فتح حاصل ہوگی ۔

پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ یہ علم حضرت ابوطالب کے بیٹے کو عطا کیا گیا، جب علی ابن ابیطالب ؑ کو شہید کردیا گیا تو پھر ابوطالب کے پوتے میدان میں اتر آئے اور اکسٹھ ہجری میں ابوطالب کا پوتا حسینؑ ابن علی ؑ یہ کہہ کر میدان میں اترا:

إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب

میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں صرف اور صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور میری یہ سیرت میرے جد رسول اللہ ﷺ کی اور میرے بابا علی ؑکی بھی سیرت ہے۔

یعنی جو راستہ حضرت ابوطالبؑ کا تھا وہی حضرت ابوطالب کے بیٹے اور پوتے کا بھی تھا، اکسٹھ ہجری میں ابوسفیان کے پوتے نے سوچا کہ میں آل بیطالب ؑ کو لق و دق صحرا میں دفنا کر مٹا دوں گا اور یوں پیغامِ مصطفیﷺ مٹ جائیگا لیکن عین اسی لمحے ابوطالب کی پوتی زینب کبریٰ ، عقیلہ بنی ہا شم سامنے آگئی اور یوں اسلام ابوطالب ؑ کی اولاد کی قربانیوں کے صدقے میں پروان چڑھتا رہا ، حتی کہ چودہ سو سال گزر گئے اور لوگ ظالم اور اوباش بادشاہوں کو ظل الٰہی کہنے لگے ۔ لوگ بادشاہوں کو اسلام کا مالک سمجھنے لگے ایسے میں اسلام کے دفاع کے لئے ، بادشاہت کے خلاف اگر کسی نے قیام کیا تو اور کسی نے بھی نہیں کیا بلکہ  اس نے قیام کیا جس کی رگوں میں حضرت ابوطالب کا خون تھا اور دنیا جسے امام خمینیؒ کے نام سے جانتی ہے۔

چودہ سو سال کے بعد ابوطالب کے بیٹے خمینیؒ نے بادشاہت کا تختہ الٹ کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ حقیقی اسلام وہ نہیں ہے جو بادشاہوں کے قدموں میں سانس لیتا ہے  بلکہ حقیقی اسلام وہ ہے  جو آج بھی بادشاہوں کے تختے الٹ دیتا ہے۔

جب  بادشاہوں کے تخت تھرانے لگے تو اسرائیل کو  مرحب کے طور پر سامنے لایا گیا، عرب بادشاہوں نے اس کی طاقت کا کلمہ پڑھ لیا، دنیا بھر میں اسرائیل کی طاقت  کے چرچے ہونے لگے ایسے میں ابوطالب کے ایک بیٹے سید حسن نصرااللہ نے  اسرائیل سے تینتیس روزہ جنگ مول لے کر اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔

آج بھی مغرب اور مشرق کی شیطانی حکومتیں اور بادشاہتیں اگر کسی کے نام سے تھراتی ہیں تو وہ کسی اور کا نام نہیں بلکہ ابوطالب کے ایک بیٹے سید علی خامنہ ای کا نام ہے۔

شام سے لے کر عراق تک ، اور اسرائیل سے لے کر افغانستان تک  پے درپے شکستیں  کھانے کے بعد اب  عالم کفر کو  یہ احساس ہو چکا ہے کہ اسلام لاوارث نہیں ہے، دنیا میں جب تک  اسلام پر حملے ہوتے رہیں گے ابو طالبؑ کی اولاد اسلام کے دفاع کے لئے قیام کرتی رہے گی،یہ تاریخِ اسلام کا بھی سنہری درس ہے اور کربلا کا بھی زرّیں پیغام ہے کہ  جب تک آل ابوطالب دنیا میں موجود ہے اسلام سربلند و سرفراز رہے گا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree