دو مجرم طبقے

وحدت نیوز(آرٹیکل)  بزرگ ہونا اور بزرگ تراشنا دو مختلف چیزیں ہیں، سب لوگ اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں ، بزرگ لوگ کسی بھی خاندان ، قوم  اور قبیلے کی آبرو ہوتے ہیں۔ بزرگ جو کہتے ہیں وہی جوانوں کے لئے  آئین اور قانون بن جاتا ہے،چنانچہ  جوانوں کی نسبت بزرگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔   یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کمان سے نکلے ہوے تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات  کی واپسی محال ہے۔البتہ اگر کبھی کسی بزرگ شخصیت سے کوئی ایسی بات سرزد ہوجائے جو ان کے شایانِ شان نہ ہوتو اس کے ازالے کی کوشش کرنا عین دانشمندی ہے۔

دوطرح کے لوگ ایسے ہیں جو کسی کی غلطی کا ازالہ نہیں ہونے دیتے خصوصا اگر کسی بزرگ شخصیت سے غلطی ہوجائے تو اُس کے ازالے اور تلافی کے لئے سوچنے کو گناہ سمجھتے ہیں اور یوں غلطی پر غلطی کرنے کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ  دوطرح کے لوگ ایک خوشامدی قصیدہ گو اور دوسرے ماہر رفوگر ہیں ۔خوشامدی قصیدہ گو حضرات اپنے بزرگوں کی باتوں پر صرف واہ واہ کرتے ہیں اور عوام کو تجزیہ و تحلیل نہیں کرنے دیتے ، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر ہی بزرگوں کی باتوں پر  واہ واہ ہی کرتے جائیں اور کوئی سوال و جواب یا  تجزیہ و تحلیل نہ ہو، وہ ایک ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جس میں لوگ سوچنا  اور پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں،  لوگ  صرف  بزرگوں کی باتیں سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔

یہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں صرف واہ واہ ہوتی ہے ، ان کی تحریروں میں کہیں نظریاتی  تقابل یا  حقائق و واقعات کا موازنہ نہیں ہوتا،یہ سوچنے اور پوچھنے والوں کو بے ادب، گستاخ، نااہل، جاہل، ان پڑھ  اور کبھی کبھی گمراہ ، مشرک و کافر تک کہہ دیتے ہیں۔

ان کا شعبہ ہی خوشامد ، قصیدہ گوئی اور قصیدہ نگاری ہے، غلطی جتنی بڑی ہوگی یہ اتنا ہی لمبا قصیدہ لکھیں گے ، حتیٰ کہ اگر کوئی بزرگ شخصیت مڑ کر اپنی بات کی تصحیح  کرنا بھی چاہے تو یہ قصیدہ گو حضرات اس کی گنجائش نہیں چھوڑتے ، اس طرح کی متعدد مثالیں میرے اور آپ کے سامنے موجود ہیں۔

مثلا میاں نواز شریف  نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا ، وہ سب کے سامنے ہے لیکن ان کے قصیدہ خوانوں کی زبانیں مسلسل قصیدہ خوانی میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ رفوگر حضرات  کا ہے، رفوگری یوں تو پھٹے ہوئے کپڑے کو ٹانکا لگانے کا فن ہے ، لیکن اب یہ  بزرگ شخصیات کے کلام سے پیدا ہونے والے خلا کو پُرکرنے کا فن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کسی بزرگ شخصیت کی سبقتِ لسانی سے کوئی خلافِ توقع بات نکلتی ہے تو یہ رفوگروں کا لشکر کاغذ پنسل لے کر تاویلیں کرنے بیٹھ جاتا ہے اوراتنے خوبصورت ٹانکے لگاتا ہے کہ خود وہ بزرگ بھی حیران ہوجاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے کہا کہ کل صبح میں نے ایک ہرن کو گولی ماری جوایک  ہی وقت میں  اس کی ٹانگ اور سر کو لگی۔اس پر قصیدہ گو حضرات نے واہ واہ کرکے کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ البتہ کسی گستاخ درباری نے  اٹھ کر اعتراض کر دیا۔ قصیدہ گو حضرات قصیدے تو  پڑھتے رہے کہ ظلِ الٰہی ماہر نشانہ باز ہیں لیکن دلیل نہیں دے سکے ، چنانچہ بادشاہ نے ایک وزیر کی طرف اشارہ کیا جو رفوگری کا ماہر تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا کہ بات در اصل یہ ہے کہ اس وقت ہرن ٹانگ کے ساتھ سر کو کھجلا رہا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر دربار واہ واہ سے گونج اٹھا۔

آج آپ دیکھ لیں وہ عمران خان ہوں یا نواز شریف یا کوئی اور سب کو قصیدہ گووں اور رفوگروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہی دو طبقے اس ملت کی بدحالی کے مجرم ہیں۔یہ عوام کو تحقیق، باز پرس اور سوال و جواب نہیں کرنے دیتے اور اسی سے قوموں میں عقب ماندگی، اندھی عقیدت، ذہنی پسماندگی اور بے شعوری جنم لیتی ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)  وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے 15سال قبل اور ہجرت سے 68 سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں۔ وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔ وہ با اخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح  سےکرتے ہیں :{ انّ خديجۃَ اِمْرَأَۃکاٌ كمِلَۃٌ مَيمُونۃٌ فاضِلَۃٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار}1۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اورفاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کی ننگ و عار اوربد نامی سے دور ہے۔


وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجوداپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :{۔۔وَ کُنْتُ أَنَا أَشْبَہَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَۃَ اَلْکُبْرَی} 2۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والاہوں۔ وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سےایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادا کی۔ وہ پارسا خاتون جس کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے  فرماتے ہیں :{لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا} 3۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اورتیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جوتجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔ وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھاجو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالک تھیں۔

وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ ـ
وہ نجیب خاتون جونوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔

وہ پاک دامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتادی۔

وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو جب ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ  غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی

کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔

وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا اوراس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا: اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف ،دیانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں {اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے}

وہ  ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کی ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے {ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الہدی سید مرتضی کتاب شافی اورشیخ طوسی کتاب تلخیص شافی } کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا۔4

وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔

وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر گئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔
وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر

فوقیت رکھتی ہے۔

وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: {ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجۃ}5۔کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔

وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔1۔ خدیجہ بنت خویلد 2۔فاطمہ بنت محمد3۔ مریم بنت عمران  4۔ آسیہ بنت مزاحم

وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر{کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کردی ہے }رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ و سلم غضبناک ہو کر  فرمایا : {لاوالله ماابد لنی اللہ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی

بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء}6۔خدا کی قسم خدانے مجھے اس سے بہتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر

چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔

وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:{ قال لي جبرائيل:بشّر خديجۃ ببيت في الجنۃ من قصب لا صخب فيہ و لا نصب فيہ۔يعني قصب الزمرد } جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ

قصر زمرد کا بنا ہوا ہے ۔7

وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیااور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے ۔

وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا  صلی الله علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے  تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم

کے مرجھائے ہوئے چر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔

وہ پرہیز گار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ: {الایمَانُ مَعْرِفَۃٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالاَرْکَانِ} 8۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔

وہ باکمال  خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کے طعنہ زنی اور ان کےمذاق {کہ انھوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی} کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا:کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت  کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کرسکتی ہیں؟

وہ اطاعت گذارخاتون  جورسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور ان  کی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے

رہتےتھے۔

وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کی شرف حاصل ہوئی۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم } نے مسجد میں حسن اور حسین { علیہما السلام} کی شان میں فرمایا{:ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟} اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین

انسان ہیں؟ لوگون نےعرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا:{الحسن و الحسین جدہما رسول اللہ و جد تہما خدیجہ بنت خویلد}9۔وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔

وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے ائمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں " ہند" اور دادی" نثیلہ"

ہے { اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینہ عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے} اس لئے تم اس قسم کے برے اور نا پسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو۔ میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی
وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:{ أَنْشُدُکُمُ اللّہ َ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَۃُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ ہَذِہِ الاُمَّۃِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّہُمَّ نَعَمْ10{۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ {س} بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ

جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟

امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرتا ہے: {انا بن خدیجۃ الکبری}11۔میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری {س} کا بیٹا ہوں۔

وہ خوش قسمت خاتون جن کی کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عباتھی۔آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا:" اے میری نور چشم ؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ: میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ {ص} سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے

کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  نےاس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ پیغمبر  خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔12

وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرئیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو

ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھا لیں۔

وہ  مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اورجبریل امین سلام بھیجتا ہے۔ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو ؟جبرئیل امین نے کہا :{حاجتي أن تقرأ علی خديجۃ من الله و مني السلام}میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف

سے خدیجہ کو سلام کہئے۔جب پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو ام المؤمنین نے فرمایا:{ إن اللهہو ه السلام، و منی السلام، و إليہ السلام، و علی جبرئيل السلام}بیشک اللہ خود سلام ہے و تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔13


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل )  انسان دیگر موجودات سے بہت مختلف ہے، دوسروں کی بات کو سمجھنا اور اپنی بات کو سمجھا نا انسان کی جبلت ہے۔ افہام و تفہیم کے بغیر انسانی سماج کا تصور ممکن نہیں۔انسانوں کے برعکس جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال کر کھینچا جاتا ہے۔ جانوروں کے جہان میں افہام و تفہیم کی وہ اہمیت نہیں جو انسانوں کے ہاں ہے۔ہمارے ہاں سیاست دانوں سے ناامید ہونے کے بعد لوگ مذہبی رہنماوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں،  لیکن مذہبی رہنما خود ہر مسئلے پر تقسیم ہیں۔ کچھ علما پاکستان کے آئین کو اسلامی کہتے ہیں تو کچھ غیر اسلامی، کچھ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں اور کچھ کافرستان، کچھ  علما ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کو عالمِ اسلام کے لئے بہت بڑی  خوشخبری قرار دیتے ہیں اور کچھ  علمائے کرام ایم ایم اے کو عالم اسلام کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، کچھ علمائے دین ایم ایم اے کے قائد کواپنے قائد کا بھی قائد قرار دیتے ہیں اور کچھ ایم ایم اے کے قائد کو پاکستان کے تمام بنیادی مسائل کا سبب گردانتے ہیں۔

 کچھ کے نزدیک پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینا شرعی ذمہ داری ہے اور کچھ کے نزدیک انتخابات میں حصہ لینا کفر و شرک کا موجب ہے۔المختصر یہ کہ اگر اُس طرف جنابِ شیخ ہیں تو اس طرف بھی جنابِ شیخ ہی ہیں۔ ہر کسی کا یہی دعویٰ ہے کہ وہی  انقلاب کا علمبردار ، بصیرت کا مینار اور  سیرت کا پیروکار ہے۔ ہر کو ئی اپنے عمل کے لئے آیات و روایات کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس زمانے میں فلاں امامؑ کی سیرت پر عمل کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے جب ہر طرف سے انالحق کی صدا آنے لگے  تو عوام پر حق مشتبہ اور مبہم ہو جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات  لوگوں کی گردنوں میں افکارو نظریات کو پٹے کی صورت میں ڈال کر  زبردستی کھینچا جاتا ہے  اور مخالفت کرنے والے کی تکفیر تک کی جاتی ہے۔ یعنی عام آدمی سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کر لی جاتی ہے اور اسے کہاجاتا ہے کہ بس فلاں نے کہہ دیا ہے لہذا فلاں کی بات پر ہی عمل کرو ، صرف یہی حق کا راستہ ہے ورنہ گمراہ ہو جاو گئے۔ پتہ نہیں ہم کب یہ سمجھیں گے کہ نظریا ت و افکار ٹھونسنے  اور پوجنے کے لئے نہیں بلکہ  سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوچ و بچار کے بجائے نظریات و افکار کو بھی عقیدت کے ساتھ منوانے کی سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔ لوگوں کو تحقیق اور موازنہ  کرنے کی ترغیب  دینے کے بجائے ان سے   اطاعتِ محض کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والا ایک ہی نکتہ نظر کو لکھتا ہے، بولنے والا ایک ہی بات دہراتا رہتا ہے اور سننے والا ہر وقت سر دھنتا رہتا ہے۔ صرف واہ واہ اور چاپلوسی کرنے والوں کی کبھی نہ ماضی میں کمی تھی اور نہ آج ہے۔ لیکن اب دنیا بہت ترقی کرچکی ہے، افکار و نظریات کے طوق نماٹھیلوں کی رونق ماند پڑتی جا رہی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے سوچنا ، سمجھنا اور پرکھنا شروع کر دیا ہے۔

اب جان لیجئے کہ  تسبیح کے دانے جتنے بھی ہوں ، تسبیح کا گھمانا بھی ایک فن ہے، لوگ مذہبی رہنماوں کے  ہاتھوں کی حرکات، چہرے کے تاثرات، زبان کی لکنت اور بیان کی روانی سے بھی بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ لوگوں کی گردنوں میں عقیدت کا پٹہ ڈال کر انہیں زبردستی کھینچا جائے ، اب   تحقیق اور جستجو کا زمانہ ہے  لہذا ہمارے مذہبی حلقوں کوبھی چاہیے کہ وہ  عوام کی شہ رگ سے تکفیر کا خنجر ہٹائیں، لوگوں کو  سیاسی و قومی مسائل  کی گہرائی میں اترنے دیں، بال کی کھال اتارنے دیں ، مکالمے کو رواج پکڑنے دیں، افکارونظریات پر مناظرات ہونے دیں۔ جب تک مکالمہ نہیں ہوگا، بحث نہیں ہوگی تب تک کھرے اور کھوٹے میں جدائی نہیں ہو سکتی۔ ضروری ہے کہ تمام مسائل میں قصیدہ گوئی کے بجائے تجزیہ و تحلیل اور تقابلی جائزہ پیش کیا جائے اور مختلف سیاسی و نظریاتی  آرا و نظریات کا باہمی موازنہ کیا جائے۔ تجزیہ و تحلیل کے دوران شخصیات اور تنظیموں کی تعریفوں کے پُل باندھنے کے بجائے ہمیں  ہر مسئلے پر طرفین کا موقف بیان کر کے موازنہ کرنا چاہیے۔

پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے یا نہیں، پاکستان کے انتخابات میں عوام کو حصہ لینا چاہیے یا نہیں، اور ایم ایم اے  کا اتحاد پاکستان کی سلامتی کے لئے کس قدر مفید اور ضروری ہے !ان سوالات کا  گہراتعلق پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہے۔لہذا پاکستان کی سلامتی کے لئے  یہ ضروری ہے کہ کسی کی قصیدہ گوئی کے بجائے حق گوئی کی روش اپنا ئی جائے چونکہ دلیل کے بدن پر تاویل کا پتھر رکھنے سے سچائی مر نہیں سکتی اور حق گوئی کے بجائے واہ واہ کرنے اور قصیدہ نگاری سے قوم کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اب یہ ذمہ داری بنتی ہے ہمارے لکھنے  اور بولنے والوں کی کہ وہ لکھتے اور بولتے وقت  مذہبی رہنماوں  کے بیانات اور اقدامات  کی تاویلات پیش کرنے کے بجائے ملکی مسائل پر مختلف آرا کو  سچائی کے ساتھ ویسے بیان کریں جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے۔ورنہ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یُوں بھی ہے اور یُوں بھی

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

انقلاب مگر کیسے!؟

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انقلابیوں کو انقلاب ھرگز برا نہیں لگتا لیکن ناسمجھ ، جذباتی اور دو نمبر انقلابی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ آج جن دہشتگردوں نے عراق وشام کو تباہ کیا سب کے سب انقلاب کے دعویدار تھے۔ امام کعبہ کی برکتوں سے بھی انقلابی لوگ میدان میں از سر نو فعال ہوئے ہیں ۔ اور شیخ صبحی طفیلی مزاج سپر انقلابی بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔جو اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انقلاب اور رھبران انقلاب وبانیان حکومت جمھوری اسلامی کے فرامین واقوال اور مواقف واقدامات کی تاویلیں اور توجیہات اپنی مرضی سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری طرف دشمنان مقاومت وبیداری اور استعماری واستکباری طاقتیں بیرونی واندرونی محاذوں پر حملہ آور ہیں۔ انقلاب ومقاومت کے دشمن کم علم اور  نا آگاہ عوام ، بالخصوص جذباتی نوجوانوں کے ذریعے  ہمارے راھبران مقاومت وانقلاب اور انقلابی شخصیات کی کردار کشی پر پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح ایم آئی 6 کے ایجنٹ ہوں یا سی آئی اے کے آلہ کار یا موساد و را کے تنخواہ دار ان سب کا بھی  ہدف اور نشانہ فقط اور فقط پیروان ولایت وخط مقاومت وبیداری ہیں۔اس لئے خط ولایت ومقاومت وانقلاب کے پیروکاروں کو یہ حساس مسائل بڑی حکمت ودانشمندی کے ساتھ بیان کرنے ، ایک دوسرے کی تحقیر وتذلیل اور کردار کشی کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے ، مشترکہ زبان تلاش کرنے اور  افہام وتفہیم سے مسائل کو سلجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی انقلابی اور رہبر کا پیرو نظام ولایت سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ تو ہر قسم  کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے۔ لیکن اختلاف اسلوب اور موقف کو سمجھنے میں ہے۔ اور رھبریت کی  براہِ راست  راھنمائی سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔  لیکن ایک دوسرے کے متعلق شائستہ زبان اور مہذبانہ تعبیرات ہی ہمیں قریب رکھ سکتی ہیں۔ اور احترام متبادل افہام وتفہیم ایجاد کرنے کا پہلا زینہ ہے۔ جتنا بھی اختلاف نظر ہو اور فکری فاصلے پیدا ہو جائیں تب بھی مشترکہ راھیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔  اور شبھات کا ازالۃ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تہمت  اور الزام تراشی ہمیشہ بند گلی کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔آئیے کچھ دیر کے لئے سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان میں کس طرح کی تبدیلی اور انقلاب چاہتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ بحث اپنی جگہ پر قائم ہے کہ پاکستان کا نظام کہ جس کے دستور  میں واضح بیان ہے کہ اسکے تمام تر قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہو نگے  یا مخالف نہیں ہو نگے تو کیا ایسے نظام کو مطلقاً طاغوتی کہنا درست ہے یا نہیں ؟یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان اور شیعان  پاکستان کے وجود کے دشمن جو تاسیس پاکستان کی تحریک سے لیکر آج تک تکفیریت کا پرچار کرنے  والے ہیں  اور سیاسی لبادے میں انکے سہولت کار جو  پاکستان دشمن قوتوں کے ھاتھوں میں کھیل بھی رھے ہیں اور دوسری جانب اس نظام کے اسٹیک ہولڈرز بھی بنے ہوئے ہیں نیز ہمیں ہمیشہ غیر کا ایجنٹ ، غیر پرست ، پراکسی وار کا حصہ اور دشمن نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ  جب ہم پاکستان کے نظام کو طاغوتی نظام کہتے ہیں تو دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کو تبدیلی اور حقیقی انقلاب سے مایوس کرکے پاکستان کی دشمنی پر ابھار رہے ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ فاسد اور طاغوتی نظام کا حصہ بننا ملت پاکستان بالخصوص مظلوم ملت تشیع کے لئے راہ نجات ہے یا نہیں ؟اصل سوال یہ نہیں بنتا کہ  ہمیں موجودہ  نظام کا  حصہ بننا چاھیے یا نہیں  بلکہ یہ  ایک روشن سچائی ہے کہ جس نظام کو طاغوتی اور فاسد کہا جارہا ہے  وہ تو  اپنی جگہ پر قائم ہے  اور پورے ملک کے باشندے چاھتے ہوئے یا نہ چاھتے ہوئے اس کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کوئی نظام مصطفی کی بات کر رہا ہے اور کوئی شریعت کا نظام لانا چاہتا ہے اور کوئی خلافت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ چنانچہ سوچنا یہ چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے لئے نجات کا راستہ کیا ہے؟1-آیا ہم شیعیانِ حیدر کرار  اس موجودہ  فاسد نظام کو  ہی مضبوط کریں؟ج - کوئی ہوشمند اور عاقل شیعہ ، ظلم وفساد کے نظام کی تقویت نہیں چاھتا۔ البتہ چند ایک نکات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا جس ملک میں شیعہ مسلمان (نظام امامت وولایت پر ایمان رکھنے والے) نسبتا اقلیت میں ہوں اور شیعہ مخالف مسلمان (جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہوں) اور  انکی اکثریت ہو تو کیا عوام نظام خلافت چاہیں گے یا نظام امامت وولایت ؟نظام امامت و ولایت پر اعتقاد اور یقین رکھنا تو ضروریات دین میں سےہے لیکن عملی طور پر یہ نظام ولایت و امامت موجودہ  صورتحال میں کیسے نافذ ہو گا۔ ؟اس  نظام کے نفاذ کا کا روڈ میپ کیا ہو گا ؟ اقلیت کیسے اپنی مرضی کا نظام قائم کرے گی؟ یا پھر زبردستی اور طاقت کے ذریعے  یا کوئی اور معجزہ نما  راستہ  موجود ہے؟ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ ہمارے مذہب میں اور ہمارے مراجع کرام کے نزدیک  اپنے عقیدے کا نظام قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال جائز بھی ہے یا نہیں۔ ؟

یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ اس ملک میں  لوگوں کو  نظام امامت کے لئے زبردستی  کرنے کے لئے اکسانا در اصل نظام خلافت کے حامیوں کو شہ دینے اور ابھارنے  کے مترادف تو نہیں!؟۔اسی طرح یہ   بھی شوچنا چاہیے کہ کیا اکثریت کو  اخلاقاً اور شرعاً یہ حق نہیں کہ وہ نظام خلافت قائم کرے۔؟پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا متروک شدہ  نظام خلافت سے بہتر نہیں کہ ایک جمھوری اسلامی نظام قائم کیا جائے۔ ؟مندرجہ بالا سوالوں اور اس ضمن میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے دیگر سوالوں کے مدلل اور عام فہم جوابات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے اور اصلح نظام کے لئے عوام کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔2-دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم شیعیان پاکستان اس نظام کا مکمل بائیکاٹ کریں ، سول نافرمانی کریں ، مثلا ٹیکس ادا نہ کریں،قوانین کو ماننے سے انکار کر دیں، نوکریوں کو چھوڑ دیں، عدالتی فیصلے قبول نہ کریں،  اس نظام کے تحت اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں اپنے بچے نہ بھیجیں،وغیرہ وغیرہاس میدان میں اترنے کے بھی دو طریقے ہو سکتے ہیںا- مسلح جدوجہد کریں۔ اور اس نظام کے سقوط  تک جہاد کریں۔ اور زمام اپنے ھاتھ میں لے لیں۔  2- پر امن عوامی جدوجہد کریں اور اس نظام کو کمزور کریں تاکہ ظلم وفساد سے نجات حاصل ہواور اکثریتی عوامی حمایت سے اس کومرحلہ وار بدلنے پر کام کریں اور نعم البدل لائیں۔یعنی عوامی انقلاب لا کر یکسر نظام بدل دیں۔3-اب پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب تک عوامی انقلاب لانے کا مرحلہ طے نہیں ہوتا تو کیا اس وقت تک معاشرے وعوام اور نظام سے کٹ جائیں ؟ ۔  یا اس سوسائٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو اجتماعی ومعاشی وفرھنگی وسیاسی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ ؟

تحریر۔۔۔۔حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید شفقت شیراز ی

وحدت نیوز(آرٹیکل)  شیعیت کی سیاسی اوراجتماعی تاریخ کی ابتداء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے شروع ہوئی جو امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت تک جاری رہی اور اس عرصے کی ابتدا میں ہی امامت وخلافت کا مسئلہ ایک اہم سیاسی اور دینی مسئلے کے طور پر جہان اسلام میں پیش ہوا اور اس سلسلے میں بہت سارے اختلافات رونما ہو ئے جن میں سے شیعہ امامت کے مسئلے میں نص اور نصب نبی کا عقیدہ رکھتاتھا۔ جبکہ دوسری طرف انصار ومہاجرین میں سے بعض افراد جانشین پیغمبراور امت اسلامی کے رہبر کےانتخاب کے لئے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔طویل گفت و شنید کے بعد ان کی اکثریت نے ابو بکر کے ہاتھوں  پربیعت کی اور یوں ابوبکر نے زمام امورسنبھال لیا اور تقریبا دو سال سات مہینے بر سر اقتدار رہے۔اس عرصے کی ابتدامیں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور مختلف اور مناسب مقامات پراپنے عقیدے کی وضاحت کی ۔

ابن قتیبہ کی روایت  کے مطابق جب ابوبکر کے حکم سےحضرت علی علیہ السلام کو لایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کا حکم دیا گیا تو آپنے فرمایا :{ انا احق بھذا الامر منکم ، لا ابایعکم و انتم اولی بالبیعۃ لی } میں تم سےزیادہ خلافت و امامت کے لئے شایسۃ اور حقدار ہوں ،میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا تم لوگ میری بیعت کرنےکے لئےزیادہ سزاوارہو ۔ عمر اور ابو عبیدۃ بن جراح نےحضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے کے بعد اور آپ ؑکو ابو بکر کی بیعت کرنےکو کہا لیکن آپ ؑنے دوبارہ اسی بات کی تکرا رکی اور فرمایا :{فو الله یا معشر المہاجرین ، لنحن احق الناس بہ ، لانا اہل البیت و نحن احق بہذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله ،الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن رسول الله ،المضطلع بامر الرعیۃ، المدافع عنہم الامور السئیۃ، القاسم بینہم بالسویۃ ، والله انہ یفینا فلا تتبعوا الہوی فتضلوا من سبیل الله ، فتزدادوا من الحق بعدا}

اے مہاجرین خدا کی قسم ہم اہل بیت امت اسلامی کی رہبری اور خلافت کے لئے لوگوں میں اس وقت تک سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار ہیں جب تک ہمارے درمیان قاری قرآن ،فقیہ ،سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگاہ ،لوگوں کی رہبری کےلئے قدرتمند ،برے کاموں سے دفاع کرنے والا اور بیت المال کو مساوات سے تقسیم کرنے والا موجود ہے اور خداکی قسم ایسا صرف خاندان رسالت میں موجود ہے ۔لہذا تم خواہشات نفسانی کی پیروی چھوڑ دو کیونکہ اس سے تم گمراہ اور حق سے دور ہوجاو گے۔

حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں نےبھی ابوبکر کےسامنے صاف و شفاف الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلافصل پر اپنے عقائد بیان کئے تھے۔شیخ صدوق نے انصار و مہاجرین میں سے ان بارہ افراد  { مہاجرین سے خالد بن سعید بن عاص،مقداد بن اسود ،عمار بن یاسر ،ابوذر غفاری ،سلمان فارسی ،عبداللہ بن مسعود ،بریدہ اسلمی جبکہ  انصار سے خزیمۃ بن ثابت ،سہل بن حنیف ،ابو ایوب انصاری ، ابو الہیثم بن تیہان اور زید بن وہب  تھے }کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے دلائل و برہان کے ذریعے ابوبکر کے سامنے احتجاج کیا۔البتہ ان کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنےوالے افراد اس سے بھی زیادہ تھے چونکہ مذکورہ افراد کے ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :{وغیرہم}اور آخر میں زید بن وہب کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہیں{فقام جماعۃ بعدہ فتکلموا بنحوہا هذا} اس کے بعد ایک گروہ نے بھی انہیں مطالب کی طرح گفتگوکیا ۔ البتہ اس گروہ نے پہلے آپس میں مشورہ کیا اور ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ابوبکر کو منبر سے نیچےاتاراجائے لیکن بعض نےاس روش کوپسند نہیں کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ کیاجائےچنانچہ آ پؑ نے لڑائی جھگڑے سے انہیں روکا اور فرمایا:اس کام میں مصلحت نہیں ہے اس بنا پر آپ ؑنے انہیں صبر وتحمل سے پیش آنے اور مسجد میں جا کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنانےکاحکم دیا تا کہ لوگوں پر خداکی طرف سےحجت تمام ہو ۔یہ لوگ آپ ؑ کےحکم پرعمل کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور یکے بعد دیگرے کھڑے ہو کر ابوبکر کےسامنے احتجاج کرنا شروع کیا ۔چونکہ یہاں تفصیل سے ان دلائل کو بیان نہیں کر سکتے لہذا اختصار کے ساتھ کچھ نکات بیان کرتے ہیں:

1۔خالد بن سعید نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ان علیا امیرکم من بعدی و خلیفتی فیکم ان اہل بیتی هہم الوارثون امری و القائلون{القائمون}بامر امتی} بے شک علی علیہ السلام میرےبعدتمہارے درمیان امیر اور خلیفہ ہے اور میرے اہل بیت میرے امور کے وارث اور میری امت کے امور کو بتانے والے ہیں۔

2۔ابوذر غفاری نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{الامرلعلی بعدی ثم الحسن و الحسین ثم فی اہل البیتی من ولد الحسین } خلافت وامامت میرے بعد علی، انکے بعد حسن و حسین اور ان کےبعد حسین کی نسل سے میرے اہل بیت کا حق ہے ۔

3۔ سلمان فارسی نےکہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{ترکتم امر النبی {ص}و تناسیتم وصیتہ ، فعما قلیل یصفوا الیکم الامر حین تزورواالقبور...}تم لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر عمل نہیں کیا اور ان کے فرامین کو فرموش کر دیا لیکن جلد ہی تمھارے کاموں کا حساب لیاجائےگا جب قبروں میں جاو ٴگے ۔

4۔مقداد بن اسود نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{قد علمت ان هذا الامر لعلی علیہ السلام و هو صاحبہ بعد رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم}{ اے ابوبکر} تم خود جانتے ہو کہ خلافت علی علیہ السلام کے لئے ہے اور وہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ و امام ہیں ۔

5۔بریدۃ اسلمی نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ یا ابا بکر اما تذکر اذا امرنا رسول الله ص و سلمنا علی علی علیہ السلام بامرہ المومنین } اے ابو بکر کیا تمہیں یاد نہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے علی علیہ السلام کو امیر المومنین کی حیثیت سےسلام کیا تھا ۔

6۔عبد اللہ  بن مسعود نے کہا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{علی ابن ابی طالب ع صاحب هذا الامر بعد نبیکم فاعطوہ ما جعلہ الله لہ و لا ترتدوا علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین}تمہارے نبی کےبعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام خلافت کا حقدار ہے لہذا جس چیز کو خدا نےاس کے لئے قرار دیا ہے اسے اس کے سپردکردینااور اپنے سابقہ آئین کی طرف پلٹ نہ جانا  ٔ کہ بہت نقصان اٹھاوٴ گے ۔

7۔عمار بن یاسر نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا :{یا ابابکر لا تجعل لنفسک حقا ، جعل الله عزوجل لغیرک} اے ابو بکر جس
حق کو خداوندمتعال نے کسی دوسرے سےمخصوص کیا ہے اسے اپنےسےمخصوص نہ کرو۔

8۔خزیمہ بن ثابت نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{انی سمعت رسول الله یقول اہل بیتی یفرقون بین الحق و الباطل و ہم الائمۃ الذین یقتدی بہم}میرے اہل بیت حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں اور یہی پیشوا و رہبر ہیں جن کی اقتداء واجب ہے ۔

9۔ ابو الہیثم نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{قال النبیﷺ اعلموا ان اہل البیت نجوم اہل الارض فقدموہم ولا تقدموہم}جان لو میرے اہل بیت  اہل زمین کے لئے روشن ستارے کے مانند ہیں ان کی اطاعت و پیروی کرنااور ان سے آگے نہ بڑھ جانا۔

10۔سہل بن حنیف نے کہا:{انی سمعت رسول الله قال : امامکم من بعدی علی ابن ابی طالب و هو انصح الناس لامتی}میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا میرے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام تمہارا امام ہے  جو میری امت کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ ہے ۔

11۔ابو ایوب انصاری نے کہا :{قد سمعتکم کما سمعنا فی مقام بعد مقام من نبی اللهﷺ انہ علی اول بہ منکم}پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکئی بار سن چکےہو جس طرح ہم نے سنا ہے کہ وہ {حضرت علی علیہ السلام} خلافت کے لئے تم سے زیادہ حقدارہے۔

12۔زید بن وہب کی گفتگو کے بعد ایک گروہ نےبھی اسی طرح کی گفتگو کی ۔
امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب دیکھا کہ خلافت و امامت کے راستے میں بہت بڑے بڑے انحرافات آ ر ہے ہیں جن کے آثار یکے بعد دیگرے معاشرے میں نمایاں ہو رہےتھے تو موقع سے فائدۃ اٹھاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کی تبلیغ شروع کردی مثلا  ایک دن ابوذر مسجد میں  اہل بیت کے فضائل اس طرح سے بیان کررہے تھے:علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں ۔اے پیغمبر کی امت جو ان کے بعد حیران و سرگردان ہو چکی ہے اگر تم اس فرد کو مقدم کرتے جس کو خدا وند متعال نے مقدم کیا تھا  اور اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت و وراثت کا اقرار کرتےتو یقینا مادی اور معنوی حالات بہت بہتر ہوتے لیکن چونکہ تم لوگوں نےحکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے اس لئے اپنے کئے کا مزہ چکھو۔   

امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب سے عثمان نے  خلافت سنبھالی اسی وقت سے انہیں انحرافات کا احساس ہونے لگا اسی لئے یعقوبی لکھتاہے :عثمان کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی مقداد بن اسود کو مسجد میں دیکھا جو نہایت غم و اندوہ کی حالت میں کہہ رہے تھے: مجھے قریش پر بڑاتعجب ہوا جنہوں نے اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہبری اورخلافت کو چھین لیا حالانکہ دین خدا سے سب سے زیادہ آگاہ ،سب سے پہلے ایمان لانےوالے یعنی پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ان کے درمیان تھےانہوں نے اس کام میں امت کی بھلائی اور بہتری کو نہیں دیکھا بلکہ دنیا کو اپنی آخرت پر مقدم کر دیا۔ عثمان کے بعد مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کےہاتھوں پر امت اسلامی کےرہبر کی حیثیت سے بیعت کی اور حضرت علی علیہ السلا م کوجو خدا کی طرف سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ذریعے  مقام امامت وخلافت پر فائز ہوئے تھے پچیس سال کے بعد یہ منصب سپرد کیا گیا ۔بعض افراد کی بےتوجہی سے
اتنے عرصے تک مسلمانوں کی رہبری کو آپ ؑسے سلب کیا گیا اور آپ ؑنے بھی اسلام و مسلمین کے مصالح کی خاطر طاقت سے کام نہیں لیا لیکن افسوس اب بہت دیر ہو چکی تھی اور اتنے عرصے میں حکومت و خلافت بہت سارے انحرافات کا شکار ہو چکی تھی اور بہت سارے امکانات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے اور یوں معاشرے کو قرآن و سنت کےمطابق ہماہنگ بنانا بہت مشکل کام ہو گیا تھا  لیکن حضرت علی علیہ السلام جو رضایت خدا اور اسلام و مسلمین کے مصالح کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے لوگوں کی بیعت قبول کرنے پر مجبور تھے ۔

جیسا کہ آپ  ؑنے فرمایا :{ لو لاحضور الحاضر و قیام الجۃ بوجود الناصر و ما اخذ الله علی العلماء الا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم لالقیت حبلہا علی غارباا و اخرہا بکاس اولہا و لالفیتم دنیاکم ہذہ ازہد عندی من عفطۃ عنز} اگر بیعت کرنےوالوں کی موجودگی اورمدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نےعلماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول نے سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتنا پاتے ۔ لیکن کچھ جاہل ،نادان اور پست فطرت افرادنے کچھ چیزوں کےذریعے عصمت و طہارت کے اس پھلدارتناور درخت کو پھلنے ،پھولنے اور امت اسلامی کی رہبری کرنے نہیں دئیے  ۔

1۔ امت اسلامی پر مسلسل کئی جنگیں تحمیل کی گئیں ۔
2۔ حضرت علی علیہ السلام کو شہید کر کےجامعہ اسلامی کو ایک بے بدیل رہبر سےمحروم کر دیا گیا جیساکہ آپ ؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :{فلما نہضت بالامر نکثت طائفہ و مرقت اخری و قسط آخرون}جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا  تو ایک گروہ نے بیعت تور ڈالی اور دوسرا دین سےنکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا ۔یہاں ناکثین سے مراد اصحاب جمل اور مارقین سے مراد خوارج نہروان اور قاسطین سے مراد معاویہ اور اس کے پیروکار ہیں ۔حضرت علی  علیہ اسلام اس مطلب کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہ دنیا طلبی کےباعث اتنے فتنے برپا ہوئے فرماتے ہیں :گویا انہوں نے کلام خداکو نہیں سنا تھا جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:{تلْکَ الدَّارُالاَخِرَۃُ نجَعَلُہَالِلَّذِينَ لَايُرِيدُونَ عُلُوًّافیِ الاَرْضِ وَلَافَسَادًاوَالْعَاقِبۃُ لِلْمُتَّقِين} آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بلا دستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور {نیک}انجام تو تقوی والوں کےلئے ہے۔ اس کے بعد آپ ؑفرماتے ہیں :خدا کی قسم ان لوگوں نےاس آیت کوسنا تھا اور یادکیاتھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دہج نے انہیں لبھا  دیا ۔{ ولکنہم حلیت الدنیا فی اعینہم و راقہم زبرجہا } اس عرصےمیں اگرچہ شیعیان اپنے عقیدے کے اظہار میں آزاد تھے اور اس سلسلے میں حکومتی افراد اور دوسرےلوگوں سے تقیہ نہیں کرتے تھے۔لیکن مذکورہ حوادث و وقایع کی وجہ سے وہ اپنےعقائد کی نشرواشاعت اور اپنے افکار پر مکمل طور پر عمل نہ کرسکے لیکن حضرت علی علیہالسلام نے اس فرصت سے استفادہ کرتےہوئے اپنے معصومانہ رفتارو کردار کے ذریعے حقیقی اسلام کو لوگوں تک پہنچایا اور اس کےعلاوہ آپ ؑنے بہت سارے علوم اور معارف عالیہ بیان فرمائے جو آج بھی دین اسلام کےگرانقدر علمی و دینی سرمایہ اور میراث شمار ہوتےہیں  بلکہ بشریت و انسانیت کےلئے ایک فرہنگ و تمدن ہیں ۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ الامامۃ و السیاسۃ ،ج1 ،ص 18۔
 2۔ایضا ۔
  3۔شیخ الصدوق ،الخصال ،باب12 ،حدیث 4۔
 4۔تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 67 – 68 ۔
5۔ تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 57۔
 6۔نہج البلاغۃخطبہ شقشقیہ ۔
 7۔ترجمہ نہج البلاغہ :علامہ مفتی جعفر حسین ۔
 8۔قصص،83۔
  9۔نہج البلاغہ ،خطبہ شقشقیہ،

وحدت نیوز (آرٹیکل)  آج وطن عزیز کو ہم سب کی ضرورت ہے، ملک کو درپیش بحرانوں کا سیدھا سادھا حل عوامی بیداری اور جمہور کے شعور میں پوشیدہ ہے۔ لوگ جتنے آگاہ اور بیدار ہونگے، ملک اتنا ہی محفوظ اور مضبوط ہوگا۔ نو مئی 2018ء کو کوئٹہ کے ایک اخبار میں ایک اشتہار چھپا تھا، اشتہار میں سات افراد کی گرفتاری کے لئے تعاون کی اپیل کی گئی تھی، ان سات افراد میں سلمان احمد بادینی عرف عابد بھی شامل تھا۔ جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی کا سربراہ ہے۔ اشتہار میں اس کے سر کی قیمت بیس لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ اشتہار چھپنے کے چند دن بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز کو خفیہ ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ بلوچستان کے علاقے کلی الماس میں خودکش بمبار موجود ہیں، سکیورٹی فورسز نے علاقے کا آپریشن کیا تو  تو دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے تبادلے میں سلمان بادینی بھی ہلاک ہوا،  اور اس آپریشن کی کمان سنبھالنے والے کرنل سہیل عابد بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔

کرنل سہیل عابد کے اہل خانہ سے ملاقات میں آرمی چیف نے اپنے جذبات کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ "جب بھی میرا کوئی سپاہی شہید ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ جدا ہوگیا ہے۔" اُن کا کہنا تھا کہ جوان کی شہادت کی خبر سُن کر رات گزارنا میرے لئے مشکل ہوتی ہے، پاک فوج کے تمام جوان وطن کے دفاع کے لئے کسی بھی قربانی کے لئے پرعزم ہیں۔ دوسری طرف سلمان احمد بادینی عرف عابد ایک سو سے زائد بے گناہ انسانوں کے قتل میں ملوث تھا اور بے گناہ انسانوں کا قاتل کسی ایک مذہب، مسلک یا ملک کا مجرم نہیں ہوتا بلکہ وہ بین الاقوامی طور پر ساری انسانیت کا مجرم ہوتا ہے۔ اس آپریشن میں ایک انسانیت کا ہیرو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور ایک انسانیت کا بدترین دشمن ہلاک ہوا۔ یہ دو کرداروں کی جنگ تھی، دو اصولوں کی لڑائی تھی اور حق و باطل کا معرکہ تھا۔ حق سر دے کر بھی سربلند رہا اور باطل ایک سو افراد کی جان لے کر بھی سرنگوں رہا۔

ہم یہاں پر اربابِ اقتدار و اختیار کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کوئٹہ کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان بھی کرنل سہیل عابد جیسا عزم چاہتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی انسانیت کے دشمن ہر روز بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی جگہ جگہ کالعدم تنظیموں کا راج ہے، ڈیرے میں بہتا ہوا بے گناہوں کا خون پاک فوج کی توجہ چاہتا ہے۔ کوئٹہ میں مادرِ ملت کے تحفظ کے لئے کرنل سہیل عابد کا بہنے والا خون پورے پاکستان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاک فوج ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پاک فوج کے بلند عزم اور حوصلے کی قدردانی کریں اور پاک فوج کا شکریہ ادا کریں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاک فوج کوئٹہ کا امن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ ڈیرہ کے حوالے سے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح ڈیرہ میں بھی جہادی و سعودی و امریکی فنڈنگ کے باعث شدت پسندی کو نہ صرف فروغ ملا ہے بلکہ ڈیرہ اس شدت پسندی کا گڑھ بن گیا ہے۔

جہادی مفتیوں نے ایسا ماحول بنایا ہوا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں صرف ایک فرقے کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، جبکہ درحقیقت ایک فرقے کی آڑ میں پاکستان کو بہترین دانش مندوں، پولیس افیسرز اور بہترین دماغوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اس شدت پسندی کے خاتمے کے لئے جہاں پاک فوج کی توجہ کی ضرورت ہے، وہیں عوامی شعور اور جمہور کے شعور کی سطح کو بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیرہ کے امن و مان کے حوالے سے میڈیا میں مسلسل بات چیت ہونی چاہیے، ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں اور بے گناہ لوگوں کو مارنے والوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے، نیز عوام کو بتایا جانا چاہیے کہ وہ ملکی سلامتی اور امن و امان کے حوالے سے سکیورٹی اداروں کے ساتھ کیسے تعاون کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے مختلف اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے ورکشاپس بھی منعقد کی جانی چاہیے۔ عوامی تعاون، جمہور کے شعور اور پاک فوج کی توجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی جلد امن بحال ہوسکتا ہے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ پاک فوج کے عزم و حوصلے، قربانیوں اور ہمارے ہاں جمہور کے شعوری سفر کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پاکستانی آئین کی بالا دستی کا خواب ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ ان شاء اللہ

 

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree