وحدت نیوز (آرٹیکل)  مشرق وسطیٰ کے ملک لبنان میں حالیہ الیکشن کے بعد میرے حلقہ احباب میں بہت زیادہ بحث دو حوالوں سے بہت زیادہ ہورہی ہے۔ ایک گروہ جمہوریت کے نظام کو طاغوت اور ووٹ دینے کو ربوبیت سے انکار کرنا قراردینے والے سپر انقلابی نظریئے کے افراد وہاں کے شیعہ انقلابی تنظیم حزب اللہ کا فرانسیسی جمہوری نظام میں بھرپور حصہ لیکر جیتنے پر دلائل دے رہے ہیں کہ لبنان اور ہے پاکستان اور۔ یعنی لبنان میں جمہوریت جائز جبکہ پاکستان میں طاغوت اور انکار ربوبیت یعنی شرک۔ اتنا ہی نہیں بلکہ لبنان کے جمہوری نظام میں انقلابی تنظیم حزب اللہ اور اتحادیوں کی جیت پر یہی پاکستانی ماڈل کے انقلابی گروہ بہت زیادہ شاداں بھی ہیں اور اسکو ایرانی ساختہ نظام ولایت فقیہ کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی جمہوریت میں حصہ لینے والے گروہ [جن کو پاکستانی ساختہ انقلابی گروہ انکار ربوبیت کے مرتکب یعنی مشرک قرار دیتے ہیں ] لبنان انتخابات اور حزب اللہ کی روش کو اپنے نظریئے کی فتح قراردیتے ہوئے پاکستان میں جمہوری عمل کا حصہ بننے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی مدلل اور حقائق کے مطابق سمجھ آنیوالی بات ہے کہ حزب اللہ کی کامیابی ایرانی انقلابی فارمولے کی یقینا جیت ہے لیکن وہ شروع دن سے اٗسی فرنچ جمہوری نظام کے اندر رہ کراور اس نظام میں بھرپور حصہ لیکر یہ جیت حاصل کرچکے۔

دوسرا گروہ اس وقت جلیلہ حیدر نامی خاتون کے ہزارہ برادری کی قتل عام کے خلاف احتجاج پر پاکستانی انقلابی عالم دین کے اعتراضات کے سامنے لبنانی عورتوں کی نیم عریاں حالت میں حزب اللہ کی سپورٹ سے موازنہ کررہے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ صرف لباس اور ظاہری حلئے سے کوئی بھی کسی پر فتویٰ نہیں لگا سکتا چاہے وہ مسلمان عورت پاکستان میں ہو یا باہر۔ اور غیر مسلم ہو یا بالفرض غیر مسلم نظریات پر ہوں تو کسی مولوی کا اس پر انگلی اٹھانا ہی نہیں بنتا۔ چہ جائیکہ وہ کوئی جلیلہ حیدر کی طرح اپنے لوگوں پر مظالم کے خلاف اٹھے یا ویسے ہی ایسے حلئے میں رہنا چاہتی ہو۔

دوسری جانب لبنان کی آبادی کو جاننے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہاں کی چالیس سے پچاس فیصد آبادی اہل کتاب عیسائی ہیں۔ جبکہ باقی سنی اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ آبادی کی اسی تناسب کے مطابق وہاں کا جمہوری سسٹم طے کیا ہوا ہے۔ سب سے بڑی آبادی سے عیسائی صدر ہوگا ، اہل سنت وزیر اعظم جبکہ شیعہ اسمبلی کا سپیکر۔ اور اس تقسیم کی وجہ سے وہاں سیاسی جماعتوں کی بجائے سیاسی اتحاد کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جسکی مثال گزشتہ 2009 کی انتخابات اور حالیہ انتخابات سے واضح ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے بعد رفیق حریری کا اتحاد وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوا تھا جو کہ اس بار مشکل لگ رہا ہے۔ وزیر بنے گا سنی مسلمان ہی ، لیکن یہ سنی اکثریت والا اتحاد طے کریگا کہ کونسے اتحاد میں زیادہ سنی سیٹیں ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ سنی وزیر اعظم حزب اللہ کا اتحاد بھی ہوسکتا ہے اور کسی مخالف اتحاد سے بھی۔ اسی طرح صدر سابق دور میں بھی عیسائی تھا جس کو حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی، اور اس بار بھی واضح ہے کہ صدر حزب اللہ اتحاد سے ہی ہوگا کیونکہ حزب اللہ اتحاد میں شامل عیسائی زیادہ نشستیں حاصل کرچکے ہیں جبکہ مخالف اتحاد نے کم ۔ بالکل اسی طرح سپیکر پہلے بھی شیعہ ہی تھا، اب بھی شیعہ ہی ہوگا، جس کیلئے حزب اللہ کا اتحاد تنظیم امل کے ساتھ ہے جن کے پاس تقریبا تمام شیعہ نشستیں موجود ہیں۔ اور دوسرے اتحاد کے پاس ایک بھی نہیں۔

اب لبنان کی آبادی کے تناسب اور انتخابی اتحادی صورتحال پاکستان سے یکسر مختلف ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی وابستگیاں بھی ویسی نہیں جیسی ہمارے ملک میں ہے۔ نہ وہاں حزب اللہ کے حامی سارے شیعہ ہیں، نہ سعد الحریری کے سارے حامی سنی ہیں اور نہ عیسائی سیاسی جماعت میں سارے صرف عیسائی۔ اسلئے حزب اللہ کے حامی عیسائی اور سنی بھی ہیں جس کے شواہد موجود ہیں، اسی طرح دوسروں کے بھی ،لھٰذا حزب اللہ کے جھنڈے کو کسی نیم برہنہ عورت کے ہاتھ میں ہونے سے اسے شیعہ کہنا حقائق کے منافی ہے۔

واضح رہے ماضی میں لبنان فرنچ کالونی رہ چکی ہے ، جیسا آزادی سے قبل پاکستان و ہندوستان برطانوی کالونی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی ماڈرن ترین ماحول لبنان میں آج سے تیس چالیس سال پہلے سے موجود تھا، اور مغربی لوگ چھٹیاں منانے بیروت آتے۔ شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران تنظیم امل اور پھر حزب اللہ کی آبیاری کرنیوالوں میں سے تھے،انکی کتاب "لبنان" کا مطالعہ لبنان کے نو آبادیاتی نظام اور وہاں کے معاشرتی و معاشی اور جغرافیائی ماحول کو سمجھنے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتاب کے مطابق لبنانی شیعہ، خصوصا جنوبی لبنان کے شیعہ اکثریتی علاقے زیادہ تر غریب ہونے کی وجہ سے انکی عورتیں اسی کی دہائی میں بھی ہوٹلوں اور ہر عیاشی کے جگہوں پر کام کرنے پر مجبور تھیں۔ ہماری نسل کی پیدائش سے قبل بھی لبنان میں ماڈرن طور طریقے پاکستانیوں خصوصا گلگت بلتستان کے دیسی لبرلز کی سوچ سے بھی بہت آگے تھی۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی مخلوط ہونے کی بنا پر شرعی امور اور نظریات میں زبردستی ہرگز ممکن نہیں تھی، اسکے باوجود حزب اللہ لبنان نے سیاست، مقاومت اور معاشرت میں وہ کام کرلیا کہ اس ماڈرن لبنان کے شیعہ انقلابی بن گئے،۔ انہوں نے طاغوت قرار دیکر کنارہ کش ہونے کی بجائے ہر شعبے میں کھل کر حصہ لیا۔ وہ زمانہ بھی دیکھا جب شیعہ تنظیم اور حزب کے اختلافات بھی عروج پر رہے۔ لیکن اختلافات کو وہ رخ نہیں دیاگیا جیسا پاکستان میں دیا جاتا ہے۔ حزب اللہ بھرپور حصہ لیکر سیاست ، معاشرت، مقاومت ہر ایک میں مثال بن گئی۔ اسرائیل کو2006 میں سبق سکھایا، اب میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ امریکا بہادر نے دہشت گرد جماعت قراردیا، اور اس دہشت گرد جماعت نے اپنے ملک کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں بھی امریکی اتحاد کو ناکوں چنے چبوا دیا۔نتیجتا لبنان کے شیعہ اور سنی ہی نہیں بلکہ عیسائی بھی اب حزب پر فخر کرتی ہے۔

حزب اللہ ایک دم سے اپنے تمام حامیوں اور سپورٹر خواتین کو یقینا چادر نہیں اوڑھا سکتی، نہ ہی وہ ان سب کو زبردستی مسلمان بناسکتی ہے، لیکن نظریاتی طور پر اپنے آپ کو سب کیلئے مقبول عام بنانا یقینا معجزے سے کم نہیں۔ جبکہ ہمارے لوگوں کے نظریات کا یہ حال ہے کہ دیسی لبرلز ترقی کا زینہ عورتوں کی مخلوط تقاریب اور نیم عریانی کو قرار دیتے نہیں تھکتے؟ کس طرح ہم اپنی عورتوں کا مقابلہ ایسے معاشرے کے عورتوں سے کرسکیں گے جو اب سے چالیس سال پہلے بے پردگی و عریانی کی دنگل میں تھے؟ لبنانی مغربی مادر پدر آزادی کا تجربہ کرکے نظریات کی طرف آرہے ہیں، جبکہ ہمارے دیسی لبرل اسی کی دہائی سے پہلے والی لبنانیوں کو اب فالو کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لبنانی بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ فرنچ کالونی میں ذلت و رسوائی تھی، استحصال تھا، جبر وظلم تھا، بے پردگی اور عریانیت تھی، مگر عزت و شرف اگر ہے تو اسلامی اصولوں کی پاسداری، خالص نظریات، اور شجاعت و مردانگی میں ہے جو حزب اللہ نے عملا کردکھایا۔ تبھی لبرل شیعہ و سنی ہی نہیں بلکہ غیر مسلم عیسائی بھی ان کے دلدادہ ہیں۔

تحریر : شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ

حسن و قبح عقلی

وحدت نیوز (آرٹیکل)  علم کلام کےاہم مباحث میں سے ایک حسن و قبح عقلی کا بحث ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن {اچھے} اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبیح{ برے} ہیں ۔ معتزلہ اور امامیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ بہت سے کلامی  مسائل اس بحث پر موقوف ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،خدا وند متعال کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت جیسے خدا کا عادل ہونا،اسی طرح بعض صفات سلبیہ بھی اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد نہ ہونا،خداکا ظلم نہ کرنا وغیرہ ۔ جو لوگ حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ حسن و قبح کے مخالفین انسان کو مجبور اور خداکی عدالت سے انکار کرتے ہیں ۔حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔1۔اسی طرح اسلام سے پہلے ثنویہ ، تناسخیہ و براہمہ بھی حسن و قبح ذاتی کے معتقد تھے۔2۔ دوسری صدی میں کلام اسلامی میں حسن و قبح کی بحث کو ایک خاص مقام حاصل ہوا جس کی بنا پر متکلمین عدلیہ اور اشاعرہ وجود میں آئے۔

حسن و قبح کے  تین معانی ذکر ہوئےہیں:

الف۔ کمال و نقص
حسن و قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن وقبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ مثلا علم حاصل کرنا حسن  جبکہ جہل قبیح ہے۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبیح  ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔

ب۔ ملائمت نفس یا منافرت نفس
مثلایہ منظر خوبصورت ہےیا یہ منظر خوبصورت نہیں ہے ۔ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں کبھی حسن و قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔3۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔

ج۔ استحقاق مدح و ذم
عقلا کے نزدیک فعل حسن کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہےجبکہ فعل قبیح کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ بعبارت دیگر حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا لانا چاہئے اور قبیح وہ ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا نہیں  لاناچاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔ 4۔ پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرےمعنی کی نسبت عدلیہ کی طرف دیتے ہیں یعنی بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ کلی طور پر اس بات سے انکار کرتے ہیں ۔5

شیعہ مذہب میں عدل الہیٰ کی تفسیر حسن و قبح عقلی  کے ذریعےکی جاتی ہے ۔حسن و قبح عقلی سے مراد یہ ہے کہ فاعل مختار سے جو بھی کام سرزد ہوتا ہے وہ حقیقت میں یا مستحسن ہے یا قبیح ،یعنی یا اچھا ہے یا برا ۔انسان کی عقل بعض  کاموں کے اچھے اور برے ہونے میں تمیز کر سکتی ہے  اگرچہ عقل تمام کاموں کےاچھےاور برے ہونے کی شناخت نہیں کر سکتی جس کی بنا پر وہ وحی الہیٰ کی محتاج ہے ۔بعبارت دیگر حسن و قبح عقلی مقام ثبوت اور نفس الامر میں عمومیت رکھتےہیں لیکن مقام اثبات میں افعال کے حسن و قبح کی شناخت کا دائرہ عام نہیں ہے۔یہاں انسان کی عقل محدود پیمانے پر افعال کے حسن و قبح کو درک کرتی ہے ۔ قرآن کریم کی آیات سے مذکورہ مطالب واضح طورپر سامنے آتے ہیں جیساکہ قرآن کریم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماموریت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{ يَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنہاہُمْ عَنِ الْمُنکَر}6۔وہ نیکیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتاہے ۔ اس آیت  کے ظاہر سےیہی معلوم ہوتا ہے کہ افعال حقیقت میں دو قسم کے ہیں جن میں سے بعض معروف { حسن }اور بعض منکر {قبیح}ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف کا حکم دیتے اور منکرات سےنہی کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام  اپنی وصیت میں امام حسن مجتبی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{انہ لم یامرک الا بحسن ولم ینہک الا عن قبیح}7۔اس نے تجھے حکم نہیں دیا مگر اچھی چیز کا اور تجھے منع نہیں کیا مگر بری چیز سے ۔قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر خداوند متعال انسانی عقل و ضمیر کو فیصلے کی دعوت دیتاہے یعنی انسانی عقل بعض افعال کے {خواہ وہ نظری ہوں یا عملی } کےحسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےجیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{ ہَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ إِلَّا الْاحْسَان}8۔کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟{ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُون}9۔کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جوجانتے ہیں ان کےبرابر ہیں جو نہیں جانتے ۔

{أَ فَمَن يہَدِی إِلیَ الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يہَدِّی إِلَّا أَن يہُدَی  فَمَا لَکمُ کَيْفَ تحَکُمُون}10۔اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ قابل اتباع ہے یا  وہ جو ہدایت کرنے کے قابل نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ؟تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیسے فیصلے کررہے ہو؟{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فیِ الاَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}11۔کیاہم ایمان لانےوالوں اور نیک عمل کرنےوالوں کو زمین میں فسادبرپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقوی کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں؟

اگر ہم حسن و قبح عقلی کو قبول نہ کریں توہم حسن وقبح شرعی کوبھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ حسن و قبح شرعی کوہم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور عصمت ثابت ہو جبکہ شرعی دلیل سے ان دونوں کو ثابت کرنے سے دور لازم آتا ہے جوکہ محال ہے ۔ اگر ہم  عقل کے اس حکم کو قبول کریں {جو یہ ہے کہ کسی جھوٹے شخص کو معجزہ دینا نیز کسی ایسے شخص کو لوگوں کی ہدایت کےلئےمنتخب کرنا جو خود  خطا کارا و رگناہگار ہو ،قبیح ہے جبکہ خداوند متعال ہر قسم کے قبیح کاموں سے منزہ ہے }تو  پھرہم نبوت اور شریعت کو ثابت کر سکتے ہیں  نیز اسی طریقے سے حسن و قبح شرعی کو بھی ثابت کر سکتے ہیں ۔ تجرید الاعتقاد میں محقق طوسی  لکھتےہیں :اگر حسن و قبح کو ثابت کرنے کا راستہ شرع تک محدود رہے تو افعال کا حسن و قبح کلی طور پر منتفی ہوگا اور شرع و عقل دونوں سے ثابت نہیں ہوگا ۔12۔حسن و قبح عقلی کی اثبات کے بارے  میں متعدد دلائل میں سے نمونے کے طور پرتین دلیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص عدل و انصاف کی خوبی ،ظلم و ستم کی بدی، عہد وپیمان پر پابند رہنےکی اچھائی ،عہدشکنی کی برائی اور نیکی کاجواب نیکی سے دینے کودرک کرتا ہے۔ تاریخ بشریت کا مطالعہ  اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے اور آج تک اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا کہ کسی عاقل انسان نے اس حقیقت کا انکار کیا ہو ۔

 ب: اگر فرض کریں کہ عقل تمام افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے میں کلی طور پر ناتواں ہے اور انسانوں کو تمام افعال کے حسن و قبح جاننے کے لئے شریعت کی طرف رجوع کرناچاہیے توہمیں یہ ماننا پڑے گا  کہ حسن و قبح شرعی بھی قابل اثبات نہیں کیونکہ خود شریعت کے ذریعہ شریعت کو ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے دورلازم آتاہے جوکہ  محال ہے۔اس کے علاہ قرآنی آیتوں  سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی عقل بعض افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اس بنا پر خداوند کریم ،انسانی عقل و ضمیر کوفیصلہ کی دعوت دیتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{افنجعل المسلمین کالمجرمین ۔مالکم کیف تحکمون}13۔کیاہم اطاعت گذاروں کو مجرموں جیسا بنا دیں؟تمہیں کیا ہوگیا ؟ کیسا فیصلہ کر رہے ہو  ۔14


ج:اگر حسن اور قبح عقلی نہ ہو بلکہ شرعی ہو تو  اس صورت میں شارع حسن کو قبیح اور قبیح کو حسن قرار دے سکتا ہے۔اس صورت میں لازم آتا ہے کہ احسان کرنا حسن ہونے کی بجائے قبیح اور برے اعمال قبیح ہونے کی بجائے حسن میں تبدیل ہو جائے جبکہ یہ بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ انسان کی وجدان اور ضمیر  اس بات کی گواہی دیتا  ہے کہ محسن کی مذمت کرنا صحیح نہیں  اسی طرح برے انسان  کی مدح کرنا  بھی درست نہیں ہے ۔15

حسن و قبح کے منکرین اپنی دلیل اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
الف:انسان اپنے افعال میں مجبور ہے ۔جو انسان اپنے افعال میں مجبور ہو وہان عقل حسن اور قبح کا حکم نہیں لگاسکتی ہے ۔ 16
ب:اگر جھوٹ  بولنے میں  ذاتی قباحت موجود ہو  تو بعض اوقات  بعض مصالح کی خاطر جھوٹ بولنے کو قبیح تصور نہیں کیا جاتا ہے جبکہ جو چیز کسی چیز کی ذات یا لازم صفت ذات ہواس کا جدا ہونا ممکن نہیں ہے۔مثلا جھو ٹ بول کر نبی کی جان کو ظالموں سے  بچائے ۔اگرجھوٹ بولنے میں  ذاتی قباحت ہوتی تو  اس مقام پر جھوٹ  بولنےکو  قبیح  ہوناچاہئے تھا ۔بنابرین حسن و قبح ذات کا حصہ نہیں ہیں یا ذات  کے صفات لازم میں سےنہیں ہیں۔17
 حسن  و قبح کے منکریں کے لئے جواب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں خود مختار و آزاد ہے ۔اسی طرح اگر کسی اہم مصلحت کی خاطر جیسے نبی کی جان بچانا اگر جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو اس سے جھوٹ کی ذاتی قباحت ختم نہیں ہوتی بلکہ صرف اس اہم مصلحت کی خاطر اس شخص کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے۔18


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1.    محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔
2.    شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱
3.    شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔
4.    شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ؛ میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ، شرح المواقف،ض8 ص 181۔
5.     جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔
6.    اعراف،157۔
7.    نہج البلاغۃ  ،نامہ،31۔
8.    الرحمن،60۔
9.    زمر،9
10.    یونس،35۔
11.    ص،28۔
12.    تجرید الاعتقاد،محقق طوسی۔
13.    قلم،35- 36۔
14.    جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ، ص 140۔
15.    جعفرسبحانی،الہیات ص 246
16.    قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص185۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
17.     قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص189۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
    18۔    علامہ  بہبہانی الفوائد الحائریہ، ص 372۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انسانیت محدود نہیں ہو سکتی، انسانیت کی کوئی حدود نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ  تمام انسان ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں،  اور جب انسانوں میں انسانی شعور درجہ کمال کو پہنچ جائے تو پھر انسان  دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے کو  اپنا فریضہ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مہذب قومیں ،جنگلی حیات اور آبی حیات کے  تحفظ کے لئے بھی  ریلیاں نکالتی ہیں اور  کتابیں چھاپتی ہیں۔ ملکہ کوہسار مری میں سیاحوں کے ساتھ جو بد اخلاقی اور بدتمیزی کے واقعات پیش آئے ، یہ جہاں بھی پیش آتے ہم ان کی اسی طرح مذمت کرتے اور بحیثیت قوم  ہر ممکنہ طریقے سے اس بد اخلاقی ، توہین اور اہانت کے خلاف احتجاج کرتے۔ سوشل میڈیا پر جاری یہ احتجاج اہلیانِ مری کے خلاف نہیں بلکہ ان کے اس منفی رویے  اور گھٹیا اخلاق کے خلاف ہے جس سے انسانیت کی تذلیل ہوئی ہے اور ہمارے دینی و قومی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ہم چاہے ملک کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں یہ ہماری دینی و ملی زمہ داری ہے کہ ہم غلط کو غلط کہیں۔ مہمانوں کے ساتھ ناروا سلوک، بدتمیزی، گالی گلوچ اور بدا اخلاقی کی مذمت کرنا ہم سب کے اجتماعی شعور کی دلیل ہے۔ اگر  سوشل میڈیا پر یہ طوفان بدتمیزی یونہی جاری رہتا ہے اور اہالیان مری گالی گلوچ سے باز نہیں آتے  تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ مری سے باہر بھی سرایت کرے اور ردعمل کے طور پر ملک کے دیگر مناطق میں بھی مری کی مصنوعات ، ہوٹلوں اور تجارتی  پوائنٹس کا بائیکاٹ کیا جائے۔

دوسری طرف یہ واقعہ بھی انتہائی افسوس ناک ہے کہ جس میں وفاقی وزیرد اخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے،ایک  کارنر میٹنگ کے اختتام پر احسن اقبال جب باہر آرہے تھے  تو  ایک شخص نے پستول سے ان پر فائرنگ کردی ایک  گولی احسن اقبال کے بازو پر لگی ، حملہ آور کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا،میڈیا  کے مطابق حملہ آورنے کہا  ہے کہ احسن اقبال نے ختم نبوت کے حوالے سے جو بیانات دئیے تھے ان کی وجہ سے وہ پہلے سے ہی احسن اقبال پر حملے کے لیے  کسی موقعے کی تلاش میں تھا ،آج جب احسن اقبال عیسائی کمیونٹی کی تقریب میں آئے تو اس نے موقع پا کر حملہ کردیا ۔

اس سے پہلے ایک محفل میں ایک صاحب نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جوتا دے مارا تھا۔ راقم الحروف کسی طور بھی وزیرداخلہ احسن اقبال یا میاں نواز شریف کا حامی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انسان ہونے کے ناطے یہ محسوس کرتا ہے کہ  گھر آئے مہمان پر حملہ آور ہونا، گولی مارنا، گالی دینا یا جوتا مارنا کسی طور بھی  قابلِ فخر نہیں ہے۔ مذکورہ بالا واقعات  اس حقیقت  کی غمازی کر رہے ہیں کہ  ہمارے معاشرے میں عدمِ برداشت ، رواداری اور حُسنِ اخلاق جیسی صفات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگوں میں قانون سے لاپرواہی، باہمی عدمِ برداشت حتی کہ مہمانوں سے بھی  برا سلوک  عام ہوتا جا رہا ہے، یہ سب کچھ ویسے ہی نہیں ہو رہا بلکہ اس کے پیچھے ہمارے انہی سیاستدانوں اور انتظامیہ والوں کا ہی عمل دخل ہے۔ جب تک معاملات حد سے زیادہ بگڑ نہیں جاتے تب تک ہمارے ہاں بگڑے ہوئے مسائل کو قابلِ توجہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔

ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اخلاق پر نظرِ ثانی کریں چونکہ عوام سیاستدانوں اور خصوصاً حکمرانوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں،جب حکمران اور سیاستدان الزام تراشی اور بہتان تراشی کی زبان استعمال کریں گے تو عوام سے مہمان نوازی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ بعض لوگ مری کے مسئلے کو سوشل میڈیا میں لے کر آئے ورنہ لاشیں گرے بغیر تو یہاں نوٹس لینے کا رواج ہی نہیں، ملک میں عرصہ دراز سے ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور اب جب گولیوں  اور جوتوں نے  سیاستدانوں  کا رخ کیا ہے تو انہیں خیال آیا ہے کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔ بحیثیت قوم ہم سب کو چاہیے کہ متشدد رویوں اور بداخلاق لوگوں کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں۔ متشدد اور اخلاق باختہ لوگوں سے بائیکاٹ ہی مہذب قوموں کی زندگی کی علامت ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  ہم دائروں میں رہنے والے لوگ ہیں، ہم ہر وقت اپنے گردمذہب ، مسلک، علاقے، قوم ، زبان،رنگ اور صوبے  کا دائرہ کھینچے رکھتے ہیں، ہمارے اپنے یہ کھینچے ہوئے دائرے حقیقی دنیا سے کوسوں دور ہوتے ہیں، ہم نے خود سے ہر چیز کی ایک خود ساختہ تعریف کر رکھی ہوتی ہے اور اسی تعریف کے دائرے

کے اندر ہم گھومتے رہتے ہیں، کبھی کبھی ہمارا اپنا ہی کھینچا ہوا فرضی دائرہ اتنا موٹا اور ضخیم ہوجاتا ہے کہ ہم اس دائرے کو ہی سب کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ہمیں سو فی صد یقین ہوتا ہے کہ ہم بغیر مطالعے اور تحقیق کے جوکچھ سمجھتے ہیں وہ صحیح ہے اور جو انجام دیتے ہیں وہ واجب ہے۔

اس خود ساختہ دائرہ سازی کے عمل کی وجہ سے ہمارے اندر کی دنیا میں تاریکی اور باہر کی دنیا میں گھٹن ہے، ضرورت اس مرکی ہے کہ ہم اپنے کھینچے ہوئے دائروں پر پاوں رکھیں، خواہ مخواہ کی تاریکی سے باہر نکلیں اوربات چیت و  مکالمے کی فضا کو فروغ دیں۔ جب ہم اپنے ہی کھینچے ہوئے دائرے سے شعوری طور پر

باہر نہیں نکلتے تو پھر لال مسجد اسلام آباد اور سانحہ مسجد  راجہ بازا رراولپنڈی  جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔

لال مسجد اور راجہ بازار راولپنڈی مسجد کے کرداروں کو دیکھیے تو تعجب ہوتا ہے کہ لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دے کر ابھارنے والے یا تو برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یا پھر اپنے ہی فرقے کے لوگوں کو خود سے قتل کرتے ہیں۔

یہ ہے  اندھی دشمنی، بغض، حسد اور بغاوت کا دائرہ۔ جب تک ہم ان دائروں کے اندر محدود رہیں گے ، ہم مسائل حل کرنے کے بجائے بڑھاتے رہیں گے۔

اہلیان ِپارہ چنار اور ہزارہ کمیونٹی کا یہ امر خوش آئند ہے کہ انہوں نے قبائلی و مسلکی دائرے میں بند ہوکر ہتھیار اٹھانے کے بجائے قومی دھارے میں شامل ہونے کو ترجیح دی  اور قومی اداروں کے ساتھ مکالمے اور گفتگو کو  وجود بخشا۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگر ہم چھوٹے چھوٹے دائروں سے نکل کر قومی دھارے میں نہیں آئیں گے تو ملک و قوم کے دشمن ہمیں پاکستان اور پاک فوج کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے۔ قومی دھارے میں شامل ہوتے ہی انسان جو سب سے پہلی چیز سیکھتا ہے وہ رواداری اورمدمقابل کا احترام ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں  ابھی تک ایک اقلیت  ایسی موجودہے جو قومی دھارے، رواداری اور مدمقابل کے احترام سے غافل ہے۔ گزشتہ  شب جب ہزارہ کمیونٹی قومی اداروں کے ساتھ مکالمے میں مصروف تھی اور امت مسلمہ شبِ برات کی عبادات و مناجات میں مشغول تھی  اور ملک و قوم کی سلامتی کے لئے دعائیں

کر رہی تھی ، اس وقت بھی ایک اقلیت  لٹھ لے کر لوگوں کے  پیچھے پڑی ہوئی تھی کہ خبردار شبِ برات منانا کفر اور بدعت ہے۔

تعجب ہے کہ عید میلاد النبی ﷺ ہو، یا شب برات یا چودہ اگست یہ لٹھ برادار لوگوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں حالانکہ اسلام ہمیں رواداری کا درس دیتا ہے۔ رواداری یہ ہے کہ دوسرے مذاہب و مسالک اور مکاتب کو ان کے افکار و عقائد کے مطابق نہ صرف یہ کہ جینے کا حق اور آزادی دی جائے بلکہ ان سے اظہار یکجہتی کر کے انہیں خوش

بھی کیا جائے۔

غیرمسلم دنیا باہمی رواداری میں ہم سے کس قدر آگے ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں بعض غیرمسلم اکابرین، مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں۔

متشدد رویوں، گالیوں، کفروشرک کے فتووں سے کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا اور کسی کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ہم جس ملک اور ماحول میں جی رہے ہیں اس میں اصلاح کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم رواداری اور حسنِ تعامل سیکھیں۔

آج ہزارہ برادری کو پوری پاکستانی قوم کے درمیان جو شرف، عزت اور وقار حاصل ہے اس میں ان کی روداری اور برداشت کا بہت عمل دخل ہے۔ حکومت پاکستان کے اعلیٰ عمائدین کا کوئٹہ جانا اور ہزاراہ کمیونٹی سے اظہار محبت کرنا در اصل ہزارہ برادری کے صبر، حوصلے اور حسنِ اخلاق  کا ہی صلہ ہے۔

آج ہم سب کے لئے ہزارہ نمونہ عمل ہیں، ہمیں ان سے مظلوم رہ کر فاتح بننا سیکھنا چاہیے، آج تاریخ میں ہزارہ برادری نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ تلوارکو کردار سے اور گولی کو اخلاق سے شکست دی جا سکتی ہے۔

آج پوری پاکستانی قوم ہزارہ برادری کے صبر و استقلال کو سلام پیش کرتی ہے اور ان سے اظہار یکجہتی کرتی ہے چونکہ  مسئلہ ہزارہ اور غیر ہزارہ کا نہیں مسئلہ اخلاقی اقدار، انسانیت، شرافت ، پاکستان کی سالمیت اور رواداری کا ہے۔

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)  یکم مئی  یعنی یومِ مزدور، اس روز کو یومِ مزدور کے عنوان سے منانے کا  آغاز ۱۸۸۶؁سے ہوا،  یہ دن  امریکہ کے شہر  شکاگو کے محنت کشوں کی یاد کے ساتھ ساتھ  دنیا بھر کے مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔تاریخ حقائق کے مطابق صنعتی انقلاب نے امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کو بہت بڑھا دیا تھا،  ،مزدوروں سے بے تحاشا کام لیا جاتا تھا، جس پر مزدوروں نے شکاگو میں  ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ، مظاہرے میں  یہ مطالبہ کیا گیا کہ مزدوروں سے کام لینے کی مدت کو آٹھ گھنٹے تک محدود کیا جائے، سرمایہ داروں کی ترجمان حکومت نے مزدور تحریک کو کچلنے کے لئے پولیس سے اندھا دھند فائرنگ کروائی جس سے سینکڑوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوئے اور بہت سارے مزدوروں کو گرفتار کر کے پھانسی دی گئی۔

اس کے بعد ہر سال کو یکم مئی کے روز یومِ مزدور منایا جاتا ہے، وہ ۱۸۸۶؁  کا امریکہ تھا اور آج ۲۰۱۸ ؁ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ طبقے نے اپنے طریقہ واردات کو بدلا اور پوری دنیا کو اپنا مزدور بنا کر رکھ لیا۔ قدیم مزدور اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ وہ جانتے تھے کہ  کس کی مزدوری کر رہے ہیں جبکہ عصرِ حاضر کے مزدوروں کو یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کس کے مزدور ہیں۔ بے شک آج کا مزدور آٹھ گھنٹے ہی کام کرتا ہے لیکن اس کے صلے میں  اسے صرف اتنی ہی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ بمشکل اپنا پیٹ پال سکے اور اپنے تن کو ڈھانک سکے، پہلے سرمایہ دارای بطورِ نظریہ چند ممالک تک محدود تھی آج ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہے ، آج جو جتنا سرمایہ دار ہے وہ اتنا ہی بے رحم، ظالم اور سفاک ہے، اس ظلم اور سفاکیت کا نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان ماضی کی طرح آج بھی ایک گہری اور وسیع خلیج حائل ہے۔ بہت سارے ایسے سفید پوش بھی ہیں جو اپنی جھوٹی نمود و نمائش کے ذریعے  اپنے آپ کوسرمایہ داروں  کی صف میں شامل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن در حقیقت جو سرمایہ دار ہیں انہوں نے عوام کو اپنا مکمل مزدور بنایا ہوا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب ملک کے حکمران ارب پتی ہیں، لوگ ایک انجکشن کی قیمت ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں جبکہ حکمران اپنے علاج کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے جاتے ہیں، عام آدمی کےلئے اور ایک سرمایہ دار کے بچے کے لئے تعلیمی نظام مکمل جداگانہ ہے۔عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور سرمایہ دار منرل واٹر سے نہاتے ہیں۔۔۔ اب اس دور میں ہمیں مزدور ہونے کے جدید معنی کو سمجھنا ہوگا، آج ہروہ شخص مزدور ہے  اور اس کے حقوق کا استحصال ہورہا ہے جس کے لئے معیاری تعلیم کا بندوبست نہیں، اس کی غیر معیاری تعلیم ہونے  کے  باعث اس کے لئے  اچھے روزگار کے مواقع میسر نہیں اور اچھا روزگار نہ ملنے کی وجہ سے وہ شدید محنت کے باوجود قلیل آمدن پر گزاراہ کرتا ہے اور بمشکل اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔جسکے پاس محنت کے باوجود  علاج کے لئے پیسے نہیں اور پینے کا صاف پانی میسر نہیں وہ یقینا جدید سرمایہ کاروں  کا مزدور ہے۔

جدید سرمایہ کاروں نے صرف قلیل تنخواہ کے ذریعے ہی لوگوں کا استحصال نہیں کیا بلکہ دینی مقدسات کے نام پر بھی  لوگوں کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنے مزدوروں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ ایک ایسی  حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ ۱۸۸۶؁ میں  شکاگو میں گولیاں چلوانے والے امریکہ نے آج پوری دنیا میں بارود اور جنگوں کا جال بچھا رکھا ہے، داعش، القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سب اسی کے مزدور ہیں، پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے بعض  دینی مدارس کو ان مزدوروں کی ٹریننگ کے لئے استعمال کیا گیا اور آج یہ مزدور پوری دنیا میں امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہوں نے دنیا بھر میں ہنستے بستے اسلامی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا  ہےاور اب انہی کے نام سے امریکہ دیگر ممالک کو ڈرا ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کررہا ہے۔ مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانا یہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین چال ہے۔ آج یمن، بحرین، شام، عراق  اور افغانستان کا حال ہمارے سامنے ہے، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا منصوبہ ہے کہ اپنے مزدوروں سے مسلمان ممالک کو تباہ کرو اور پھر اپنی کمپنیوں کے ذریعے ان ممالک  کی تعمیرِ نو کے نام پر سرمایہ بناو۔

اب یومِ مزدور کے موقع پر  جہاں مزدوروں کے دیگر حقوق کے لئے آواز اٹھنی چاہیے وہیں مسلمان جوانوں کو اسلحہ بردار مزدور بنانے کے خلاف بھی آواز بلند ہونی چاہیے۔یقینا وہ دینی مدارس اور سیاستدان قومی مجرم ہیں جن کی وجہ سے مسلمان نسل سرمایہ داروں کی مزدور بنی، ایسے علما، مدارس اور شخصیات کے خلاف یومِ مزدور کے موقع پر ضرور صدا بلند ہونی چاہیے جنہوں نے سرمایہ داروں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے امت مسلمہ  کے جوانوں کو سرمایہ داروں کا مزدور بنایا۔ یہ حالات اور وقت کا تقاضا ہےکہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے قدیم جرائم کے ساتھ ساتھ جدید جرائم کے بارے میں بھی عوام کو شعور اور آگاہی  دیں۔ اگر ہم سرمایہ دارانہ نظام کا جدید چہرہ لوگوں کے سامنے نہیں لاتے تو پھر بے شک ریلیاں نکالتے رہیں اور کالم لکھتے رہیں در حقیقت  ہم سب سرمایہ داروں کے مزدور ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی  کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی  ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی {عج}کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ{عج} کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی { الصواعق المحرقہ}سید جمال الدین{روضۃ الاحباب}ابن صباغ مالکی {الفصول المہمۃ}سبط ابن جوزی{تذکرۃ الخواص }۔۔۔۔۔ وغیرہ۔امام زمانہ{عج}کی غیبت کےمنکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کاان کے درمیان موجود ہوناضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو ۔

 ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا  اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلا جواب:امام زمانہ{عج}کی غیبت اور آپ{عج}کا شیعوں  کے امور میں تصرف نہ کرنے کےدرمیان کوئی ملازمہ نہیں ہیں ۔  قرآن کریم انسان  کے اولیاء خدا سےبہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے ۔ بنابریں عصرغیبت میں بھی امام زمانہ{عج}کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ {عج}کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ {عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی  چیزمانع نہیں ہے ۔ امام زمانہ {عج} کالوگوں کےامور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ {عج}کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں  ہیں ۔محقق طوسی  تجرید الاعتقاد میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف و تصرفہ لطف آخر و عدمہ منا}امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا  ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے ۔ {یعنی امام زمانہ {عج}بھی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا لیکن پھربھی وہ امت کے لئے فائدہ

مند ہیں}

دوسراجواب: امام{عج} کے پیروکاروں کا امام{عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ آپ{عج}تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ{عج}کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہو اور وہ آپ{عج}کےوجود سےفیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ{عج} کےوجودکے تمام آثار و برکات سےبہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اورشائستہ افراد کی آپ{عج }کےساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے ۔

تیسرا جواب: امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اوربلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعےسے یہ کام انجام دیتے تھے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنےنمائندے معین فرماتے تھے جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے۔اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ  کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا ۔ اسی وجہ سے امام زمانہ{عج}بھی اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی رہبری کرتےہیں جیساکہ غیبت صغری کے زمانے میں آپ {عج} نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبری کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں۔

چوتھا جواب: شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔بے شک یہ اعتقاد{ کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتےلیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ {عج} کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ{عج} کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے }  انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
پانچواں جواب:امامت کے اہداف میں سےایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے ۔امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنےوالے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔واضح ہے کہ انسان کا اس طرح  ہدایت سے ہمکنار ہونےکے لئےضروری نہیں کہ وہ  امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے  ۔ گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ {عج}کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے ۔اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرمند نہیں ہوتا ہےلیکن اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہے ۔بہر حال امام زمانہ{عج} کے وجود کے آثاروبرکات سے بہرہ مند نہ ہونےکا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کافراہم نہ کرنا ہے  جس کی وجہ سےلوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام،کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سےاس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی آپ {عج} کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:{واما السبب غیبتہ فلایجوز ان یکون من الله سبحانہ و لا منہ کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظہوریجب عند زوال السبب} لیکن یہ جائزنہیں کہ امام زمانہ{عج} کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ{عج} کی طرف سے ہوجیسا کہ آپ جان چکے ہیں پس اس کی وجہ خود عوام {لوگ }ہیں کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہےاور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی توظہور واجب ہو جائے گا ۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ{عج}کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثا رتھےلیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجودہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ایک لحظہ کےلئےبھی زمین حجت خدا سے خالی ہوتووہ اپنے اہل سمیت  نابود ہو جائے گی۔ {لو لا الحجۃ لساخت الارض باہلہا}یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہےجو کہ بعض دعاوٴںمیں موجود ہے:{بیمنہ رزق الوری و بوجودہ ثبتت الارض و السماء}امام زمانہ{عج}کے وجود کی برکت

سے ہی موجودات رزق پا رہے ہیں
اورآسمان و زمین بر قرار ہیں ۔  

 امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ  ہیں ،خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہیں امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوںتک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔لہذا امام زمانہ{عج}کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ{عج} کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہےکہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں ۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی


حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت ۔
   2۔کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485۔
   3۔الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298۔
   4۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
   5۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
   6۔نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپایگانی،ص 148 ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree