وحدت نیوز (آرٹیکل) الیکشن ۲۰۱۸ میں عمران خان واضح برتری کے ساتھ سب سے آگے ہے، انتخآبی نتائیج نے تمام سیاسی جماعتوں کے چاروں شانے چت کر دیے ہیں،اب عمران خان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی، کے پی کے اور وفاق میں اپنی حکومت تشکیل دے سکتا ہے۔ عمران خآن نے الیکشن کے بعد جو خطاب کیا ہےاورجس طرح اپنے مقصد کو پیش کیا یہ عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھا، اس انتخابات کی سب سے بڑی کامیابی اور شفافیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بہت سے پرانے اور بڑے بڑے کھلاڑی میدان سے آوٹ ہوگئے ہیں، ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے بعض حلقے جن کو ان تنظیموں کا گڑ سمجھا جاتا تھآ وہاں سے ان کو شکست ہوئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے انتخابات میں لاکھوں ووٹ لینے والوں کی حقیقت کیا تھی۔ اس الیکشن میں عوام کی واضح ترجمانی ہوئی ہیں، عوام نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم پاکستان کے پرانے سیاسی نظام اور حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ جھوٹے وعدوں اور دعوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔
اس الیکشن میں عوام نے بیداری اور ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی ووٹ کا صحیح استعمال بھی کیا ہے اور پاکستان کے سیاسی نظام میں موجود وطن کے خائینوں کو عبرت ناک شکست دی ہے، جنہوں نے پاکستان کی معیشیت، امن و امان اور ہمارے مستقبل کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ یہاں پر ایک بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہِے کہ اس انتخابات کی شفافیت اور پُرامن طریقے سے کامیابی ہونے میں ہماری سیکورٹی اداروں کی خصوصا پاک فوج، رینجرز اور پولیس کے جوانوں کے خون بھی شامل ہیں جنہوں نے کراچی سے لیکر وزیرستان تک سیاسی جماعتوں کی عسکری وینگز اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکز کو تباہ کر دیا تھا جس کی بدولت کچھ ناخوشگوار واقعات کے سوا پورا ملک پُر امن رہا اور انتخابات بھی وقت پر اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔
یہاں میرا مقصد عمران خان کی حمایت کرنا نہیں ہے لیکن مجھے یہ کہتے ہوِئے بھی کوئی قباحت نہیں ہوتی ہے کہ موجودہ دور کے تمام سیاسی رہنمائوں سے بہتر اب تک تو عمران خان ہی ہے، ہم پُرانے سیاستدانوں کو کئی بار آزماچکے ہیں لہذا اب عمران خان کو بھی موقع دینا چاہئے۔
عمران خان الیکشن تو جیت گئے ہیں لیکن یہ اس کی کامیابی نہیں ہے اصل کامیابی انتخابات جیتنا نہیں بلکہ اپنے کئے گئے وعدوں کو پورا کر کے دیکھا نے میں ہے۔ پی ٹی آئی کی بائیس سالہ سیاست میں سخت ترین امتحان اب شروع ہوا ہے،عوام نے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح انجام دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو اقتدار کی کرسی سونپی ہے اور امید ہے کہ وہ عوام کے امیدوں پر پانی نہیں پھیرینگے۔
اس وقت پی ٹی آئی کو اندرونی و بیرونی طور پر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اندورونی طور پر پہلی ذمہ داری اور چیلنج یہ ہے کہ وزارات کی قلم دان کن کن کو سونپی جائے جو عمران خان اور عوام کے وژن کو سامنے رکھ کر، زاتی مفادات سے ہٹ کر، ملک و قوم کی ترقی کے لئے کام کریں، دوسری ذمہ داری استقامت کا مظاہرہ کرنا اور اندورونی چپقلش سے دور رہنا ہے۔
بیرونی طور پر پہلی مشکل سیاسی مخالفین کی ہے، تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی کی مخالفت کے لئے ساز باز شروع کر دی ہیں تاکہ عمران کو حکومت بنانے میں اور چلانے میں رکاوٹ پیدا کر سکیں ۔ دوسری مشکل پاکستان کی معیشیت کا ہے۔ پاکستان کے قرضے اور پٹرو ڈالر کو کنٹرول کرنا ہے، جب تک پٹرو ڈالر اور قرضوں کے تناسب کو حل نہیں کرینگے عوام کو رلیف نہیں دیا جاسکتا جو کہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ تیسرا چیلنج دہشت گردوں اور ملک کے دشمن عناصر کو قابو کرنا ہے۔ چوتھا چیلنج ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بیلنس کرنا ہے۔ لیاقت علی خان سے لیکر اب تک ہماری خارجہ پالیسی یک طرفہ رہی ہے اور وطن عزیز کی مفادات کو ذاتی مفادات اوراقتدار کے لئے قربان کیا گیا ہے۔ اس وقت دنیا کے افق پر پاکستان کی خارجہ پالیسی انتہائی اہمیت کی حامل ہے خصوصا جب عالمی طاقتوں میں پاور شفٹنگ، سوفٹ وار اور معیشت کی جنگ چل رہی ہے تو دوسری طرف شام، یمن میں جنگ جاری ہے تو تیسری طرف مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر بھی روز بہ روز گمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے وطن عزیز کے مفادات اور پالیسیوں کو واضح اور بیلنس کرنا چاہئے تاکہ ہم دنیا میں طاقتور ہو کر ابھر سکیں۔
یہاں پر ہمارے اوپر یعنی پاکستانی عوام اور جوانوں پر ایک اور بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نے سالوں کی جدوجہد کے بعد آج ایک نئی پارٹی کو اس کے اچھے اہداف کی بناء پر اقتدار تک لے پہنچایا ہے، اب اس پارٹی اور ہمارے منتخب کردہ نمایندوں سے کام لینا بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ کس طرح اُن کے ذریعے ہم اپنے معاشرتی، سیاسی، سماجی اور دیگر مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں بیدار رہنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جب بھی کوئی معاشرہ اچھآئی اور ترقی کی طرف جاتا ہے تو اس کے دشمن متحرک ہو جاتے ہیں تاکہ ان کے درمیان انتشار، بدنظمی، بے اعتمادی اور فساد کی فضاء کو قائم کرسکیں۔ ان حالات میں اگر ہم بیدار نہیں رہے تو ہمارے دشمن کامیاب ہو جاینگے اور ہماری محنت و قربانی ضائع ہوجائے گی لہذا ہمیں اپنے چاروں طرف اپنوں اور غیروں دونوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا کام ووٹ دیکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ جانا نہیں ہے بلکہ معاشرتی و حکومتی کاموں میں ہاتھ بٹانا اور دشمنوں کی سازشوں پر کڑی نظر رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں کبھی مشکلات، ناکامیوں اور خطرات سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ لہذا اگر ہم نے پاکستان کے مستقبل کو بہتر بنانا ہے تو مل جل کر اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو کوئی ہمیشہ کوشش و تلاش کی حالت میں رہتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے کہ خدا اس کو اس کے کئے کی جزا دیتا ہے اور کبھی اس کی کوشش کو ناکام ہونے نہیں دیتا۔
تحریر ۔۔۔ناصر رینگچن
وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان اداس ہے دوستو! انسانوں کو مختلف زاویوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جاتا ہے۔رنگ ، مذہب، نسل، فرقے، زبان اور علاقے کے علاوہ سہولیات کے اعتبار سے بھی انسان تقسیم ہیں۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہوگی کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں جیل جانے والےمیاں نواز شریف کو خرابی طبیعت کے باعث اڈیالہ جیل سے پمز اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے ڈاکٹرمشہود،ڈاکٹرذوالفقارغوری ،ڈاکٹرملک نعیم اورڈاکٹراعجازاختراور ایک سٹاف نرس پرمشتمل ٹیم نے ہفتہ کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں میاں نوازشریف کاطبی معائنہ کیا تھا اورتقریباً سواگھنٹے تک جاری رہنے والے چیک اپ کے دوران ڈاکٹروں نے سابق وزیراعظم کی ای سی جی کی ان کی شوگرچیک کی اوربعض ٹیسٹ کیے۔
کسی بھی قومی سطح کے مجرم کے ساتھ اس سے زیادہ محبت و شفقت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں جیلوں میں موجود قید انسانوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زائد ہے،اس زائد تعداد کی وجہ سے قیدی مختلف بیماریوں کے شکار ہیں اور انہیں بدن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مناسب مقدار میں پانی تک نہیں ملتا۔ ڈاکٹر اور دوائی کی سہولت تو چھوڑیں انہیں سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں ، اس کے علاوہ قیدیوں پر تشدد،کم عمر قیدیوں کو پیشہ ور مجرموں نیز بچوں کو منشیات کے عادی لوگوں کے ساتھ رکھنا، اسی طرح خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، لوڈشیڈنگ اور خوراک کی ناگفتہ بہ صورتحال اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔
یہ ایسے لوگ ہیں جن کے کوئی انسانی یا جمہوری حقو ق نہیں ہیں، ان پر لکھنے یا بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کوئی انسانی حقوق کی تنظیم نہیں جو انہیں پینے کے پانی کی سہولت کے لئےہی آواز اٹھا دے ، جو رکے ہوئے مقدمات اور منجمد فائلوں کو کھلوا دے جو سالوں سے محبوس انسانوں کے مقدمات کی پیروی کرے ۔ ان جیلوں میں بہت سارے جھوٹے مقدمات میں پھنے ہوئے ہیں اور بہت سے اتفاقی حادثات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
یہ اس صدی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس جمہوری دور میں بھی باہر کی آزاد فضا کی شکایتیں اپنی جگہ لیکن جیلوں میں بھی انسانوں کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔جیلوں کی سہولیات پر بھی ایک خاص مافیا قابض ہے ،جوان سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے کارندوں کو جیلوں میں بھی گرم ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔
سنا ہے کہ نیا پاکستان جنم لے چکا ہے، تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جیلوں کے اندر اور باہر بسنے والے انسانوں کے معیارِ زندگی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ کسی جہاندیدہ دوست کا تجزیہ ہے کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اس کے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جائے تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آجائے گی اور ہماری خواہش ہے کہ اس پچاس فی صد میں جیلوں کی اصلاحات بھی اگر شامل ہوجائیں تو یہ آج کے دور کے انسان کا بنی نوعِ انسان پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر وہ ملک جس کی تقدیر کے فیصلے بیرون ملک ہوتے ہوں. وہ ممالک ظاہری طور پر تو آزاد لیکن درحقیقت غلام بن جاتے ہیں. پھر نہ تو انکی کسی سے صلح اپنے قومی مفاد کی بنیاد پر ہوتی ہے اور نہ کسی کے خلاف جنگ کرنے میں قومی مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے.جب سے پاکستان کے افق پر ضیائی آمریت کے سائے میں کرپشن، تکفیریت اور علاقائی ولسانی تعصب کے عناصر نمودار ہوئے اس وقت سے پاکستانی عوام کے لئے امن وسکون اور خوشحالی ایک خواب بن چکے ہیں. اور اگر اس صورتحال کا منصفانہ اور زمینی حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو آپ کو قبول کرنا پڑے گا کہ جو بھی اس عرصے میں کرسی اقتدار کا مالک اور حصے دار رھا یا با اختیار وبا اثر رھا وہ اس بحرانی کیفیت کا ذمہ دار ہے. ہمارا ملک انہیں ممالک میں سے ایک ہے کہ جنہوں نے گزشتہ 40 سال سے اپنی مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار امریکی وسعودی حکمرانوں کی مرضی ومنشاء پر رکھا ہوا ہے. ارباب دانش بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے جیسی صورتحال ملائشیا کی بھی تھی ترقی کی راھوں پر گامزن اس ملک میں جب سعودی مداخلت اور نفوذ بڑھا تو وھاں پر تنگ نظری اور تعصب نے جنم لیا. اور سعودی نواز سابق وزیراعظم نجیب عبدالرزاق نے سعودی ریالوں کے لالچ میں ریاستی اداروں کی طرف سے فرقہ واریت کو پرموٹ کیا گیا. یوں نوبت یہاں تک پہنچی کہ وھاں سعودی ھبہ اور ھدیۃ کے چکر میں سابق وزیراعظم نجیب نے شیعہ مذھب پر عمل کرنا قانونی جرم قرار دیا. جس سے وھاں کے دانشمند سیاسی لیڈرز اور عوام نے گذشتہ ماہ ہونے والے الیکشن 2018 میں مسترد کر دیا. اور اس سے پہلے اس متعصب اور خائن وزیراعظم پر نواز شریف کی طرح کرپشن کے ثابت ہونے پر حکومت سے ھٹایا گیا اور سزاء سنائی گئی اور لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا گیا. اور انتخابات میں محب وطن اور نئے ملائشیا کے موسس مھاتیر محمد کی پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور باقی محب وطن قوتوں کو اپنے ساتھ ملایا جن میں سے ایک شیعہ موثر لیڈر محمد سابو کی پارٹی ہے. آج مھاتیر محمد وزیراعظم اور محمد سابو وزیر دفاع ہیں.
اس ملک کی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آزاد وخود مختار مملکت ہیں. ہم اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک سے دوطرفہ تعلقات چاھتے ہیں. ہم یمن کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھنا چاھتے ہیں اور امارات ،سعودیہ اور قطر کے ساتھ بھی. ہم سعودیہ اور امارات کی خاطر یمن پر مدلط کردہ جنگ کا حصہ نہیں رھنا چاہتے اور 28 جون 2018 کو ملائشیا کے وزیر دفاع سعودی اتحاد سے باضابطہ طور پر نکلنے کا اعلان کیا ہے. یمنی عوام اور انصار اللہ کی طرف سے بھر پور دفاع اور سعودی واماراتی ذلت ورسوائی کے بعد ملائشیا کا اپنی فوجوں کا نکالنا اور اتحاد سے نکلنے کا اعلان اسی کاغذی اتحاد پر ایک اور کاری ضرب ہے. بی بی سی کے مطابق ملائشیا کے انتخابات 2013 کے انعقاد کے ایک ماہ پہلے سعودیہ کی جانب سے سابق وزیراعظم ملائشیا کو مضبوط کرنے کے لئے نجیب عبدالرزاق کو 681 بلین ڈالرز کی مدد کی . یاد رہے کہ پاکستان میں انتخابات 11 مئی 2013 اور ملائشیا میں انتخابات 5 مئی 2013 کو ہوئے تھے. پاکستان میں میاں نواز شریف صاحب کو بھی 5 بلین ڈالرز کا عطیہ سعودی عرب نے دیا تھا.اور نجیب عبدالرزاق کو بھی 5 بلین ڈالرز کے ھبہ وھدیۃ ملک عبداللہ کی طرف سے عطا ہوا تھا. حالانکہ ھدیہ اور عطیہ ناقبل واپسی ادائیگی کہلاتی ہے. جو بعد میں سعودی کی ناراضگی پر ہماری قوم نے ادا کیا. اور اسی طرح ابھی تک ملائشیا بھی 91% تک یہ ھبہ واپس کر چکا ہے. اور کچھ رقم باقی ہے.
اب 25 جولائی کو پاکستانی قوم کا امتحان ہے. نواز شریف اب مجرم ہے ملزم نہیں اور اس کی کرپشن اور ملک سے غداری بھی ثابت ہو چکی ہے. ان تمام تر حقائق کو دیکھنے کے بعد اب پاکستانی قوم کو ثابت کرنا ہے کہ ہم غلام نہیں بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہیں. ہم اپنے ملک میں نہ امریکی مداخلت قبول کرتے ہیں نہ بریطانی اور نہ سعودی وقطری اور نہ ہی ایرانی وترکی بلکہ ہم اپنے قومی وقار اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے علاوہ پوری دنیا سے دو طرفہ احترام متبادل کی بنیاد پر متوازن تعلقات کے خواھاں ہیں. اس بار عوام کرپشن دھشتگردی اور تکفیریت کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر ووٹ دیں گے اور امید ہے کہ غیور قوم کے جراتمندانہ اور حکیمانہ فیصلے سے 25 جولائی 2018 کا دن دہشتگردی وکرپشن مافیا سے نجات کا دن ہو گا
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت شیرازی
وحدت نیوز (آرٹیکل) ریاض ، سعودی عرب کا دارلحکومت ہے، جی ہاں یہ وہی مقام ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے مسٹر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کیا تھا،گزشتہ روز انصاراللہ یمن نے ریاض پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے،انصار اللہ کے مطابق تمام میزائل ہدف پر لگے جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا، ہم جانتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں اس طرح کی متضاد اطلاعات معمول کی بات ہیں۔
انصاراللہ کے زیرکنٹرول المثیرہ ٹی وی کے مطابق میزائلوں نے اپنے اہداف کودرستگی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے ۔ اسی طرح برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ریاض کے اوپر فضامیں زبردست روشنی کے ساتھ چھ زوردار دھماکے ہوئےاور متعدد مقامات سے دھواں بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دیا۔یاد رہے کہ یہ دسمبر ۲۰۱۷سے اب تک ریاض پرہونے والا چھٹا میزائل حملہ ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر متحدہ عرب امارات کی قیادت میں سعودی اتحاد کا ایک بڑا حملہ جاری ہے اور اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے۔ تیرہ جون ۲۰۱۸سےالحدیدہ پر جاری اس حملے میں ابھی تک سعودی اتحاد سوائے انسانی جانوں کے زیاں کے اور کوئی ہدف پورا نہیں کر سکا لیکن دوسری طرف انصاراللہ کے میزائل ریاض کی فضاوں میں پھٹ چکے ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش نے حوثیوں کے اسلحہ اور ان کے ماہر نشانہ بازوں کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے بعد ٹوئٹر پر جو متعدد ٹویٹس کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی اتحاد کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب نے اب تک شام، عراق، بحرین اور یمن میں جہاں بھی مداخلت کی ہے وہاں عمارتوں کے کھنڈرات اور انسانی لاشوں کے سوا کسی مقصد کو حاصل نہیں کیا ہے یا بنی نوعِ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیار شدہ القاعدہ ، طالبان اور داعشی ٹولے بری طرح ناکام اور پسپا ہو چکے ہیں۔
سعودی اتحاد اپنی سابقہ شکستوں کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ یمن پر اپنا تسلط کسی صورت بھی قائم نہیں کر سکتا تاہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے اس نے اس وقت یمن کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔
دوسری طرف اب امریکہ و مغرب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی اتحاد کی کارروائیوں سےکوئی کامیابی حاصل ہونے والی نہیں۔چنانچہ یمن پر حملے کے حوالے سے خود امریکہ و مغرب پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔
سعودی عرب کے سامنے مندرجہ زیل اہم اہداف ہیں جو جنگ کے ذریعے کسی طور بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے:
۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے
۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے
۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے
۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے
اربابِ دانش جانتے ہیں کہ جنگ مزید تباہی و بربادی تو پھیلا سکتی ہے لیکن اس سے سعودی اتحاد کو کوئی کامیابی ملنے والی نہیں، اب سعودی عرب ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہے کہ وہ نہ ہی تو یمن میں آسانی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی یمن سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے، سعودی عرب اگر دیگر ممالک کی طرح یمن سے بھی شکست خوردہ ہو کر نکلتا ہے تو ساری دنیا خصوصاً امریکہ و مغرب کی نگاہوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور دوسرا مسئلہ جو کہ اس سے بھی بڑا ہے ، وہ یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے پیچھے ہٹنے سے انصاراللہ رسماً پورے یمن کی مالک بن جائیگی اور سعودی اتحاد کے مقاصد کے بر عکس منطقے میں ایران اور حزب اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
ریاض کی فضاوں میں پھٹتے ہوئے میزائل جہاں سعودی عرب کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں وہیں اقوامِ عالم کو بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔
سعودی اتحاد کی اس رسوائی اور پسپائی کے عالم میں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یمن میں بسنے والے دوکروڑ سے زائد انسانوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرے۔یمن میں اس وقت جو انسانیت سوز حالات ہیں ان کے پیشِ نظر عالمی برادری کو یا تو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے اور یا پھر یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا۔
تحریر۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان مسلسل امتحانات سے گزر رہا ہے، اس سے پہلے2012 سے2015تک کے عرصے میں بھی پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں موجود تھا۔ اس لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کو عالمی امداد کے حصول، قرضوں اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایف اے ٹی ایف سےمراد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہے۔ اس ٹاسک فورس میں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن سمیت137راکین شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت پر اس ٹاسک فورس کی پابندیوں سے سخت منفی اثر پڑتا ہے۔
پاکستان کا جرم دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنا بتایا جاتا ہے،فروری 2018میں پاکستان کو موثر اقدامات کرنے کے لئے تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی تاہم پاکستان اس سلسلے میں ٹاسک فورس کو مطمئن نہیں کر سکا اور بالاخر اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا جس کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے سے جب بھی کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہے گا تو تمام مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے باوجود اس سےکسی تھانے یا ایئر پورٹ پر پوچھے جانے والے سوالات اب بینکوں میں بھی پوچھے جائیں گے۔
اسی طرح اب پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ تک رسائی اور تجارت کئی گنا زیادہ مشکل ہو جائے گی اس کے ساتھ ساتھ ایل سی ،، جو کہ لیٹر آف کریڈٹ ہے اس کا اوپن کروانا بھی آسان نہیں رہے گا ،باہر سے مال منگوانا یا باہر کو مال بھیجنا یہ سب نیز کہیں سےبھی قرضہ لینا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یعنی ہمارے ساتھ بھی ایتھوپیا ،ایران ، عراق ،شمالی کوریا ، شام اور یمن جیسا برتاو کیا جائے گا۔ اے ٹی ایف کا یہ اجلاس پیرس میں ہوا ، اگرچہ اس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنی ٹیم کے ذریعے عالمی برادری کو منی لانڈرنگ، دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے اقدام سے آگاہ تو کیا لیکن شایدنا تجربہ کار ٹیم کے باعث وہ کسی کو بھی مطمئن نہ کر سکیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ، سعودی عرب ،برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی کوششوں، حمایت اور ووٹوں سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالے جانے کی ایک اہم وجہ حافظ سعید کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان نے حافظ سعید کی تنظیم کو نام بدل کر ایک اور نام سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازات بھی دے رکھی ہے، ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ستمبر۲۰۱۸ میں ہوگا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں پر آہنی ہاتھ ڈالے گا اور ان سے سختی کے ساتھ نمٹے گا یا پھر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہے گا اور اس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کو رکوانے کے لئے دباو ڈالنے والے ممالک خود ہی دہشت گرد ٹولوں کے اصلی موجد ہیں اوران کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خود پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے اصلی ممالک اب اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اور بھارت سے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے پاکستان پر خواہ مخواہ کا دباو ڈال رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے پر بغلیں بجا رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور بین الاقوامی فورمز پر لائق ، سنجیدہ اور تجربہ کار افراد کے ساتھ اپنی ترجمانی کرے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (آرٹیکل) امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کم و بیش ایک سو سالہ تاریخ میں امریکی حکومتیں دنیا کی سب سے بڑی ظالم اور شیطانی حکومتیں ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بد ترین دشمن حکومتیں نظر آتی ہیں، امریکہ کی انسانی حقوق سے متعلق پائمالیوں کی ایک سو سالہ تاریخ کو قارئین کے لئے پہلے ہی متعدد کالمز میں بیان کیا جا چکا ہے جس میں تفصیل کی ساتھ امریکہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں در اندازی سمیت فوجی مداخلت اور حملوں کی داستانیں اور اس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے ان درجن بھر سے زائد ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالیوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ جہاں انسانیت کی بد ترین دھجیاں بکھیری گئیں۔
اگر کسی کو ایک جملہ میں سمجھنا ہو تو اتنا ہی کافی ہے کہ امریکی حکومتیں گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کی سرپرستی میں ملوث ہے اور آج کی دنیا میں بچہ بچہ بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں میں بھی دہشت گردانہ کاروائیوں کے باعث انسانی حقوق کی بد ترین پائمالیوں کا مرتکب ہو تا آیا ہے اور حالیہ دنوں بالخصوص جب فلسطین کے عوام دنیا کے سامنے اپنے حق واپسی سے متعلق مطالبہ کر رہے ہیں تو ایسے ایام میں بھی امریکی امداد کے نام پر اسرائیل کو دیا گیا اربوں ڈالر کا اسلحہ فلسطینیوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا اورجس کے نتیجہ میں سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور متاثر ہونے والوں میں بچے، بوڑھے اور خواتین سمیت صحافی برادری اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے اراکین وغیرہ بھی شامل ہیں۔بہر حال امریکی حکومتوں کی انسانی حقوق سے متعلق پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے بارے میں یوں تو دنیا بھر میں ثبوت موجود ہیں لیکن فلسطین میں امریکی سرپرستی میں اسرائیلی درندگی اور فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالیوں کی داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اعلانیہ ثبوت ہے۔امریکہ کی ہمیشہ سے یہی عادت رہی ہے کہ جب بھی کسی ملک یا حکومت کا تختہ الٹنا ہو اور وہاں پر اپنی من پسند حکومت لانا ہو تو سب سے پہلے ان ممالک کے خلاف امریکی راگ الاپنے کا انداز انسانی حقوق کا نعرہ ہی ہوتا ہے اور ایسے تمام ممالک جہاں جہاں امریکہ نے فوجی دخل اندازی اور حملے کئے اور متعدد مقامات پر دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا اور ان کی مالی و مسلح معاونت کی ، ان تمام کیسز میں ہمیں ایسا ہی نظر�آتا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر ان ممالک پر فوجی چڑھائی کی گئی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ہیرو شیما ہو کہ ناگا ساکی، ویت نام ہو یا افغانستان، عراق ہو کہ شام، لیبیا ہو یا یمن، دنیا کے ہر اطراف میں امریکی اسلحہ اور حکومت انسانی حقوق بلکہ پوری انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے میں سرفہرست نظر�آئی ہے۔حالیہ دنوں امریکی حکومت اور پالیسیوں کا مکروہ چہرہ ایک مرتبہ پھر سے ایسے وقت میں عیاں ہوا ہے کہ جب خود امریکی حکومت اور حکمرانوں کے ہاتھوں میں لاکھوں عراقی و شامی ، فلسطینی و کشمیری، افغانی و لیبی، اور یمن سمیت دیگر مظلوم اقوام و عوام کا خون ہے ۔
دنیا کے ان تمام خطوں میں امریکی سرپرستی میں جاری یا تو دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردانہ کاروائیاں تھیں یا پھر بھارت جیسی بدمعاش حکومتوں کی کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور اس پر امریکی آشیرباد۔ایسے حالات میں دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل UNHRC میں فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے امریکی سرپرستی میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی قلعی کھولنے کا وقت آیا تو امریکی حکومت نے سب سے پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے خود کو نکال کر جہاں ایک طرف اقوام متحدہ میں نمائندگی کرنے والے دنیا بھر کے ممالک کی اقوام کی تذلیل کی وہاں ساتھ ہی ساتھ دنیا کو یہ کھلا پیغام بھی دیا ہے کہ وہ(امریکہ) اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور انسانیت کے خلاف جاری دہشت گردانہ عزائم اور خطے میں جاری فلسطینیوں کے قتل عام پر کسی قسم کی شرمندگی یا اپنے کاندھوں پر بوجھ محسوس نہیں کرتا ہے۔در اصل امریکی حکومت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے اقوام کو انسانیت کے زمرے میں سمجھا ہی نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ خود امریکہ کے اندر بھی تارکین وطن شہریوں کی اولادوں کو ان سے جدا کیا جانا بھی امریکی پالیسیوں کی انسانی حقوق کی کھلم کھلا مخالفت کی دلیل ہے۔تاریخ گوا ہ ہے کہ جب کبھی کسی عالمی ادارے یا بالخصوص انسانی حقوق سے متعقل فورمز پر فلسطین کے عوام کے حقوق کی بات کی گئی ہے تو یہ امریکی شیطانی حکومت ہی ہے کہ جس نے سب سے پہلے فلسطینیوں کے حقوق کی مخالفت کی ہے اور نہ صرف مخالفت بلکہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی ، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے جبری بے دخل کرنے والی، فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت روا رکھنے والی انسانیت دشمن جعلی ریاست اسرائیل کی مدد کے نام پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی دیا ہے جسے اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے ایک لائسنس کے طور پر استعمال کیا ہے۔حالیہ دنوں امریکہ نے خود کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل سے خود کو نکال کر دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ ہی ہے جو دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن اور شیطان ہے ۔دوسری طرف فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام ہیں جو تیس مارچ سے اب تک غزہ اور مقبوضہ فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونی جبری بارڈر اور رکاوٹوں کو ختم کروانے سمیت اپنے بنیادی حقوق کے حصول کا عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جواب میں امریکی اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیلی درندہ افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں پر برسایا جارہاہے جس کے نتیجہ میں اب تک ایک سو پچاس سے زائد فلسطین شہید جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، بہر حال فلسطینیوں کا حق واپسی فلسطین کا نعرہ ایک ایسا نعرہ ہے کہ جس کے سامنے اب امریکہ بھی بے بس ہو کر شکست خوردہ ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے امریکی حکومت کا نکل جانا یا فرار کرنا امریکی پالیسیوں کی خطے میں شکست کا واضح ثبوت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پشتبانی کریں اور قبلہ اول بیت المقدس کے دفاع و تحفظ کی خاطر عملی جد وجہد کاآغاز کریں۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان