The Latest

وحدت نیوز(مٹیاری) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹر ی جنرل علامہ مقصودڈومکی نےسیکریٹری فلاح بہبود عالم کربلائی ، ضلع  مٹیاری کی سیکریٹری جنرل علامہ اختر حسین اور سید فرمان علی شاہ کاظمی کے ہمراہ تعلقہ ھالا یوسی کرم خان نظامانی گاؤن ملوک خان لغاری  میں پیپلز پارٹی کے رہنما وڈیرہ علی احمد نظامانی اور گینگ وار سرغنہ جعفرسہتو کے کارندوں کی جانب سے ایم ڈبلیوایم کے کارکنان اور حامیوں کی املاک پر حملے سے متاثرہ افراد سے  ملاقات کی ،تفصیلات کے مطابق علامہ مقصودڈومکی نے وڈیرے کی لشکر کشی کے نتیجے میں تباہ ہونی والی املاک اور نقصانات کا جائزہ لیا اور متاثرین کی روداد بھی سنی ، علامہ مقصودڈومکی کی آمد کے ساتھ ہی متعلقہ تھانے سے پولیس نفری بھی موقع پر پہنچ گئی اور متاثرین کو انصاف دلانے کے دعوے کیئے، علامہ مقصودڈومکی نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی رہنما علی احمد نظامانی اور جعفرسہتو کے اس ظلم پر مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ان دہشت گرد عناصرکی پشت پناہی کررہی ہے ، انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس واقعے کا فوری نوٹس لے اور لوٹ مارمیں ملوث عناصر کے خلاف فوری قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے وگرنہ مجلس وحدت مسلمین شدید احتجاج پر مجبور ہوگی، علامہ مقصودڈومکی کی آمد کی اطلاع ملتے ہی مخالف گروہ نے مین شاہراہ بلاک کرکے دھرنا دیا اور ایم ڈبلیوایم قائدین کا راستہ روکنے کی کوشش کی بعد ازاں ایم ڈبلیوایم کے صوبائی رہنما عالم کربلائی کی مدلل گفتگو سے شکست کھانے کے بعد انہوں نے راستہ چھوڑ دیا۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملتان کا پیام وحدت کنونشن برائے انتخاب ضلعی سیکریٹری جنرل جامعہ شہید مطہری ؒ میں منعقد ہوا، جس میں ضلعی شوریٰ کے اراکین نے شرکت کی ، اراکین شوریٰ نے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے سید ندیم عباس کاظمی کو آئندہ تین سال کیلئےایم ڈبلیوایم ضلع ملتان کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا، صوبائی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیوایم جنوبی پنجاب علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے نو منتخب سیکریٹری جنرل سے انکے عہدے کا حلف لیا۔

وحدت نیوز(سجاول) مجلس وحدت مسلمین ضلع سجاول  کا پیام وحدت کنونشن برائے انتخاب ضلعی سیکریٹری جنرل جامع مسجد حسینی  میں منعقد ہوا، جس میں ضلعی شوریٰ کے اراکین نے شرکت کی  ، اراکین شوریٰ نے حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے مظفرلغاری کو آئندہ تین سال کیلئےایم ڈبلیوایم ضلع سجاول  کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا، صوبائی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ علامہ مقصودعلی ڈومکی نے نو منتخب سیکریٹری جنرل سے انکے عہدے کا حلف لیا۔ اس موقع پر صوبائی رہنما مختاردایو اور آغا منور جعفری بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) 13مئی سے اسلام آبادپریس کلب کے سامنے شروع ہونے والی بھوک ہڑتال اس وقت ایک بڑی احتجاجی تحریک کی شکل میں سامنے آ چکی ہے،22 جولائی کو اس قومی پلیٹ فارم سے ملک بھر میں بیشتر شہروں میں کامیاب احتجاجی دھرنوں کے باوقار پروگرام سے ایک سنگ میل طے کیا ہے ،مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داران کو ان دھرنوں کے حوالے سے توقع تھی کہ ستر کے قریب مقامات پر یہ منعقد ہو سکیں گے مگر میڈیا ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ 103مقامات پر روڈ بلاک دھرنے بڑی خوش اسلوبی اور پر امن طور پر دیئے گئے،ضلع قصور اور اوکاڑہ کے مشترکہ دھرنے پر ڈی پی او کی طرف سے خصوصی ذاتی دلچسپی کے باعث نامزد ایف آئی آر کاٹی گئی اور کئی ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا گیا ،جو یقینی طور پر پنجاب حکومت اور اس میں شامل تکفیری عناصر کو خوش کرنے کی بھونڈی کوشش ہے،ایک احتجاجی تحریک جس کا دائرہ پورا ملک ہے جو بالکل پر امن ہے ایک پتا بھی نہیں ہلایا گیا،کسی سرکاری یا نجی املاک کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا اور شہریوں کیلئے ایمرجنسی راستے بھی کھول کے رکھے گئے ہیں اس پر امن تحریک کو مشتعل کرنے کی سازش ہے تاکہ تشدد شامل ہو اور عوامی رائے خلاف ہو جائے بہرحال مجلس کی قیادت نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسیران سے فوری ملاقاتیں کیں اور ان کی ضمانتوں کا اہتمام کیا ،ان کے ورثا و لواحقین سے بھی ملاقاتیں کی گئیں اور انہیں حوصلہ دیا گیا،کراچی سے لیکر گلگت بلتستان اور کوئٹہ سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان تک شہر شہر میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں نے بہت سوں کی آنکھیں کھول دی ہیں ،مجلس وحدت نے ثابت کی اہے کہ اس کے پاس سٹریٹ پاور ہے،جسے وہ کسی بھی محاذ پر استعمال کر سکتے ہیں،سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ احتجاج کوئی لاش سامنے رکھ کے نہیں ہو رہا تھا یہ ایک سلجھے ہوئے لوگوں کا شعوری احتجاج تھا جس کے شرکا ء اس ہدف و مقصد سے ہم آہنگ تھے جو قیادت کی طرف سے بیان کیا گیا تھا،22 جولائی کے احتجاج سے قبل 17جولائی کو اس احتجاجی تحریک نے پورے پاکستان میں کامیابی سیخواتین کی ریلیاں نکال کے اپنی طاقت کا لوہا منوایا،پہلے سے طے شدہ خواتین کا احتجاج بلا شبہ ایک کامیاب اور پر شکوہ سلسلہ تھا جس کیلئے یقیناًمجلس کی قیادت اور اس کے ذمہ دران بالخصوص شعبہ خواتین تحسین کے مستحق ہیں،تمام تر نامساعد حالات،وسائل کی عدم دستیابی اور مجموعی طور پر قوم کی تقسیم و تفریق کے باوجود پاکستان بھر میں بلاشبہ جو احتجاج شعبہ خواتین کی طرف سے ہوا ہے اس نے بہت سو کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ یہ جماعت خواتین کا اتنا بڑا سیٹ اپ رکھتی ہے کہ ایک ہی وقت میں اتنے شہروں میں تظاہرات اور ریلیاں نکال لیں۔میرا خیال ہے ان احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال تحریک کو مزید پذیرائی اور تقویت حاصل ہو ئی اور مقاصد کو حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔

پاکستان میں تشیع کے حقوق کی پائمالی،مکتب کے پیروان پر آنے والی آفات اور حکمرانوں کی متعصبانہ پالیسیوں،سیکیورٹی اداروں کی مجرمانہ غفلت ،آئے روز شیعان علی ؑ کا قتل،قاتلوں کو کھلی آزادی اور مظلوموں کی بے بسی کا المناک منظر گذشتہ تین دہائیوں سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے ،اس منظر میں کچھ تبدیل نہیں ہو رہا ،یہ ایک جیسا منظر ہے،ایک جیسے واقعات جو مختلف انداز میں مختلف ایریاز میں ،مختلف ناموں سے واقع ہوتے ہیں ،ان کا سب سے نمایاں پہلو یہ رہا ہے کہ اس کے متاثرین اہل تشیع ہیں،یا کچھ عرصہ سے محبان اہلبیت سنی برادران بھی اس کا شکار ہوئے ہیں،پہلے صرف اہل تشیع کے جلوسوں پر حملے ہوتے تھے اب میلاد النبی کے جلوسوں اور محافل کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے،پہلے صرف مجالس اما م حسین ؑ اور امام بارگاہیں نشانہ بنتی تھیں اب مساجد و دربار بھی نشانہ بنتے ہیں،پہلے صرف ذاکرین و شیعہ علما ٹارگٹ ہوتے تھے اب پیر،نعت خوان اور سنی علما کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے،ایک بات جو قابل دقت و غور ہے وہ یہ ہے کہ دونوں(شیعہ و سنی) کو مارنے والے ایک ہی فکر و مکتب کے پیرو ہیں،جن کی نظر میں یہ دونوں فرقے گمراہ اور بدعتی ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ،اس وقت ملک پر حکمرانی کرنے وال اخاندان اور اس کے قریبی و بااعتماد لوگ ان ممالک کے ساتھ وابستگی نبھا رہے ہیں جن کے ان پر ذاتی احسانات ہیں اور وہ اس ملک میں عالمی استعمار کے بنائے گئے نقشہ کے مطابق حالات کا رخ موڑنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں،شیعہ سنی کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنا اگرچہ استعمار کا منصوبہ ہی ہے مگر اس کیلئے جو ہاتھ استعمال ہو رہے ہیں وہ مقامی ہیں جنہیں حکمرانوں اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ مدد اور حمایت حاصل ہے،قرائن یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں میں تعصب اور متشدد نظریات و سوچ کے حاملان کا غلبہ ہے جو جب چاہتے ہیں یہ آگ بھڑکا دیتے ہیں ،فرقہ پرست اشاروں کے منتظر ہوتے ہیں،ادھر سے اشارہ ملا ادھر آگ و خون کا مکروہ کھیل شروع اور ملک مخلص،ذہین،خدمت گار،سرمایہ ملت افراد سے خالی ہونا شروع ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ چل رہا ہے اور اسے چلانے والے ہاتھ ہی اس ملک کی سلامتی کے ذمہ دار ہیں پھر کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے،ہم گذشتہ پینتیس برس سے مسلسل ا س ہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور چیخ چیخ کے حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ظلم کا شکار ہیں،ہم بے گناہ مارے جارہے ہیں،یہ آگ جو ہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے یہ اس ملک و ملت کیلئے بھی سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے،یہ آگ اگر آج ہمیں جلا رہی ہے تو کل اس کا شکار وہ بھی ہونگے جو اس کو لگانے والے ہیںیا ان کی پشتبانی کرر ہے ہیں یا جو اسے بجھانے کے ذمہ دار ہیں مگرحکمران اس سب کو شائد تماشا سمجھ کے دیکھتے رہے ہیں،ایک آتا ہے اور پھر دوسرا اپنی باری کیلئے جت جاتا ہے بس یہی کچھ ہے،جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ہمارے یہ مطالبات انہیں بہت بھلے محسوس ہوتے ہیں ان سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا مگر اقتدار کی سیڑھی پر چڑھتے ہی یہ سب کچھ انہیں کسی اور اینگل سے دکھتا ہے پھر ہم جو دکھانا چاہتے ہیں وہ نہیں دکھتاا ور ہمارے دن پھر ویسے ہی گذرتے ہیں،ہمارا ماتم و نوحہ یونہی چلتا ہے ہمارے بین اسی شد ومد سے جاری رہتے ہیں۔
ہم صلیبوں پہ چڑھے!

آپ دیکھیں کہ ایک گروہ بلکہ ایک مائند سیٹ کی طرف سے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو جلا کے راکھ بنا دیا گیا،دنیا کے سامنے ہم جن سیکیورٹی اداروں کی اہلیت پر فخر کرر ہے تھے ان سیکیورٹی اداروں کی اہلیت سوالیہ نشان بن گئی،یہاں تک کہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت زیر سوال آ گئی،ہمارے چیخنے چلانے کا اثر ہوا یا نہیں یہ ضرور ہوا کہ عارضی ہی سہی کچھ وقت کیلئے ،کسی نا کسی مخصوص ایریا میں ان ملک دشمنوں کے خلاف کچھ اقدامات بھی سامنے آئے،پھر بات بڑھتی گئی اور جیلوں سے دہشت گردوں کو چھڑوایاگیا اور انہیں ملک بھر میں پھیلا یاگیا انہوں نے ایک بار پھرا س ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہم تو ہر دور میں اس ظلم کا شکار ہوئے، ہمارے قیمتی ترین افراد ہم سے چھین لیئے گئے،ہمیں بسوں سے اتار کے شناختی کارڈ چیک کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا، ہمیں چاروں صوبوں میں نشانہ بنایاگیا،ہمیں بلوچستان میں ہجرتوں پر مجبور کر دیا گیا،ہمیں سرحدکے پی کے میں گھر بار چھوڑنے اور خاندانی جائیدادوں کو اونے پونے داموں8 فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا،ہمیں کراچی اور اندرون سندھ میں ٹارگٹ کیا گیا،ہمیں پنجاب میں چن چن کے مارا گیا،ہمیں گلگت بلتستان میں اس سرزمین پاک سے وفاداری کی سزا دی گئی ،ہمیں مسجدوں میں قتل کیا گیا،ہماری مسجدیں اور امام بارگاہیں اللہ کے مہمانوں کے خون سے رنگین ہوتی رہیں، ہم عبادت کیلئے گھر سے نکلتے تو ہماری لاشیں واپس آ تیں،ہم کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتے تو ہمیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا جاتا،ہم کار پیغمبری کرنے کالج،اسکول،یونیورسٹیز جاتے تو ہمیں دن دیہاڑے خون میں لت پت کر دیا جاتا،ہم لوگوں کی مسیحائی کیلئے اسپتال پہنچتے تو سفاک گروہ ہمیں ادھر ہی مسیحائی کر نے کی سزا دیتے پہنچ جاتے ہم مسیحائی کرتے مارے جاتے رہے،ہم علم کی خیرات بانٹتے مارے گئے ،ہم ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے مارے گئے ،ہم مارشلا ؤں میں ظلم کا شکار ہوتے رہے،ہمیں جمہوریت کے دعویداروں نے ایک ووت کے بدلے میں سولیوں پر لٹکوایا،ہمیں ذبح کیا گیا،ہمیں جلایا گیا ، ہمیں خون میں نہلایا گیا،ہمیں جیلوں میں مروایا گیا،ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے،ہم نے ریاست کے سامنے نہیںآئے،ہم نے فورسز پر اسلحہ نہیں تانا،ہم نے ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کی،ہم استحکام پاکستان اور پاک وطن کی سلامتی کے پیامبر بنے رہے،ہم امن کے گیت گاتے رہے،ہم سلامتی کے بیج اگاتے رہے،ہم محبت کے چراغ جلاتے رہے اورخوشبوؤں کے سفیر بناتے رہے مگر ہمیں نفرتوں کا شکار کیا گیا،ہمیں تعصب کی بدبو سے جواب دیا گیا،ہماری وطن سے محبت کو مشکوک دیکھا گیا،ہماری امن کی کواہش کو کمزوری سمجھا گیا،ہماری اتحاد و وحدت کی پالیسی کو مجبوری گردانا گیا ،ہم کیا کرتے،کسی ملک دشمن کے ہاتھ لگ جاتے،کسی دوسرے کے ایجنڈے پر چل پڑتے،کسی کی لگائی آگ میں کھیل کا حصہ بن جاتے ،نہیں ہم نے ایسا نہیں کیا،ہم نے لاشوں کے درمیاں کھڑے ہو کے بھی ملک کا پتہ تک نہیں توڑا،ہم نے ایک سگنل تک کو نقصان نہیں پہنچایا،ہم نے امنکا راستہ اختیار کیا اور 13 مئی کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے آ کر بیٹھ گئے،ہم نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی اور خاموشی سے ایک طرف آ کے بیٹھ گئے اپنے مطالبات اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا شکوہ کیا،ہم نے متعلقین کو آگاہ کیا،ہم نے اسٹیک ہولڈرز تک اپنی پر امن تحریک کا مقصد پہنچایا مگر ہماری بات نہیں سنی گئی،ہمیں نظر انداز کیا گیا،ہم نے دیکھا حکمران بے حس ہیں،سیکیورٹی ادارء تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہیں،ہم نے اپنی آواز پہنچائی،اپنا نوحہ سنایا،اپنے طالبات کی فہرست پیش کی مگرکسی کے کان پہ جوں تک نا رینگی۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال!
بد قسمتی سے جب ہم نے یہ احتجاجی تحریک شروع کی اس وقت سے پاکستان عجیب صورتحال سے دوچارچلا آ رہا تھا ،ایک طرف دنیا بھر میں پانامہ لیکس کا چرچا اور اس میں شامل حکمران و سیاستدانوں پر سب کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں اورہمارے حکمران،اپوزیشن،اور آج کے دور کا سب سے موثر ہتھیار میڈیا بھی اس کو فوکس کیئے ہوے تھا،دوسری طرف وزیر اعظم کی بیماری کے چرچے اور پھر لندن روانگی کے بعد تمام ملکی معاملات لندن سے چلائے جا رہے تھے ۔ملک پر حکمران خاندان کے افراد اپنے سٹاف سمیت لندن میں وزیر اعظم کی ہمراہی میں پہنچے ہوئے تھے اعتماد کا یہ عالم کہ حکومت کوتین سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود وزیر خارجہ کی جگہ مشیر خارجہ سے کام چلایا جا رہا تھا۔ایسے میں شیعہ نسل کشی پر حکومتی بے حسی اور انصاف کے حصول کیلئے جاری بھوک ہڑتال تحریک تقریباً اتنے زیادہ دن گذر جانے کے باوجودحکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی بے حسی کا شکار رہی ،یاد رہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس نے 13مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے بے گناہ شیعہ قتل عام اور سیکیورٹی اداروں کی زیادتیوں و حکومتی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی تھی جس کا پاکستان بھر میں دنیا بھر میں اثر ہوا، یہ احتجاج پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکل کے امریکہ،یورپ،انگلینڈ اور مغربی ممالک تک جا پہنچا ہے،پاکستانی میڈیا اس طویل ترین بھوک ہڑتال کو نظر انداز کیئے ہوئے ہے ،یہ بھوک ہڑتال اب ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے جہان روزانہ ان بھوک ہڑتالی کیمپوں میں مختلف قسم کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں،بھوک ہڑتال کیمپس میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہے،یہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے،ان بھوک ہڑتالی کیمپس میں رمضان المبارک میں سحر و افطار کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، یہاں دعائیں اور مناجات اور عزاداری کے پروگرام ہوتے ہیں،اسلام آباد کے علاوہ پریس کلب لاہور،ملتان،کراچی،حیدر آباد،سکردو،گلگت،کوئٹہ،اور بیسیوں چھوٹے بڑے شہروں میں بھوک ہڑتال کیمپوں اور جلوسوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ان بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شہدا کی فیملیز بھی تشریف لاتی ہیں جن کے آنے سے لوگوں کے جذبات و احساسات قابل دیدنی ہو جاتے ہیں۔

یہ بھوک ہڑتال اب ایک بڑی قومی احتجاجی تحریک کی شکل میں سامنے آ چکی ہے اس کا اگلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ،جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ذمہ دار اداروں اورحکمرانوں کو اس اہم مسئلہ کی جانب متوجہ کیاہے،اور بعض اطلاعات کیمطابق مطالبات منوانے کیلئے شائد کچھ چینل فعال ہو چکے ہیں۔یاد رہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے چوبیس شیعہ جماعتوں اور بعد میں ذاکرین کی ایک ملک گیر کانفرنس میں مطالبات کی منظوری کیلئے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا جسے قومی حلقوں نے بڑی شد و مد سے خوش آمدید کہا سوشل میڈیا پر قوم کے جوانوں میں اس لانگ مارچ کے حوالے سے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے جس کا علان علامہ راجہ ناصر عباس نے کر رکھا ہے اور وہ اس کو کامیاب بنانے کیلئے ابھی سے آمادہ و تیار نظر آتے ہیں۔17 جولائی کو ملک بھر میں خواتین کے احتجاج کی کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ ملک کی اہم شاہراہیں 22جولائی کو بند کر نے کا امتحان کامیابی ہمکنار ہوا ہے اگلا مرحلہ اور راؤنڈ میں اسلام آبادمیں 7اگست کو برسی شہید حسینی کے عنوان سے ہونے والا ملک گیر اجتماع ہوگا جو ان تمام مرحلوں میں عوامی شرکت کا پہلا پروگرام ہو گا۔
عالمی سطح پر بازگشت!

شیعہ نسل کشی اور پاکستانی ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی و غفلت کیخلاف علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی حمایت و یکجہتی میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرکے سامنے المصطفی فاؤنڈیشن کے تحت مولانا سید ظہیر الحسن نقوی کی زیر قیادت تین روزہ علامتی بھوک ہڑتال کی گئی۔اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بھوک ہڑتال میں امریکہ کی تنظیمیں الخوئی فاؤنڈیشن، جعفریہ کونسل یو ایس اے ۔المہدی فاؤنڈیشن،جے۔اے۔این۔اے،مسلم کانگریس،البقیع،خاتون جنت عزاداری،غلامان مہدی بھی شریک بھی شریک ہوئیں مومنین کی بڑی تعداد بھوک ہڑتال میں شریک رہی۔یو این ہیڈ کوارٹرکے سامنے بھوک ہڑتال کرنے والے مومنین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مکتب تشیع کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ،حکمرانوں کو اقتدار کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں،ریاستی ادارے بھی اس مکتب کے پیروکاران کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ ان کی طرف سے ایسے عناصر کی سرپرستی کی دل دکھا دینے والی خبریں مل رہی ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ بے حس حکمرانوں اور متعصبانہ کردار کے حامل ریاستی اداروں کے خلاف عالمی برادری کے سامنے احتجاج سے اپنی آواز کو پہنچایا جائے۔یاد رہے کہ قبل ازیں کچھ لوگ اس سے پہلیاقوام متحدہ کے دفتر جنیوامیں بھی احتجاج کر چکے تھے،جبکہ کویت میں پاکستانی سفیر سے کمیونٹی ممبران نے اپنی طرف سے علامہ راجہ ناصر کے مطالبات منظور کیئے جانے کے حوالے سے یاد داشت پیش کی ۔تہران میں مقیم پاکستانی سفیر کو بھی مجلس قم کے ذمہ داران اور خارجہ امور کے مسؤلین نے ملاقات کی اور بھوک ہڑتال کے حوالے سے حکومتی رویہ پر احتجاج کیا اور ملت جعفریہ کو دیوار سے لگانے ،انصاف فراہم نہ کرنے کے خلاف یاد داشت پیش کی اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا۔انگلینڈ میں میاں نواز شریف کے مشہور زمانہ فلیٹس رہائش گاہ کے سامنے لنڈن میں مقیم مومنین نے علامہ علی رضا رضوی کی قیادت میں ایک مظاہرہ بھی کیا جس کا مقصد حکمرانوں پر واضح کرنا تھا کہ علامہ راجہ ناصر اکیلے نہیں بلکہ اس کاز کیلئے پوری قوم ان کیساتھ ہے اور اس کے بھی یہی مطالبات ہیں۔ایک اور بات جو پاکستان میں اہل تشیع کی کسی بھی تحریک میں پہلی بار ہم نے دیکھے ہیں وہ مراجع عظام اور نمائندگان ولی فقیہ و بزرگ علماء کا اس بھوک ہڑتال کی حمایت میں سامنے آنا اور پاکستان کے ذمہ دار اداروں وحکمرانوں کو تاکید کرنا ہے کہ اس پر امن تحریک کے مطالبات کو تسلیم کریں اور تکفیریت کے آسیب سے ملک و ملت کو محفوظ رکھیں۔

ہمارے ملک میں حکمران کتنے آزاد ہوتے ہیں اس کا اہل پاکستان کو خوب اندازہ ہے بالخصوص سیکورٹی معاملات،خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے بہت سے ایشوز سلامتی کے ضامن ادارو ں کے پاس ہی رہتے ہیں ،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کئی مواقع پر واضح طور پہ سامنے آنے والی اسٹیبلشمنٹ اور ذمہ داران ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے جو کسی زمانہ میں بہت معمولی باتوں پر از خود نوٹس لینے والے افتخار چوہدھری آئے روز سینکڑوں شیعیان حیدر کرار کی بے گناہ شہادتوں پر آنکھوں پہ کالی پٹی اور کانوں میں روئی ٹھونسے ہوئے تھا،اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا اور نا ہی سنائی دیتا تھا جبکہ طالبان اور شدت پسندوں کے حقوق پر اس کا قلم بہت جلد چل جاتا تھا بلکہ اس نے شدت پسندوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے افواج پاکستان کے سربراہان کو عدالت اور پارلیمنٹ میں بھی بلوایا اور انہیں یہ احساس کروایا کہ وہ جواب دہ ہیں،آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص کو کچھ مطالبات کے ساتھ بھوک ہڑتال کیئے ستر دن ہوگئے ہیں مگر ان کو ابھی ایک بیان دینے کی بھی توفیق نہیں ہوئی،کم ا ز کم شفاف انکوائری کا حکم تو دے سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا،جبکہ اخبارات میں یہ بیان نشر ہو رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے،لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جن کی کمر توڑی گئی ہے ان کا ایکسرے تو دکھائیں،ٹوٹی کمر کیساتھ دہشت گرد ہم سے خرم ذکی چھین لیتے ہیں،ٹوٹی کمر کیساتھ دہشت گرد ہم سے امجد صابری لے جاتے ہیں،ٹوٹی کمر والے دہشت گردوں کا اتنا رعب و دبدبہ ہے کہ بلوچستان میں ان کے ڈر سے زائرین کو کئی کئی دن رسوا کرتے ہیں اور جگہ جگہ ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،رشوت کا ایک بازار گرم ہے،کمائی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے،ایسا نہیں کہ عوام لا علم ہیں ہر ایک جانتا ہے کہ اس صوبے میں سیکیورٹی اداروں کی اجازت بنا پتا بھی حرکت نہیں کرتا پھر کس طرح کالعدم گروہ کے سرغنے ملکی سلامتی کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور شہر کے چوراہوں میں آ کر آئین پاکستان کی نفی کرتے ہیں ،نیشنل ایکشن پلان کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ بے گناہ اور پر امن لوگوں کو شیڈول فورتھ میں ڈال کے ان سے آذادی کا حق چھینا جاتا ہے۔مجالس و عزاداری پر ناجائز و ناقابل قبول قدغن لگائی جاتی ہیں۔
بھوک ہڑتال ،قومی احتجای تحریک؛

13 مئی سے اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال جسے انہوں نے مطالبات کی منظوری اور عمل درآمد تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے آج جب ستر دن ہوگئے ہیں ابھی تک جاری ہے اور اس بھوک ہڑتال کیمپ میں ملک کے تما م اہم سیاسی رہنما دینی قائدین بشمول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب ،کرسچئین کمیونٹی،ہندو اور سکھ برادری،، پارلیمنٹیرینز،ملی یکجہتی کونسل ،اہل سنت برادران کی نامور شخصیات،مشائخ و علما ء اور جماعتیں،تشیع سے تعلق رکھنے والی تمام اہم قیادتیں ،ذاکرین،ماتمی انجمنیں ،طلبا ء،الغرض ہر ایک اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں اور راجہ صاحب کے پیش کردہ دس نکاتی مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے ان پر عملی اقدامات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں،اب یہ بات واضح ہو چکی کہ ان مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں،یہوہی مطالبات ہیں جن کی آڑ میں پارلیمنٹ نے آڑ لے کر نیشنل ایکشن پلان منظور کیا ہے اور اس ملک اور یہاں بسنے والے شہریان کا حق ہے مگر یہ کیا کہ ان جائز مطالبات کو منظور کروانے کیلئے اتنے دن کی بھوک ہڑتال بھی ناکافی ثابت ہو رہی ہے ،راجہ صاحب کو یقیناًاس کا اندازہ ہو گا اسی لیئے بعض احباب نے بتایا کہ راجہ صاحب پورے سو دن کی بھوک ہڑتال کا پروگرام بنا کے بیٹھے تھے ویسے بھی اس سے پہلے شہدا ماڈل ٹاؤن کے چودہ قتلوں کی FIRکٹوانے کیلئے ایک لمبے عرصے کا لانگ مارچ اور دھرنا دینا پڑا تھا اور ملکی افواج کے سپہ سالار کو معاملے میں دخیل ہونا پڑا تھا،جہاں حکمران بے حس ،گونگے ،بہرے ہوں ،سیکیورٹی ادارے تعصب ذدہ ہوں اور ملک کی مقتدر قوتوں کو ملک دشمنوں سے پیار ہو وہاں اپنے حقوق کے حصول کیلئے بھوک ہڑتال اور لانگ مارچ لرنے لازم ہو جاتے ہیں،انصاف کے طلبگاروں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں،راجہ ناصر عباس جعفری نے بھی اپنی احتجاجی تحریک میں تمام آپشن استعمال کرنے اور ہر جائز و آئینی راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے ،انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس امر کا اعلان کیا کہ حکمران بے حس ہیں،پاکستانی قوم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ان پر حکمرانی کرنے والے بے حس ہیں، یہ اندھے اور بہرے ہیں انہیں اس چیز سے غرض نہیں کہ آپ بھوکے ہیں،لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ ہے،رہنے کو گھر ہے یا نہیں ،مجھے یہاں اسلام آباد میں بیٹھے اتنے دن ہو گئے ان کو کوئی فکر نہیں ،ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ پر امن طور پر احتجاج کر رہے ہیں ،ہم نے ایک پتابھی نہیں توڑا،ہم نے ٹریفک کو نہیں روکا،ہم نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی ،حکمران اور مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ ہم امن کا راستہ چھوڑ کے تشدد کا راستہ اختیار کریں،انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان ہمارا وطن ہے اس کی ہر ایک چیز ہماری ہے ہم اس کی توڑ پھوڑ او تخریب کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر ہمیں جان بوجھ کی اس طرف دھکیلا جا رہا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم پر امن احتجاج جاری رکھیں گے، احتجاجی تحریک بھوک ہڑتال سے شروع ہوئی اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے،مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں کئی ایک مشکلات بھی سامنے آئیں گی،سب سے اہم مشکل تو یہ سامنے آ رہی ہے کہ یہ جدوجہد خالص اپنے مطالبات سے متعلق شروع کی گئی ہے اس کا مقصد کسی کو گرانا یا کرسی پہ بٹھانا نہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں بھی تحریک چلانے کیلئے پر تول رہی ہیں،مجلس وحدت مسلمین کیساتھ سیاسی و دینی جماعتوں کے تعلقات بالخصوص ان جماعتوں سے جن کا ارادہ تحریک چلانے کا ہے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،مجلس وحدت کے مطالبات خالصتاً اہل تشیع سے متعلق ہیں اور ان کا تعلق آئندہ آنے والے محرم سے بھی ہے جس کے آغاز سے پہلے ہی عزاداری پر پابندیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں،علما و ذاکرین پر ضلع بندیاں اور زبان بندیوں کے سلسلے چل پڑتے ہیں ،اسیطرح ملک بھر میں ہونے والے قتل و غارت کے سلسلے اور فرقہ پرستوں کے متجاوز اقدامات،کالعدم گروہوں کی کھلی سرگرمیاں اور پاکستان کے اہم ایریاز میں شیعہ آبادیوں کے تناسب کو خراب کرنے کی سازش اور شیعہ ملکیتی زمینوں پر قبضے ،یہ سب جائز مطالبات ہیں مجلس کی قیادت انہی مطالبات کو لیکر عوام کو میدان میں اتار رہی ہے جبکہ سیاسی لوگوں کے اپنے مقاصد ہیں جہاں بڑی پارٹیاں ویسے ہی چھوٹے گروہوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں اور فائدہ اٹھا کر مڑ کے اپنے اتحادیوں کو دیکھتے بھی نہیں ،ظاہر ہے راجہ صاحب کی بھوک ہڑتال اور احتجاجی تحریک کا تعلق اس صوبے سے بھی ہے جہاں اہل تشیع کو مسلسل ظلم کا شکار کیا جا رہاہے، ایک اور مشکل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنت کے اشاروں پر ناچنے والے بعض مداری ڈگڈگی بجنے کے منتظر تھے انہیں بھی اشارہ مل چکا ہے ،یہ لوگ ایک بار پھر دفاع پاکستان کونسل کے نام کو استعمال کرتے ہوئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں ،ان کے ساتھ ملک کے دشمن تکفیری گروہ کثیر تعداد میں موجود ہیں ان کی ڈوریاں پاکستان کے ایک برادر اسلامی ملک سے ہلائی جا رہی ہیں ،بہ ظاہر ان کو میدان میں لانا مجلس وحدت کی تحریک کو سبوتاژ کرنا ہی لگتا ہے ورنہ ان کے پاس کوئی نیا ایشو نہیں ہے،اس کے باوجود یہ لوگ ایک ڈرون حملے کی آڑ میں جلسے کر رہے ہیں ،بعض حضرات اس کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ مجلس کی فعالیت سے شیعہ مخالف بلاک یا ایران مخالف لابی بھی فعال ہو گئی ہے اور انہیں میدان
میں اتارا گیاہے تاکہ ان کے ذریعے یہ تاثر دیا جا سکے کہ فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آ رہا ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں جب کبھی شیعہ پلیت فارم کسی بڑے کام میں سامنے آیا اور اس نے عمومی عوام میں پذیرائی کا کوئی کام کیا تو ایک پالیسی کے طور پر فرقہ پرستوں اور تکفیری گروہوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں ،اور انتظامیہ نے بھی ہمیشہ حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کے اشاروں پر بیلنس پالیسی کو ہی اختیار کیا ،یعنی قاتل اور مقتول کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا،اگر کسی شہر میں ایک شیعہ راہنما قتل ہو گیا تو اس شہر میں قاتل گروہ کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقتول گروہ کے لوگ بھی زیر حراست آئے،یہ ظلم اب بھی ہونے کا اندیشہ ہے،بعض ایریاز میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جہاں مجلس وحدت کے فعال اراکین اور تنظیمی افراد کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے ،بعض شرفا ء کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کی ذد میں لایا گیا ہے،بھوک ہڑتال تحریک اور لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکمرانوں بالخصوص پنجاب کے حکمرانوں کی جانب سے بہت زیادہ سختیاں سامنے آنے کا اندیشہ ہے،اس کیلئے مجلس کے کارکنان کو تیار رہنا ہو گا،یہ سختیاں بہرحال انہیں برداشت کرنا ہونگی ،کچھ سختیاں اپنوں کی طرف سے بھی ممکن ہیں،ایسے مواقع کیلئے ہر قوم میں مفاد پرست اور موقعہ پرست موجود ہوتے ہیں جنہیں اس طرح کے تحریکوں کو ناکام کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،یہ موقعہ پرست وہ گدھیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے حالات کیلئے انتظار کرتی ہیں،اگرچہ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملت کے تمام طبقات نے خود ادھر جا کے اظہار یکجہتی کیا ہے اور اس کاز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ خطرہ بہرحال موجود ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں عید کے ایام میں شہید ہونے والے سید شاہد شیرازی ایڈووکیٹ کی نماز جنازہ پر پیش آنے والے بعض واقعات اسی جانب اشارہ ہیں کہ مفاد پرست موقعہ کو تلاش کر کے آپ کی تحریک جس میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں کو ناکام و نامراد ٹھہرایا جائے مجلس وحدت اگرچہ تشیع کی سب سے فعال اور ہر دم تیار قومی تنظیم اور پلیٹ فارم ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس کی تنظیمی وسعت اس قدر نہیں جس قدر ضرورت ہے یا جہاں جہاں تشیع اپنا وجود رکھتی ہے اور انہیں بے شمار مسائل بھی در پیش ہیں،اس کے یونٹس کو بہت فعالیت دکھانا ہوگی،بالخصوص ان ایریاز مین جہاں شیعہ آبادیوں کی کثرت ہے وہاں سے عوام کو تحریک کیلئے باہر نکالنا ہوگا ،ان مقامی انجمنوں اور قائدین کو بھی رابطے میں لانا ہوگا جنہیں کسی بھی وجہ سے ساتھ نہیں ملایا جا سکا۔سب سے بڑا چیلنج داخلی ہے اگر ہم داخلی محاذ پر کامیاب ہو گئے اور داخلی مسائل پر قابو پالیا تو بیرونی و خارجی محاذ ہمارے لیئے بڑی رکاوٹ ثابت نہیں ہو سکے گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مجلس کے پیش کردہ مطالبات میں سے بیشتر کا تعلق اس ملک کی سلامتی سے ہے اور ان کے حل کا اختیاربھی ہماری حکومت کو کم اور سلامتی کے ضامن اداروں و مقتدر قوتوں کو زیادہ ہے،اس عنوان سے یہ کہنا خاصا مشکل نظر آتا ہے کہ سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی ظاہر کریں گے ،اس لحاظ سے اس تحریک کی کامیابی کا عنوان ان مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد نہیں سمجھنا چاہیئے ،یہ ایک آئیڈیل صورت کہی جائیگی اگر ایسا ہو جائے بصورت دیگر میری نگاہ میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وہ کام کر دکھایا ہے جو آج تک نہیں ہو سکا یہ احتجاجی تحریک ایک عزم ،ایک استقلال،ایک استقامت ،ایک تعہد کی بہترین مثال ہے ،ایک مخلص دردمند شخص نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے ،انہیں احساس دلایا ہے،انہیں گھروں سے باہر نکالا ہے،انہیں متوجہ کیا ہے،انہیں بیدار کیا ہے،انہیں میدان میں کھڑے ہو کے پکارا ہے،ان کے اعتماد پر پورا اترا ہے ، انہیں مایوسیوں کے گھیرے سے نکالا ہے ،انہیں منزل کا رستہ دکھایا ہے یہ بہت بڑی کامیابی سمجھی جائیگی،تاریخ تشیع پاکستان میں اس کی مثال کم ہی ملے گی،ہماری قیادتوں نے گذشتہ دو اڑھائی عشروں میں وہ کام نہیں کیا جو چند برسوں میں مجلس وحدت مسلمین نے کیئے ہیں، اس لیئے کامیابی کا معیار اور مثال یہی فعالیت اور تحرک ہے،گھروں سے باہر آنا ہے،میدان میں خود کو حاضر کرنا ہے ۔انشا اللہ یہ امید خداوند کریم و مہربان سے ہی ہے کہ وہ اس تحریک اور اس سے مخلص احباب کو مزید کامیابیوں سے نوازے اور ان مطالبات کو منوانے اور عمل کروانے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے ،انشا اللہ دنیا کے بیشتر ممالک عراق،شام،یمن لبنان کی طرح یہاں بھی تشیع ہی سرخرو ہو گی اور فتح مند ہو کے شکر کے نوافل پڑھے گی ، نا جانے کیوں میرے کانوں میں یہ آواز آ رہی ہے کہ وہ وقت قریب آن پہنچا ہے۔۔!

تحریر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(کوئٹہ) ملک کے اندر تمام اقوام اور مذاہب کے درمیان اتحاد و اتفاق ملک کیلئے مثبت نتائج کا سبب بن جاتا ہے۔ وطن عزیز کے تمام شہریوں کے یکساں حقوق اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ نسلی، لسانی، قومی اور ایسے تمام دیگر عناصر جو ہمارے درمیان تفرقات کو جنم دیتے ہیں یکطرفہ رکھیں۔ تمام اقوام ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے اور آپسی اختلافات اور ایسے تمام اختلافات کا راستہ بند کر دے جو ہمیں ترقی کی راہ سے نکال رہی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری علامہ ولایت حسین جعفری نے اپنے بیان میں اتحاد و اتفاق کو تمام افراد کیلئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اختلافات نے ہمیں ہمیشہ الجھائے رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کی ہے جس نے ہمیں مل کر آگے بڑھنے سے ہمیشہ روکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد ہمارے درمیان امن برقرار رکھنے اور ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے، دینِ حق اسلام نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور دوسروں کی مدد اور انکے ساتھ اچھے رویے کی تلقین کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اتحاد وہ عنصر ہے جس سے ہمارے درمیان نہ صرف تفرقہ ختم ہوگا بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور تمام نظریاتی مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی چاہتا ہے کہ اسکے تمام بندے آپس میں امن سے زندگی بسر کرے۔ بیان میں کہا گیا کہ ہماری جماعت اس وقت امن کی بقا ء کیلئے اتحاد بین المسلمین کو سب سے ضروری سمجھتی ہے۔ہم نے کبھی بھی رنگ و نسل یا مذہب کے بنیاد پر تقسیم بندی نہیں کی بلکہ ہر رنگ و نسل اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی مدد کی ان کی خدمت کی اور ان کیلئے جتنا ممکن تھا کام کیا۔ہمارے مرکزی قائدین نے قومی سطح پر اہل سنت سے وابسطہ لوگوں کا ساتھ بھی دیا ہے اور ہماری جماعت انکے حمایت یافتہ بھی ہے جو کہ ہماری امن پسندی کی دلیل ہے۔

وحدت نیوز(ٹیکسلا) ایم ڈبلیوایم کا ضلعی نہج البلاغہ کنونشن منعقد ہوا، جس میں ممبران نے بھر پور اندازمیں شرکت کی،ممبران نے کثرت رائےسے برادر وقار حسین نقوی کو  آئندہ تین سال کے لئے ایم ڈبلیوایم ضلع ٹیکسلاکا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا،ایم ڈبلیوایم ضلع راولپنڈی کے سیکریٹری جنرل علامہ علی اکبر کاظمی نےنومنتخب سیکریٹری جنرل سےحلف لیا جبکہ مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے شرکاءسے خصوصی  خطاب بھی کیا۔

وحدت نیوز(دمشق) کویتی پارلیمنٹ کےرکن، پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ، جنیوا میں انسانی حقوق کے ایک ادارے کے چیئرمین اور عربی واسلامی ممالک کے مقاومت کی حمایت کے اتحاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل انٹرنیشنل لاء کے حقوق دان اور ماہر وکیل  ڈاکٹر عبدالحمید دشتی نےحرم حضرت زینب الکبری علیہا السلام کے جوار اقدس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی سیکریٹری  امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی سے خصوصی ملاقات کی. انھوں نے تکفیری دھشت گردی اور شیعہ نسل کشی اور پاکستان میں قیام امن اور مظلوموں کی حمایت میں مجلس وحدت کے کردار اور مجلس وحدت کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال اور پر امن جدوجہد کو بہت سراہا.

وحدت نیوز(کراچی) پیام وحدت کنونشن میں برادر زین رضا دوسری مرتبہ مجلس وحدت مسلمین ضلع وسطی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ نومنتخب سیکریٹری جنرل کے نام کا اعلان ڈویژنل سیکریٹری جنرل برادر میثم عابدی نے کیا جبکہ ڈویژنل رہنما علامہ مبشر حسن نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ اس موقع پر ڈویژنل رہنما رضا امام نقوی، عباس اشرف اور میر تقی ظفر بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری علامہ راجہ ناصر عباس پاکستان میں جاری شیعہ قتل عام ، قاتلوں کی عدم گرفتاری ، نیشنل ایکشن پلان پہ عدم عملدارآمد کے خلاف جاری بھوک ہڑتال کے ۸۰ ویں روز شدید طبعیت خراب ہونے کہ سبب مقامی ہسپتال میں داخل ،علامہ راجہ ناصر عباس کو گذشتہ ۳ دنوں سے بھوک ہڑتال اور ہائی شوگر کے سبب کڈنی میں شدید تکلیف لاحق تھی جسکےباعث آج طبعیت زیادہ خراب ہونے کہ سبب انکو مقامی ہسپتال میں منتقل کردیا گیا ۔

واضح رہے کہ ۱۳ مئی سے اسلام آباد میں جاری بھوک ھڑتال کے سبب علامہ راجہ ناصر عباس کا ۳۴ کلو سے زائد وزن کم ہوچکاُہے اور وہ عارضہ قلب اور شوگر کے مریض ہونے کہ سبب شدید کمزوری کا بھی شکار تھے لیکن ڈاکٹرز اور علمائےکرام کی جانب سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی بارہا گزارشوں کے باوجود بھی شہداء اور ملت کے حقوق کی جدوجہد کے سبب مطالبات کی منظوری تک بھوک ہڑتال ختم کرنے کیلے تیار نہیں ہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پہلے ہی برسی شہید قائد علامہ عارف الحسینی کے موقع پر 7اگست کو اسلام آباد میں ' تحفظ پاکستان کانفرنس' کرنے کا اعلان کرچکی ھے جس میں ملک بھر سے پیروان اھلبیت (ع) اس قومی اجتماع میں شرکت کرینگے ۔ تمام عاشقان اھلبیت (ع) سے علامہ راجہ ناصر عباس اور مولانا حسن ظفر نقوی کی تندرستی کیلئے دعائےصحت کی درخواست ہے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)حجة الاسلام مولانا سید باقر عباس زیدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ المہدی و جامعہ امامیہ کراچی کے پرنسپل اور ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جبکہ وہ مسجد المصطفٰی (ص) گلشن معمار کراچی میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا سید باقر عباس زیدی کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک اور شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی تحفظ پاکستان کانفرنس کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے پس منظر، محرکات اور اب تک حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی تحریک کے کئی محرکات ہیں، شیعہ ٹارگٹ کلنگ، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضے ہیں، ملک میں خصوصاً پنجاب میں عزاداری کے خلاف سازشیں، بانیان مجالس، عزاداروں، ذاکرین کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آریں کاٹنا، جس کے ذریعے عزاداری سیدالشہداؑ کو محدود کیا جائے، عوام کو عزاداری سے دور کیا جائے، مجموعی طور پر اگر ہم کہیں تو شیعہ حقوق کی بات ہے، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات ہے، مثلاً لاہور ہائیکورٹ میں شیعہ ججوں کے ساتھ مسائل تھے، ایک اطلاع کے مطابق انہیں فارغ کرنا تھا، لیکن انہیں ایم ڈبلیو ایم کی اسی احتجاجی تحریک کی وجہ سے بحال کیا گیا ہے، بہرحال جو سیاست آمر جنرل ضیاء نے شروع کی تھی کہ ریاستی اداروں میں وہابیت کو داخل کیا جائے، اہم عہدوں، مقامات، جگہوں سے شیعیان حیدر کرار کو ہٹایا جائے، انہیں یہاں پہنچنے سے روکا جائے، یہاں تک کہ پاک فوج سے نعرہ حیدری تک کو ختم کر دیا گیا، ضیاء دور میں ریاستی و ملکی اداروں میں شیعہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے فرقہ پرست پالیسیاں داخل کی گئیں، آج جتنے بھی ادارے موجود ہیں، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں، چاہے عسکری ادارے ہوں، پولیس کے ادارے ہوں یا دیگر مختلف ریاستی و ملکی ادارے ہوں، وہاں وہابی تکفیری فکر کے لوگ بٹھائے گئے ہیں، جو تشیع کے حوالے سے انتہائی تعصب رکھتے ہیں، ایسی ضیاء طرز تفکر کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں، آل سعود نے پاکستانی ریاستی اداروں میں اپنا اثر و نفوذ مزید بڑھانے کیلئے دوبارہ فنڈنگ کی، پیسے دیئے، مزید کام شروع کیا ہوا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ حقوق اور ملکی سالمیت و بقاء کی جنگ لڑی ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم شیعہ حقوق کی جنگ عدالت میں جا کر قانونی طور پر لڑیں گے، لیکن کیا پاکستان میں عدلیہ کسی چیز کا حل ہے، پاکستانی عدلیہ ہر اعتبار سے بک جاتی ہے، اس میں بااثر عناصر اپنی مرضی کا جو فیصلہ کرا لیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شیعہ مسلمان پاکستان میں اپنا وزن بڑھائیں، ہم بھی ملک میں اول درجے کے پاکستانی ہیں، ہمیں بھی یکساں حقوق حاصل ہیں، جن کی حفاظت ہونی چاہیئے، ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہم ہی پاکستان بچائیں گے، ہم نے قیام پاکستان کیلئے بھی خون دیا، آج بھی ہم اپنا خون دیکر ملک کو بچا رہے ہیں، ہمارے خون ہی کی تاثیر ہے جو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے بچا ہوا ہے، ورنہ تکفیری وہابی عناصر جن کے تانے بانے امریکا اسرائیل سے ملتے ہیں، یہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرچکے ہوتے، اسی تناظر میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے جو سب سے اہم کام کیا ہے، وہ آمر جنرل ضیاء کے طرز تفکر، تکفیری وہابی عناصر، امریکی اسرائیلی نمک خوار ایجنٹوں کی ناپاک سازشوں و ارادوں کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، شیعہ حقوق کو غضب کرنے کے سلسلے کے آگے رکاوٹ بن گئے، بڑھتی ہوئی شیعہ کلنگ کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، جس ملت تشیع کو پاکستان میں تیسرے درجے پر دھکیلنے کی سازش کی گئی، جسے ملک میں تنہا کر دینے کی سازش کی گئی تھی، آج علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے اسی ملت تشیع کو قومی دھارے کے مرکز میں کھڑا کر دیا ہے، ملت تشیع کے خلاف تمام سازشوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوگئے ہیں، کیونکہ ہم قائداعظم و اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں، جو ظلم و زیادتی سے پاک ہو۔

قائد مسائل کو جانتا ہے، مختلف رازوں کو پہچانتا ہے، لیکن بعض اوقات اسے از خود اقدامات کرنے پڑتے ہیں، اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری میں یہ قائدانہ خصوصیات ہیں، جس سے انہوں نے نہایت خوبصورت، مدبرانہ، قائدانہ انداز میں استفادہ کیا، اقدام کیا، احتجاجی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، آج جس ملت تشیع کو سیاسی دھارے سے نکالنے کی سازش ہو رہی تھی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے قائدانہ اقدام کے باعث تمام برجستہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات احتجاجی کیمپ پر آئیں، راجہ صاحب اور ملت تشیع سے اظہار یکجہتی کیا، ہمارت مطالبات کی غیر مشروط حمایت کی، سب نے اس بات کا اقرار کیا، تائید کی کہ ہمارے مطالبات پاکستان کے آئین و دستور و قانون کے مطابق جائز ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ ہمارے مطالبات میں دہشتگرد عناصر کے خلاف آپریشن کرنا بھی شامل ہے، جیسا کہ کئی مقامات پر شروع ہوچکا ہے، کہیں پر شروع ہونے والا ہے، پارا چنار میں اہل تشیع پر فائرنگ کا واقعہ تھا، اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں وہاں جرگہ بیٹھا، اس نے فیصلہ کیا، ہمارے بزرگ عالم دین علامہ عابد حسین الحسینی نے اس کے نتیجے کو قبول کیا، خیبر پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمارے بہت سارے مطالبات و مسائل کو قبول کیا، ان سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، انہوں نے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے ہماری تجاویز بھی مانی ہیں، ان تمام پر ایک حد تک عمل درآمد شروع بھی ہوگیا ہے، یہی عمل درآمد ہم پنجاب میں بھی چاہتے ہیں، اس حوالے سے نواز حکومت سے ایک دو بار مذاکرات بھی ہوئے ہیں، لیکن ڈیڈ لاک باقی ہے، لیکن امید ہے کہ ان شاء اللہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تن تنہا جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، اس کے نتیجے میں پنجاب سے بھی جلد مثبت خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ملت تشیع قومیات کے حوالے سے مایوس ہے، جسکے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے یا پھر قومی دھارے کا حصہ بن رہی ہے، جس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے دور میں پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، شہید قائد کے پیچھے تھی، اگرچہ شہید قائدؒ کو بہت زحمت اٹھانی پڑی، لیکن اس کے نتیجے میں لوگوں نے ان کا بڑا ساتھ دیا اور شیعہ حقوق کیلئے قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، ناصرف شیعہ حقوق بلکہ اسلام کی سربلندی و وطن عزیز کی بقاء و سالمیت کی خاطر لوگ انکے ساتھ جمع ہوگئے، شہید عارفؒ کے بعد سے ایک خلا پایا جاتا ہے، شیعہ حقوق کی جنگ کے حوالے سے، ان کے بعد آنے والی قیادت میں وہ صلاحیت و اہلیت نہیں تھی، شہید عارفؒ کے بعد آنے والی قیادت نے شیعہ حقوق کیلئے اور تشیع کے دفاع و ترقی کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، اس صورتحال کے پیش نظر شہید قائدؒ کے ساتھیوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بناد رکھی، لہٰذا آج ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں شیعہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، ملت تشیع کا کردار مجموعی طور پر بہت اچھا اور مثبت ہے، عوام آہستہ آہستہ جب آگاہ ہوتی ہے تو ساتھ دیتی ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی آگاہ ہے، وہ ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات سے بھی آگاہ ہیں، عوام نے مجلس کا ساتھ بھی دیا ہے۔ دراصل ماضی میں عوام کئی بار دھوکہ کھا چکی ہے، لہٰذا عوام بہت حساس ہوچکی ہے، لیکن اب جب قائدین اور علماء کرام یہ ثابت کرینگے کہ وہ میدان میں ثابت قدم ہیں، بھاگنے والے نہیں ہیں، تو عوام جو ایک حد تک میدان میں وارد ہوچکی ہے، مزید وارد ہوگئی، اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب قائد اور عوام میں مطلوبہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی، عوام اپنے قائد سے جدا، پیچھے اور دور نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اسے مزید اچھی طرح پہچانے اور سمجھے، کیونکہ قائد جتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک عوام ساتھ نہ دے، اس تحریک میں بھی عوام نے ایک حد تک ساتھ دیا ہے، پورے ملک سے لوگ آئے ہیں، لوگ احتجاج، علامتی دھرنوں، ریلیوں، مظاہروں میں بھی شریک ہوئے۔ بعض اوقات قائد صورتحال کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن عوام اس سطح پر معاملات کو نہیں دیکھ پا رہی ہوتی، لہٰذا آہستہ آہستہ ایم ڈبلیو ایم کی کوشش ہے کہ عوام بھی اپنے حقیقی قائد کے ساتھ اسکی فکر کے مطابق قیام کریں، ملک میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کیخلاف اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز حق بھی بلند کریں، ساتھ دیں۔ بہرحال علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی پرخلوص احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک جاری ہے اور ہم ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ شیعہ حقوق کی اس جنگ میں ہم ہمیشہ میدان میں رہیں گے، ہم ہر ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرتے رہیں گے، یہی کربلا کا پیغام ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم پاکستان 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اسکے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد عارف حسین الحسینیؒ نے پاکستان میں شیعہ حقوق کیلئے جو جدوجہد کی، دراصل اس سے عہد و پیمان کرنا ہے، تجدید عہد کرنا ہے، اس کا احیا کرنا ہے، شہید قائدؒ نے جو جدوجہد کی، اسے اسی مقام پر دوبارہ لانے کیلئے آج ہم میدان میں کھڑے ہیں، اتحاد بین المسلمین، اسلام کی سربلندی، وطن عزیز کی سالمیت و بقا و ترقی، شیعہ حقوق، پاکستان کی آزاد خارجہ و داخلی پالیسی جو شہید قائدؒ کی جدوجہد کے بنیادی نکات تھے، ہم بھی آج انہیں نکات کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں، کرتے رہینگے، یہ پہلے بھی ہماری ذمہ دار تھی اور رہے گی، اسی لئے ہم ہر سال شہید قائدؒ کا یوم شہادت مناتے ہیں، تاکہ شہید کے افکار و جدوجہد پر گفتگو ہو، ان سے سبق حاصل کریں، اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین شہید قائدؒ کی 28 ویں برسی کے موقع پر 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے، اس تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے ہم پاکستان میں ملت تشیع کیخلاف سازشوں میں مصروف امریکی اسرائیلی گماشتوں اور نمک خواروں کو یہ پیغام دینگے کہ وہ ملت تشیع کو دبانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے، ملت تشیع کے سر کو جھکانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے، وہ ناکام و نامراد ہونگے ان شاء اللہ۔ ہم ان شاء اللہ 7 اگست کے تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے اپنی احتجاجی تحریک کو مزید مؤثر بنائیں گے، پُرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے، اپنے مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے ان شاء اللہ۔

اسلام ٹائمز: مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟

مولانا سید باقر عباس زیدی: اگر نواز حکومت ہمارے مطالبات پر عمل درآمد شروع کر دیتی ہے تو احتجاجی بھوک ہڑتال بھی ختم ہو جائیگی، ہم پھر سے یکسوئی کے ساتھ ملت کی تربیت، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، معاشی، تجارتی و دیگر تمام میدانوں میں ملت کی ترقی کیلئے اپنے امور کو انجام دینگے، جس کی ہمارے پاس منصوبہ بندی بھی موجود ہے، الحمد اللہ ابھی بھی ان امور پر کام جاری و ساری ہے، لیکن مزید یکسوئی و بہترین انداز میں امور کو انجام دینگے۔ بہرحال راجہ صاحب کی اس احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے نتیجے میں حکومت نے کافی حد تک بہت سی باتوں کو مانا ہے، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضوں کے مسئلے کو بھی حکومت نے کہا ہے کہ اگر کوئی قبضہ ہوگیا ہے تو وہ چھڑا کر دینگے، خیبر پختونخوا کے حوالے سے میں پہلے عرض کرچکا ہوں، پنجاب کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بات چیت جاری ہے، کچھ باتوں پر ڈیڈ لاک باقی ہے، ان شاء اللہ اس حوالے سے بھی اچھی خبریں آئیں گی، بہرحال ہمارا کام ہے اپنی ذمہ داری ادا کرنا، میدان میں حاضر رہنا، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں ترقی کرنا ہے، ہمیں دشمن کا راستہ روکنا ہے، یا ہمیں نقصان کو کم سے کم کرنا ہے، ان تمام حوالوں سے ہم میدان میں کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہینگے، پاکستان میں تشیع زندہ تھی، ہے اور رہیگی، عزاداری اور حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی تمام کوششوں کو ان شاء اللہ ناکام بناتے رہینگے، پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے ذریعے تکفیریت و وہابیت کو رائج کرنے کی سازشوں کو ناکام بناتے رہینگے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree