The Latest

P9034962
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ ظلم و بر بریت اور ناانصافیوں کے خلاف أواز اٹھانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، ایم ڈبلیوایم کے کارکن اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے حقوق انسانی کے علمبرداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے نیشنل پریس کلب کے سامنے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے شرکاء سے بات چیت کے دوران کیا ، انہوں نے کہا ،کوئٹہ ، کراچی اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے کونے کونے میں شیعیان علی کا قتل عام ایک انسانی المیہ ہے ، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قتل و غارت اور خونریزی کے سنگین واقعات کے باوجود حکومت اور حکومتی ادارے خاموش ہیں اورسفاک قاتلوں کی گرفتاری کے لیے قانون کو حرکت میں نہیں لایا گیا ، چیف جسٹس آف پاکستان نے لاپتہ افراد کیس کے حوالے بار ہا بلوچستان کے دورے کیے لیکن انہوں بھی نے ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ نسل کشی پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے وقعات کو فرقہ وا ریت کا رنگ دے کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی فرقہ واریت نہیں ، فرقہ واریت کی اصطلاح ہمارے ذہنوں میں استعمار نے منتقل کی ہے ۔ یہاں تمام مسلما ن اخوت اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں انہوں نے میڈیا اور دیگر نشریاتی اداروں سے اپیل کی کہ وہ سرزمین وطن پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے لیے فرقہ واریت کی اصطلاح استعمال نہ کریں بلکہ عوام کو اصل حقائق سے باخبر رکھنے کے لیے اپنا کرداد ادا کریں ، انہوں نے عنقریب احتجاجی کیمپ میں ایک پریس کانفرنس کر نے کا بھی اعلان کیا

h.mir

ابن سينا نے کہا تھا کہ دنيا ميں دو قسم کے لوگ ہوتے ہيں۔ ايک وہ جن کے پاس عقل ہے اور مذہب نہيں، دوسرے وہ جن کے پاس مذہب ہے مگر عقل نہيں۔ ايسا لگتا ہے کہ پاکستان ميں دوسری قسم کے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جنرل ضياءالحق کے دور ميں مذہب کے نام پر غير عقلی فيصلے کئے گئے،پھر جنرل پرويز مشرف کا دور آيا۔ انہوں نے روشن خيال اعتدال پسندی اور لبرل ازم کے نام پر فاشسٹ پاليسی اختيار کی۔
انہوں نے جنوبی وزيرستان ميں فوجی آپريشن کيلئے اکثريتی فرقے کے عسکريت پسندوں کے خلاف اقليتی فرقے کے قبائلی سرداروں کی زبردستی مدد حاصل کی اور قبائلی عوام کو اندر سے تقسيم کر ڈالا اور پھر يہ فرقہ وارانہ تقسيم صرف اورکزئی ايجنسی اور کرم تک محدود نہ رہی بلکہ پشاور، لاہور اور کراچی سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک پہنچ گئي۔
 
2003ء ميں کوئٹہ ميں ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے اہل تشيع پر حملے شروع ہوئے، جو آج تک جاری ہيں۔ ويسے تو آج پاکستان ميں کوئی بھی محفوظ نہيں اور پچھلے دس سال کے دوران بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور فوجی آپريشنوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ميں مارے جانے والے 40 ہزار سے زائد پاکستانيوں کو مختلف فرقوں ميں تقسيم نہيں کيا جا سکتا، ليکن پچھلے چار سال کے دوران کوئٹہ اور گلگت بلتستان کے علاوہ کراچی ميں اہل تشيع پر مسلسل حملے ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشويش ہيں۔ کوئٹہ ميں صورتحال يہ ہے کہ شہر ميں صرف ہزارہ شيعہ دہشت گردی کا نشانہ نہيں بن رہے، بلکہ سني علماء کی بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ليکن حکومت مکمل طور پر بےبس نظر آتی ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ايم کيو ايم کے قائد الطاف حسين نے کوئٹہ اور کراچی ميں اہل تشيع پر حملوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے پاکستانی قوم کو ياد دلايا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی اثناء عشری شيعہ تھے۔ الطاف حسين صاحب کی اس ياد دہانی کا مقصد يہ نظر آتا ہے کہ قائداعظم کے نام پر پاکستانی قوم کو فرقہ وارانہ تقسيم سے بچايا جا سکے۔ تاريخی لحاظ سے يہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ قائداعظم اثناء عشري شيعہ تھے، ليکن يہ بھی درست ہے کہ قائداعظم کے حاميوں اور جانثاروں کی اکثريت شيعہ نہيں تھی۔
 
تحريک پاکستان کے حامی قائداعظم کو صرف ايک مسلمان سمجھتے تھے اور اسی لئے مسلمانوں کی اکثريت نے قائداعظم کی قيادت پر اتفاق کيا۔ برصغير کے مسلمانوں کی يہ خوش قسمتی تھی کہ پاکستان کا خواب ديکھنے والے شاعر علامہ محمد اقبال ايک سنی خاندان ميں پيدا ہوئے، ليکن وہ شاعر اہل سنت نہيں کہلوائے، بلکہ شاعر مشرق کہلوائے اور آج بھی ان کا فارسی کلام پاکستان سے زيادہ ايران ميں مقبول ہے۔
کچھ سياسی معاملات ايسے تھے، جن پر علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے درميان اختلاف پيدا ہوا۔ اقبال مسلمانوں کے لئے جداگانہ طرز انتخاب کے حامی تھے اور قائداعظم نے دہلی مسلم تجاويز کے ذريعہ مخلوط طرز انتخاب پر مشروط آمادگی ظاہر کی۔ سائمن کميشن اور نہرو رپورٹ پر بھی اقبال اور قائداعظم ميں سياسی اختلافات تھے، ليکن 1935ء ميں مسجد شہيد گنج لاہور کے تنازع پر مسلمانوں اور سکھوں ميں کشيدگی پيدا ہوئی تو قائداعظم کے جرأت مندانہ کردار پر علامہ محمد اقبال ان کے معترف ہوگئے۔
 
اقبال نے ايک بيان ميں قائداعظم کو بطل جليل قرار ديا۔ قائداعظم پر کچھ مولويوں نے کفر کے فتوے لگائے تو اقبال نے ان کا دفاع کيا۔ 1937ء ميں ايک ايسا واقعہ پيش آيا، جس نے قائداعظم کو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے ايک متفقہ ليڈر کے طور پر اُبھارا۔ سنٹرل ليجسليٹو اسمبلی آف انڈيا ميں ايک سنی مسلمان رکن حافظ محمد عبداللہ نے مسلم پرسنل لاء (شريعت) بل پيش کيا، جس ميں کہا گيا تھا کہ مسلمانوں کے انتقال جائيداد کے مقدمات کا فيصلہ اسلامی قوانين کے مطابق ہونا چاہئے اور عورتوں کو بھی جائيداد ميں حصہ ملنا چاہئے۔
 
اسمبلی ميں ايک بڑے جاگيردار سر محمد يامين خان نے کہا کہ شيعہ اس شريعت بل کو نہيں مانيں گے۔ قائداعظم نے انہيں سمجھايا کہ اس قانون کے تحت مقدمات کے فيصلے مسلمان جج کريں گے اور فيصلہ درخواست دہندہ کے مسلک کے مطابق ہوگا، ليکن سر محمد يامين خان نے ميجر نواب احمد نواز خان اور کيپٹن سردار شير محمد خان کو بھی اپنے ساتھ ملا ليا۔ اس موقع پر مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولوی محمد عبدالغنی، قاضی محمد احمد کاظمی اور شيخ فضل حق پراچہ سميت کئی مسلمان ارکان اسمبلی نے قائداعظم کو اس شريعت بل پر بحث کيلئے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مقرر کر ديا۔
 
اور آخر کار طويل بحث کے بعد سر محمد يامين خان نے بھی اس بل کی حمائت کر دی اور 16 ستمبر 1937ء کو يہ بل سنٹرل اسمبلی نے منظور کر ديا۔ بل کی منظوری اہل سنت کی نہيں، اہل اسلام کی کاميابی بنی۔ قائداعظم نے ہميشہ اپنی ذات کو شيعہ سنی اختلافات سے دور رکھا، بلکہ وہ شيعہ سنی اتحاد کی علامت تھے۔ ايک دفعہ قائداعظم سے پوچھا گيا کہ آپ شيعہ ہيں يا سنی؟ قائداعظم نے سوال پوچھنے والے سے کہا کہ يہ بتاؤ پيغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کيا تھے؟ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ وہ مسلمان تھے۔ جواب ميں قائداعظم نے کہا کہ ميں بھی مسلمان ہوں۔
 
قائداعظم ايسی مذہبی محفلوں ميں شرکت کرتے تھے جہاں شيعہ سنی اختلاف نظر نہيں آتا تھا۔ وہ عيد کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی مسجد ميں ادا کر ليتے تھے۔ عيد ميلاد النبی (ص) کے جلسوں ميں بھی شرکت کرتے، ليکن کسی مخصوص فرقے کی مجلس ميں شرکت نہيں کرتے تھے۔ پشاور اور کوئٹہ ميں اہل تشيع کے علماء نے قائداعظم کو اپنی محافل ميں مدعو کيا، ليکن قائداعظم نے معذرت کر لی۔
 
قائداعظم نے اپنی زندگی ميں وصيت کر دی تھی کہ مولانا شبير احمد عثمانی ان کی نماز جنازہ پڑھائيں گے، ان کی نماز جنازہ ميں سر ظفر اللہ خان کے سوا تمام مسلمانوں نے فرقہ وارانہ تفريق سے بالاتر ہو کر شرکت کی۔ 1968ء ميں محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن شيريں بائی نے سندھ ہائيکورٹ ميں ايک درخواست دائر کی کہ فاطمہ جناح کی جائيداد کا فيصلہ شيعہ وراثتی قانون کے مطابق کيا جائے۔

20 اکتوبر 1970ء کو حسين علی گانجی والجی نے کورٹ ميں شيريں بائی کی درخواست کو چيلنج کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ جناح شيعہ نہيں سنی تھيں۔ درخواست گزار رشتے ميں قائداعظم کے چچا تھے لہذا ان کی درخواست پر سماعت شروع ہوگئی۔ سماعت کے دوران شريف الدين پيرزادہ نے عدالت کو بتايا کہ قائداعظم نے 1901ء ميں اسماعيلی عقيدہ چھوڑ ديا تھا، کيونکہ ان کی دو بہنوں رحمت بائی اور مريم بائی کی شادی سنی خاندانوں ميں ہوئی، تاہم قائداعظم نے خود کو کبھی شيعہ يا سنی نہيں کہا تھا۔ شيريں بائی کی شادی اسماعيلی خاندان ميں ہوئی، ليکن بعد ميں وہ بھی شيعہ ہو گئيں۔
 
عدالت ميں آئی ايچ اصفہانی نے کہا کہ وہ 1936ء ميں قائداعظم کے پرائيويٹ سيکرٹري تھے اور انہيں قائداعظم نے بتايا تھا کہ انہوں نے اسماعيلی عقيدہ چھوڑ کر شيعہ عقيدہ اختيار کيا۔ ايک اور گواہ سيد انيس الحسنين نے عدالت ميں کہا کہ انہوں نے فاطمہ جناح کی ہدايت پر قائداعظم کو شيعہ روايات کے مطابق غسل ديا، ليکن وہ يہ انکار نہ کرسکے کہ قائداعظم کی وصيت کے مطابق ان کی نماز جنازہ مولانا شبير احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔
 
24 فروري 1970ء کو سندھ ہائيکورٹ نے اپنے فيصلے ميں فاطمہ جناح کی جائيداد پر شيريں بائی کے حق کو قائم رکھا، ليکن اپنے فيصلے ميں يہ بھی کہا کہ قائداعظم نہ شيعہ تھے نہ سنی تھے بلکہ وہ ايک سادہ مسلمان تھے۔ سندھ ہائيکورٹ کا يہ فيصلہ قائداعظم کو اس جگہ لے آيا، جہاں قائداعظم ہميشہ خود کھڑے رہے۔ وہ خاندانی طور پر شيعہ ضرور تھے، ليکن عملی زندگی ميں خود کو صرف مسلمان کہلوانا پسند کرتے تھے۔

جو لوگ آج اہل تشيع پر کفر کے فتوے لگاتے ہيں، وہ مولانا شبير احمد عثماني کے بارے ميں کيا کہيں گے، جنہوں نے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی۔؟ حقيقت يہ ہے کہ شيعہ اور سنی ايک قرآن اور ايک نبی (ص) پر متفق ہيں۔ اسلئے انہيں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلتے ہوئے شيعہ سنی اتحاد کی مثال قائم کرنی چاہئے اور اس کا بہترين راستہ يہ ہے کہ تمام اہم سياسی و دينی جماعتوں کی قيادت کوئٹہ اور کراچی ميں اکٹھے ہو کر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ جس طرح اقبال اور قائداعظم ايک تھے، ہميں بھي ايک دوسرے کي مساجد اور امام بارگاہوں ميں جا کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
"روزنامہ جنگ"

ameenjustes

 ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی اور چیف جسٹس آف پاکستان کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی ہے اس ملاقات کی تفصیلات: پاکستان کے پانچ کروڈ عوام کو پاکستان کی آزاد عدلیہ اور اس کے سربراہ سےیہ توقع تھی کہ پاکستان میں مکتب تشیع کی جاری نسل کشی کے خلاف سوموٹو ایکشن لینگے۔
چیف جسٹس صاحب نے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں سوموٹو ایکشن لیکر عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ آزاد ہے لیکن کوئٹہ میں ساڑھے پانچ سو بے گناہ محب وطن،افسران بیروکریٹس،تاجر،علماء،اساتذہ،اور طلبا،ججز،وکلا اور دیگرطبقات کاخون ناحق بہایا گیا ۔
محب وطن اہل تشیع افراد کو اغوا کے بعدذبح کردیا گیا اور اس قبیح عمل کی وڈیوباقاعدہ انٹرنیٹ پرجاری کی گئی۔ڈیر اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں چارسوپچاس سے زائد بے گناہ افراد خون میں نہلائے گئے جبکہ متعدد جوانوں کو فورسز نے گولی ماردی اور ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینک دیں گئیں
پاراچنار میں ایک ہزار پچاس سے زائد افراد کو شہید کیا گیا متعدد معذور اور اپاہیج کئے گئے
گلگت بلتستان میں سینکڑوں لوگ مذہب کے نام پر دہشت کی بھینٹ چڑھ گئے لشکروں کے حملے ہوتے رہے درجنوں دیہات جلائے گئے ۔
کوئٹہ میں روزانہ کئی بے گناہ افراد شہید کردیے جاتے ہیں سیکوریٹی ادارے تماشائی رہے تو آپ کی عدالتوں نے بھی دہشت گردوں کو آزاد کیا
اس ملک کے پانچ کروڈ اہل تشیع آپ کی عدلیہ سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں ،انکا اعتماد ریاستی اداروں سے اٹھتاجارہاہے
ایساکیوں ہے کہ ہمارے حوالے سے آپ بڑے سے بڑے سانحے پر بھی کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیتے ؟
چیف جسٹس نے توجہ دلانے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا
مجھے وطن عزیز ہے اور مذہب کے نام پر جاری درندگی اور بربریت پر نہایت افسوس ہے ،لیکن میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں اس سے زیادہ میں کھل کر بات نہیں کرسکتا لیکن آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس درندگی اور دہشت گردی کے خلاف رٹ دائر کریں متعلقہ اداروں اور لوگوں کے خلاف دستاویزات میری عدالت میں فراہم کریں آپ محسوس کرینگے کہ میں اپنی ذمہ داری کیسے ادا کرتا ہوں
میں اس معاملے میں خود سے ایکشن لینے کا رسک نہیں لے سکتا اگر آپ رٹ دائر کریں تو میں پوری طرح سے توجہ دیکر اس کیس کو دیکھ نگا اور قوم کے اندر موجود مایوسی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرونگا یہ میرا سیاسی بیان نہیں ،آپ اس کی صداقت کو میرے روئے میں محسوس کریں گے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانیکے قیام کے لئے میں اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کرتا ہوں
میری مجبوری اور عذر سے آپ سمجھ لیں کہ میں نے اب تک خود سے قدم کیوں نہیں اٹھایا
جس میں علامہ محمد امین شہید صاحب نے کہا کہ ہم عنقریب تمام تر ثبوتوں اور دلائل و شواہد کے ساتھ آپ کی عدالت میں آئیں گے

capm03

احتجاجی کیمپ کے شرکاء نے آج اعلان کردیا کہ ملک بھر میں جاری دہشت گردی پر ریاستی خاموشی اور شیعہ نسل کشی کے خلاف جمعہ کے دن خواتین کی ریلی برآمد ہوگی جبکہ اتوار کے دن بچوں کی ریلی برآمد ہوگی خواتین اور بچوں کی ریلی دہشت گردی سے متاثرہ خواتین اور یتیم بچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرینگے اور ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام میں ریاستی عدم دلچسپی کی مذمت کرینگے

 

camp02پارلیمنٹ کے سامنے چائنہ چوک سے ریلی برآمد ہوئی جو پریس کلب اسلام آباد پر اختتام پذیر ہوئی ریلی کے اختتام پر شرکاء ریلی پریس کلب کے سامنے لگے ہوئے احتجاجی کیمپ پر ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور اہل تشیع کی نسل کشی کے خلاف احتجاجا دھرنے پر بیٹھ گئے اور یہ احتجاجی کیمپ ایک غیر معینہ مدت تک لگا رہے گا ۔احتجاجی کیمپ کے شرکاء نے آج اپنی پہلی نماز مغربین باجماعت ادا کی ۔
کیمپ اس وقت علمائے کرام مجلس وحدت کے عہدہ داروں کے علاوہ عمائدین شہر اور جوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے

camp001

ایم ڈبلیو ایم نے ملک بھر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے خلاف غیر معینہ مدت کے لیے احتجاجی کیمپ لگا دیا
چائنہ چوک تا نیشنل پریس کلب احتجاجی ریلی، سینکڑوں افراد کاشیعہ نسل کشی پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف مظاہرہ

اسلام آباد ( پ ر ) مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ملک بھر میں سامراجی آلہ کاروں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کے خلاف اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا دیا گیا، احتجاجی کیمپ ملک بھر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ، شیعہ نسل کشی اور ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف چائنہ چوک سے نکالی جانی جانے والی احتجاجی ریلی کے اختتام پر لگایا گیا ، ریلی کی قیادت ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری ،سکیرٹری امور جوانان علامہ اعجاز حسین بہشتی، اسلام آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ فخر علوی  اور مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین سمیت ایم ڈبلیو ایم کے دیگر اکابرین نے کی ۔ ریلی میں  ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او سمیت راولپنڈی اسلام آباد کی ایک درجن سے زائد مذہبی ، سیاسی ، انسانی حقوق کی تنظیموں کا اراکین اور سول سوسائٹی کے افرادد شریک تھے ، مظاہرین نے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی  پر ریاست اور ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی  خلاف احتجاج کیا ،مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے این ڈبلیو ایم پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری اور دیکگر مقررین نے کہا کہ ملک بھر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کی ایک سنگین سازش ہے ، ملک دشمن عناصر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سا  لمیت کو  خطرات میں دھکیلنے کے درپے ہیں ان کا راستہ روکنا ضروری ہے ، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں فرقہ واریت نام کی کوئی چیز نہیں ، ایک سازش کے تحت قتل و غارت کی ان سنگین وارداتوں کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر حقائق کومسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، انہوں نے انہوں نے میڈیا سمیت تما م نشریاتی اداروں کے نمائندگان سے اپیل کی کہ وہ ملک میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے لیے فرقہ واریت کی اصطلاح استعمال نہ کریں اور عوام کو اصل حقائق سے باخبر رکھیں ، ریلی کے اختتام پر نیشنل پریس کے سامنے غیر معینہ مدت کے لیے احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ، علامہ اصغر عسکری نے اس احتجاجی کیمپ کے اغراض و مقاصد اور اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کیمپ  ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کو موثر بنانے، ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،قتل و غارت اور لاقانونیت کی جانب سیکورٹی اداروں کی توجہ مبذول کرانے ، دہشت گردی و لاقانونیت کے تدارک کے لیے عوامی شعور بیدار کرنے اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لگایا جا رہا ہے ، انہوں نے تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی  سے اپیل کی کہ وہ کیمپ میں شریک ہو کر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہداء کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں ۔

ehtijajcamp01

ایم ڈبلیو ایم اسلام آبادکی جانب سے ٹارگٹ کلنگ اور شیعہ کشی کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگادیا گیا جبکہ اب سے کچھ دیر بعد پارلیمنٹ کے سامنے سے ریلی برآمد ہوگی اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ پر اختتام پذیر ہوگی جس کے بعد شرکاء احتجاجی کیمپ میں شریک ہونگے یہ احتجاجی کیمپ ایک غیر معینہ مدت تک لگا رہے گا کیمپ میں اہم پروگرامز ہونگے جن میں سے جلسہ خطابات،احتجاج،ریلیاں،ٹارگٹ کلنگ کے خلاف عوامی شعور کی بیداری کے لئے مختلف قسم کی پپلیکیشنز اہم سیاسی سماجی شخصیات سے ملاقات وغیرہ شامل ہیں

 

url4بلوچستان میں رواں سال 2012ء میں اب تک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں 224 افراد جاں بحق اور 180 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ 2008ء سے اب تک 365 افراد جاں بحق اور 478 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری سے 3 اگست 2012ء تک ٹارگٹ کلنگ کے 165 واقعات میں 224 افراد جاں بحق اور 338 زخمی ہوئے ہیں۔ جن میں ایف سی کے 43 اور پولیس کے 28 اہلکار شامل ہیں۔ اس عرصے کے دوران فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے 32 واقعات پیش آئے جس میں 93 افراد جاں بحق اور 172 افراد زخمی ہوئے۔
3 اگست سے یکم ستمبر تک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے مزید نصف درجن واقعات پیش آئے جس میں سیشن جج سمیت 19 افراد جاں بحق اور 10 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس طرح رواں سال میں اب تک فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 224 ہو گئی ہے۔ محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ 21 واقعات میں 118 افراد ہدف بنا کر قتل اور 84 افراد کو زخمی کیا گیا۔ مجموعی طور پر 2008ء سے اب تک 365 افراد قتل اور 478 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

0012

ایم ڈبلیو ایم ملتان کے سیکرٹری جنرل نے ملتان میں شب شہداء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت بلوچستان شہید ذوالفقار نقوی کے قتل کی تحقیقات کرتا تو اس طرح کے واقعات نہ ہوتے۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ملتان کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسئن نقوی نے کہا کہ ملک میں شیعیان حیدرکرار کا ایک منظم سازش کے تحت قتل عام کیا جارہا ہے، اگر ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو میڈیا ، قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ممبران واویلا شروع کر دیتے ہیں اور عدلیہ کو نوٹس لینے پر مجبور کر دیتے ہیں لیکن شیعیان حیدرکرار کے قتل عام کے خلاف کوئی سیاست دان کھل کر بات نہیں کرتا سوائے چند افراد کے ، اُنہوں نے کہا کہ عدلیہ کی یہ صورتحال ہے کہ جیسے اُسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ اگر بلوچستان حکومت اور نام نہاد آزاد عدلیہ گزشتہ روز شہید ہونے والے سیشن جج ذولافقار نقوی کے قتل کی مکمل تحقیقات کی جاتیں تو اس طرح کے واقعے نہ ہوتے، اُنہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس قوم کے لیے اُمید کی کرن ثابت ہوگی۔
علامہ اقتدار حسین نقوی،سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین،ملتان،جنوبی پنجاب،سانحہ ہزار گنجی،بلوچستان حکومت کے خلاف،

mlo6

مجلس وحدت مسلین کراچی کے رہنما مولانا صادق رضا تقوی ،محمد مہدی ،علامہ آفتاب جعفری اور آصف صفوی نے وحدت ہاوس کراچی سے جاری ہونے والے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان بلخصوص کوئٹہ میں شیعان حیدر کرار کی منظم نسل کشی نہ رکی تو عدلیہ اور حکمران نوجوان ملت کے غیض وغضب سے نہیں بچ سکیں گے۔ایڈیشنل سیشن جج بلوچستان ہائی کورٹ شہید سید ذوالفقار حسنین نقوی کی کوئٹہ میں امریکی نواز دہشت گردوں کے ہاتھوں بہیمانہ شہادت کی پرزور مذمت کرتے ہوئے رہنماوں کا کہنا تھا کہ ذوالفقار نقوی کا قتل دراصل عدل و انصاف کا قتل ہے ایڈیشنل سیشن جج بلوچستان ہائی کورٹ سید ذوالفقار نقوی ایک ایمان دار دین دار اور فرض شناس جج تھے اورانہوں نے عدل و انصاف کے دامن کو کبھی نہ چھوڑا ۔ رہنماوں کا کہنا تھا شہید ذوالفقار نقوی کا قتل آزاد عدلیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے؟ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کہ جو خود کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے ہی شہر میں ہی موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف کوئی سوموٹو نوٹس کیوں نہیں لیتے ہم حکومت اور عدلیہ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیئے گئے توجو نوجوان اب تک علماء کے احترام میں خاموش ہیں آگے چل کر ان نوجوانوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجائے گا۔اور تمام تر حالات کی ذمہ دار حکومت وقت اور عدلیہ ہوگ

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree