وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس بعنوان "پرامن کشمیر کانفرنس "مظفرآبادکے  مقامی ہوٹل  میں منعقد ہوئی ۔اس آل پارٹیز کانفرنس میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی ،مذہبی وسماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں  مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما ملک اقرار حسین سمیت شاہ غلام قادر سپیکر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیراور رہنما مسلم لیگ ن ،چوہدری لطیف اکبر  و جاوید ایوب  سابق وزراء آزادکشمیر ورہنما پاکستان پیپلز پارٹی،خواجہ فاروق احمد(سابق وزیر ) و عبدالماجد خان ممبر قانون ساز اسمبلی رہنما پاکستان تحریک انصاف،پیر سید مرتضیٰ علی گیلانی سابق وزیر آزاد کشمیرو راجہ ثاقب مجید رہنماآل جموں کشمیر مسلم کانفرنس،شیخ عقیل الرحمٰن  نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر، سید شبیر حسین بخاری  و مولانا فرید عباس نقوی رہنما  جعفریہ سپریم کونسل آزاد کشمیر،سید وقار حسین کاظمی صدر پیپلز نیشنل پارٹی کشمیر،جاوید مغل مرکزی کوآرڈینیٹر آل پاکستان مسلم لیگ،میر افضال سہلریا رہنماکشمیر نیشنل پارٹی،قاضی منظور الحسن رہنماجمعیت علمائے اسلام ،سید اسحاق حسین نقوی  کوآرڈینیٹر مرکزی جماعت اہلسنت آزاد کشمیر،اجمل مغل رہنماجموں کشمیر پیپلز پارٹی،عبدالرزاق مغل رہنماتاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی،مولانااحمدعلی سعیدی رہنما حسینی فاونڈیشن آزاد کشمیر، سید ذاکر حسین سبزواری رہنما آئی۔او آزاد کشمیر،ضیاءاحمد چغتائی ریاستی سربراہ پاکستان عوامی تحریک شامل تھے ۔

مرکزی رہنما مجلس وحدت مسلمین پاکستان  ملک اقرار حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست آزاد کشمیر انتہائی سٹریٹیجک پوزیشن رکھتی ہے اور مظفرآباد تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔ لہٰذا اس جگہ پر دہشت گردی کے پےدرپے واقعات حکومت وقت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ۔ اگر حکومت جلد سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم آزاد کشمیر علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار نہ کر سکی تو پھر نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورا پاکستان سڑکوں پر نکلے گا۔ دیگر مقررین نے بھی علامہ تصور جوادی  اور ان کی اہلیہ پر حملے کی شدید الفاظ پر مذمت کی اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ،آخرمیں  کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سال۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے اور تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں اس دن خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر اور اُن کے حقوق کے لئے مختلف سیمینار یا پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے یہ لگ بھگ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور اجرت میں کمی کے باعث مظاہرےشروع کئے تھے تاکہ ان کے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے اور اُن کی اجرت کو بڑھایا جائے ۔اسی طرح پھر امریکہ میں, 28 فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے حقوق کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ مختلف حادثات و واقعات بھی رونما ہوئے اور خواتین نے زبردست جدو جہد کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے لگیں۔ بلآخر 1975 میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منانا شروع کیا اور اس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر ہم خواتین کی حقوق کے حوالے سے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب، یونان،مصر،مشرق وسطیٰ ،ہندوستان غرض یہ کہ ہر جگہ عورت مظلوم تھی عورت کی کوئی معاشرتی شخصیت نہیں تھی۔ قدیم یونان میں عورت کو ایک تجارتی سامان کی طرح سمجھی جاتا اور بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی یہاں تک کی شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر باپ یا شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بیویوں اور بیٹیوں کو قتل کریں یا بیچ دیں۔ ہندوستان میں شوہر کی موت کے بعدعورت کو بھی شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس طرح شوہر کو تنہائی سے نجات ملے گی ۔ عرب میں بھی لڑکیوں کی پیدائش شرمندگی اور بے عزتی تصور کی جاتی تھی اور پیدائش کے ساتھ ہی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو میراث سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں عورت کو یورپ اور دیگر اقوام میں انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا ، صنف نازک کو فقط کاروبار یا خواہشات نفسانی کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا اُس وقت اسلام نے خواتین کی مقام و منزلت اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی. عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتادیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ ؑ کے احترام میں رسول اللّٰہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور رسول اللّٰہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کی مقام و منزلت اچھی طرح سمجھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو باقاعدہ طور پر ایک مقام عطا کیا اور ان کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ عورت کو زندہ رہنے کا حق ہے، ملکیت کا حق ہے،آزادی رائے کا حق ہے، ووٹ کا حق ہے،زندگی جینے کا حق ہے، اور عورت معاشرے میں ہر جگہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہے۔

اسلام عور ت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح، ادارہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں دونوں کو "یا ایھالناس" اور "یا ایھاالذین آمنو " کے زریعے مخاطب کیا گیا ہے, اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے جیسا کہ ارشار ہوتا ہے:" مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"(سورہ نساء، آیت۳۲)۔ آج جن ممالک کی ہم پیروی کرتے ہیں اور اُن کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں کچھ عرصے پہلے تک وہاں پر بھی عورتوں کو ذلیل و حقیر تصور کیا جاتا تھا بلکہ آج بھی جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کا ذکر کیا ہے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہ حقوق عورتوں کو میسر نہیں ہیں، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کے واقعات اسلامی ممالک سے ذیادہ روشن خیال ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں آج بھی صدر کے انتخاب کے لیے کسی خاتون کے مقابلے پر کسی سیاہ فام کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں جبکہ رنگی و نسلی تعصب کوٹ کوٹ کے ان کی رگوں میں موجود ہےلیکن پھر بھی یہ لوگ جتنا پست و کمتر عورت کو سمجھتے ہیں کالوں کوبھی نہیں سمجھتے. اسلام نے تو پہلے ہی رنگ و نسل کی برتری کی نفی کی ہے, جس زمانے میں عورتوں کو اپنے نظریے اور رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا  اُس زمانے میں دینِ اسلام مرد و عورت کے لئے نظریہ دینے ،ووٹ ڈالنے (بیعت کرنے) اور مساوات و برابری کا قائل تھا۔

 رسول اکرم ؐ کا ارشار ہے"عورتیں تم مردوں کے لئے لباس ہیں اور تم مرد بھی عورتوں کے لئے لباس ہو" دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں"تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے کہ جو اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے"۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات و احادیث خواتین کے حقوق ،فضائل اور احکامات سے بھری پڑی ہیں مگر یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت اسلامی تعلیمات کے بارے میں صحیح سے تحقیق کرے تو اُس کو اسلامی اصولوں کا علم ہو۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کے بس میں نہ تھا آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے تمام معلومات ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ اگر ہم ان سہولیات کو فضول کاموں کے بجائے اچھے کاموں کے لئے استعمال میں لائیں تو معاشرے سے برائیاں بھی ختم ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ہم اپنی مشکلات کا حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ عقل تحقیق کرے اور دنیا بھر میں موجود مسائل کا حل تلاش کرے تو اُس کو اسلامی تعلیمات و احکامات ہی سب پر سبقت لیتے نظر آئیں گے۔ ہم اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں، ہم مغرب سے آئی ہر چیز کو بلا چوں و چراں سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ہم کبھی اس کے مثبت اور منفی اثرات اوراُس کے مقاصد کی طرف توجہ نہیں کرتےاور اس کی جگہ اگر کوئی اسلامی چیز یا اسلام کے نام سے کچھ آجائے تو فوراََ ہزاروں سوالات کر ڈالتے ہیں کیوں کہ ہم کھانے پینے سے لے کر تعلیم کے حصول تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی دینی تعلیمات کو صرف نام کی حد تک رکھے ہوئے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں مغربی چیزوں میں ہی زیادہ حقیقت نظر آئے گی۔

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہر حقیقت کو وہم اور ہر وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ہم صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلکل اس مثال کی طرح ہے کہ اسلامی ممالک میں گٹر کا ڈھکن کھلا ہو تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے تو روشن خیالی اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اسلامی علوم اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تو پھر مغربی سیرت کو چھوڑ کر سیرت حضرت محمد ؐ کو اپنانا ہوگا، ہمیں اس تہذیب و تمدن کی جنگ کو جیتنا ہوگا, ہم کیوں دوسروں کے رہن سہن, تہذیب و ثقافت کو اپنائیں، دوسروں کی تہذیب کو اپناتے وہ ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو اور الحمد اللہ ہمارے پاس زندگی گزارنے سے لیکر حکومتی قانون تک سب کچھ موجود ہے، نہیں ہے تو صرف جستجو ، شعوراور عمل نہیں ہے۔ اس شعور کو پھیلانے کی ذمہ داری حکومت، عوام اور میڈیا تینوں کی ہے۔ اگر کوئی بھی ذمہ دار شخص پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں۔

میں عالمی خواتین کے دن کا مخالف نہیں ،ناہی اُن خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتا ہوں جن کی وجہ سے آج دنیا والے آٹھ مارچ کو خواتین کے نام سے منانے پر مجبور ہیں۔ مگر میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں ،سرکردہ لوگوں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ اگر ہمارے ملک میں یوم خواتین کو سردار انبیاء ، رحمت اللعالمین ؐ کی بیٹی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃالزہرا ؑ کی ولادت کے دن یعنی بیس جماد الثانی کو منایا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ کیونکہ جب عرب میں لڑکیوں کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا اور اُن کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور باقی دنیا میں بھی خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو  اس وقت رسول اکرم ؐ نے دنیا کو بتایا کہ خواتین کی عظمت اورحقوق کیا ہیں اور دوسری طرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی خود بھی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت فاطمہ (س ) کی شان کے لئے رسول اکرم (ص ) کی یہ احادیث کافی ہیں، *حضور اکرم (ص ) فرماتے ہیں: "فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ھیں"،"فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے تکلیف پھنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ھے"* یہ دو احادیث ہمارے لئے کافی کہ ہم ایک ایسی ہستی کو اپنا آئیڈیل بنائیں جس کی زندگی کا ہر پہلو قیامت تک کی خواتیں کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (اصفہان) مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان کی طرف سے سفیر انقلاب کردار و گفتار کے غازی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کا انعقاد کیا گیا جس میں حجتہ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر سیدشفقت شیرازی مرکزی سیکریٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان  اور برادر محترم سید دانش نقوی فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد علی نقوی نے خطاب کیا اور شہید ڈاکٹر کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بیان کیا اور طلاب کے لیے انکی روش کو نمونہ کے طور پر پیش کیا ۔پروگرام میں  اصفہان کے اردو زبان کےتمام تشکلات تشکل عماریون،تشکل شہید عارف حسینی ،تشکل بین الملل ،تشکل المھدی ھندوستان ،و تشکل قرآن و عترت کے مسئولین اور طلاب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

وحدت نیوز (لاہور) آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صدر ڈاکٹر فرخ چیمہ کی وفد کے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین کےمرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی  سے ملاقات، تفصیلات کے مطابق آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے صوبائی صدر ڈاکٹر فرخ چیمہ نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو آل پاکستان مسلم لیگ کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فرخ چیمہ کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی نمائندہ وفد نے وحدت ہاؤس پنجاب میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی، مرکزی سیکریٹری شماریات علی مہدی خان اور صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی مولانا سید نیاز حسین بخاری سے ملاقات کی اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس موقعہ پر ملکی سیاسی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور قومی سطح پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قومی مؤقف کی تائید کی گئی اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اشتراک عمل کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے باہمی روابط کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین کی ریاستی شوریٰ کے بھر پور اجلاس کا انعقاد ،جبکہ ریاستی کابینہ کے علاوہ ضلعی نمائندگان کی شرکت۔صدرات قائمقام سیکرٹری جنرل علامہ سید طالب حسین ہمدانی نے کی۔اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ریاست میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش قرار دینے میں حیرت کا اظہار۔علامہ تصوحسین نقوی الجوادی پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے ٹھوس پیش رفت نہ ہونا تشویش ناک امر ہے ،مقررین کا خطاب ۔ ریاست کے امن کو درپیش خطرات کا احساس نہ کیا گیا ۔تو ریاست بھر میں احتجاجی سلسلہ شروع کیا جائیگا۔شوریٰ کے اجلاس کا فیصلہ ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید طالب حسین ہمدانی نے کہا کہ آزادحکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ خطہ میں امن کی فضا کو درپیش خطرات کا احساس کرے ۔لیکن علامہ تصور الجوادی پر قاتلانہ حملہ کے بعد سے اب تک آزادکشمیر میں ریاستی سطع پر ذرا بھی سنجیدگی اور احساس ذمہ داری کا مظاہر ہ دیکھنے میں نہیں آیا۔مجلس وحدت مسلمین کا اصولی اور جائز مطالبہ ہے کہ ریاست میں امن و استحکام کی فضا کو تباہ کرنے کی کوششوں کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔شوریٰ کے اجلاس سے مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے ۔علامہ تصور حسین نقوی الجوادی ریاست کے درجہ ائول باشندے ہونے کے علاوہ ایک عالم دین ہیں ۔اور ریاست کی تمام دینی و سیاسی قوتیں علامہ پر قاتلانہ حملے کیخلاف اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکی ہیں۔اسکے باوجود اگر اب تک تفتیش کو کسی مناسب انداز میں آگے نہیں بڑھایا جاسکا ۔تو اس کا ایک ہی مطلب ہے ۔آزادکشمیر میں ہندوستان کی خواہشات پر عمل کیا جارہا ہے ۔ہندوستان تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں امن نہیں دیکھنا چاہتا ۔اور اُسکی کوششیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔مقررین نے اہالیان مظفرآباد کے دھرنے کے موقع پر متعلقہ ذمہ داران کی طرف سے قاتلانہ حملے کے ذمہ دارگرفتاررکئے جانے کی بات کو مضحکہ خیز قراردیا ۔

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے زیراہتمام ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی 22ویں برسی منائی گئی۔ برسی کا پروگرام علمی مرکز مدرسہ حجتیہ میں منعقد ہوا، برسی کے اجتماع میں علماء، طلاب اور زائرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کہا کہ شہید کی پوری زندگی قوم و ملت کی رہنمائی، انکی خدمت اور جوانوں کی تربیت میں گزری، شہید نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود سفیر انقلاب بن کر پوری دنیا کے مظلومین کے حقوق کی جنگ لڑی اور اپنی پوری زندگی شناخت وب صیرت کیساتھ مسلسل جھاد میں گزاری، انہوں نے مزید کہا کہ شہید کی ایک بنیادی اور اہم خصوصیت انکی بصرت اور دشمن شناسی تھی، وہ دشمن کے عزائم اور ارادوں سے باخبر تھے اور انکی سازشوں کے مقابلے میں ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتے تھے۔

برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر ثقافتی مرکز اسلامی جمہوریہ ایران اسلام آباد جناب ڈاکٹر تقی صادقی نے کہا کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی اعلٰی الٰہی اقدار و صفات سے متصف تھے، انہوں نے ہمیشہ دین و ملت کی خدمت، جوانوں کی تربیت اور تمام تر مشکلات کے باوجود اجتماعی سیاسی و ثقافتی امور میں موثر کردار ادا کیا۔ وہ حقیقت میں ملت پاکستان کے ڈاکٹر چمران تھے۔ جوانوں کو چاہئے کہ انکی الہام بخش زندگی سے درس لیں، قوم و ملت کی بے لوث خدمت کریں اور اپنے زمانے کے ولی کی معرفت کیساتھ انکی اطاعت محض کریں،شہید کی برسی میں انکی شخصیت اور دیگر شہداء کے حوالے سے ثقافتی اسٹالز لگائے گے تھے اور سفیر انقلاب کے عنوان سے خصوصی نشریہ شرکاء کی خدمت میں ہدیہ دیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree