وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان میں  اکثریت  باصلاحیت افراد کی ہے  ،عوام  بھی مذہبی اور دیندار ہیں  لیکن ایک گندی اقلیت  ملک و ملت کے وسائل پر قابض ہے۔ہر روز کتنی ہی  قیمتی جانیں دہشت گردی  کے واقعات ،پینے کے گندے پانی،ٹریفک کے ناقص انتظامات  اور گھٹیا دوائیوں کے باعث تلف ہوجاتی ہیں۔ان سارے حادثات کے دوران  سرکاری ادارے  بھی کام کرتے ہوئے فعال نظر آتے ہیں۔

کوئی بھی سرکاری ادارہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ اس کی غفلت یا اس کے اہلکاروں کی کرپشن کی وجہ سے کو ئی حادثہ پیش آیاہے۔اگر کوئی شخص  اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت لے کر تھانے جائے تو  تھانے جاکر وہ خود پولیس والوں کے مظالم کا شکار ہوجاتاہے۔

اسی طرح قانون بظاہر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں جیسے ہمارا نیشنل ایکشن پلان  لیکن انہی قوانین کے ذریعے پر امن شہریوں کے گرد شکنجہ کسا جاتا ہے۔

پولیس اور اسمبلی کو چھوڑ کر آپ پاکستان ریلوے  سروس کا حال دیکھ لیں۔دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہماری ریلوے سروس کیا گل کھلا رہی ہے۔

ریلوے کے بعد محکمہ برقیات کو لے لیں ،آج شاید  کوئی  بھی ایسا پاکستانی نہیں ہو  گا جس نے محکمہ برقیات کی کرپشن  کے زخم  نہ کھائے ہوں۔میٹر دیکھے بغیر بل دینا تو اس محکمے کا معمول ہے  اوراگر آپ کسی اہلکار کو ہزاردوہزار روپے تھمادیں تو ۲۵ ہزار کا بل ۱۵ سو روپے میں تبدیل ہوسکتاہے۔

اصل بات یہ ہے کہ  سرمایہ دارانہ نظام کے لوگ بجلی لوٹتے ہیں اور عام پاکستانیوں سے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔

 اگرآپ کو  پاکستان کے کسی پارک  میں جانے کی توفیق ہوجائے تو  بہت کم پارک ایسے ملیں گئے جہاں ٹائلٹ کا مناسب  انتظام  بھی ہو۔

اس کے علاوہ آپ  سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھیں  ،اکثر سرکاری ہسپتالوں میں  اس قدر گندگی پائی جاتی ہے کہ ایک صحیح و سالم آدمی بھی اگر  ہسپتال جائے تو مریض ہو جاتا ہے ۔دوائیاں  تک موجود نہیں ہوتی ۔ایک لمبی قطار میں مریض کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر کئی جگہوں پر ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں  کہ ڈاکٹر کب آئے گا؟

بعض اوقات تو مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان مریضوں کے لیے کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ کم از کم ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں وغیرہ لگا دی جائیں یا کوئی انتظام کیا جائے اور جو مریض ایڈمٹ ہوتے ہیں وہاں موجود بیت الخلا میں پانی ہی نہیں ہوتا اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

  اس کے بعد  بلدیہ کے حوالے سے بات کریں  تو اکثر لاری اڈوں پر  موجود  گندگی کے ڈھیر ان کے حسنِ کارکردگی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔

عام ہوٹلوں کا حال دیکھیں  تو آپ کو اکثر جگہوں پرصفائی کے علاوہ سب کچھ دکھائی دے گا ۔اور بعض ہوٹل تو حرام گوشت کھلاتے ہوئے  بھی پکڑے گئے ۔

نادرا اور ایمبیسیوں کے بارے میں کچھ کہنا ہی وقت ضائع کرنا ہے۔اسی طرح مسئلہ کشمیر کو لیجئے ،ہندوستان اپنے تمام تر مظالم کے باوجود کشمیر کی غالب  نسل نو ،اکثر سیاستدانوں اورمتعدد مفکرین کو کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتاجارہاہے جبکہ ہم کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ کہنے کے باوجود کھو رہے ہیں۔خلاصہ یہ کہ کوئی شعبہ بھی کرپشن سے پاک نہیں ۔

یہ پاکستان کی صورتحال کا ایک اجمالی نقشہ تھا اب آئیے ممکنہ  حل بھی ڈھونڈتے ہیں:۔

1۔ اداروں کی  یقینی نظارت

ایسا بھی نہیں کہ حکومت  فلاح و بہبود کہ لیے کچھ نہیں کرتی ،حکومت  باقاعدہ طور پر سکولز ، ہسپتال،تعمیراتی کاموں کے لیے ،ریلوے  سرویس کے لیے  اور دیگر تمام  سرکاری اداروں  کے لیے مخصوص بجٹ کے لیے دیتی ہے ۔مشکل یہ ہے کہ نظارت نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ جگہ بجٹ خرچ نہیں ہوتا۔یا پرائیویٹ معاملات میں بھی کوئی صحیح نظارت نہیں ۔کبھی کوئی سمبوسوں میں چوہے کا گوشت ڈالتے ہوئے میڈیا پر آتا ہے اور کبھی گھی بنانے والی فیکٹری کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرغی کی آنتوں سے گھی بناتے رہے ۔

 جو مولوی فساد ، تفرقہ بازی ،دہشت گردی  پر لگے ہوے ہیں ان کو پتہ ہے کہ کوئی نظارت نہیں ۔سب اپنی مستی میں ہیں وہ کرتے  ہی اسی لیے ہیں  کیوں کہ نظارت نہیں ۔تمام اداروں کی کرپشن کی مہم ترین وجہ نظارت کا نہ ہونا ہے۔

 2۔ شکایات کی شنوائی  کا سسٹم بنایاجائے

کوئی سرکاری ادارہ چاہے پرائیویٹ  ہو یا سرکاری، جہاں بھی شکایات کا نوٹس نہیں لیا جاتا وہ شعبہ زوال کا شکار ہونے لگتا ہے۔اس شعبے کے اندر اچھے افراد بھی آہستہ آہستہ کام خراب کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے   کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اور پاکستان میں ہر آدمی کہتا ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔اور کرپشن کوئی کرتا ہی اسی وجہ سے ہے جب اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی مجھے نہیں پوچھے گا۔

پورے پاکستان میں عوامی شکایت سیل قائم کیئے جائیں جن میں ہر آدمی اپنی شکایت کھلے دل سے درج کروائے اور وہ شکایت سیل عوام کو پریشان کرنے کے بجائے  باقی کام خود انجام دے ۔

3۔قانون کا سب  پر لاگو نہ ہونا :

ہمیں جاننا چاہیے کہ کسی قوم کی پستی اور زوال کی وجہ  امیر اور طاقتور  پر قانون کا نافذ نہ ہوناہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خصوصا پولیس سے رشوت ختم کروائی جائے تاکہ عام آدمی بھی طاقتور لوگوں کے خلاف بلاخوف شکایت درج کرواسکے۔

4.آرمی کا تقدس بچایاجائے

پاکستان آرمی کو چاہیے کہ اپنے تقدس کو ہر قیمت پر بچائے۔کوئی بھی ملک اسی صورت میں محفوظ رہ سکتاہے جب اس کی آرمی مضبوط ہوگی۔تلاشیوں اور ناکوں کے دوران اگر کہیں سے آرمی کے جوانوں کی رشوت لینے کی شکایت موصول ہوتو اس کا فوری طور پر ایکشن لیاجانا چاہیے۔اسی طرح آرمی کو فرقہ پرست عناصر کی بھینٹ بھی نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔

5-عوامی طاقت کا شعور

کرپٹ لوگوں نے عوام کو یہ ذہن نشین کروایاہوا ہے کہ لوگ کچھ بھی نہیں کرسکتے،دھرنوں،ہڑتالوں اور شکایات سے کوئی بھی تبدیلی نہیں آسکتی،حالانکہ اصل طاقت عوام کے پاس ہی ہے۔

لوگوں کو اس طرح کی باتوں سے خاموش کروادیا جاتاہےکہ یہاں تو وزیراعظم بھی رشوت لیتاہے،پولیس خود ملی ہوتی ہے،سب ڈاکو ہیں۔۔۔۔

حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،سب کو ڈاکو کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے لوگ بھی اہم پوسٹوں پر موجود ہوتے ہیں ،لہذا لوگوں کو  خاموشی کے  ساتھ ظلم سہنے کے بجائے آواز بلند کرنے کا شعور دیاجانا چاہیے۔ پیامبر ص نے فرمایا  تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر  کسی ایک اعضاء کو تکلیف ہو تو  وہی درد دوسرے اعضاء کو بھی ہوتی ہے۔ہم سب کو مل کر مظلوموں کی حمایت کے لئے نکلنا چاہیے۔

دیکھا گیاہے کہ   جن علاقوں میں لوگ باہر نکلتے ہیں وہاں کی صور ت حال دیکھیں وہاں سرکاری افسران اور پولیس  کا اخلاق بھی  اچھا ہوتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اپنی ذمہ داری اگر پوری نہ کی تو لوگ اسے معطل بھی کروا سکتے ہیں اور یہاں کہ لوگ  باشعور ہیں۔

بعض دفعہ پولیس یا دوسرا ادارہ  اس بات پر  آمادہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا نوٹس لیں گئے کیوں کہ بغیر شکایات اور ثبوت کے خود نوٹس تو نہیں لے سکتے لیکن وہاں کوئی ایسا فرد نہیں ہوتا جو سامنے کھڑا ہو جائے۔

کئی دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کہیں ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی تھی  تو  لوگوں  کے احتجاج کے بعد کاٹ دی گئی۔

6-ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیاجائے۔

اس وقت پاکستان میں انسانی بنیادوں پر ایم ڈبلیو ایم کے مٹھی بھر لوگوں نے بھوک ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اذانیں دینے،نمازجماعت منعقد کرنے اور درس اخلاق دینے سے نہ ہی تو پاکستان میں انسانی حقوق کی جنگ لڑی جاسکتی ہے اور نہ ہی عوامی شعور کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔

عوامی شعور کی سطح کو بلند کرنے کے لئے عوام کو خانقاہوں سے نکال کرمیدان ِ عمل میں لانا ضروری ہے۔  اگر عوام کو خود ان کے حقوق کے دفاع کے لئے کھڑا نہیں کیاجاتا توکوئی درس اخلاق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا۔  میدانِ عمل میں آنے سے ہی عوام کو اپنی خودی کا احساس ہوتا ہے،اپنی قدروقیمت کااندازہ ہوتاہے ،اپنی طاقت کا پتہ چلتاہے اور حقوق کے دفاع کا ہنر آتاہے۔

جو اذان عوام کوخدا اور معاشرے سے کاٹ کر سلادے وہ اذان ،ذان نہیں بلکہ لوری ہے اور جو دھرنا اور احتجاج لوگوں کو بیدار کر کے خدا اور معاشرے سے ملادے  وہی اذان ،اذانِ انقلاب ہے۔

اس وقت عوام کو ان کے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے ایم ڈبلیو ایم نے  جو قدم اٹھایاہے ہمیں تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔یہ مٹھی بھر لوگ در اصل مظلوم انسانیت کی خاطر آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اپنی آوازوں کو ان کی آوازوں میں شامل کریں۔

تحریر۔۔۔۔۔۔مسلم عباس

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

دائرہ۔۔۔نظریاتی افیون

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج پھر صبح ہونے کی دیر تھی،وزیرستان کی کسی  کی تاریک غار میں  بوڑھی چمگادڑ وں نے مل کر  رات کی جدائی کا نوحہ پڑھا،کچھ نے صرف اشک بہائے اور کچھ نے سینہ کوبی بھی کی،منظر اتنا دلخراش تھا کہ نجد کے پاتال میں سوئے ہوئے سانپ بھی  غم و غصے سے پھنکارنے لگے ۔

دن ڈھل گیا ،رات ہوگئی ۔۔۔

اگلے روز پھر سورج اپنے وقت پر مشرق سے طلوع ہوا،اگلے دن بھی چمگادڑوں کا شوروغل جاری رہا۔۔۔

نصف النہار کے سمے کچھ چمگادڑوں نے بھیس بدل کر سورج سے جنگ کرنے کی ٹھانی!

انسانی قالب میں بھی کتنی لچک ہے!!!ہر جانور اس میں ڈھل سکتاہے۔۔۔

چند چمگادڑوں پر  بھی انسانی قالب فِٹ آگیا،انہوں نے زبان کی کی نوک سے سورج کا خون چوسنے کا عہد کیا،شام کے قریب سورج کا رنگ زرد پڑا تو چمگادڑیں بہت خوش ہوئیں لیکن اگلے روز پھر سورج اپنے وقت پر نکلا۔۔۔

چمگادڑیں آنکھیں بند کرکے دوڑے جارہی ہیں اوراُن  کی عقل کولہو کے بیل کی مانند مسلسل ایک دائرے میں متحرک ہے۔وہ بظاہر صراطِ مستقیم پر دوڑ رہی ہیں لیکن در حقیقت نسل در نسل ایک دائرے میں گھوم رہی ہیں۔

ان کی زبانوں پر سورج، سورج، سورج کے نعرے ہیں۔۔۔سننے والوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سورج،سورج کی پکار کس لئے ہے!؟

لوگوں کو سورج  کی طرف بلانے کے لئے یا سورج سےڈرانے کے لئے۔۔۔

اب سیانے لوگوں کی بیٹھکوں میں گپ شپ  بھی ایک دائرے میں ہوتی ہے ،بڑے لوگ سورج کے گرد آلتی پالتی مارکر بیٹھتے ہیں اور پھر نظریات کا افیون باری باری سب کوپلایا جاتاہے۔اسی طرح چوپالوں میں بھی بڑی رونق لگی رہتی ہے،جوگی اپنے منتر اورسنیاسی اپنے ٹوٹکے لے کر سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔

آج صبح بھی جب سورج چمکا تو کسی نے کہا کہ چلو اچھا ہوا،اب میں  رزق کمانے جاوں گا ،جوگی نے اسے سمجھایا کہ  بھوک تو پیٹ میں محسوس ہوتی ہے لہذا اس کا ذکر نہ کرو اور اسے پیٹ میں ہی رہنے دو۔

کسی نے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے   توسنیاسی نے  اسے جواب دیا کہ  پیاس تو سینے کی جلن کا نام ہے اسے سینے میں ہی رہنے دو۔

کسی نے کہا  کہ  میری تو اس آمدن میں  بنیادی ضروریات  بھی پوری نہیں ہوتیں تو اسے جواب ملا کہ  بھلا ضروریات بھی کبھی کسی کی  پوری ہوئی ہیں لہذا فضول میں شور نہ مچاو۔

کسی نے کہا کہ میرا حق چھین لیاگیاہے تو اسے جواب ملا کہ حق تو انبیائے کرام کو بھی نہیں ملا تمہیں کیا ملے گا لہذا صبر سے کام لو۔

کسی نے کہا کہ میری  جان کو دشمنوں سے خطرہ ہے  تو جواب ملا کہ دروازہ  اچھی طرح بند کرکے چہار قل اپنے اوپر دم کرلو اور اس طرح اپنی جان کی حفاظت خود کرو۔

کسی نے کہا کہ آگ میرے دروازے تک پہنچ چکی ہے تو جواب ملا کہ آگ سے نہ ڈرو جب ایک دروازہ جل جائے تو بازار سے جاکر نیا دروازہ لے آو۔۔۔

کسی نے کہا کہ ڈاکو میرے گھر کو تاک رہے ہیں تو جواب ملاکہ منت ترلے کرواور کچھ دے دلا کر وقت گزارو۔

کسی نے کہا کہ میرے کلاس فیلو امتحان میں نقل کرتے ہیں تو اُسے جواب ملا کہ نقل کے لئے بھی عقل چاہیے۔

کسی نے پوچھا کہ غربت کا کیا علاج ہے اسے جواب ملا کہ غریبوں کو ماردیاجائے۔

کسی نے کہا انسانی مساوات کا نسخہ کیاہے اسے جواب ملا کہ سب کے لئے ایک ہی  قانون بنادو کہ جو بھی سر اٹھاکرچلے اس کا سر کاٹ دو۔

کسی نے پوچھا کہ بیوروکریسی کی فرعونیت کا کیا درمان ہے؟اسے جواب ملا کہ فقط خوشامد و چاپلوسی

نظریاتی افیون کےجام پلاکر لوگوں کو دائرے میں دوڑانے کا کھیل مدتوں سے جاری ہے۔

اندھی چمگادڑیں  دنیا بھر میں سورج کے سامنے پر پھیلا کر کھڑی ہیں،ہر طرف تاریکی پھیل رہی ہے۔۔۔

ایسے میں اس تاریکی سے بچ جانے والے مٹھی بھر انسانوں کو، انسانیت کی بقا کے لئے ہاتھ پاوں مارنے پڑیں گے،کوئی تدبیر سوچنی پڑے گی،زبان کھولنی پڑے گی اوراحتجاج کرنا پڑے گا چونکہ انسانوں کوخون چوسنے والی چمگادڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑدینا بھی انسانیت نہیں ہے۔

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مہلک اسٹریٹجک ایسٹس

وحدت نیوز(آرٹیکل )قیام پاکستان سے آج تک استحکام پاکستان کی خاطر حکمران طبقہ نے مختلف ممالک کہ شہ پر کافی فیصلہ جات ایسے کئے ہیں، جو بعد میں پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے خطرہ بن گئے۔ جس کی کئی مثالیں پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان سب کا اصل شکار عوام ہی بنتے آئے ہیں، کیونکہ پاکستانی قوم کے اندر لاشعوری اور تعصب بدرجہ کمال موجود ہے۔ جس کی سب سے بدترین مثال جہاد افغانستان تھا۔ پاکستان نے امریکہ و سعودیہ کی شہ پر روس کے خلاف جہاد افغانستان کے نام پر ٹاسک فورس بنائی گئی۔ وہ فیصلہ غلط تھا یا صحیح تھا، یہ الگ بحث ہے، لیکن اس سب میں ایک غلطی جو حکمرانوں نے انجام دی، وہ یہ کہ جہاد افغانستان کے نام پر بننے والی جهادی فورس میں ایک خاص فرقہ کو پروان چڑھایا گیا، وہابیت کو ٹاسک فورس میں بھرتی کیا گیا اور پاکستان میں موجود باقی تمام مذاہب و ادیان کو فراموش کیا گیا۔

دنیا کے مخلتف ممالک میں جب بھی کوئی بیرونی خطرہ یا جنگ ہوتی ہے تو عوام الناس پر مشتمل رضاکار فورسز بنائی جاتی ہیں، جن کے ذمہ وہ تمام کام ہوتے ہیں، جو آرمی انجام نہیں دے سکتی۔ لیکن ہمیشہ اس رضاکار فورس کو قومی مفادات اور قومی سوچ کے ساتهـ بنایا جاتا ہے، اس ملک کے تمام طبقات کو شامل کیا جاتا ہے اور ان سب کا ہدف ملکی سلامتی ہوتا ہے۔ ان کی تربیت ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تمام افراد کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصب سے بالاتر رہیں اور صرف اور صرف ملکی مفادات و سلامتی اور خود مختاری کو عزیز تر بنایا جایے۔

اس وقت عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ کیلئے رضاکار فورس ترتیب دی گئی ہے، جس میں عوام الناس کے تمام طبقات کو شامل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ عراق میں حشد الشعبی نامی رضا کار فورس کہ جس میں اہل تشیع، اہلسنت اور تمام ادیان کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کا ہدف صرف اور صرف ملکی سلامتی ہے۔ اسی طرح شام میں لجان الشعبیه نامی رضا کار فورس کہ جس میں اہل تشیع، اہلسنت اور تمام ادیان کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے اور یہ فورسز اسٹریٹجک ایسٹس ہوتے ہیں اور وقت آنے پر ہمیشہ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹا جا سکے۔ داعش کے خلاف جتنی کامیابیاں بھی ہو رہی ہیں، ان کی اصل وجہ عوامی رضا کار فورسز ہیں۔ عوامی طبقے بغیر کسی نسلی و مذہبی تعصب کے صرف اور صرف دشمن کے خلاف جنگ کا حصہ بنتے ہیں۔

پاکستان میں بھی اسی طرح کی ہی رضا کار فورس ترتیب دی گئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں موجود روس جیسی سپر پاور کو نکالا جاسکے، کیونکہ افغانستان کے بعد روس کی اگلی نظر پاکستان پر تھی اور روس اس خطے میں مستقل بنیادیں بنانا چاہتا تھا، جس کے لئے پاکستان سے رضا کار فورسز بنا کر افغانستان بھیجی گئی تھیں، تاکہ وہاں جا کے روسی افواج کے ساتھ جنگ کریں اور اس وقت کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بالآخر روس اپنا تمام تر اسلحہ چھوڑ کر افغانستان سے فرار ہوگیا۔ لیکن تاریخ کی سب سے بڑی غلطی اس وقت یہ کی گئی کہ جہاد افغانستان کے نام پر بننے والی رضاکار فورس میں صرف اور صرف وہابیت مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو شامل کیا گیا۔ جس کا خمیازه پورا ملک بهگت رہا ہے اور جس کی بنیادی وجہ سعودی عرب کے مفادات تھے. سعودیہ ایشیا میں اپنے نظریات کے حامل افراد میں اضافہ چاہتا تھا، جس کے لئے وہابیت کو پروموٹ کیا گیا۔

جبکہ پاکستان کے اکثریت بریلوی فرقہ اور اہل تشیع کو فراموش کر دیا گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ جہاد افغانستان کے بعد فارغ ہونے والی یہ تمام فورسز پاکستان میں واپس آکر بے گناہ افراد کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرنے لگے اور پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل عام کیا گیا اور خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ آج پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ وہی اسٹریٹجک ایسٹس ہیں، جن کو ہم نے خود پروان چڑھایا تھا۔ لہذا آج بھی وقت ہے کہ ہمیں اپنے فیصلہ جات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ان تمام لوگوں کو جو کہ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے لئے خطرہ ہیں۔ ان کو عوام الناس اور خاص طور پر اہلسنت برادران سے الگ کھڑا کیا جائے، کیونکہ وہ پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور وہ کبھی بھی پاکستان کے وسیع تر مفادات کے لئے کام نہیں کریں گے۔ آج پاکستانی عوام اور حکمرانوں کو ان افراد سے تمام قسم کے تعلقات کو ختم کرنا ہوگا اور خاص مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو حقیقی حجم پر لانا ہوگا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) اخلاق سے افکار واقدار کو تبدیل کرنے کا نام اسلام ہے۔اسلامی اخلاق کا منبع انسان کا ضمیر ہے۔اگر انسان کا ضمیر زندہ ہوتو وہ کبھی بھی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتا۔کوئی بھی شخص جتنا بے ضمیر ہوتاہے اتناہی بداخلاق اور منہ پھٹ بھی ۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ بد اخلاقی پر اتراتے تھے،ظلم کرنے پر فخر کرتے تھے،لڑائی جھگڑے کو بہادری سمجھتے تھے اور اخلاقی معائب کو انسانی کمالات کا نام دیتے تھے۔

انبیائے کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے زبردستی لوگوں کی عادات نہیں بدلیں بلکہ اپنی سیرت و اخلاق کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے مردہ ضمیروں کو زندہ کیا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی نمائندے پتھرکھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن مارتے ہوئے نہیں،اسی طرح گالیاں سہتے ہوئے تو دکھائی ہیں لیکن دیتے ہوئے نہیں۔

الٰہی نمائندوں نے اپنے روشن  کردار کےذریعے  اہلِ دنیا کی تاریک سوچ کوروشن افکار میں تبدیل کیا ہے۔

مقامِ فکر ہے کہ اگر الٰہی نمائندے بھی ظالموں سے مقابلے کے لئے ظلم کا راستہ ہی اختیار کرتے ،وحشت و بربریت کے خاتمے کے لئے وحشت و بربریت کو ہی استعمال کرتے تو آج دنیا کا حال کیا ہوتا!!!؟

الٰہی نمائندوں کی زحمات اور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔

پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک مقدس ہدف ہے ،لیکن اس ہدف کو کسی غیر مقدس وسیلے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ خود دہشت گردی۔

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چبائے ہوئے جگر سے لے کرسبطِ رسولؐ کے تابوت پر لگے ہوئے تیروں  نیز  میدان کربلا میں  مرجھائے ہوئے لبوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مظلوموں نے کبھی بھی ظالموں کے نقشِ قدم پر قدم نہیں رکھا۔

اہلِ حق نے کبھی بھی اخلاقی اقدار کو پامال نہیں کیا اور انسانی کرامت کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔

پوری تاریخ بشریت میں الٰہی نمائندوں کی یہی اخلاقی فتح ہی ظالموں کی شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیائے ظلم ہمیشہ اعدادو شمار اور لاولشکر کے اعتبار سے برتر ہونے کے باوجود اہل حق کی اخلاقی جرات کے ہاتھوں مغلوب ہوتی رہی۔

اس وقت پاکستان کی کربلا میں بھی ظالموں کے خلاف  ایک احتجاج جاری ہے۔ اگر  ہم نے اس احتجاج کو موثر بنانا ہے تو پھراپنی مظلومیت بھری تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ہر سال دس محرم الحرام کو نواسہ رسول ؐ سے اظہار یکجہتی کے لئے  اورجمعۃ الوداع کو  یوم القدس  کے سلسلے میں پوری دنیامیں  ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتاہے۔یہ احتجاج بظاہر خالی ہاتھ کیا جاتاہے۔۔۔

کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ  دس محرم الحرام  اور یوم القدس کو ہونے والے اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں!؟

حق بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج کے فوائد و ثمرات کومکمل طور پر  ابھی تک عقل بشر درک نہیں کرسکی۔

دس محرم الحرام  اور یوم القدس کا عالمی احتجاج ہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ اگر احتجاج کو اس کی زمانی و مکانی شرائط اور زینبی[ع]حوصلے کے ہمراہ انجام دیا جائے تو خالی ہاتھوں اور لبیک یا حسین[ع] کے نعروں سے  بھی قصر شاہی کی بنیادوں کو ہلایاجاسکتاہے۔

اگر سیدِ سجادؑ کے اخلاق  کے مطابق بے ضمیروں کو جگایاجائے تو بہتے ہوئے اشکوں سے بھی ظلم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔

اگر ہم تخریب،تنقید اور اخلاقی پستی سے جان چھڑواکر اپنی زندہ ضمیری،خوش اخلاقی،سیاسی تقویٰ اور بصیرت  کا ثبوت دیں تو آج بھی   پاکستان میں یہ خالی ہاتھ احتجاج  اور لانگ مارچ کوفہ و شام کے بازاروں کا منظر پیش کرسکتاہے ۔

اگر ہمارے اپنے ضمیر جاگ جائیں،ہمارے اپنے تنظیمی و اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہوجائے   تو پھر۔۔۔

بلا شبہ۔۔۔

یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں

فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں

جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم

اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں

 


نذرحافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ارض فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نواؤں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا ۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو ہاتھ اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا ۔فلسطین کا مسئلہ شروع میں تو ایک علاقائی مسئلہ رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی مخلص اور مجاہد قیادت کو یہ ادراک ہونے لگا کہ دشمن صرف زمین اور علاقائی مسئلہ سمجھ کر فلسطین پر قابض نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کے پیچھے دینی اور نظریاتی مسائل ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ چھ عشروں میں کئی کوششیں ہوئیں ایک دور تھا کہ فلسطین میں یاسرعرفات کا طوطی بولتا تھا اور فلسطین اور فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ پی ایل او اور یاسر عرفات کے ہاتھوں میں تھا۔ پی ایل او نے شروع میں تو انقلابی نعروں کے ساتھ بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین کی تمام سرزمینوں کی غاصب صہیونیوں سے آزادی کے لئے صدائے احتجاج بلند کی لیکن یاسرعرفات کے یہ افکار و نظریات بہت جلد سازش اور سازباز کا شکار ہوگئے اور وہ بھی دوسرے عرب سربراہوں کی طرح فلسطینیوں کی زبان بولنے کی بجائے امریکہ اور مغرب کی زبان بولنے لگے اور بالآخر صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا حلقہ یاسرعرفات کو فلسطین کاز کا خائن قرار دینے لگا ۔ یاسرعرفات ، پی ایل او اور الفتح تنظیم کی انہی سرگرمیوں کے درمیان اسلامی انتفاضہ کا آغاز ہوا 1980 ؁ء کے آخری عشرے میں مسئلہ فلسطین علاقائی مسئلے سے ایک دینی اور مذہبی مسئلے میں تبدیل ہوگیا ۔ نئے نئے فلسطینی گروپ میدان میں آئے اور بالآخر حماس کی صورت میں ایک فلسطینی گروہ فلسطینیوں کی حقیقی آواز میں بدل گیا ۔

امام خمینی ؒ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ گردانتے تھے آپ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کی بیداری کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں فوری طور پر اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے فلسطین کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور فلسطین کے مسئلے کے حل اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے نئی انقلابی حکومت نے فلسطینی قوم کی ہر طرح کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی امداد کرنے کااعلان کیا اسی دوران امام خمینی ؒ کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا اور اس کا مقصد فلسطین کی مظلوم قوم کا دفاع اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرنا ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ کیاجاتاہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ یوم القدس کی ریلیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کریں اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائیں اور یہ جان لیں کہ ان کا یہ اقدام، عالمی سطح پر غیر معمولی اثرات کا حامل ہو گا۔ اس لئے کہ عالمی یوم القدس فلسطین کی مظلوم قوم کے ساتھ یکجہتی اورصیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور اس کی جارحیتوں کے خلاف تمام مسلم قوموں کے متحد ہونے کا دن ہے اور یہ سال ایک منفرد خصوصیت کا حامل ہے ۔ اس لئے کہ داعش دہشت گرد گروہ اپنی دھشتگردانہ کارروائیوں کے سبب مسلمانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کئے ہوئے ہے اور وہ غاصب اسرائیل کے جارحانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹا رہا ہے ۔

دراصل بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اپنی دور رس اور گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لئے یوم قدس کا اعلان فرمایا تھا۔امام خمینی کی جانب سے ماہ مبارک رمضان کے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم قدس قراردینے سے صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ملت فلسطین کی جدوجہد اور عالم اسلام کی پائداری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا ہے ۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے اور بیت المقدس پر صیہونی حکومت کا قبضہ ہونے سے وہ مکمل فلسطین پر قابض ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ بیت المقدس کی حمایت کو اولین ترجیح دیں۔ آج کے حالات میں عالمی یوم قدس سے ملت فلسطین اور مسلمانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ قدس پر توجہ دے کر عملی طور سے قدس کو فراموش کرانے کی صیہونی سازشوں کو ناکام بنادیں۔دنیا کے اکثر ملکوں بالخصوص اسلامی ملکوں کے عوام عالمی یوم قدس کو احتجاج کے طور پر منا کر صیہونی حکومت کی جارحیت اور اس کے حامیوں کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں۔بلاشک اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے عالمی سطح پر ملت فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے ۔ دراصل اسلامی انقلاب نے دنیا کی رائج سیاست میں نئے نظریات پیش کئے ہیں۔اسلامی انقلاب نے جارحیت کی نفی اور سامراج کے مقابل مظلوموں کی حمایت کا نظریہ پیش کیا ہے جو اسلام کی ترقی یافتہ تعلیمات پر مبنی ہے ۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی جانب سے اگست انیس سو اناسی میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے عنوان سے موسوم کرنے سے عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حمایت گذشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے بلکہ یہی امر علاقے میں اسلامی بیداری میں بھی نہایت موثر واقع ہوا ہے ۔

امام خمینیؒ نے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند بانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اسلامی انقلاب کے فورا" بعد حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس اعلان کرتے ہوئے اپنے تاریخی پیغام میں فرمایا تھا :

’’میں نے سالہائے دراز سے ، مسلسل غاصب اسرائیل کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ و خبردار کیا ہے اور اب چونکہ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف ان کے وحشیانہ حملوں میں شدت آگئی ہے خاص طور پر جنوبی لبنان میں وہ فلسطینی مجاہدین کو نابود کردینے کے لئے ان کے گھروں اور کاشانوں پر پے درپے بمباری کررہے ہیں میں پورے عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ ان غاصبوں اور ان کے پشتپناہوں کے ہاتھ قطع کردینے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جو قدر کے ایام ہیں فلسطینیوں کے مقدرات طے کرنے کے لئے ، روز قدس کے عنوان سے منتخب کرتا ہوں تا کہ بین الاقوامی سطح پر تمام مسلمان عوام فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت و پشت پناہی کا اعلان کریں ۔میں پورے عالم کفر پر مسلمانوں کی کامیابی کے لئے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں اور اس اعلان کے بعد سے ہی روز قدس ، قدس کی آزادی کے عالمی دن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور صرف قدس سے مخصوص نہیں رہ گیا ہے بلکہ عصر حاضر میں مستکبرین کے خلاف مستضعفین کی مقابلہ آرائی اور امریکہ اور اسرائیل کی تباہی و نابودی کا دن بن چکا ہے ۔‘‘

روز قدس دنیا کی مظلوم و محروم تمام قوموں اور ملتوں کی تقدیروں کے تعین کا دن ہے کہ وہ اٹھیں اور عالمی استکبار کے خلاف اپنے انسانی وجود کوثابت کریں اور جس طرح ایران کے عوام نے انقلاب برپا کرکے وقت کے سب سے قوی و مقتدر شہنشاہ اور اس کے سامراجی پشتپناہوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا اسی طرح دنیا کے دیگر اسلامی ملکوں کے عوام بھی اپنے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے انقلاب برپا کریں اور صہیونی ناسور کو دنیائے اسلام کے قوی و مقتدر پیکر سے کاٹ کر کوڑے دان میں پھینک دیں ۔روز قدس جرات و ہمت اور جواں مردی و دلیری کے اظہار کا دن ہے مسلمان ملتیں ہمت و جرات سے کام لیں اور
مظلوم و محروم قدس کو سامراجی پنجوں سے نجات عطا کریں ۔روز قدس ان خیانتکاروں کو بھی خبردار کرنے کا دن ہے جو امریکہ کے آلۂ کار کی حیثیت سے غاصب قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ ساز باز میں مبتلا ہیں اور ایک قوم کے حقوق کا خود ان کے قاتلوں سے سودا کررہے ہیں ۔روز قدس صرف روز فلسطین نہیں ہے پورے عالم اسلام کا دن ہے ، اسلام کا دن ہے قرآن کا دن ہے اور اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب کا دن ہے ۔اسلامی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا دن ہے ۔اگر اپنی اسلامی یکجہتی کی بنیاد پر لبنان کے حزب اللہی صہیونی طاقتوں کے خلاف 33 روزہ جنگ میں سرخرو اور کامیاب ہوسکتے ہیں تو فلسطینی مجاہدین بھی اگر خیانتکاروں کو اپنی صفوں سے نکال کر اتحاد و یکجہتی سے کام لیں اور پوری قوت کے ساتھ غاصب صہیونیوں کے خلاف میدان میں نکل آئیں تو یقینا" کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے گی کیونکہ خدا نے وعدہ کیا ہے " اگر تم نے اللہ کی مدد کی تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثبات قدم عطا کردے گا ۔‘‘حضرت امام خمینیؒ نے ایک موقع پر ’’یوم قدس‘‘کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا :’’یوم قدس ایک عالمی دن ہے یہ دن صرف قدس سے مخصوص نہیں بلکہ عالمی سطح پر مستکبرین عالم سے مستضعفین عالم کے مقابلے اور استقامت کا دن ہے یہ تمام سامراجی طاقتوں کے خلاف کمزوروں اور محروموں کی دائمی جنگ و پیکار کا دن ہے ، ان تمام قوموں کی جدو جہد اور کارزار کا دن ہے جو امریکہ اور اس کے ہم قبیل و ہم فکر دوسرے سامراجی ملکوں کی زیادتیوں کا شکار ہیں اس دن بڑی طاقتوں سے مقابلے کے لئے مستضعفین کو لیس ہوکر دشمنوں کی ناک خاک میں مل دینا چاہئے ۔"

اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کے مسلمان ایک ہوجائیں مذہب اور اعتقادات کے اختلافات کو الگ رکھ کر حریم اسلام کے دفاع و تحفظ کے لئے اسلام و قرآن اور کعبہ ؤ قدس کے تحفظ کے لئے ، جو پورے عالم اسلام میں مشترک ہیں وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک اوربس ایک ہوجائیں اور کفار و منافقین کو اسلامی مقدسات کی پامالی کی اجازت نہ دیں تو کیا مجال ہے کہ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے قبلۂ اول پر چند لاکھ صہیونیوں کا تصرف ، قتل عام اور غارتگری کا سلسلہ باقی رہ سکے ۔ آج مظلوم فلسطینی اپنے لاشوں سے لپٹ کر دشمن کے ٹینکوں اور توپوں کے مقابل غلیل اور پتھر لے کر یہ ملت اسلامیہ کی ملتجی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان کی مدد کے منتظر ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے قبلہ اول کی خون میں لت پت ہو کر حفاظت کریں گے بس ہمیں ملت اسلامیہ کا ساتھ چاہیے ۔ہم قدس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں گے لیکن قدس کو غاصبوں کے وجود سے پاک کرکے ہی دم لیں گے ۔ بقول شاعر :
جو پتھروں میں بھی کھلتے ہیں وہ گلاب ہیں ہم
جو سرخرو ہے بہرحال وہ شباب ہیں ہم
ہمارے خون کی موجیں انہیں ڈبودیں گی
سمجھ رہے ہیں جو بس وقت کا حباب ہیں ہم
اجڑ کے بسنے نہ دیں گے کسی بھی غاصب کو
جو ان حسرتوں کی مانگ کا خضاب ہیں ہم
ہمارے دم سے ہے باقی حرارت اسلام
نگاہ جس پہ ہے سب کی وہ آفتاب ہیں ہم
کریں گے قدس کو صہیونیوں کے شرک سے پاکخلیل وقت خمینی (رح) کا سچا خواب ہیں ہم

 

 

تحریر : علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی
(سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر)

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں ،یہ گذشتہ پینتیس برسوں سے وقفے وقفے اور تسلسل سے جاری ہے،اس کے مختلف فیزز ہم نے دیکھے ہیں،اور اس کی کئی اقسام سامنے آئی ہیں،کبھی تو یہ اہدافی قاتلوں کے ذریعے کسی شخصیت ،کسی عزادار،کسی نامی گرامی شیعہ رہنما،کسی ڈاکٹر،کسی استاد ،کسی پروفیسر یا ایجوکیشنسٹ،کسی شاعر،کسی مذہبی رہنما،کسی سیاسی شخصیت،کسی متولی،کسی نوحہ خوان،کسی ذاکر،کسی عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی ان قاتلوں کے ذریعے اجتماعی قتل عام کا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور کسی بڑے اجتماع،کسی مجلس،کسی جلسے،کسی جلوس،کسی ریلی،کسی نماز باجماعت،کسی درگاہ،کسی دربار،کسی امام بارگاہ کو بیگناہوں کے خون سے رنگین کیا جاتا ہے، اگر ہم ملت تشیع کے مجموعی رویہ اور ری ایکشن کو دیکھیں تو بلا شک و شبہ یہ ایک پرامن قوم کے طور پہ سامنے آئے گی،سینکڑوں جنازے سامنے رکھ کے چار دن انتہائی بے ضرر احتجاج و دھرنے کی مثال کسی اور کے پاس نہیں ہماری ہی ہے جبکہ ہمارے مخالفوں کی تاریخ اور کارنامے اٹھائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پاکستان ان کا وطن نہیں بلکہ یہ ہندوستان یا اسرائیل کے شہری ہیں جو پاکستان  کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں،آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر امریکہ نے کسی قبائلی ایریا میں کسی دہشت گرد گروپ کو کسی ڈرون کا شکار کیا ہے تو اس کا رد عمل پاکستان کو دیا جاتا ہے،پاکستانی عوام اور اس کے اثاثوں کو نقصان پہنچا کر فخریہ اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے ہمارے وہ مہربان مذہبی جغادری بھی قائل نظر آتے ہیں جو بظاہر سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان کی اصل طالبانائزیشن ہی ہے۔

لہذا یہ پاکستان افواج کو شہید کہنے سے کتراتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کا کوئی سرغنہ مارا جائے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں جو اس ملک کے ّآئین سے روگردانی اور انحراف کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج تک کبھی بھی کہیں بھی برے سے برے حالات میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اداروں اور فورسز کو نشانہ نہیں بنایا،جبکہ ہمارے مقابل دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے ہزاروں قیمتی فوجیوں و افسران کو نشانہ بنا کر فخریہ اس کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ سیکیورٹی اداروں اور متعصب حکمرانوں کا رویہ مکتب تشیع کے پیروان کے ساتھ انتہائی جانبدارانہ اور متعصبانہ رہتا ہے،کئی ایک واقعات و حادثات نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں خواہ مخواہ رگڑا جاتا ہے،ہم سے تعصب برتا جاتاہے،ہمیں توہین آمیز سلوک کا شکار کیا جاتا ہے،ہمیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اقلیتی شہریوں جیسے حقوق بھی حاصل نہیں ان کیلئے تو آواز بلند کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں،عالمی ادارے و میڈیا بھی ان کی زبان بن جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
    
اتنے سارے واقعات اور حادثات کے باوجود ہم کیا کریں کہاں جائیں ۔کیا اس کے بعد بھی ہم خاموش ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور اپنے آپ کو اہل کوفہ کی پیروی میں لگا دیں ۔کیا مختلف علاقوں سے لوگوں کا ہجرت کر جانا اور آبادیوں کا خالی ہو جانا، ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا کئی لوگوں کا خوف کی وجہ سے مذہب چھوڑ دینا کافی نہیں؟عزاداری اباعبداللہ الحسین علیہ السلام پر قدغنیں شیعہ نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کاجو بازار گرم ہے ۔کیا ہم اس پر بھی خاموش رہیں ؟۔نیشل ایکش پلان کو تبدیل کر کے شیعہ اور سنی (بریلوی) کی جانب موڑنے اور انہی دومکتب فکر کے خلاف آئے دن مقدمات کے اندراج ،خطباء و واعظین پر پابندی ،جلوس عزاء اور ماتم داری کے سامنے رکاوٹوں پر بھی ہم خواب غفلت میں پڑے رہیں ؟۔تو کب اور کہاں سے اس ظلم کے خلاف قیام کریں گے ؟کیا اب بھی کو ئی عذر باقی ہے ؟ اگر آج جب ہمارے خلاف ہمارے ملک میں بڑی بڑی سازشوں کا احساس کرکے ناصر ملت حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنی قوم کے دفاع اور اپنی ملت کے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک عظیم اور خاموش احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہے اور آج کئی دنوں سے اپنی صداقت کو ہر عام و خاص سے منوا لیا ہے اوراپنےپر مشقت اس سفر کو ماہ مبارک کے مہینے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے، تو کیا اس مجاہد عالم باعمل کے اس جہاد نے کیا ہمارے لئے حجت تمام نہیں کر دی؟
     
ظلم کے خلاف جدوجہد کا درس ہمیں دین اسلام سے ملتا ہے۔ ظلم کے خلاف خاموش رہنا غیر اسلامی اور دین محمدی ﷺسے متصادم ہے۔ اس وقت دنیا میں دو طاقتیں برسرپیکار ہیں۔ ایک طاقت ظالموں کی اور دوسری مظلوموں کی ہے۔ ہم نے ظالم کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہنا ہے۔ دنیا بھر میں جو جو حکومتیں ظالمین کی تائید کرتی ہیں، وہ ظلم کی حکومتیں ہیں، ان کے خلاف قیام کرنا واجب ہے۔ وطن عزیز کو گذشتہ تین دہائیوں سے قاتلوں، ظالموں اور لٹیروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس مادر وطن کو ان کے شکنجے سے چھڑانا ہے۔

آئیے !   
اپنے آئینی حقوق کی باز یابی کےلئے عید کے بعد اپنے آپ کو ایک عظیم اور تاریخی لانگ مارچ کے لئے آمادہ کریں جس کا رخ ظالم حکومت کے ایوانوں کی طرف ہو گا اوراس پیغام کو گھر گھر تک پہنچائیں ۔                                                                   


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیرالحسن کربلائی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree