وحدت نیوز (آرٹیکل) عراق انبیا کی سرزمین ہے۔قدیم تہذیب و ثقافت، مناسب محل وقوع اور  تیل کے وسیع ذخایر کے حامل ہونے کے سبب عراق کا شمار ایشیا کے  انتہائی  اہم ممالک میں ہوتا ہے ۔اس کے مشرق میں ایران،  جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال میں ترکی اور شمال مغرب میں شام میں واقع ہے۔عراق نے  کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے اور  اکثر انبیاء  نے یہاں اپنی زندگی گزاری ہے جس کی وجہ سے فلسطین کی طرح  اسے بھی انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔

اس  سرزمین پر متعدد حکومتیں گزری ہیں، تاہم ہم زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتے بلکہ گذشتہ ایک دہائی میں عراق کے سیاسی حالات کا مختصر  جائزہ  لیتے ہیں۔
۲۰۰۳ ء میں بعثی حکومت کے خاتمے  کے بعد ۲۰۰۵ ء کے عام انتخابات میں شیعوں کو بھاری اکثریت سے  کامیابی ملی تو سعودی عرب اور انکے حواریوں پریہاں کے شیعوں کا اقتدار میں انا سخت ناگوار گزرا۔کیونکہ ایران،  حزب اللہ اور بشار اسد کی حکومت پہلے ہی سے خطے میں انکی پالیسیوں کی راہ میں رکاؤٹ تھےاور  اب پڑوسی ملک عراق میں شیعوں کے مؤثر طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد تو  سعودی حکام  کی نیندیں ہی اڑ گئیں اور  انہیں خطے میں اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آئی۔

لہذا ۲۰۱۱ ء  میں امریکہ اور صہیونیزم کے ایماء پر ترکی اور چند دیگر  اتحادیوں کے تعاون سےدہشت گرد تنظیم "داعش" کی بنیاد رکھی  جس کا مقصدابتدائی مرحلے میں شام اور عراق پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ تاہم ان دونوں ملکوں  میں انہیں بری طرح  شکست کا سامنا کرنا پڑا۔  جدید  ترین جنگی ساز و سازمان سے لیس ہونے کے باوجود پانچ برسوں کی تگ و دو کے بعد  شام میں وہ نہ صرف  بشار اسد کی حکومت کا حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے  ہیں بلکہ رفتہ رفتہ زیرِ قبضہ علاقے بھی انکے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔  جبکہ عراق میں بھی ابتدائی چند کامیابیوں کے بعد آقای سیستانی (دام ظلہ العالی) کی جانب سےداعش کے خلاف اعلانِ جہاد سے نہ صرف انکی  پیش قدمی روکی گئی بلکہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے ۔

اب جب  سعودی عرب  اور ترکی کی یہ مشترکہ پالیسی کارساز نہ ہوئی  تو وہ عراق کو تقسیم کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ۲۵ برسوں سے بند سفارت خانہ دوبارہ بغداد میں کھول دیا ہے اور وہاں سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے صوبہ نینوا کو "داعش" کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے رضاکار فورس "حشد الشعبی" کی شرکت کی مخالفت کی ہے اور عراق کے سرحدی علاقے کردستان کی خود مختاری اور استقلال کی کھول کر حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عراق میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر یہاں داخلی انتشار پیدا کرنے  کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ انکا اگلاہدف عراقی شیعوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت بدظن کرکے عراقی شیعوں کو ایران سے دور رکھنا ہے۔

دوسری جانب ترک حکومت نے بھی اپنی فوج تمام تر جنگی ساز و سامان کے ساتھ موصل کے شمال مشرق میں واقع "باشقیہ" نامی قصبہ روانہ کر دی ہے جس کا مقصد عراقی فوجیوں کی جنگی تربیت بتائی گئی ہے۔ تعجب اور حیرت  کی بات یہ ہے کہ عراقی فوجیوں کی کمانڈینگ صوبہ نینوا کے سبکدوش گورنر اثیل النجیفی کے سپرد گی گئی ہے  جواس سے پہلے موصل میں داعش کے ساتھ ہمکاری کے الزام میں اپنے عہدے سے فارغ کیا جا چکا  ہے۔

در حقیقت ترکی ہمیشہ موصل ا ور صوبہ نینوا کو  اپنی آبائی سرزمین سمجھتی ہے۔ ۲۰۰۹ ء  میں  ترکی کے اس وقت کے وزیر خارجہ احمد داود اغلو نے موصل کے دورہ کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہمارے  آباء و اجداد گھوڑوں پر یہاں آیا کرتے تھے  اور  ایک وقت آئے  گاجب ہم جدید ترین جنگی وسائل کے ساتھ یہاں قدم رکھیں گے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ترکی ماضی کی  تسلط پسندانہ پالیسیوں  کو زندہ رکھتے ہوئے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ نینوا کو داعش کے کنٹرول سے خارج ہونے کی صورت میں اس صوبے کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیا یہ ایک خود مختار ریاست بنے گی؟ یا یہ علاقہ ترکی کے زیرِ انتطام آئے گا؟ اور یا اس علاقے کے امور عراق کے مرکزی حکومت کے تحت چلائے جائیں گے؟

ادھر عراق کے پارلمانی رکن اور قومی سیکیورٹی کونسل کے رکن بھی فارس نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے اسے عراق کو تقسیم کرنے کی سامراجی سازشوں کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا علاقہ جو مالی اور دفاعی حوالے سے مرکزی حکومت سے لا تعلق ہو وہ  آخر کار ہی مرکزی حکومت سے کٹ ہی  جائے گا اور اس کے جدا ہوتے ہی کردستان بھی الگ ہو جائے گا کیونکہ وہاں  پہلے ہی آزادی اور خود مختاری کی تحریکیں جاری ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ترکی عراق میں امریکی پسند پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زمینہ ہموار کر رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے عراق سے دہشت گردوں کے صفایا میں تعاون کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کی صورت میں ملکی نظام ایک فیڈرل حکومت کے تحت چلایا جائے گا جو تین حصوں میں تقسیم ہوگی اور اس کی مرکزی حکومت بغداد میں ہوگی۔  اور داعش کے خلاف گذشتہ چند برسوں سے برسرپیکار رضاکار  شیعہ فورسز کو منحل کیا جائے گا۔
اب عراق میں فیڈرل حکومت تشکیل ہوتی ہے تو اس سے عراق کی تقسیم کے لیے راہ ہموار ہو جائے گا اور مرکزی حکومت ہمیشہ کمزور رہے گی جس سے امریکہ، اسرائیل اور خطے میں امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور وہ  آسانی کے ساتھ خطے میں من پسند پالیسیاں لاگو کر سکیں گے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ساجد مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل)2006ء کی ذلت آمیر اسرائیلی شکست کے بعد خطے ميں اسرائیل کی حفاظت اور بچاؤ کے لئے  ایک نئی فورس کی تشکیل کی ضرورت تھی، جو مقاومت اسلامی کی ابھرتی ہوئی طاقت کا راستہ روکے اور مقاومت اسلامیہ کو کمزور کرے، مسئلہ فلسطین سے دنیائے اسلام کی توجہ ہٹائی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے سب عرب اور مسلمان مقاومت اسلامی کی حمایت کرتے ہیں۔ جس کے لئے دہشت گرد مسلح تکفیری گروہوں کو خطے کے اندر اتارا گیا، جن کے دو اہم اہداف تھے۔

1۔ صیہونی اہداف کی تکمیل میں معاونت
2۔ مقاومت اسلامی کی افواج کو مسلمانوں کے مابین داخلی جنگ میں مصروف رکھنا۔

ان دو بڑے اہداف کے پیش نظر تکفیری دہشت گردوں کو شام و عراق کی سرزمین پر کچھ عرب ممالک کی ملی بھگت سے اتارا گیا اور داخلی جنگ کا آغاز کیا گیا، لیکن شام و عراق کی عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر ان دہشتگرد گروہوں جن میں داعش اور النصرہ شامل ہیں، کو وہ سبق سکھایا کہ ان کے آقاؤں کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ اب چونکہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں، ان کی مزید پشت پناہی اور حمایت ان عرب ممالک کو دنیا میں رسوا کر رہى ہے، کیونکہ جن بھیانک طریقوں سے ان دہشت گردوں نے لوگوں کا قتل عام کیا ہے، اس پر تو انسانیت كى جبيں جهک جاتی ہے۔

اب اگلے مرحلے میں سعودیہ اور اس کے اتحادیوں نے تکفيریت کو اہلسنت والجماعت کا نام دے کر سنی بلاک بنانے کا عزم کیا ہے، جس کا مقصد مقاومت اسلامی کہ جسے وہ شیعی بلاک کہتے ہیں، ان کے مقابل لاکھڑا کرنا ہے اور وہ اسرائیل مخالف طاقتوں کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اس لئے یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور شام و لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں مقاومتی گروہوں کو دہشت گرد قرار ديا گیا ہے۔ ان مقاومتی تحريكون کو کمزور کرنے کے لئے سعودیہ نے امریکی پلاننگ پر عمل کرتے ہوئے 34 ممالک کا نام نہاد اتحاد قائم کیا ہے، کیونکہ سعودیہ و اتحادی حزب اللہ اور دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کو داعش اور النصرہ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اب امریکہ و غرب بهى خطے میں اپنی بنائی ہوئی تكفيرى فورسز کو ختم یا کمزور کر رہے ہیں تو اب وہ بیلنس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ساتھ ہی مقاومتی تحريكون کو بھی اپنا ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد سعودی اتحاد میں پاکستان کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟ يہ  تو صاف ظاہر ہے پاکستان کو ان جیسی چیزوں کا بہت اچھا تجربہ ہے، جس کی مثال روس کے خلاف افغانستان میں بنائے گئے اتحاد میں دیکھی جاسکتی ہے، جس کی سربراہی اس وقت بھی پاکستان کے پاس تھی، کیونکہ سعودی شہزادے پاکستانی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ لہذا اس لئے اب بھی اس اتحاد کی سربراہی کے لئے پاکستان کو پیشکش کی جا رہی ہے۔ اب سعودی عرب اس پاکستانی جھوٹے تجربے کو شاید وسیع پیمانے پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں پاکستان کو اسرائیل کی سلامتی اور وہابی سوچ کے غلبے کے لئے استعمال کیا جائے گا، کیونکہ امریکہ اور سعودیہ پاکستانیوں کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ لہذا ایک دفعہ پھر پاکستانی بخشو کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

لیکن اب پاکستانی عوام اور ملکی مفادات کے محافظ اداروں اور باشعور سیاست دانوں کو بروقت اس سازش کو درک کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوامی غفلت اور سیاسی انتشار کے دور میں 1980ء کے عشرہ میں غلط اور غير متوازن پالیسیاں بنائی گئیں، جس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہیں۔ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلام کا قلعہ ہے، اسے اسلامی ریاست ہی رہنا چاہیئے، اسے سنی یا شیعہ ریاست نہیں بننا چاہیئے۔ پاکستانی فوج نہ سنی فوج ہے اور نہ شیعہ فوج بلکہ یہ پاکستانی فوج ہے، اسے فقط پاکستان کی حفاظت کے لئے استعمال کرنا چاہیئے۔ خدارا اس عظیم فوج کو کرائے کی فوج نہ بنایا جائے۔ پاکستان انڈیا اور افغانستان کے لمبے بارڈر مسائل میں پہلے ہی الجھا ہوا ہے، اسے اپنے ایک محفوظ بارڈر پر مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی شیعہ سنی وحدت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی غلط فیصلہ مذہبی انتشار اور تعصب میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور وحدت اسلامی کی ايک حد تک موجودہ فضا بھی خراب ہوسکتی ہے۔ سعودی نظام تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ ہی چکا ہے، خدارا پاکستان کو كسى بڑے بحران سے بچایا جائے۔

تحریر: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر باضمير اور غيرت مند خواه وه مسلم ہو يا غير مسلم، عرب ہو يا عجم مزاحمت اسلامی حزب الله اور مقاومت كو قدر كی نگاه سے ديكهتا ہے، كيونكہ قومی انحطاط، مذہبی انتشار اور دينی اقدار سے دوری كے اس دور ميں جب استكباری اور صہيونی قوتيں انسانيت كی تذليل اور آزاد و خود مختار ممالک كی تضحیک كر رہی ہیں، ايسے نازک دور ميں ايک مختصر سی جماعت "حزب الله لبنان" جو تمام تر مذاہب و اديان، رنگ و نسل كی قيود سے بالا تر ہو كر ظالم و مظلوم، مستكبر و مستضعف،ناجائز تسلط و قبضہ اور حريت و آزادی كے مفاہیم كو اجاگر كرتے ہوئے مظلوم و مستضعف اقوام كيلئے حريت و آزادی كی اميد بن جاتی ہے۔ دوسری طرف بعض ضمير فروش اور استعماری و صہيونی ايجنٹ حكمران ہیں کہ جو حزب الله كو دہشتگرد قرار ديكر صہيونی اور مغربی وفاداری كا حق ادا كرتے ہیں۔

يہ وه ڈکٹیٹر و ملوک اور امراء ہیں كہ جن كے ہاتھ لاكهوں، عراقی، شامی، يمنی اور ديگر ممالک كے بيگناه شہريوں كے خون سے رنگين ہیں۔ داعش، النصرہ، القاعدہ اور طالبان طرز كے دہشتگرد مسلح گروه بنانے والی اور انہيں ہر قسم كی مدد اور پشت پناہی كرنيوالی ان دہشتگرد حكومتوں کو قطعاً يہ حق حاصل نہیں ہے كہ وہ دہشتگردی كے سرٹيفكيٹ تقسيم كريں۔ وه خليجی ممالک جو اپنی عوام كو خود سکیورٹی اور امن فراہم نہیں كرسكتے اور اس کے لئے دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، انہوں نے پورے خطے كے امن كو تباه كر ديا ہے۔ وه خطے ميں امريكہ، غرب اور اسرائيليوں كے سب سے بڑے ايجنٹ ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے آقاؤں کے اشاروں اور تعليمات پر پورے جہان اسلام ميں تكفيريت اور مذہبی تعصب پهيلانے پر كهربوں ڈالرز كی سرمايہ کاری کی، دين اسلام كی دشمنی ميں ابو جهل اور ابو لہب سے بهی بڑھ گئے اور امت مسلمہ كی وحدت كو پاره پاره كيا۔ وه اب يہوديوں كی تعليمات كے مطابق پورے خطے كو فرقہ واریت كی آگ ميں دهكيلنا چاہتے ہیں۔ انكی دہشتگردی كی تاريخ تو بہت لمبی ہے، ہم يہاں پر فقط ماضی قريب ميں كئے جانے والے اقدامات كا تذكره كرتے ہیں۔

خليجی حكومتوں اور امراء كی دہشتگردی كی چند مثاليں:
1۔ انہوں نے اپنی فوجيں بحرين ميں داخل كركے وہاں کی اكثريتی عوام كے حقوق کی پرامن جدوجہد كا گلا گھوٹنے كی كوشش كی۔
2۔ پهر عراق كی تقسم كے ايجنڈے كو پورا كرنے كيلئے عراق كے داخلی امور ميں فقط مداخلت و مذهبی منافرت نہیں پهيلائی بلكہ اسے بارود كے ڈھیر پر لا كهڑا كيا۔
3۔ ليبيا كی تباہی ميں يہ لوگ برابر كے شريک ہیں۔ انہوں نے جمهوريت كے نام پر تاريخ ميں پہلی بار ايک برادر ملک پر مغربی ممالک سے ملكر چڑهائی كی اور فضائی حملوں ميں شريک ہوئے۔ گويا ان خليجی ممالک ميں عوام كو آزادياں نصيب ہیں اور جمہوريت كا نظام قائم ہے۔
4۔ پانچ سال كا عرصہ گزر چكا ہے كہ يہی دہشتگرد امراء ملک شام كو تباه كرنے اور عوام كی منتخب حكومت كے خاتمے كيلئے ایڑی چوٹی كا زور لگا رہے ہیں۔ انكے مجرمانہ ہاتھ لاكهوں بے گناہوں كے خون سے رنگین ہیں۔ انہوں نے اس جنگ كے ذريعے اسرائيل کی وه خدمت كی ہے، جس كا  يہودی كبهی تصور بهی نہیں كرسكتے تهے۔
5۔ خليجی امراء كا سب سے بڑا جرم يمن جيسے ہمسایہ مسلم ملک پر جنگ مسلط كرنا ہے۔ وه شخص جسے عوام مسترد كرچكی ہے، اسے واپس حكومت پر لانے كے لئے اتنی بڑی تباہی، پورے ملک كی بربادی اور ہزاروں بيگناه معصوم بچوں اور خواتين كا قتل، انكے مكروه چہروں پر وه بدنما داغ ہے، جسے تاريخ بشريت كبهی فراموش نہیں كريگی۔ جب بهی سفاکوں اور انسانيت كے قاتلوں كے نام كی فہرست بنے گی تو يہ خليجی امراء اور حاكم سر فہرست ہونگے۔

تمام دنيا اور بالخصوص لبنانی عوام كو خبردار ہو جانا چاہيئے كہ اب ان ظالم حكومتوں كا عراق و شام كی تباہی كے بعد اگلا ہدف لبنان ہے، وه اسرائيل كی خاطر وہاں پر خانہ جنگی كا نقشہ بنا چکے ہیں اور اسرائيل كے خلاف مقاومت كا ہراول دستہ، حزب الله لبنان انكا اگلا ہدف ہے۔ وه حزب الله كو اسكی حمايت كرنے والی عوام سے جدا كرنا چاہتی ہیں۔ صہيونی ايجنٹ مشرق وسطٰى كی ابهرتی ہوئی قوت بلاک مقاومت كو مذہبی رنگ دينا چاہتے ہیں، اسرائيلی اہداف كی تكميل كرتے ہوئے سنی ممالک كے اتحاد كے ذريعے آل سعود لبنانی و فلسطينی مقاومت كو ايک اور داخلی بحران ميں وارد كرنا چاہتے ہیں۔ خطے سے آشنائی ركهنے والا ہر شخص جانتا ہے كہ وه لبنانی مقاومت جس كی سربراہی حزب الله كے پاس ہے، اس ميں فقط شيعہ مذہب كے لوگ نہیں بلكہ اس مقاومت ميں لبنانی اہل سنت، مسيحی اور درزی مذہب كے لوگ بهی پیش پيش ہیں اور تمام سياسی و مذہبی و قومی جماعتيں اپنی اس مقاومت كی حفاظت كرتی ہیں۔

تمام خليجی ممالک کے اسرائيل كے ساتھ پس پرده تعلقات تو بہت پہلے سے تهے، ليكن اب نہ صرف وفود كے تبادلے اور خطے كے مسائل پر مشورے ہی نہیں ہوتے بلكہ مشتركہ پاليسی بنا كر اور اسرائيل كا شريک كار بن كر ميدان ميں اتر چكے ہیں۔ بحرين كا بادشاه جب اسرائيلی حکام کا  پرتپاک استقبال كرتا ہے تو كہتا ہے كہ اسرائيل محض خطے كی طاقت ہی نہیں بلكہ خطے كا محافظ بهی ہے۔ حقيقی اہل سنت اعلان كرچكے ہیں كہ سعودی بادشاه كو حق نہیں كہ وه اہل سنت مذہب كی سربراہی كا دعوىٰ كرے۔ وه اسرائيل جو پوری امت مسلمہ اور سب عرب عوام كا كهلا دشمن ہے اور انكے مابين كئی ايک جنگيں ہوچکی ہیں، جس نے مسلمانوں كے قبلہ اول اور انبياء كرام كی مقدس سرزمين فلسطين پر ناجائز قبضہ جما ركها ہے اور لاكهوں فلسطينيوں اور اہل سنت مسلمانوں كا قاتل ہے۔ اس خطے كے سب شيعہ و سنی مسلمان اور عرب و عجم اسرائيل كے اس ناپاک وجود كو برداشت نہیں كرتے، ليكن لمحہ فكريہ يہ ہے كہ آج خليجی حكمرانوں كے نزديک اسرائيل دوست، پارٹنر اور خطے كا محافظ ہے اور ظالم استعماری و استكباری قوتوں كے غرور و تكبر كو خاک ميں ملانے والى جماعت اور امت مسلمہ كی عزت و آبرو كی محافظ حزب الله دہشتگرد ہے۔ يہ امت مسلمہ كے ساتھ بہت بڑی خيانت ہے اور اس كی جتنی بهی مذمت كی جائے كم ہے۔


تحرير۔۔۔۔علامہ  ڈاكٹر سيد شفقت حسين شيرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل)سلیمان کتانی(Solomon Katani) کا نام تو آپ سب سے سنا ہوگا۔ یہ ایک مسیحی محقق ہیں۔ ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور دو سال کی عمر میں والدین سمیت لبنان آئے۔ بیس سال تک مختلف یونیورسٹیز اور مدارس میں تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت محمدؐ پر ۹ جلدکتابیں تحریر کیں اور ان کی صاحبزادی پر ایک مستقل کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ  ان کے علم کے وارثو ں میں سے حضرت علی ؑ سے لیکر امام موسیٰ کاظم ؑ تک ہر امام پر کتاب تحریرکی۔ موصوف نے "فاطمة الزہرا، وتر فی غمد" میں پیغمبر خاتم (ص)کی لخت جگر کی مختلف خصوصیات پر قلم فرسائی کی۔﴿۱﴾
 
فاطمہ ؑ وہ باعظمت خاتون ہیں جو حس لطیف، پاک معدن، دریا دل اور نورانیت سے سرشار اور عقل﴿کامل﴾ کی حامل ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائے اور ان سے نمونہ اخذ کیا جائے۔ عرب دنیا ﴿دوسرے تمام تر مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ﴾ اپنے گھریلو سسٹم کو بافضیلت بنانے کی طرف محتاج ہیں تاکہ اپنے معاشرے کی ساخت کو مضبوط بنا کر اپنی باشرافت تاریخ کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ آپ ہی کے ذریعے وہ  اپنے ان تمام  اجتماعی مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔﴿۲﴾
 
مسیحی دانشور سلیمان کتانی اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں، حضرت فاطمة الزہراؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں زیادہ  بلند و برتر ہے کہ جس کی طرف تاریخ و روایات اشارہ کرتی ہیں اور ان کی عزت و وقار اس سے کہیں زیادہ ہے جن کی طرف ان کے زندگی نامہ لکھنے والوں نے  قلم فرسائی کی ہے۔ حضرت زہراؑ کی مرکزیت کو بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے والد گرامی محمدؐ، شوہر گرامی علیؑ اور آپ کے صاحبزادے حسنؑ و حسینؑ ہیں۔ آپ ساری کائنات کی خواتین کی پیشوا ہیں۔ اپنی کتاب کے آخر میں راقم یوں رقمطراز ہے، اے دختر مصطفٰی فاطمہ! اے وہ ذات جس نے زمین کو اپنے شانوں پر بلند کردیا۔ اپنی  پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ  آپ نے تبسم کیا۔ پہلی مرتبہ جب آپ بستر بیماری پر پڑی تھی تو جونہی ﴿آپ کے والد گرامی نے﴾  آپ کو یہ خوش خبری سنائی کہ مجھ سے سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہوگی۔ دوسری مرتبہ اس وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جب آپ اپنی جان کو جان آفرین کے حوالے کر رہی تھی۔ آپ نے ہمیشہ پاکیزگی اور پاکدامنی کے ساتھ الفت و محبت کی زندگی گزاری۔ آپ وہ پاکیزہ ترین ماں ہیں جو دو پھولوں کو دنیا میں لائیں اور ان کی پرورش کا فریضہ بھی نبھایا۔ آپ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس  فانی دنیا کا مذاق اڑا کر راہی ابد ہوگئیں۔ اے محمد مصطفٰی (ص) کی دختر گرامی! اے علی مرتضیٰ کی شریک حیات! اے حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی! اے پوری دنیا اور ہر زمانے کے خواتین کی سرور و سالار!(۳)
 
وہ اس کتاب میں رقمطراز ہے، بہادری یہ نہیں کہ جسمانی طاقت یا تخت و تاج کے سہارے کسی کا مقابلہ کیا جائے بلکہ حقیقت میں بہادری  یہ ہے کہ عقل و منطق اور فہم و فراست سے میدان مقابلہ میں اترے۔ ایسے میں اہداف مشخص ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں پروگرامینگ  بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت زہراؑ کی بہادری بھی اسی صورت میں نمودار ہوگئی۔ آپ نے لوگوں کی ہدایت کے ہدف کو پانے کے لیے مؤثر طریقے اپنائے جبکہ آپ کے بازو نازک و کمزور اور آپ کے پہلو ضعیف تھے۔ ﴿۴﴾
 
سلیمان کتانی کا کہنا ہے کہ آپ نے دو ہستیوں  یعنی اپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کے سایے میں زندگی گزاری۔ دو خوشبوؤں اور پیغمبر و امام کے دو بیٹوں حسن ؑ اور حسینؑ کو آپ نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ دو لطافتوں یعنی لطافت جسمانی اور لطافت احساسی کو اپنے گود میں لیا۔ آپ نے دو عصروں یعنی عصرجاہلیت اور عصر بعثت کا مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنے والد گرامی کو دو طرح کی محبت فراہم کی یعنی بیٹی کی محبت اور ماں کی محبت۔ آپ دو طرح کی آگ میں جلتی رہیں یعنی محرومیت کی آگ اور فقدان کی آگ۔ آپ نے بہت سارے مصائب جھیلیں۔
 
اے فاطمہ! اے زیور عفت سے آراستہ زبان کی مالک! اے زیور کرامت سے سرشار گلوئے اطہر کی مالک! تیرا رشتہ کتنا پیارا ہے جس کی خوشبو دخت عمران تک پھیلی ہوئی ہے۔ اے مصطفٰی کی لخت جگر!
فاطمہؑ کو اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جمال کے ساتھ ساتھ عقل کامل، باطنی پاکیزگی اور  قوہ جاذبہ بھی نصیب ہوئی۔
 
آپ نے ایک بہت ہی باعظمت باپ اور قطب ﴿عالم امکان﴾ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد گرامی کی نسل آپ ہی کے ذریعے جاری و ساری رہی۔ یہ بھی ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے یکے بعد دیگرے  ہر دور کے انسانی نسلیں بعنوان  ارث مستفید ہوتی رہیں گی۔ آپ کی نسلوں نے اتنی ترقی کی کہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ایک وقت میں فاطمہ کے نام سے مصر میں ایک حکومت تشکیل پائی اور انھوں نے اپنی توان کے مطابق آپ کے نام سے استفادہ کیا۔ مصر میں فاطمی حکومت اور جامعة الازہر دونوں آپ کے اسم سے متبرک ہوگئے۔ مسلمانوں نے بالخصوص شیعوں نے آپ کو اب بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ کیونکہ آپ پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری ہیں۔
 
حضرت فاطمہ ؑ نے فدک کا تقاضا اپنی ذاتی پراپرٹی بڑھانے کے لیے  نہیں کیا بلکہ آپ اس کے ذریعے اسلام کے استحکام اور پائیداری کے خواہاں تھیں۔ آپ اس کی پیداوار کو جزیرة العرب میں موجود تمام افراد تک پہنچانا چاہتی تھیں کیونکہ وہ سب فقر و تنگدستی میں مبتلا تھے۔ خصوصا فکری اور روحانی بھوک نے تو  ان کو اچک ہی لیا تھا۔ یہاں پر فاطمہ ؑ نے اپنے ارث کے حصول کے لیے قیام کیا۔ آپ  اس  تقاضے کے ذریعے اجتماعی حس جو مردہ ہوچکی تھی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی تھیں۔
 
فرانس کے محقق لوئی ماسینیون Louis Massignon کا کہنا ہے، حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کی دعائیں بارہ ایسے نور کی خبر دیتی ہیں جو حضرت فاطمہ ؑ سے منشعب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی تورات حضرت محمدؐ اور ان کی دختر اور ان کے بارہ فرزندوں کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ جیسے اسماعیل، اسحاق اور حسن و حسین علیھم السلام۔ حضرت عیسیؑ کی انجیل محمدؐ کی آمد کی خبر کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کے ہاں ایک بابرکت صاحبزادی پیدا ہوگی جس سے دو صاحبزادے وجود میں آئیں گے۔
 
ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک  دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے  اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت  کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا  اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ ؑ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
 
اس داستان کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ عورت کو ہر وقت اپنے شوہر کا مطیع رہنا چاہیے۔ اسی عورت کے بارے میں حضرت محمدؐ نے فرمایا  یہ سب سے پہلے جنت جانے والی خاتون ہے۔ اگر ہم نے ایک قدرتمند خاتون بن کر رہنا ہے تو ہمیں شہامت، حضرت مریم ؑو حضرت فاطمہؑ سے لینا چاہیئے۔ ان کے شجاعانہ اقدامات کا احترام کرنا چاہیئے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی اس شہامت کو ہم اپنے بیٹے بیٹیوں، بہن بھائیوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک منتقل کریں۔ ان کی سیرت کو ہم اپنی سیرت بنا لیں اور ہم اپنے ذریعے اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم طاقتور بن کر رہ  سکتے ہیں اور صرف اسی صورت میں ہی ہم نے اپنی ماؤں کا احترام بجا لایا ہے۔﴿۵﴾


حوالہ جات:
۱:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمThis email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
2: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص ۹۹ تا ۱۱۳
۳: سلیمان کتانی، فاطمة الزہراء وتر فی غمد،ص۳۲۔۲، ناقل منزلت حضرت زہراؑ در احادیث، مکاتب علی،۱۴۸ تا ۱۵۶
۴:پائیگاہ علمی فرہنگی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.۵: نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی،  محمد عسکری، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹ تا ۱۱۳

 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدیوں پرانی  بات ہے کہ  موجودہ عربستان میں ایک عظیم الشان  بادشاہ ہوا کرتاتھا ۔اس کی سلطنت   کی حدود  ،ایک یا دو ملکوں تک نہیں ، بلکہ پورے موجودہ عربستاں ، روم و فارس تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر دنیا کے دیگرتمام سلطانوں  سے ہٹ کر اس بادشاہ  میں بہت ساری  خوبیاں و خصوصیات تھیں  کہ جس کے سبب یہ عظیم سلطان  موجودہ تمام بادشاہوں اور آئندہ آنیوالے تمام رہبروں و لیڈروں کےلیے ،ایک رول مڈل و نمونہ ِعمل کے طور پر باقی رہا اور رہے گا ۔کہ جن میں اس کا انتہائی  رحم دل ، خوش اخلاق ،سخی ، شجاع ،خوبصورت و باقی تمام کمالات عالیہ سے لبریز ہونا شامل تھا۔مشکل یہ تھی کہ جس قوم میں اس عظیم لیڈر نے آنکھ کھولی ،اس کی موجودہ صورت حال انتہائی آلودہ ، پست اور اندھیروں میں  ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایسے وقت میں اس عظیم انسان نے اپنے کردار سے اس قوم کو ذلت و پستی کے گھپ اندھیروں سے باہر نکلا۔اس کی زوجہ یعنی ملکہ جو کہ ایک انتہائی مال دار خاتون تھی نے  بادشاہ ِوقت کی  تحریک میں  اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔یہاں تک کہ اس نے اپنے مال کاذرّہ ذرّہ ،اپنے شوہر کے مِشن پر قربان کردیا۔زندگی کا پہیہ اسی طرح چلتا رہا  اور خداوند متعال نے ان کو بیٹوں سے نوازا ۔مگر افسوس کہ  سلطان کے تمام بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کرگئے ۔اس پر بھی انہوں نے خداوند متعال کی  حمد و ثنا بجھا لائی اور کبھی بھی ان کی زبا ن پر شکوہ جاری نہیں ہوا۔چند   ہی عرصہ بعد اللہ تبارک وتعالیٰ  نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی عطا کی ۔جس پر سلطان نے بیٹی  کو اپنا سرمایہءِ زندگی سمجھتے ہوئےاس پر  فخر محسوس کیا  اور اس رحمت خداپر  دونوں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ابھی وہ بچی تقریباً پانچ سال ہی کی تھی کہ وہ معصوم ،آغوش مادر سے محروم ہوگی ۔کہ جس پر اس کی پرورش کی ذمہ داری خود  اس کے والد بزرگوار نے اٹھائی ۔سلطان ِوقت نے اپنی  بیٹی کی تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ بعد میں اسی بیٹی کا کردار زمانے کے لیے نمونہِ عمل قرار پایا۔یہاں قابل فکر نکتہ یہ  ہے کہ اسی  بیٹی کے جوان ہونے پر  ،اسی عربستاں ،روم وفارس کے سلطاں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو  انتہائی سادگی سے ،نہ  کہ آج ہماری طر ح کم از کم 8سے 10لاکھ لگا کر ۔اس کے باوجود کہ اس کے پاس شرق و غرب کی  سلطنت  تھی ،اس کی بیٹی کے جہیز پر نگاہ ڈالنے سے انسان حیرت کے سمندر میں طوطہ زن ہوجاتاہے ۔کہ جس میں فقط ایک پیراہن ،چار تکیے ،ایک چکی ،ایک تانبے کا طشت ،ایک چمڑے کا ظرف ،و چند مٹی کے برتن شامل تھے۔اور دوسری طرف وہی بیٹی ،جب ایک بیوی کے روپ میں  شوہر کے گھر جاتی ہے ،تو وہی سلطاں ِعالم کی بیٹی گھر کے سارے کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔جن  میں آٹا گوندھنا،روٹی بنانا ،چکی چلانا ، و جھاڑو دینے سے لے کر گھر کے دیگر تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے ۔وہ  تربیت ِیافتہ خاتون، بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زوجہ  تھی کہ جس کی زندگی کے مطالعے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے شوہر سے ایسی فرمائش نہیں کی، کہ جسے اس کا شوہر پورا نہ کرسکے ۔اپنے شوہر کے ساتھ انتہائی مہربان اور اس کی زندگی سچ سے لبریز تھی ۔جبکہ اسی خاتون کے تاریخی کردار کو اگر پردہ داری  کے لحاظ سے پرکھا  جائے تو  اس   کی پردہ داری کا اندازہ  اس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے ، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس خاتون کے گھر اس کے والد کے ساتھ ایک نابینا  شخص ان کےہاں آیا ۔تو فوراً ہی اس پاکیزہ خاتون نے اپنے آپ کو ایک چادر میں چھپا لیا ۔اس پر اس کے والد بزرگوار نے کہا کہ تم نے اپنے آپ  کو چادر میں کیوں چھپا لیاہے؟ جبکہ یہ شخص تو  نابینا  ہے ۔تو اس پر اس خاتون نے جواب دیا ،کہ  بے شک یہ نابینا ہے اور کچھ نہیں دیکھ سکتا مگر میں تو بینا ہوں اور میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں ۔لہذا میں نے اپنے آپ کو چھپایا ہے ۔اسی طرح جب کسی موقعہ پر اس خاتون  سےکہ جو ایک  اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکردار زوجہ بھی تھی  سوال پوچھا کیا  گیاکہ ، آپ کی نظر میں  عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز کیاہے؟تو  اس پر اس خاتون نے اتنا خوبصورت جواب دیا کہ جسے تاریخ نے ہمیشہ کےلیے  اپنے سینے میں محفوظ کرلیا  ۔"کہا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھیں اور کوئی غیر مرد اِن کو نہ دیکھے"۔اس شہزادی کی تربیت  اسقدر پاکیزہ تھی کہ جس اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔فقیروں و محتاجوں  کی حاجت  روائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ۔ایک دفعہ گھر کے باہر کسی محتاج  نے پرانے لباس کی درخواست کی ۔مگر ہوا یہ کہ اس خاتون نے اپنا نیا  شادی والا لباس محتاج کو عطا کیا اور خود پیوند شدہ لباس زیب ِتن کرلیا ۔الغرض یہ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جو تمام معنوی کمالات و صفات عالیہ سے پُر ہے  ۔اور یہ کردار آج بھی ہماری  ماؤں ،بہنوں و بیٹیوں کے  لیے مکمل نمونہِ عمل ہے ۔ ایک ایسی مشعل ِراہ ہے کہ جس کی روشنی میں    چلتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو طے کے سکتیں ہیں ۔اور یاد رہے کہ  یہ بیٹی کوئی اور نہیں بلکہ سید الانبیاء رسول گرامی ِ قدر  حضرت محمدمصطفیٰ(ص) کی دختر نیک اختر  سیدۃالنساء العالمین حضرت  فاطمۃ الزھراء(س) ہیں ۔یہ ایک بیٹی اور زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ماں بھی ہیں کہ جس نے اپنی تربیت سے  زمانے کو حسنؑ و حسینؑ جیسے رہبران و لیڈر دیے۔بلاشبہ حضرت زھراء(س) آج اور آئندہ آنیوالی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ۔آپکؑی ولادت باسعادت جمعےکے دن 20 جمادی الثانی ،بعثت کے 5ویں سال سرزمین مکّہ میں ہوئی ۔آپکؑا اسم مبارک فاطمہ (س)جبکہ مشہور ترین القاب  میں سے  زھراء ،بتول ،صدیقہ الکبریٰ، عذرا،طاہرہ ،اور سیدۃالنساءالعالمین ہیں ۔آپکؑی والدہ ماجدہ  ملیکۃ العرب سیدہ خدیجہ الکبریٰؑ  ہیں ۔آپکؑی شہادت 11 ھجری  مدینہ منورہ  میں ،رحلت ِ رسول خداؐ  کے 75یا 95 دن بعد ہوئی۔آپکؑی وصیت کے مطابق آپکؑو شب ِ تاریخی  میں سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشان کو مٹادیاگیا کہ جو آج تک مخفی ہے ۔آپکؑی  عظمت وفضیلت میں  رسول خداؐ کی مشہور حدیث کہ جس میں  آپؐ نے فرمایا کہ "فاطمہؑ  میرا  جگر کا ٹکڑا  اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،جس نےفاطمہؑ کو ناراض کیا اسنے مجھ محمدؐ کو ناراض کیا اور جس نے فاطمہ ؑ کو خوش کیا اس نے مجھ محمدؐ کو خوش کیا "[1]۔

لہذا آج معاشرے میں پھر سے جناب سیدہ ؑ کی زندگی کے تمام پہلو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ اس جامع کردار کے ذریعے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں موجود جاہلانہ رسومات کو ان کی جڑ سمیت تہ تیغ کیا جاسکے۔

 

 

      

تحریر۔۔۔۔۔۔ساجد علی  گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطین مظلومیت اور استقامت کی علامت ہے۔فلسطین کی طرح ایک مظلوم منطقہ پاکستان میں بھی ہے۔ گلگت  و بلتستان کا شمار جہاں ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے  وہیں بدقسمت ترین مناطق میں بھی ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور بلندترین انسانی بستیوں کی تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کیلئے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کرتے  ہیں۔

 گلگت بلتستان بلند و بالا پہاڑوں ، سرسبزو شاداب وادیوں اور صاف شفاف پانی کے ندی نالوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے انتہائی پر کشش خطہ ہے۔ اسکردو کے سرد صحرا اور جھیلیں، استور کے سرسبز پہاڑ اور دیوسائی کا پھولوں سے بھرا وسیع ترین میدان کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کیلئے سہولیات نہ ہونےکے باوجود سیاح جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان صرف اپنے برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور خوبصورت جھیلوں کی ہی وجہ سے پر کشش نہیں ہے بلکہ بلندترین انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی تہواروں کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔ ان پہاڑی بستیوں میں بسنے والے انسان صدیوں پرانی تہذیب کے امین ہے۔
 
یہاں کی آبادی 20  لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ دیہاتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح  یہ خطہ قدرتی طور پر صاف و شفاف ہے آلودگی یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح اس جنت نظیر خطے میں رہنے والے لوگ بھی کردار کے غازی، دل کے صاف و شفاف، محب وطن، مہمان نواز اور اپنے دین و مذہب سے بے حد پیار کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بلند و بالا، آسمان کو چھونے والے برف پوش پہاڑوں کے درمیان قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت اور سرسبز وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محب علم ہیں۔ خطے میں سکول کالجز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی دیہات میں سکول ہے بھی تو وہ بھی پرائمری اور بعض دیہاتوں میں تو سرے سے سکول ہی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیج دیتے ہیں۔ یا تو بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے یا پھر سکول والے دیہات میں اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اس کے ہاں تعلیم کی خاطر رہنا پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچے کو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
 
پچھلے 68 سالوں سے اس خطے کے عوام ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ جسکی وجہ سے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود زمینداری اور کشاورزی کرنے پر مجبور ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر کاشت کرنے کےلیے ہموار زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہموار میدان موجود ہیں  بھی تو حکومتی اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنجر ہیں اور اگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کو آباد کرنا چاہیے تو حکومت کوئی نہ کو ایشو بنا کر اس پہ ناجائز قبضہ کر لیتی ہے جسکی زندہ مثال حراموش مقپون داس اور تھک داس دیامر ہیں۔ رات کی تاریکی میں پولیس، رینجرز اور فوج کا گلگت سکردو روڈ سیل کراکے حراموش مقپون داس میں پوری تیاری کے ساتھ آنا اور بلڈوزروں کے ذریعے مکانوں کو بڑی بے رحمی سے مسمار کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ بلڈوزروں سے مکانات کو تباہ و برباد کر نا یہ تو اسرائیلی فوج کا سٹائل ہے جو کہ وہ فلسطین میں کئی سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اسرائیل تو ایک یہودی اسٹیٹ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد لا الہ الا الله، محمد الرسول الله ہے،  اس کے اندر اپنے ہی لوگوں کے مکانات کو تباہ و برباد کروانا یہ نہ فقط اسلامی اقدار کے خلاف ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اور قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان ریاستی فورسز نے مسجد جوکہ خدا گھر اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتا ہے، ان کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور گھروں سمیت مسجد کو بھی شھید کر دیا اور  گھروں سے قرآن مجید گھروں کو تباہ کرنے سے پہلے نہیں اٹھایا اور ابھی تک قرآن مجید گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
 
گلگت بلتستان کے اخبارات میں صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ بیان کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔ جناب وزیر اطلاعات جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اگر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ نہیں ہے تو  پھر پولیس، رینجرز اور  آرمی کس کے حکم پر وہاں آئی ہوئی تھی۔ اور یہ کہنا کہ گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا، بہت عجیب ہے۔ زیادہ دیر سفید جھوٹ نہیں چھپتا اب تو سب کچھ واضح ہو چکا ہے مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مقپون داس میں تباہ شدہ 120گھروں اور مسجد کے کھنڈرات اور ملبے تلے دبے ہوئے قرآن مجید چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نواز حکومت کروا رہی ہے۔
 
 حراموش  کے غیرت مند لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کے حوصلے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پست نہیں ہوئے ۔ان پر پتھر برسائے گئے، ان پر گولیاں چلائی گئیں ،ان پر پولیس لاٹھی چارج ہوا، ان کے گھر تباہ و برباد کر دیے گئے ان پر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ تین دن سے بچوں اور خواتین سمیت حکومتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے کر اس سردی کے موسم میں روڈ پر بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کوئی نوٹس لے! الٹا بیانات دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو پتہ نہیں ہے اور کوئی گھر تباہ نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے ،تھک جائیں گے، ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں،نہ یہ لوگ تھک جائیں گے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صورت میں اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے چونکہ یہ لوگ جانتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree