وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبل ویلج کانام تو آپ نے سنا ہی ہوگا،یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔آج جدید ٹیکنالوجی نے ،سچ مچ میں ہماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔ ماضی کی  مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ہوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا، پہلے دنیا ومافیہا سے لوگ بے خبر ہوتے تھے لیکن آج ان سہولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پہلے سالوں کی مسافت اب ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پہلے جس کام کے انجام دینے کے لیے دسیوں افراد درکار ہوتے تھے اب ایک جدید مشین ان سب سے بہتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔ٹیلی فون اور موبائیل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ہوتے تھے  اب جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بہت سارے مسائل کو حل کیا ہےاور فاصلوں کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔وہاں  بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اورتربیتی حوالے سےبہت ہی خطرناک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ پہلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا آج کل وہ عملی صورت پر رونما ہورہے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی  کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ہوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سہاروں کا سہارا بنتے تھے، مریضوں کی  تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ہر  اہم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ہونے کے باوجود خوشحال رہتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنابھی دور کی بات تھی،  طور اطوار اب سے بہت ہی مختلف تھے،ناموس کا احترام بہت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں  نمک کے برابر تھی۔

موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی  جوں جوں ترقی کر رہی ہے  انسان کی  انسانیت و  اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ہمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام ، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ہورہی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رہا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پہلےیہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔

انسانیت کی جگہ اب مادیت لےرہی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رہی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ہوتی جارہی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کررہا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم وفریب  شب خوں مار رہا ہے، رحمت و ہمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ہوتی جارہی ہے۔علماء کی ہمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگاکر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کےایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھرسے نکلنا اپنے لیے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام  والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی  زیر نظر ہوتا تھا جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا  کا  پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائیل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر  رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے۔طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ گھروں  کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جارہی ہے اور آزادی کے نام پر  فحاشی  اور عریانیت کو  دن بہ  فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ  خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ انھیں سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ  ثقافت ہماری پاکیزہ  ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں۔

نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال ۶۷لاکھ  بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔ ۴۲ لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا ۴فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ہزار افراد افیون استعمال کر رہے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ ﴿۱﴾ یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔جس کا واضح ثبوت  حال ہی میں اٹلی میں  دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لیے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾

آخر اس کا سبب کیا ہے؟  اس کی بنیادی وجہ  ہمارے اعتقادات کی کمزوری،اسلامی اقدار سے  ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا چی چرانا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں  جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذہنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار  ان کے ذہنوں پر حاکم رہے  گا تب خود بہ خود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لیے وہ تیار ہوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ہوجائیں گے تب ثقافتی یلغار انھیں  منحرف نہیں کر سکے گا۔

کائنات میں اللہ تعالی نے کوئی چیز بری خلق نہیں کی ہے۔ ہر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لیے ہے۔  اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پہلو نہیں بلکہ اس کے فوائد بھی  ناقابل انکار ہیں۔ کیا ہم صرف اس کی منفی جہت کو دیکھ کر اس کے قریب ہی نہ جائیں؟ نہیں نہیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔﴿البتہ کم عمر ی میں بچوں کا  کمپیوٹر استعمال کرنا  ان کی ذہنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ہونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے  نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾ ہماری کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ  جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ہوتے جائیں گے اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رہے گا خواہ وہ خود زندہ ہو یا  مر چکا ہو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رہے گا۔ اسی طرح کوئی اچھی بات وہاں شیئر کرتا ہے تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا  شریک رہے گا خواہ وہ قید حیات میں  ہو یا ابدی سفر پر روانہ ہوچکا ہو۔  جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نہیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نہیں، کلہاڑا کوئی دردناک چیزنہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے  غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، جس ہتھیار کو اپنے ملک دشمن  کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لیے بروکار لانا چاہیے تھا جس کلہاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاہیے تھا اب اگر ان سے کسی مسلمان  کا گلہ کاٹے ، کسی بے گناہ  کی جان سے کھیلے اورکسی عزیز  کا خون بہائے تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔ بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں لیکن جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے  ہماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور ان کی پاک آل کا پیغام  دنیا تک پہنچا سکتا ہے، ہمارے اعتقادات سے دنیا کوآشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھاکر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لیے استعمال کرے تب یہ معاشرے ،گھر اور ملک  بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدین ، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی ان کے ہاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ہی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ہاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لہذا ان کو ہمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہےمگر تہذیب  و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہورہا ہے۔ آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پارہا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لہذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتا فوقتا چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائے نہ کوئی وجہ نہیں کہ معاشروں سے جرم  کا تدارک نہ ہوسکے۔ اس لیے جوابدہی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔(3) بنابریں جہاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے وہاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔


تحریر۔۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) آئینی حقوق  مانگتے مانگتے  کئی نسلیں گزر گئیں ۔گلگت بلتستان کے عوام 68سالوں سے کچھ اور نہیں   بلکہ صرف اور صرف پاکستانی باشندہ ہونے کے ناطے  اپنا قانونی حق مانگ رہے ہیں۔ لیکن حکومت  نہ صرف انہیں ان کی آئینی حقوق سے محروم رکھی ہوئےہے بلکہ جب بھی  آئینی حقوق کی بات زور پکڑتی ہے کشمیری حریت پسند رہنماوں کو درمیان میں لاکر اس علاقے کو متناز ع بناتے ہوئے عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ  ڈوگروہ دور حکومت سے پہلے  بھی یہ علاقہ حکومت کشمیر کے ماتحت نہیں تھا  ،جب  ڈوگرہ حکمران ان علاقوں پر مسلط ہوگئے تو انہوں نے کشمیر اور گلگت بلتستان کو  ملا کر اس پر حکومت شروع کی جو 108 سال پر محیط تھی اس طویل عرصے میں کبھی بھی گلگت بلتستان  کے عوام نے ڈوگرہ حکمرانوں کو دل سے قبول نہیں ۔
تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ  ماضی میں بھی گلگت بلتستان اور کشمیر کا کوئی سیاسی اور انتظامی الحاق نہیں رہا ہے۔ ماسوائے کہ دونوں کسی دو ر میں ڈوگرہ راج کے زیر عتاب رہے۔ اس طرح تو پاکستان اور انڈیا بھی انگریز سامراج کے زیر تسلط رہے تھے ۔ تو کیا انہیں بھی ایک ہی خطہ سمجھا جائے۔پس یہ دلیل دونوں حصوں کی شناخت کو باہم ضم کرنے کیلئے کافی نہیں۔ اگر گلگت بلتستان کشمیر ہی کا حصہ ہوتا تو یہاں بھی SSR( اسٹیٹ سبجکٹ رول) لاگو ہوتا۔ یوں بیرونی عناصر کے نفوذ ، لاقانونیت اور شرپسندی کے مضر اثرات سے یہ خطہ محفوظ رہتا۔

یاد رہے کہ یکم نومبر 1947ء کو یہ خطہ آزاد ہوا ۔اتنا بڑا عرصہ یہاں کے عوام جس کمپرسی کی حالت سے دوچار ہ رہے ہیں  اس کا ان حریت پسند رہنماوں کو علم ہی نہیں، کبھی یہاں کے عوام کی مسائل اور مشکلات کو انہوں نے درک ہی نہیں کیا ،کبھی ان کی حقوق کی بات کسی ایک پلٹ فارم پر بھی  نہیں کی  اورکبھی ان کی مشکلات میں اظہار ہمدردی تک نہیں کی لیکن جب بھی  اس علاقے کے بیچارے عوام کو حقوق ملنے کی بات آتی ہے  تو یہ رہنما روڑے اٹکاتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اگر اس علاقے کو اپنا ہی سمجھتے ہیں تو اتنا عرصہ کہاں غائب تھے کبھی کسی ایک رہنما نے اس علاقے کے حق میں کوئی بات نہیں کی باوجود ان تمام باتوں کی گلگت بلتستان کے عوام نے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ کشمیری عوام کے حق میں جلسے جلوس نکالتے رہے یہاں کے رہنما آزادی کشمیر کے حق میں بیانات دیتے رہے ہیں کیا ان تمام احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ اس علاقے کو آئینی حقوق سے محروم رکھنے میں اہم کردار  ادا کریں ۔

دوسری طرف حکومت پاکستان بھی گزشتہ کئی  سالوں سے برائے نام اصلاحات اور آئینی پیکجز کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے ۔جنرل ضیاء نے اپنے طویل دور حکومت میں کئی بار گلگت اور بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان علاقوں کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ اس وقت بھی کشمیری لیڈروں نے یکے از دیگرے خطوط ارسال کرکےمطلق العنان جنرل کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ 23اگست 2007ء کو جنرل پرویزمشرف حکومت کی جانب سے GB Reforms Packageکا اعلان ہوا۔یہ محض ایک تصوراتی اعلانات کا مجموعہ تھا اور اب یہ ماضی کا ایک قصہ بن چکا ہے۔
 2009ء میں زراداری حکومت نے Self Goverence Order کے نام پر ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس پیکیج کے ذریعے نہ صرف اختلافات کو ہوا دی گئی بلکہ غلامانہ ذہنیت کے چند کاروباری لوگوں کو عنان حکومت عطا کرکے خطے کو بد امنی،کرپشن ،لاقانونیت کا مسکن بنا دیا گیا۔ اس کے بعد تاریخ کی بدترین کرپشن آج بھی یہاں اپنے عروج پر ہے۔

کیا انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے بھی محروم رکھا جائے اور اس علاقے کو  کرپشن کا گڑھ بھی بنایاجائے۔
حکومت پاکستان کو اپنی اداوں پر  نظرِ ثانی کرنی چاہیے کہین ایسا نہ ہو کہ اس اضطراب اور بے چینی سے دشمن طاقتیں فائدہ اٹھائیں۔


تحریر۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کا ارشاد پاک ہے: قل انمااعظکم بواحدۃ ان تکون للہ مثنیٰ و فرادیٰ
خداوند تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہمارا قیام اللہ کے لئے ہونا چاہئے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام انبیاء اور اولیاء کا قیام اللہ کے لئے تھا اور یہی چیز مکتب تشیع میں مبارزہ اور جدوجہد کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے۔مقصد کے حصول کے لئے نیت اور عمل میں خلوص اور پاکیزگی کے ساتھ بصیرت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے تا کہ حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کیا جا سکے۔آج اگر ہمارے معاشرے اور سوسائٹی اسی طرح ہمارے ممالک غیروں کے اختیار میں چلے گئے ہیں، ہمارا استقلال ختم ہو چکا ہے،ہماری سالمیت نہیں رہی، آزادی ختم ہوئی ہے، عالمی طاقتوں کا نفوذ بڑھ چکا ہے اور ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری جدوجہد میں خلوص کا نہ ہونااور بصیرت کا فقدان ہے۔اس کے لئے ہمیں اپنی تربیت پر توجہ دینے کے ساتھ اپنی مبارزاتی تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہےکہ ہم نے کہاں سے سفر کا آغاز کیا او ر اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ حکومت کی باگ ڈور طول تاریخ میں اکثر مکتب خلافت کے ہاتھ میں رہی۔ جتنی بھی فتوحات جہان اسلام میں ہوئیں تقریباًساری کی ساری مکتب خلافت کے دور میں ہوئیںاور مسلمان ایک بہت بڑی طاقت میں تھے ۔مکتب امامت کا نقش اور رول اپوزیشن کا تھا جو کہ مکتب امامت کے لئے نہایت مشکل دور تھا۔ہمیں اس مسئلے کوایک حدتک بیان کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے مسلمانوں کی طاقت، اسلام دشمنوں کے مقابلے میں کمزور ہوجائے یا ختم ہوجائے۔یہی چیز مکتب امامت کی روح کو تشکیل دیتی ہے جس کا صحیح معنوں میں ادراک کر کے عملی جامہ پہنانا بہت مشکل کام ہے۔مکتب تشیع کے اجتماعی مبارزات کی بنیاد سیدہ کونین سلام اللہ علیہانے رکھی ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مکتب امامت میں خیانت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے اسی لئے پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیںہم نے کبھی مسلمانوں کے ساتھ خیانت نہیں کی  باوجود اس کے کہ ہمیں بے دردی سے مارا گیا، ہمارے گھروںکولوٹا گیا،ہمیں دیواروں میں زندہ چنوا دیاگیا، زندان کی تاریک کوٹھڑیوں میںبند رکھا گیا اور وہی سے ہمارے جنازے نکلے، تاریخی ہجرت اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی ۔کون سا ظلم اور تشدد تھا جو مسلمان حکمرانوں نے ہم پر روا نہیں رکھاہو۔اس کے باوجود کہیں بھی ہماری طرف سے خیانت نظرنہیں آئی ۔ دشمن کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ جائے اور مسلمان دشمن قوتوں کے مقابلے میں کمزور اور ضعیف رہیں لیکن مکتب امامت نے بصیرت کے ساتھ دشمن کی اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔ تاریخ کو اگر خلاصہ کے طور پر پیش کریں تو یہی چیز آپ کو نظر آئے گی جس میں  مظلومیت کی داستان بھی ہے ،استقامت بھی ہے،صبر بھی ہے،برداشت اور بردباری بھی ہے،تمام کے تمام اعلیٰ ترین قدریں اور فضیلتیں مکتب امامت کے پروانوں میں نظرآتی ہیں۔ہماری تاریخ مشکل اور کٹھن ادوارسے گزر کریہاں تک پہنچی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جنرل ضیاالحق کے زمانے سے ریاست نے ہمیں کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن ہم نے کبھی بھی ریاستی دشمنوںکے تحفظات نہیں منوائے،کسی پاکستان دشمن قوت کے ساتھ اپنے رشتے استوار نہیں کیے ۔یہ ہماری تاریخ ہے ہم نےکبھی فوج کونہیں مارا ،پولیس کو نہیں مارا، ریاست کو کمزور نہیں کیا ۔ریاست کوانہی لوگوں نےکمزورکیا جن کو ریاست نے پالا تھا۔پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو خیانت دوسروں کی طرف سے نظر آئے گی ہماری طرف سے نہیں۔مسلمانوں کی سرحدیں یورپ کے قلب  تک جا پہنچی تھیں چنانچہ آپ دیکھتے ہیں تقریباً1492ءمیںا سپین مسلمانو ں کے ہاتھوںسے نکل گیا۔بہانااور عذرپیش کیا گیا تھاکہ اسپین اسلام کے مرکز سے بہت دور تھاجس کی وجہ سے ہم اپنا دفاع نہیں کرسکتے تھے لہٰذااسپین سے ہاتھ دھونا پڑا۔تقریباً400یا 600 سال عثمانی خلافت رہی جس میں مسلمان ایک بڑی طاقت بن کر دنیا کے نقشے میں ظاہر ہوئے تھے۔اسلام دشمن قوتوں نے اس کوبھی توڑنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ ہاتھ سے نکل گیا۔عالمی اور استعماری قوتیں برطانیہ ،اسپین ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک بھی اس مہم میں ساتھ شامل ہوگئے۔چھینتے چھینتےنوبت یہاں تک پہنچی کہ  1967میںمسلمانوں کو فلسطین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔وہ فلسطین جو مسلمانوں کا قلب شمار ہوتا تھا، جس میں قبلہ اول تھا۔ مسلمانوں کے پاس اس کے بارے میں کیا بہانااور عزر ہے کہ فلسطین کیوں چھینا گیا؟فلسطین کا چھینا جانا اس بات کی دلیل تھی کی مسلمانوں کی طاقت صفر ہوگئی ہے۔قبلہ اول چھیننے سے پہلے عالمی استعماری قوتوں نے عثمانی خلافت سے مکہ اور مدینہ چھینا  یوں 1967ءمیں مسلمانوں کے اقتدار اور قدرت کا سورج غروب ہوگیا اور مسلمانوں کی طاقت ختم ہو گئی۔
1979ءمیں شیعہ مرجعیت کے ہاتھوں انہی قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت چھینی تھی ایران میںانقلاب آتا ہے۔ یہ انقلاب در حقیقت اسلام کو اس کا کھویا ہوا وقار اور تشخص لوٹانے کے لئے تھا۔ لہٰذا یران میں شیعہ مرجعیت انہی قوتوں کے خلاف انقلاب لاتی ہے جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت چھین کر انہیں ذلیل و  رسوا کردیاتھا۔ ایک مرجع اور ایک فقیہ اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرتا ہے اور وہاںپرفلسطین کا سفارت خانہ کھول دیتا ہے جنہوں نے قبلہ اول چھینا تھا ۔غاصبوں کا سفارت خانہ بند کر کے مظلوموں کا سفاتخانہ کھول دیتا ہے۔مسلمانوں کے دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک کا پرچم ان کے ہاتھ میں آتا ہے جنہیں 1400سال کچلاگیا،ان کو مارنے والے باہر سے نہیں آتے تھے بلکہ اندرسے پیدا کئے جاتے تھے۔حجاج ابن یوسف کوئی عیسائی یا یہودی نہیں تھا اس کی ظلم بھری داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ہم تاریخ میں ہمیشہ دین، مکتب ، مظلوموںاور مسلمانوں کے وفادار رہے ہیں ۔اسلامی انقلاب ایران کے بعد مسلمانوں کو طاقتوربنانے کی نشات ثانیہ شروع ہوئی۔نئے سرے سے مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے اور ان قوتوں سےطاقت چھین لینی ہےجنہوں نے مسلمانوں سے طاقت کو چھیناتھا۔اس وقت مسلمانوں کوطاقتوربنانے کی تحریک کاپرچم شیعہ مرجیعت اور فقہاء کے ہاتھ میں ہے۔ پوری دنیا کی مقتدر قوتیں جنہوں نے مسلمانوں کی طاقت توڑنے میں نقش اور رول پلے کیا تھا مل کر مقابلہ کرتی ہیںکہ کسی طرح اس آواز کو کچل دیا جائے۔ لہٰذا ہر طرف سے حملہ آور ہوتیں ہیں۔  8سال جنگ مسلط کی جاتی ہے ۔جہاںکہیں سےبھی اس تحریک کا آغاز ہوتا ہے اسے وہی پر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بندے مارے جاتے ہیں،72،72شہید کئے جاتے ہیں، وزیر اعظم ، صدر اور وزراء بم دھماکے میں مارے جاتے ہیں،شخصیات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔خودکش حملے شروع کئے جاتے ہیں، اندر سے بغاوتیں شروع کرائیں جاتیں ہیں،  بیرونی حملے شروع کروا دیئے جاتے ہیں، عالمی سطح پہ پابندیا ں لگا دیں جاتیں ہیں، پوری دنیا روس ،آمریکہ اور دیگر استعماری طاقتیں مل کر مقابلے میں آجاتیں ہیں کہ کسی طرح سے اس تحریک اور اس سے مربوط افرادکچل دئے جائیںاور اس آواز کو دبا دیا جائے ۔یہ وہ  تحریک تھی جس کا ہمارے پاس 1400سال کا تجربہ تھا۔ہمارے پاس 1400سال کا شعور اور بصیرت تھی،  ہمارے پاس 1400سال کی عقلانیت تھی ۔ جب ہم نے اس مومنٹ کا آغاز کیا، اندرونی طور پر شیعہ سنی اختلاف شروع کرائے۔ہم بلا تفریق شیعہ و سنی،مسلمانوں کوطاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ابتداء سے سامراج کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جنہیںہم طاقتوربنانا چاہتے ہیں انہی کو ہمارے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔اس طرح ہماری تکفیر شروع ہوئی۔کفر کے فتوے شروع کروائے گئے۔یہ کام انہی قوتوںنےکیا جنہوں نے مسلمانوں سےان کی طاقت اور قدرت چھینی تھی۔اب ہم دوبارہ مسلمانو ں سے کھوئی ہوئی قوت چھین کر مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔لہٰذااندرونی وبیرونی مختلف قسم کےحملے شروع ہوئے۔دنیا کی سپر طاقتیں صدام کو سپر بنا کر میدان میں اتریں تھیں آٹھ سال تک ان سے جنگ لڑنا کوئی آسان کام  نہیں تھا ۔ہم نے اس راہ میں لاکھوں شہید اور زخمی دئے۔جب لاکھوںکی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں تواس کا مطلب ہے لاکھوں گھراس راستے میں قربان اورفدا ہوئے ہیں ۔اس جنگ کو وطن عزیزپاکستا ن میںبھی لایا گیا اور ہمیں یہاں بھی خون دینا پڑا اور اب تک دیتے آرہے ہیں۔ ہم نےیہاں بھی استقامت دیکھائی اور مقاومت کی۔ شیعو ں کے اندر بھی اختلاف اور مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اندر سے انہیں تقسیم کر دیا جائے،ہم آپس میں الجھ جائیںاور شیعوں کے اندر سے ایسی گفتگوئیں کرائیں جائیں کہ جس کی وجہ سے انہیںکافر کہنا اور لوگوں کو دھوکہ دینا آسان ہوجائے۔اس مقصد کے لئے منبر کا سہارا لیا گیا اورایسے لوگ ہمارے اندرپروان چڑھائے گئےتاکہ انہیںاپنے مزموم عزائم پرآسانی سے کامیاب ہونے کا موقع فراہم ہو سکے۔
 خمینی ؒبت شکن کی بصیرت، استقامت ، ارادے کی مظبوطی ،  صبر اور حوصلے کو سلام کہنا چاہیے۔عالمی قوتوں کے مقابلے میں اٹھا اوران کا دبائو برداشت کرتا رہا۔لوگ اس کے ساتھ کھڑے رہے۔میں نہیں کہتا سارے ایرانی کھڑے ہوئے بلکہ جو مخلصین تھے وہ کھڑے ہوئے۔ایران عراق جنگ میں شہید ہونے والے ایرانیوںمیں 72فیصد کی عمریں 14سے 24 سال کے درمیان ہیں ۔بالکل نوجوان بچے سا تھ کھڑے ہوئے۔ رہبر انقلاب جب ایران کے صدر بنےتو ان کی عمر 41سال تھی اورجب امام خمینی ؒ کے ساتھ ملے تو اس وقت نوجوان لڑکے تھے۔ روایت ہے کہ ایک صحابی  بصرہ میں امام ؑ کے پاس گیااور گفتگو سے پتہ چلتا ہےکہ امام ؑ کا مبلغ بھی ہے۔امام ؑ نے اس سے پوچھا کہ بصرہ کے لوگوں کا ہماری امامت اور ہمارے بارے میں کیا تجزیہ ہے؟کتنی تبلیغ کررہے ہو؟کیا صورت حال ہے؟صحابی سے جواب دریافت کرنے کے بعدامام ؑ نے فرمایا کہ بوڑھوںکو چھوڑ دو اور جوانوں کی طرف توجہ کروکیونکہ جوان ہر نیک کام کی طر ف تیزی سے بڑھتے ہیں۔سب سے پہلے امام رضوان اللہ تعالیٰ کے ساتھ لبنان کھڑا ہوا؟ پاکستان کی سرزمین پرشہید عارف حسین الحسینی نے اس  تحریک کا پرچم اپنے ہاتھ میں لیا۔شروع شروع میں ہم  لبنانیوں سے طاقتور تھے۔لبنانی اس وقت بہت کمزورتھے۔لبنان کے شیعہ نےتسلسل رکھا آہستہ آہستہ اتنے طاقتور ہو گئےکہ وہ اسرائیل جوپوری دنیا میںشر شیطان کا مرکز اور محور تھااس کے آگے بند باندھ دیا،اسکی فتوحات کا راستہ روک دیا۔وہ اسرائیل جوخانہ کعبہ اور قبلہ اول پر قبضہ کرنے کے بعدمسلمان ممالک اور ان کی علامتوں اور زمینوںپر قبضہ کرنے کےلیےآگے بڑھنا چاہتا تھااوربڑھ رہا تھا۔اس کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم ہم نے توڑا۔فلسطین کے اندریاسر عرفات کی جو مومنٹ نیشنلزم کی بنیاد پرتھی جو نہیںچل پا رہی تھی اور اسرائیل کا مقابلہ نہیںکر سکتی تھی ۔اس کے نام پر جہا داسلامی اور حماس بنیں۔ہم نے ان کی مدد کی اور ہم سے انہیں حوصلہ ملا۔اگر ہم 35روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست نہ دیتےتو غزہ کےفلسطینیوں کو حوصلہ نہ ملتا کہ اسرائیل کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔یہ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی تحریک تھی۔فلسطین میں شیعہ نہیں ہیں اہلسنت ہیں۔ہم مخلص ہیںمسلمانوں کے لیےہمارا دل دھڑکتا ہے۔ ہمارے سامنے بڑے بڑے چلینجز کھڑے کیےگئے،ہمیںدہشتگردی میں الجھایا گیا اور تقسیم کرنے کوشش کی گئی۔ جب ہم نے ان قوتوں سے مسلمانوں کے اقتدارکوچھیننا شروع کیا جو غاصب تھیں اورجنہوں نے مسلمانوں کو کمزورکیا تھا ہمارے خلاف سازشیںشروع کرائی گئی۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہے ہیں۔ساتھ ہی شیعہ سنی اتحاد کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اگر شیعہ سنی متحد ہوجائے،اسلام دشمن قوتوں سے اپنا کھویا ہوا وقار اور اقتدارچھینا جا سکتا ہے۔دشمن طاقتوں نےوحدت کے مقابلے میں تفرقہ اور تکفیر شروع کی اور جب تفرقہ اور تکفیرکارگاہ ثابت نہ ہوئی تو پھر دہشتگردی شروع کروائی ۔پوری دنیا میں القاعدہ بنا دی گئی، طالبان ،داعش،لشکر جھنگوی اور سپا ہ صحابہ اور۔۔۔ بنایا گیا۔اسلام دشمن طاقتوں نے ہمارے خلاف اتنی وسیع سرمایہ گزاری کی۔ہمارے اندر سے خائن تلاش کیے اوران کو مسلح کیا اور ہمارے سامنے لاکے کھڑا کیا۔مکتب تشیع گزشتہ 1400سال کی تاریخ میں اس وقت تاریخ کے بہترین دورسے گزر رہا ہے۔یہ دور مشکل ہےلیکن بہترین بھی ہے۔ ہم نہ ہوتے تو اس وقت جہان اسلام پر اسرائیل اور امریکہ کا قبضہ ہوتا۔قبلہ اول کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ اور مدینہ بھی یہودیوں کے ہاتھ میں ہوتا۔یہ تحریک چل رہی ہےجس کا ہم حصہ ہیں، جس میں تشیع آگے ہے ۔یمن میں تکفیریت اور دہشتگردوںکے مقابلے میں کون کھڑا ہے؟یمن میں ہم اس  تحریک کو لیڈ کر رہیں ہیں۔عراق کے اندر داعش اسی لیے لائی گئ ہے تاکہ ہماری طاقت کوتوڑا جائے۔ ہماری اس جدوجہد کےنتیجہ میں رزسٹنس کاجو بلاک وجود میں آیا ہے جس میںایران ،شام ، لبنان اور بعض دیگر ممالک ہیںاس میںشام کو اسی لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نہیں تھا۔90ملکوں کے دہشتگردبشارالاسد کے ہاتھوں شکست کھا گئے ۔انہوں نے لبنان میں مار کھائی، عراق میںبھی مار کھا رہے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں داعش کو لے کے آئے لیکن الحمداللہ آج داعش کے غبارے سےدن بدن ہوا نکل رہی ہے ۔ ان کوایسی مار پڑ رہی ہےکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے تکفیریت کوہمارے مقابلے میں تیا ر کیا تھا لیکن خداوند متعال نے ایک قانون بنایا ہے کہ جوکسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔یہ تکفیریت اب ان کے گلے میں پڑی ہوئی ہے۔یہ تکفیریت کے گڑھے میں خود گریں گے۔ یہ اللہ کا قانون ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ لوگ اس میں نہ گریں۔آپ دیکھیںگے سعودی عرب تکفیریت کے اس گڑھے میںگرے گا،اردن گرے گااور جو بھی اس کے حامی ہیں وہ سب اس میں گریں گے۔پاکستانی تکفیریت ہمارےخلاف تیا ر کی گئ تھی جنہوں نے اسے تیا ر کی تھی اب انہی کے گلے پڑی ہوئی ہے۔اب وہ تکفیریت، داعش اور القاعدہ کی صورت میں سعودی عرب کے گلے پڑی ہوئی ہے،اردن کے گلے پڑی ہوئی ہے۔انشاءاللہ ان سب کے گلے پڑے گی جن کا کسی طرح اس کے بنانے میں ہاتھ تھا۔انہوں نے داعش کا گڑھا ہمارے لیے کھودا تھا انشاءاللہ وہ خود اس میں گریں گے۔ہم تو مردوں کی طرح مقابلہ کرلیں گے۔ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا، عراق میں وحدت پیدا ہوئی، پولیٹیکل یونٹی پیدا ہوئی۔ وہ کام جو صدام کے بعد انہیں کرنے چاہیے تھے،نہیں کیئےاب انہوں نے کر لیئے۔تمام صدام کے حامیوںکوفوج سے نکالا،سکیورٹی ایجنسی سے نکالا،انہیں جیلوں میں ڈالا،انہیں گرفتا ر کیا۔وہاں پرعوامی فوج تیا ر کی گئی جیسے ایران میں انقلاب کے بعد تیار کی گئی تھی جس نے صدام کا مقابلہ کیا تھا۔آج وہاں پر جیش شعبی کے نام سے عوامی فوج تیار ہے جو دہشتگردوںسے لڑنے اوروطن کا دفاع کرنے کے لئے ہے۔ یہ فوج شام تک جاچکی ہے۔ دولاکھ کے قریب شام میںعوامی فوج تیار ہوئی ہے۔یہ رزسٹنس کی بنا پر گزشتہ 35سالوں میں ثابت کیا ہے۔جس مشکل میں بھی ڈالا گیا ہے جب اس مشکل سے باہر نکلاتوطاقتور ہو کر نکلا ہے۔ ایران 8سال حالت جنگ میں رہا لیکن 8سال جنگ کے بعد ایران اب اتنا طاقتور ہوگیا ہےکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔حزب اللہ کواسرائیل کے ساتھ لڑنا پڑا ۔اس مشکل سے اتنی طاقتور ہو کر باہر نکلی کہ آج اسرائیل میںجرأت نہیں ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے۔شام بھی ایسے ہی بنتا چلا جارہا ہے۔عراق اور یمن میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ آج الحمداللہ یمن کے شیعہ اتنے طاقتور ہیںاگر چاہیں تو ایک ہفتہ میں سعودی عرب کی نجدیت کی حکومت گرا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ یمن کے شیعہ اتنے زبردست ہیں  ان کا ایک مجاہد حزب اللہ کے چھ مجاہدوں کے برابر ہے۔اس وقت پوری دنیا میں القاعدہ اور تکفیری عناصر اور ان کے حامیوں سے عملی میدان میںہم مقابلہ کر رہے ہیں۔یہ ہمارے لئےایک سنہری دور ہے جس میں ہمارا ایک مؤثر سیاسی کردار ہے۔ہم نے ہر حال میں مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے۔امریکہ نےپاکستان، لبیا اور مصر کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاہے؟ ان تکفیریوں کے ذریعےان ممالک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے ۔رزسٹنس بلاک کی وجہ سے دنیا بدل رہی ہے،امریکہ اب پہلے والا امریکہ نہیں  رہا۔کسی بھی ملک کے طاقت کے چار ستون ہوتے ہیں۔اس ملک کی طاقت کے لئےیہ چار ستون بہت اہم ہوتےہیں ۔ ایک عسکری طاقت، دوسری معاشی طاقت، تیسرا اقوام عالم میں نفوز جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا طاقتور ہوتا ہےاور چوتھااس کے اپنے سسٹم کے اوپر عوام کا اعتماد۔یہ چار اہم ستون ہوتے ہیںکسی بھی ملک کی طاقت کے۔امریکہ کی اب پہلے والی طاقت نہیں رہی۔کوئی اس سے ڈرتا ہی نہیںہے، کسی کو اس سےپرواہ ہی نہیں ہے ۔امریکہ کہتا ہے کہ میں 60 ملکوں کا نائب بن کر عراق میں داعش کے خلاف آیاہوں لیکن نہ تو کوئی امریکہ سے ڈر رہا ہے اور نہ ہی اب اس کی فوجی طاقت کا روپ اور دبدبہ رہا۔معاشی طاقت میں امریکہ دنیا کا مقروض ترین ملک ہے وہاں پر باقاعدہ معاشی مشکلات بہت حد تک و سیع پیمانے پر چلی گئیں ہیں۔اقوام عالم میں کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا کے اقوام کے اندر منفور ترین ملک ہے۔ اگر لوگوں کاان کے اپنے سسٹم پراعتماد ہوتاتو وہاں لوگ سڑکوںپر مظاہرہ کرتے نظر نہیںآتے ۔امریکی لوگوں کااپنے سسٹم پر اعتماد ختم ہوگیاہے۔ وہاں آئے دن نژاد پرستی کی بنیاد پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔ جو حشر روس کا ہوا وہی یورپ اور امریکہ کا بھی ہوگا۔کیا ممکن ہے کہ یہ لوگ دنیا کےمختلف ممالک میںظلم کریں گے، قتل وغارت گری کروائیں گے،خیانتیں کروائیں گے،انہیں پریشان کریں گے،ان کو لوٹیں گے اورپھر ان کو دنیا میں سزا نہیں ملے گی۔ اگر روس ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟یورپ کیوں نہیں ٹوٹ سکتا؟۔نئی طاقتیں دنیا میں ابھر رہیں ہیں ۔ رزسٹنس کابلاک جوایران ،عراق،شام، لبنان اورفلسطین تک پھیلا ہوا تھااس کا دائرہ مزید وسیع اور طاقتور ہوگا۔ اس بلاک کو طاقتور ہم نے بنایا ہے۔ فلیسطینوں کی اسرائیل سے 50یا 55روزہ لڑائی ہوئی ہے،غزہ چاروں طرف سے محاصرے میں ہے ۔غزہ میں موجود فلسطنیوں کووسائل کس نے فراہم کئے؟ انہیں کس نے لڑنا سکھایا ؟کوئی دنیا کا عرب اسلامی ملک اسرائیل سے لڑنے کے لئے انہیں دو گولیاںتک نہیں دے سکتا۔ہم نے انہیں سپورٹ کیا اور انہیں طاقتور بنایا۔ ہم نے انہیںان قوتوں کے خلاف جنہوں نے مسلمانوں سے طاقت چھینی تھی مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا۔ہماری تاریخ گواہ ہے ہم نے کبھی کسی سے خیانت نہیں کی۔ہم مسلمانوں کے ساتھ باوفا ہیںجس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔آج اسرائیل وہ پہلے والا نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیںکہ وہ اسرائیل جوپہلے نیل اور فرات کی باتیں کرتا تھاآج اپنے ارد گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔اسرائیل کو اس پوزیشن میں کس نے لا کے کھڑا کیا؟اس میں نہ تو سعودی عرب کا کوئی کردار ہے نہ مصر کا اور نہ ہی ترکی کا بلکہ یہ ہماری مقاومت کا نتیجہ ہے کہ آج اسرائیل اپنے گرد دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ہم نے فلسطین کے مظلموں کو سپورٹ کیا ۔ہم وہ ہیں جسے امامؑنے کہا تھا کہ ظالموں کے دشمن اور مظلموں کے ہمدرد بن کے رہنا۔ہم ہر ظالم کے دشمن ہیں خواہ وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ہر مظلوم کے حامی ہیں خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ہم نے دنیا کے حالات کا رخ بدل دیا ہے۔وہ مرجع عالیقدر جوپوری دنیا کے طاغوت اور یزیدوں کے مقابلے میں اٹھا تھا،مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانے کی اس نے تحریک شروع کی تھی آج اس تحریک کا پرچم ایک فقیہ کے ہاتھ میں ہے۔جو گزشتہ تقریباًتین دھائیوں سے ہر محاذپر امریکیوں کے حملے کو شکست دے رہا ہے ۔جس نے لبنان کے شیعوں کو طاقتور بنایا۔سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ حزب اللہ کی ایک ایک اینٹ مقام معظم رہبری نے اپنے ہاتھوں سےرکھی ہے۔اس بابصیرت قیادت نے لبنان میں حزب اللہ کو طاقتور بنایا،فلسطینوں کو طاقتور بنایا،یمن کے شیعوںکوطاقتور بنایا،شام میں بشارالاسد کو  سپورٹ کیا کہ اس کی حکومت نہ گرے ۔ابھی جب عراق پر حملہ ہوا تو آگے بڑھ کر اسی نے ان کے حملہ کو روکا۔ سب سے پہلے جو وہاں بندے پہنچے یا ایران کے جنر ل سلیمانی تھے یا حزب اللہ کے کمانڈر اور مجاہدجنہوں نہ صرف داعش کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ روکا بلکہ ان کے پائوں توڑ ڈالے ۔اسی طرح افغانستان میں بھی شیعہ طاقتور ہیں،عراق میں طاقتور ہیں، لبنان میں طاقتور ہیں ۔بحرین میں مشکلات تھیں لیکن جب سے انہوں نے دفاعی تحریک شروع کی اب وہ بھی طاقتور ہو کر سامنے آرہے ہیں۔اسی طرح شیعہ یمن میں بھی بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ یمن کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں شیعہ سنی اتحاد ہے۔ جن دنوں ہم نے اسلام آباد میں دھرنا دیا ہوا تھاانہوں نےبھی وہاں مشترکہ طور پر دھرنا دیا ہوا تھا۔ شیعہ سنی نے مشترکہ نماز جمعہ پڑھی تھی۔ اس نما ز جمعہ میں ڈیڑھ بلین کے قریب لو گ شریک ہوئے تھے۔سعودی عرب کی انیس ملین آبادی میںسے 38فیصد شیعہ ہیں۔ بحرین سے چلتے چلتے یمن تک حساس علاقوںمیںشیعہ آباد ہیں ۔اسی فیصد تیل اس پورے ریجن میں شیعہ علاقوں میں ہے ۔دنیا کا اہم جغرافیائی اور انرجی کے ذخائر سے مالا مال خطہ ہمارے پاس ہے۔ ہم چاہتے تو خطے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو سکتی تھیں لیکن ہمارا دین، مذہب اور دینی لیڈرشپ ہمیں اجازت نہیں دیتی۔ ہماراہدف صرف یہ ہے کہ مسلمان اس خطے میں طاقتور ہو جائیں۔ اسی فلسفہ کی بنیاد پر ہم اٹھے ہیں، مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لیے ہم نے سپورٹ کیا ہے۔اسی لئے ہم نے شروع سے ہی فلسطین میں حماس کی حمایت کی اور انہیں سپورٹ کیا۔ ہمارا سپورٹ کرنا شیعہ بنیاد پر قطعا نہیں ہے۔ ہم خطے میں اسلام کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم مسلمانوں کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلانا چاہتے ہیں۔ہم ہر جگہ کھڑے ہو دشمن کا مقابلہ کر رہیں ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔میںنے ایک جگہ CIAکی رپورٹ پڑھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ پاکستان میں پونے پانچ کروڑ شیعہ ہیں۔الحمد للہ ہم یہاں بھی طاقتور ہیں لیکن جس طرح ہمیں طاقتور ہونا چاہئے تھا نہیں ہیں۔مجھے سید حسن نصرا للہ کہہ رہےتھےکہ ہم لبنان میں چٹکی کے برابر نہیں ہیں ۔ یہاں شیعوں کی آبادی بارہ لاکھ ہے ۔جس دن پاکستان کے شیعہ اکھٹے ہوکرایک طاقت بن جائیں گے اس دن پوری دنیا کے حالات بدل دیں گے ۔اس کے لئے بیداری،بصیرت،حوصلہ ،ہمت اور شعور و آگاہی کی ضرورت ہے۔اگر لبنان کے بارہ لاکھ شیعہ یمن ، سعودیہ، شام، بحرین اور عراق کوسپورٹ کر سکتے ہیں توہم پانچ کروڑ پاکستانی شیعہ پوری دنیا کے مظلوموں کی مدد  کیوں نہیںکر سکتے ہیں ۔ جب سے مجلس وحدت شروع کی تب سے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کیوں دشمن نے شہید قائد کو مارا گیا۔شہید قائدؒاگر زندہ ہوتے اس وقت ہم ایران کے بعد دنیاکی سب سے بڑی طاقت ہوتے۔ اس وقت لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا لیکن دشمن نے پہچان لیا اور شہید کر دیا۔ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہوگا۔اسوقت ہم نے دنیا کے اندر ایک تحریک شروع کی ہے۔ 35سال سےہم شہید دے رہے ہیں اور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ہمیں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے ؟ہماری تکفیر کیوں ہوتی ہے؟ ہمارے مملک میں دہشتگردی کی وارداتیں کیوں ہوتیں ہیں ؟ ہم نے ان سب کا مقابلہ کیسے کرنا ہے ؟ ہما را مشن بہت مقدس ہے۔ ہم نے  مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور بنانا ہے۔ مسلمانوں کو دوبارہ طاقتور وہی بنا سکتا ہے جو خود طاقتور ہو اور کمزور نہ ہو۔آج 1400ءسال بعدجہان اسلام کی رہبری کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے اوراس وقت ہم مظلوموں کو لیڈ کررہیں ہیں ۔جو آگے کھڑا ہوتا ہے اس میں آگے کھڑے ہونے کی لیاقت اور صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ اس لئے ہمیں بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے ،آمادگی کی ضرورت ہے،اکھٹے ہونے کی ضرورت ہے ، باہمی رواداری کی ضرورت ہے، حالات سے با خبر رہنے کی ضرورت ہے ،اپنےآپ کو ہر لحاظ سےبہتر بنانے کی ضرورت ہے جس امت کا امام علیؑ ہووہ امت، امتوں کی امام ہونی چاہیے۔امام وہ ہوتا ہے جو عادل ہوتا ہے تو علی ؑ کے ماننے والے بھی دوسروں سے عادل ہونے چاہیں ۔اخلاق، سیرت، کردار، انسانی صفات اور افکارو نظریات میں اعلیٰ ترین ،عقائد کے حوالے سے سب سے بہترین  غرض ہر لحاظ سے شیعیان علی ؑ کودوسروں سے بہتر ہونا چاہیے ۔
اس وقت پاکستان میں اللہ نے ہمیں وہ دن دکھائے ہیں جس کا چوتھے امامؑ دعا کیا کرتے تھے : ’’اے خدا ظالموں کو ظالموں سے لڑا‘‘ خدابہت کریم ہے آٹھ سال صدام نے جنگ کی امریکہ اس کی مدت کرتا رہا پھر اللہ نے امریکہ کے ذریعہ اسے مروایا ۔پھر وہاں داعش لے کے آگئے ۔داعش کے آنے کے بعد وہاں ان سے لڑنے جنرل قاسم سلیمانی اور حزب اللہ چلی گئی۔ امریکہ کسی قیمت پر نہیں چاہتا تھا کہ ایران اور حزب اللہ عراق آئیں۔ اس کائنات پر اللہ کانظام حاکم ہے یہ بھی چال چلتے ہیں پھر اللہ بھی چال چلتا ہے اوراللہ بہترین چال چلنے والا ہے ۔پاکستان میں بھی اللہ نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا دیا ہے ۔کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ نواز شریف کی حکومت میں طالبان کے خلاف آپریشن ہوگا اور وہ مولوی جو کہتے تھے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ہمیں ان کا ابو نہ کہیں ۔دشمن اور اس کی سازشوں سے آگاہی اور شناخت بہت ضروری ہے۔مجھے یاد ہے ہم اکیلےکہا کرتے تھے کہ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔ہم نے نشتر پارک میں عظمت ولایت کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ آپریشن ہوناچاہیے مذاکرات نہیں ہونے چاہیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں اپنے بعض مومنین نےبھی کہا کہ آپ کیوں مذاکرات کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟ اس سے ہمارا نقصان ہوگا ۔میں نے کہا کہ عجیب نہیں ہےکہ ہم اپنے قاتلوں کے خلاف بھی نہ بول سکیں اور ان کا نام بھی نہ لے سکیں ۔ہم بزدل نہیں ہیں جو ہمیں قتل کرے،ہمیںمارے،ہمارے گھروں کو لوٹے،ہمارے گھروں کو لٹوائے اورہم اس کا نام بھی نہ لیں ایسا ممکن نہیں ہے۔لہٰذا ہم نے برملا کہا کہ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔الحمداللہ کل ہم اکیلے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی نواز شریف سے پارلیمنٹ کےذریعے قوانین میںترمیمات کروائیں اور قانون بنوائے جس کو برسر اقتدار لانے کے لئے انہوں نے سپورٹ اور سعودی عرب نے سرمایا لگایا تھا۔نوازشریف سعودی عرب کا اسٹریٹجیک پارٹنر ہے۔ اس نے پاکستان کو اسی کے ذریعےقبضے میں لینا ہے ؛ لیکن پاکستان میں اب تک جو ہوا ہے وہ ان کی پالیسی کے خلاف ہوا ہے۔اللہ کےمقرر کردہ قوانین ہیں دیکھیںآگے کیا ہوتا ہے۔اب بہترین وقت ہے ہمیں اپنےآپ کوسدھارنے اورتیار کرنے کا۔ ہمیں اکھٹے اور منظم ہونے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں کی تربیت پر توجہ دینے اور انہیں علم و عمل اور عصری تقاضوںسے مزین کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے کردار مضبوط ہوں، صفات مضبوط ہوں اور ہم پاکیزہ بنیں ۔بہترین وقت ہے اپنے آپ کو تیار کرنے کا۔اللہ نے دشمنوں کو دشمنوں سے لڑایا ہے۔ البتہ اس راستے میں مشکلات ہیں جن سے نہایت بردباری اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں خاص طور پر مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ جس طرح بلوچستان کے رئیسانی کو گرانے کے لئے ہم منظم ہو کر میدان میں نکلے تھے اسی طرح  سندھ کے رئیسانی زرداری اور قائم علی شاہ کے خلاف بھی میدان میں نکلنے کی ضروت ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں مار کریا ڈرا کردیوار سے لگائیں گے،ہم پوری دنیا میں انہیں گھیر سکتے ہیں اورپوری دنیا میں ان کاتعاقب کر سکتے ہیں۔ مکتب تشیع ایک قوم نہیں ہے بلکہ تشیع ایک مکتب اورآیئڈیولوجی کا نام ہے۔اس مکتب میں موجود ولایت کا نظریہ ہمیںپوری دنیا میں ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے۔اس مکتب سے تعلق رکھنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو آپ کو دنیا کے ہر ملک اور اس کے ہر شہر میں نظر آئیں گے۔ جگہ جگہ اہل تشیع کے مظلوموں کابہتاہواخون ناقابل برداشت ہے۔ ہمیشہ انتظامیہ کی طرف سے ایک جواب ملتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیںہمارے لئے یہ جواب کافی نہیں ہے ۔ہما رے رینجرز کے لوگ مارے جارہے ہیں، پولیس کے بھی مارے جارہے ہیں ساتھ کوشش بھی ہو رہی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ کوشش نہیں ہو رہی لیکن جس طرح سے کوشش ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہو رہی ہے۔
دوستوں جب تک ہم امام زمانہ (عج) کے دئے ہوئے نظام سے مربوط نہیں ہو جائیں گے ہماری مشکلات میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج امام زمانہ (عج) کے نائب برحق نے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ امامؑ کا دیا ہوا نظام ہی ہماری بقاکا ضامن ہے ۔ جو بھی ولایت فقیہ کے نظام سے متصل ہوںگےوہ عزت پائیں گےاورجو بھی اس سے کٹ جائیں گے وہ بھیڑیوں کا شکار ہوںگے ۔ جوبھی مرجیعت سے کٹا وہ دنیا پرست بھیڑیوں کا شکار ہوگیا۔جب ہمارا سلسلہ نائب امامؑ سے کٹ جائے گا تو یقینا کسی کا نواز شریف کے ساتھ سلسلہ جوڑ جائے گا، بعض کا زرداری صاحب کے ساتھ، بعض کا عمران خان کے ساتھ اور بعض کا الطاف حسین کے ساتھ تعلق جوڑ جائے گا۔نہایت ہی افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑا جا رہا ہے جن کا ذرہ برابر بھی امام ؑ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔تشیع کی مرکزیت کا نام مرجعیت ہے۔ ہم ان کے پیرو ہیں۔ ہم ان دنیاپرستوں اور قاتلوں کے پیرو نہیں ہیںبلکہ ہم نائب اور مرجعیت کے پیرو ہیں جس نےطول تاریخ تشیع کو مختلف بحرانون سے نکالا ہے اورموجودہ دور میں عزت کی اونچائی تک پہنچایا ہے۔اگر مرجعیت نہ ہوتی تو آج عراق سیاسی بحرانوں کا شکار ہوتا اور وہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ پاکستا ن میں بہت کوشش کی گئی کہ ہمیں مرجیعت اور فقہا سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دیا جائے ۔یہ سلسلہ ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے ۔ائمہ معصومین نے کہا ہے کہ عصر غیبت میں فقہاء سے راہنمائی لینی ہے۔
 رسولؐخدا جب اس دنیا سے گئے تو امت میں نظام امامت متعارف کراکے گئے جبکہ ہمارےبعض اہل سنت بھائی کہتے ہیں کہ رسول خدا کوئی نظام نہیں دے کر گئے نظام کو ہم نے خود بنانا ہے ۔میرا اپنے دوستوں سے سوال ہے کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت کبرا میں گئےتو کوئی سسٹم دے کر گئے ہیںیا نہیں؟ یا ہمارے اہل سنت بھائیوں کی طرح مرضی کا نظام اور اس نظام کی رہبری کرنے والے رہبر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرنا ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ تو رسول خدا امت کو لیڈر اور رہبر کے بغیر چھوڑ کےگئے ہیں اور نہ ہی بارہویں امامؑنے غیبت کبرا کے زمانے میں لوگوں کواپنے حال پر چھوڑا ہے ۔جیسے رسول پاکؐجانے کے بعد سسٹم دے کر گئے ہیں ایسے ہی بارہویں امامؑ بھی مرجیعت اور فقہا کا سسٹم دے کر گئے ہیں ۔ہم نے لوگوں کواس سسٹم سے مربوط کرنا ہے۔علما ء نے اس کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ شیعہ فقہاء اور مراجع کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔شہید ثانی، شہید ثالث، ہزاروںکی تعداد میںعلماء شہید ہوئےہیں۔بعض علماء ایسے بھی ہیں کہ جن کی لاشوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے اور زندانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں مکتب آل محمدؐکی فقہ کی کتابیں لکھی ہیں۔ہماری فقہ کی معروف کتاب ’’لمعہ‘‘ جسے شہید اول نےزندان میں تحریر فرمایاجبکہ حوالے کے لئے ایک بھی کتاب موجود نہیں تھی۔ پھر شہید ثانی نے اس پر شرح لکھی جو’’ شرح لمعہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔یہ دونوں بزرگوار شہید ہوئے۔ فقہاء نے راہ امامت کو زندہ رکھنے اور مکتب امامت کو آگے لےکر بڑھنے کے لیےخون جگر دیا ہے۔اس مکتب میں بعض علماء ایسے بھی گزرے ہیںجنہوں نے فقہ کی عظیم الشان کتاب تحریر فرمائیں ہیں۔ جب انہیں خبر ملتی ہے کہ اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہےتو وہ بیٹے کے جنازے میں کھڑے ہوکر فقہ کی کتاب کا ایک صفحہ تحریر فرماتے ہیں اور ثواب کو بیٹے کے نام پر ہدیہ کرتے ہیں۔ہماری تاریخ اس طرح کے واقعات سےبھری پڑی ہے کہ علماء نے غربتوں کے عالم میں جنازوں پر کھڑے ہوکرعلوم آل محمدؐکومحفوظ کیا ہے۔ آج جاکر نجف دیکھیں وہاں پر کیاحال ہےتو آج سے دوسو سال،تین سو سال یا آٹھ سوسال پہلے نجف کا کیا حال ہوگا۔بھوک اورافلاس کے عالم میں میراث آل محمدؐکو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتے رہے ۔ فقہی، اصولی، تفسیری، لغوی،  رجالی اسی طرح فلسفہ، عرفان اور کلام پر مشتمل عظیم علمی میراث مکتب تشیع کے فقہاء نے ہمارے پاس پہنچائی ہے ۔تاریخ اسلام کی سب سے بڑی تفسیر ہمارے فقہا نے لکھی ہے ۔تفسیر المیزان لکھنے والا کتنا غریب لیکن کتنا عظیم فقیہ تھا۔ان کی زندگی عبادت ہے ۔میں آیت اللہ مرعشیؒکے بارے میں پڑھ رہا تھاوہ اپنے بیٹے کو وصیت میں لکھتے ہیں کہ مجھے ساری زندگی بہت شوق تھا حج کرنے کامیرے پاس پیسے نہیں تھےاگر تیرے پاس پیسے ہوں تو میر ی نیابت میں حج کروا دینا۔آیت اللہ کاظم تبریزی قم میں فوت ہوئے ان کی سینکڑوں عظیم علمی کتابیں جوان کی حیات میں نہ چھپ سکیںکسی نےان سے سوال کیا کہ آپ ان کتابوں کو کیوں نہیں چھپواتے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس خمس کے پیسے آتے تھےان سے تو میں اپنی کتابیں نہیں چھپوا سکتا تھا۔ فقہاء عظیم سرمایہ ہیں جو ہمیں عصر غیبت میںامام زمانہ (عج) سے مربوط رکھتے ہیں۔
ہمیں بیدار اورآگاہ رہناہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے شیعہ سنی کواکھٹا کیا ہے۔آج تکفیریت کو ہم نے تنہا کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی مظلومیت کو طاقت میں بدلنا ہے۔ہم عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے ملک کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ہم نے مختلف ایشوز میں مقاومت دکھائی اور میدان میں ڈٹے رہےوہ میڈیا جو ہماری آواز نہیں آنے دیتا تھا، ہمیں ٹائم نہیں دیتاتھا کئی کئی گھنٹے لائیو دکھانے پر مجبور ہوا جو ہماری وحدت اور طاقت کا نتیجہ تھا۔ ہم نے مزید طاقتور بننا ہے آل محمد ؐ کی ولایت کا وزن کمزور لوگ نہیں اٹھا سکتے ۔مشکلات اور سختیاں آئیں گی انہیں جھیلنا ہے۔امام ؑ کا فرمان ہے کہ جو ہم سے محبت کرتا ہے وہ امتحان اور مشکلات کے لیے تیار ہو جائے۔آل محمد (ص) سے محبت کرنے والے ہمیشہ میدان میں ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سامرہ میں ایران کا ایک بہت بڑا کمانڈرامین تقوی امامین عسکریینؑ کے حرم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ۔کافی عمر رسیدہ تھے ۔ انہوں نے آٹھ سال ایران عراق جنگ میں بھی مجاہدانہ کردار ادا کیا تھا۔اسی طرح آئے دن عظیم لوگ کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے کیونکہ شہادت ہماری میراث ہے۔ڈاکٹر مصطفی چمران کا جملہ ایک دن پڑھ رہا تھااپنے پائوں اوربدن سے باتیں کر رہا رتھاتم تھک جاتے ہو، تم پرزخم آجاتےہیں، تمہیںسختی میں رہنا پڑتا ہے؛ لیکن میں کیا کروں میں حسین ؑ کاعاشق اور کربلا کا مسافر ہوںکسی ایک جگہ ٹھہرنہیں سکتا تمہیںکچھ دیر اور سختیاں جھیل لینی ہو گی۔ عنقریب تجھے خاک کا نرم بستر مل جائے گا۔پھر کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے جب عزت سے جینے کے سارے راستے بند ہوجائیں تو تونے عزت سے مرنے کادروازہ شہادت کھول دیا۔کبھی کہتا ہے اے خدا تو کتنا کریم ہے کہ تونے مجھے غریبی اور فقر سے نوازا؛اے خدا اگر میں غریب اور فقر نہ ہوتا توکیسے میں یتیموں، بیوائوںاور مسکینوں کی آہوں اور سسکیوں کو محسوس کرتا۔سندھ چلے جائیں کتنے لوگ بھوک سے مرتے ہیں ۔طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلاء ہیں ۔پڑھائی نہیں ، روزگار نہیں اور وہاں پر جو مبلغین کام کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی فیکٹری کے مزدور ہیں۔وہ محرومیت میں بھی مکتب تشیع کو پھلا رہے ہیں ۔لہٰذا یہ سفربہت کٹھن سفر ہے ۔اس سفر کو نہایت ہی بردباری، صبر و تحمل، کربلائی بصیرت اور کربلائی عزم کے ساتھ طے کرنا ہے۔

 

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ناصر عباس جعفری
سکیرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان

وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ہے  گلگت و بلتستان ، جہاں دنیا کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیاہے، زندگی بدل گئی ہے،آج کل ہر چیز ماڈرن ہو چکی ہے  یہاں تک کہ لوگوں کی سوچ اور فکر کی نوعیت بھی بدل چکی ہے ، یہاں کے بیوروکریٹوں نے بھی  رشوت کا نام ہی بدل دیا اب رشوت لینے اور دینے والے افراد اسے عطیہ ،ہدیہ ، تحفہ یا  اجرت  کا نام دیتے ہیں  تاکہ حرمت کا تصور ہی ختم ہو جائے ۔دنیا کے اکثر مناطق کی طرح یہاں کے بیورو کریٹس بھی بہت  بھولے  بھالے لوگ ہیں ،اتنے بھولے بھالے کہ  نعوز باللہ وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ  کے عملی مصداق بنے ہوئے ہیں۔

اس قسم کے آفیسر آپ کو تمام ممالک   میں بالخصو ص جی بی کے مختلف اداروں میں  وافر مقدار میں ملیں گےچاہے وہ ادارے نئی نسل کی تعلیم و تربیت سے تعلق ہوں یاا امن و امان برقرار کرنے والی پولیس ہو یا تعمیر و ترقی سے مربوط ادار ے پی ڈبلیو ڈی  وغیرہ، ہر جگہ رشوت اور قانون شکنی کا بازار گرم ملے گا  اور اس گرما گرم بازار میں بیوروکریٹ طبقہ  اللہ اللہ اور بات بات پر توبہ میری توبہ کہتا ہوا بھی دیکھائی دے گا۔

 بیورو کریٹوں کی طرح یہاں کے سیاستدان بھی  اقربا  پروری  میں کسی طور کم نہیں، وہ اسے صلہ رحمی کا نام  دے کر حق داروں کا حق مارنے  میں مصروف رہتے ہیں  جب کہ ان میں عابد شب زندہ دار اور قاری قرآن بھی موجود  ہیں،اور وہ اس نام نہاد صلہ رحمی کے وسیلے سے  رضائے خدا کو جلب کرنے کی کوشش کرتے ۔اس طرح کی صلہ رحمی کرنے والے کئی مرتبہ منشیات کاکاروبار کرنے  والوں کو قانون کے دائرہ  کارسے نجات دلانے میں بھی مشغول نظر آتے ہیں اورپھر  کہتے ہیں کہ  ہم نے تو  کبھی شراب کو  منہ نہیں لگایا ،ہم نے کبھی رشوت نہیں لی ، ہم نے کبھی زنا نہیں  کیا ،ہمارے ہاتھ کسی مظلوم کے خون سے رنگین نہیں ہوئے ،ہم نے کبھی قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کیا  ہم ہر وقت میرٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔

جی ہاں آج ہم بہت ماڈرن ہوچکے ہیں،ہمارے ہاں اب  رشوت کا نام بدل کر تحفہ  و ہدیہ ،اقربا پروری کا نام  بدل کر صلہ رحمی ،میرٹ کا معنی تعلقات، رشتہ داری ،اقرباپروری، سفارش اور رشوت کانام سیاست رکھ دیا گیاہے۔ اب جس جس کے پاس یہ چیزیں ہوں وہ میرٹ پر اترتا ہے  اور جو افراد  جائز نا جائز  ، حلال و حرام کے تمام قیودات کو بالائے طاق رکھ کر ان کی  حمایت اور رفاقت کریں  وہی افراد سماج کے سب سے لائق اور فائق افراد قرار پاتے ہیں۔

یہاں پر سیاست و دینداری اور ایمانداری کے لباس میں بے چارے عوام کا خون چوسا جارہا ہے کبھی  اقتصادی راہداری کے نام پر تو کبھی آئینی حقوق کے نام پر عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں ۔

اہلیان گلگت و بلتستان کو اب تو یہ سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ اسمبلی میں پہنچ کر اہم ملی امور پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں،اقتصادی راہداری جیسے مسئلے میں انہیں کوئی دلچسبی ہی نہیں،جن کا ایجنڈا فقط حکومت پاکستان کی ہاں میں ہاں  ملانا ہے اور جو ہمارے ہاں کی غیور عوام پر جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کی وجہ سے سالہاسال مسلط ہیں،ان لوگوں  کے ہوتے ہوئے عوام کو کوئی ریلیف،فائدہ اور ترقی نصیب نہیں ہوسکتی۔

اگر ترقی ،رشوت کا نام ہدیہ ،دھاندلی کانام سیاست،اقرباپروری کانام صلہ رحمی اور میرٹ کانام تعلقات ہی ہے تو پھر بہت ترقی ہوچکی ہے بصورت دیگر۔۔۔ہم سب کو ملکر اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے سوچنا ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز(آرٹیکل)جب سے طالبان اور تکفیری سوچ کے حامل افراد نے پاکستان میں قدم جمایا تب سے آج تک وطن عزیز آئے روز معصوم شہریوں اور بچوں کی خون سے غلطاں ہیں۔ ان انسانیت دشمن عناصر سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں رہا، جی ایچ کیو ہو یا سانحہ پشاور ان تکفیری دہشت گردوں نے فوج سے لیکر بچوں تک کو زبح کر دیا۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے پشاور اسکول سانحہ کے بعد ان دہشت گردوں کے خلاف مکمل آپریشن شروع کی، ستم زریفی دیکھیں سانہ پشاور کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اس اسے پہلے بھی گلگت بلتستان سے لیکر کراچی اور کوئٹہ سے لے کر پاراچنار تک روزانہ کی بنیاد پر محب وطن پاکستانیوں کو تارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا کہی بم دھمکہ تو کہی بسوں سے اتار کر ان کو زبح کیا گیا مگر اس وقت پاکستان کے سیاسی،سماجی اور حکومتی تمام ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے کسی کو کوئی خبر نہیں تھی اور جب ہم دھشت گردوں کے خلاف آواز اٹھا تے  اور  دہشت گردوں کے عزائم کو احتجاج اور مظاہروں کے زریعہ اعلی احکام تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو ہمیں خاموش کرا دیا جاتا تھا اور عوام کے سامنے گوڈ اور بیڈ کے ساتھ دہشت گردوں کو پیش کیا جاتا رہا۔ غرض اب ان واقعات کا تزکرہ نہیں کرنا چاہتا لہذا جب پشاور آرمی پبلیک اسکول کا سانحہ پیش آیا تو عوام کی آنکھیں کھول گئ عوام کو حقیقت کا اندازہ ہوا کی ان دہشت گردوں میں کوئی اچھا اور برا نہیں ہوتا نہ ہی ان کا کوئی مذہب ہے ۔ ان کا دین،مذہب اور نظریہ صرف یہ یے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا چئمپین تصور کرتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا نظریہ حق ہے اور باقی سب باطل۔ عام لوگوں اور معصوم بچوں کو زبح کرنا یہ لوگ عین عبادت سمجھتے ہیں، اسلام کے اصولوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا، حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال تصور کرنا ان کا اصل ہدف ہے، ان کا نظریہ ظلم و بربریت اور فسق و فجور پر مبنی ہے، ان کے نظریہ کا جو بھی مخالف  ہوتا ہے اس کے خلاف واجب القتل کے فتوی سادر کیا جاتا ہیں۔
 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے مظبوط ملک میں جس کی برری، بحری اور فضائی طاقت میں اپنے مثال آپ ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی ادارے دنیا بھر میں مشہور ہے پھر بھی طالبان،القاعدہ اور اب داعش جیسے تکفیری دہشت گردوں کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے؟؟

ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہمارے ارادے مضبوط اور داعش جیسے دہشت گردوں کو پاکستان میں پہنپنے نہیں دینگے کے دعوی، داعش کے وجود سے انکار، تو دوسری طرف داعش کے منظم گروہ کی گرفتاریاں اور ملک کے مختلف حصوں سے شام میں داعش کے حمایت میں سینکڑوں مرد خواتین کے جانے کا انکشاف۔۔آخر ابو بکر بگدادی خود تو پاکستان آکر یہ سب کرنے سے رہا۔ تو یقینا پاکستان میں داعش کے حامی موجود ہیں جو نہ صرف سویلین  بلکہ تعلیمی اداروں سے لیکر پاکستان کے مختلف اداروں میں موجود ہے جو ان کی پشت پناہئ اور سر پرستی کر تے ہیں۔ لہذا بیان بازیوں سے اگے نکل کر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے پہاڑوں پر بمباری کے بجائے شہروں کے بیچ موجود ان دہشت گردوں کے اصل مراکز اور سہولت کاروں اور ان کے نظریہ کے حامی افراد کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا خصوصا ان لوگوں کے خلاف جن کے خطبوں سے وطن عزیز کے دارلخلافہ میں سیگنلز بند کر دیے جاتے ہیں۔ اور ایک امرجنسی کی کیفیت ہوتی ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی پیھلانے اور دہشت گردوں کے اثرروسوخ کو بڑھانے میں ایک اہم وجہ مختلف حکومتی محکموں اور سویلین میں موجود وطن عزیز اور اسلام کے غداروں اور مجرموں کی ہیں جو جانے یا انجانے میں ان دہشت گردوں کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔

پہلا مجرم تو وہ لوگ ہیں جو ان تکفیری نظریہ کے حامل  ہیں اور ان کے آلہ کار ہیں۔

دوسرا مجرم وہ لوگ ہیں جو مال و دنیا کے حواس میں ان دہشت گروں کے لئے راہ فراہم کرتے ہیں۔

تیسرا طبقہ ان علماء کا ہے جن کو پتہ ہونے کے باوجود ان اسلام دشمنوں کے خلاف اپنے لب نہیں کھولتے بلکہ مظلومین کی حمایت بھی نہیں کرتے،اور تبلیغ اور دوسرے ناموں سے مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہا ہوتا ہے۔

چوتھا مجرم وہ سیاسی اور دیگر ذمہ داران ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ان کے خلاف لب کشائی کرنے سے گریز کرتے ہیں

پانچواں مجرم وہ عام عوام اور نوجوان طبقہ ہے جو کھبی حق و باطل کی سچائی اور حقیقت کی تلاش نہیں کرتے بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح جس طرف ہنکا جائے اسی جانب چل پڑتے ہیں۔

اور سب سے بڑا مجرم خود ریاست کے ٹھیکیدار ہیں جس میں سیاسی اور سیکورٹی زمہ داران شامل ہیں جن کا کام وطن عزیز کی حفاظت اور عوام کی جان مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہیں یہ افراد دو طرح سے مجرم ہیں۔

1۔ اگر یہ لوگ عوام کی جان و مال کی تحفوظ میں ناکام ہوئے ہیں تو یہ عوام کے سامنے مجرم ہیں کیونکہ عوام کے ٹیکس کی پیسوں سے ان کی تنخواہیں بنتی ہے اور عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے ہیں ۔پھر بھی یہ لوگ عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے اور مجرموں کو نہیں پکڑ سکتے تو ان کو چاہیے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور قابل لائق اور اچھے محب وطن شہریوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کریں۔

2۔ اگر ان زمہ داران کو مجرموں کا اور ان کے سہولت کاروں کا پتہ ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کو قانون کے شکنجے تک لانے میں ناکام ہیں یا کوئی سیاسی یا دیگر وجوہات کی بنا پر مجرموں پر ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں تب بھی یہ لوگ مجرم ہیں کیونکہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر ان کے خلاف کسی بھی رنگ،نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر سخت  کاروائی کریں۔

لہزا جب تک ہم سب اپنے اپنے فرائض احسن طریقہ اسے انجام نہیں دینگے اور قوم و ملت اور وطن کے ساتھ مخلص نہیں ہونگیں ہم اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اگر ہم نے غفلت کی تو ان وطن عزیز کی دفاع اور بے گناہ شہید ہونے والوں کا خون ہم سب کے گردن پر ہیں۔ اور دینا آخرت دونوں میں ہم سے ہماری ذمہداری کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو ہم کیا جواب دینگے زرا سوچیے؟؟؟؟

 

 

تحریر۔۔۔۔ناصررنگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب،کاپی اور بستہ لہو میں تر کیوں ہے
بتادے ملک میرا اتنا پُر خطر کیوں ہے۔۔
20 جنوری کی صبح سورج طلوع ہوتے ہی لوگ کام اور حصولِ علم کے لئے نکلے مگر سب انجان تھے کہ آج کے دن بھی بڑا سانحہ ہونے والا ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں چارسدہ کے مقام پربا چا خان یونورسٹی کے بوائز ہاسٹل پر صبح 10بجے ناپاک عزائم کے ساتھ دہشت گردوں نے حملہ کیا طالب علموں کے لاش گرتے رہے ہر طرف شور و غوغا اور لوگوں پر وحشت طاری ہوا 16 کے قریب طالبہ و طالبات شہید ہوگئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین PHD کیمسٹری سمیت 20سے 25افراد شہید ہوئے ۔وطن کے محافظین پاکستان آرمی کے کمانڈوز ایک بار پھر بھر پور جواب دیتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو مار دئیے اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی حملے کے مقام پر پہنچ گئے اور حالات کو کنٹرول میں لا کر عوام کا غم وغصہ دور کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔تمام سیاست دانوں نے رسماََ اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ملک بھر میں سوگ کا اعلان سمیت قومی پرچم بھی سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا۔

قارئینِ کرام! یوں تو وطنِ عزیز پاکستان کو بیرونی خطروں کے ساتھ ساتھ اندرونی خطروں اور سازشوں کا سامنا بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اقتصادی حالت پر بھی گہرا اثر ہوا ہے ۔پاکستان میں پہلے سے طالبان کے حملوں کا خطرہ تمام حساس اداروں سمیت عام پبلک کو بھی پتہ ہے مگر پاکستان میں داعش کا وجود اور داعشی نظریہ رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ وطن کی سا لمیت کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں۔کچھ لیڈروں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے مگر اب وہ بھی مان گئے ہیں کہ نہ صرف داعش بلکہ داعش کے حامی بھی پاکستان میں ہیں۔دارلخلافہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی لال مسجد اور جامعہ حفضہ نے داعش کے ہاتھوں بیعت کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حامی ہیں۔اس طرح کراچی میں بھی داعش کے لئے فنڈینگ اور چندہ کرتے ہوئے کئی دفعہ خواتین سمیت داعشی فکر رکھنے والے دہشت گرد پکڑے گئے۔ARY اسلام آباد کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی مگر حکمران پردہ ڈالتے رہے ۔حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں جبکہ گلگت جیسے شہر میں بھی داعش کے حق میں وال چاکنگ ہمارے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔کل پشاور میں بھی خود کش حملہ ہوا جس میں معروف صحافی اورٹرائبل یونین آف جرنلسٹ کے صدر محبوب شاہ آفریدی سمیت کئی اہم لوگ اس حملے کا شکا رہوئے۔پورے پا کستان اور بلخصوص دارلخلافہ اسلام آباد کے مدرسوں میں داعش اور القاعدہ کے انتہا پسند نظریے کو فروغ مل رہا ہے۔جس کی طرف نشاندہی کئی بار ہمارے حساس ادارے بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس حساس معاملے کو نظر انداز کرنا اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔آج پاکستان میں حساس ادارے،تعلیمی ادارے،مسجد ،مندر، امام بارگاہ،چرچ اور دیگر اہم مقامات اور شخصیات ٹارگٹ ہو رہے ہیں تو اس لئے کہ ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسند لوگوں کو فروغ مل رہے ہیں ۔آج ہمارے حکمرانوں کو پاکستان سے ذیادہ سعودی عرب کی سالمیت کا فکر رہتا ہے حرمین شرفین کے نام سے ہم خواہ مہ خواہ میں جزباتی ہورہے ہیںیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اول تو حرمین شرفین کو کوئی خطرہ نہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہو بھی جاتی ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ حرمین شرفین کی دفاع کے لئے سروں پہ کفن باندھ کر نکلیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ حرمین شرفین کی سلامتی کے نام پر مسلمانوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے سعودی بادشاہی نظام کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کے لئے سعودی اعلیٰ قیادت کئی بار پاکستان وزٹ کر چکے ہیں۔اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کوئی بھی ملک نہیں کر رہا اکیلے پاکستان کئی ملکوں کے دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال وزیرستان آپریشن ہے۔مگر پاکستان کے اندر پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ لوگ اسلام آباد کے ایوانوں میں چھپے ہیں جو دین کا نعرہ تو لگا تے ہیں مگر دین کے بارے میں ان کو پتہ تک نہیں ہوتا۔لہٰذا آج ہم دربدر کیوں ہیں ہمارے لیڈروں کو سوچنا ہوگا اور جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ہمارے ایک عزیز رضا بیگ گھائل صاحب نے کیا خوب کہا ہے ۔

چھپا ہے دین کے پردے میں موت کا تاجر
ذرا سا پر دہ ہٹا نے میں تجھ کو ڈر کیوں ہے
ہے دین ملک بچانے میں مصلحت کیسی
اے رہنماؤ بتاؤ اگر مگر کیوں ہے۔۔؟


تحریر۔۔۔۔۔محمد سعید اکبری

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree