وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ سیاسی عمائدین اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوجائےگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ پاکستان کا اہم ترین حصہ ہےاس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1970 میں صدر پاکستان جنرل محمد یحیی خان نے یہاں  ایڈوائزری کونسل قائم کی ،ذواالفقار علی بھٹو  جب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے ۱۹۷۲ میں گلگت بلتستان میں تین اضلاع بنا کر ترقی کے راستے کھول دئیے۔ 1977 کو پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارشل لا نافذ کیا گیا۔1982 میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے گلگت بلتستان اور دیامر کے تینوں اضلاع کو وفاقی مجلس شوری میں ایک ایک مبصر کی سیٹ مختص کی ، 1994 کے انتخابات کو بینظیر بھٹو نے جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی بڑی بڑی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے آئے جو اب بھی انتخابات کے موسم میں بڑے بڑے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے آتے ہیں ۔ 2002 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے آئینی اصلاحات کے پکیج کا اعلان کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کو اسمبلی سے بدل دیا۔اور اسی طرح بلتستان کے غیور عوام نے بھی پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ 1965  اور 1971کی پاک بھارت جنگ  میں بلتستان کے ۷۴ افراد درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور 89-1986 میں ۲۴ جبکہ 1999 میں ۸۳ افراد نے جام شہادت نوش کی ہیں۔جب جنگوں کا موسم آئے تو گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے جب سیاحت کے  شعبے سے کچھ لینا ہو تو کے۲ پاکستان حصہ ہے دیوسائی کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب سیاچن بارڈر کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب شاہراہ قراقرم کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن جب آئینی حقوق  اور اقتصادی راہداری کی بات آئے تو یہ علاقہ متنازع  ہے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت  ہے اگر اتنا بڑا عرصہ  اس خطے کو بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو  اس میں موقع پرست سیاسی افراداور جماعتوں کا ہاتھ ہے اگر ہمارے نمائندے  اسمبلی میں صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی کرتے تو بہت پہلے  آئینی حقوق مل چکے ہوتے لیکن انہوں نے اس علاقے کے نام پر سیاسی فایدے تو لیے مگر علاقے کے لیے کہیں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت نہ کی ۔

جس ابتر حالات سے اس جنت نظیر خطے کو دوچار رکھا گیا ہے آج بھی ملکی سیاسی سیٹ اپ کے تناظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اس خطے کے عوام کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جائز حیثیت مل سکے۔

قوم مفاد پرستوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ سیاسی عمائدین کا نہ کوئی نظریہ نہ کوئی زبان اور نہ ہی یہ کسی اقدار کے پابند ہیں۔یہاں  دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔نمائندے ایسے ہوں جو  معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں نہ صرف نوکریوں اور تبادلوں کی سیاست ، الیکشن میں اقربا پروری ، رشوت ، ذاتیات کی جنگ اور علاقہ پرستی جیسے کمترین اور ذلیل ترین ہتھکنڈے ہی سیاست کادار و مدار ہوں۔ اور اب ستم بالائے ستم یہ کہ جو علاقہ سالہا سال سے انتظامی ، ثقافتی  اور دینی اعتبار ایک ہو اس وحدت کو سیاسی مفادات کی خاطر تقسیم کرنے  کی سازش کی جارہی ہے ۔اب بات یہ ہے کہ اس قوم کا مزید امتحان نہ لیاجائے ،عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہے۔


سید قمر عباس حسینی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ ہے جو پاکستان کو چین سے جوڑتا ہے۔

(1)سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور دسونں قدرتی خوبصورت مناظر سےآراستہ ر یہ علاقہ اپنے  بینظیرقدرتی حسن کے  باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس خطے میں 7ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جبکہ دنیا کے تین بڑے  گلیشیئر بھی اسی خطے میں ہی واقع ہیں۔

 (2)دیوسائی جیسا دنیا کا بلند ترین اور خوبصورت ترین  میدان بھی یہاں  واقع ہے۔یہاں بے پناہ معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان سے اگر بھرپور استفادہ کیا  جائے تو گلگت بلتستان کا  کوئی گھرانہ حدغربت سے نیچے نہیں رہے گا۔ یہاں اتنے آبی ذخائر ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو پورے پاکستانکے لیے  وافر مقدار میں بجلی  پیدا کی جاسکتی ہے۔ دفاعی حوالے سے یہ علاقہ پورے پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کا سب  سے بڑا دریا،  دریائے سندھ بھی یہاں سے گزرتا ہے۔

یہاں کی عوام بہت ہی شریف النفس،دیندار، بااخلاق، بامروت، شجاع،  ایک دوسرے کے کام آنے والے، ہمدرد اوربہت ہی ایماندارہیں،یہاں کے لوگ اچھے مسلمان اور مہمان نواز  بھی ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

(3) جس کا واضح ثبوت یہاں کے جیلوں میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ پورے پاکستان میں پر امن ترین یہیعلاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان میں تو  آج تک کوئی ایک  شخص بھی  فرقہ واریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔  یہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں۔یہاںپر  ایک  سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا یہ  سب کچھ خود بخود ممکن  ہوا؟ نہیں نہیں  بلکہ یہ سب کچھ علماء کی محنتوں اور ان کی کاوشوں  کا نتیجہ ہے۔انھوں نے لوگوں کے دلوں میں حقیقی اسلام کی روح پھونکی اور ایک دوسرے کے حقوق بیان  کیے۔جس کا پھل آج ہمیں امن و امان اور باہمی محبت کی صورت میں مل رہا ہے۔

۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پریہاں کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے  سے کبھی  دریغ نہیں کیا اورآخری دم تک دشمن کے مقابلے میں مردانہ وار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ملک کا دفاع کرتے رہے اور کبھی  بھی کسی دشمن کے مقابلے میں شکست تسلیم نہیں کی۔

یہاں کی عوام نے( اپنی دینی حمیت  اور ملی جذبے کی خاطر) اپنی مدد آپ کے تحت ۱۹۴۸ء میں خود لڑ کر آزادی حاصل کی ۔( پاکستان کے اسلام کے نام سے موسوم  ہونے اور دینی بنیاد وں پر استوار ہونے کے باعث، اسی  دینی جذبےکے تحت  بغیر کسی شرط کے) اور اپنی مرضی سے  پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔(4) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے خوش آئند قرار دے کربہ سر چشم تسلیم  کرلیالیکن   ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بانی پاکستان انتقال کرگئے۔شاید آج بھی وہ اپنی قبر میں ہماری مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں۔اس کے بعد سے ہماری مظلومیت  کا ایک نیا دور  شروع ہوا۔ نہ ہمیں ۱۹۷۳ء کے آئین میںکوئی قانونی حیثیت دی گئی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں ہم اپنا تشخص پاسکے۔ جبکہ73ءکے آئین میں  کشمیریوں  کو اپنا مستقل حق مل گیا ۔البتہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں کے لوگوں کو کچھ ریلیف اور مراعات ملی لیکن قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے انھوں نے بھی کوئی  ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔  ہمیں نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہاپھر بھی  ہم مملکت خداداد پاکستان سے اپنی دلی ہمدردی  اور محبت کا اظہار کرتے رہے لیکن ایوان اقتدار پرقابض  حکمران مسلسل ہماری محبت کو ٹھکراتے  ہی رہے۔ ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے(جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انیںن کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔ بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف یہاں کے حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انں ح کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔ (البتہ صرف نام کی اسمبلی رہی لیکن کوئی اختیار انہیں بھی حاصل نہیں ہوا) بالفاظ دیگر پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں بھی کچھ متنازعہ باتیں چلیں لیکن ہماری عوام کی بیداری کے باعث وہ بھی ہمیں متنازعہ قرار نہیں دے پائے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے    کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چیناور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر  سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنےحقائق سامنےآنےکےبعدوزیر اعلی خود سے انکی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہرصورت میں اتنا توضرورواضح ہوگیاکہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کاوزیراعلی قرارپانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں۔

آج تو کشمیر اسمبلی میں بھی گلگت بلتستان صوبے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی۔ (9)جب بھی ہم کسی اہم موڑ پر پہنچ جاتے ہیں تب کشمیری حکومت ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جبکہ ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر  آپ ہمیں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں  تو 73 کے آئین میں اپنا حق لیتے وقت  ہمیں بھی ذرا یاد کرکے وہاں ہمارا نام بھی شامل کرتے۔ہم نے ان کے حقوق کے خلاف نہ اس وقت آواز اٹھائی اور نہ ہی آج اٹھارہے ہیں کیونکہ شروع سے ہی وہ اور ہم   الگ  الگ ہیں۔ ان کی بے جا مخالفتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ اور ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔


حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔2016
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔2016
8:ایضا
9:ڈیلی کے ٹو، 13جنوری2016

 

 

تحریر۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز(آرٹیکل) جس طرح سے دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی( 1945_1991) دنیا کی موجودہ صورتحال لگ بھگ اسی طرح ہوچکی ہے۔ امریکہ اور سعودیہ اپنے تمام اتحادی ممالک اور دہشت گردوں سمیت ایک طرف اور ایران دنیا بھر کے مظلومین سمیت دوسری طرف۔ 1945 _ 1991 کا زمانہ جس کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ایک بلاک کی سرپرستی امریکہ کررہا تھا اور ایک کی سرپرستی سوویت یونین کررہا تھا۔سوویت یونین کے زوال کے بعد سرد جنگ ختم ہوگئی ۔ امریکہ کو تنہا world power  کے طور پر پوری دنیا کے ممالک نے تسلیم کر لیا سوائے ایران کے۔ 1991_2001تک کا زمانہ عالمی سطح پر پرامن رہا لیکن 9/11کے بعد عالمی حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔

افسانوی کردار،عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تلاش کا بہانہ بناکر امریکہ نے 2001 ایک میں افغانستان پر حملہ کردیا اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔War against Terrorism. پاکستان مارشل لاء کے دور سے گذر رہا تھا ۔امریکی صدر جارج بش کے حکم پر مشرف نے جنگ میں امریکی اتحادی بننے کافیصلہ کرلیا۔جس کی سزا ابھی تک پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔2003 میں عالمی دہشت گرد امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بناکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

               اس کے بعد شام کی باری آئی تو اس میں امریکہ اور اسرائیل نے پرانی جنگی حکمت عملی تبدیل کر دی بجائے  اس کے کہ direct attack کرتے ترکی،قطر اور سعودیہ کو بشارالاسد کی حکومت کو تہس نہس کرنے کی ذمہ داری دےدی اور بشارالاسد کے خلاف داخلی فوج free army کی شکل میں سامنے آگئی اور 2011 کے اوائل میں فری آرمی نے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے کئی اور دہشت گرد تنظیمیں سامنے آگئیں جن میں سرفہرست داعش، جبہۃ النصرہ ، احرارالشام، جیش الاسلام اور القاعدہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔  پانچ سال اس جنگ کو گذر گئے پر امریکہ،اسرائیل،ترکی،سعودیہ،قطر اور اس کے اتحادی ممالک اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوگئے۔شام،عراق،افغانستان اور پاکستان میں ہزاروں بےگناہ افراد کا خون نا حق گرانے کے بعد بھی آ رام نہ ملا تو یمن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور اس جنگ کو کئی ماہ گذر چکے، ہزاروں بےگناہ افراد کا قتل عام ہوا اور ہو رہا ہے۔  تب بھی قرار نہ آ یا تو اس سال دسمبر میں تحریک اسلامی نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا نائیجیریا کے آرمی کے ذریعے قتل عام کروادیا اور تحریک اسلامی نائیجیریا کے سربراہ کو پابند سلاسل کیا،  اس پہ بھی سکوں نہ آیا تو مرد حر ،مرد مجاہد شیخ النمر کو حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں تختۂ دار پہ لٹکا دیا۔

               امریکہ شیطان بزرگ ہے اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں، لیکن بنی سعود بھی امریکہ سے پیچھے نہیں۔ امریکہ نے جب بھی کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنا ہو یا کروانا ہو ہمیشہ عرب دنیا کے شیطان بزرگ کی خدمات لیتا رہا ہے اور سعودیہ بھی با کمال میل اپنےحواریوں اور جواریوں کےساتھ لبیک یا پدر کرکے اسرائیل اور امریکہ کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے۔ ترکی اور سعودیہ مسلمانوں کے تاریخی غدار ہیں۔ اس میں بھی کسی کو ذرہ برابر شک نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن ایسا کیوں ہے ؟ اس پہ بحث کی ضرورت ہے۔

               اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں 1979 سے تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 1979 میں ایران میں جب خمینی بت شکن رحمت اللہ علیہ کی سربراہی اور سرپرستی میں اسلامی انقلاب آیا تو اس زمانے میں پورا  world  دو  blocks  میں تقسیم ہوچکا تھا (communism)  اور (capitalism)۔کیمونسٹ بلاک کی رہبری سوویت یونین کررہا تھا اور کیپٹلسٹ بلاک کی رہبری امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ ان دونوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بننا تقریبا ناممکن تھا۔جو بھی نیا ملک معرض وجود میں آتا تھا اپنی بقا اور  survival  کےلیے ان دو بلاکس میں سے کسی ایک کو  join  کرنا ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی جب پاکستان بنا تو اس کو بھی کسی ایک کو   join کرنا پڑا اور اس نے امریکی بلاک کو  join  کرلیا جس کا بدلہ سوویت یونین نے 1971کی جنگ میں پاکستان سے لےلیا۔

               اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے دونوں بلاکس کو no بول دیا اور لا شرقية ولا غربيه کا شعار بلند کیا جس سے امریکی ایوان میں زلزلہ آ گیا اور American policy makers نے اسلامی انقلاب کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اس نئے انقلاب کو شروعات میں ہی دبانے اور ختم کرنے کا plan  بنالیا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے منحوس ڈکٹیٹر صدام حسین کا انتخاب کرلیا اور یوں دیکھتے دیکھتے عراق نے ایران پر حملہ کردیا۔فرنٹ پر عراق اور پشت پر امریکہ سمیت اس کے پجاری،آٹھ سالوں تک اپنی پوری قوت لگادی لیکن ذلت او رسوائی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا۔ سعودیہ کا کردار ایران عراق جنگ میں قابل فراموش نہیں۔سعودیہ نے بڑھ چڑھ ک عراق کی مدد کی اس کی دو اہم وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ خطے میں اس کی monopoly خطرے میں تھی اور دوسری وجہ اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی جو کہ بنی سعود کو اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی تھی۔جنگ میں ناکامی کے بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے انقلابی ساتھیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو کمزور کرنے کی سازش کی اور پورے پارلیمنٹ کو بمب سے اڈا دیا لیکن اس سے بھی انقلاب کو کوئی فرق نہیں پڑا اور دشمن ہمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ہوگیا۔

               امام رحمۃ  اللہ علیہ کی رحلت کے بعد دشمن کو لگا کہ اب انقلاب کا  The end  ہے لیکن ان کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔  انقلاب اسلامی کو مقام معظم رہبری سید علی خامنہ ای ارواحنا لہ الفدا جیسا لیڈر ملا اور یوں انقلاب اسلامی ایران سے نکل کر آہستہ آہستہ دنیا کے گوشہ و کنار میں پہنچا۔اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ جیسی تنظیم بنی،فلسطین کی اسرائیل کے خلاف مقاومت طاقتور ہوگی اور کچھ ہی سالوں میں ایران تمام اعتدال پسند، انقلابی، مظلومین، محرومین اور مستضعفین جہاں کی آواز بن گیا۔

               انقلاب اسلامی سے پہلے دنیا میں ظلم اور ظالم کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا کوئی نہ تھا، ظلم سے ِٹکرانے اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانے والا کوئی نہ تھا۔لیکن انقلاب اسلامی کے بعد دنیا میں کہیں بھی ظلم ہوا ایران نے اس کے خلاف صدائے حق بلند کیا، ظالم سے لڑا اور مظلوم کی حمایت کی۔  یوں پوری دنیا میں ایران ظلم کے خلاف جنگ اور ٹکر کا symbol بن گیا۔  بس ایران کا یہی  style دنیا کے ظالم اور جابر حکمرانوں کو پسند نہ آیا ۔

               اب جبکہ انقلاب اسلامی پوری دنیا میں پہنچ چکا ہے، ظالموں کے خلاف تحریکیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں ایسے حالات میں دشمن نگران و پریشان الٹی سیدھی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ عراق اور شام میں ناکامی کے بعد دشمن نے اب نئی حکمت عملی تیار کی ہے اور حکمت عملی بہت خطرناک ہے اور وہ ہے مسلمان کو مسلمان سے لڑانا اور اس کى   ذمہ داری اپنے پرانے وفادار سعودیہ کو سونپی ہے۔ اور یہ وہی برطانیہ کی پرانی پالیسی،(divide and rule), لڑاو اور حکومت کرو والى پالیسی ہے جس کو سعودیہ کے ذریعے پوری دنیا میں implement کررہا ہے۔ نائیجیریا کے بےگناہ افراد کا قتل عام،شیخ زازاکی کی گرفتاری، شیخ النمر کی پھانسی،  یمن پر جنگ مسلط کرنا، بحرین کے مسلمانوں پر ظلم، سعودیہ کے شعیوں پر ظلم یہ سب اسی منحوس پالیسی کا نتیجہ ہے۔

               شیخ زکزکی کی گرفتاری اور شیخ النمر کی پھانسی کے بعد دشمن یقینا خوش ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والى پالیسی میں کامیاب ہوگیا ہے اور ظاہرا ایسا ہی لگ رہا ہے لیکن انشاءاللہ اس میں بھی دشمن ذلیل و خوار ہوگا۔چونکہ بنی سعود کا ہزار پردوں کے پیچھے چھپا ہوا اصلی چہرہ آ ہستہ آ ہستہ پوری دنیا کے سامنے آرہا ہے اور اس ناپاک اور مکروہ چہرے کو بےنقاب کرنے میں منی کے آٹھ ہزار شہیدوں کا ،نائیجیریا کے ہزار بےگناہ شہیدوں کا ، یمن کے لاکھوں بےگناہ شہیدوں کا،شہید مقاومت شہید شیخ النمر ،شام اور عراق، افغانستان اور پاکستان میں بے شمار بےگناہ افراد کے قتل عام شامل ہے۔  چونکہ اب دنیا کو پتا چل چکا ہے دنیا میں جہاں پر بھی دہشت گرد اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں ان سب کے پیچھے امریکہ،اسرائیل اور سعودیہ ہیں، انہوں نے ہی ان دہشت گرد تنظیموں کو بنایا ہے، یہی ان کو جنگی جرائم کے لئے جنگی وسائل فراہم کر رہے ہیں، یہی ان کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اور پوری دنیا سے دہشت گردوں کو جمع کر کے شیعیان حیدر کرار سے لڑنے کا task دیا ہے۔ یہ ایک عالمی جنگ ہے جس کا آغاز سعودیہ کی سرپرستی میں ہوچکا ہے اور جسکی پشت پر امریکہ اور اسرائیل ہیں۔شیعہ اور سنی کو آ پس میں لڑانے کا منصوبہ عملی ہوچکا ہے۔

 ایسے حالات میں اصلی دشمن کو اور اس کے عزائم کو پہچاننے کی اشد ضرورت ہے۔سعودیہ کی قیادت میں 34 سنی ممالک کا اتحاد اسی سازش کا حصہ ہے۔لیکن دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ یہ اسلام کے دو بازو ہیں،  ان دونوں کے بیچ کبهى جنگ نہیں ہوگی،  بلکہ یہ دونوں مل کر کل کفر، بنی سعود اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے عالمی دہشت گردوں کا مقابلہ کرینگے اور اپنی صفوں سے کالی بیھڑوں کو نکال کر باہر پھینک دینگے۔

            یہاں پر   ملت پاکستان سے اور رہبران پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ ان حالات میں جبکہ دشمن ہمارے خلاف متحد ہوچکا ہے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اس مشکل وقت کو غنیمت سمجھ کر عملی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ تمام شیعہ اور سنیّ مسلمان مل کر آلِ یہود اور آلِ سعود کی سازشوں کا مقابلہ کریں۔

تحریر۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر۔سیکریٹری سیاسیات ، ارتباطات MWM قم
پیشکش،مجلس وحدت مسلمین قم شعبہ میڈیا

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب 1980ء كی دہائی ميں روسی اتحادی حكومت كمزور ہوچکی تهی، امريكہ دنيا كا فاتح بن رہا تها اور مشرقی روسی بلاک كو مغربی بلاک نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور كر ديا، مغربی بلاک كی سربراہی امريكہ كر رہا تها، اس بلاک ميں مغربی ممالک اور اس خطے كے امريكی اتحادی شامل تهے۔ آخركار مشرقی سوويت يونين 1991ء ميں ٹوٹی اور اسی سال امريكہ نے اسكا اعلان "نيو ورلڈ آڈر" كی شكل ميں كيا کہ اب اس دنيا كے سياه و سفيد كا مالک امريكا ہوگا۔ مشرق وسطٰى خدا كی نعمتوں سے مالا مال ہے، يہیں سے انسانيت كی تاريخ نے جنم ليا ہے، اديان سماوی كا منبع اور مركز بهی يہی ہے، يہیں سے انسانی تہذیبوں نے جنم ليا اور جو اس خطے پر قابض ہو جاتا ہے، اسكی ساری دنيا پر حكومت ہوتی ہے۔ اس خطے كی اكثريتی آبادى مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اسی لئے مغربی استعماری قوتوں نے ملكر بہت عرصہ پہلے جہان اسلام كے خلاف ايک منحوس سازش كے تحت غاصب صہيونی حكومت كی ارض مقدس فلسطين پر بنياد ركهی۔ رفتہ رفتہ امريكی و مغربی امداد اور حمايت سے صہيونی حكومت ايک بڑی طاقت كے طور پر ابهری، فقط فلسطين پر ہی نہیں بلكہ فلسطين كے ہمسايہ ممالک مصر و شام اور اردن و لبنان كی زمينوں پر بهی قبضہ كر ليا۔

ان مسلم و عرب ممالک نے متحد ہو كر اس صہيونی حكومت (اسرائيل) كے خلاف پچاس، ساٹھ اور ستر كی دہائيوں ميں جنگیں بهی كيں اور انہيں باقی عرب و مسلم ممالک كی حمايت بهی حاصل تهی، ليكن چونكہ عالم غرب دشمن كی حمايت كر رہا تها، لہذا انہيں شكست فاش كا سامنا كرنا پڑا اور ذلت و رسوائی كی نوبت يہاں تک پہنچی كہ مصر و اردن نے تو زمين كے عوض غاصب صہيونی وجود كو تسليم كرتے ہوئے سفارتی تعلقات بهی بنا لئے، ليكن شام و لبنان نے مقاومت كا راستہ اختيار كيا۔ مسلم و عرب عوام اور حكمران تو يہ بات كہنے لگے كہ اسرائيل ايک ناقابل شكست طاقت ہے۔ كيونكہ خطے كے اكثر حكمران امريكى غلام تهے، اس لئے دشمن كے ايجنڈے پر كام كر رہے تهے۔ وه خود تو جذبہ حب الوطنی اور عزت و غيرت، شرف و شجاعت اور صداقت و شراف و فاداری جيسی اسلامی و انسانی اقدار كے امين نہیں تهے بلكہ انہوں نے ايسے اقدار وجذبات كو كچلنے ميں بهی كوئی كسر نہیں چھوڑی۔

1980ء كے عشره كی ابتداء ميں اسرائيل فلسطينی مجاہدين كے تعاقب كے بہانے پورے ملک لبنان پر قابض ہوگیا، بزدلی كی يہ حالت تهی كہ بيروت اور ديگر شہروں ميں اس وقت لبنانی شكست خوردہ و ذليل عوام و اكابرین نے اسرائيلی فوجيوں اور ٹینکوں كی راه ميں پهول اور چاول نچهاور كئے۔ ايسے نازک ترين دور ميں علماء جبل عامل و بقاع كے تربيت يافتہ اور مدرسہ كربلا سے عشق ركهنے والى مختصر سی جماعت حزب الله لبنان كی شكل ميں ميدان ميں اترى، جنكا اعتماد فقط اور فقط اللہ تبارک و تعالٰى كی ذات پر تها۔ انہوں نے كسی مادی خواہش يا دنياوی منصب كے لئے نہیں بلكہ مادر وطن كو صہيونی نجس پنجوں سے آزاد كرانے اور دين مبين اسلام كے اقدار كی احياء كے جذبہ كے تحت قيام كيا، تعليمات قرآن و اہل البيت عليهم السلام كی راہنمائی اور جذبہ جہاد و شهادت سے مسلح ہو كر انہوں نے بزدل صہيونی فوج كی حقيقت دنيا كو دكها دی۔

وه اسرائيلی فوج جسے سب عرب و مسلم ممالک ملكر شكست نہ دے سكے، بلكہ اسے "قوة لا تقهر" ناقابل شكست طاقت تسليم كرچكے تهے، حزب الله لبنان كے سرفروش مجاہدين نے اسے دو بار شكست دی۔ ايک بار مئی 2000ء میں، جب اسرائيل كو لبنان سے بهاگنے پر مجبور كيا، دشمن ذليل و رسواء ہو كر جنوبی لبنان سے نكلا۔ دوسری بار جب اسرائيليوں نے جولائی 2006ء ميں لبنان پر جنگ مسلط كی، انہوں نے اعلان كيا كہ وه حزب الله كی پہلی اور دوسرے درجے كی قيادت كو قتل كريں گے اور مقاومت كی عسكری طاقت تباه كر ديں گے، جنوبی لبنان كی نہر الليطانی تک كے علاقے پر قبضہ كركے وہاں پر اپنے لئے بفرزون بنائيں گے اور اسرائيلی فوجيوں كو آزاد كرائيں گے۔ ليكن 33 روزه گھمسان کی جنگ ہوئی، يہ عرب اسرائيل ايسی جنگ تهی، جس ميں خليجی اور عرب ممالک اسرائيل كا ساتهـ دے رہے تهے، حتٰى کہ لبنان كے وزيراعظم فؤاد سنيورا اور اسکی سعد الحريری پارٹی كی بهی دلی تمنا تهی كہ حزب الله كو مكمل طور پر كچل ديا جائے، انكی حكومت كے وزير احمد فتفت تو جنوب ميں اسرائيلی حملہ آور فوجيوں كو اپنے ہاتھ سے چائے پلاتے نظر آئے۔ حزب الله نے اس جنگ ميں تنہا اسرائيل كو نہیں بلكہ اس كے ماوراء سب قوتوں كو ذلت آميز شكست سے دوچار كيا۔

كيا حزب الله دہشتگرد جماعت ہے يا محب وطن؟
دہشتگرد جماعتيں عموماً عسكری طاقت سے اپنے وطن اور ہم وطنوں كو اپنی دہشتگردی كا نشانہ بناتی ہیں اور پورے ملک يا ملک كے بعض حصوں پر خلاف قانون قبضہ كركے حكومت كی رٹ كو چيلنج كرتی ہیں، ليكن اگر حزب الله كو تعصب كی عينک اتار كر ديكهيں تو ديكهيں گے كہ حزب الله كی جذبہ حب الوطنی اور ايثار كا يہ مقام ہے كہ مسلسل 18 سال غاصب اسرائيل كے خلاف جنگ لڑی اور وطن عزيز كی آزادی كے لئے ہزاروں شہداء كے علاوه ديگر بهی ہر قسم كی قربانياں ديں، ليكن جب مادر وطن كو آزاد كراليا تو اسكے مستقبل كا فيصلہ تمام ہم وطن سياسی قوتوں كے اختيار ميں ديديا۔ خود اپنی حكومت يا خلافت يا ولايت قائم نہیں كی۔ حتٰى كہ وطن کے وه خائن اور مجرم افراد اور گروه جو اسرائيل كيساتھ ملكر حزب الله كے خلاف جنگ كرتے رہے، انكے ساتھ بهی حزب الله كا رويہ وہی تها، جو سركار خاتمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰى صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ كے بعد اختيار كيا تها اور مسلسل جنگیں كرنے والے كفار سے فرمايا تها  "جاؤ ہم نے تمہیں آزاد كر ديا۔"

اسى سيرت مصطفٰى (ص) پر عمل كرتے ہوئے 25 مئی 2000ء كو جب اسرائيل ان خائنوں كو چهوڑ كر بهاگ نكلا تو حزب الله كے قائد فرزند رسول علامہ مجاہد سيد حسن نصرالله نے بهی اپنے جد والے اعلان كو ہی دہرايا تها۔ ہاں حزب الله اسرائيل اور امريكہ كی نگاه ميں ايک دہشت گرد جماعت ہے، كيونکہ اس كی دہشت اور خوف سے اسرائيل، امريكہ، انكے فلک ميں گھومنے والے افراد اور حكمرانوں كی نينديں حرام ہوچكی ہیں۔ حزب الله لبنان كی ايک مضبوط سياسی پارٹی ہے، جو لبنانی قوانين كے مطابق اليكشن ميں شركت كرتی ہے، اس كا پارليمنٹ كے اندر مضبوط دھڑا ہے اور انكی پارٹی كے کئی ايک وزير بهی لبنان حكومت ميں موجود ہیں۔ حزب الله فقظ وطن كيلئے دفاعی جنگ پر ايمان ركهتی ہے اور اس نے ملک كے داخلى سياسی اختلافات ميں كبهی بهی عسكری قوت كو استعمال نہیں كيا۔

حزب الله شام حكومت كی حمايت ميں شامی عوام اور حكومت كے مابين داخلى جنگ ميں كيوں وارد ہوئی؟
شام ميں جو خانہ جنگی 2011ء ميں شروع ہوئی، تمام تر شواہد دلالت كر رہے ہیں کہ يہ جنگ شام حكومت اور شامی عوام كے مابين نہیں تهی۔ 80 سے زياده ممالک سے تكفيری جنگجو اور انكے علاوه وه كمانڈوز جن كو عراق کی ابو غريب نامی جيل، امريكہ کے بدنام زمانہ گوانتا نامو نامی ٹریننگ اور برين واشنگ سنٹر اور اسی طرح سعودی و خليجی حتى كہ ڈیره اسماعيل خان جيل سے بهاگنے والے دہشتگردوں كو بهی شام بهيجا گيا۔ شام حكومت کا قصور يہ تها:
1۔ اسرائيل سے سفارتی تعلقات قائم كرنے پر راضی نہیں تھی۔
2۔ لبنان و فلسطين كی آزادی كی تحريكوں، مقاومت و انتفاضہ كی پناہ گاه تھی، انكی ہر لحاظ سے مدد كرتی تھی اور عرب دنيا ميں قلعہ مقاومت كے نام سے معروف تھی۔
3۔ ايران كے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات تهے جنكو قطع كرنے پر راضی نہیں تھی۔
4۔ اس نے امريكی اور مغربی بلاک كا حصہ بننے سے انكار كر ديا تها۔
مقاومت كے ہراول دستہ حزب الله سے شكست كے بعد امريکہ و مغربی بلاک، اسرائيل اور خطے ميں انكے شركاء سعوديہ، قطر اور تركی كے ساتھ ملكر كر قلعہ مقاومت كو منہدم كرنے كا پروگرام بنايا گيا، تمام تكفيری مسلح گروہوں، انكا نام جبهة النصرة ہو يا داعش، فتح الاسلام ہو يا جيش الاسلام، جند الشام ہوں يا احرار الشام، انكی قدر مشترک يہ ہے كہ وہ كرائے كے قاتل ہیں، تكفيری عقيدہ ركهتے ہیں اور وحشت و بربريت ميں اپنی مثال آپ ہیں۔ انكا كام شام كی تباہی اور اسرائيل كا دفاع ہے۔ اسی لئے انكے زخميوں كا علاج اسرائيلی ہسپتالوں ميں ہوتا ہے۔ انہیں لاجسٹک خدمات اور اہم عسكری معلومات اسرائيل فراہم كرتا ہے۔

حزب الله كے شام ميں وارد ہونے كے اسباب مندرجہ ذيل ہیں:
1۔ قلعہ مقاومت شام كے خلاف حزب الله كے دشمنوں كی مسلط جنگ ميں ان کا ٹارگٹ فقط شام نہیں بلكہ حزب الله ہے، كيونكہ شامی حكومت گرنے كے بعد حزب الله كے سامنے اسرائيل اور پشت پر اسرائيلی ايجنٹ ہوتے، جو خونخواری و درندگی اور بغض و عناد ميں يہودیوں سے بهی بدتر ہیں، وه تکفیری 2011ء ميں شورش كے آغاز پر اعلان بهی كرچكے تھے "لا ايران ولا حزب الله" اب نہ ايران رہے گا اور نہ حزب الله۔ تو حزب الله نے وه جنگ جو اسے كل لبنان كے گلی كوچوں ميں تنہا لڑنا تھی، اب وہی جنگ اپنے شركاء كے ساتهـ ملكر كر لڑ رہی ہے، دوسری طرف حزب اللہ نے اپنی سرزمین كو ميدان جنگ بننے سے بهی بچا ليا۔
2۔ تكفيری وہابی گروہوں اور زہران علوش نے اپنے خطابات ميں ايک خطرناک اعلان كيا تها۔ جس ميں اس نے رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم كی نواسی اور حضرت امام على عليہ السلام كی شہزادی ثانی زهراء حضرت زينب عليها السلام سے مخاطب ہو كر تمام مسلمانوں كی غيرت كو للکارا تها اور كہا تها "سترحلين مع النظام" كہ ای زينب اس بشار الاسد كی حكومت كے بعد تم بهی نہیں رہو گی۔" ان دہشتگرد تکفیریوں نے ديواروں پر یہ چاكنگ بهی كروائی تھی۔ حزب الله كے مجاہدین اور انكے قائد كی غيرت و حميت كيسے برداشت كرتی كہ وه زنده ہوں اور خاندان رسول خدا كی بے حرمتی ہو، تو سيد مقاومت علامہ سيد حسن نصرالله نے اعلان كر ديا کہ "دوسری بار حضرت زينب كو قيدی ہرگز نہیں ہونے دينگے۔" جب ترک حكومت نے اپنے سابق بادشاه ظاهر شاه كہ جس كی قبر شام كی سرزمين ميں ہے، اسکی حفاظت كيلئے فوجی دستے بهيجے اور شام كی سرحدوں کی خلاف ورزی كی تو یہی جواز بنايا تها کہ انكی جد كی مزار كو داعش اور ديگر مسلح تكفيری گروہوں سے خطره ہے، اس لئے تركی فوجی دستے اسكی حفاظت كيلئے شام کی زمینی حدود میں وارد ہوئے ہیں، كيونكہ يہ كچھ عرصہ پہلے اصحاب رسول خدا حضرت خواجہ اويس قرنی، حضرت عمار بن ياسر اور حصرت حجر بن عدی اور حضرت ابی بن كعب كے مزارات كو مسمار كرچکے تهے۔ ان دنوں سيد حسن نصرالله نے حزب الله كی شام ميں مداخلت پر اعتراض كرنے والوں كو جواب ديا تها کہ اگر رجب طيب اردغان اپنے جد كی قبر بچانے كيلئے فوجی دستے بهيج سكتا ہے تو دختر رسول خدا اور شريکۃ الحسين كے روضہ اقدس كے دفاع كيلئے ہمیں بهی فوجی دستے بهيجنے كا اختيار ہے۔ حق تو يہ ہے كہ دنيا بهر كے مسلمان انكے رسول كی بيٹی كے حرم كا دفاع كرنے والون كا شكریہ ادا كريں۔

3۔ حزب الله وہاں كی أئينی و دستوری اور عوام كی منتخب حكومت كی مرضی اور اتفاق سے اس ملک ميں داخل ہوئی ہے اور پھر بھی اس بر شور مچايا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی بين الاقوامی قوانين كی خلاف ورزی كرتے ہوئے ہمسايہ غريب اسلامی ملک يمن كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں تو يہ دوسرے ممالک ميں مداخلت نہیں ہوتی، اگر ملک شام و عراق اور ليبيا كی تباہی كے لئے مسلح دہشتگردوں كی ہر قسم كی مدد كريں اور فضائی حملے كريں تو يہ مداخلت نہیں ہوتی۔
4۔ حزب الله كا اصلی دشمن اسرائيل ہے، جس نے انكے ملک كے بعض حصوں پر ابهی بهی قبضہ كر ركها ہے۔ جب اسرائيل شام كی حدود ميں كهلم كهلا حملے كرے گا، دہشتگردوں كو سپورٹ كريگا اور مقاومت كو كمزور كرنے كى كوشش كرے گا تو حزب الله بهی اپنے قومی و ملی مفادات كبلئے ہر ميدان مين اترے گی۔
5۔ شامی حكومت نے 2006ء كی 33 روزه جنگ ميں حزب الله كی ہر لحاظ سے مدد كی تھی اور وہ لبنانی و فلسطينى  میں حزب الله اسے كبهى تنہا نہیں چھوڑ سكتی، يہ حزب الله كی نظرياتی تربيت اور اسلامی و اخلاقی اقدار كے خلاف ہے۔

تحرير۔۔۔علامہ ڈاكٹر شفقت حسین شيرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) سادہ لوحی کی بھی انتہاہوتی ہے،ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی  خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر  سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں  ہیں  جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے  اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ  کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔

سعودی حکمرانوں کو اللہ اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں،انہیں کسی مسلمان،کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں،عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہورہاہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔آپ خود سے تحقیق کر کے دیکھ لیں۔

ایک قاعدہ ہے" کل شیئ یرجع الی اصلہ" ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے  اور موجودہ آل سعود کے آباو ادجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔ (1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔ (2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا  کشت و خوں ،  شام میں لاکھوں  مسلمان بے گھراور کسماپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی  میں وہاں  ہزاروں لوگوں کا قتل عام کا مسئلہ،  ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ  غرض مسلمانوں کے تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔

نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے نہ فکری آزادی نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو  بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔ (3) فکر ی آزادی کی دعوت دیتا ہے(4)نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا(5)

مومنو! ناامید نہ ہونا چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنادشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ دشمن تو  ابتداتاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے توسقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی  اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کردی پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لیے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی  اور وہ اپنے اس  زعم باطل میں مگن ہوگئےتھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہرا حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس چراغ ہدایت کو گل ہونے نہیں دیں گے۔  اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کاری فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔اس دنیا کی چند روزہ  زندگی میں  اللہ تعالی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)

اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہیدکیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتوی جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی  کے واقعے میں ملوث ہوئے،  نہ کسی کا  "برین واش" کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا،  نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لیے جائز التصرف قرارد یا،  نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون....پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟  ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم سے پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں  عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق  قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ....

شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کے خلاف  آواز نہیں اٹھائیں گے اور ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے اور ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں  بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم  پر  خاموش  نہیں رہے، کبھی  دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکا یا اسرائیل جیسے استعماروں کے پنجے میں  آکر ان کا آلہ کار نہیں بنا۔ کیوں؟  اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت اباعبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں  اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے  کربلا کی تپتی صحرا میں ہمیں یہ  درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے"(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے" (8)

ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علما حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان  کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لیے  نشان عبرت بنا دیا وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے دیوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کا ہوا ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:

ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے       وادی مرگ بھی منزل گہہ  امید بھی

ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں                     رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی                           

شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو                   جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) موت بھی ایک وزن رکھتی ہے۔موت کو بھی تولا جاسکتاہے۔موت کا وزن مرحوم کی شخصیت کے مساوی ہوتاہے۔کسی کی موت سے صرف اس کی گھر والے،عزیز اور رشتے دار متاثر ہوتے ہیں،کسی کی موت سے ایک پورے شہر کا دل درد سے بھر جاتا ہے،کسی کی موت کئی شہروں کو اداس کردیتی ہے ،کسی کی موت سے پورا ملک ہل جاتا ہے اور کسی کی موت پوری دنیا کو ہلا دیتی ہے۔

بلاشبہ گزشتہ دنوں میں افریقہ کے شیخ زکزاکی پر حملے اور شیخ باقرالنمر کی سزائے موت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیاہے۔بات صرف سعودی عرب اور ایران کی نہیں ،بات عالمی برادری کے رد عمل کی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں اس سے پہلے بھی  کئی مرتبہ شدید تناو آیا ہے اور اس سے زیادہ  بھی حالات سنگین ہوئے ہیں لیکن  بین الاقوامی  برادری نے اس سے پہلے کبھی اس طرح سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایاتھا۔

بین الاقوامی برادری خصوصا اسلامی دنیا نے اس دفعہ سعودی عرب  کی شدید مذمت کی ہے۔اس مذمت کی خاص وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کا عام ہونا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ سعودی عرب کے بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ اور خادم الحرمین شریفین کہہ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور بعض اب بھی ان کی پوجا کرتے ہیں لیکن ایک عام اور غیر متعصب مسلمان اب سعودی عرب کی حکومت،آل سعود کے عقائد اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پائے جانے والے اسلام کو اچھی طرح سمجھ چکاہے۔

حتّی کہ سعودی حکومت کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آلِ سعود کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والے طالبان اور داعشی گروہوں میں  بھی  ایسے گروہ موجود ہیں جو کہ آلِ سعود کو خالصتاً امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں شدت پسندوں کو ٹریننگ دینے،خود کش دھماکے کروانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے  اور اسلام کا لیبل استعمال کرنے کے باعث ، خصوصاً سانحہ منیٰ کے بعد سے لوگوں کے سامنے آل سعود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکاہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ  فلسطین اور غزہ کے مسلمان آلِ سعود کے صیہونی ہونے کا تجربہ کرچکے ہیں،بحرین میں سعودی افواج کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں،یمن میں سعودی عرب کا بھرکس بن رہاہے،شام میں آل سعود کی دُم پر پاوں آیا ہوا ہے ،عراق میں سعودی عرب کے دانت کھٹے ہوچکے ہیں،پاکستان میں ہرباشعور پاکستانی ،سعودی عرب کے دہشت گردی کے کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے،کشمیر میں لوگ سعودی جہاد کا مزہ چکھ چکے ہیں۔افغانستان میں آل سعود کو خنّاس سمجھا جاتاہے۔۔۔

ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے ۳۴ ممالک کے اتحا د کا من گھڑت اعلان کرنا دراصل گرتی ہوئی سعودی بادشاہت کو بچانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب اکثراسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس اتحاد سے لاتعلقی کااظہار کردیا۔

سعودی اتحاد سے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے انکار نے سعودی حکمرانوں پر واضح کردیا ہے کہ اب اسلامی دنیا،اسلام کے نام پر بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اس وقت امریکہ و اسرائیل کی چاکری اور اپنے وہابی عقائد کے باعث سعودی عرب عالمِ اسلام کو  اپنے پرچم تلے جمع کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔

اب سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو “ایران دشمنی “پر جمع کیاجائے۔دنیا کو ایران دشمنی پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو ایران سے ڈرایاجائے۔” ایران سے ڈرانا” در اصل امریکہ اور اسرائیل کا ایک کاروباری ہتھکنڈہ ہے،مغربی قوتیں اور امریکہ  عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر ایک لمبے عرصے سے معدنیات اور تیل کے ذخائر کولوٹ رہے ہیں۔چنانچہ ایران سے ڈرانے کا نسخہ امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کے لئے فائدہ مند ہے۔

اس نسخے کے تحت  شیخ باقرالنّمر کی سزائے موت پر ہونے والے ردّعمل کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف  اعلانیہ سفارتی جنگ  شروع کردی ہے۔ایسے لگتاہے کہ جیسے ایک دم ایران اور سعودی عرب کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں،حالانکہ ۳۴ممالک کے اتحاد کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ ماحول جان بوجھ کربنایاگیاہے۔

“ایران دشمنی” پر لوگوں کو جمع کرنے کی گیم بھی اب  زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں چونکہ وہ زمانہ گزرگیاکہ جب مداری ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتے تھے اور چٹکلے سنا کر ان سے پیسے لیتے تھے۔اب دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور لوگ خبری چٹکلوں اور سیاسی بیانات کے بجائے،تحقیق اور تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔

ہمارے خیال میں اس وقت سعودی عرب کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بن کر ایران دشمنی کی فضا بنانے کے بجائے  اپنی اصلاح ِ احوال پر توجہ دے۔دنیا بھر میں شدت پسند ٹولوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے اوراپنی ریاستی عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کااحترام کرے۔

سعودی حکومت کو اس وقت حقیقی خطرہ ایران کے بجائے ان مظلوم سعودی عوام سے ہے جن کے مقدس ملک کو امریکہ اور اسرائیل کی کالونی بنادیاگیاہے،جن کی غیرتِ دینی کو مذاق بنادیاگیاہے،جن کے جذبہ جہاد کو نیلام کیاگیاہے،جن کے معدنی زخائر کو کفار اور یہود پر لٹایاجارہاہے ،جن کی مقدس دھرتی پرپائے جانے والے مقدس مقامات کو مسمار کردیاگیاہےاورجن کے سیاسی  و جمہوری حقوق کو نظرانداز کیاجارہاہے ۔ایسے مظلوم لوگ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنّی بھی ہیں ۔یہ سب مظلوم ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree