وحدت نیوز (آرٹیکل) تاریخِ بشریت شاہد ہے کہ افراد، ممالک اور معاشروں کی طرح اقوام بھی زندگی اور موت سے دوچار ہوتی ہیں، شکست و ریخت کا سامنا کرتی ہیں، عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہیں، امارت و غربت کا ذائقہ چکھتی ہیں، عزّت و ذلت کو لمس کرتی ہیں اور فتح و شکست کی وادیوں سے گزرتی ہیں۔ چونکہ اقوام کے باہمی تعلقات بھی افراد، معاشروں اور ممالک کی طرح کے ہی ہوتے ہیں، چنانچہ اقوام بھی آپس میں مذاکرات، جنگیں، صلح، افکار کا تبادلہ، نظریات کا پروپیگنڈہ، تہذیبی یلغار اور ثقافتی جارحیت کرتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کسی ایک خاص معاشرے کو جنم دیتی ہے اور پھر قومی سطح کی تہذیبی و ثقافتی جنگیں معاشرتی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔ معاشرے کی حدود، اقوام و ممالک اور افراد کی نسبت وسیع و عریض ہونے کے باعث، معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی جنگوں کے اثرات بھی کئی گنا زیادہ وسیع پیمانے پر مرتّب ہوتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی تہذیبی و ثقافتی، نظریاتی اور فکری یلغار اتنی موثر اور غیر محسوس ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے بغیر اسلحہ اٹھائے اور ایک قطرہ خون گرائے ممالک کے جغرافیے، افراد کے دماغ اور اقوام کی قیادتیں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔

اگر ہم اتنے بڑے دعوے کے حق میں تاریخ کے قبرستان سے کوئی پرانا مردہ لانے کے بجائے، عصرِ حاضر کی کوئی زندہ و تابندہ گواہی پیش کرنا چاہیں تو وہ سرزمینِ پاکستان کی گواہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے خلاف معاشرتی سطح پر جو ثقافتی و فکری جنگ لڑی گئی، وہ اتنی غیر محسوس اور موثر تھی کہ چند سالوں کے اندر ہی افراد کے اذہان اس طرح تبدیل کئے گئے کہ لوگ باہم دست و گریباں ہوگئے، قوم میں فکری خلاء اس قدر پیدا کیا گیا کہ امت واحدہ کا نعرہ لگانے والے، پنجابی اور بنگالی، مہاجر اور مقامی کے نعرے لگانے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی افرادی قوّت تقسیم ہوگئی، ملّی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، نت نئی قیادتیں وجود میں آئیں اور پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہوگیا۔ یاد رہے کہ اتنی بڑی جنگ میں پاکستان کے کسی بھی دشمن ملک کی براہِ راست ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوئی، پیسہ خرچ ہوا پاکستانیوں کا، خون گرا پاکستانیوں کا اور ملک ٹوٹا پاکستان۔

آج ہر باشعور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اتنی بڑی اور کامیاب جنگ فوج کے ذریعے نہیں لڑی جاسکتی اور اس طرح کی اتنی بڑی تبدیلی بارود کے دھوئیں سے عمل میں نہیں آسکتی۔ اگر ہم اتنی بڑی تبدیلی کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ دوسرے افراد کے مال و اسباب کو لوٹنا چاہتے ہیں یا کسی دوسرے ملک پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں یا پھر کسی دوسری قوم کو شکست دینا چاہتے ہیں، وہ کسی مخصوص علاقے میں فوج اور اسلحہ جمع کرکے اپنے منصوبے کے مطابق پیش قدمی کرتے ہیں، لیکن جو لوگ بغیر کوئی نقصان اٹھائے، ایک ہی وقت میں کسی قوم کو شکست دے کر اس کے ملک پر اپنا تسلط جماکر اس کے مال و متاع کو لوٹنا چاہتے ہیں، وہ فوج اور اسلحہ جمع کرکے بارڈروں پر حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ غیر محسوس انداز میں لوگوں کے دماغوں پر فکری اور ثقافتی حملہ کرتے ہیں۔ اس لئے کہ جو لوگ فکری طور پر ہتھیار پھینک دیں اور میدان خالی چھوڑ دیں وہ عملی زندگی میں بھی ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور میدان خالی چھوڑ دیتے ہیں۔

جو لوگ عسکری طاقت اور فوجی لائو لشکر کے ساتھ دوسری اقوام پر شب خون مارتے ہیں اور دوسرے ممالک کو فتح کرنے کے چکر میں رہتے ہیں، وہ چنگیز خان، ہلاکو اور صدام کی طرح اپنے پیچھے غم ناک کہانیاں، دلخراش قصّے اور تباہی و بربادی کے صرف آثار چھوڑ جاتے ہیں، لیکن جو لوگ ممالک کے بجائے معاشروں کو مسخر کرنے کے لئے نکلتے ہیں، وہ اپنے پیچھے صرف اچھے یا برے اثرات نہیں چھوڑتے بلکہ اپنے افکار بھی چھوڑ جاتے ہیں، ان کے افکار وقت کے تندور میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں اور وقت آنے پر شعلہ بن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔ زمانے کی راکھ سے شعلہ بن کر بھڑکنے والے یہ افکار اگر مثبت ہوں تو سید قطب، موسیٰ صدر، بہشتی، چمران، مودودی اور اقبال کی طرح صدیوں پر محیط معاشروں کی اصلاح و تعمیر کرتے ہیں، لیکن اگر یہ افکار منفی ہوں تو میکیاولی،لاک اور لینن کی طرح معاشروں کی دنیا میں ایٹم بم کی طرح پھٹتے ہیں اور زلزلے کی طرح بربادی لاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ بشریت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قومی اور ملکی سطح پر بادشاہ اور سپہ سالار جنگیں لڑتے ہیں، لیکن معاشرتی محاذوں پر لڑائی صرف اور صرف علماء، فقہاء، صاحبان قلم، دانشمندوں اور مفکرین کے درمیان ہوتی ہے۔

اگر کوئی قوم اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر دوسری اقوام کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے، لیکن اس کا دامن صاحبانِ علم و اجتہاد اور اربابِ فکر و دانش سے خالی ہو تو ایسی قوم جیتنے کے باوجود ہارنے والوں کی طرح زندگی گزارتی ہے اور فتح پانے کے باوجود اپنے آپ کو شکست خوردہ اقوام کی صف میں پاتی ہے۔ لیکن اگر کسی قوم کا دامن اربابِ فکر و دانش سے پُر ہو اور اسے کوئی دوسری قوم تلوار اور طاقت کے زور سے شکست بھی دیدے تو ایسی قوم بہت جلد اپنی شکست کو فتح میں بدل کر اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتی ہے۔ جس قوم میں مفکرین اور صاحبان علم و اجتہاد ہوتے ہیں، وہی قوم آگے بڑھ کر دوسری اقوام کی قیادت کرتی ہے اور جس قوم میں صاحبان علم و دانش کی کمی ہوتی ہے، وہ دوسری اقوام کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی تقلید بلکہ اندھی تقلید کرتی ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک دنیاء اسلام میں علم و تحقیق کا دور دورہ رہا، معصومین کی بالواسطہ یا بلاواسطہ درسگاہوں سے کئی مکاتب کے امام، کئی علوم کے بانی اور کئی ایجادات کے موجد نکلتے رہے، لیکن جب دنیاء اسلام پر مسلط بادشاہت و ملوکیت نے علمی مراکز کے گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا، علماء کو بادشاہوں کے دروازوں پر جھکانے کی کوششیں کی جانے لگیں، فقہاء کے لئے شاہی دستر خوان سجنے لگے، شعراء، نوابوں کی شان میں قصیدے لکھنے لگے اور مورّخین شاہی حویلیوں سے وظیفے لینے لگے تو پھر عالمِ اسلام میں علمی و فکری زوال کی ایسی آندھیاں چلیں کہ امت مسلمہ کی شاندار تہذیب و ثقافت کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے میں مسلمان قوم سے اقوام کی رہبریت چھن گئی اور مسلمان بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ذلت و رسوائی کے صحرا میں خاک چھاننے لگے۔

وہی مسلمان جن کی درسگاہیں اقوامِ عالم کی علمی و سیاسی سربراہی کر رہی تھیں، اب دنیا بھر میں گدائی کا کشکول لئے پھرنے لگے اور پھر عالمِ اسلام پر ایسا وقت بھی آیا کہ عربستان کا مسلمان، عرب قومیت کے بت کو پوجنے لگا، ایران کے مسلمان نے شہنشاہیت کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا، افغانستان کا مسلمان اپنی انا کے خول کے اندر بند ہوگیا، ترکی کے مسلمان نے سیکولر اسٹیٹ کی عبا اوڑھ لی اور ہندوستان کا مسلمان، تاجِ برطانیہ کی ہوس کا نوالہ بن گیا۔ یعنی یہ وہ زمانہ تھا جب پورے عالمِ اسلام پر غیر مسلموں کی علمی، فکری، ثقافتی، سیاسی اور عسکری یلغار بغیر کسی مزاحمت کے جاری تھی، مغل اقتدار کو اس کے درباری دانشمند لے ڈوبے تھے اور خلافتِ عثمانیہ کے تابوت میں اتاترک نے آخری کیل ٹھونک دی تھی۔

اس وقت جب امتِ مسلمہ کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا تو کسی تاج محل نے عالمِ اسلام کے سر پر شفقت کا سایہ نہیں ڈالا، کسی نور جہان کے باغ نے عالمِ اسلام کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا، کسی بہادر شاہ کی بہادری ملتِ اسلامیہ کے کام نہیں آئی اور کسی شاہ جہان نے دم توڑتے اسلام کو اپنا خونِ جگر نہیں پلایا۔ جی ہاں! جب اسلامی ممالک پے در پے ٹوٹتے جا رہے تھے، مسلمان قوم مسلسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی چلی جا رہی تھی اور اسلامی معاشرہ رو بہ زوال تھا تو پھر جمال الدین افغانی، الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور علامہ محمد اقبال جیسے دانشمندوں نے ہی آگے بڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیا۔ ان مفکرین نے ایسے زمانے میں عالمِ اسلام کی خدمت کی، جب مدارس خانقاہوں میں تبدیل ہوچکے تھے، فکریں بک چکی تھیں اور قلم خرید لئے گئے تھے۔

امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے کی تعمیرِ نو اور اِحیا کے لئے فکری، علمی اور عملی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت علامہ محمداقبال کی ہے۔ ہم لوگ کہنے کو تو اقبال کے علمی و فکری وارث ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ ابھی تک فکرِ اقبال کی "الف ب" سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ اغیار اقوام، نسل در نسل اقبالیات پر تحقیق و تالیف و تراجم اور سیمینارز میں مشغول ہوکر مسلسل اقبال کے علمی و فکری سرچشمے سے سیراب ہو رہی ہیں جبکہ ہم نے آج تک اقبال کو صرف ایک شاعر سمجھ رکھا ہے، حتّٰی کہ اگر ہم اقبال پر کوئی مقالہ لکھنے یا تحقیق کرنے بیٹھتے بھی ہیں تو اقبال کے صرف چند اشعار کو جوڑ توڑ کر اپنی تحقیق یا مقالہ ختم کر دیتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فکرِ اقبال پر کام کر لیا ہے۔ حالانکہ اقبال کسی رومانوی شاعر کے بجائے ایک عملی مجاہد تھے، اسی لئے اقبال خود بھی خود کو فقط شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں آپ نے لکھا ہے: "میرا شعر کہنے کا مقصد ہرگز ادب برائے ادب نہیں کیونکہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ فنّی نزاکتوں کی طرف توجہ دوں۔ میرا مقصد صرف انقلابی افکار کو ظاہر کرنا ہے، چاہے آنے والے مجھے شاعر ہی نہ سمجھیں۔" ١

ہم اس مقالے میں حتّی المقدور امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں اقبال کے افکار کے ساتھ ساتھ اقبال کے عملی اقدامات کا بھی ذکر کریں گے۔ چونکہ ہمارے ہاں عمومی طور پر اقبال کو صرف ایک شاعر یا پاکستان کا قومی شاعر کہنے پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے، اقبال کو صرف شاعر کہنا اور سمجھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے شہید مطہری کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ بہت اچھے خطیب تھے، یا پھر حضرت امام خمینی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔۔۔ اقبال صرف شاعر نہیں تھے اور نہ ہی اقبال کی حقیقی شناخت شاعری ہے، جیسا کہ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک اور خط میں بھی آپ نے لکھا ہے: "آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتا اور شاعری کو کبھی بھی ایک فن کے طور پر نہیں لیا ہے۔" ٢

اقبال کی ساری زندگی، انتھک محنت اور استعمار کے خلاف جدّوجہد سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم فکرِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے تو ہمیں پہلے اقبال شناسی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ اقبال کی معرفت کے بغیر فکر اقبال کو سمجھنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی نابینا انسان کسی لمبے سفر پر نکل پڑے۔ اقبال کی معرفت لائبریریوں میں سجے ہوئے کتابوں کے ڈھیر پڑھنے سے یا پھر اقبال کے اشعار اکٹھے کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اقبال تو ایک مجاہد انسان ہے اور ایک مجاہد کی معرفت مجاہدین کی بزم سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ عصرِ حاضر میں اگر ہم کسی مردِ مجاہد کی زبانی اقبال کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای سے یہ معرفت حاصل کریں جو یہ فرماتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں: "من مریدِ اقبال ہستم"

اسی طرح ڈاکٹر علی شریعتی کی شہادت کے موقع پر جب کسی نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے یہ سوال کیا کہ کیا ڈاکٹر شریعتی کا اقبال یا سید جمال الدین افغانی اسد آبادی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ تو اسوقت انہوں نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ شریعتی نے نسلِ نو کی فرہنگ (تہذیب) کے مطابق اسلام کو منظرِ عام پر ضرور لایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شریعتی کا موازنہ اقبال اور سید جمال الدّین سے کرنے لگ جائیں، سید جمال الدین وہ شخصیت ہے، جس نے سب سے پہلے"اسلام کی طرف واپس پلٹنے" کے مسئلے کو اٹھایا، سید جمال الدّین نے جو کام کیا، اس سے دنیا میں تین فکری انقلاب آئے، ایک ہند میں، دوسرا مصر میں اور تیسرا ایران میں۔ اقبال نے بھی دو فکری انقلاب لائے، ایک مغربی تہذیب و ثقافت سے رہائی کا اور دوسرا خود اسلام کی یعنی مشرقی تہذیب و ثقافت کی طرف پلٹنے کا اور یہ وہ فکر ہے جو کئی سال بعد شریعتی جیسے لوگوں نے ایران میں عام کی، شریعتی جو اپنی "خودی" کی طرف پلٹنے کی بات کرتا ہے، یہ وہ بات ہے جو 1930ء میں اقبال نے شریعتی سے 40 سال پہلے ہندوستان میں کر دی تھی اور خودی کے اشعار کے ذریعے ایک ملت کو وجود دے دیا تھا، جو ملتِ پاکستان ہے۔ شریعتی خود کو اقبال کا شاگرد سمجھتے تھے، وہ لوگ جنہوں نے شریعتی کی زبانی اقبال کا ذکر سنا ہے، ان پر واضح ہے کہ شریعتی کا اقبال سے موازنہ ٹھیک نہیں ہے۔

 ٣اگر ہم سید علی خامنہ ای کے علاوہ کسی اور دانشمند کی زبانی اقبال فہمی کا مرحلہ طے کرنا چاہتے ہیں تو مولانا مودودی اقبال کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کی منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جب اس کی تہہ میں پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ ٤
اب آیئے شناختِ اقبال کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ فکرِ اقبال میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔

جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔ اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔


اب آیئے اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔
اقبال کے زمانے میں سیاسی و اجتماعی شعور کو کچلنے کے لئے استعمار سرگرمِ عمل تھا اور یہ مسئلہ فوری توجہ کا طالب تھا۔ لہذا اس مسئلے کو ہم سب سے پہلے بیان کر رہے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کا اپنی حقیقی شناخت اور خودی کو کھو دینا اور اس کا حل
اقبال کے زمانے میں استعمار کی سازشوں کے باعث مسلمانوں میں اجتماعی شعور کے فقدان کا مسئلہ اس قدر سنگین تھا کہ مسلمان اپنی خودی اور شناخت تک کھوتے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ بانگِ درا میں جوابِ شکوہ کے سترہویں بند میں اقبال کہتے ہیں:
شور ہے ہوگئے دینا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو!

اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مثال اس ماہی کی سی تھی، جو علم و حکمت کے سمندروں میں پلی بڑھی تھی، لیکن غفلت نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ جس سمندر کی طلب کر رہی ہے، خود اسی سمندر میں اب بھی غوطے کھا رہی ہے۔ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ علوم و فنون کے بحرِ بیکراں کی پروردہ ہونے کے باعث ہر لحاظ سے دوسری اقوام سے بے نیاز اور غنی ہونے کے باوجود بھٹکتی ہوئی پھر رہی تھی اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لئے دوسروں سے رہنمائی اور مدد کی طالب تھی۔ چنانچہ بالِ جبریل میں مسلمانوں کی غفلت کی تصویر اقبال نے ایک شعر میں کچھ یوں کھینچی ہے:
خضر کیونکر بتائے، کیا بتائے؟ اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے
اقبال نے امت کی حقیقی شناخت کھو جانے کا حل امت کی خودی کو زندہ کرنے میں ڈھونڈا ہے۔ اقبال کہتے ہیں:
خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات

اقبال جہاں خودی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، وہاں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کسی علاقائی، جغرافیائی یا لسانی خودی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امت کا ہر فرد مسلمان ہونے کے ناطے اپنی خودی اور شناخت کو زندہ کرے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے ٥
اقبال کے نزدیک ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مقام کو سمجھے اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینہء بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام ٦
اقبال نے صرف خودی کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خودی کو واپس لانے کے لئے آپ عملی فعالیت کے ذریعے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ فکرِ اقبال کے ساتھ جب ہم اقبال کی ذات کو رکھ کر دیکھتے ہیں تو ایک یہ بات سامنے آتی ہے کہ باصلاحیت اور دانشمند حضرات گوشوں میں بیٹھ کر صرف افکار کی کھچڑی تیار کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں اتریں اور قوم کی رہنمائی کریں۔

2۔ مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا حل
اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کے مظالم اور ہندووں کی سازشوں نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ہی غلام بنا کے رکھ دیا تھا، مسلمان اپنی آواز کو نہ ہی تو غاصب حکمرانوں کے سامنے بلند کرنے کا سلیقہ جانتے تھے اور نہ ہی ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے فکری و نظریاتی تربیت کا کوئی سلسلہ موجود تھا، چنانچہ اب اس مسئلے کے حل کے لئے اقبال نے خود اپنی سرپرستی میں 1934ء میں لاہور سے روزنامہ احسان کے نام سے ایک اخبار نکالا، جس میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی ترجمانی کی جاتی تھی اور جس کا اداریہ تک آپ خود لکھتے تھے اور اس اخبار میں نوجوانوں کی فکری و سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے آپ کے مضامین و نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ ٧
اس جراتِ اظہار کے باعث اقبال کہتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

مسلمانوں میں جراتِ اظہار اور فکری تربیت کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اقبال نے خود عملی طور پر میڈیا کے میدان میں قدم رکھا، ایک اخبار نکالا اور اس طرح مسلمانوں کو اقوامِ عالم کے درمیان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے مقام، اپنے دین اور اپنے جذبات کے اظہار کا ہنر سکھایا۔ آپ شاعری کی زبان میں "مسلمان" کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ تو جرات اور تڑپ کے ساتھ اپنی خودی، شناخت اور مقام کو آشکار کر، تاکہ تو اور تیری آئندہ نسلیں غیروں کی غلامی کو قبول نہ کریں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
اسی طرح امت کی فکری تربیت کے لئے اقبال نے بے شمار مضامین اور اشعار لکھے ہیں، ہم ان میں سے نمونے کے طور پر چند اشعار اس وقت پیش کر رہے ہیں:
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھو گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
کس طرح ہوا کند تیرا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک ٨

قوم کو فکری طور پر عقائد کی پاسداری کی ترغیب دینے کیلئے ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زُبوں
ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر ٩
اقبال اسی طرح پورے عالمِ اسلام کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے تھے، مثلاً فلسطین، طرابلس، کشمیر اور افغانستان کے بارے میں اقبال کا ایک ایک شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہے خاکِ فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا ١٠
اسی طرح 1912ء میں جنگِ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہونے والی فاطمہ کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں:
فاطمہ! تو آبرُوے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے١١
کشمیر کے بارے میں ارمغان حجاز میں اقبال فرماتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل
جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر١٢
افغانستان کے بارے میں بالِ جبریل میں لکھتے ہیں:
قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند ١٣

3۔ کسی متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا اور اس کا حل
اقبال، پورے عالم اسلام کے لئے ایک مرکز اور پلیٹ فارم کے خواہاں تھے آپ کے بقول:
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی ١٤
لیکن اس وقت بہت سارے لوگ لندن اور جنیوا کو اپنا قبلہ اور مرکز بنا چکے تھے، انھیں جو کچھ ادھر سے حکم ملتا تھا، وہ اسی کے سامنے سرخم کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال نے مسلمان قوم کو مخاطب کرکے کہا:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے ١٥
اقبال کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ آپ اس زمانے میں تہران کو ایک عالمی اسلامی مرکز کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس لئے آپ نے کرہ ارض کی تقدیر بدلنے کی خاطر اقوام مشرق کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ لندن اور جنیوا کے بجائے تہران کو اپنا مرکز بنائیں۔ جیسا کہ آپ ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے ١٦
آپ کے نزدیک خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے پاس ایک متحدہ پلیٹ فارم کا نہ ہونا تھا، آپ نے اس سلسلے میں لوگوں کو صرف اشعار اور نظمیں نہیں سنائیں بلکہ آپ نے ایک عالمی اسلامی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے ابتدائی طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے فعال کردار بھی ادا کیا اور اس طرح مسلم لیگ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم بنا دیا۔

4۔ ذمہ داری اٹھانے سے گریز کرنا
اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ امت مسلمہ کو جو مسئلہ درپیش تھا، وہ باشعور قیادت و رہبری کا فقدان تھا، جس کے باعث بعض تنگ نظر، کم فہم اور مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب لوگ، شعوری یا لاشعوری طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی دینی و ثقافتی روایات کو پامال کرنے میں غیروں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ جیسا کہ اقبال ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
فتنہء ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے! ١٧
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
یہ مصرعہ لکھ دیا

کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
نااہل رہبروں کی رہبری کے بارے میں ضربِ کلیم کے صفحہ 112 پر نفسیاتِ غلامی کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال کہتے ہیں:
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
ضربِ کلیم کے ہی صفحہ171 پر اقبال فرماتے ہیں:
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو وہ سجدہ
جس میں ہے ملّت کی زندگی کا پیغام
ذمہ داری سے گریز کرنے کے مسئلے کا حل اقبال کچھ اس طرح سے بتاتے ہیں:
خودی میں ڈوب زمانے سے ناامید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا توہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریکَ لہ
اقبال نے امت مسلمہ میں قیادت کے فقدان، خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں میں پائے جانے والے والے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے صرف نوحہ اور آہ و بکا نہیں کی، بلکہ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنی توان و صلاحیت کے مطابق نبھانے کے لئے مسلم لیگ کی صدارت کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ اسی طرح آپ نے 1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے شرکت بھی کی۔

5۔ باصلاحیت اور قابل افراد کی ناقدری اور اس کا حل
جو قومیں اپنے صاحبانِ فن کی قدر نہیں کرتیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسروں کے پیچھے چلتی ہیں اور دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کئے رکھتی ہیں، ایک تو ان کا دامن صاحبانِ فن و ایجاد سے خالی ہوجاتا ہے اور دوسرے وہ ہمیشہ سوالی بنی رہتی ہیں۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس وقت اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کا ایک مسئلہ باصلاحیت اور قابل افراد سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کا بھی تھا، جس کی وجہ سے کوئی ایسی قیادت بھی وجود میں نہیں آرہی تھی، جو انگریزوں اور ہندووں کی سیاسی یلغار کے سامنے ڈٹ سکے، اس کے لئے اقبال نے جہاں اشعار میں اس مسئلے کا حل بتایا ہے، وہیں جب امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت بیرسٹر محمد علی جناح میں دیکھی تو فوراً انھیں مسلم لیگ میں شمولیت اور قیادت کی دعوت دی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ محمد علی جناح کو اقبال کی بروقت فعالیت نے ہی قائد اعظم بنایا ہے۔ فکرِ اقبال کی روشنی اور قائدِ اعظم کی مسلم لیگ میں شمولیت کے سلسلے میں اقبال کی کاوشوں سے پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ امت غیروں کو اپنا رہبر و رہنما بنانے کے بجائے اپنے لائق، ذہین اور باصلاحیت افراد کو خدمت و قیادت کا موقع دے اور ان پر اعتماد کرے۔

6۔ مسلمانوں کے سامنے کسی واضح منزل کا نہ ہونا
اقبال کے نزدیک امتِ مسلمہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ خود مسلمانوں پر واضح نہیں تھا کہ وہ کیا کریں اور انہیں کیا کرنا چاہیے، اس کے لئے اقبال نے نہ ہی تو شاعروں کی طرح رومانوی ماحول ایجاد کیا، نہ فلاسفروں کی طرح اپنی تحریروں اور نہ گفتگو میں فلسفہ جھاڑ کر اپنی جان چھڑائی، نہ سیاستدانوں کی طرح دوہری باتیں کیں اور نہ مکاروں کی طرح پلورل ازم کا سہارا لیا، بلکہ اقبال نے صاف و شفاف الفاظ میں خطبہ اِلہ آباد میں ایک اسلامی ریاست کا واضح نقشہ پیش کیا۔

7۔ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا
اقبال کے نزدیک امت کی زبوں حالی کی ایک وجہ مسلمانوں کا استعماری سازشوں کے باعث اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کرنا بھی تھا۔ اس سلسلے میں اقبال یہ چاہتے تھے کہ مسلمان غیر مسلموں کی سازشوں میں آنے کے بجائے اپنی خبر لیں اور اپنے آپ کو پہچانیں۔ چنانچہ ضربِ کلیم میں آپ فرماتے ہیں:
افرنگ از خود بے خبرت کرد
وگرنہ اے بندہ مومن! تو بشیری، تو نذیری
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مضمون میں اس مسئلے کا ذکر بھی کیا ہے اور اس کا حل بھی وہیں پر لکھا ہے: "ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا، یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام نے ہی مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آپ اپنی نگاہیں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیّل سے متاثر ہوں تو آپ کی پراگندہ اور منتشر قوتیں ازسرِ نو جمع ہوجائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔" ١٨

8۔ مغربی تہذیب و ثقافت سے مسلمانوں کا مرعوب ہونا اور اس کا حل
انگریزوں نے مادی تسلط حاصل ہونے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو فکری طور پر بھی مغلوب کرنا شروع کر دیا تھا، اس کے لئے انھوں نے اپنی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے کھلوائے، کتابیں لکھوائیں اور اخبار نکلوائے۔ اس کے علاوہ کئی افراد کو یورپ لے جاکر وہاں ان کی مغربی فکری خطوط پر تربیت بھی کی، لیکن اقبال استعمار کی اس فکری یلغار کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے رہے اور آپ نے عملی طور پر یورپی فکری یلغار کا مقابلہ کیا۔ چنانچہ آپ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ ِ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِمدینہ و نجف
اسی طرح بالِ جبریل میں فرماتے ہیں:
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہء غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
یا پھر ضربِ کلیم میں اقبال ایک مسلمان سے جو گلہ کرتے ہیں، اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ١٩
افرنگی تہذیب و ثقافت سے مرعوبیت کا علاج اقبال نے ضربِ کلیم کے ص556 پر کچھ یوں بتایا ہے:
کل ساحلِ دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سَمِ افرنگ کا تریاق
اک نکتہ میرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برّندہ و صیقل زدہ و روشن و برّاق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
یعنی اقبال کے نزدیک سَمِ افرنگ کا تریاق یہ ہے کہ انسان مومن بنے، ورنہ وہ جب تک کافر یا کافر نما رہے گا، یورپ کی تہذیب کے طلسم میں کھو کر حیراں و سرگرداں ہی رہے گا۔

9۔ دینی مدارس اور علمائے کرام میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان
اقبال کو جو سب سے بڑی مشکل نظر آرہی تھی، وہ امتِ کی دینی قیادت یعنی علماء میں سیاسی و اجتماعی شعور کا فقدان تھا، ان کے نزدیک مدارس میں شاہین بچوں کو خاکبازی کا درس دیا جانا ملت کے ساتھ بہت بڑی خیانت تھی۔ اس لئے کہ انہی بچوں نے آگے چل کر ملت کی قیادت اور سیادت سنبھالنی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر علماء انگریزوں کی غلامی اور ہندووں کی بالا دستی کو دل و جان سے قبول کرچکے تھے۔ ایسے علماء کا خیال تھا کہ ہمیں مذہبی رسومات کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہندو اور انگریز ہمارے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں، اس لئے ہمیں ان کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان سے ہمکاری کرنی چاہیے، چنانچہ اس صورتحال پر رنجیدہ ہو کر ایک مقام پر اقبال فرماتے ہیں:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد! ٢٠
بانگِ درا میں شمع کے عنوان سے لکھی گئی ایک نظم میں اقبال علمائے کرام کے مصلحت آمیز رویّے، برہمنوں کی سازشوں اور کھوکھلی نمازوں کی منظر کشی کچھ یوں کرتے ہیں:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بَن ہوگئیں
سَطوَتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
اسی طرح ارمغانِ حجاز میں اقبال کہتے ہیں:
مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مئے خانہء صوفی کی مئے ناب ٢١
وہ ایسا دور تھا کہ بعض نام نہاد علماء حضرات نے استعمار کے اشارے پر مسلمانوں میں موجود عقابی روح کو مسخ کرنے کے لئے اسلامی افکار و نظریات اور عقائد کی تردید کرنی شروع کر دی تھی۔ چنانچہ اقبال طنزاً ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
ردِّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں
علماء سے اقبال کو یہ شکایت تھی کہ انھوں قوم کی قیادت و رہنمائی کرنے کے بجائے قوم کو مغربی افکار سے مرعوب کرنا، فرقہ وارانہ مباحث کو فروغ دینا اور عقیدتی و کلامی بحثوں کو چھیڑنا اپنا معمول بنا رکھا ہے، جبکہ ملّت دن بدن غلامی کے نشے میں مست ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید جو امت کی طاقت تھی، علماء نے اسے صرف علمِ کلام کا ایک مسئلہ بنا کے رکھ دیا ہے اور واعظین ِ قوم میں اتنی پختہ خیالی بھی نہیں ہے کہ وہ اِدھر اُدھر کی مصروفیات چھوڑ کے، اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدّن کو زندہ کرنے کی فکر کریں، وہ تعویز گنڈے، جادو کے توڑ، تجوید، روخوانی اور اذان و نماز سے آگے بڑھیں اور معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ چنانچہ بانگِ درا میں وہ کہتے ہیں:
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
علماء کی اس بے حسی اور کم فہمی کے علاج کے طور پر اقبال نے امت کو علماء کی بے حسی سے آگاہ کیا ہے۔

10۔ مسلمانوں میں علاقائی نیشنلزم کا فروغ
استعمار نے ہندوستانی مسلمانوں میں جب انقلاب اور آزادی کی تڑپ دیکھی، خصوصاً تحریکِ خلافت، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، تحریک ریشمی رومال، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے افکار وغیرہ تو اس وقت استعمار نے مسلمانوں میں اسلامی ملی وحدت کو توڑنے کے لئے علاقائی نیشنلزم کو فروغ دینا شروع کر دیا، مسلمانوں میں یہ طرز فکر رشد کرنے لگی تھی کہ ہم اصل میں ہندی ہیں اور اتفاق سے مسلمان بھی ہیں۔ چنانچہ اقبال اس نیشنلزم کے مقابلے میں قیام کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیّت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعِیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اسی طرح نیشنلزم کے بت کے پجاریوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی ٢٢
لیکن جب نام نہاد علماء کرام استعماری نیشنلزم کو منبروں سے فروغ دینے لگے تو ایک مرتبہ اقبال نام لینے پر مجبور ہوگئے اور آپ نے سرزمینِ دیوبند میں منبر سے نیشنلزم کی تبلیغ کرنے والے مولوی کو مخاطب کرکے کہا:
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
از دیوبند حسین احمد این چہ بو العجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملّت از وطن است
چہ بے خبر از مقامِ محمدِۖ عربی است
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بو لہبی است ٢٣

11۔ امت کے مسائل اور اقبال کی مناجات
عام طور پر اقبال کی ذات کے اس پہلو کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ اقبال ایک پکے موحد اور عاشقِ رسول تھے، چناچہ اقبال نے امت کے مسائل کو حل کرنے کا راستہ خدا اور رسولۖ کے ساتھ مناجات اور عشق میں ڈھونڈا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اقبال امت مسلمہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں کس طرح مناجات کرتے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے ٢٤
امتِ مسلمہ کی خاطر اقبالۖ بارگاہِ پیغمبرِ اسلام میں اس طرح گریہ و زاری کرتے ہیں۔
اے بادِ صبا! کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا
قبضے سے امّت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی ٢٥
اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدۖ سے اجالا کر دے
ایک نمونہ اور ملاحظہ فرمایئے:
حضورۖ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں ٢٦
ایک اور مقام پر یوں فرماتے ہیں:
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیۖ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خودبیں، خدا تیری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں ٢٧

نتیجہ:
عصرِ حاضر میں جب ایک مرتبہ پھر امتِ مسلمہ مغربی تہذیب و تمدّن سے مرعوب ہے اور اسلامی ممالک کے اکثر سیاسی و مذہبی رہنما اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر یہود و ہنود کی خوشامد کرنے میں مصروف ہیں تو ایسے میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم علامہ محمد اقبال کو اپنے معاشرے میں ویسے ہی متعارف کروائیں، جیسے کہ وہ تھے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم اقبال کے افکار کو ان کی عملی زندگی کے ہمراہ نسلِ نو میں منتقل کریں اور اقبال کے افکار کو عمل کے ترازو میں تول کر منظرِ عام پر لائیں، تاکہ ملت جلوہ دانش فرنگ سے مرعوب ہونے کے بجائے خاکِ مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائے۔

 

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (قم المقدس) یومِ اقبال کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم قم کے دفتر سے جاری کردہ اعلامئے کے مطابق ایم ڈبلیو ایم قم کےسیکریٹری اطلاعات آغانذرحافی نے کہا ہے کہ  پاکستان میں حکومتِ پاکستان کی سرپرستی میں افکار اقبال کے بجائے سعودی افکارونظریات کی ترویج و اشاعت کا کام زوروں پر ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور بونے میں سعودی افکار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اعلامئے میں سیکرٹری سیاسیات و ارتباطات عاشق حسین آئی آر نے کہا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ نواسہ رسول ﷺ کی عزاداری پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن نظریہ پاکستان کے دشمن کھلے عام  اپنے اجتماعات منعقد کررہے ہیں اوراپنے افکارو نظریات کی تبلیغ کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں اقبالیات کی جگہ سعودی نظریات و عقائد کو حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان  کھوکھلا ہوتاچلاجارہاہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) عزاداری یعنی امام حسین ؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کے بعد مشن کربلا کو زندہ رکھنے کا نام ہے۔تمام مذاہب میں مکتب تشیع کو ایک خاص اہمیت وبر تری حاصل ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں ہے اور وہ ہے عزاداری، جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے اور آکسیجن کے بغیر انسان یا کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح مکتب تشیع کی زندگی کا آکسیجن عزاداری امام حسین ؑ ہے۔ جب تک عزاداری امام حسین ؑ قائم ہے مکتب تشیع زندہ ہے اور کامیاب ہے۔عزاداری کو کیوں اتنی اہمیت حاصل ہے اُس کے لئے ہمیں فلسفہ عزاداری کو سمجھنا ہوگا ، مکتب تشیع میں عزاداری کے لئے محرم اور صفر کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں ہم فلسفہ قیام امام حسین اور شریعت محمد ی ؐ کا تزکرہ کرتے ہیں اور حقیقت اسلام کو، اسلام کے اصولوں کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں جس سے ہر سال ان دو مہینوں میں لوگوں کی تربیت ہوتی ہے لوگوں کو دین شناس بنادیا جاتا ہے۔

عزاداری کا مقصد و فلسفہ بہت وسیع ہے مجھ میں اتنی علم نہیں کی میں اس کو مکمل بیان کروں ،مگر جتنا میں سمجھ سکتا ہوں وہ میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں،عزاداری کے زریعے دین اسلام کو عام کرنا، ممبر رسول سے عزاداری کے زریعے شریعت محمدی ؐ کو عام کرنا، مقصد قتل حسین ؑ کو بیان کرنا، حلال و حرام کے احکام کو لوگوں تک پہنچا نا ہے۔

لیکن واقعہ کربلا کے بعد دشمن اسلام عزاداری سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ، بنی عباس کا دور ہو یا بنی امیہ کا دور، غرض ہر دور میں مکتب تشیع کو دبانے کی کوشش کی گئی اور ہر طرح کے ظلم و ستم ڈالے گئے اور عاشقان ولایت امامت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی مگر چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک نہ کوئی حکمران عزاداری کو ختم کر سکا اور نہ ہی مکتب تشیع کی تشہر کو رو ک سکا بلکہ جتنا ظلم بڑھتا گیا مکتب تشیع اتنا ہی مظبوط ہوتے چلے گئے۔
لیکن دشمنان اسلام آخر عزاداری سے خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ عزاداری کا نام سنتے ہی ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہے اور وہ اپنی تمام تر کوشش صرف کرتی ہے کہ کسی طرح عزاداری کو محدود کیا جائے، چار دیواری میں بند کیا جائے، اور عزاداروں کے درمیان خوف و ہراس کی فزاء کو قائم کیا جائے تاکہ عزادار ڈر جائے مگر پھر بھی دشمن ہمیشہ ناکام و نامراد رہ جاتا ہے اور ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھتا ہے۔

عزاداری کے زریعہ ہم ہر دور میں قیام امام حسین کو بیان کرتے ہیں کہ امام حسین ؑ کو آخر کربلا جانے کی نوبت کیوں پیش آئی، ہم اس وقت کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ،جب ہم اُس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمانہ کے حکمران اور ظالموں کا تذکرہ خود بہ خود شامل ہوجاتا ہے کیونکہ امام حسین ؑ نے جب دیکھا کہ شریعت محمدی ؐ کی پامالی ہو رہی ہے اور اسلام کے روشن چہرہ کو مسخ کیا جا رہا ہے تو فریضہ حج چھوڑ کر ظلم و جابر حکمران کے خلاف قیام کیا اور اسلام کو بچانے کے لئے اپنے تمام گھر والوں کی قربانی پیش کی۔اسی طرح جب بھی عزاداری کے زریعے ہم حق باطل کی بات کرتے ہیں تو باطل طاقتوں کو زلزلہ آجاتا ہے اُن کو عاشقان حسین ؑ سے خوف طاری ہو جاتا ہے کہ کہی حق کی آواز انھیں نیست و نابود نہ کردیں، اسی لئے ہر دور کے ظالم ،جابر اور یزید عزاداری سید الشہداء ؑ سے خوف رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ عزاداری محدود ہو مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والوں کو سیا سی ،سماجی اور معاشرتی طور پر کمزور کیا جائے مگر ہر زمانے میں ظالموں کی یہ صرف خواہش ہی رہی اور مکتب تشیع نے ہر دور میں وقت کے یزید و فرعون سے نبرآزما رہا اور ہزاروں مصائب جھیلی مگر حق کی آواز کو دبنے نہیں دیا۔

یہی وجہ ہے کہہ آج بھی حق اور مظلومین کی آواز بلند کرنے والا اور ہر فرعون و یزید کے سامنے ڈٹ جانے والا کوئی ہے تو وہ صرف عزاداران امام حسین ؑ ہے، اس وقت دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کوئی بات کرتا ہے اور ہر موڈ پر ٹکر لیتا ہے تو وہ سید علی خامنہ یٰ ہے، اسرائیل جیسے ناجایز اولاد کو جسے تمام عرب ممالک مل کر بھی شکست نہیں دی سکا مگر فرزند زہراء ؑ سید حسن نصراللہ نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے، اولاد یزید یعنی آل سعود کو اگر پے ددر پے شکست دے رہے ہیں تو وہ علی کے چاہنے والے یمن کے انصار اللہ کے جوان ہے جنہوں نے کم وسائل کے باوجود دہشت گردوں کے سر پرست بادشاہ کو شکست کی راہ دکھا رہا ہے، یہ ہے محبت اہلیبیت ؑ اور عزادداروں کی طاقت اور جس سے ساری دنیا خوف زدرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے حکمران بھی عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ تاریخ سے غافل ہے ،وہ مکتب تشیع اور عزاداری کی عظمت سے ناواقف ہے اُن کو نہیں معلوم کی عزاداری کو محدود کرنے یا روک نے سے کیا نقصان ہوگا، عزاداری کی مثال دریا کی طرح ہے، دریا کی خصوصیت ہے کہ جب بھی اُسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور جہاں جہاں سے گزر تا ہے تباہی پھیلا تا ہے،لیکن اگر دریا کو چلنے دیا جائے تو اپنے موجوں اور رفتار کے ساتھ اپنے منزل آخر کی طرف گامزن رہتا ہے اور اُسی وقت پُر سکون ہوتا ہے جب وہ سمندر کی سینے میں خوطہ زن ہوتا ہے، اسی طرح جس جس نے عزاداری کو روکنے کی کوشش کی اُسے تاریخ نے یزیدی کہا ہے اور جو عزادار ہے اُسے حسینی کا لقب ملا ہے، اور حسینی ؑ آج بھی زندہ و جاوید ہے اور تا امام زمانہ ؑ کی ظہور تک دریاکی طرح یہ عزاداری جاری و ساری رہے گی ور راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو رونتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گا۔


تحریر۔۔۔۔۔ناصررنگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب خطرات ومشكلات نے چاروں طرف سے گهیرا تنگ كر ديا ہو، ہر شخص ہر قوم  پر اور اسی طرح ہر ملک اور پوری دنيا پر طاغوتی قوتيں اور انكے مسلط كرده ظالم وجابر اور خود غرض افراد اپنا تسلط جمانے يا برقرار ركهنے كيلئے ہر قسم كے جائز وناجائز حربے استعمال كر رہے ہوں . جہالت وگمراہی كا يہ عالم ہو كہ اسلام كو اسلام كے ذريعے اور دين ومذہب كو دين ومذہب كے ذريعے ختم كيا جا رہا ہو تو ايسے ميں  يہ سوال جنم ليتا ہے كہ كيا كوئی راه نجات  يا وسيلہ نجات ہے ؟
اور اگر جواب ہاں يا مثبت ہو توپھر یہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وه كو نسا راستہ اور وسيلہ ہے؟
ہم نے اختصار سے جند سوالون كے جوابات خود مولا حضرت امام حسين عليه السلام  كي زباني نقل كرنے كي كوشش كي ہے اور منجی بشريت محسن انسانيت كی بارگاه ميں حاضر ہو كر عرض كرتے هين  كہ مولا آپ کے بارے ميں ہمارے خاتم الانبياء حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وآله وسلم  نے ارشاد فرمايا تها  "ان الحسین مصباح الہدی و سفینۃ النجاۃ " مولا سید الشہداء ہم آپ کے ماننے والے ہیں وقت کے یزید لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف شبہات پیدا کر رہے ہیں اے فرزند رسول اپنے جد نانا کی طرح ہماری رہنمائی فرمائیں۔
محترم قارئين جوابات خود مولا امام عالی مقام كے خطبوں اور فرامين سے اخذ كئے گئے ہیں تاكہ ہدايت كے اس چراغ سے نور و روشنی حاصل كی جا سكے.
س : مولا آج ہر شخص آپ كا شيعہ ہونے كا دعويدار ہے. اے فرزند رسول مقبول آپ كی نظر ميں كون شخص شيعہ كہلانے كاحقدار ہے؟
ج : " ہمارے شيعہ وه ہوتے ہیں جنكے دل ہر قسم كی ملاوٹ، كدورت اور دهوكہ بازی سے پاک ہوں".
س : مولا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ـ آپ اپنے انقلاب كے پيش نظر لوگوں كو كيسے ديکھ رہے ہیں.؟
ج : " لوگ دنيا كے غلام ہیں اور دين انكی زبانوں كا چربہ ہے اور جہاں تک ان کے دنياوی امور دين سے چلتے ہیں تواس وقت تک دين انكی زبانوں پر رہتا ہے . ليكن جب امتحان كی گھڑی آتی هے تو دين كا نام لينے والے بہت كم نظر آتے ہیں "
س :يابن رسول الله ہمارے لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں مولا آپ موت كو كس نگاه سے ديکھتے ہیں ؟
ج : "موت سے عشق حضرت آدم كے فرزند(حسينؑ) كو اتنا ہے كہ جتنا دوشيزه كو اپنی كلی كے گلوبند سے ہوتا ہے.  مجهے اپنے اسلاف (آباء واجداد) سے ملنے كا اتنا زياده شوق ہے جتنا حضرت يعقوب (عليہ السلام) كو (اپنے گمشده فرزند) حضرت يوسف (عليہ السلام) سے ملنے كا تها "
س : مولاآپ کے قیام کا مقصد کیا تھا؟
ج : " ميں نے نہ تو كسي غرور وتكبر كى بنا ﭘراور نہ ہی ظلم وفساد كيلئے خروج كيا ، بلكہ ميں نے تو اپنے نانا كی امت كی اصلاح كيلئے قيام كيا ہے. ميں نے چاہا كہ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كو زنده كروں . اور اپنے نانا جان اور اپنے بابا امير المومنين كی سيرت پر عمل پيرا ہوں"
س : يابن زهراء (عليها السلام) آپ کے انقلاب كے سامنے كون كون سے آپشن اور راستے تهے؟
ج : " كيا ايسا نہیں كہ مشكوک النسب كے مشكوک النسب بیٹے نے میرے سامنے دو راستے ركهے ہیں .ايک عزت كی موت مرنا اور دوسری ذلت كی زندگی جینا "
س " مولا تو پھر آپ نے كس راستے كو اختيار فرمايا تها ؟
ج : "هيهات منا الذلة ، ہم ذلت كو نفرين كرتے ہیں اور نہ اسے الله تبارك وتعالى پسند فرماتا ہے اور نہ الله كے رسول  صلى الله عليه وآله وسلم ، پاک وپاكيزه گود ميں پروان چڑھنے والے اور اہل  شرف ومروت والے مومن پست افراد كی اطاعت پر عزت وشرف كيساتھ شهيد ہونے كو ترجيح ديتے ہیں "
س :كيا آپ اتنا بڑا انحراف ديكھ رہے ہیں كہ آپ خود ميدان ميں اترنا چاہتے ہیں اور خواه اس قيام ميں خانواده رسول خدا  اور مخلص اصحاب كی قربانی دينا پڑے؟
ج : " كيا آپ نہیں دیکھ رہے كہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور نہ ہی باطل سے روكا جا رہا ہے . ايسے حالات ميں مؤمن كے دل ميں يہی خواہش جنم ليتى ہے كہ حق كی راه ميں فدا ہو كر حق مطلق(اپنے رب) كی ملاقات كرے. "
س : كيا عقل تسليم كرتی ہے كہ جگر چبانے والی ہندہ كا پوتا يزيد سيدۃ نساء العالمين كے فرزند حسينؑ يعنی مولاؑ آپ کو شہيد كرے ؟
ج : كيا تم نے سيرت انبياء ميں نہیں پڑھا كہ" دنيا لاپرواه ہے خدا وند تبارك وتعالی كے نبی حضرت يحی بن ذكريا عليہ السلام (كو مظلوميت كے ساتھ شہيد كيا گيا اور ان) كا سر اقدس بنی اسرائيل كے باغی وسركش حاكم كو پيش كيا گيا. (كيا آپ نہيں جانتے كہ) بنی اسرائيل طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان 70 انبياء كو قتل كرتے تهے اور پهر اپنی دكانوں اور كارباروں ميں اس طرح مصروف ہو جاتے تهے كہ گويا انہوں نے كوئی جرم ہی نہیں كيا . خدا نے بهی انكی اس سركشی ميں انہیں ڈھیل دی اور بعد ميں ان سے بهيانک انتقام ليا "


تحرير ۔۔۔ سيد شفقت حسين شيرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) بس اب محرم ختم ہوگیا؟ عاشورہ کے جلوس سے واپسی پر بیٹے نے باپ سے پوچھا

باپ۔۔۔ نہیں بیٹا ، ابھی محرم ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو سادات پر مظالم کی ابتداء ہوئی ہے

بیٹا۔۔۔ پھر لوگ واپس گھروں کو کیوں جارہے ہیں ؟

باپ۔۔۔ کیونکہ اب  جلوس عزا اختتام پذیر ہوگیا ہے نا

بیٹا۔۔۔ ہیں بابا یہ لوگ اتنی تعداد میں اس دن گھروں سے باہر کیوں آتے ہیں  گھر بیٹھ کے بھی تو رویا جا سکتا ہے؟

باپ۔۔۔ باہر آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اظہار غم کے ساتھ ساتھ  دنیا تک یہ پیغام بھی پہنچائیں کہ حسینؑ ابن علیؑ مظلوم تھے

بیٹا۔۔۔ مظلوم کیا ہوتا ہے ؟

باپ۔۔۔ مظلوم اس شخص کو کہا جاتاہے کہ جسے بغیر کسی جرم و خظاء کے قتل کیا جائے اس لیے امام حسینؑ کو مظلوم کہا جاتاہے

بیٹا۔۔۔امام حسینؑ کو کہاں او رکس نے مارا؟

باپ۔۔۔ یزید نے حسینؑ ابن علیؑ کو سرزمین کربلا میں بڑی بے دری سے شہید کیا

بیٹا۔۔۔ کیوں بابا کیا امامؑ کا یزید سے کوئی جھگڑا تھا؟

باپ۔۔۔ نہیں تو

بیٹا۔۔۔ تو پھر کیوں قتل کیا؟

باپ۔۔۔ وہ اس لیے کہامام  حسین ؑ لوگوں تک  اللہ کا پیغام پہنچاتے تھے

بیٹا۔۔۔ تو کیا یزید اللہ کو نہیں مانتا تھا ؟

باپ۔۔۔ یزید بھی اللہ کو مانتا تھا مگر صرف اپنے مفاد کی خاطر اور دین اسلام کے دائرے میں رہ کر نظام الہی کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا چاہتا تھا۔۔۔

بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ یزید ایک  مطلبی شخص تھا مگر یہ یزید تھا کون اور کہاں رہتا تھا؟

باپ۔۔۔ یزید شام کا حاکم تھا اور یہ معاویہ بن ابو سفیان کا بیٹا تھا

بیٹا۔۔۔ اسے حکومت کس نے دی ؟

باپ۔۔۔ اس کے باپ معاویہ نے اپنے بعد اسے حاکم بنایا

بیٹا۔۔۔ کیا اس کا باپ حاکم مقرر کرتے وقت اس کی برائیوں سے آگاہ نہیں تھا ؟

باپ۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ اس کا بیٹا شرابی ہے ، جوّا کھیلتا ہے کتّےو بندر بازہے پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا کیا

بیٹا۔۔۔ یعنی یزید بہت برا تھااور اس کا باپ بھی یہ جانتا تھا

باپ۔۔۔ بلکل اسی لیے تو تمام مسلم و غیر مسلم یزید سے نفرت اور امام حسینؑ سے محبت کرتے ہیں

بیٹا۔۔۔ جولوگ امام حسینؑ کی محبت میں روتے اور ماتم کرتے ہیں وہ کون ہیں ؟

باپ۔۔۔ انہیں شیعہ کہتے ہیں

بیٹا۔۔۔ کیا  شیعہ اللہ کو نہیں مانتے ؟

باپ۔۔۔ کیوں نہیں

بیٹا۔۔۔ تو پھر لوگ انہیں  کافر کیوں کہتے ہیں ؟

باپ۔۔۔ کیوں کہ کل کی طرح آج بھی شیعہ  یاحسینؑ یاحسینؑ کرتے ہیں جبکہ یزید و آل یزید   کو یہ شدید ناگوار گزرتا ہے اس لئے یزیدی پہلے نعوزباللہ امام حسینؑ کو باغی اور کافر کہتے تھے اور اب سارے مسلمانوں کو خواہ وہ شیعہ ہوں یاسنّی انہیں کافر کہتے ہیں۔

بیٹا۔۔۔ کیا آج بھی یزیدی موجود ہیں ؟

باپ۔۔۔ ہاں کیوں نہیں  آج یہ جو ہر طرف بدامنی و افراتفری کا دور دورا ہے ، بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کبھی مساجد میں نمازیوں کو مارتے ہیں تو کبھی امام باگاہوں میں عزداران حسینی کو کبھی بازاروں میں خون کی ہولی کھیلتے ہیں تو کبھی سکولوں میں معصوم بچوں کو بڑی بے رحمی سے موت کی نیند سلاتے ہیں ، یہ سب یزیدی  ہی تو ہیں۔

بیٹا۔۔۔ کیا ہم بھی حسینی بن سکتے ہیں ؟

باپ۔۔۔ جی ہاں کیوں نہیں،بشرطیکہ ہم یزیدیوں والے کام نہ کریں۔

بیٹا۔۔۔ یزیدیوں والے کام ؟؟

باپ۔۔۔ ہاں بیٹا  یزیدی ہمارے اور پورے عالمِ اسلام کے داخلی دشمن ہیں۔

بیٹا۔۔۔ داخلی دشمن؟

باپ۔۔۔ہاں داخلی دشمن ! ایسا دشمن  کہ جو کسی نظام و سسٹم کے اندر رہ کر اسی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے صدر اسلام سے لے کر آج 1437 ھ تک جتنا نقصان اسلام کو داخلی دشمن  نے پہنچایا ہے اتنا خارجی  دشمن نہیں پہنچا سکے۔ہمیں چاہیے کہ عاشورہ کے بعد ہم اپنے عمل سے اپنے حسینی ہونے کو ثابت کریں۔

بیٹا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ عاشورہ کے دن ماتم و عزاداری کے بعد ہماری ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں !

باپ۔۔۔ ہاں بیٹا بلکل ایساہی ہے ،عملی کام تو عاشورہ کے بعد شروع ہوتاہے۔

بیٹا۔۔۔گھر کی دہلیز سے اندر قدم رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔بابا کیا اچھے اچھے کام کرکےسب لوگ حسینی بن سکتے ہیں؟

باپ ۔۔۔ہاں،ضرور ،سب بن سکتے ہیں

بیٹا ۔۔۔کیا چھوٹے بچے بھی۔۔۔؟

باپ۔۔۔مسکراتے ہوئے،ہاں چھوٹے بچے بھی     

 

 


This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

تحریر۔ ساجد گوندل

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان مختلف مذاہب و مسالک کا ایک حسین گلدستہ ہے۔ پاکستان قائم بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے ہوا تھا اور آج بھی پاکستان کی بقا مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام اسلامی مسالک قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شیر و شکر ہو کر رہتے تھے، آپس میں رشتے ناطے کرتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے تھے۔ یہ فرقہ وارانہ اتحاد ہی تھا کہ جس نے برّصغیر کے مسلمانوں کو ایک ملت بنایا اور اس ملتِ مسلمہ نے اپنے لئے ایک الگ ملک  “پاکستان“ کے نام سے حاصل کیا۔ اگر مسلمانوں میں فرقہ وارانہ وحدت نہ ہوتی تو مسلمان ایک ملت نہ بنتے اور اگر ایک ملت بن کر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع نہ ہوتے تو کبھی بھی پاکستان نہ بنتا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دوسرے ممالک خصوصاً امریکہ اور سعودی عرب  کے مفاد کی خاطر پاکستان میں رفتہ رفتہ اسلامی مذاہب و مسالک کے درمیان بھائی چارے اور اخوّت کی فضا کو سبوتاژ کیا گیا۔ جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر کے پردے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو سرکاری سرپرستی میں منظّم انداز سے پھیلایا گیا۔

ہماری حکومتی ایجنسیاں فرقہ واریت کو بڑھکانے کے لئے ہر نہیج حرکت پر اتر آئیں، یہاں تک کہ ایک مخصوص فرقے کی طرف سے دوسرے مسلمانوں کو سرِعام کافر و مشرک کہا جانے لگا، دہشت گردی کی ٹریننگ معمولی سی بات بن گئی، مسجدوں میں نمازیوں کو شہید کیا جانے لگا، اولیائے کرام کے مزاروں کو کھلے عام شرک کے مراکز کہہ کر ان پر دھماکے کئے جانے لگے، سرِعام عید میلادالنّبیﷺ کے مقدس جلوسوں کو بدعت کہا جانے لگا، امام حسینؑ کا غم منانے کو گناہ کہا جانے لگا۔۔۔ مسلمان فرقے آپس میں لڑنا شروع ہوگئے اور سرکاری شیطان مزے سے تماشا دیکھنے لگے۔ جتنی فرقہ واریّت بڑھتی گئی، اتنے ہی سیکولر اور بے دین عناصر مضبوط ہوتے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ  مسلمان فرقوں میں دوریاں بڑھتی گئیں اور سیاسی شیطان آپس میں قریب آتے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیکولر اور سیاسی شیطان، باری باری اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، لیکن دینی پارٹیاں دور دور تک ملکر ایک اسلامی حکومت بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔

اسلامی مسالک کو کمزور کرنے کے لئے مسلمان فرقوں کو سرکاری سرپرستی میں ایک عرصے تک درپردہ لڑوایا جاتا رہا۔ عباد گاہیں جلتی رہیں، جلسے جلوسوں پر پتھراو ہوتا رہا، کافر کافر کا بازار گرم رہا اور لوگ اپنے مقتولین کے قتل کا ذمہ دار اپنے مخالف فرقوں کو قرار دیتے رہے۔ قتل و غارت کی خبریں چھپتی رہیں، ایف آئی آرز درج ہوتی رہیں، پولیس و فوج کی کارروائیاں دیکھنے میں آتی رہیں اور سیاسی و سرکاری شیطانوں کے نقشے کے مطابق مسلمانوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس دوران شہداء کا خون بھی رنگ لایا، مقتولین کے بچے بھی جوان ہوئے، انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بھی زور پکڑا، تجزیہ و تحلیل اور گفتگو کے دروازے کھلے، ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی اور پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت نے اصلی شیطانوں کو پہچاننا شروع کر دیا۔

آج 1437ھ کے محرم الحرام میں بھی وطنِ عزیز پاکستان میں فرقہ واریّت کو بڑھکانے کے لئے  سعودی عرب کی ایما پر بڑی بے دردی کے ساتھ نہتّے عزاداروں کا خون بہایا گیا ہے۔ یہ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ سانحہ مِنٰی کے باعث سعودی حکومت کی ساکھ کو سخت دھچکا لگا ہے اور اس وقت سعودی ریّالوں کی مرہونِ منت ہماری حکومت کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ سانحہ مِنٰی سے لوگوں کی توجہ ہٹائے، نیز سعودی  عرب کی طرح عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں پر ہم دو نکات کو عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارے حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ملت پاکستان اب سعودی بادشاہوں کے ایشوز پر قربان ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا کہ جب اس طرح کے واقعات کروا کر اسے فرقہ واریّت کا نام دیا جاتا تھا، اب لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کافر کافر کے نعروں، خودکش دھماکوں اور قتل و غارت میں سرکاری ایجنسیاں اپنے پٹھووں کو استعمال کر رہی ہیں اور یہ کوئی فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے۔

دوسری بات عزداری کو محدود کرنے کے حوالے سے ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہمارے حکمرانوں کو زمینی حقائق سامنے رکھنے چاہیئے۔ ریاستِ پاکستان، مملکتِ سعودی عرب کی طرح کسی ایک مخصوص فرقے کی لونڈی نہیں ہے کہ وہ فرقہ جسے چاہے کافر قرار دیدے اور جس کے مقدسات کو چاہے پامال کرتا پھرے۔ پاکستان تمام مسلمان فرقوں نے مل کر بنایا تھا اور اس میں تمام اسلامی فرقوں کو اپنے اپنے فرق و مذاہب کے مطابق، احترامِ باہمی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ یہاں کسی فرقے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ  کسی دوسرے اسلامی فرقے کو کافر کہے یا اس کی عبادات کی راہ میں حائل ہو یا اس کا خون مباح قرار دے۔ حتّیٰ کہ پاکستان میں بسنے والے غیر مسلموں کو بھی اسلامی قوانین کے مطابق مکمل آزادی حاصل ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب جیسی اسٹیٹ بنانے کے خواب دیکھنا دراصل پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے۔ پاکستان مختلف مذاہب و مسالک کا ایک حسین گلدستہ ہے۔ پاکستان قائم بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے ہوا تھا اور آج بھی پاکستان کی بقا مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد سے ہی ممکن ہے۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree