وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی زندگی کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی اور بڑھاپا۔ ان  تمام ادوار کا آپس میں ایک خاص رشتہ قائم ہے اور اس  اٹوٹ رشتے کے ذریعے یہ پانچ مراحل آپس میں جڑے ہوئے  ہیں۔ بنابرایں جسے بچپن میں صحیح تربیت ملے اس کا  لڑکپن کافی حد تک بہتر گزرتا ہے اور جس کا لڑکپن معاشرے کی کثافتوں کی نذر نہ ہو تب اس کی نوجوانی بھی بہتر گزر جاتی ہے۔ جو نوجوانی میں غلط سوسائٹی، برےمعاشرے،  برے گھرانہ اور برے مربّی سے محفوظ رہے اس کی جوانی ہوا و ہوس کے سیلاب میں غرق نہیں ہوتی اور جس کی جوانی تمام  آفتوں سے بچ کر گزر جائے اس کا بڑھاپا تو سنور ہی جاتا ہے۔

البتہ ان تمام مراحل میں   انسان کی اپنی ذاتی استعداد اور رجحانات کا بھی دخل  بھی  ضرورہے۔ بالخصوص اگر کوئی بچہ غیرمعمولی استعدادکاحامل  ہوتو اس کے رجحانات بھی منفرد قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت بچوں کو جب مطلوبہ وسائل مل جاتے ہیں تو جوان ہوکر وہ  نا صرف اپنی ذات کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو، بلکہ بسااوقات پورے علاقے اور ملک کو برائیوں اور مصیبتوں سے نجات دلاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے تربیت یافتہ افراد بڑے عرصے بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔  ایسے ہی افراد میں سے ایک منفرد  اور چمکدارستارہ حجۃ الاسلام و المسلمین غلام محمد فخرالدین قدس اللہ سرّہ بھی تھے۔

موصوف نے 22نومبر 1971ء کو قمراہ سکردو میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ آپ کے والد  حاجی مہدی مرحوم صوم و صلوۃ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ مداح اہل بیت علیھم السلام بھی تھے۔ علاوہ ازیں والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے  آپ کو ایک خاص شفقت و محبت نصیب ہوئی۔ لہذا آپ کی تربیت کے لیے بنیادی درسگاہ  بہترین گھرانہ قرار پائی۔  ابتدائی تعلیم  آپ نے اپنے  گاؤں قمراہ میں ہی  حاصل کی۔  اس دوران بھی آپ کو دیندار اساتذہ سے کسب فیض کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعد ازاں نوجوانی کے عالم میں جب آپ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے سکردو آئے تب آپ کو آئی  ایس او جیسا بہترین پلیٹ فارم ملا۔آپ نے نا صرف اس پلیٹ فارم کی بدولت اپنی ذات کو معاشرے کی آلودگیوں سے بچائے رکھا بلکہ اپنے ہم عمر دوستوں کو بھی اس پلیٹ فارم کی طرف راغب کرکے ان کی تربیت  کی اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھارنے  میں اہم کردار اداکیا۔

 ڈگری کالج سکردو سے ایف اے اور بی اے اچھے نمبروں سے پاس  کرنے کے بعد چونکہ آپ کو قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کے ساتھ ایک خاص شغف تھا لہذا آپ نے اپنے فن سخنوری کا لوہا بھی اسی دور میں ہی منوا یا۔

آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر علما کرام نے بھی آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے تحریک جعفریہ پاکستان کے مسؤلین کی توجہ کو بھی  اپنی طرف جذب کی۔ آپ نے اس ملکی سطح کی تنظیم میں خلوص نیت اور جذبہ ایمانی کے ساتھ حریم اہل بیت علیھم السلام کا بھرپور دفاع کیا۔

علوم محمد و آل محمد علیھم السلام سے آپ کی چاہت و بعض علما کے مفید مشوروں بالخصوص حجۃ الاسلام شیخ محمد حسن جعفری صاحب کی پدرانہ ہمدردی  کے باعث آپ  کوعُشّ آل محمد علیھم السلام  قم المقدّسہ میں جیّد علما کے محضر میں زانوئے تلمذتہہ کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔ حوزے کے اساتذہ کو جب آپ کی صلاحیتوں کا ادراک ہوا  تو انھوں نے بھی  آپ پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے  ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کیا۔ کم وقت میں آپ نے مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ سطحیات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آپ نے مختلف مراجع عظام کے درس خارج میں بھی بھرپور شرکت کی۔

آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک منفرد محقق بھی تھے۔ سیاسی تحلیل میں تو آپ اپنی مثال آپ تھے۔ جب آپ تحلیل کرنا شروع کرتے تھے تو جی کرتا تھا کہ سنتےہی رہیں، آپ حقائق کو الفاظ کا ایسا لبادہ پہناتے تھے کہ واقعیّت مجسم ہوکر سامنے آجاتی تھی۔ آپ ایک عالمی فکر کے حامل تھے۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کسی پرظلم ہوتا تو آپ بے چین ہوجاتے تھے۔

آپ نے منجی عالم بشریت امام زمان عجّل اللہ فرجہ الشریف سے خصوصی عقیدت کی بنا پر اپنے ایم فل تھیسسز کا موضوع ہی" احادیث تطبیقی مہدویت در صحاح ستہّ و کتب اربعہ" انتخاب کیا اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد ازاں آپ کی گوناگوں تبلیغاتی مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے قرآن و حدیث میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لی۔ آپ نے معینہ کلاسیں ختم کرنے کے بعد پی ایچ ڈی تھیسسز  " نقد و بررسی آراء قرآنیون در مورد قرآن و سنت " کے موضوع پر لکھا۔ تھیسز کے دفاع کا منظر دیدنی تھا۔ ہم نے خود اس  جلسہ دفاعیہ میں شرکت کی تھی۔ آپ ایسے علمی انداز سے اساتذہ کے اشکالات کا جواب دیتے تھے کہ مخاطب دنگ رہ جاتے تھے۔ وہاں اساتذہ نے بھی آپ کی شخصیت  کو ایک منفرد شخصیت اور تھیسسزکو بھی نہایت عمیق اور مفید قرار دیا اور کہا کہ ایسی تحقیقات بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

تھیسز میں آپ نے 98.75% نمبرلے کر تحقیقی دنیا میں پاکستان اور اسلام کانام روشن  کیا۔  علاوہ ازیں آپ کی مزید دو کتابیں بعنوان "مہدویت اور انسان کا مستقبل " اور "قرآنی زندگی" چھپ چکی ہیں۔بعض دوسری کتابیں بھی عنقریب چھپنے والی ہیں۔ ان میں سےایک اہم کتاب " ولایت فقیہ " ہے۔

آپ نے اپنی عمر کے آخری دو سال سرزمین قم المقدسہ میں  مجلس وحدت المسلمین کے سیکریڑی جنرل کے عنوان سے دینی خدمات انجام دیں ۔ بنابریں موصوف  ایک ایسی  شخصیت ہیں جس نے ہر پلیٹ فارم سے عالمِ اسلام کی خدمت ،رہبری اور فلاح و بہبود کے لئے کام کیاہے۔

آپ  گزشتہ تین سالوں سے مسلسل  تبلیغی سلسلے میں حج بیت اللہ سے مشرّف ہورہے تھے۔ اس سال بھی آپ اپنے خالق حقیقی سے لو لگانے گئے تھے۔ آخر کار اعمال حج کے بجاآوری کے دوران آل سعود کی نااہلی، عدم دقت، بے اعتنائی اور  بدنظمی  یاپھر سازش کے باعث  ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ  کو منیٰ کے مقام پر حالت احرام میں اجلے ملبوس میں  لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ اپنے حقیقی معشوق سے جا ملے۔

یوں ہم ایک عالم باعمل، محقق کم نظیر، خطیب توانا، پیکر تقویٰ، مدرس بے بدیل، تابناک ماضی، امید مستقبل، عالم بصیرو مبارز سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ آپ کے مقدس جسدِ مبارک کو مکہ میں ہی قبرستانِ مِنیٰ  میں سپرد خاک کردیا گیا۔

آخر میں خدا کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ائمہ معصومین علیھم السلام کے جوار میں جگہ عنایت کرے اور ہمیں ان کے مشن کو احسن طریقے سے جاری رکھنے کی توفیق دے۔


تحریر۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ( حوزہ علمیہ قم)

شام کے بدلتے حالات

وحدت نیوز(آرٹیکل)تاریخی ملک سوریا یعنی شام اس وقت آگ و خون کی لپیٹ میں ہیں سب جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ سے وہاں پر داعش یا isis or isil کے نام سے نام و نہاد اسلامی لبادہ اوڑے تکفیری دہشت گرد حکومت شام کے خلاف بر سر پیکار ہے جن کو ایک عالمی سازش کے تحت وجود میں لایا گیا اور دنیا بھر سے تکفیری سوچ کے حامل افراد کو اس میں شامل کیا گیا جس کے پیچھے عالمی طاقتیں خصوصا امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل،سعودیہ عربیہ اور ترکی پیش پیش ہیں۔ان دہشت گردوں کو وجود میں لانے کی ایک اہم وجہ اسرائیل کو پروٹیکشن دینا ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار اسلامی ممالک ان دہشت گردوں کے ساتھ مصروف رہے اور اس طرح اسرائیل خطے میں اپنی ایجاداری برقرار رکھ سکیں اور مسلہ فلسطین سے عالم اسلام کی نظریں ہٹ جائے اور فلسطین میں اسرائیل اپنے مر ضی سے اپنا غاصب حکومت کو مستحکم کر سکیں اس کے علاہ اقتصادی حوالے سے بھی عالمی طاقتوں کی مفادات شامل ہے ۔

بحرحال دہشت گرد تکفیری گروہ داعش اور دولت اسلامیہ جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور حقیقت میں یہ یہود و نصاری سے بھی بتر لوگ ہیں جو بے گناہ انسانوں کو چاہیے وہ شیعہ ہو یا سنی،عیسائی ہو یا کوئی اور جو بھی ان کے سامنے سر نہیں جھکا تا وہ ان کے سر تن سے جدا کرتے ہیں اور ان کے مال اسباب کو لوٹا جاتا ہے اور ان کے ناموس کی بے حرمتی کی جاتی ہے بلکہ بعض جگہوں پر باقاعدہ ان مظلوم خواتین اور بچوں کو سرعام کچھ پیسوں کے عوض فروخت کر دیے جاتے ہیں اور ان کو اپنے غلام بنایا جاتا ہے۔ان تمام مظالم اور سفا کیت کے باوجود بہت سارے اسلامی ممالک ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ان کو مالی معاونت سعودی عربیہ اور دیگر عرب ممالک کرتے ہیں ان کو اسلحہ اور تربیت امریکہ اور یورپی ممالک کرتے ہیں اور ان کا اصل مرکز ترکی میں قائم ہے جہاں سے یہ افراد آسانی سے شام اور عراق میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں پر بے گناہ مسلمانوں کے ساتھ خون کی حولی کھیلی جاتی ہے ۔ظاہری طور پر مغربی میڈیا نے شام کے صدر بشارلسد کو ظالم اور قابض قرار دیا ہے اور ان دہشت گردوں کو شام کی اپوزیشن جماعت کے طور پر پیش کی جارہی ہے کچھ اپوزش بھی ان دہشت گردوں کے ساتھ ضرور ہے مگر جس طرح مغربی میڈیا ان دہشت گردوں کو اپوزیشن اور اعتدال پسند باغی کے لبادہ میں پیش کیا جارہا ہے وہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔

ان کی فریب کاری اور دغلہ بازی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ایک طرف یہ ان دہشت گردوں کو ماڈرن ملیٹن کے نام سے تربیت، اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اچھے دہشت گرد ہے جو اپنے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں اوپر سے دنیا کو دیکھا نے کے لئے کہتے ہیں کہ ہم اصل داعش پر فضائی کاروائی کر رہے ہیں اور یہ کار وائی عرصہ سے جاری ہے جس سے کبھی دہشت گرد کم تو نہیں ہوئے البتہ مزید مظبوط اور طاقت ور ضرور ہوئے، کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام عراق دونوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پر ان دہشت گردوں کو فضاء سے اسلحہ اور بارود پھنکتے تھے تاکہ یہ جدید اسلحہ کے ساتھ حکومت سے لڑے، جس میں اب تک لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں مارے گئے لیکن دہشت گرد ختم ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا گیا۔

اب جب امریکہ اور اس کے حواریوں کے اصل چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو چکے تو شامی حکومت کے اتحادی یعنی ایران،روس اور دیگر ممالک نے ان دہشت گردوں کے صفائی کا حتمی فیصلہ کرلیا اور یوں اس جنگ میں ایران حزب اللہ اور روس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دہشت گردوں کو ہر محاز پر شکست دی۔

تقریبا تیس ستمبر سے روس نے شامی حکومت بشارالسد کی درخواست پر دہشت گرد گرو ہ داعش، آئی ایس النصرا اور دیگر دہشت گرد گروہ کے خلاف فضائی بحری کاروائی کی جس سے روس کے ایک رپورٹ کے مطابق اب تک چالیس فیصد دہشت گردوں کے ٹھیکانے تباہ ہوئے ہیں اور چار دن پہلے ایک ہزار کے قریب دہشت گردوں نے شامی حکومت کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیے ہیں اور اپنے آپ کو حکومت کے حوالے بھی کردیا ہے۔جو کہ شام اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑ ی فتح ہے۔

اب ساری دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا ڈنڈورا پیٹ نے والے امریکہ اور اس کے اتحادی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیوں کہ ان کے پالتو دہشت گرد جو ان کے اشارے پر جہاں چاہے ناحق خون بہاتے تھے اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی کو عام کرتے تھے اور فساد پھیلاتے تھے اب وہ میدان سے جان بچا کر فرار ہو رہے ہیں روس کے فضائی حملوں اور شامی اور حزب اللہ کے جوانوں کی زمینی کاروائی نے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے کمر بھی توڑ ڈالے ہیں۔دہشت گردوں سے دنیا کو خطرہ کہہ کر دنیا کو بے وقوف بنا نے والا امریکہ اب خود دہشت گردوں کو بچانے کے لئے میدان میں کود پڑے ہیں اور امریکی صدر اوبامہ نے براہ راست روسی صدر کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہے، بی بی سی کے ایک خبر کے مطابق شام کے علاقہ Hassakeh میں امریکہ کی C-17 ٹرانسپورٹ طیاروں نے پینتالیس ٹن اسلحہ دہشت گردوں کو پھنکا ہے، اب امریکہ سعودیہ اور اس کے اتحادی تمام تر کوشش کررہے ہیں کہ ان کے پالتو دہشت گردوں کی مدد کی جائے اور بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کو واپس میدان میں لایا جائے۔لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے ناپاک عزائم میں ناکام رہے ہیں ، ادھر شام اور اس کی اتحادیوں کی مسلسل کامیابیوں نے امریکہ کو پریشان کر دیا ہے اور انشاء اللہ دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں فتح شامی حکومت کی ہی ہوگی۔ لیکن یہ جنگ کس موڑ پر جاکر ختم ہوگا شائد ہے خود شامی حکومت اور عالمی طاقتوں کو بھی خبرنہ ہوگا مگر یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ اب جب دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کے امنے سامنے ہوگئے ہیں تو یہ جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوگی اور یہ کئی اور ممالک کو اپنے لپیٹ میں لیے سکتے ہیں۔

دوسری طرف ایک اور خطرہ ان ممالک کو بھی ہے جنہوں نے اس جنگ میں دہشت گردوں کی حمایت کی یا کسی زریعہ سے ان کی مدد کی کیونکہ اب شام میں دہشت گردوں کے خلاف گھیر ا تنگ ہو چکا ہے اور ادھر عراق میں بھی دہشت گردوں کو پے در پے شکست کا سامنا ہے اب ان صورتوں میں جن ملکوں سے یہ دہشت گرد گئے تھے اب یہ دہشت گرد واپس اپنے ملک لوٹنا چاہتے ہیں جو کہ خود یورپ سمیت دیگر ممالک کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے ، اور اسی خطرہ کے پیش نظر بہت سارے ممالک نے اپنے داخلی اور خارجی راستوں میں کڑی نگرانی شروع کی ہے تاکہ ان دہشت گردوں کے نقل و حمل پر نظر رکھی جا سکے۔

اسی طرح اگر ہم وطن عزیز پاکستان میں دیکھیں تو یہاں بھی داعش اور ان جیسے دہشت گردوں سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے جس کا عتراف خود حکومت نے بھی کی اور آرمی چیف جنرل راحیل اور دفتر خارجہ نے واضح الفاظ میں بیان دیا ہے کہ داعش اور ان جیسے دہشت گردوں کے سایہ کو بھی برداشت نہیں کرینگے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض عرب ممالک یا عالمی طاقتوں کی یہ خواہش ہو کہ وہ شام اور عراق کے بگوڑوں کو پاکستان میں موجود طالبان اور القاعدہ کے حمایتی افراد یا کلعدم جماعتیں پناہ دیں، جیسے اس سے پہلے طالبان کے بنانے کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت سب جانتے ہیں، یا کچھ اور خواہش ہو مگر اس وقت حکومت پاکستان اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے خصوصا پاک فوج نے جس عزم اور جزبہ سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے اور ملک عزیز پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے یہ کامیابیاں قابل تحسین ہے اور پوری قوم نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دیا ہے اور عوام کی خواہش بھی یہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں سے پاک ملک بنے اور ہمیں اپنے بہادر فوج پر اور ان کے سپہ سالار جنرل راحیل پر پورا یقین ہے کہ وہ پاکستان میں موجود تمام دہشت گردوں کا اور ان کے نظریاتی اور مالی مدد کرنے والوں کا خاتمہ کرینگے اور داعش جیسے دہشت گردوں کا سایہ بھی وطن عزیز پر پڑنے نہیں دینگے اور کسی عالمی مفادات کی خاطر پاکستان کو شام عراق بنے نہیں دینگے ۔


تحریر ۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) گھروں ،گلی کوچوں اور بلند و بلا عمارتوں پر لگے بڑے بڑے مختلف رنگوں کے چراغ ، وسیع و عریض و طولانی راستوں پر  ہیوی قسم کے نصب شدہ بلب ، اسی طرح بازاروں میں روشنیوں کا دلفریب سماں ، ہر طرف اجالا ہی اجالا، ان سب چیزوں نے آج ہماری دنیا سے آج  گویا اندھیرے کا وجود ہی مٹا دیا ہے، آج کے انسان کی رات، دن سے زیادہ روشن و رنگین نظر آتی ہے ،آج جس دور میں ہم زندگی بسر رہے ہیں اسے روشنیوں کا دور کہا گیا ہے یعنی انسان نے ترقی و تکامل کی دوڑ میں اندھیروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے فقط ظاہری روشنی و اجالے کو ہی نہیں بلکہ اس دور کے مہذب انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ آج اس نے انسانیت کو لاحق ہونے والے ہر  خطرے اورہراندھیرے و جہالت کو اپنے سے کوسوں دور کرلیا ہے اور ان اندھیروں سے بہت آگے نکل آیا ہے۔

 آج کثرت سے سکول، کالج و یونیورسٹیز کا قیام درحقیقت  ظلمت جہالت سے  نور علم کی طرف سفر ہے ، آج ظلم کی جگہ عدالت و انصاف ، غلامی کی بجائے آزادی اور آمریت پر جمہوریت کی برتری کا نعرہ  عام ہے ، بے رخی و بے اعتناعی کے بجائے لاکھوں فلاحی و سماجی نتظیمیں جذبہ انسانیت کے تحت کام کر رہی ہیں۔

 یہ سب انسان کے اسی دعویٰ رشد کا ثبوت ہیں ۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم یعنی ملت اسلامیہ اس نظریہ رشد انسانیت کے بانی ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب انسانیت جہالت و گمراہی کی دلدل میں اسقدر ڈرب چکی تھی کہ گویا اب اس کا باہر نکلنا محال تھا عین اسی وقت دین اسلام نے آکر ڈوبتی ہوئی انسانیت کو سہارا دیا اور اپنی آغوش محبت میں پروان چڑھایا ۔

 آج الحمدللہ ہم دین اسلام کے علمبردار ہیں مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ اسلام کہ جس نے صدیوں سے گمراہی میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے ہاتھ میں ہدایت کا چمکتا ہوا چراغ تھمایا اور تکامل کی راہوں پر گامزن کیا ، آج اس کا نقشہ ہی کچھ اور ہے دنیا کے کسی خطے میں بھی اگر کوئی قوم بدنظمی ، بے اعتدالی ،ظلم و بربریت کی شکار ہے تو وہ ملت اسلامیہ ہی ہے گویا آج ملت اسلامیہ میں روشنیوں کے باوجود اندھیروں کا راج ہے ۔

 ایسا کیوں ؟؟ اور کس لیے ؟؟

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اسلام کے آفاقی اصولوں سے منہ موڑ لیا ہے جبکہ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ کچھ نام نہاد گروہ و جماعتیں جن کا حقیقت میں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ملت اسلامیہ کی قیادت کر رہی ہیں اور اسلام کو اپنے مفاد و ذاتی اقتدار کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں نہ تو  یہ اسلام کی خیرخواہ ہیں اور نہ ہی انہیں اسلامی اقدار کا کچھ پاس ہے ۔

یہاں تک کہ اب یہ نام نہاد گروہ  سرعام اسلام کے اصولوں کی مخالفت کررہےہیں جبکہ ان کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ ظاہر میں اتنے مقدس ہیں کہ امت مسلمہ کے کسی فرد میں یہ ہمت نہیں کہ ان کی طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔ مثلا قرآن کہتاہے کہ اے نبیﷺ یہ لوگ تم سے حرام مہینوں میں جنگ کے بارے میں پوچھتے ہیں ، ان سے کہہ دو کہ حرام مہینوں میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے [1]،ایک طرف تو قرآن کا یہ صریح حکم ہےکہ حرام مہینوں میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے جبکہ علماء اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ حرام مہینے ماہ رجب ، ذیقعدہ ،ذی لحجہ و محرم ہیں اور یہ وہ مہینے ہیں کہ جن میں کفاّر بھی جنگ کو حرام سمجھتے تھے[2] ۔

 قرآن نے اس اصول کو متعدد دفعہ ذکر کیا ہے ایک جگہ یوں گویا ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ ہی ادب والے مہینوں کی [3] یہاں پر چند جملے خودایک  مفّسر [4] کے نقل کرتا ہوں :شعائر شعیرہ کی جمع ہے کہ جس کے معنی حرمات اللہ ہیں یعنی وہ چیزیں کہ جن کی تعظیم اللہ نے مقّرر کی ہے بعض کے نزدیک یہ شعائر عام ہیں [5] بجکہ بعض نے یہاں حج و عمرہ کے مناسک مراد لیے ہیں یعنی ان کی بے حرمتی و بے توقیری نہ کرو اسی طرح حج و عمرہ کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو کیونکہ یہ بھی بے حرمتی ہے [6] یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ محمد بن سلمان کا شہانہ طریقے سے رمی جمرات کے لیے آنا جو کہ سیرت رسول گرامیﷺ کے واضح خلاف ہے ، کیا یہ مناسک حج میں رکاوٹ نہیں ہے؟ کیا یہ حرکت ہزاروں بے گناہ حاجیوں کی ہلاکت کا سبب نہیں بنی؟ کیا یہ شعائراللہ کی توہین نہیں ہے ؟

 ابوالاعلی مودودی اس مطلب کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو کسی مسلک عقیدے یا طرز عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ شعائر کہلاتی ہے جیسے سرکاری جھنڈے فوجی یونیفارمز وغیرہ اسی طرح گرجا گھر و صلیب مسیحت کے شعائر ہیں ، کیس ، کڑے و کرپان سکھ مذہب کے شعائر ہیں ،ہتھوڑا و درانتی اشراکیت کے شعائرہیں یہ تمام شعائر اپنے اپنے پیروکاروں سے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص کسی مذہب کے شعائر کی توہین کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اصل میں اس نظام کا دشمن ہے اور اگر توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتاہو تو یہ کام اس کے ارتداد و بغاوت کے ہم معنی ہے[7]۔

اب ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ  آیا وہ مساجد کہ جنہیں اللہ نے تعظیم عطاء کی ہے  اور اولیاء کرام کے مزارات و عبادتگاہیں کہ  جو آل سعود نے شام و یمن میں گرائی ہیں یہ شعائر اللہ  ہیں یا نہیں ؟

کیا ان کا احترام واجب نہیں ہے ؟ اور خود خدا کے حرمت والے مہینے کہ جن کی حرمت کو آل سعود نے پامال کیا ہے اور مسلسل کررہے ہیں کیا ان کا یہ کام ان کے ارتاد و بغاوت پر دلالت نہیں کرتا ؟

یاد رہے کہ  قرآن  اسی قانون کو ایک اور مقام پر یوں بیان کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک کل بارہ مہینے ہیں اور چار ان میں سے حرمت والے ہیں اور یہی خدا کا صحیح نظام ہے ذلک الدّین القیّم یعنی یہی دین ہے اور تم لوگ ان مہینوں مین اپنے اوپر ظلم نہ کرو [8] حرف مفّسر تم لوگ اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو حرمت والے مہینوں میں قتال کرکے ،ان کی حرمت پامال کر کے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرکے [9]  ۔

مولانا مودودی صاحب یوں رقم طراز ہیں کہ ان ایّام میں بدامنی پھیلا کر تم اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور وہ چار مہینے یہ۔۔۔۔۔ ہیں[10] ۔

آج آل سعود نے خدا کے اس قانون کو کھلم کھلا توڑا ہے اور اس کا مذاق اڑایا ہے ،آل سعود نے خدا کے حرام مہینوں میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کر دی  ہے، خدا کی حرمت والے مہینوں میں  یمن پر االِ سعود کے حملے جاری ہیں ،کبھی ان کے ظلم کا شکار ایلان جیسا معصوم شامی بچہ ہوتا ہے  اورکبھی  یمن کے تین بھائی کہ جو شادی کے وقت ان کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں ۔

قابلِ ذکر با ت  تو یہ ہے کہ ان سارے سعودی مظالم پر  امت مسلمہ نے کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی مسلم میڈیا نے اس پر آواز اٹھائی ! جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ  سانحہ منیٰ بھی انہی کے شاہانہ پروٹوکول کی وجہ سے پیش آیا ہے اور  یہ حج کے انتظامات کو او آئی سی کے حوالے کرنے کے بجائے سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ انتظامات حج ہماری خود مختاری  اور استحقاق کا مسئلہ ہے مگر یہ بھول رہے ہیں کہ خانہ خدا اور مکہ پوری امت مسلمہ کا حرم ہے ،نہ کہ  آلِ سعود کی ذاتی جاگیر اور پھر خدا کی حدوں کو پامال کرنے والے اور الہی اصولوں کو سرعام جھٹلانے والے ہرگز اس کے اہل نہیں ہو سکتے ۔

تحریر۔ ساجد علی گوندل

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.


[1] سورہ بقرہ آیت 217 ۔ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر ۔ تفہیم القرآن ابوالاعلی مودودی

[2] تفہیم القرآن ابوالاعلی مودودی صفہ 192 ، القرآن القریم الشیخ صالح عبدالعزیز محمد آل سعود ترجمہ اردو

[3] سورہ مائدہ آیت 2 ۔یایھا الذین امنو لا تحلوا شعائراللہ ولا الشھر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الالقرآن الکریم الشیخ صالح عبدالزیز محمد آل سعود ترجمہ اردو صفہ 281 ، 282

[4] الشیخ الصالح عبدالعزیز محمد آل سعود

[5] یعنی خدا کی تمام نشانیاں

[6] القآن الکریم الشیخ الصالح عبدالعزیز محمد آلسعود صفہ 281

[7] تفہیم قرآن ابوالاعلی مودودی جلد 1 صفہ 248

[8] سورہ توبہ آیت 36 انّ عدّت الشھور عنداللہ اثناعشر شھرا فی کتب اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔منھا اربعت حرم ذلک الدین القیم  ۔ ترجمہ الشیخ الصالح عبدالعزیز آل سعود صفہ 519 و ابوالاعلی مودودی صفہ 192

[9] الشیخ الصالح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد آل سعود صفہ 519

[10] میہنوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے تفہیم القران  ابوالاعلی صفہ 192

وحدت نیوز (آرٹیکل) تمام چشمہ دید گواہوں اور پوری تحقیق کے بعدمذدلفہ سے لوگ طلوعِ فجر کے وقت منیٰ کے لئے روانہ ہوتے ہیں تاکہ جلد ازجلدرمی سے فارغ ہو کرقربانی کر سکیں۔اس دفعہ بھی ایسا ہوا اورجو لوگ قربان گاہ کو جانا چاہتے ہیں وہ لوگ کچھ پہلے ہی گروپ سے نکل جاتے ہیں تاکہ گروپ سے فارغ ہو تو فوری طور پر قربانی کر سکیں۔مذدلفہ سے منیٰ کے لئے کئی راستے ہیں جن میں سب سے مشہور طریق جوہرہ اور طریق سوق العرب سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس روڈ پر حکومتی انتظامات بھی بہتر ہوتے ہیں جو ہر قدم پر حجاج کو آگے جانے کا کہ رہے ہوتے ہیں اور کھڑے ہونے نہیں دیتے۔اس کے علاوہ بھی کچھ راستے ہیں جن سے بھی لوگ گزرتے ہیں،جن میں روڈ نمبر68 طریق ملک فہد اس راستے کا نام ہے جس پر سانحہ رونما ہوا ۔حاجیوں کے کارواں سالار وں کے اور گروپ لیڈرز کے مطابق اس روڈ پر تمام ممالک کے لوگ تھے اور انھوں نے اس راستے کا جایزہ لیاتو ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ اس روڈ پر حکومتی انتظامات دوسرے روڈ کی نسبت کم تھے اور یہ راستہ تھوڑا تنگ بھی تھا اور جس دن یہ سانحہ ہوا منیٰ کے جمرات والے حصہ کے قریب کنٹینرلگا کر روڈ کو مذید تنگ کیا گیا تھا۔جو لوگ حج پر جاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگ کس قدر بے صبری سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی ددران علامہ فخرالدین جن کا تعلق بلتستان سے ہے مشہور پی ایچ ڈی عالمِ دین و عالمِ باعمل ہے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس راستے پر چل نکلے یہ لوگ طریق سوق العرب روڈنمبر68 پر چلے گئے جس کی ایک وجہ دوسرے چند ایک ممالک کے حجاج بھی تھے۔آہستہ آہستہ جب یہ لوگ جمرات کی طرف جارہے تھے تو پلِ خالد کے قریب اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے راستہ تنگ ہو رہا ہے اور لوگ آگے کی طرف نہیں جارہے بلکہ رک گئے ہیں۔عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے تھوڑی ہی دیر میں راستہ کھل جاتا ہے اور لوگ پھر چل پڑتے ہیں۔مگر اس دن پولیس اور انتظامیہ وی آئی پی روڈ کو کلیرکرنے میں مصروف تھی ان کے گمان میں نہیں تھا کہ پیچھے کیا سانحہ ہونے والا ہے اچانک دوستوں نے قبلہ سے کہا یہاں سے کسی دوسرے راستے پر ہو جائیں حالات خراب لگ رہے ہیں۔مگر اس شوروغوغا میں قبلہ نے شاید بات کو نہیں سنا وہ جھنڈا ہاتھ میں لیئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے مگر اچانک حالات یکسر بدل گئے ،سامنے سے سپینگال اور نائیجیریا کے افریقی حجاج ایک دم واپس آنے لگے جس نے حالات کو مخدوش کر دیا تھوڑی ہی دیر میں ہجوم ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور پیچھے سے عوام کا سیلاب آگے بڑھتا جارہا تھا۔گروپ لیڈرز اور کاروان سالار کے مطابق اس روڈ پر کم ازکم آٹھ سے نو لاکھ افراد چل رہے تھے ،جیسے ہی رفتار بڑھا قبلہ نے نکلنے کی کوشش کی مگر تب تک بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی چاروں طرف سے رفتار بڑھا اور لوگ اس طرح ایک دوسرے میں پھنس چکے تھے کہ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جولوگ اطراف میں تھے وہ کسی نہ کسی طرح خیموں کے جنگلوں کو توڑ کریا پھلانگ کر اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے پھر موت نے اپنابھیانک کھیل شروع کردیا۔ادھر عرب کے تخت نشیں لوگ وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ گاڑھیوں میں بیٹھ کر شیطان کو کنکریاں مارکر چلے گئے تو دوسری طرف مہمان حجاج موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا رہے۔ہمارے ایک چشم دید دوست کاروان سالار حاجی نے کہا کہ کم ازکم آدھے کلومیٹر پر یہ سارا واقعہ رونما ہوا اور لوگ ایک دوسرے کوروندتے ہوے تہ در تہ گر رہے تھے اوپر سے گرمی بھی اپنے انتہا کو چھو رہی تھی۔

 

علامہ فخرالدین اس سانحے میں بلکل وسط کے قریب تھے جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔لوگ پھر ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھے۔پولیس نے افراتفری میں کچھ لاشوں کو اٹھایا مگر فوری امداد نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے بھی زیادہ اموات ہوئیں لوگ بہت ذیادہ تعداد میں کچلے گئے تھے اس لئے جو زخمی تھے انھیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جانے لگا اور لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر مردہ خانے بھیجا جانے لگا۔اور جو حاجی بچ سکتے تھے انھیں بھی بلڈوزروں کے ذریعہ اٹھا کر کنٹینروں میں پھینک کر موت کی نیند سلادی یہاں انسانیت کی توہین ہوتا رہا مہمانوں کے ساتھ خوب مہمان نوازی ہوتی رہی۔سب سے بڑا مردہ خانہ معیصم جمال طوری کے نام سے ہے جو مذدلفہ کے قریب ہے ۔خیر شام تک یہ خبر پھیل چکی تھی کی علامہ فخرالدین صاحب لاپتہ ہیں۔کاروان سالاروں کے مطابق12 ذی الحجہ کو جب منیٰ کے اعمال سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلے پاکستان ہاوس کا رخ کیا جہاں پرجوائنٹ سیکٹری جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی اور ٖفخرالدین صاحب کا نام کسی نے بھی گمشدہ افراد کے لسٹ میں نہیں لکھوایا تھا خیر ان کا نام بھی لکھوایا اور پھر شہیدوں کی تصاویر لیپ ٹاپ پر دیکھایا گیا جن میں قبلہ کی تصویر نہیں تھی دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے جن میں ایک خاتون بھی تھیں مگر پاکستانی عملہ سے خوب بحث و مباحثہ کے بعد 16یا17افراد پر مشتمل وفد تیار کیا اور مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر پاکستانی عملہ کے دو فرد کے ساتھ مردہ خانہ کا دورہ کیا وہاں پر دو بڑے حال فل تصاویر شہدا کے انتہائی دردناک تھیں تمام لاشیں جلی ہوئی تھیں جس پر سب حیران تھے شاید دھوپ کی شدت یا فریج کی وجہ سے مگر بہت خستہ حال لاشیں تھیں،بہت سے ناقابلِ شناخت تھے۔کچھ لاشوں کی پہچان ہوئیں اور لوگ روتے ہوئے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو وصول کرنے لگے۔یہ ایک پوری وفد کافی تلاش کے بعد وہاں سے سیدھا مستنفی النور کا دورہ کیا جو کہ بہت بڑا ہسپتال ہے وہاں جاکر بھی کافی تلاش کیا۔ایل سی ڈی پر زخمیوں اور شہیدوں کی تصاویر دکھائی گئیں مگر ان میں بھی قبلہ نہیں تھے،اس کے بعدملک عبدالعزیز گئے وہاں بھی نہیں ملے پھر اسی طرح دن گزرنے لگے طائف،جدہ،مکہ سب ہسپتالوں میں دیکھا گیا مگر قبلہ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ایک دفعہ پھر مردہ خانہ کا دورہ کیا جس میں حسین ولد نقی کی لاش برآمد ہوگئی اس شہید کے گلے میں نیلا لاکٹ تھا جس پر اس کا نام لکھا گیا تھا وہ تصویر میں نظر آرہا تھااور اس شہید نے قبلہ فخرالدین کا سامان اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور قبلہ کے بلکل ساتھ تھا۔حجاج کے مطابق بلتستان کے تمام حجاج وہاں جمع تھے خود ان کے ہمسر کے بھائی بھی وہاں موجود تھے وہ بھی اس بات کو مان گئے تھے کہ اب ان کا ملنا مشکل ہے۔کیونکہ جس طرح لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر سعودیہ کے مختلف شہروں میں بھیجا گیا اور کافی لاشوں کو مجھول الہویہ یعنی ناقابل شناخت یا جن کہ شناخت نہیں ہے کہ کر دفن کر دیا گیا تھا۔حجاج ساتھیوں کے مطابق قبلہ سے لوگوں نے کہا بھی تھا کہ گلے کا کارڈ پہن رکھیں مگر انھوں نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ضرورت نہیں ہے۔اس وفد نے تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یکم محرم تک انتظار کیا جائے شاید خدا کوئی معجزہ دکھا دے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس غمزدہ خاندان کو اور پسماندگان کو یکم محرم کے چاند کے ساتھ ہی صبر کی تلقین کریں اور اس درد کو بیان کر دیں شاید ثانیِ زہراؑ کے غم کو اور اپنے بھائی کے فراغ میں ان کے گریہ اور درد کو محسوس کرتے ہوئے یہ دکھی خاندان اور ملت صبر کرسکے۔۔۔

 

خصوصی رپورٹ۔تحریر۔۔۔محمد سعید اکبری

 

وحدت نیوز (آرٹیکل) احساس یعنی ایک نازک سا رشتہ ،ایک ایسی ڈور کہ جو تمام موجودات عالم کو نہایت خوبصورتی سے آپس میں جوڑے ہوئے ہے ۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ شائد کوئی اس کی تعریف تو نہ کر پائے مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کو دنیا سے اٹھا  لیا جائے تو نظام کائنات درہم برہم ہو کر رہ جائے ،نہ زمین خزائنِ عالم کو اپنے سینے میں سمائے ،نہ آسمان بطور سائباں جلوہ فگن ہو ، نہ ستاروں کی وہ مسکراہٹیں رہیں ، اور نہ ہی سورج کی وہ تپش ،نہ ہی چاند کا وہ حسن باقی ہواور  نہ ہی بلبل نغمہ سرا ہو۔ اگرچہ رشتہ احساس ،ہے تو ریشم کی طرح نرم و نازک  مگر باوجود نزاکت کے عالم ہستی کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے ۔فلسفے کی رو سے کائنات میں کل تین طرح کے وجود پائے جاتے ہیں ۔اور ان میں سے ایک کو ممکن الوجود سے تعبیر کیا جاتاہے ۔جبکہ ممکن الوجود ایک ایسا وسیع مفہوم ہے کہ جو کائنات کے تماموجودات (سوائے وجود واجب و ممتنع )سب کو شامل ہے جبکہ کائنات کے تمام موجودات میں سے سب سے اشرف و اعلی موجود حضرت انسان ہے کہ جس کی خلقت پر خود اخداوندمتعال نے ناز کرتے ہوئے کہا ہے کہ  ولقد خلقناالانسان فی احسن تقویم   

اور اسی طرح اگر اس اشرف المخلوخات موجود یعنی انسان کی زندگی سے رشتہ احساس کو نکال دیا جائے تو گویا یہ انسانیت سے زندگی چھیننےکے مترادف ہوگا ۔اسی افضل و اکرم مخلوق (انسان) کی زندگی میں اللہ تعالی نے بے شمار نعمات رکھی ہیں اس قدر  کہ ان کا شمار کرنا ممکن نہیں  ،بزبان قرآن ان تعدو اونعمت اللہ لا تحصوھا

خداوند کی ان نعمات میں سے ایک نعمت،نعمت عید ہے ۔لفظ عید عود مصدر سےہےکہ جس کے معنی بار بار آنے کے ہیں یعنی کسی چیز کا باربا ر آنا ۔عید اصل میں احساس انسانیت ہی کا دوسرا نام ہے خداوند متعال نے اس خاص احساس کو عید کا نام اس لیے دیا تاکہ یہ احساس بار بار انسان کی زندگی میں آئے،اور وہ فرائض و ذمہ داریاں کہ جو غفلت انسانی کی نذر ہو گیں یا پھر جان بوجھ کر انسان نے ان سے منہ موڑلیا ہے۔  ان کو  یاد دلائے ۔عید چاہئے عید فطر ہو یا قربان ہر دو صورت میں انسان کو اس کے فراموش کردہ احساسات  کی یاد دلاتی ہے ۔چاہئے وہ احساس و ذمہ داری فردی ہو یا معاشرتی !

آج کا انسان مادیت میں کچھ اس طرح غرق ہو چکا ہے کہ مال، دولت و شہرت طلبی کی ہوس نے اسے  اپنے بھی بھلا رکھے ہیں ۔لہذا عید کا بار بار انسانی زندگی میں لوٹ کر آنا  ،اسے اپنوں کی یاد  دلاتی  ہے،اس میں ایک نیا احساس پیدا کرتی ہے ۔اپنے  بھلائے ہوئے ہمسائے کا  احساس ، اپنےمحلے کے یتیموں کا احساس ، اپنے اردگرد بہت سارے ضرورت مندوں کا احساس ، اس معصوم بچی کا احساس کہ جو معاشرے کی ایجاد کردہ لعنت جہیز کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹی ہے ۔

غریب کے ان بچوں کا احساس کہ جو رات کو بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں ، اپنے اس نادار بھائی کا احساس کہ جس کے گھر عید پہ بھی دال بنتی ہے۔لہذا عید  اپنوں  اور غیروں کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے ، عید ملک قوم کی فلاح و بہبود  میں اپنا فردی و اجتماعی حصہ ڈالنے کا نام ہے ۔ عید فقط سیر و تفریح کا دن نہیں بلکہ عید وہ دن ہے کہ جس دن ہم  ذلت سے نکل کر عزت کا  راستہ  اختیار کریں ۔ عید کا دن اپنوں ،اپنے وطن، اپنی افواج پاکستان سے قریب ہونے و اپنے دشمن امریکہ ، اسرائیل و  آلسعود فکر کے حامل  طالبان (کہ جو اسلام کےاصلی چہرے  و اسلام ناب محمدیﷺ کو مسخ کرنے کی  کوشش کررہے ہیں )سے بیزاری کا دن ہے ۔ لہذا عید کے دن انسان ترقی و تکامل کی  طرف سفر  شروع کرے نہ کہ اس باعظمت دن خدا کی حدود کو پامال کیا جائے ۔

جیساکہ حضرت علیؑ کا ارشاد گرامی ہے کہ   ( انسان کے لیے ہر وہ دن عید کا دن ہے کہ جس دن وہ نافرمانی خدا سے دور رہے)

لہذا آج انسانی دنیا میں احساس ایک متروک  اور فراموش شدہ مفہوم ہے کہ جسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے  تاکہ  معاشرے کی وہ ذمہ داریاں ،ضروریات اور انسانی احساسات کہ جنہیں آج معاشرے نے اپنے قدموں تلے روند دیا ہے  انھیں دوبارہ زندہ کیاجاسکے  اور نتیجتا معاشرے کی  تمام برائیوں کا سدباب ہو سکے۔     المختصر یہ کہ  انسانی  تمدّن میں مرتے ہوئے انسانی جذبات و احساسات کو زندہ کرکے           امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بطریقِ احسن انجام دیاجاسکتا ہے او دکھاوے کے مصافحے و معانقے  کے بجائے حقیقی طور پر دم توڑتے رشتوں کو پھر سے جوڑا جاسکتاہے۔

 

 


تحریر۔ ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) دوسرے لوگوں کو سعودی عرب سے محبت شاید دین کی وجہ سے ہو لیکن میری طرح بہت سارے لوگوں کو سعودی خاندان  سے محبت ان کی  شان و شوکت کی وجہ سے ہے۔ماشاللہ ،کیسے کیسے محل تعمیر کرواتے ہیں،کیسی کیسی بلڈنگیں بنواتے ہیں،کیسا نفیس لباس پہنتے ہیں اور ۔۔۔

ویسے بھی دین کے حوالے سے میری  طرح بہت سارے لوگوں کی معلومات بہت کم ہیں،اتنی کم کہ ہم لوگ  جتنی بھی بحث کر لیں کسی مسلمان کو کا فر ثابت نہیں کرسکتے،کسی مومن کے قتل کا فتویٰ صادر نہیں کرسکتے اور کہیں پر بے گناہوں کے ہجوم میں خود کش دھماکہ کرکے جنّت میں جانے کے خواب نہیں دیکھ سکتے۔

البتہ پتہ نہیں کہ کیوں ، جتنی میرے جیسے لوگوں کی  دینی معلومات کم ہوتی  ہیں اتنی ہی ہماری سعودی عرب  کے شاہزادوں سے محبت  اور عقیدت زیادہ  ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ  لوگوں نے  ہمارے دماغ میں صرف ایک بات بٹھائی ہوئی ہے کہ دین ،سعودی عرب سے پھیلاہے لہذا وہاں جو کچھ ہورہاہے وہی دین ہے۔

بس یہی بات آج تک میرے جیسے لوگوں کی  گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور ہمیں  سعودی خاندان کی تمام حرکات و سکنات میں اسلام کے علاوہ کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔

جب لوگ سعودی عرب پر اعتراض کرتے ہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں صرف سعودی خاندان کی خامیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں ان کی خوبیاں بھی تو بیان کرو۔

 مثلاً:۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ آلِ سعود نے جنت البقیع کوبدعت کا مرکز کہہ کر مسمار کروا دیا۔۔۔

میں کہتا ہوں دوستو! آلِ سعود نےجن شاندار سنّتوں کا احیا کیا ہے ان کا بھی تو ذکر کرو،ماشااللہ کیسے کیسے فائیو اور سیون سٹار ہوٹل تعمیر کر کے کی سنّتیں ادا کی گئی ہیں۔[سب ملکر بولو سبحان اللہ]

لوگ کہتے ہیں کہ آلِ سعود  کسی خاندان یا شخصیت کے خصوصی احترام کے قائل نہیں اس لئے مزارِ پیغمبرﷺ کی جالیوں کو چومنے نہیں دیتے۔۔۔

میں کہتا ہوں کہ یہ تو صرف پروپیگنڈہ ہے ابھی اسی سال تو حج کے موقع پر آلِ سعود نے ایک شہزادے کےخصوصی احترام کی خاطر تقریباً پانچ ہزار حاجیوں کو قربان کردیا ہےلیکن پھر بھی ہمارے ہاں کے لوگ ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ کسی کےخصوصی احترام کے قائل نہیں ہیں۔[سب ملکر بولو سبحان اللہ]

ہاں! حج سے ایک بات مجھے یاد آئی کہ ان دنوں لوگ حج سے واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔یہ آنے والے بھی سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پانچ ہزار حاجیوں کے قتل کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔

میں دیکھ رہاہوں کہ اس وقت سعودی عرب کے جانثار ،حاجیوں  کے مقابلے میں پوری طرح میدان میں اترے ہوئے ہیں۔وہ اپنے لولے لنگڑے  دلائل کے ساتھ سعودی خاندان کا دفاع کررہے ہیں اورمیں بھی  چاہتاہوں کہ میں بھی اس مشکل وقت میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کی مدد کروں اور اس طرح میں بھی سعودی عرب کے جانثاروں میں شامل ہوجاوں۔۔۔[سب ملکر بولو سبحان اللہ]

لیکن اب مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میں سعودی خاندان کا جانثار کیسے بنوں؟

کیا حج سے واپس آنے والے حاجیوں کو  سعودی عرب کے خلاف بولنے پرکافرو مشرک قرار دے دوں!؟

کیا شہید ہوجانے  والے کسی حاجی کی روتی ہوئی ماں کو جہادی غنڈوں سے دھمکیاں دلواوں!؟

کیا شاہی شہزادے کے پروٹوکول کی بھینٹ چڑھنے والے کسی شہید کے یتیموں کو ایران کے ایجنٹ کہہ دوں!؟

کیا شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات کے عینی شاہدوں کو مرتد کہہ کر ان کی گواہیوں کو مسترد کردوں؟

کیا شہید حجّاج  کے فراق میں بین کرنے والی  ماوں ،بہنوں اور بیٹیوں کو طالبانی ڈاکووں کے خود کش حملوں اور کوڑوں سے ڈراوں!؟

کیا اس موضوع کو اٹھانے والے  لکھاریوں،ٹی وی چینلز اور خبارات کو قانون کے شکنجے سے دھمکاوں۔۔۔

لیکن !!!یہ سب کچھ تو سعودی جانثار اس وقت کررہے ہیں۔۔۔اس کے باوجود شہیدوں کا خون چھپنے نہیں پارہا اور مظلوموں کے بین قصرِ شاہی کو ہلا رہے ہیں۔

اگرچہ ہمارے ملک میں سعودی جانثار بے شمار ہیں اور سعودی لابی بہت مضبوط ہے اور ہماری حکومت بھی اگرچہ اپنے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں آلِ سعود کی جان نثار ہی ہے تاہم پھر بھی پاکستانی ہونے کے ناطے ہم اپنی حکومت سے یہ اپیل کرنا اپنا  پیدائشی حق سمجھتے ہیں کہ بیت اللہ کے انتظامات کو او آئی سی کے حوالے کر نے کے لئے ہماری حکومت بھی  مضبوط آواز اٹھائے۔ورنہ یہ بے لگام بادشاہ اور بے عقل شاہزادے اسی طرح اسلامی و انسانی اقدار کو روندتے رہیں گے۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree