وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر منصف اور ذی شعور شخص جو مشرق وسطٰى كے حالات سے باخبر رہتا ہے، وه اچھی طرح جانتا ہے كہ يہ وحشيانہ جنگ جو سوريہ پر مسلط كی گئی، اس كے مقاصد كيا تھے۔؟ سوریہ كا قصور يہ ہے كہ وه حقيقی معنوں ميں ايک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اقتصادی، سياسی، امن و امان اور اجتماعی لحاظ سے مضبوط ملک تها اور اسرائيل كی آنکھوں كا كانٹا تها، كيونكہ وه كهل كر لبنان اور فلسطين كی آزادی كے لئے اٹھنے والى تحريكوں اور مقاومت و انتفاضہ كی بهرپور حمايت كرتا تها۔ امريكہ جو پوری دنيا پر مسلط ہونے كے لئے ہمیشہ كوشاں رہتا ہے، اسے يہ بات ہرگز گوارا نہیں تھی، کیونکہ وه ہمیشہ دوسرے ممالک و اقوام كو اپنا غلام بنانے، اسٹریٹیجک نقاط پر قبضہ جمانے اور ثروت لوٹنے كے درپے رہتا ہے۔ ان اہداف كے حصول كے لئے وه ايک عرصے سے مسلم ممالک كو اسلام كے نام پر تباه و برباد كرنے كی پاليسی پر عمل كر رہا ہے۔ وه اس خطے سے اسكی شناخت، پہچان اور اجتماعی و ثقافتی اصول سلب كر لينا چاہتا ہے، تاكہ نہ انكا ماضی رہے اور نہ مستقبل۔ اس مكروه سازش كی تكميل ميں متشدد اسلامی جماعتيں اور ممالک اسكی خدمت كر رہے ہیں۔ وه اس خطے ميں دينی، مذہبی، قومی اور قبائلی اختلافات كو جنم دے رہے ہیں، مسلمانوں كی باہمی وحدت كو پارہ پارہ اور انہیں كمزور كر رہے ہیں۔

خطے ميں امريكہ كے خلفاء:
يہ بات روز روشن كی طرح عياں ہے كہ اسرائيل، تركی، سعودی عرب خطے ميں امريكا كے قريبی دوست اور حليف ہیں اور دوسری جانب امريكن آفيشلز كے اعترافات كے مطابق وہابی اور تكفيری قوتيں ہیں جو كہ امريكی و مغربی منصوبوں پر عمل پيرا ہیں اور خطے كے ممالک كا قومی استقلال اور امن و استقرار تباه كرنے كيلئے اور عوام كو دهوكہ دينے كيلئے مندرجہ ذيل تين حربے استعمال كر رہے ہیں۔
1۔ ڈیموکریسی اور جمہوريت كی بحالی
2۔ حريت اور آزادی
3۔ دينی اقدار كا احياء اور خلافت اسلامی كا قيام
حالانكہ جو ممالک جمہوريت اور ڈيموكريسی كی بحالی كيلئے ميدان ميں اترے ہوئے ہیں، وه خود رجرڈ، جاہل اور ظالم ہیں۔ انكے اپنے ممالک ميں جمہوريت اور ڈیموکریسی نہیں اور دوسروں كے لئے جس آزادی اور جن حقوق كی بات كرتے ہیں، لیکن ان ممالک كی اپنی عوام بھیانک غلامی كے شكنجوں ميں جکڑی ہوئی ہے اور جتنی اسلامی اقدار كی پامالی، دينی تعليمات كا استہزاء اور بدنامی ان متشدد اسلامی جماعتوں اور تكفيری دہشتگردوں نے كی ہے، اسكی تاريخ ميں كوئی مثال نہیں ملتی۔

روس اور چین نے شام كی مدد کیوں کی؟؟
روس اور چین اچھی طرح جانتے ہیں كہ امريكا اپنے ان خلفاء كے ساتھ ملكر اگلے مرحلے ميں ان کے لئے مسائل پيدا كرے گا۔ اس لئے انہوں نے ہر ميدان ميں شام كا ساتھ ديا ہے۔ جب بهی امريكہ اور اسكے خلفاء نے اقوام متحدہ كو شامی حكومت كے خلاف استعمال كرنے كی كوشش كی تو ان دونوں ممالک نے مل کر ڈبل ويٹو كا حق استعمال كرتے ہوئے امريكہ كا مقابلہ كيا۔ امريكہ اور اس كی جانب سے لگائی جانے والی تمام تر اقتصادی پابنديوں كے باوجود انہوں نے اقتصادی ميدان ميں شام كی مدد كی اور روس كی جانب سے شامی حكومت كو جديد ترين اسلحہ كی فراہمی اور ممكنہ امريكی كے حملوں كا راستہ روكنے كيلئے فوجی خبراء اور جنگی وسائل كا بهيجنا، اسی پاليسی كا حصہ ہے۔ كيونكہ وه جانتے ہیں كہ روس نے اگر انہیں يہاں شام میں نہ روكا تو خود روس دوسرا ہدف ہوگا اور روس كا امن و استقرار تباه ہوگا۔ روسی نائب وزير خارجہ اوليگسيرو موليٹوف كے بقول اس وقت شام اور عراق ميں تقريباً 2200 مسلح روسی نژاد دہشت گرد داعش كی صفوں ميں لڑ رہے ہیں اور روس اس تنطيم كے زعماء كے ان بيانات اور اعلان كو سیریس لے رہا ہے "كہ وه جہاد كو سنٹرل ايشاء اور قفقاز ميں منتقل كرنے جا رہے ہیں۔" اور جب كچھ عرصہ پہلے اخوان المسلمين اور ديگر اسلامی متشدد جماعتوں نے اپنے ميڈيا ميں شور مچايا اور بهرپور پروپیگنڈہ کیا كہ چينی حكومت نے اووی گور مسلمانوں كے روزه ركهنے پر پابندی لگا دی ہے اور انہوں نے اپنے چينلز اور مجلوںوں، اخباروں،سوشل ميڈيا اور ويب سائٹس پر اووی گور مسلمانوں كی نصرت اور مدد كی ندائیں بلند كيں۔ پروپیگنڈہ كا انداز وہی تها جو عراق اور شام ميں اپنايا گيا اور چینی (كفار) كيخلاف جنگ پر اكسايا گیا۔ يہ وہی امريكی حربہ اور منطق و سوچ ہے، جسے ہر جگہ استعمال كيا جاتا ہے۔ جيسے یہی حربہ، منطق و سوچ عراق و شام اور ايران، يمن و روس كے خلاف استعمال ہوئی۔

تركی كے صدر رجب طيب اردگان اور اس كی جماعت جو كہ اخوان المسلمين كا حصہ ہے، انہوں نے اس پروپیگنڈہ ميں كليدی كردار ادا كيا۔ قطر كے الجزيرہ چينل اور سعودی عرب كے العربيہ چینل نے بهی روٹین كے مطابق فتنہ پھیلانے ميں كوئی كسر نہیں چھوڑی۔ تركی كے دسيوں شہروں اور ديگر كئی ممالک ميں مظاہرے ہوئے، انگلش اور چائنی زبان ميں چائنی بادشاہت كے خاتمے كے نعرے بلند كئے گئے اور پاكستان تو اس ميں پہلے ہی سبقت حاصل كرچکا تها، دارالحكومت اسلام آباد ميں لال مسجد كے مجاہدين اور ديگر چند ايک جگہوں پر چینی سياحوں پر حملہ آور ہوچکے تهے۔ امريكہ كے ہمنواء تمام چينلز نے چين كو اسلام دشمن ثابت كرنے ميں كوئی كسر نہیں چھوڑی. اس پروپیگنڈہ كے نتيجے ميں تركی كے شہر استنبول ميں موجود چینی ہوٹل پر حملہ ہوا اور ہوٹل كے مالک كو چینی باشندہ ہونے كے جرم ميں خوب مارا اور انہيں بعد ميں پتہ چلا کہ وه مار كهانے والا چینی شخص اوويگور مسلمان تها۔ اسی طرح سياحوں كی ايک بس پر يہ سمجھ كر حملہ كيا گیا كہ وه چائینیز ہیں اور بعد ميں پتہ چلا كہ وه ساوتھ كوريا كے سياح تهے۔ اگر ماه رمضان ميں بيگناه يمنی مسلمانوں كو قتل كيا جائے، ميزائلوں سے انكے گھر بار ويران كر ديئے جائيں اور پاكستان، عراق، مصر، كويت، سعودیہ اور شام ميں خودكش حملے ہوتے رہیں تو كسی مسلمان كی غيرت بيدار نہیں ہوتی اور كوئی آواز بلند نہیں كرتا، دنيا كا نام نہاد آزاد ميڈيا تب گونگا كيوں ہوجاتا ہے۔؟ چین كی وزارت خارجہ نے تركی كے اس رويہ پر ناراضگی كا اظہار كيا اور انقره سے اس متشدد موقف كی تفاصيل طلب كيں۔ مصر كے دارالحكومت قاہره ميں چائنا كے سفير (سونجآيگوه) نے دعوت افطار کی، جس كا اہتمام چینی سفارتخانے نے كيا تها، اس میں اس بات کی وضاحت پیش کی كہ يہ تمام تر معلومات كہ چین میں اوويگورز مسلمانوں پر روزه ركهنے كی پابندی ہے، یہ سب جھوٹ ہے، اس پروپيگنڈہ كی كوئی حقيقت نہیں، چینی حكومت دينی شعائر كا احترام كرتی ہے، چینی دستور ميں درج ہے كہ ہر شہری كو عقيدتی لحاظ سے مكمل آزادی ہے، نہ حكومت اور نہ ہی كوئی فرد يا ادارہ لوگوں كو دين اختيار كرنے پر مجبور كرسكتا ہے اور نہ ہی دينی شعائر سے روک سكتا ہے۔

شام ميں 3500 چینی اووی گوريوں كی بستی آباد
ابهی حالیہ ميادين چينلز نے رپورٹ نشر كی ہے اور مقامی لوگوں سے معلومات حاصل كرتے ہوئے بتايا ہے كہ  گذشتہ ماه سوريہ كے شمال مغربی شہر جشر شغور جو كہ تركی كے بارڈر پر واقع ہے، اس كے نواح ميں ايک الزنبقہ نامی گاؤں ہے اور يہ گاؤں شامی تركی بارڈر سے فقط 500 میٹر كے فاصلے پر واقع ہے، وہاں پر علوی مذہب كے لوگ آباد تھے۔ اس دہشتگردی اور جنگ كی بدولت وه نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اب مقامی لوگوں نے بتايا ہے كہ تركی انٹيلی جنس كی سرپرستی اور داعش اور النصرہ كی مدد سے الزنبقہ نامی گاؤں میں 3500 چینی اووی گور دہشت گردوں كو بسايا جاچكا ہے۔ اس وقت چین اور پاكستان كا مشتركہ اقتصادی و تجارتی منصوبہ امريكا اور اس كے حلفاء كی آنكهوں كا كانٹا بن چكا ہے، یہ منصوبہ نہ فقط پاكستان اور چین كو اقتصادی طور پر مضبوط كرے گا بلكہ یہ پورے خطے ميں اقتصادی اور تجارتی انقلاب لائيگا۔ دوسری طرف پاكستان اور چائنہ دشمن ممالک اس كو سبوتاز كرنے كے درپے ہیں۔ پاكستان كے اندر تكفيری گروه اور متشدد اسلامی جماعتيں، اسی طرح امريكہ اور اس كے حلفاء كے وفادار سياستدان اور بیوروكريٹس بهی مشكلات ايجاد كرسكتے ہیں۔ دہشت گردی اور تكفيريت كے خلاف نيشنل ايكشن پلان كو جو قوت بھی ڈائیورٹ كرنے كی كوشش كرے گی اور بيگناہوں اور دہشتگردوں سے ايک جيسا سلوک كرے گی، وه پاكستان، پاكستانی عوام، ہماری مسلح افواج اور شهداء كے خون سے خيانت كرے گی۔ ضرب عضب كی تكميل اور دہشت گردی کے مكمل خاتمے كے بغير ہم بحرانوں سے نہیں نكل سكتے۔ پاكستانی حكمرانوں كو دوغلى پاليسی ترک كرنا ہوگی اور جو ممالک ان دہشت گردوں كی فكری و مالی مدد كر رہے ہیں، ہمیں انہیں پاكستان كا دشمن سمجهنا ہوگا، اور جو ممالک ہماری طرح ان تكفيری دہشتگردوں سے لڑ رہے ہیں، انكے ساتھ  احترام متقابل كے قاعدہ كے تحت روابط كو مضبوط كرنا ہوگا۔


تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ ہے حالانکہ سلیکشن اسی دن ہوگئی تھی جس دن خائن ممبران نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے مفاد میں بل پاس کیا جس کو کورٹ میں چیلینج کیا گیا جس کے بعد اسی سے ملتا جلتا بل پاس کرکے دیا گیا اور پھر اسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں کی جانے لگی دوسرا مرحلہ حلقہ بندی کا تھاجس طرح وہ سرانجام دیا گیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں اگر فقط ان دومراحل کی تفصیل لکھی جائے تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔بحرحال تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن کا ہے جو کہ اس وقت درپیش ہے جس میں ریٹرنگ آفیسر پہلے عدالتی افسران(جج) ہوتے تھے تب بھی یہ سیاسی آقا اپنی مرضی چلاتے تھے اب تو ان کے سامنے دن رات ہاتھ باندھ کرکھڑے ہونے والے لوگوں کو ریٹرننگ آفیسر بنایا گیا ہے جو بیچارے حکومتی آقاؤں کے سامنے لب ہلانے کی توفیق بھی نہیں رکھتے وہ بھلاکیا آر، او، کا غیر جانبدارانہ کردار اداکریں گے ان ریٹرننگ افسران کو معلوم ہے کہ چار دن کی یہ افسری ہے اس کے بعد یہی حکمران ہونگے لہٰذا جتنے اس دوران ان سے اچھے تعلقات بنا سکتے ہیں بنالو ۔ کہتے ہیں کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتاہوانظر آئے مگریہاں کاتومنظرہی عجیب ہے صبح سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے لائن میں کھڑے محلوں کے معزز بیچارے کبھی بجلی کے بل کی فوٹوکاپی لارہے تھے توکبھی گیس کے بل کی کبھی کسی اعتراض کو ختم کرنے کی کوشش کررہے تھے تو کبھی کسی اعتراض کورفع کرنے کے لئے رکشہ یا موٹر سائیکل پرسندھ کے رہنے والوں کی قسمت کی طرح پسینے پسینے دوڑدھوپ میں لگے ہوئے تھے اور آر،او، صاحب تھے کہ جیسے آج ہی ان کو پورے شہر میں دوڑا کرہی رہیں گے بعد میں پتا چلا کہ ان آر ، اوز کو مخصوص نام دیئے گئے تھے کہ ان کے فارم ہی نہیں لینے اور ایسا ہی ہوا بہت سے لوگوں کے فارم رات بارہ بجے تک نہیں بھرے جاسکے۔


دوسری طرف حکومتی آقاؤں کے فارم بھرنے کا انداز ہی نرالا تھا ان کے امید وار ایک شان حکمرانی سے آتے اور آتے ہی کہیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تو کہیں تعلقے کے کسی بڑے افسر کے ایئرکنڈیشن روم میں اپنے فل پروٹوکول سے بیٹھ جاتے اور چائے پانی کے بعد ایم این اے یا ایم پی اے اور پولیس کے پروٹوکول کے ساتھ ان کے وکیل یا کوئی دوسرا شخص ریٹرننگ آفیسر کو ان کے کاغذات نامزدگی دیتا اور امیدوار شان بے نیازی سے ریٹرننگ افسر کے سامنے بیٹھے مسکراتے رہے ریٹرننگ آفیسر نہایت ہی عقیدت و احترام سے کاغذات نامزدگی جمع کرکے خوشامندانہ انداز میں ان حکومتی آقاؤں کو الوداع کرتا اسی مرحلے پر باقی امیدواران کی شان و شوکت کو دیکھ کر شرمندہ ہو جاتے اور ان کو اپنی اوقات یاد آجاتی اور ان کو بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ صاف نظرآنے لگ جاتا اور آقاؤں کے ساتھ ان کے چمچے ان باقی امیدواروں کو لائن میں کھڑا دیکھ کر ان پر حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے طنزیہ اندازمیں مسکراتے گذر جاتے جبکہ ان کے چمچوں کا تعلق بھی اسی لائن میں کھڑے


لوگوں کے طبقے سے ہے اسی لئے چھوٹے آقاؤں نے بھی بڑے آقاؤں کی طرح کسی سیاسی چمچے کے بجائے بلدیاتی الیکشن میں اپنے ہی بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے اور اس بات سے چمچے بے خبر اور بے پرواہ ہیں کہ جمہوریت کے نام پر انھوں نے مورثی حکمرانی کو قائم کردیا ہے مگرصرف ان آقاؤں کے جئے جئے کے نعرے لگانے نے ان کو بھی تھوڑی بہت جھوٹی ہی سہی مگر شان و شوکت عطا کی ہے جس پر وہ اِترارہے ہیں اور یہ لوگ پوری قوم بیچنے کے لئے بخوشی تیار ہوگئے ہیں اس حالت کودیکھ کر الیکشن کمیشن کے کردار سے لے کر نتیجے تک کے حالات سمجھ میں آگئے بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کاانجام سمجھنا ہو تواس کی ابتد ا کودیکھ لیں۔
ہمارا تعلق شاید معاشرے کے اس طبقے سے ہے جس کی آنکھیں ماضی میں ہمیشہ آزادی کے خواب دیکھتی رہتی تھیں، خوش قسمتی سے ایک غلامی سے آزادی ملتی تھی تو دوسری غلامی کی زنجیریں ہمارے لئے آزادی کے عنوان سے پہلے سے ہی تیار ہوتی تھیں شاید اس لئے ہماری اس نسل نے اس کا خوبصورت حل نکال لیا ہے اور نئی غلامی سے بچنے کے لئے پہلی غلامی کہ جس سے یہ مانوس ہیں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی اسے ناپسند کرتے ہیں جس غلامی میں ہمیں ہمارے آقا رکھتے ہیں اس میں خوشی سے نہ صرف رہتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں بقول شاعر


اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
کہ رہائی ملی تو مرجائیں گے


اس سے غلاموں کو کوئی سروکارنہیں کہ ان کے آقاؤں کی حکومت میں لوگوں کو پانی مل رہا ہے یا نہیں ، پیٹ بھر کھانا میسر ہے یا نہیں ، سر پر چھت ہے کہ نہیں ، بجلی ہو یا نہ ہو ،جان اور مال کی حفاظت ہے یانہیں، ملک ترقی کررہا ہے یا تباہ ہورہاہے ، صحت ،تعلیم ، روڈ راستے ،کاروبار، عدالتیں ، ملکی وعوامی حفاظتی ادارے کس حال میں ہیں ان سے بے پرواہ یہ صرف یہ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے کہ ہمارے آقا کا پانی فرانس سے آتاہے، ہمارے آقاؤں کے دسترخوان پر ستر قسم کے کھانے سجتے ہیں ، ہمارے آقاؤں کے محلات کوروشن کرنے کے لئے اربوں روپیہ کے پاورجنریٹر پلانٹ لگائے جاتے ہیں ،آقا کی حفاظت کے لئے ہزاروں محافظ پورے شہر میں ایک اشارہ ابروپر پھیل جاتے ہیں اور آقا ایک جم غفیر کے جھرمٹ میں ہمیں کہیں دیدار کرا دیتا ہے جس کے قصے یہ مرچ مسالہ لگاکر بڑی شان سے سنا کر اپنے دوستوں کو مرعوب کرتے ہیں اور ان آقاؤں کا سارا روپیہ پیسہ فارن اکاٗونٹس میں محفوظ ہے،غلام خوش ہیں کہ ملک میں ہمارے ہی آقاؤں کی حکومت ہے ، آقاکو اگر چھینک بھی آتی ہے تو دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹر آجاتے ہیں ،آقاکی اولادیں جو کہ مستقبل میں ہمارے نئے آقا ہونگے فارن کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہم پر فن حکمرانی سیکھ رہے ہیں ،آقا کا محل اگر ویرانوں میں بھی بنتاہے تو وہاں اتنے بڑے ڈبل روڈ بنتے ہیں کہ جس کے سامنے ہماری قومی شاہراہیں بھی شرماتی ہیں ، ان کے کاروبار دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن کو محفوظ بنانے کے لئے ہماری قومی اسمبلیاں دیگر ادارے روزانہ کی بنیاد پر قانون سازی کے فرائض انجام دے رہی ہین ، علالتیں ان کے احترام میں سزاوجزا کا فیصلہ صادرفرماتیں ہیں ، ملکی و عوامی حفاظتی ادارے ان کے ایک اشارے پر ہروقت مستعد نظر آتے ہیں ۔


اب ایسا آقاچھوڑ کر کسی فقیر صفت درویش ، انسان دوست ، سادگی پسند ، عادل شخص کو اپنا آقا ماننے کو دل ہی نہیں کرتا بلکہ اگر ایسا کہیں ماضی یا حال میں کہیں نظر آبھی جائے تو اسے اپنے ذہن کے مخصوص خانے میں سجاکر اپنے اسی جاہ جلال والے آقا کی پوجا میں مصروف ہوجاتے ہیں اور سیاست خبیثہ کو سرانجام دینے والے سیاست دانون کی طرح اسے فقط نعروں اور تقاریر میں استعمال کرتے ہیں اور نگاہوں میں اپنے اسی حاکم آقاکو رکھتے ہیں۔


ان حالات میں ایسے فرعون صفت آقاؤں سے الیکشن لڑنے کے لئے فقط فارم بھرنا ہی ابابیل کی چونچ میں نمرود کی لگائی آگ کو بجھانے کی کوشش کی یاد تازہ کرانے کا عملی مظاہرہ ہے۔لائق درود و سلام ہیں وہ لوگ جو ان کے سامنے مقابلے کے لئے آئے ہیں اور ان کے اختیار اور دولت کو اپنے کردار کی پختگی سے شرمندہ کر دیتے ہیں میرے نزدیک ان کے سامنے فارم بھرنا ہی باکردار لوگوں کی جیت ہے ، اور یہی ہار ہے بد کردار لوگوں کی باقی الیکشن کے نتائج ہم نے بلدیاتی الیکشن کے بل پاس ہونے ، حلقہ بندیوں سے لیکر فارم بھرنے تک کے طریقہ کارسے ہی سمجھ لیا ہے کہ ووٹ سے زیادہ انجنیئرڈ دھاندلی ہی اس الیکشن میں جیت کی ضمانت ہے ایک سوال عدل کے ایوانوں سے کہ کیا آپ اس کو انصاف کہتے ہیں یا آپ بھی اسی پر راضی ہیں ۔

 

تحریر ۔۔۔۔۔عبداللہ مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان وہ ملک ہے کہ جو اہلسنت اور اہل تشیع سب کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے نہ فقط اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد رکھی بلکہ مختلف ادیان و مذاہب سے رواداری اور بہترین سلوک کی مثالیں رقم کیں۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ان کے درمیان فرقہ کی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہیں تھا بلکہ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اس تحریک کو کامیاب کیا اور آج الحمد لللہ ہمارے پاس پاک دھرتی کی صورت میں ایک ملک موجود ہیں ۔ جو کہ خدا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری مسلح افواج نے اور عوام نے اسی بے مثال وحدت کی بدولت بھارتی جارحیت کا ہر بار مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور شجاعت و بہادی اور ایثار و محبت سے حب الوطنی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اور ہمیشہ دشمن پاکستان کو ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے۔ یہ حب الوطنی کا جذبہ ہمیں ہماری ماؤں نے بچپن سے سکھایا ہے کہ جس کی بدولت ملت پاکستان ہر مشکل گھڑی میں اکھٹی نظر آتی ہے۔چاہے وہ جنگی حالات ہوں یا خدائی آفات ہوں ۔ ہر مشکل میں بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعاون کیا جاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ ناعاقبت اندیشن حکمرانوں نے بیرونی اشاروں پر پاکستان کی اکثریتی عوام پر ایک اقلیتی فرقہ کو مسلط کرنے کی پالیسی بنائی اور وہ بھی ایسا فرقہ کہ جو تنگ نظری میں اپنی مثال آپ ہے اور وحدت اسلامی کے شیرازہ کو پارہ پارہ کرنا ان کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور امن و امان کے محافظ حکمرانوں نے اسٹیٹ کی طاقت سے انہیں تقویت دی اور وطن عزیز کو کمزور اور اندر سے کھوکھلا کرنے اور پاکستان عوام کے اجتماعی رشتوں کو قطع کرنے والے اس وطن دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ملک توڑنے اور اندرونی بحرانوں میں مبتلا کرنے کا سامان فراہم کیا۔

وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا نقصان کیا ہوا؟؟؟
ایک خاص مکتبہ فکر کو طاقتور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ریاست کو خود اعتراف اور برملا اعلان کرنا پڑ رہا ہ ے کہ وہ خطرہ جو ملک کی سرحدوں پر تھا آج وہ ہمارے ملک کے اندر گلی گوچوں تک پہنچ چکا ہے۔ جب ان تکفیری تنگ نظروں کے مدارس غیر ملکی امداد سے دھڑا دھڑ بن رہے تھے اس وقت حکمران بالکل خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور ان کے سہولت کار بنے ہوئے تھے۔کیونکہ وہ بھی اسی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو رہے تھے۔ہر حکومت یہ پالیسی بناتی ہے کہ ہمارے ملک کو کتنے ڈاکٹر ، کتنے انجینئرز اور کتنے علماء کی ضروت ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈاکٹر اور انجینئرز کو قتل کرنے اور متعصب اور تنگ نظر مولوی تیار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ۔ یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں امن و امان کے محافظ اداروں کے افسروں نے لمبی لبمی داڑھیاں رکھ لیں اور وردیاں اتار کر لمبی چھٹی پر تبلیغی کام میں مصروف ہوگئے اور اسلحہ نام نہاد ملاؤں کو تھما کر انہیں طالبان بنا دیا۔ ایسے کاموں یہی فطری نتیجہ ہوتا ہے جس کا خمیازہ آج پاکستان کی بے کس عوام بھگت رہی ہے۔

فرض کر لیں پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں 10 کروڑ بریلوی مسلمان اور 5 کروڑ شیعہ مسلمان اور اڑھائی تین کروڑ دیوبندی اور اہل حدیث مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور ان کی دینی تربیت کے لئے اگر 1000 پاکستانی کہ جن میں بچے ، بوڑھے اور جوان شامل ہیں ان کو ایک عالم دین کی ضرورت ہے۔ اور اس اندازے سے بریلوی مسلک کے لوگوں کے ایک لاکھ(100000) اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے لئے پچاس ہزار (50000) اور اہل حدیث و دیوبندیوں کے لئے تیس ہزار (30000) علماء کی ضرورت ہے اور اسی تناسب سے مدارس تعمیر ہونے چاہیں لیکن جب ضیائی اسٹیبلشمنٹ سے نواز حکومت تک ایک فرقہ جسے صرف تیس ہزار علماء کی ضرورت تھی اس فرقے کے 20 سے 30 لاکھ علماء کی تربیت کی جائے اور جس فرقہ کو پچاس ہزار علماء کی ضرورت ہو اس کے پاس فقط دس سے بارہ ہزار علماء ہوں تو حکمرانوں کی عدالت ، وطن دوستی اور قومی امانتوں کی حفاظت زیر سوال آتی ہے؟؟
آخر شیعہ کا استحصال ہی کیوں ؟؟؟
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر شیعہ کے استحصال اور نسل کشی کی پالیسی ہی کیوں بنائی گئی؟

1)۔ کیا شیعہ وطن دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں؟
2)۔ کیا اہل تشیع آئین پاکستان کو قبول نہیں کرتے ؟
3) کیا مکتب اہل البیت کے ماننے والی ریاستی اداروں کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں؟
4)۔ کیا شیعہ حکومتی رٹ کو چیلنچ کرتے ہیں؟
5) کیا شیعہ اس ملک کے پر امن شہری نہیں ہیں؟
6)۔ کیا شیعہ ہمیشہ ملکی دفاع میں پیش پیش نہیں ہوتے؟
7)۔ کیا شیعہ کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے؟

آخر کیا جرم تھا کہ بانیان پاکستان کے فرزندوں کے خلاف شیعہ نسل کشی کی پالیسی بنائی گئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ اور جس پالیسی کی بدولت ہزاروں شیعہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور جرنلسٹ موت کے گھاٹ چڑھا دیے گئے ہیں جو کہ اس ملک کا سرمایہ تھے۔ شہید ہونے والے وہ لوگ تھے جن کو انکی شہادت کے بعد انٹر نیشنل ایوارڈ دیے گئے ۔ یعنی عالمی اداروں نے ان کی قدر کی لیکن پاکستانی تنگ نظروں نے انہیں بس شیعہ کہ کر قتل کر دیا۔

جب سے پاکستان میں تکفیریت اور دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی اس کا پہلا ہدف تشیع تھی اور آج اسی فتنے کا قلع قمع کرنے پر کام ہورہا ہے اور آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ لیکن پنجاب حکومت خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں ایک دفعہ پھر سے شیعہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور بیلنس پالیسی کے تحت قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم کے خلاف ایک جیسا ایکشن لے رہی ہے۔ وحدت و رواداری اور اخوت اسلامی کو فروغ دینے والا علماء اور کارکنان پر جھوٹے مقدمے، ڈیٹینشن آرڈر اور فورتھ شیڈول میں ملوث کیا جارہا ہے۔ 35 سال گزرنے کے باوجود نون لیگ کی شیعہ دشمنی پالیسی آج بھی نہیں بدلی ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستانی عوام نے عہد کر لیا ہے کہ اب نہ دہشتگرد رہیں گے اور نہ انکے سہولت کار اور پاکستانی عوام اور مسلح افواج کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اور انشاء اللہ پاکستان کے افق پر امن و امان اور تعمیر و ترقی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان میں عام انتخابات کا کافی چرچا تھا، گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت اور وہاں پر بسے شیعیان حیدر کرار کی بنا پر اس خطے کی اہمیت اور وہاں ہونے والے انتخابات کی اہمیت دگنی تھی، گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان سے بے لوث محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد جب یہاں کے عوام نے ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد سے اس خطے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، لیکن اس کے باوجود یہاں کے غیور عوام نے پاکستان سے اپنی محبت و وفاداری میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں عوامی جوش و خروش دیدنی تھا، عورتیں، بچے، مرد، بزرگ، جوان ہر کوئی انتخابات میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے بیتاب نظر آتا تھا، پارٹی پرچموں، بینرز اور پوسٹرز کی بہار آگئی تھی۔ لیکن اس بار کے انتخابات میں کچھ چیزیں بالکل انہونی تھیں۔۔۔۔۔اس بار عوام چاہ رہے تھے کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت سے اپنے مقدر کو سنواریں، وہ چاہ رہے تھے کہ گلگت بلتستان کی سونا اگلتی زمین کے سینہ کو چیر کر ان پارٹیوں اور افراد کو دفن کر دیں، جنہوں نے ووٹ تو ہمیشہ لیا لیکن اس خطے کے عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا۔

گلگت بلستان کے عوام کے بارے میں یہ رائے مشہور تھی کہ یہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے دیوانے ہیں، لیکن اس بار یہاں پیپلز پارٹی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن تو پیپلز پارٹی سے بھی بد تر نظر آئی، پاکستان تحریک انصاف جسے تیسری بڑی قوت سے یاد کیا جانے لگا ہے، اس خطے میں اسکی مقبولیت کا گراف بھی قابل ذکر نہیں نظر آیا۔ گلگت بلستان کی عوام کے بدلتے نظریات کے پیچھے سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس اور سانحہ بابو سر کا بڑا کردار ہے، ان سانحات میں ملوث قوتوں اور انکے پشت پناہوں سے نفرت ایک فطری امر ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی ساتھ جن پارٹیوں نے سالوں حکومت کرکے یہاں کے عوام کا صرف استحصال کیا، انہیں یہاں کے عوام اب قبول کرنے کو تیار نہیں نظر آتے۔

گلگت و بلتستان میں سفر کے دوران کہیں زرداری صاحب کی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کیساتھ تصاویر آویزاں ہیں تو کہیں نواز شریف اور رہبر معظم کی تصاویر نظر آرہی ہیں، غرض وہ جو پورے پاکستان میں شیعہ دشمن قوتوں کے پشت پناہی کرتے ہیں، یہاں ان تصاویر کی تشہیر سے گلگت بلتستان کی عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے کمر بستہ نظر آئے اور تو اور کچھ نے تو اپنے آپ کو براہ راست ولی فقیہ کا نمائندہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا، تاکہ عوام انہیں ووٹ دیں، وہ پارٹیاں اور شخصیات جو 67سالوں میں گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ نہ بنا سکیں، وہ بھی آئینی صوبہ بنانے کا راگ الاپتے نظر آئے، وہ جنہیں سانحہ کوہستان، چلاس و بابو سر میں اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ گلگت بلستان کے عوام کے آنسو پونچھتے، آج بے غیرتی کے ساتھ ووٹ مانگتے نظر آئے، جب گلگت بلتستان کے عوام کے منہ سے نوز شریف کی حکومت نے نوالہ چھیننے کی کوشش کی اور گندم پر سبسڈی ختم کی تو یہ جماعتیں اس وقت بھی یہاں کے عوام کے حق کیلئے نہیں اٹھیں ۔۔۔۔۔گلگت بلتستان کے عوام یہ سب کیسے بھول سکتے تھے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کا انتخابی دوڑ میں اضافہ نہ صرف کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا بلکہ کوئی ایم ڈبلیو ایم کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھا لیکن عوامی حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم کی پذیرائی دیدنی تھی، عورتیں ہوں یا مرد، بزرگ ہوں یا بچے، ہر کوئی نعرے لگاتا نظر آیا کہ ووٹ کیا چیز ہے، جان بھی قربان ہے، ایم ڈبلیو ایم کی پذیرائی کے پیچھے سانحہ کوہستان، چلاس و بابو سر کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ملک گیر تحریک اور گندم سبسڈی ختم کئے جانے پر عوامی احتجاج اور گندم سبسڈی کی بحالی جیسے اقدامات کار فرما رہے، ساتھ ہی ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت نے اس خطے کے عوام کی بے لوث خدمت کرکے یہاں کے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

دور دراز کے گائوں ہوں یا شہر ۔۔۔۔۔ہر جگہ ایم ڈبلیو ایم کے پرچم گھروں پر لہراتے نظر آئے، یہاں کی دشوار گزار ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے سڑک کے کنارے بچے ایم ڈبلیو ایم کے پرچم ہاتھوں میں اٹھائے راجہ ناصر قدم بڑھائو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے نظر آئے، غریب عوام کی آنکھوں میں مجلس وحدت مسلمین زندہ باد کے نعروں کے ساتھ امید کی روشنی دیکھنے کو ملی، خوشحالی کی امید نے گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں میں ایک ایسا جوش و خروش پیدا کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے وہ کسی بھی قوت کو اپنی ووٹ کی طاقت سے سرنگوں کرنے کو تیار ہیں، گلگت بلتستان کے عوام اپنی محرومیوں اور زیادتیوں کا بدلہ اپنے ووٹ سے لینگے۔ یہ امید، جوش، خوشحال و با اختیار گلگت بلتستان کا حقیقی تصور ایم ڈبلیو ایم نے یہاں کی عوام کو دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کا مقابلہ کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ تمام سیاسی پنڈتوں اور استحصالی قوتوں سے ہے، یا دوسرے الفاظ میں اس باری انتخابات میں گلگت بلتستان کے عوام کا مقابلہ تمام استحصالی قوتوں سے ہے اور عوام کو اس فیصلہ کن جنگ کا حوصلہ ایم ڈبلیو ایم نے دیا ہے۔ اسی لئے ہر کوئی یہی کہتا نظر آتا ہے کہ ووٹ کیا چیز ہے راجہ ناصر، جان بھی قربان ہے۔ انتخابات میں کیا نتیجہ آتا ہے، ابھی کسی کو نہیں پتہ، لیکن یہاں کی عوام نے نتیجہ دے دیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم جیت گئی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔ سید رضا نقوی

وحدت نیوز (آرٹیکل) امید ،انسانی زندگی کا ستون،بے کسوں کا سہارا،مظلوموں کا عصا اور اہلِ ہمّت کی شاہراہ ہے۔کسی بھی انسان کی نااہلی کے لئے اتناہی کافی ہے کہ وہ نااہل لوگوں سے اپنی امیدیں وابستہ کرلے۔ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دلخراش واقعات صرف حکومتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں بلکہ عوامی نااہلی پر بھی دلالت کرتے ہیں۔

اس ملک میں جہاں دہشت گردوں اور سرکاری اہلکاروں کے مفادات مشترک ہیں وہاں عوام کا کرپٹ بیوروکریسی،بے دین سیاستدانون ،رشوت خور پولیس و ملیشیا سے اپنے دفاع اور تحفط کی امید باندھنا حماقت نہیں تو اور کیاہے!

تفتان سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی و اسلام آباد تک پولیس ،ملیشیا اور لیویز کے جو اہلکار جگہ جگہ مسافروں کو خوفزدہ کرکے رشوت بٹور رہے ہیں وہ مسافروں کو کیا تحفظ دیں گے!

جو اپنی صبح کا آغاز لقمہ حرام سے کرتے ہیں وہ دہشت گردوں کے خلاف کیا آپریشن کریں گے!

سانحہ بابوسر،سانحہ چلاس،سانحہ تفتان،سانحہ پشاور،سانحہ صفورا۔۔۔اور اب سانحہ مستونگ ۔گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 2 کوچز کے 20 مسافروں کو اغوا کے بعد قتل کردیا گیا۔

قارئینِ کرام ! پاکستان میں سرکاری سرپرستی میں جاری حرام خوری اوردہشت گردی کے خلاف جتنا بھی احتجاج کیاجائے وہ کم ہے۔اب احتجاج زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے لیکن اس وقت احتجاج کا سب سے موثر موقع اہلیانِ گلگت و بلتستان کو حاصل ہے۔

اہلیانِ گلگت و بلتستان کو چاہیے کہ وہ درپیش انتخابات میں بے دین سیاست دانوں ،بے اصول لیڈروں،بے بصیرت شخصیات ،مفاد پرست پارٹیوں اور حرام خور بیوروکریسی کا اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے صفایا کریں۔

اس وقت الیکشن کمپین میں تفتان روٹ پر زائرین کی اہانت کے مسئلے کو اٹھایاجائے اورمسافروں سے سرکاری اہلکاروں کے رشوت وصول کرنے کے سلسلے کو رکوایا جائے،مسافروں کے تحفط اور دفاع کی خاطر بھرپور آواز اٹھائی جائے۔خصوصی طور پر موجودہ حکومت سمیت تمام تجربہ شدہ پارٹیوں  اور ان  کے حاشیہ براداروں و نمک خواروں کا ناطقہ بند کیاجائے۔

ہاں اہلیانِ گلگت و بلتستان! اس وقت آپ ایسا کر سکتے ہیں۔اس وقت قسمت نے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ آپ زائرینِ مشہدو کربلا کے تحفظ کے لئے اٹھیں،اس وقت حالات نے آپ کو یزیدانِ عصر کے مقابلے میں لاکر کھڑا کردیاہے کہ آپ چاہیں تو انہیں از سرِ نو اپنے اوپر مسلط کردیں اور چاہیں تو ان کے کھوکھلے رعب و دبدبے کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیں۔

ہاں ہاں ! اہلیانِ گلگت و بلتستان !

اپنے ووٹ،احتجاج ،کمپین اور اپنی سیاسی طاقت کو سمجھیے۔اس وقت آپ اس ملک و ملت کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ آپ کا درست فیصلہ کرپٹ حکومت اور مفاد پرست پارٹیوں کی بساط اُلٹ سکتاہے،اس وقت آپ کے ووٹ کا صحیح استعمال اور آپ کا بھرپور احتجاج زائرینِ مشہد و کربلا کی عزّت و ناموس اور جان و مال کے دفاع کا باعث بن سکتاہے اور آپ کی خاموشی،سادہ لوحی اورووٹ کا غلط استعمال یزیدانِ عصر حاضر کو فائدہ دے سکتاہے۔

بلاشبہ اس وقت تمام پاکستانیوں کی امیدیں اہلیانِ گلگت و بلتستان پر لگی ہوئی ہیں اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں، امید ،انسانی زندگی کا ستون،بے کسوں کا سہارا،مظلوموں کا عصا اور اہلِ ہمّت کی شاہراہ ہے۔آج ملت پاکستان اس راز کو جان چکی ہے کہ کسی بھی انسان کی نااہلی کے لئے اتناہی کافی ہے کہ وہ نااہل لوگوں سے اپنی امیدیں وابستہ کرلے۔چنانچہ اس وقت ملت ِ پاکستان کی امیدیں رشوت خور سرکاری اہلکاروں اور مفادپرست سیاستدانوں اور پارٹیوں کے بجائے  گلگت و بلتستان کی دیندار  اور باشعورعوام سے وابستہ ہیں۔

ہم سب گلگت و بلتستان کی دیندار اور باشعور عوام سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کو ظلم،بے بصیرتی اور فرعونیت کے خلاف استعمال کریں گے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) نویں تا تیرہویں صدی کے چار سو برس منطقی علوم میں مسلمانوں کی فتوحات کا سنہری دور کہلاتے ہیں۔ دسویں صدی کے آغاز سے بارہویں صدی کے خاتمے سے ذرا پہلے تک فاطمی سلطنت تیونس تا یمن اور یمن تا شام پھیلی ہوئی ہے۔ علم و حکمت کا مرکز بغداد دورِ زوال میں داخل ہے اور قاہرہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اس میں مشرق کی پہلی جدید یونیورسٹی جامعۃ الازہر مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اہلِ تخلیق کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ انھی میں ابن الہیثم جیسا ماہرِ فلکیات و طبیعات و ریاضی دان بھی ہے جس نے دوربین کا عدسہ بنا کے روشنی کی رفتار ماپ کر زمین کا دیگر سیاروں سے فاصلہ ماپ لیا ہے۔ اب فاطمی خلیفہ امام الحکیم کی خواہش ہے کہ ابن الہیثم دریائے نیل میں پانی کے سالانہ اخراج کو بھی ماپ دے تا کہ نئی زمینوں کی آبادکاری کی آبی منصوبہ بندی ہو سکے۔
اسی قاہرہ سے بہت دور نصیر الدین طوسی نے ایک ایرانی قصبے مرغہ میں ایسی رصدگاہ بنا لی ہے جہاں چین تک سے سائنسی طلبا نظامِ شمسی کی نپائی کا ہنر سیکھنے آ رہے ہیں۔ نصیر الدین طوسی کی نگرانی میں ان طلبا کے تیار کردہ فلکیاتی شماریاتی چارٹوں میں سے کچھ ہزاروں کلو میٹر پرے اندلس پہنچتے ہیں اور وہیں سے ایک یہودی عالم ابراہام زکوٹو ان کی نقول پرتگال کے شاہ جان دوم کے دربار میں لے جاتا ہے۔ ان شماریاتی چارٹوں کی مدد سے اصطرلاب (قطب نما) ایجاد ہوتا ہے اور اسی اصطرلابی مدد سے واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کر لیتا ہے۔ یوں مشرق کا دروازہ مغرب کے نوآبادیاتی عزائم کے لیے کھل جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر ساٹھ کلومیٹر قطر کے ایک گڑھے کا نام نصیر الدین یونہی نہیں رکھا۔
اور اسی دور میں بلخ میں ابو علی سینا پیدا ہوتا ہے جو جدید طب اور طبیعات کا باپ ہے کہ جس کے ساڑھے چار سو میں سے دو سو ساٹھ مقالات طب و فلسفے اور منطق پر ہیں۔ باقی کام ریاضی، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، فقہہ اور شاعری پر ہے۔ ابنِ سینا وہ دروازہ ہے کہ جس میں سے دورِ تاریک کا یورپ چھلانگ لگا کر دورِ جدیدیت کی جادوئی دنیا میں آن گرتا ہے۔
اور کہیں آس پاس ہی ابو عبداللہ جعفر ابنِ محمد بھی شعر لکھ رہا ہے۔ دنیا اسے رودکی کے نام سے جانتی ہے۔ اس پیدائشی نابینا نے جدید فارسی اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد شعر کہے اور غربت میں مر گیا۔
اور یہیں کہیں عظیم سیاح، فلسفی اور ادیب ناصر خسرو بھی انیس ہزار کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہے۔ ہر کوس کا تجربہ اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہے۔ (ذرا تصور کیجیے گیارہ سو برس پہلے مشرقِ وسطی کا انیس ہزار کلومیٹر کا سفری دائرہ پا پیادہ…)۔
اور سائنسی و منطقی سوچ کے انقلابی چلن میں مگن مشرقِ وسطی سے دور ملتان نامی دور دراز علاقے میں کوئی شمس الدین سبزواری دعوت و تبلیغ کا کام کر رہا ہے۔ ابھی بت شکن محمود غزنوی کا ظہور نہیں ہوا۔ ابھی منگولوں کے پاس مسلمان عقلیت پسندی کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلنے میں کچھ وقت ہے اور ابھی اسپین سے بھی مسلمانوں کو بیک بینی دوگوش نکالا جانا ہے اور ابھی جاہل صلیبی غول در غول بچا کھچا مسلمانی علم و حکمت تہہ و بالا کرنے کے بارے میں بس سوچ رہے ہیں۔۔۔
آئیے ماضی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ابراہیم رحیم ٹلا بمبئی میونسپلٹی کے صدر، دوسرے عشرے میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے صدر اور تیسرے عشرے میں برٹش انڈیا کی مرکزی لیجسلیٹو کونسل کے صدر بنتے ہیں اور چوتھے عشرے میں دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ گوکھلے، اینی بیسنٹ اور جناح صاحب کی طرح ابراہیم رحیم ٹلا بھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر شمار ہوئے۔
اور پھر اسی بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پاکستان بننے سے ایک ماہ پہلے ایک صنعت کار امیر علی فینسی مشرقی افریقہ میں اپنے سارے اثاثے فروخت کر کے پاکستان پہنچتا ہے اور پہلی سرمایہ کاری اسٹیل کے شعبے میں کرتا ہے اور اسی پاکستان کے بائیس امیر صنعتی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔
اور اسی پاکستان کے بنتے ہی غلام علی الانہ نامی ایک صاحب مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری بنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ کراچی کے مئیر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ پہلے اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پھر اقوامِ متحدہ والے انھیں لے جاتے ہیں اور ان کے ذمے انسانی حقوق کی عالمی نگرانی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی مقامی حکومت انھیں شہر کی طلائی چابی پیش کر دیتی ہے۔ ان شہروں میں سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، بفلو، پیٹرسن، پیرس، روم، جنیوا اور پراگ بھی شامل ہیں۔ اتنی مصروف زندگی میں بھی غلام علی الانہ نے اچھی خاصی انگریزی شاعری کر لی اور درجن بھر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور سن پچاسی میں رخصت بھی ہو گئے۔
اسی دور میں ایک صدر الدین بھی گزرے جو انیس سو چھیاسٹھ سے اٹھتر تک ( بارہ برس ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلاحِ مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ رہے اور کروڑوں مہاجرین کی دیکھ بھال کے فن کو ایک جدید شکل دی جس کے سبب انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے اندرونی و بیرونی مہاجروں اور بے وطن بہاریوں کو بھی اچھا خاصا سہارا ملا اور پھر یہ تجربہ لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے بھی کام آیا۔ یہ وہی صدرالدین ہیں کہ جن کے بھائی علی خان سن اٹھاون تا ساٹھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اور اسی اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے پیرس ہیڈ کوارٹر میں اسماعیل گل جی کی بھی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ گل جی پہلے پاکستانی پینٹر تھے جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز کے قابل جانا۔
اور اب تذکرہ کچھ شمالیوں کا۔
یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کو مٹھی بھر سپاہیوں نے پھٹیچر اسلحے کے بل بوتے پر آزاد کروایا۔ ان بے خوفوں کی قیادت کرنل حسن خان اور کیپٹن راجہ بابر خان تو کر ہی رہے تھے مگر ان کے دیگر ساتھیوں میں کیپٹن شاہ خان اور صوبیدار صفی اللہ بیگ بھی شانہ بشانہ تھے۔ باون برس بعد انھی کے نقشِ قدم کو حوالدار لالک جان نے کرگل کے پہاڑوں میں اتنا گہرا کر دیا کہ اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوگئے اور نشانِ حیدر کی صف میں جگہ پا گئے۔
پہاڑ ہوں اور کسی گلگتی و بلتستانی کا دل نہ مچلے کیسے ممکن ہے۔ اشرف امان کا دل مچلا تو وہ انیس سو ستتر میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس کارنامے کے تئیس برس بعد نذیر صابر نے پہلے کے ٹو سر کی اور پھر دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا پاکستانی جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کارنامے کے تیرہ برس بعد ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی جو ماؤنٹ ایورسٹ پر جا پہنچی۔
(ثمینہ کے ساتھ دو بھارتی لڑکیاں تاشی اور ننگاشی ملک بھی تھیں۔ یوں بھارتی ترنگا اور پاکستانی سبزہ پہلی بار ایک ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک عام جنوبی ایشیائی انسان کی دو طرفہ خواہشِ امن کا مشترکہ استعارہ ہو گیا)۔
بھارت کا تذکرہ آیا تو لگے ہاتھوں بھارت کے سب سے امیر مسلمان، سب سے بڑے سافٹ وئیر ساز اور مخیر عظیم پریم جی کی بھی بات ہو جائے کہ جس نے اپنے پندرہ ارب ڈالر کے اثاثے کا بیشتر حصہ فلاحِ عام کے لیے وقف کر دیا۔
مگر ان سب شخصیات میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ یہ بھان متی کا کنبہ میں کیوں جوڑ رہا ہوں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ سب اسماعیلی ہیں۔
(کچھ اور نابغہِ روزگار بھی اس مضمون کا حصہ ہونے چاہئیں۔ مگر اس وقت مجھے ان کے ناموں سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے)۔
اور یاد آیا کہ ایک اسماعیلی آغا خان سوم بھی تو تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے وہ تمام سونا اور جواہرات تعلیم پر لٹا دیے کہ جس میں انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بارہا تولا گیا تھا۔ اس کرامت کا زندہ پھل شمالی علاقہ جات ہیں جہاں عمومی خواندگی پچھتر فیصد اور اسی علاقے کی سابق ریاست ہنزہ میں پچانوے فیصد تک ہے۔ اور انھی آغا خان سوم کے پوتے نے پچھلے ستاون برس سے ایشیا تا افریقہ اور یورپ تا امریکا تعلیم، صحت اور مسلم فنِ تعمیر کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
ہاں ایک اور اسماعیلی بھی تو تھے جو بعد میں اثنا عشری ہو گئے اور پھر کئی علما نے انھیں ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی جدو جہد کے عین عروج کے دوران کافرِ اعظم بنا ڈالا اور پھر یہی علما اور ان کے وارث اسی ’’غیر شرعی‘‘ ملک کے مامے بن گئے۔
(ان میں سے شائد کسی نے سن دو ہزار پانچ کے اعلانِ نامہِ عمان کا تذکرہ سنا ہو۔ یہ اعلان نامہ اردن کے شاہ عبداللہ بن حسین کی دعوت پر پچاس مسلمان ممالک کے لگ بھگ ڈھائی سو علما اور اسکالرز نے تین دن کے بحث مباحثے کے بعد تیار کیا۔ اس اعلان نامے میں جن فقہی اسکولوں کو تسلیم کیا گیا جن کے ماننے والے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ ان فقہی اسکولوں میں جعفریہ اور زیدیہ فقہ بھی شامل ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ان کا فرقہ جعفریہ فقہہ کا حصہ ہے اور دیگر تمام فقہوں کی صوفیانہ تعلیمات و روایات کو بھی تسلیم کرتا ہے)۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree