وحدت نیوز (آرٹیکل) نائجیریا کا دارلحکومت ابوجا ہے،اس کے پڑوسی ممالک میں چاڈ،کیلیفورنیا،کیمرون،وینزیلا اورتنزانیہ  شامل ہیں،یہ بر اعظم افریقہ کاایک  انتہائی اہم اسلامی ملک ہے،اس کا رقبہ 923768مربع کلومیٹر  اور آبادی تقریباً ۱۸ کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔آٹھویں صدی میں شمالی افریقہ کے مراکش، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر اور مشرق سے سوڈان، صومالیہ، یمن اور سعودی عرب جیسے مسلمان ممالک کے ذریعے اس ملک میں اسلام داخل ہوا اور بعد ازاں یہاں مسلمانوں کی حکومت تشکیل پائی، بیسویں صدی کا سورج اس  ملک پر برطانوی تسلط کا پیغام لے کر طلوع ہوا،۱۹۶۰ تک نائیجریا برطانیہ کی غلامی میں ایک نوآبادی بن کررہا،اس دور میں  عیسائیت کو  نائیجیریا میں خوب پھیلایا گیا،تعلیمی اداروں میں  بائبل اور عیسائیت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور مشرقی علاقوں کے قبائل نے  اسی عہد میں عیسائیت اختیار کی۔

نائیجیریا میں اسلام عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے،شروع سے ہی تبلیغِ دین میں عیسائیت کو براہِ راست مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا،مسلمان آبادی کے لحاظ سے آج بھی وہاں ایک بڑی اکثریت  ہیں،۱۹۶۰ عیسوی میں نائیجریا کی آزادی ایک عیسائی جنرل برونسی  کے خونی انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئی،اسلامی لیڈر شپ کا قتلِ عام کیا گیا،اس قتلِ عام سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مزید نفرتیں پیدا ہوئیں۔

بعد ازاں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبتاً مخلوط حکومت وجود میں آگئی،۱۹۶۷ ؁ میں ایک عیسائی فوجی کرنل اجوکو نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے مشرقی نائیجریا میں  بیافرا کے نام سے نئی حکومت بنا لی،پٹرول سے مالا مال یہ منطقہ  چونکہ عیسائی آبادی پر مشتمل تھا ،چنانچہ مغربی حکومتوں نے اس کا خیرمقدم کیا،کرنل اجوکو کی بغاوت کو مرکزی حکومت نے جلد ہی کچل دیا ،البتہ اس کچلنے میں ۱۰ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اس عیسائی کرنل کی بغاوت کے صرف  چند سالوں کے بعدیعنی ۱۹۷۰ کے عشرے میں  عالمی عیسائیت کے ادارے نےبرّ اعظم افریقہ کو ایک عیسائی برِّ اعظم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا،ڈالروں کی بارش کی گئی اور عیسائی مبلغین کی ایک بڑی کھیپ  مختلف شکلوں میں مغرب اور امریکہ سے برِّ اعظم افریقہ میں داخل ہوئی۔

ٹھیک اسی عشرے میں یعنی  ۱۹۷۸؁  کو نائیجیریا میں انجمن اسلامی  سورہ نائیجیریا کا سیکرٹری جنرل   شیخ ابراہیم زکزاکی کو منتخب کیا گیا ۔شیخ ابراہیم زکزاکی مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے،وہ ۱۹۸۰؁ میں ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایران آئے،ایران میں ان کی ملاقات دوسری مرتبہ  امام خمینیؒ سے ہوئی،اس سے پہلے وہ پیرس میں بھی امام ؒ سے ملاقات کرچکے تھے،اس دوسری ملاقات  سے ان کی زندگی اور افکارو نظریات میں بھی ایک انقلاب برپاہوا، واپسی پر۸۰ کی  دہائی میں ہی انہوں نے ایک اور تنظیم  انجمن اسلامی کی بنیاد رکھی،انجمنِ اسلامی کی بنیاد کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنا اور دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرنا تھا۔مسلمانوں کی وحدت اور دشمن شناسی کے پرچار کے باعث  ،عیسائیت ،وہابیت اور صہیونیت کی مثلث ان کی  تاک میں لگ گئی۔

مسلمانوں میں بیداری اور وحدت کی تبلیغ،خصوصاً مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانےکے باعث  انگلش،ہسپانوی،عربی ،فارسی اور ہداسائی جیسی زبانوں پر مسلط اس مسلمان لیڈر کو اب تک  ۹ مرتبہ جیل میں ڈالا گیا ہے،آخری مرتبہ شیخ کو۱۹۹۶ میں گرفتار کرکے ۱۹۹۸ میں رہاکیاگیا۔

لوگوں کو اسلام سے متنفر کرکے عیسائی بنانے کے لئے ۲۰۰۲میں بوکوحرام کی بنیاد ڈالی گئی۔شیخ نے تمامتر مشکلات کے باوجودشعور و بیداری کا سفر جاری رکھا ,وقت کے ساتھ ساتھ بوکوحرام جیسے ٹولے عوام النّاس میں متنفر ہوتے گئے اور شیخ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔”شیطانی مثلث” کے ایجنڈے کے مطابق بوکوحرام نے بچوں کو قتل کر کے،عورتوں کو اغوا کرکے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہاکر اسلام کو بدنام کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ شیخ کی شخصیت کے باعث ناکام ہوگیا۔

لوگ بوکوحرام کے بجائے شیخ کو اسلام کا ماڈل سمجھنا شروع ہوگئے،لوگوں کی اکثریت نے بلاتفریق مذہب و مسلک شیخ کی آواز پر لبّیک کہنا شروع کردیا ،شیخ کی عوامی مقبولیت کے باعث  اسلامی اتحاد کو بھی فروغ ملا اور یوم القدس کو بھی  مسلمان مل کر بنانے لگے۔ہر سال یوم القدس کی شان و شوکت  میں اضافہ ہونے لگا اور یوم القدس کے پروگراموں میں تمام اسلامی مسالک کے نمائندے بھرپور شرکت کرنے لگے۔

دوسری طرف ““شیطانی مثلث” “کے پالتو درندے” بوکوحرام “کے نام سے فقط درندگی تک محدود ہونے لگے اور شیخ زکزاکی حقیقی اسلام کی نمائندگی کرنے لگے۔چنانچہ گزشتہ سال یوم القدس کے موقع پر شیخ کے تین بیٹوں  سمیت  تقریبا تیس سے زائد افرادکو شہید کیاگیا۔۲۰۱۴ میں یوم القدس کے موقع پر ہونے والی  شہادتوں کے ذریعے  “شیطانی مثلث” نے عالمِ اسلام کی بے حسی اور بے خبری کا اندازہ لگایا اور اس سال شیخ کی بیداری اور شعور کی لہر کو کچلنے کے لئے  بھرپور حملہ کیا ۔

یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا،شیخ کے  باقی رہ جانے والے بیٹے اور بیوی سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا جبکہ شیخ کو زخمی حالت میں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

بالکل وہی درندگی جو  نائیجیریا میں بوکوحرام کے کارندے کرتے ہیں  ان کے آقاوں  نے بھی کی۔ اب ان ظالم  درندوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ   ظلم کی رات  چاہے کتنی  ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرورہوتا ہے۔

جب تک دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے طالبان،داعش اور بوکوحرام جیسے گروہ بنائے جاتے رہیں گے،زکزاکی بھی جنم لیتے رہیں گے۔دنیا کب تک دھوکہ کھائے گی ،میڈیا کب تک خاموش رہے گا،انسانی حقوق کے ادارے کب تک بے حسی کا مظاہرہ کریں گے۔۔۔بالاخر شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا ۔۔۔ضرور رنگ لائے گا
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟؟
کبھی تو آغاز باب ہو گا۔۔۔
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی،،
کبھی تو انکا حساب ہوگا۔۔۔۔
سکون صحرا میں بسنے والو۔۔
ذرا رتوں کا مزاج سمجھو۔۔
جو آج کا دن سکوں سے گزرا۔۔
تو کل کا موسم خراب ہو گا۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ۔۔۔ کل کا موسم ظالموں کے لئے خراب ہوگا۔۔۔۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک شخص نے نورِ مجسم،خاتم المُرمسلین ،رحمتُ اللعالمین حضر محمدؐ سے بہت اصرار کیا کہ آپ ؐ ایک نصیحت فرمائیں۔آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں کہوں تو اُس پر عمل کروگے تو اُس شخص نے جواب دیا ہاں اے رسولِ خُدا ضرور عمل کروں گا تین بار حضور پاک نے اُس شخص کو سوال کے مطلب کی اہمیت واضح کرنے کی غرض سے یہی سوال دُہرایا اور اُس شخص نے تینوں بار ہاں میں جواب دیا تب حُضور پُر نور نے فرمایا ’’ کسی کام کے ارادے سے پہلے اُس کے نتیجے اور انجام کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو اگر اس کا انجام گُمراہی اور تباہی ہے تو اپنے ارادے سے باز رہو‘‘کس قدر ستم ظریفی ہے کہ مُسلم اُمہ نے اپنی نادانی اور اسلام دشمن قوتوں کی مکاریوں اور چالبازیوں سے مذہب اور مسلک کے نام پر قتل وغارت گری اور فتنہ و فساد کی راہ اپنا لی اور قرآن و سُنت کو یکسر نظر انداز کردیاجس کی وجہ پیشتر مسلم ممالک کی سرپرستی و قیادت اسلامی تعلیمات سے نا آشنا اقتدار اور دولت کے ہوس میں ڈوبے مغربی ممالک کے آلہ کاروں کے ہاتھوں میں ہونا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک دُنیا بھر کے مسلمان قرآن و سُنت پر عمل پیراہوتے ہوئے تمام تفرقات و تعصبات سے بالاتر ہوکر اللہ کی رسی کو تھامے رہے دُنیا پر مسلمانوں کی نہ صرف حکومت رہی بلکہ سائنسی وطبی ایجادات ، علم و آدب فنون لطیفہ پر بھی مسلمانوں کاہی غلبہ رہالیکن جب سے مسلمان قرآن وسُنت سے دوری اختیار کرتے ہوئے تفرقات و تعصبات کا شکار ہوئے مسلم اُمہ پستی اور زوال کی طرف چلی گئی یوں اج کوئی بھی اسلامی مُلک ایسا نہی جو ظلم و بربریت اور ذلت کا شکار نہ ہو۔جنت نظیر کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی بُنیوں کے مظالم جاری ہیں تو قبلہ اول فلسطین اسرائیلی یہودیوں کے مظالم کا شکار ہیں کبھی بوسنیا کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے تو کبھی نائیجریا کے مسلم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں افغانستان،شام،بحرین ،عراق اور دیگر کئی ممالک کے مسلمان طویل عرصے سے جنگ وجدل میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں ۔حیر ت کی بات یہ ہے کہ مرنے والے بھی مُسلمان اور مارنے والے بھی بظاہر مسلمان ہی ہیں لیکن دُنیا بھر میں دہشت گرد گرہوں اور عسکری گروپوں کی سرپرستی رہنمائی اور ،مالی و جنگی ساز و سامان کی معاونت کرنے والا امریکہ اور اُس کے اتحادی مسلم اُمہ کی بے حسی اور ذلت پر خوب تماشا دیکھ رہے ہیں ۔موجودہ عالمی امن و عامہ بلخصوص اسلامی ممالک میں جاری جنگ وجدل کے پیشِ نظر سعودی عرب کی سرپرستی میں 34ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس میں کئی دیگر اسلامی ممالک شریک نہیں۔جہاں 57اسلامی ممالک کی تنظیم ’’آرگنائزیشن آف اسلامی کنٹریز‘‘ (OIC) مسلم اُمہ کی رہنمائی کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئی اور 22عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ خود عرب ممالک پر جاری مظالم کو روکنے میں نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ عرب ممالک پر جاری مظالم میں خود عرب لیگ اپنی ناقص حکمت عملی اور مختلف تعصبات کے پیشِ نظر شریکِ جُرم رہی ہے۔ ایسے میں فرقوں کی بُنیاد پر بننے والے34اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد سے پہلے ہی تفرقات و تعصبات میں بھٹی ہوئی مسلم اُمہ مذید مُنتشر ہوکر تباہی و بربادی کی طرف جاسکتی ہے۔مملکتِ عزیز پاکستان جو اسلامی دُنیا کا قلعہ کہا جاتاہے او ر ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اسلامی دُنیا کے لئے اُمید کی کرن سمجھا جاتا ہے جب کبھی مسلم ممالک کے مابین تنازعات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں پاکستان نے ایک بھائی کی حثیت سے دو بھائیوں کے درمیان ثالثی میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے لیکن کہاجارہاہے کہ سیاسی قیادت 34اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں شریک ہونے کی تاریخی غلطی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان خود ایک طویل عرصے مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے اور اندرونی و بیرونی سطح پر حالت جنگ میں ہے ایسے میں اس طرح کی غلطی سے مُلک مذید انتشار کا شکار ہوگا اور بیرونی دُشمن کو بھی موقع ملے گا ۔سیاسی قیادت کو چاہئے کہ وہ عسکری قیادت اور تمام اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لے کر اہم فیصلے کرے اس وقت انتشار کی شکار مُسلم دُنیا کو مملکتِ عزیز پاکستان سے بڑی اُمیدیں اور توقعات وابستہ ہیں ۔پاکستان کو مسلم ممالک کے مابین ثالث کے کردار کے علاوہ کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کسی طور زیب نہیں دیتا ایسا کرنے سے کسی مسلمان مُلک کا مفاد حاصل کسی طور نہیں ہوسکتا ہاں اگر فائدہ ہوگا تو امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل کو ہوسکتا ہے۔پہلے ہی ہم کسی اور کی جنگ کو خود پر مسلط کرنے کی غلطی کی سزا بُھگت رہے ہیں مذہد کوتاہیاں ہمارے لئے ذلت اور رُسوائی کا سبب بنیں گی۔


تحریر:شجاع بلتستانی

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانيت كی تاريخ پر اگر نگاه ڈاليں تو وہ آپ کو جنگ و جدال كے واقعات سے بهری نظر آئے گی۔ انسان كے دل ميں اگر خوف خدا نہ رہے اور اسكے پاس قوت و قدرت كے وسائل اکٹھے ہوجائيں تو وه سركش، ظالم اور باغی ہو جاتا ہے۔ تاريخ نے وه ادوار بهی ديكهے، جب يہ ناتوان انسان غرور و تكبر ميں اتنا آگے بڑھ گیا كہ "انا ربكم الاعلى" كا دعویٰ كر ديا۔ ليكن تاريخ نے جب اپنا رخ بدلا تو نہ نمرود رہے، نہ فرعون، سب خس و خاشاک كی طرح بہ گئے۔ كائنات كے خالق حقیقی نے انہيں فتنوں سے اپنے بندوں كا امتحان بهی ليا اور حق و باطل كے ان معركوں ميں مختلف افراد اور گروہوں كی حقيقت اور اصليت عياں ہوتی گئی كہ كون حق كے ساتھ ہے، كون ظلم و جور اور طغيان كا ساتھ دينے والا ہے اور اپنی ذاتی اور وقتی مصلحتوں كے عوض اپنی توقير و اقدار اور دين کا سودا كرتا ہے۔ جارحيت كا جواز باغيوں نے كبهی نسل و قوم و ملت كی بالادستی قرار ديا تو كبهی دين و مذہب كا غلبہ۔

آج ايک بار پهر عالم مشرق ميں جہان زياده آبادی مسلمانوں كی ہے، وہاں پر مغربی استعماری قوتوں نے اپنے پٹھو حكمرانوں كے ذريعے ايک خوفناک مذہبی جنگ كا نقشہ كهينچا ہے اور وه چاہتے ہیں كہ اسكا ايندھن خطے كے شيعہ اور سنی مسلمان ہوں۔ ايک طرف امريكہ، غرب، اسرائيل اور انكی سياست پر عمل كرنے والے خطے كے ممالک ہیں، جنہوں نے مذہبی جنونيت، تكفير اور طاقت و غلبہ كی روايات كو جنم بخشا ہے۔ دوسری طرف مزاحمت اور مقاومت كا بلاک ہے، جسے صیہونی و امريكی بالادستی گوارا نہیں اور يہ بلاک وسائل كی قلت كے باوجود حكمت و برداشت، صبر و تحمل اور لاجک و منطق سے فقط مقابلہ ہی نہیں كر رہا بلكہ اس كی مقبوليت اور طاقت ميں اضافہ ہو رہا ہے، كيونكہ اس مقاومت كے بلاک كا محور و مركز ايران ہے۔ مكار دشمن نے طے كيا ہے كہ اس کا مقابلہ مذہبی فتنوں سے كيا جائے اور ارض مقدس حجاز پر مسلط كرده خاندان كہ جنہوں نے امريكہ اور غرب سے وفاداری اور اسرائيل كی قيام و حفاظت كی ذمہ داری كے عہد پر حكومت حاصل كی ہے، وه اس وقت سالانہ اربوں اور كهربوں ڈالرز فتنہ تكفير پر خرچ كر رہے ہیں اور متشدد مذہبی جنونی لشكر جہان اسلام ميں تشكيل دیئے ہیں، ليكن ظلم يہ ہے كہ الله تبارک و تعالٰى اور قرآن و اسلام کے نام پر دين اسلام كو بدنام اور مخلوق خدا كو بے دریغ ذبح كر رہے ہیں۔

اسلام كے دو مضبوط بازو اہل سنت اور اہل تشيع ہیں، يہ اسلام كے نام نہاد ٹهيكيدار تكفيری، مسلمانوں كو كمزور كرنے كيلئے اہل سنت كو مشرک اور اہل تشيع كو على الاعلان كافر كہتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں كی اكثريت اہل سنت ہیں، تو اس نومولود تكفيريت و سلفيت نے اپنے آپ كو اہل سنت كا نمائنده قرار ديا ہے، حالانكہ انكی تعداد حقيقی اہل سنت كے مقابلہ ميں بہت كم ہے۔ يہ بهی حقيقت ہے كہ پوري دنيا ميں پائے جانے والے نام نہاد جہادی اور دہشتگرد گروه اسے تكفيری اور سلفی سوچ کی ہی پيداوار ہیں۔ انہوں نے لیبیا ميں لاكهوں اہل سنت كو قتل كيا۔ شام كی 70% سے زياده آبادی اہل سنت كی ہے اور وہاں پر انہوں نے لاكهوں اہل سنت كو قتل كيا ہے۔ عراق و يمن ميں بهی مختلف اہل سنت كے علاقوں پر قبضہ حاصل كرنے كيلئے انہوں نے ہزاروں اہل سنت كو ذبح كيا۔ جب تک داعش شيعہ و سنی مسلمانوں كو قتل كرتی رہی تو امريكہ و غرب انكی حمايت كرتا رہا اور اسلحہ بهی ديتا رہا اور امريكہ نواز خليجی ممالک بهی ہر لحاظ سے انکی مدد كرتے رہے۔ جب حملہ فرانس پر ہوا اور مغرب و امريكہ تک دہشتگردی كی آگ کے شعلے پہنچے تو جان كيری نے آل سعود كے لئے فرمان جاري كيا کہ "داعش اور ہمارے ہر مخالف ملک كے خلاف ايک اسلامی اتحاد بنايا جائے۔"

سعودی حكمرانوں نے اس اتحاد كی تشكيل كے لئے اسلامی ممالک كا اجلاس بلانے كی بهی تكليف گوارا نہیں كی اور 34 اسلامی ممالک كے اتحاد كا اعلان كر ديا۔ اگر يہ اتحاد واقعاً داعش كے خلاف بنايا گیا ہوتا تو وه ممالک جو اس وقت عملی طور پر داعش سے لڑ رہے ہیں، انكو بهی دعوت دی گئی ہوتی، ليكن یہ اتحاد تشکیل دینے والوں کا مقصد جنگ كا خاتمہ نہیں بلكہ اس جاری جنگ كو طول دينا ہے۔ اسی لئے تو امريکہ نے اعلان كيا كہ يہ اتحاد ہماری توقعات کے عین مطابق ہے۔ دوسری طرف مصر كے مشہور اسكالر اور رائیٹر محمد حسنين هيكل نے تعجب كا اظہار كرتے ہوئے كہا كہ يہ كيسا اتحاد ہے كہ جس كے سب ممبران كے ظاہری پر يا باطنی طور پر اسرائيل سے تعلقات ہیں۔ اے كاش سعوديہ بيت المقدس كی آزادی اور مظلوم فلسطينی عوام كے لئے اسرائيل كيخلاف اتحاد كا اعلان كرتا۔ اے كاش يمن میں بيگناه عوام كے قتل اور اس ملک پر چڑھائی كی بجائے صیہونی حكومت پر چڑھائی كرتا، اے كاش داعش، القاعدہ و طالبان سميت مسلح گروہوں كی بجائے فلسطينی جہادی گروہوں كو جديد ترين اسلحہ ديتا اور ان کی مالی مدد كرتا۔

بين الاقوامی ميڈيا ميں يہ خبر بهی عام ہوچکی ہے كہ يہ اسلامی ممالک كا اتحاد نہیں ہے بلكہ امريكہ كے کہنے پر سعوديہ نے سنی ممالک كا اتحاد بنايا ہے۔ اسی لئے ايران و عراق و شام كو اس اتحاد سے خارج رکھنے كا اعلان كيا ہے۔ اس اتحاد سے ان تمام اسلامی ممالک ميں جہاں اہل سنت كے مختلف مذاہب اور اہل تشيع اکٹھے زندگی بسر كر رہے ہیں، وہاں پر ايک نيا فتنہ جنم لے گا۔ مثلاً پاكستان ميں اكثريت اہل سنت كی ہے، ان میں بهی بهاری اكثريت بريلوی اور صوفی مذهب كے ہيروكاروں كی ہے اور وه كبهی بهی آل سعود اور سلفيت و وہابیت کو  قبول نہیں كرتے۔ پھر مسلمانوں كی دوسری اكثريت اہل تشيع ہیں، جنکے خلاف لڑنے کے لئے يہ اتحاد بنايا گيا ہے تو باكستان کی اكثريتی عوام اس کی ہرگز حمايت نہیں كرسکتی۔ پاكستان ايک اسلامی ریاست ہے، شيعہ اور سنی ریاست نہیں، اور نہ ہی اسے بانيان نے اسے شيعہ یا سنی اسٹیٹ بنايا تها۔ حكومت پاكستان كو اس اتحاد ميں شامل ہونے يا نہ ہونے پر بہت غور و فكر اور تامل كرنا ہوگا۔ وزارت خارجہ كے متضاد بيانوں ميں سنجيدگی نظر نہیں آرہی اور حكمرانوں كو معلوم ہونا چاہیئے كہ پاكستانی عوام پاكستان كو اسلامی جمهوريہ پاكستان ہی ركهنا چاہتی ہے، نہ كہ سنی پاكستان اور نہ شيعہ ہی پاكستان۔ اگر كوئی گروه آج اپنی سياسی و عسكری طاقت کے گھمنڈ ميں آکر پاكستان كو ڈی ٹریک كرنا چاہے گا تو وه اس مادر وطن سے تاريخی خيانت كا مرتكب ہوگا اور اس سرزمين كے وفادار بیٹے ایسے لوگوں کو ہرگز معاف نہیں كريں گے۔


تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
 
تاریخِ بشریت پر بچوں کے بڑے احسانات ہیں، حضرت مریمؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی گہوارے سے ایک بچے نے ہی دی تھی، جنابِ یوسف ؑ کی بے گناہی کا ثبوت ایک بچہ ہی بنا تھا، تیرہ رجب المرجب کو بیت اللہ میں ایک بچے کی ولادت سے دنیائے توحید میں اجالا ہوا تھا اور 61 ھجری میں باطل کو ابدی شکست دینے والا بھی ایک شش ماہہ بچہ تھا۔ گذشتہ روز سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کی پہلی برسی کے موقع پر قم المقدس میں ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی گئی۔ نشست کے دوران جب بچے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس اکیسویں صدی میں بھی انسان اتنا بے بس ہے اور انسانیت اتنی مظلوم ہے کہ انسان نما درندے کسی قانون یا ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

یمن، بحرین اور کشمیر و فلسطین میں بے کس خواتین، کم سن بچوں اور ضعیف العمر افراد کو کھلے عام درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، شام اور سعودی عرب میں بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، پاکستان و افغانستان میں پرامن لوگوں کو دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے، مقامی سیاست سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک کمزوروں کا خون چوسا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی طور پر کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آرہا۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہی پوری دنیا میں کشت و کشتار کے سارے نیٹ ورکس کو بھی چلا رہے ہیں اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی دوغلی پالیسی  ہے، وہی ان کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے بھی اپنا رکھی ہے، ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد ایک طرف تو نہتے انسانوں اور بچوں کا قتلِ عام کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے آپ کو مسلمان اور مجاہد اسلام بھی کہتے ہیں۔

مجھے اس وقت بہت عجیب لگا، جب میں نے ایک بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے نبیﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے، بچوں کو چومتے تھے اور جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں، وہ گندے لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں ہمارے بچے بالکل ٹھیک سمجھے ہیں کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہوتے ہیں، اس وقت ہمارا وطنِ عزیز گندے لوگوں میں گھرا ہوا ہے، ہم نے مل کر ہی اپنے ملک کو ان گندے لوگوں سے پاک کرنا ہے۔ ہر سال سولہ دسمبر  کو ننھے منّے شہیدوں کا مقدس لہو ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ گندے لوگوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ گندے لوگ، ملک، ملت اور دین و مذہب سب کو گندہ کر دیتے ہیں۔
 


تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک زمانہ تھا کہ جب انسان جہالت، بدبختی و گمراہی کے گھپ اندھیروں میں گم تھا۔ آنکھیں رکھنے کے باوجود وہ کبھی اس دیوار تو کبھی اس دیوار سے ٹکراتا تھا۔ عین اسی وقت چند افراد اٹھے اور  انھیں چند نے ایک ایسی ملت کو تشکیل دیا کہ جس کے نقش ہزاروں سال دنیا کے سینے پر ثبت رہے اور آج بھی باقی ہیں۔ کل کی طرح آج بھی زمانہ انھیں افراد کو امتِ اسلامیہ  کے نام سے جانتا ہے۔ یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ جب ملّتیں  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں یعنی وہ اصول، ضوابط و اخلاقی اقدار کہ جن پر ان کی بناء تھی، ان میں بگاڑ آنے لگے تو تاریخ گواہ ہے کہ پھر بھی چند افراد نے ہی آکر ان کی گرتی ہوئی اقدار کو سہارا دیا۔ اپنے زور ِبازو و زور ِعمل سے ان اصولوں کو قائم رکھا کہ جن کی بدولت انھوں نے عزّت کے آسمانوں میں پرواز کرنا سیکھا تھا کہ واقعہ کربلا جس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی اپنے اشعار میں یہ کہتے ہیں کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقّدر کا ستارہ
یعنی قوم و ملت کا اتار، چڑھاؤ  افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ ہر فرد کو ملّت میں ایک درخشاں ستارے کی اہمیت حاصل ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
فردِ قائم ربط ِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، بیرونِ دریا کچھ نہیں

یعنی ایسے افراد کہ جو قوم و ملّت کے رابطے سے خارج ہوں، وہ ہرگز سود مند نہیں ہوتے بلکہ ملت کے وہی افراد مفید و کار آمد ثابت ہوتے ہیں کہ جو ملّت کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہوں۔ اسی طرح  جب ملّت کا ہر طبقہ دوسرے طبقوں کے ساتھ مضبوط رابطے میں ہوگا تو ملّت کے جسم کا کارآمد جزء ثابت ہوگا وگرنہ نہیں۔ بالکل اسی طرح اگر معاشرے میں موجود تمام اصناف  کے افراد کا دِقت سے مطالعہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ معاشرے میں شہید ایک ایسی صنف ہے کہ جسے باقی تمام اصناف میں تغمہءِ امتیاز حاصل ہے، کیونکہ اس صنف کے افراد کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے کہ جو ہمیشہ اپنی جان کا نذرانہ  دے کر بے جان و بے روح ملّت کو تازہ دم کرتے ہیں۔ زمانے میں یہی وہ افراد ہیں کہ جنہوں نے اپنے زور بازو و عمل سے ہمیشہ ملّت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچایا ہے۔ شہید وہ افراد ہیں کہ جو ملّتیں تشکیل دیتے ہیں ، جو قوموں کو ان کی کھوئی ہوئی عزّت و عظمت واپس دلاتے ہیں۔

اگر 61 ھجری میں ملّت اخلاقی گراؤ و تنزلی کا شکار ہو کر مرجھا جائے اور اس میں زندگی کی رمق باقی نہ رہے، تب بھی ہمیں 72 شہداء ہی نظر آتے ہیں کہ جو ملّت کی حیات کے لئے اپنی زندگی   ملّت کو تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی طرح اگر 2014ء جیسے ماڈرن دور میں ملّت پاکستان نہ صرف یہ کہ  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے بلکہ اس حد تک کہ بالکل اندھی، بہری و گونگی ہوجائے کہ جو ہر روز ظلم کے سورج کو ایسے دیکھے کہ گویا اس کو دیکھائی ہی نہ دیتا ہو، مظلوم کی چیخ و پکار کو ایسے سنے کہ جیسے اس کو سنائی ہی نہ دیتا ہو اور ظالم کے ظلم پر ایسا سکوت اختیار کرے کہ گویا اس کو بولنا آتا ہی نہ ہو۔ جب ملّتیں و افراد اس حد تک گر جائیں کہ انسان، شناختِ انسان کھو بیٹھے، تب جا کر انھیں ایک ایسے ہی گروہ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو اپنے معصوم و پاکیزہ خون کے چھینٹوں سے سوئی ہوئی و مردہ قوم میں زندگی کی ایک نئی امید جگائیں۔ تب جا کر ہمیں پشاور کے ان ننھے پھولوں کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو اپنے خون کے قطروں سے شبنم کا کام لیتے ہوئے مرجھائی ہوئی قوم میں تازگی پیدا کریں۔

16 دسمبر ملّت پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 16 دسمبر ملّت پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ 16 دسمبر ملّت پاکستان کو دو بڑے سانحات کی یاد دلاتا ہے۔ 16 دسمبر کو پشاور کی سرزمین پر بہایا جانے والا ان معصوم بچوں کا خون پوری ملّت پاکستان سے کچھ ذمہ داریوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ظلم کے خلاف مبارزے کی ذمہ داری ، سکوت توڑنے کی ذمہ داری، اپنی صفوں میں اتحاد و ؤحدت کو برقرار رکھ کر دشمن کے خلاف ایک ہونے کی ذمہ داری، کیونکہ آج خود یہ واقعہ اور اسی طرح سرزمین ِجنوبی ایشیاء میں سکولوں پر ہونیوالے ایک ہزار 2 سو 59 حملوں میں سے تقریباً 836 کا پاکستان سکولوں پر حملہ ہونا، اس بات کا کھلا و واضح ثبوت ہے کہ آج دشمن ہم سے زیادہ خوف زدہ ہے اور ہمارے شاہین دشمن کی آنکھوں میں تیر کی طرح چْبھ رہے ہیں۔ لہذا یہاں ہماری ذمہ داری خوف سے ڈر کر گھر بیٹھنا نہیں بلکہ پہلے سے خوف زدہ دشمن کہ جو اب بوکھلاہٹ کا بھی شکار ہے، کے خلاف میدان عمل میں آنا ہے۔

ہم پشاور کے ان ننھے بچوں کے خون کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جن کے پاکیزہ خون نے  ملّت پاکستان کی رگوں میں شعور اجاگر کیا، مگر ساتھ ساتھ افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح شہداء نے اپنی ذمہ داری کو انجام دیا، اس طرح ہم اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے سکے۔ ہم نے کل بھی 16 دسمبر سے سبق نہ سیکھا اور آج بھی اس کو ایک فراموش پہلو بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں میرے ایک فاضل دوست نے 16 دسمبر کو بہت اچھے انداز میں یاد کیا اور بھارت جیسے دشمن کی طرف توجہ تو دلائی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے جو سبق ہمیں ملتا ہے، یا آئندہ جو ذمہ داریاں ملّت پاکستان کے کاندھوں پر عائد ہوتیں ہیں، ان کو بالکل نظرانداز کیا۔ فاضل دوست کے مطابق آج ہمیں 45 برس گزر گئے مگر ہماری بے حسی کی انتہاء ہوگی کہ  ہمیں احساس بھی ہوا تو نریندر مودی کے کہنے سے۔ آیا ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر بقول اقبالؒ یہ مردہ قوموں کی علامت ہے،اقبال ؒ اس بارے میں کہتے ہیں کہ
ہے یہی نشاں زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

دوسری بات یہ کہ آج صرف ملّت پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام امت مسلمہ نے ان اصولوں و ضوابط کو پس ِ پشت ڈال دیا ہے کہ جن سے قومیں عظمت و سربلندی کے راستے طے کرتیں ہیں۔ آج ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ تو ضرور ذکر کرتے ہیں کہ برطانیہ و فرانس نے اپنے مفاد کی خاطر سلطنت عثمانیہ جیسی عظیم اسلامی سلطنت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، مگر ہماری توجہ ان عوامل، اسباب و اس خاندان سے ہٹ جاتی ہے کہ جس کی مدد کے بغیر یہ کام ممکن نہ تھا اور نہ صرف یہ کہ ہم اس خاندان ِ آل سعود کو بھول جاتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ آج یہ غدار و غاصب خاندان امت اسلامیہ کی لیڈنگ کا دعویدار ہے۔ آج امت اسلامیہ کو سوویت یونین کا ٹکڑے ہونا تو نظر آتا ہے مگر اسی سوویت، افغانستان،  عراق، بحرین، شام و یمن میں موجودہ اسلامی اقدار کی دھجیاں اْڑتی ہوئی نظر نہیں آتیں، کیونکہ ہم نے اپنے و اپنے آقاؤں کے مفاد کے پیش نظر ایک طرفہ اصولوں کو اپنایا ہوا ہے۔

1971ء میں تو مشرقی پاکستان میں مسلمان بنگالی ہندؤں کے نوکر و قرضدار تھے۔ ان کے تعلیمی اداروں پر ہندؤوں کا قبضہ تھا۔ نصاب ایسا تھا کہ جس میں دو قومی نظریئے کی نفی تھی مگر ہم نے مسلسل اپنی غفلت و بے حسی کی طرف دھیان نہ دیا۔ یہاں تک کہ 16 دسمبر نے ہمارے منہ پر ایک ایسا طمانچہ مارا کہ جس کی شدّت سے ملّت پاکستان کچھ دیر کے لئے سونا گویا بھول سی گئی۔ ملّت پاکستان میں کچھ عرصے کے لئے بے چینی و اضطرابی کی لہر دوڑی مگر آہستہ آہستہ  لہو پھر سرد ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ملّت پاکستان نے اپنی اس غفلت کو ایسے بھلایا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ آج ایک بار پھر میرا ملّت پاکستان سے سوال ہے کہ کیا ہم نے کل کے 16 دسمبر سے عبرت لی؟ کیا آج پھر ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود ذہنی غلامی کا شکار نہیں۔؟ کیا آج پھر ہمارے تعلیمی ادارے و تعلیمی نظام مغرب کے زیرِ اثر نہی۔؟ کیا آج پھر ہمارے نصابِ تعلیم کا تعین ہمارا دشمن کرتا ہے، کیا آج پھر ہم اپنے شاہینوں کو خاک بازی کا درس نہیں دے رہے۔؟ کیا آج ہمارے پاس ہماری خودی موجود ہے۔؟ ہمیں ہر سال 16 دسمبر کو شہید بچوں کے مزاروں پر جاکر اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم نے آج اپنے دشمن کو نہ پہچانا تو شاید کل کا طلوع ہوتا سورج ہم نہ دیکھ سکیں۔
 


تحریر: ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) اقوام کو حادثات اور سانحات سے  بچانے کی تدابیر دانشمند اور مفکرین  کیا کرتے ہیں۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

بالکل اسی طرح کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے،اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اور دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان کی شہ رگ کو آج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی پہن کر پاکستانی سیاست کے افق پر چمکا۔

اس نے اپنے گیارہ سالوں میں اٹلی کے میکا ویلی کی طرح ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیادیں فراہم کیں۔اٹلی کے میکا ویلی کا کہنا تھا کہ

"سیاست کا دین اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں" ۔

چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

 سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

 اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوں کی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

 "سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔

موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا، کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے شریعت آرڈیننس،زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ  نے بھی کیا تھا۔

 یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

 اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

گزشتہ سال ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴کو  انہی دنوں میں ضیاالحق کے نظریاتی  پیروکاروں نے  پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے

9 اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا  ایسا دردناک با ہے جو ہمیشہ ہمارے دانشمندوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا۔

اس سانحے کا جتنا ذمہ دار ایک فوجی جنرل ہے اتنے ہی وہ سول مفکرین اور سیاستدان بھی ہیں جو ضیاالحق کو اپنا پیرومرشد  کتے چلے آرہے ہیں اور یا جنہوں نے کبھی ضیائی فکر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دیگر واقعات کی طرح اس سانحے کے ذمہ دار بھی ضیائی کیمپ کے تربیت یافتہ ہیں۔

۱۶ دسمبر کا سانحہ ہماری آرمی کو بھی اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ جب تک اس ملک کی کلیدی پوسٹوں اور عسکری اداروں میں ضیاالحق کے مقلدین موجود رہیں گے،ایسے سانحات کو نہیں روکا جاسکتا۔

کسی حساس مزاج شاعر کے بقول

پھولوں کا اور کلیوں کا

چمن میں خوں کیا ہے جنہوں نے

درندہ کیسے کہہ دوں ان کو

کہ اتنے زیادہ ظالم تو

درندے بھی نہیں ہوتے

 

 

 

!

منابع

بادشا،نکولومیکاویلی،مقدمہ،مترجم محمود حسین ·

 جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

 ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

 · جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

 · اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

 ·بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

 ·اسلوب سیاست،خطبات علامہ عارف حسین الحسینی

 

 

 


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree