وحدت نیوز(آرٹیکل)اہم نکات
1. ایران اور اسرائیل کی جنگ کشور کشائی یا مادی مفادات پر مبنی نہیں، بلکہ دینی اور قرآنی بنیادوں پر ہے۔ اسرائیل قبلۂ اول، مسجد اقصیٰ اور سرزمین انبیاء پر قابض ہے، یہی اس معرکے کا محرک ہے۔
2. ایران کی قیادت ایک فقیہ و دینی رہنما کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا اسلامی اصولوں اور جنگی آداب کی مکمل پاسداری کی جا رہی ہے۔ ایران کی کوشش ہے کہ عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے، جبکہ اسرائیل نے زیادہ تر حملے شہری آبادی پر کیے ہیں۔
3. ایران گزشتہ 40 سال سے ایسے حالات کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کا مقابلہ امریکہ اور اسرائیل جیسی عسکری اور ٹیکنالوجی طاقتوں سے ہے۔
4. اس جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا، اور اب ایران کا دفاعی ردِ عمل اس کا قانونی، اخلاقی اور فطری حق ہے۔
5. عالمی اور علاقائی میڈیا (خصوصاً پاکستانی) جانب داری کا مظاہرہ کر رہا ہے، ایران کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر جبکہ اسرائیل کی تباہی کو چھپایا جا رہا ہے۔
6. اسرائیل نے میڈیا کوریج پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے، جبکہ ایران نے عالمی میڈیا کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
7. شخصیات کی شہادتیں اہم ہیں، لیکن ایران کا نظام افراد سے زیادہ اصولوں پر قائم ہے۔ امام خمینیؒ کی وفات اور منتظری کے انحراف کے بعد بھی نظام نے تسلسل سے ترقی کی ہے۔
8. ایران ایک شخصیت پرست بادشاہت نہیں، بلکہ ایک اصولی دینی نظام ہے۔ اگر سپریم لیڈر بھی شہید ہو جائیں تو نظام اپنی قوت کے ساتھ قائم رہے گا۔
9. فوجی وسائل اور جغرافیائی حدود کے اعتبار سے اسرائیل، ایران کے دارالحکومت تہران سے بھی چھوٹا ہے۔ لمبی جنگ اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
10. اس جنگ میں ایران کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیل کو ان کے اپنے اتحادی بھی جارح اور ظالم تصور کر رہے ہیں۔
11. نتن یاہو جیسے اسرائیلی لیڈر جنگ کے آغاز میں فرار کی راہ لیتے ہیں، جبکہ ایران کی قیادت میدان میں موجود ہے اور دو بار عوام سے خطاب کر چکی ہے۔
12. مادی وسائل میں اسرائیل کو فوقیت حاصل ہے، مگر ایران کو مظلوموں کی دعائیں، جہاد کا جذبہ اور عوامی حمایت حاصل ہے۔
13. ایران ماضی میں بھی بڑے چیلنجز کا سامنا کر چکا ہے، جیسے:
72 ارکانِ پارلیمنٹ کی شہادت
ایران-عراق جنگ
داعش کا قیام
یمن جنگ
ان سب میں ایران نے سرخرو ہو کر آگے بڑھا ہے۔
14. ایران میں ہر شناختی کارڈ ہولڈر ابتدائی فوجی تربیت یافتہ ہوتا ہے، اس لیے ایران کی پوری قوم جنگ کے لیے ذہنی، فکری اور جسمانی طور پر تیار ہے۔
15. ایران کی توجہ اب داخلی معاملات، سکیورٹی، اور انٹیلیجنس پر مزید مرکوز ہوگی، تاکہ اندرونی نقصانات سے بچا جا سکے۔
16. ہمسایہ اور دوست ممالک کا کردار اب تک منصفانہ رہا ہے، اور وقتِ ضرورت وہ دفاعی معاہدوں کے تحت ایران کی مدد کریں گے۔
17. اسرائیل مسلسل امریکہ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے، جبکہ ایران نے کسی ملک سے مدد کی درخواست نہیں کی۔ اگر کرے، تو 21 ممالک دفاعی معاہدوں کے تحت ایران کی مدد کے پابند ہیں۔
18. حزب اللہ، حماس، کتائب، حیدریون جیسے گروہ اپنی دفاعی پوزیشن پر مستعد ہیں، اور مرکزی حکم ملتے ہی صہیونی مفادات کو نشانہ بنائیں گے۔ ان کی ڈیوٹی دینی و نظریاتی ہے، کسی حکومت کے تابع نہیں۔
19. اس بار یمن کے انصار اللہ کی شمولیت نے ایران کی طاقت میں اضافہ کیا ہے، جو وقفے وقفے سے اسرائیلی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔
20. ایران کا فکری مرکز کربلا ہے، اس کا تعلیمی نصاب محرم اور اس کا سب سے بڑا استاد امام حسینؑ ہیں۔ یہی جذبہ شہادت، یہی روحِ کربلا ایران کی طاقت ہے۔
ہماری 20 ذمہ داریاں
1. حقائق کو بیان کریں اور میڈیا وار میں حق کا ساتھ دیں۔
2. مالی معاونت کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔
3. دعائیں کریں، خصوصاً سورۂ فتح، نصر، فیل، دعائے جوشن کبیر، توسل، زیارت آل یاسین۔
4. رہبر معظم کی رہنمائی سے استفادہ کریں۔
5. مایوسی نہ پھیلائیں، دشمن کے پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔
6. حالاتِ حاضرہ پر مکالمے اور نشستوں کا انعقاد کریں۔
7. احتجاجات اور انقلابی پروگراموں میں شرکت کریں۔
8. اپنی زندگی کو دینی اصولوں پر استوار کریں۔
9. شہداء کی سیرت کا مطالعہ کریں، جذبۂ شہادت پیدا کریں۔
10. نظام امامت و ولایت اور ولایت فقیہ کو سمجھیں۔
11. حضرات معصومینؑ خصوصاً حضرت زہراؑ اور امام مہدیؑ سے استعانت لیں۔
12. اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، لکھیں، بولیں، آگہی پھیلائیں۔
13. امریکی و اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
14. این جی اوز اور ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
15. محرم الحرام کو عصری چیلنجز کے تناظر میں زندہ کریں۔
16. محرم کو ذاتی و معاشرتی انقلاب کا ذریعہ بنائیں۔
17. غیر ضروری رسومات سے اجتناب کریں، فکرِ کربلا کو اجاگر کریں۔
18. دشمن شناسی کو فروغ دیں، حقیقی دشمن کو پہچانیں۔
19. اخلاقی بحرانوں کا مقابلہ کریں، کردار ادا کریں۔
20. روحِ کربلا، روحِ انقلاب اور روحِ ولایت فقیہ کو اپنی زندگی میں محور بنائیں
اختتامیہ
کربلا صرف ماضی کا ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہر دور کا زندہ پیغام ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے، اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تحریر: شیخ محمدجان حیدری
سکردو، بلتستان