کوئٹہ کا علاقہ ہزارہ ٹاون ایک مرتبہ پھر دھماکہ سے گونج اٹھا، آج ہونے والے خودکش حملہ کے نتیجے میں 28 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خودکش دھماکہ رات سوا آٹھ بجے کے بعد ہزارہ ٹاون کے علاقے علی آباد میں امام بارگاہ کے قریب کیا گیا، اس مقام پر نماز کے بعد کافی رش ہوتا ہے۔ دھماکے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 2 خواتین سمیت 28 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ 60 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ جن میں 15 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ دھماکے کے بعد علاقے کی بجلی بند ہوگئی اور شدید فائرنگ کی گئی۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، ایف سی اور پولیس نے امدادی اداروں اور میڈیا کے نمائندوں کو دھماکے کی جگہ پر جانے سے روک دیا جبکہ زخمیوں کو بولان میڈیکل کالج کا ایمرجنسی وارڈ بند ہونے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بیشتر زخمیوں کو سول اسپتال اور سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک برقع پوش حملہ آور نے امام بارگاہ کے قریب پہنچنے کی کوشش کی، جس پر اسے روکا گیا تو اس نے دھماکہ کر دیا۔ واقعے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے متاثرہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ دھماکے سے کئی مکانوں اور دکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کوئٹہ ہسپتالوں سے ڈاکٹرز اور نرسز غائب ہیں، جس کی وجہ سے زخمیوں کے علاج میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
دیگر ذرائع کے مطابق سی سی پی او کوئٹہ میر زبیر محمود نے کہا ہے کہ ہزارہ ٹاون میں امام بارگاہ مسجد ابو طالب کے قریب ہونے والےدھماکے میں اب تک 28 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں، جس میں نو خواتین اور تین بچے شامل ہیں، بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اتوار کی شب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سی سی پی او کوئٹہ نے مزید کہا کہ جاں بحق افراد کی لاشیں شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کی جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ خودکش حملہ آور کا سر اور دیگر اعضاء قبضے میں لے لیے ہیں۔ دھماکے میں جاں بحق افراد میں 3بچے اور نو خواتین بھی شامل۔ خودکش حملہ آور کے سائیکل پر دھماکے کی جگہ پہنچنے کی اطلاع ہے۔ فی الحال تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ خودکش حملہ آور موقع پر کیسے پہنچا۔ دھماکے سے کئی دکانوں اور مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ خود کش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ روکنے پر خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ دریں اثناء ادھر سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر درانی کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے سر سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ازبک ہے، اس حوالے سے مزید تحقیق جاری ہے۔