The Latest

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی نے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے بجٹ پرکہنا تھا کہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اعداد و شمار کے گورگ دھندوں میں پھنسا دیا ہے۔وفاقی بجٹ میں صحت اور تعلیم کے شعبے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیاہے،سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں موجودہ زبوں حال اور ہوش ربا منگائی کی تناسب سے اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہیں حکمران اپنے آخری سال میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے۔انہوں نے اعداد وشمار کا ہیرپھیر اور ملک کے متوسط طبقے کی مشکلات میں ناقابل برداشت اضافہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ انتہائی مایوس کن ہے۔مہنگائی کے موجودہ تناسب سے مطابقت نہ رکھنے والا یہ بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی طرح اقتصادی معاملات بھی صلاحیتوں کے فقدان کی نذر ہو رہے ہیں ۔تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں مختص کی جانے والی انتہائی کم رقم پاکستان کے مستقبل کے بارے حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہے ۔پاکستان ایک زرخیز ملک ہے لیکن زراعت کے میدان میں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔حکومت کی ناکام تجارتی پالیسیوں اور وطن عزیز میں عدم استحکام کی صورتحال نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔غیر ملکی قرضوں میں مذید اضافہ ہوا پاکستان کا کثیر سرمایہ غیر قانونی طریقہ سے ملک سے باہر منتقل کیا گیا جس سے ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔موجودہ حکومت نئی صنعتوں کے قیام میں بُری طرح ناکام رہی۔کسی بھی ملک کی ترقی میں انڈسٹری کو اقتصادی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ صنعتوں کے قیام میں نواز لیگ حکومت کی دانستہ عدم دلچسپی ایک مجرمانہ فعل اور قوم سے خیانت ہے۔پڑھے لکھے نوجوان طبقے کو ملازمتوں کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔جس سے عام شہریوں کی مایوسی میں اضافہ ہو ا ہے۔انہوں نے کہا کہ پورے بجٹ کا انحصار سی پیک منصوبے پر کرنے کی بجائے ملکی ترقی و استحکام کے لیے زرعی خوشحالی اور صنعتوں کے فروغ کی طرف توجہ دی جانے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے نوجوان وہاں کا اثاثہ اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو بہترین مستقبل دینے کے لیے جاندار پالیسیوں کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا مہنگائی کے تناسب کے اعتباز سے مزدور کی تخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو چاہیئے ۔وفاقی حکومت کی اصل ترجیحات سڑکوں اور پلوں کی تعمیرات کے نام پر کمیشن مافیا کو نوازنا مقصود ہیں،تھر کے پی کے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں غریب عوام کو پینے کی پانی سے لے کر بجلی، صحت کے بنیادی ضروریات،تعلیمی سہولیات تک میسر نہیں،اس بجٹ میں امرا ء کو نوازا گیا ہے نواز لیگ کا حالیہ بجٹ بھی سابقہ ادوار کی طرف مزدور کُش ہے۔ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر بجٹ تیار کرنے والوں کوعام آدمی کے رہن سہن کا اندازہ نہیں ہے۔

وحدت نیوز(ٹنڈومحمد خان) مجلس وحدت مسلمین ٹنڈو محمد خان  شعبہ یوتھ کیجانب سے منعقدہ وحدت ٹیپ بال کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل میچ یونٹ حسین خان لغاری یونٹ ٹنڈو سائینداد کے درمیان کھیلا گیا جسکے مہمان خاص صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل یعقوب حسینی تھے،یونٹ حسین خان لغاری نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بارہ اوورز میں یونٹ ٹنڈو سائینداد کو 114 رنس کا ہدف دیا یونٹ ٹنڈو سائینداد آٹھویں اوور میں ہدف مکمل ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم قرار پائی یونٹ ٹنڈو سائینداد کے طاہر 55 اسکور سے نمایاں رہے آخر میں دونوں ٹیموں کیجانب سے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری یعقوب حسینی کا پرجوش استقبال کرتے ہوئے پھولوں کے ہار پہنائے گئےبرادر یعقوب حسینی اور آرگنائیزنگ کمیٹی کیجانب سے انعامات تقسیم کئے ساتھ ہی یعقوب حسینی کیجانب جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو نقد انعامات  دئیے گئے ،جیتنے والی پوری ٹیم کو آرگنائیزنگ کمیٹی کیجانب سے علیؑ وارث کے لاکیٹ پہنائے گئے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرزمین حجاز ہمارے لئے انتھائی مقدس سرزمین ہے. اور یہ ہماری عقیدتوں کا مرکز بھی ہے لیکن اس مقدس سرزمین پر مسلط آل سعود کی حقیقت کیا ہے. کوئی بھی منصف مزاج شخص جب انکی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ماسوائے ظلم وبربریت ، قتل وغارت ، تباہی وبربادی کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا. جزیرہ عرب کے لاکھوں انسانوں کے خون اور جلتے ہوئے گھروں اور خیموں کی آگ سے تعمیر ہونے والی  اس مملکت سے حرمين شريفين كي حفاظت اور امت مسلمة كي حقوق كي پاسداری ممکن هی نهین. جب بیت اللہ الحرام ، مسجد نبوی كي حرمت اورجنت البقیع ،جنت المعلی ، کربلا معلی كا وجود انکے شر سے محفوظ نہیں رہ سکے ، تو پھر ان سے کسی مقدس چیز کی حفاظت کی توقع کیا کی جا سکتی ہے.
ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں اور منصفانه جائزه ليتے هين اور انڈیا کے ساتھ انکے تعلقات کی تاریخ قديم اور حاضر سے پردہ اٹھاتے ہیں.
انڈیا سعودی تعلقات کا جائزہ تین مراحل کی شکل میں لیا جا سکتا ہے.
پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک تقریباً 43 سال
دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک  تقریبا 35 سال
تیسرا مرحلہ 2000 سے 2017 تک  تقریبا  17 سال

پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک :

* 1932 جب سعودی ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن فیصل آل سعود نے حجاز مقدس یا جزیرہ عرب پر قبضہ کیا اور اسکا مقدس نام تبدیل کرکے اپنے خاندانی نام سے منسوب کرتے ہوئے سعودی عرب رکھا. تو جواھر لعل نہرو نے انکے اس کارنامے کی بہت تعریف کی اور انکی شجاعت ( لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام ) اور سیاسی بصیرت کو سراہا. یہیں سے آل سعود اور ھندو لیڈروں کے تعلقات کا سلسلہ شروع ہوا. اور نقطہ اتحاد یہ بھی تھا کہ آل سعود نے طاقت کے بل بوتے پر جزیرہ عرب کو متحد کیا اور کانگرس بھی ہندوستان سے جدا گانہ ملک پاکستان کا مطالبہ طاقت سے دبانا چاہتی تھی.
* مئی 1955 کو اس وقت کے سعودی ولی عہد ملک فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے انڈیا کا دورہ کیا. جو کہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی تھے. اور انھوں نے مضبوط دو طرفہ تعلقات اور تعاون کے اصول طے کئے.
* ان کے نیو دھلی دورے کے چند دن بعد ہی خود سعودی فرمانروا ملک سعود بن عبدالعزیز نے 17 دن کا انڈیا کا دورہ کیا. اور اس دورے میں وہ انڈیا کے نیو دھلی کے علاوه بمبئ ، حیدرآباد ، میسور ، شملا ، آگرہ اور علی گڑھ وغیرہ مختلف شہروں میں گئے. اور دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے.
*  1956  میں انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سعودیہ کا دورہ کیا اور انکا والہانہ استقبال ہوا. اور اسے جدہ اسٹیڈیم میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کر نے کا شرف دیا گیا یہ پروٹوکول اور شرف  کسی بھی غیر ملکی مہمان کو نہیں دیا جاتا تھا.
* اس کے بعد امریکہ اور روس کے ما بین کولڈ وار کا دور تھا. اور دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم ہوئی . انڈیا روس کے بلاک میں چلا گیا اور سعودیہ امریکی بلاک کا حصہ تھا اس لئے انکے تعلقات بھی کولڈ ہو گئے.

دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک:

امریکی بلاک میں ہونے کے ناطے سعودیہ کی پاکستان سے قربتیں بڑھیں.  بھٹو چونکہ روس کی طرف میلان رکھتا تھا اس لئے بھٹو اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص دیوبندی اور نام نہاد خلافت اسلامیہ کے ایجنڈے پر کام کرنے والی جماعتوں سے قربتیں بڑھیں. جب فوجی انقلاب کے ذریعے جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا اور سعودیہ کی نظریاتی طور پر ہم فکر جماعتوں کو بھی سیاسی عروج ملا تو پاکستان کے مستقبل کے لئے موسم خزاں اور وھابیت وتکفیریت کی بہار کا دور شروع ہوا .
اور دوسري طرف پاکستان سے قربت اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود انڈیا کے ساتھ سعودی تعلقات بدستور قائم  رہے.
* 1981 میں دونوں ملکوں کے ما بین اقتصادی اور ٹیکنالوجی تعاون کو بڑھانے کے لئے مشترکہ فورم بنا.
* 1982 کو انڈین وزیراعظم اندراگاندھی نے سعودیہ کا رسمی دورہ کیا
اور مندرجہ ذیل شعبوں میں انکے ما بین تعاون جاری رھا.
1- پاور اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون جاری رھا.
2- بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.
3- 1990 میں کولڈ وار کے خاتمے کے بعد اور دوسری خلیجی جنگ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا. اس کے بعد سعودی اور خلیجی ممالک میں خطرات کا احساس بڑھا. اس لئے انہوں نے اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے انڈیا سے تعلقات بڑھائے.  اور چند سالوں میں انڈیا سب سے زیادہ سعودیہ سے خام تیل کا خریدار بنا.

تیسرا مرحلہ  2000 سے 2017 تک

سعودی انڈین تعلقات کا عروج:  

یہ دور سعودی انڈین تعلقات کی بہار کا دور ہے. ان دونوں ممالک کے مابین اس وقت بہت قربتیں ہیں لیکن اس مرحلے پر روشنی ڈالنا اور پاکستانی عوام کو انڈین سعودی گٹھ جوڑ سے آگاہ رکھنا نہ ہماری حکومت کی اولویات میں شامل ہے اور نہ ہی ہمارا میڈیا اس پر شور مچاتا ہے. ہمیں انڈین ایرانی تعلقات تو نظر آتے ہیں لیکن انڈین سعودی تعلقات نظر نہیں آتے.
ہم یہاں ان پر روشنی ڈالتے ہیں.
انڈیا اور سعودیہ کے مابین سیاسی ،اقتصادی ،امنی اور دفاعی معاہدے ہیں.
انڈیا اپنی ضرورت کا 30% پٹرول سعودیہ سے خریدتا ہے جوکہ پانچ لاکھ بیرل روزانہ بنتا ہے. سعودی رپورٹس کے مطابق انڈیا انکا چین ، امریکا اور امارات کے بعد دنیا میں چوتھا بڑا بزنس پارٹنر ہے. وہ روزانہ پانچ لاکھ بیرل پٹرول سعودی عرب سے امپورٹ کرتا ہے. 2000 سے 2006 تک 68 انڈیا کی کمپنیاں سعودیہ میں کام کرتی تھیں. 2006 سے 2009 تک انکی تعداد 250 تک پہنچ گئی.  اور ابھی انکی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے. پاکستان کے ساتھ سعودی تجارت فقط 4.5 بلین ڈالرز سالانہ ہے - 2016 تک انڈیا اور سعودیہ کے مابین تجارت 150 بلین ڈالرز سالانہ ہے. بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.

سعودي سركاری وفود کے انڈیا کے دورے :

- 2005 کو سعودی وزارت پٹرولیم اور انڈین وزارت پٹرولیم کے ما بین مشترکہ تعاون کی کمیٹی تشکیل پائی.
- 2006 سعودی فرمانروا ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کا دورہ. از سر نو سعودی عرب اور ھندوستان کے تعلقات اس دورے سے بہت مضبوط ہوئے اور یہ دورہ بھارت کے یوم آزادی کی مناسبت کے ایام میں ہوا اور ملک عبداللہ نے اپنے خطاب میں انڈیا کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا.
اس کے بعد دو طرفہ تعلقات اور وفود کے تبادلے کا وہ دور شروع ہوا جو تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا. حتی کہ سعودی وزیر خارجہ جبیر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر ہرگز انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے. سعودی نمک خوار اور محب وطن ہونے کے دعویدار اسکا ذکر کبھی نہیں کریں گے.

سعودی وفود کے سرکاری انڈیا کے دورہ جات:

- سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے 2006 میں انڈیا کا دورہ کیا.
- فروری 2008 اور دسمبر 2008 میں سعود الفیصل نے انڈیا کے دو دورے کئے
-2006 اور 2008 کے درمیان دیگر مختلف سعودی وزراء جن میں وزیر عدل ، وزیر صنعت وتجارت ، وزیر پٹرولیم ومعدنیات ،وزیر صحت اور وزیر تعلیم نے بھی کئی ایک دورے کئے. اور اپنی اپنی وزارتوں کے متعلق امور پر دو طرفہ تعاون کے معاہدوں پر انکے اور انڈین وزراء کے مابین دستخط ہوئے.
- 15 ،16 جنوری 2009 کو سعودی انٹیلی جینس کے سربراہ امیر مقرن بن عبدالعزیز نے بھی انڈیا کا دورہ کیا.
- اپریل 2010 میں ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اعلی سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے انڈیا کا دورہ کیا.
- اگست 2009 اور نومبر 2010 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے انڈیا کا دورہ کیا.
- 28 مارچ 2011 کو سعودی فرمانروا کے خصوصی نمائندے کے طور پر امیر بندر بن سلطان نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے خصوصی ملاقات کی.
- فروری 3-5  2011 کو سعودی وزیر اقتصاد و منصوبه بندي نے انڈیا کا دورہ کیا اور اقتصادی تعاون کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی.
- فروری 2012 کو امیر عبدالعزیز بن سلمان بن عبدالعزیز وزیر پٹرولیم ومعدنیات نے انڈیا کا دورہ کیا.
- مارچ 2012 پہلی بار امام مسجد الحرام شیخ عبدالرحمن سدیس نے انڈیا کا پانچ روزہ دورہ کیا.
4-6 جنوری 2012 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے - 76 رکنی وفد کے ساتھ انڈیا کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کی مشترکہ صنعتی وتجارتی کونسل کے نویں اجلاس میں شرکت کی.
-30 اپریل 2012 کو امام مسجد الحرام شیخ خالد غامدی نے انڈیا کا دورہ کیا.
- سعودی مجلس شوریٰ کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد آل شیخ نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈیا سیاستدانوں اور پارلیمنٹرین سے ملاقات کی.
- 2015 کو سعودی وزیرخارجہ عادل جبیر نے انڈیا کا دورہ کیا اور بیان دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے.
- 2015 میں انڈیا کی فضائیہ کی مشقوں کو دیکھنے سعودی وزیر دفاع آئے.

انڈین سرکاری وفود کے سعودیہ کے دورہ جات.:

- اپریل 2008 کو انڈین وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- اپریل 2009 کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ ای. احمد نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 31 اکتوبر 2009 کو انڈیا کے وزیر مالیات پرناب مکھرجی نے دس رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے سعودیہ کا دورہ کیا. اور مشترکہ مالیاتی امور کی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی.
- 27 فروری 2010 کو انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا.
- 22 فروری 2011 کو انڈیا کے وزیر گیس وپٹرولیم نے سعودیہ کا دورہ کیا مشترکہ تعاون کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی.
- 26 مارچ 2011 کو انڈین وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 4 اپریل 2016 کو نریندرمودی انڈیا کے وزیر اعظم نے سعودیہ کا دورہ کیا اور اس کا بے نظیر استقبال ہوا. پاور ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صنعت وتجارت کے میدان میں معاہدے اور 400 انڈین کمپنیوں کو سعودیہ کی طرف سے پرمٹ دینے پر اتفاق ہوا.

انڈیا اور سعودیہ کے مابین امنی اور دفاعی تعلقات:
 
- 2009 میں دونوں ملکوں کے ما بین امنیتی اور دفاعی معاہدے ہوئے.  جن کی بنیاد پر جماعۃ الدعوۃ اور لشکر طیبہ پر سختیاں شروع ہوئیں.  سعودیہ نے بمبئی حملوں میں مطلوب لشکر طیبہ کے افراد کو اپنے ملک سے بھی نکال دیا اور بعض کو انڈیا کے حوالے کیا.
- فروری 2014 کو دو هندوستاني جنگی بحری بیڑے سعودیہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں شریک ہوئے.
- مارچ 2015 کو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے. انڈین نیشنل دیفنس کالج اور سعودی اعلی دفاعی کالج کے مابین دونوں ممالک کے  وفود کے تبادلے ہوئے.
- 2015 کو انڈین جنگی بحری بیڑے جدہ آئے. اورانڈیا فضائيه کے جنگی جہاز اور اسلحہ منتقل کرنے والے جہاز بھی سعودیہ لینڈ ہوئے. ان پر ایک بڑی تعداد میں انڈیا کے فوجی بھی سعودیہ پہنچے.اور اسي سال سعودی فوجی آفیسرز انڈیا کے نیشنل ڈیفنس کالج ٹریننگ کے لئے آئے.
- انڈین بحریہ کے دو جنگی بیڑے ای این ایس دھلی اور ای این ایس ٹریشل 10 ستمبر 2015 کو سعودی بندرگاہ الجبیل پر لنگر انداز ہوئے. انڈیا کا ای این  ایس ٹریشل جنگی بحری بیڑا 163 میٹر لمبا ہے اور جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہے. زمین سے زمین پر متوسط مدی کے میزائل اور اینٹی ایئر کرافٹ نصب ہیں.


تحقیق وتحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
مصادر ومنابع :  سعودی وخلیجی سائٹس اور جرائد کی رپورٹس

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما اور کوئٹہ ڈویژن کے اراکین اورقبائلی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے مل کر کام پر اتفاق کرتے ہوئے آئندہ بھی اس حوالے سے ملاقاتوں کو سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ان خیالات کا اظہار نوابزادہ لشکری رئیسانی اور سید حبیب اللہ شاہ چشتی نے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے رکن شوری عالی و امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے سیکٹریٹ میں ملاقات کے دوران کیا۔ملاقات میں کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی، ڈپٹی سیکریڑی جنرل شیخ ولایت حسین جعفری ، کونسلر کربلائی رجب علی،حاجی حسن،سرور علی و دیگر معززین موجود تھے ۔

علامہ سید ہاشم موسوی نے کہا کہ اس ویں صدی میں شیطانی قوتیں منظم طور پر سامنے آئے ہیں اور دجال کی حکومت کیلئے تیاری کررہے ہیں ،محمد بن سلمان نے امام مہد ی ؑ سے جنگ کی جو بات کی ہے وہ اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ کسی اورکی  ایماءپر کی گی، امام مہدی ؑ پر عقیدہ عالم اسلام میں شیعہ اور سنی کے مشترکہ عقائد میں سے ہے۔ آل سعو د کو اسلام دشمن عالمی قوتوں نے استعمال کرکے خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا ، شیعہ سنی میں کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کو کھبی ایسی ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ریاض اجلاس میں کرنا پڑا کہ جسمیں اسلام کا دشمن اوّل امریکہ تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اکٹھا کر کے انکی سربراہی کی ہے اور انہیں اسلام پر لیکچر دیا ۔ہمارا ہمیشہ سے یہی مطالبہ ہے کہ ہمارے بلوچ بھائیوں کو انکا حق دیا جائے۔

نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ اسلام کردار کا نام ہے خاص حلیہ کا نہیں، میں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جب شیعوں کا قتل عام جاری تھا ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس دہشتگردی کے لعنت کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قرآن فرماتا ہے کہ یہود و نصرٰی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن ریاض میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت مسلم ممالک کا اجلاس قرآنی تعلیمات کے منافی ہے در حقیقت ریاض کانفرنس اسرائیل بچاو کانفرنس تھا ۔دہشتگردی کے شکار ہم سب ہیں چاہے شیعہ ہو یا سنی ،عالمی حالات پر نظر رکھنے سے معلوم ہوگا کہ دنیا بھر میں کوئی شیعہ سنی جھگڑا نہیں ہورہا لیکن عالمی میڈیا اور قوتیں اسے فرقہ واریت کا رنگ دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے علماءو اکابرین کو صادق اور امین ہونا چاہیئے ملاقات اور مذاکرات کے ذریعے ہم دہشتگردی کے حالات پر قابو پا سکتے ہیں۔رہنماوں نے مزید کہا کہ ہمیں پاکستان میں فرقہ واریت کے خلاف متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کو شیعہ سنی نے مل کر بنایا تھا اس کی سلامتی اور دفاع بھی مل کر کریں گے۔ پاکستان میں امن قائم کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے ، جو شیعہ سنی کے درمیان مضبوط اتحاد کے ذریعے ممکن ہے۔ سیاسی طور پر ہمیں طاقتور بننے کی ضرورت ہے تاکہ تکفریت کا راستہ روکا جائے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماو ں نے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے وفدکا ایم ڈبلیو ایم آفس آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

دورہ ٹرمپ اور آل سعود

وحدت نیوز(آرٹیکل) حال ہی میں ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب اور وہاں موجود پچاس اسلامی ممالک کے سربراہان کوٹرمپ کے، " اسلام" کے موضع پر لیکچر نے خادم الحرمین شریفین کے نظریے اور حیثیت کو مسلمانوں کے سامنے واضح کردیا ہے۔اب مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ خادم الحرمین اور دفاع حرمین کے نعرے بلند کرنے والوں نے سب سے پہلے حرم کی تقدس اور تعلیمات اسلام کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور پاکستانی عوام کے جذبات کو الگ مجروح کیا۔ آل سعود نے ایک ایسے شخص کو دعوت دی جو اسلام دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے پھر وہ ایک ایسے ملک کا صدر ہے جس نے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ امریکہ ہی وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے زیادہ اسرائیل کے ناجائز وجود کا دفاع کیا اور قبلہ اول "بیت المقدس" کی بے حرمتی اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کیا،۔اس کے علاوہ تقریبا تمام عالمی دہشت گردوں کی بیک بون بھی امریکن سی آئی اے ہے۔ ٹرمپ وہ صدر ہے جس نے آتے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور اقدامات کیے ۔ مزید یہ کہ سر زمین حجاز میں جہاں خواتین کو پردے کے ساتھ گاڑی تک چلانے پر پابندی ہے وہاں ٹرمپ کی بیوی اور بیٹی بے حجاب تشریف لاتی ہیں اور خادم الحرمین اپنے تمام اکابرین کے ہمراہ ان کے اسقبال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رقص کی محفلیں سجاتے ہیں۔ سب سے اہم نقطہ یمن جنگ کے بعد سے اسلامی اتحادی افواج یا اسلامی نیٹو یا آل سعود کے بلیک واٹر کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہیں اور مال دنیا کی خاطر ذلت برداشت کرنے والے سربراہان کے چہرے بھی بے نقاب ہوچکے ہیں۔آخری اہم نقطہ یہ کہ ہم پاکستانیوں کے لئے شرم کی بات ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو اس پوری کہانی میں کوئی کردار ہی نہیں دیا گیا اور جس شخص پر پورا پاکستان فخر کرتا تھا یعنی ہمارے جنرل ریال صاحب، معزرت کے ساتھ جنرل راحیل شریف صاحب کی حیثیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ جنرل صاحب کو کس اسلامی اتحادی افوج کا سربراہ بنایا تھا وہ راز بھی عوام کے سامنے آشکار ہوگیا ہے۔

حجازوہ سر زمین ہے جہاں جہالت کی تاریکی میں سے نور اسلام روشن ہوا تھا، آج ایک دفعہ پھر اس سر زمین سے لشکر دجال بنانے کی خبریں آرہی ہیں، جہاں پہلے قتل و غارت اور لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں تھا وہاں حضرت محمد ؐ نے افکار اسلام سے سب کو بھائی بھائی بنا دیا تھا، آج اس مقدس زمین پر پھر سے بھائی کو بھائی سے لڑوانے کی تیاری ہو رہی ہے اورآل سعود، آل یہود کے دلوں کی آرزوں کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

آخر آل سعود ایسا کیوں نہ کریں ؟ آل سعود امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کا کہنا کیوں نہ مانیں ؟ ان کی حکومت کی بنیاد ہی ان تینوں کے سہارے قائم ہے ۔جس نے آل سعود کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو وہ ان ساری باتوں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ستمبر1969 میں سعودیہ کے بادشاہ فیصل نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ" ہم سعودی خاندان یہودیوں کے کزنز ہیں"اور اس بات کا ثبوت آج ہم سعودیہ کے بادشاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلوقات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔آل سعود نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سہارے حکومت کی ہے کیونکہ انہوں نے ظلم و جبر سے حکومت حاصل کی ہے اور اس ظالمانانہ حکومت کو قائم رکھنے کے لئے اسلام دشمنوں کا سہارا لینا ضروری ہے ۔لہذا سعودی حکومت کو برطانیہ کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کرنے کا پہلا معاہدہ26 دسمبر1915 میں طے پایا تھا جس کے بدلے میں اُس وقت سعودیہ اور برطانیہ کے مابین200 معاہدات طے پائے جن کی لاگت17.5 بلین ڈالر تھی اور تیس ہزار برطانوی شہری سعودی عرب میں تجارتی اور دوسرے زرائع میں کام کرنے کا معاہدہ بھی شامل تھا۔سعودی حکومت اور برطانوی غلامی کے انداز کو جعفر البکی اپنے ایک کالم میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:"سلطنت بر طانیہ کے دور میں سلطان نجد عبدالعزیز السعود عراق میں موجود برطانوی ہاکمشنر پرسی کاکس کے سامنے اس طرح عزت و احترام سے اپنے سر کو جھکا دیتے ہیں اورانتہائی عاجزی سے کہتے ہیں کہ آپ کا احترام میرے لئے میرے ماں باپ کی طرح ہے، میں آپ کے احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ نے مجھے اس وقت سہارا دیا اور بلندی کی طرف اٹھایا جب میں کچھ بھی نہ تھا میری کچھ حیثیت نہیں تھی، آپ اگر ایک اشارہ کریں تو میں اپنی سلطنت کا آدھا حصہ آپ کو دوں۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ کی قسم اگر آپ حکم دیں تو میں اپنی پوری سلطنت آپ کو دینے کو تیار ہوں"۔عبد العزیز نے یہ سب باتیں اکیس نومبر1912کو العقیر کانفرنس میں اس وقت کہا جب سلطان نجد، سلطنت عراق اور سلطنت شیخین کویت کی سر حدوں کا تعین کیا جارہا تھا۔

دورہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی برطانیہ اور سعودیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرح ہے بلکہ اس حوالے سے اس وقت ایک کارٹون بھی دنیا بھر میں مشہور ہوا ہے جس میں یہ دیکھا یا گیا ہے کہ ٹرمپ عرب شیخ یعنی سلمان سے گرم جوشی سے گلے مل رہے ہیں اور ٹرمپ کا ہاتھ گلے ملتے وقت عرب شیخ کی جیب میں ہے جس کا مقصد واضح ہے، چونکہ اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ملکوں میں امریکہ بھی سر فہرست ہے اور تقریبا امریکہ کا ہر شہری42500 ڈالرز کا مقروض ہے، اس موقع پر آل سعود کی بیوقوفی اور آل یہود سے دلی لگاؤ نے امریکی معیشیت کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔امریکہ کے کچھ مطالبات تھے جو اس دورے سے مشروط تھے اور جب تک امریکہ کو اپنے مطالبات پورے ہونے کا یقین نہیں ہوا ٹرمپ نے دورے کا عندیہ نہیں دیا ۔امریکہ نے اس دورہ میں ایک تیر سے دو نہیں تین شکار کئے ہیں۔اول دورہ ٹرمپ سعودی حکومت کو110 ارب ڈالرز کا پڑا جس سے امریکی معیشیت کو فائدہ پہنچا اور اتنی بڑی تعداد میں دفاعی معاہدے سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے جان میں جان آئی ۔ دوم امریکہ کو خطے میں اپنی مفادات اور اسرائیل کی حفاظت کے لئے ایک ذمہ دار چوکیدار کی ضرورت تھی اس خواہش کو خادم الحرمین نے نہ صرف پورا کیا بلکہ ٹرمپ کے سامنے 50ممالک کے سربراہان کے سروں کو جھکا کر یہ ثابت کیا کہ صرف میں نہیں ہمارے پچاس غلام بھی اس چوکیداری کو تیار ہیں، جو ہر وقت آپ کے فرمان پر لبیک کہیں گے۔ تیسرا امریکہ اور اسرائیل نے آل سعود کے ہاتھوں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پر ایک ایسا فوجی اتحاد بنوایا (کرایے کے فوجیوں کا ٹولہ مرتب کیا)جن کا مقصد فقط مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کو جاری رکھنا ہے اور اسرائیل کے ہر شمن سے مقابلہ کرنا ہے۔

لہذا آل سعود کی عالمی طاقتوں کے لئے غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اس دوستی اور اتحاد میں اپنی اوقات کا صحیح اندازہ ہوگیا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں اب مزید ذلیل نہیں ہونا چاہیے کم سے کم اٹھارہ کروڑ عوام کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے اور داؤ پر لگے ملکی عزت و وقارکو بچانا چاہیے۔ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، ساتھ ہی پاکستان کے دوست اور دشمن ملکوں کی لسٹ میں بھی رودوبدل کی ضرورت ہے، ہمیں اب سعودی عرب کی شادی میں پاکستان کو بیگانہ بنے کی ضرورت نہیں۔


تحریر۔۔۔ ناصر رینگچن

وطن عزیز پاکستان کے تین کھلے دشمن

وحدت نیوز(آرٹیکل) بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ قومی مصلحت ومفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں. اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں شرکاء آپس میں اعتماد اوراحترام متبادل جیسے اصولوں کی پاسداری کریں. اور ھر پارٹنر کو یہ اطمینان ہونا چاہیئے کہ ان تعلقات سے اس کے ملک کی سلامتی، وحدت واستقلال ، امن وامان ، قومی آبرو ووقار ، فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کسی بهی وجه سے متاثر نہ ہو گی.

حقیقی دشمن کی پہچان:

جہاں اس دنیا میں ہر ملک وقوم کے کچھ دوست ہوتے ہیں وہیں پر  اسکے دشمن بھی ہوتے ہیں. جیسے دوستوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے ہی دشمنوں کی بھی درجہ بندی کی جا سکتی ہے. لیکن دنیا میں اکثریت انکی ہے جو نہ تو کسی کے قریبی دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ کبھی دو طرفہ مفادات اور مصلحتیں انکو آپس میں قریب کر دیتی ہیں اور جب مشترکہ مفادات نہ ہوں تو رابطے نہیں ہوتے. اور فقط ہر ملک وقوم اپنے بنیادی اصولوں پر ثابت قدم رہ کر کامیاب اور لچکدار خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی بڑی تعداد میں دوست بنا سکتی ہے. یہ فقط استکباری طاقتوں کا نظریہ  ہے کہ جو ملک ہمارا دوست نہیں تو پھر وہ ہمارا دشمن ہے.اور اس کا اظہار سابق امریکی صدر جورج بش 2 نے نئی جنگیں مسلط کرتے وقت کیا تھا   ۔

حضرت امام علی علیه السلام نے دشمن کو تین گروهون مین تقسیم کیا ہے:
1- کهلا دشمن: کھلے دشمن وه ہوتے ہیں جنھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ حملہ کر دیتے ہیں۔
2- دشمن کا دوست : دوسرے وہ دشمن ہوتے ہیں جو اس کھلے دشمن کے وہ دوست ہوتے ہیں. حملے میں اسکے شریک ہوتے ہیں. یا اسکی  مدد کرتے ہیں اور اسکی تقویت کا سبب بنتے ہیں۔
3- دوست کا دشمن : تیسری قسم کے وه دشمن هوتے جو آپکے حقیقی دوست کے دشمن ہوتےہیں ۔

جس ملک کے حکمران اور عوام اپنے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رکھتے وہ ہمیشہ  دھوکے میں رہتے ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں . بین الاقوامی تعلقات میں دوست اور دشمن کا تعین کرنا حکومت کی زمہ داری ہے. اور جب کسی ملک کے تعلقات متوازن نہ ہوں اوراس كے قومی مفادات کو نقصان پہنچ رھا ہو تو سمجھ لیں کہ ملک کے حکمران یا تو نا اھل ہیں یا خود غرض، یا خیانت کار ہیں یا بزدل، یا پھر انکی وفاداریان اپنے ملک وقوم کے ساتھ نہیں بلکہ وہ  کسی دشمن کے آلہ کار اور وفادار ہیں .
ہمارا پیارا وطن مسلسل کئی دھائیوں سے مختلف بحرانوں کا شکار ہے .کئی ایک حکومتیں بدلیں اور فوجی انقلابات بھی آئے ہیں لیکن ہم مسلسل دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں. اس مختصر کالم کے ذریعے سارے مسائل ومشکلات کا احاطہ تو ممکن نہیں.البتہ آئیں غور وفکر کریں اور ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر ایک سچے مسلمان اور محب وطن شہری کی حیثیت سے کم از کم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے حقیقی اور کھلے دشمن کون ہیں؟. کیونکہ آج تک بد قسمتی سے ہماری قوم یہ بھی فیصلہ نہ کر پائی کہ ہمارا پہلے درجے والا کھلا دشمن کون کون ہے.؟ اور جب دشمن کا تعین ہی نہیں ہوگا تو پھر قوم اسکا مقابلہ کیسے کرے گی. مثال کے طور پر ہمارے بعض حکمران انڈیا کو دشمن قرار دیتے ہیں اور بعض  دوست.جب ایسی گھمبیر صورتحال ہو تو یہ قوم اس دشمن کا ملکر کیسے مقابلہ کر سکتی ہے. اور جب دشمنوں کا کھل کر تعین ہو جائے گا تو پھر غداروں اور مفاد پرستوں اور خیانتکاروں کو قوم آسانی سے پہچان لے گی۔

ہمارے وطن عزیز کے حقیقی اور کھلے دشمن کون؟

حالانکہ پہلی قسم کا دشمن تو بالکل واضح دشمن ہوتا ہے اور اسکے پے درپے حملوں اور سازشوں سے اسکی دشمنی سب کو نظر آتی ہے.اور کوئی بھی اسکے دشمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتا. لیکن ہمارے ہاں پھر بھی اختلاف پایا جاتا ہے،ویسے تو ہر ملک کی طرح ہمارے وطن عزیز پاکستان کے اندرونی وبیرونی دشمن لا تعداد ہیں . اندرونی دشمنوں میں کرپش ، بدعنوانی ، لا قانونیت اور غیر اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ بھی ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمارے خطرناک دشمن ہیں. اور بیرونی طور پر ہر وہ ملک یا بین الاقوامی ادارہ جس کی پالیسیوں اور اقدامات سے ہمارا قومی مفاد متاثر ہوتا ہے یا وہ ہمارے دین مبین  اسلام پر کھلا حملہ کرتا ہے. یا ہماری آزادی وخود مختاری اور زمینی سرحدوں کے اندر حملہ آور ہوتا ہے . وہ ہمارا بیرونی دشمن ہے.
 
مذکورہ اصولوں کے تحت مندرجہ ذیل تین ہمارے کھلے دشمن ہیں. جنھوں نے بالکل کھل کر وطن عزیز پاکستان اور دین مبین اسلام کے ساتھ دشمنی کی ہے.

1- انڈیا        2-   اسرائیل         3- تکفیری دھشتگرد.

1- انڈیا :

انڈیا متعدد بار جارحیت کر چکا ہے. اور ہمارے وطن کا ایک بہت بڑا حصہ بنگلہ دیش ہم سے جدا کرنے کے بعد اس دشمن ملک کا وزیراعظم کھلے عام اس پر فخر وناز بھی کرتا ہے اور نریندر مودی ڈھاکہ سے اعلان کرتا ہے کہ پاکستان کو دولخت انھوں نے کیا تھا . اور ہمارے وطن کے ایک فطری حصے (كشمير) پر قابض بھی ہے. ھمارے لاکھوں ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کا قاتل بھی ہے. اور ہر وقت ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتا رھتا ہے. اور ہمارے بہت سے اندرونی بیرونی بحرانوں کے ماوراء اسکے ہی ھاتھ نظر آتے ہیں. اس لئے اپنی اس پالیسی کی وجہ سے بلا شک وریب یہ ہمارا پہلے درجے کا کھلا دشمن ہے.

2- اسرائیل:

 اسرائیل کا وجود سر زمین مقدس فلسطین پر غیر قانونی ہے اور عالمی طاقتوں کے تعاون سے قوت و طاقت کے بلبوتے پر اسے قائم کیا گیا. یہ لاکھوں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا قاتل ہے. متعدد جنگیں عالم اسلام پر مسلط کر چکا ہے. ہمارے قبلہ اول پر بھی قابض بھی ہے. اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے 70 سال گزر جانے کے باوجود ہم نے اسے تسلیم نہیں کیا. اسکے ہمارے پہلے درجے کے دشمن کے ساتھ گہرے تعلقات بھی ہیں.  ہمارا ایٹمی پروگرام اس کی آنکھوں میں چبھتا ہے. یہ وہ ملک ہے جس نے عراق ، شام  اور سوڈان پر اچانک فضائی حملے کر کے انکے ایٹمی ریکٹر تباہ کئے تھے.اسلام مسلمانوں کے کھلے دشمن ہونے کی وجہ سے اب خطرہ اس بات کا بھی رھتا ہے کہين یہ حماقت ہمارے خلاف بھی نہ کر دے. گو اسے انڈیا کے اکسانے اور اس کی اپنی پلاننگ کے باوجود آج تک اسے  ہمت نہیں ہوئی. ہم نے بھی ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ پر واضح لکھا ہے کہ اس کا حامل ما سوائے اسرائیل کے ساری دنیا کا سفر کر سکتا ہے.البتہ اب امریکی نفوذ اور پریشر کی وجہ سے اور عربوں کی امریکی غلامی اور خیانتوں کی وجہ سے پاکستان میں بھی یہ غلامی کی سوچ پھیلانے پر کام جاری ہے کہ جب عربوں نے صلح کر لی تو ہم کیوں عالمی برادری سے کٹ جانے پر بضد رہیں. یہاں پر چند ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔

1- گویا آج تک ہماری پالیسی فقط عربوں کی اسرائیل دشمنی کی وجہ سے تھی . کیا آج تک ہم خود مختار ملک نہ تھے ؟

2- اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم کتنے بے وقوف تھے کیونکہ آج تک کسی بھی عرب ملک نے تو ہماری خاطر انڈیا سے تعلقات منقطع نہیں کئے ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے رہے.؟

3-  اسی اسرائیل کے ناجائز وجود اور فلسطینی عوام پر ظلم وستم ، بیت القدس کی آزادی اور فلسطین سمیت دیگر مسلمان ممالک کی زمینوں پر قبضے کے خلاف سارے اسلامی ممالک کا مشترکہ ادارہ     ( او آئی  سی) بنا. ہم اسکے بانی ممبران میں سے تھے اور اس ادارے کی کانفرنسز ہماری میزبانی میں ہوئیں اور ہم اسکے چیئرمین بھی رہے . اگر یہ ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں تھا تو یہ سب کچھ ہم نے کیوں کیا گیا ؟

4- کیا بیت المقدس فقط عربوں کا پہلا قبلہ ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.؟ کیا ہمارے نبی کی معراج کی جگہ نہیں.؟

5- اگر بزدل اور خائن فلسطینی اور بعض عرب حکمرانوں نے اسے  تسلیم بھی کر لیا تو کیا اس حق کا اب مطالبہ کرنے والا وھاں پر کوئی نہیں.  جس کی حمایت ہمارا انسانی اور ایمانی فریضہ ہے؟

6- کیا ہمیں امریکہ اور اسرائیل اور عرب حکمرانوں کی خاطر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے اور اپنے تاریخی حق کا مطالبہ کرنے والے مسلمان بھائیوں اور آزادی خواہ تحریکوں کی حمایت اور مدد کرنا ترک کر دینا چاہیئے ؟

7- اگر ایسا ہی درست ہے تو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا رونا پھر ہم کیوں روتے ہیں ؟ اور تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟

نہیں ہر گز نہیں ہم ایک سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کر سکتے. اور اسرائیلی سیاہ تاریخ اس بات کی شاھد ہے کہ جب بھی اس صہیونی دشمن کو موقع ملے گا وہ آپکو نقصان دے گا. ہمیں کسی مغالطے میں بھی  نہیں رہنا چاہئے۔

3- تکفیری دھشتگردی:

یہ وہ لعنت ہے جس نے ہمارے ملک پاکستان کا امن وامان چھین لیا ہے. اور اسے تباہ کر دیا ہے. خطے میں جس ملک نے ایک لمبا عرصہ اس کے خلاف جنگ لڑی ہے وہ پاکستانی عوام ہیں. اور ہماری فورسز نے اس کے خلاف متعدد آپریشن کئے اور بے پناہ قربانیاں دیں. اسی تکفیری دھشت گردی کی وجہ سے ہماری صنعت وتجارت متاثر ہوئی اور نا امنی کی وجہ سے ہمارا ملکی سرمایہ باہر منتقل ہوا. ملک میں فقر وفاقہ اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا. ہمارے آپس میں  اجتماعی تعلقات خراب ہوئے 80 ہزار سے زیادہ شہری اسکی وحشت وبربریت کی پھینٹ چڑھے . ہمارا انفرا اسٹکریکچر تباہ ہوا. اب تو انھیں تکفیریوں کے سرغنوں کے اعترافات بالکل لوگوں کے سامنے میڈیا پر آ چکے ہیں . کہ ہمیں انڈیا اور اسرائیل جیسے پاکستان دشمن ممالک سے مدد ملتی ہے. اور ان سے روابط ہیں. انکے جرائم اور پاکستان کے ہر طبقے کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی لسٹ بہت طویل ہے. اور ہر پاکستانی انہیں خوب پہچانتا ہے۔

اب ان تینوں کھلے دشمنوں کی پاکستان یا اسلام دشمنی سے جو بھی انکار کرے گا . اور انہیں  وطن دشمن قرار نہیں   دے گا وہ ملک کا عالم ہو یا مفکر ، سیاستدان ہو یا حکمران ، سول آفیسر ہو یا ملٹری آفیسر ، صحافی ہو یا رائٹر جو کوئی بھی ہو وہ کبھی بھی پاکستان کا مخلص نہیں ہو سکتا۔


 تحریر ۔۔۔۔ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھارتی افواج کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا یہ جارحانہ طرز عمل پورے خطے کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتاہے۔اقوام متحدہ مبصرین کی گاڑی پر بھارتی فائرنگ کا اقوام متحدہ سختی سے نوٹس لے۔بھارتی افواج کی مسلسل گولہ باری سے اب تک متعدد پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔جو بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے داخلی حالات کو اپنے لیے سازگار سمجھتے ہوئے بھارت افواج کی طرف سے کسی بھی طرح کی در اندازی بھارت کی بقا و سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گی۔ افواج پاکستان اور قوم ملک میں دہشت گردی کے مقابلے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت کسی مغالطے میں نہ رہے ۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اپنے دفاع کے لیے ہر قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کرنے میں مکمل طور پر با اختیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتیں بھارت کے اس رویے کا نوٹس لیں جو اپنے غیر مدبرانہ اور جارحانہ رویے سے پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنا چاہتا ہے۔پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور کبھی بھی جنگ کا حامی نہیں رہا لیکن تاریخ شاید ہے کہ جب بھی اس پر جنگ مسلط کی گئی اس نے میدان جنگ کو دشمن کے قبرستان میں بدل کراپنی طاقت کے جوہر کو عالمی سطح پر منوایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن ایک جاسوس ہے۔ اس کے جرم کی سزا موت ہے جو اسے ہر حال میں مل کر رہے گی۔ اس کے دفاع میں بھارت کا موقف کمزور ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کو کسی سازش کا شکار ہونے کی بجائے کلبھوشن اور بھارت کی اصلیت سے دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے دوران پورے ملک میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور واپڈا حکام کو لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا پابند کیا جائے، شدید گرمی میں بجلی کی بندش عوام کیلئے سخت اذیت کا باعث ہے، رمضان کے مقدس ماہ میں عوام کو اس اذیت سے دور رکھا جائے۔ سولجر بازار کراچی میں وحدت میڈیا سیل سندھ کے اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے علی احمر نے کہا کہ رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، ماہ صیام تذکیہ نفس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی انعام ہے، محض جسمانی عبادات سے اس ماہ کی برکتوں کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا جا سکتا، بلکہ یہ مقدس مہینہ آپس کے معاملات میں صبر و تحمل، رواداری، اخوت، عجز و انکساری کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزہ جسمانی مشقت کا نام نہیں ہے، بلکہ نفس کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے، یہ ہمیں تمام اخلاقی و جسمانی برائیوں سے دور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کی مناسبت سے دعائیہ محافل اور دیگر تقریبات میں وطن عزیز کے استحکام و ترقی کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں۔

علی احمر نے کہا کہ ماہ رمضان کے دوران انتظامیہ گراں فروشوں پر بھی کڑی نظر رکھے، تاکہ عام آدمی اشیائے خوردونوش کے حصول میں دشواری سے بچ سکے، ناجائز منافع خوروں کیلئے فوری طور پر کڑی سزاؤں کو موقع پر ہی تعین کیا جائے، تو عام گزر بسر کرنے والے افراد کو اس ماہ میں جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے، اس میں یقینی طور پر کمی واقع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار اداروں کو ملک دشمن عناصر پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی، تاکہ وہ شرپسندانہ عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں، مساجد، امام بارگاہوں سمیت تمام مقدس مقامات اور عبادت گاہوں کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اس سلسلہ میں ذرا بھر غفلت کا مظاہرہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہ رمضان کے دوران ملک بھر میں فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے غیر معمولی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) خیرا لعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کے چیئر مین سید باقر زیدی نے کہا ہے کہ خیرا لعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ ورلڈ اینٹی سموکنگ ڈے کے موقع پر ملک بھر میں عوام کی آگاہی کے لیئے سیمینار،لیکچرز و مختلف پروگرامز منعقد کریگی۔ سگریٹ نوشی صحت کے لیے خطرناک ہے  ۔ پاکستان میں سگریٹ نوشی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہر روز  300 کے قریب افراد کی اموات ہو رہی ہیں اس لئے سموکنگ کے نقصانات بارے میں آگاہی بہت ضروری ہے۔اُنہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ سگریٹ نوشی کے خلاف بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کرایا جائے،ان خیالات کا اظہار انہوں نےمرکزی سیکریٹریٹ سے جاری  اپنے بیان میں کیا۔

خیرا لعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ کے چیئر مین سید باقر زیدی سگریٹ نوشی نہ صرف دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ شوگر کا باعث بھی بنتی ہے اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں بچنے کے مواقع کم کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی 69 قسم کے مختلف کینسر کا باعث بنتی ہے۔پھیپھڑ وں کے سرطان میں مبتلا 75 فیصد مریض سگریٹ نوش ہوتے ہیں۔سگریٹ نوشی کی وجہ سے خون میں آکسیجن لے کر جانے کی قوت کم ہو جاتی ہے، رگیں سخت ہو جاتی ہیں اور ضرورت کے وقت پھیلتیں نہیں ، جس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں سگریٹ نوشی کے خلاف آگاہی مہیا کرنی ہے کیونکہ سگریٹ نوشی صرف سگریٹ پینے والے کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ گھر اور دفتر میں موجود باقی سب لوگ اور خاص طور پر بچوں کو اس کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ صحت کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے مختلف موذی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے ۔پرہیز علاج سے بہتر ہے۔

وحدت نیوز(کوہاٹ) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین الحسینی نے کہا ہے کہ امریکی اور سعودی فوجی اتحاد نے ثابت کردیا کہ یہ اتحاد ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ہے نہ کہ داعش کے خلاف۔ اگر پاکستان میں ہر فرقہ کے لوگ موجود ہیں تو اس صورتحال میں اس اتحاد حصہ کیسے بن سکتے ہیں۔؟ پاکستان کا اس فوجی اتحاد کی کمانڈ بھی اپنے پاس رکھنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ شیعہ رہنماوں کی گرفتاری، شیعہ اکثریتی آبادیوں کو ترقیاتی کاموں میں نظر انداز کرنا، شیڈول فور یا 16 ایم پی او، پاراچنار اور اورکزئی ایجنسی میں شیعوں سے دفاع کا حق چھین کر داعش اور طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑنا کس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمران اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لئے یہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree