The Latest

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پر داغدار کیا ہے۔ ان خیالات کا مرکزی سیکرٹریٹ سے اظہا ر آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والوں کی تیسری برسی پر کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول میں قیمتی اور معصوم انسانی جانوں کا ضیاع وہ ناقابل تلافی نقصان ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہ دہشت گرد گروہوں نے مختلف مقامات کو نشانہ بنا کر ارض پاک کو ایسے قابل اور ہونہار افراد سے محروم کیا جو قوم کا قیمتی سرمایہ تھے۔ملک میں دہشت گردی کی تقویت کا بنیادی سبب وہ تکفیری گروہ ہیں جو تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے موجودگی کے باوجود یہ طاقتیں پوری ڈھٹائی سے ملک میں نظریاتی مخالفین کے قتال اور کفر کے فتوی دینے میں مصروف ہیں۔اگر ان کو نہ روکا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کا عندیہ قابل ستائش ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر ضروری تساہل دہشت گردوں کے حوصلوں میں اضافہ کرے گا۔ دہشت گرد گروہوں کے سہولت کار وں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔حکومت کی راہ میں حائل سیاسی مجبوریاں ان کالعدم جماعتوں پر ہاتھ ڈالنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیاسی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے جن کی شر انگیز تقریریں قومی سلامتی کے منافی ہیں۔

وحدت نیوز (ٹنڈو جام) ٹنڈو جام ضلع حیدر آباد میں جشن میلاد صادقین ؑ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ سیدالانبیاء ﷺ نے انقلابی جدوجہد کے ذریعے عصر جاہلیت کے طاغوتی نظام کو بدلا، آپ ﷺنے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں جو نظام قائم کیا وہ ہر دور کی انسانیت کے لئے اسوہ اور آئیڈیل ہے۔ اسلام کی انقلابی تعلیمات آج بھی عالم انسانیت کے جملہ مسائل کا حل ہیں ۔ امت مسلمہ، اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث زوال کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عصر حاضر کا فرعون ہے، امریکہ اور اس کے حواری عالم انسانیت کے مجرم ہیں، جنہوں نے داعش سمیت تمام دھشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا اور ان کی سرپرستی کی۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی سامراج اور ان کے ایجنٹوں کی لگائی گئی دھشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، ہزاروں شہری، بہادر سپاہی اورپاک فوج کے جوان دھشت گردوں سے لڑتے ہوئے شہید ہورہے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ فیصلے سے امریکہ کا اسلام دشمن کردارایک دفعہ پھر انتہائی کھل کر سامنے آگیا۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطین اور بیت المقدس کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر جاری مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ تقریب جشن میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکریٹری نشرواشاعت آغا ندیم جعفری، ضلعی سیکریٹری جنرل حیدر آباد رحمان رضا ایڈوکیٹ، ضلعی رہنما غلام رسول لاشاری، مولانا ادیب علی ، برادر رضی حیدرو دیگر شریک ہوئے۔

آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی

وحدت نیوز (آرٹیکل) عوامی طاقت کا کوئی متبادل نہیں، خصوصا عوام اگر خدا پر توکل کریں تو وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں، عوامی طاقت کو اُس وقت نقصان پہنچتا ہے جب  حکومتی فرعون مذہبی دجالوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سادہ لوح عوام مذہبی دجالوں کی  جوشیلی تقریروں اورباتوں میں بہہ جاتے ہیں ۔

یہ ہمارے ہی دور کی بات ہے ، جب ایران میں عوام نے بادشاہ کے خلاف قیام کیا تھا، ایران کا بادشاہ  ایک شیعہ ڈکٹیٹر تھا، ایران صدیوں سےشیعت کا قدیمی مرکز  چلا آرہاتھا، ایران میں اس وقت بھی اہلِ تشیع کے مجتہد اورمراجع کرام تھے۔

ایران کا بادشاہ لوگوں کو یہ بھی یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کا مذہبی پیشوا بھی ہے اور اس کے ہمراہ کشف و کرامات کا سلسلہ بھی ہے۔  ایرانی بادشاہ کو مغرب ، امریکہ   اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

ایران کی داخلی حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو بادشاہ پچیس ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن مناتا تھا ، اور دنیا میں سب سے طاقتور بادشاہ یہی شہنشاہِ ایران تھااور دوسری طرف عوام نالیوں اور کچرے سے روٹی کے ٹکٹرے چن کر چبانے پر مجبور تھے۔

بہر حال ۱۹۷۹ میں ہر طرف سے مایوس ہوکر ایرانی  عوام نے خدا پر توکل کر کے بادشاہ کے خلاف قیام کیا، یہ آمریت کے خلاف جمہوریت کا قیام تھا، یہ بادشاہت کے خلاف انسانیت کا انقلاب تھا، یہ حیوانیت کے خلاف عقل و شعور کی آواز تھی ۔

جس وقت ایران کے مضبوط ترین بادشاہ کے خلاف یہ عوامی و جمہوری انقلاب رونما ہوا تو منطقے میں ہر طرف آمریت کا دور دورہ تھا، پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت، عراق میں صدام کی استبدادیت اور عرب ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر براجمان تھا۔ ایران کا عوامی انقلاب  خطے کی تمام ریاستوں  کے عوام کے کے لئے  یہ پیغام تھا کہ عوامی  اور الٰہی طاقت کو کوئی بادشاہت نہیں دبا سکتی۔ ایرانی بادشاہ کا تخت الٹنے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ جب عوام کے سامنے شہنشاہِ ایران نہیں ٹھہر سکتا تو پھر کسی اور بادشاہ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ عوامی انقلاب کا مقابلہ کر سکے۔

ایرانی عوام کے اس  انقلابی پیغام کو دبانے اور ایران تک محدود کرنے کے لئے  دنیا  کے  ڈکٹیٹروں نے مذہبی دجالوں کو اکٹھا کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔ لہذا کافر کافر شیعہ کافر۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انقلاب سے پہلے ایران کوئی حنفی، حنبلی ، شافعی یا سُنّی ملک تھا، انقلاب سے پہلے بھی تو ایران ایک شیعہ ریاست تھی، ایرانی عوام کی اکثریت، مجتہدین، مراکز ، تہذیب و ثقافت حتیٰ کہ بادشاہ بھی شیعہ تھا۔ اس سے پہلے تو کسی نے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔

 ارباب دانش سوچیں اور فکر کریں کہ ۱۹۷۹ میں  ایرانی عوام سے ایسا کیا گناہ  سرزد ہو گیا تھا کہ اس کے بعد ہر طرف شیعہ کے کفر پر تقریریں ہونے لگیں، لٹریچر چھپنے لگا، چودہ سو سالہ پرانے مسائل کو اچھالا جانے لگا،پروپیگنڈے ، جھوٹ اور افترا پردازی کی انتہا کی گئی  حتی کہ ۲۰۱۷ میں بھی راولپنڈی میں ایک فرقے نے خود اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے ہی افراد کو قتل کر کے اس کا الزام اہل تشیع پر لگایا۔

 کیوں آخر کیوں!؟ اس درجے تک ضد ، بغض اور حسد کرنے کی وجہ کیا ہے؟

اس قدر جھوٹ، اس قدر افترا پردازی ، اس قدر پروپیگنڈہ آخر کیوں!؟

وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ اگر ایران کے انقلاب کو شیعہ کہہ کر اہل سنت کو اہل تشیع سے دور نہ کیا جاتا تو ایرانی عوام کی دیکھا دیکھی  دنیا کی ساری ریاستوں کے مسلمان،اپنے اوپر مسلط  آمروں کے خلاف قیام کرنے لگتے اور یوں مسلمانوں پر مسلط بادشاہتیں دم توڑنے لگتیں۔

آمریت کے خلاف  ایرانی عوام کی جدوجہد  کو چھپانے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام نے دیگر آمروں کی ایما پر ایران پر حملہ کیا اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے ۔

آج وقت نے  ثابت کر دیا ہے کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں تھی بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ٹکراو تھا، شعور اور تعصب کی لڑائی تھی،  اور بادشاہت و بیداری کا معرکہ تھا۔

وقت کا پہیہ گردش میں رہا، مورخ کا قلم چلتا رہا، تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے، چہروں سے نقاب الٹتے رہے، مذہبی دجا ل اپنے ڈکٹیٹروں سمیت جہنم کا ایندھن بن گئے، جھوٹ بولنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتےگئے، ان چند سالوں میں  اگر کچھ باقی رہا تو صرف اور صرف حق اور سچ باقی رہا۔۔۔!

وہ  عوامی شعور اور جمہوری انقلاب جسے شیعہ کہہ کر  ایران میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس نے تونس سے بھی سر نکالا ، اس نے مصر میں بھی دستک دی، اس نے عراق کو بھی ہلایا ، اس نے قطر کو بھی جھنجوڑا اورآج  وہ  سعودی عرب پر بھی خوف طاری کئے ہوئے ہے۔

آج ہر منطقے ، ہر ریاست اور ہر علاقے کے مسلمان اپنے اوپر مسلط بادشاہت سے بیزار ہیں، آج مسلم دنیا کے ڈکٹیٹر تو شہنشاہِ ایران کی طرح امریکہ و اسرائیل کے تلوئے چاٹ رہے ہیں لیکن آج عرب ریاستوں کے عوام  اپنے اوپر مسلط  بادشاہوں سے نالاں ہے۔

عوام کی بادشاہوں سے ناراضگی، لوگوں کی آمریت سے نفرت، جمہور کا شعور کی آواز پر لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ حکومتی  آمروں اورمذہبی دجالوں سے آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں، اب ان بیدار اور باشعور لوگوں کے خلاف چاہے کافر کافر کے نعرے لگائے جائیں اور مذہبی دجال ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کریں ، یہ انقلاب، شعور اور بیداری کی لہر اب کافر کافر کے نعروں سے رکنے اور تھمنے والی نہیں، اب لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی لازم و ملزوم ہے ، جب تک دنیائے اسلام سے آمریت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک قدس کی آزادی ممکن نہیں، لہذا  اب عوامی  شعور کی یہ لہر آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی پر ہی منتہج ہوگی۔

بقول شاعر اب وہ وقت آگیا ہے کہ

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

ان شااللہ

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلسِ وحدت مسلمین کے رکن شوری عالی اور بلوچستان اسمبلی کے رکن آغا رضا نے جنرل (ر) موسیٰ کالج میں منعقدہ ایک تقریب سےخطاب میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم افراد کی شخصیت کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو انسان میں چھپی ہوئی تمام صلاحیتوں کو شگوفا کر سکتی ہے اور تعلیم ہی وہ زیور ہے جو انسانی شخصیت کو نکھارتی ہے تعلیم کے بغیر کوئی شخص بلند انسانی مقامات تک پہنچ سکتا ہے نہ ہی کوئی قوم ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے. لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں جس چیز کو سب سے کم اہمیت دی جاتی ہے وہ تعلیم ہے.  ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارا تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار ہے . حد تو یہ ہے کہ ہمارے جامعات و اداروں سے حاصل شدہ ڈگریوں کی خود ہمارے ملک میں ہی کوئی وقعت نہیں ہے چہ جائیکہ انٹر نیشنل سطح کی بات کی جائے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے انہی تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے جوان جاب کریٹر کی بجائے جاب سیکرز بن گئے ہیں اور نوکریوں کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھیر رہے ہیں ہمارے جوان محنت بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس قابل نہیں بنتے کہ نوکریاں تلاش کرنے کی بجائے نوکریاں تخلیق کریں  اسکی وجہ یہ نہیں کہ جوانوں میں صلاحیت موجود نہیں ہمارے جوانوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام انتہائی ناقص اور ایک صدی پراناہے نوجوان نسل کی یہ ابتری ہمارے مستقبل کی پیشنگوئی کر رہی ہے اور اگر حکومت اور مقتدر حلقوں نے اس بحران کی طرف توجہ نہیں دی تو مستقبل قریب میں وطن عزیز انتہائی خطرناک اور پیچیدہ مسائل سے دوچار ہوگا ضرورت اس امرکی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر نظام تعلیم کو بہتر بنایا جائے اور نوجوان نسل جوہمارے مستقبل کے معمار ہیں کو بڑی تباہی سے بچایا جائے . صوبائی سطح پر بھی حکومت بلوچستان صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے انقلابی اقدامات اٹھا کر تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں کیونکہ صوبہ بلوچستان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ناقص نظام تعلیم ہے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے کرپشن کو ملک کی پسماندگی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپشن رہے گی ملک میں عادلانہ نظام قائم نہیں ہو سکتا۔کرپٹ عناصر ملک کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہے ، اگر ہم ملک میں اچھے نظام کے خواہاں ہیں تو اپنے درمیان سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح آج ادارے اور عدلیہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں اگر روز اول سے پاکستان کے استحکام کو مد نظر رکھا جاتا اور کرپشن کو ختم کرنے کیلئے عدلیہ اور کرپشن کے خاتمے پر فائز حکومتی ادارے اپنا مثبت کردار ادا کرتے تو آج وطن عزیز کی حالت موجودہ حال سے مختلف ہوتی ۔

انہوں نے کہا کہ کرپٹ عناصر کو جنم دینے میں ہر وہ شخص ملوث ہے جس نے اس کی راہ میں رکاؤٹ بننے کے بجائے رضامندی اور خاموشی اختیار کی۔ جس طرح دہشتگردوں کے خلاف کاروائیاں کی جاتی ہے لازم ہے کہ بدعنوان عناصر کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور ان تمام حکومتی افسران کو انصاف کی عدالت میں کھڑا کیا جائے جو کرپشن میں ملوث ہیں، کوئی بھی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا قانون بدعنوانی کے خلاف ہے، جو افراد آئین شکنی کرکے دوسروں کا حق کھائے انہیں ان کاموں کی سزا بھی ملنی چاہئے،احتسابی عمل کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے تمام محکموں اور اداروں میں اسے بلاامتیاز شروع کیا جائے۔ ایماندار اور کرپشن سے پاک کوئی بھی فرد احتساب کے عمل کے خلاف نہیں ہوسکتا، تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ احتسابی عمل کی تائید کرے۔

ان کامذیدکہناتھا کہ کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاؤٹ ہے، جب تک ملک میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا جائے گا ملک ترقی نہیں کر سکے گی، بدعنوانی کی وجہ سے ہمارا ملک معاشی طور پر کمزور ہوا۔ احتسابی عمل اعلیٰ اداروں سے شروع ہونا چاہئے اور اوپر سے نیچے کی طرف لایا جائے اس طرح کرپشن کے خلاف جنگ میں ہمیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں اور اسی صورت ہم ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں۔ کرپٹ عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہئے۔ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، کرپشن کے خلاف بھی فیصلہ کن کاروائی ملک کی سا  لمیت و استحکام کے ازحد ضروری ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے وفد کے ہمراہ وحدت ہاوس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی ودیگرسے ملاقات کی،حافظ نعیم الرحمن نے مجلس وحدت مسلمین کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اور بیت المقدس کی حمایت میں نکالے جانے والے ملین مارچ میں شرکت کی دعوت، جیسے ایم ڈبلیو ایم  نےقبول کیااور وفد وکارکنان کے ہمراہ شرکت کی یقین دہانی کروائی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رہنما وں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یروشلم (القدس) فلسطین کا دارلحکومت ہے اور امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کو یہ اختیار اور حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطین کا ایک انچ بھی غاصب صیہونیوں کو دیں۔فلسطین پورا فلسطینیوں کا ہے اور اسرائیل کا وجود ناجائز اور غاصبانہ ہے جس کا خاتمہ ناگزیر ہے ملتِ پاکستان فلسطین کاز کے ساتھ ہیں، القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اس موقع پر جماعت اسلامی کے رہنما برجیس احمد، مجلس وحدت مسلمین کے علامہ مبشر حسن و دیگر موجود تھے۔

وحدت نیوز(مشہد مقدس) مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے زیراہتمام امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کے متنازعہ بیان پر ''فلسطین اور عالمی استکبار کی سازشیں''سیمینار کا انعقاد کیا گیا، سیمینار کا آغاز قاری سید ابراہیم رضوی نے تلاوت کلام پاک سے کیا، سیمینار میں علمائے کرام، طلاب اور زائرین محترم کی بڑی تعداد نے شرکت کی، سیمینار کے انعقاد میں جوادالآئمہ فائونڈیشن، فاطمتہ الزہرا فائونڈیشن اور نور ہدایت فائونڈیشن نے خصوصی تعاون کیا۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض حجتہ الاسلام والمسلمین مولانا عارف حسین نے ادا کیے، سیمینار کے مہمان خصوصی مبصر اور معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر فیاض تھے جبکہ سیمینار سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ اُمور خارجہ کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے خصوصی خطاب کیا۔ علامہ سید شفقت حسین شیرازی نے کہا کہ امام خمینی(رح) نے فرمایا تھا کہ امریکا شیطان بزرگ ہے، آج امریکہ اور اسکے شیطانی منصوبے، عزائم دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آ رہے ہیں، آج استعمار، اسکے حلیف اسرائیل اور آل سعود مل کر اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، خصوصا آل سعود نے امریکہ و اسرائیل کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت میں جو جو اقدام کئے ہیں وہ مسلم اُمت کے لیے قابل شرم ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی بے وقوفانہ اور احمقانہ اقدامات کی وجہ سے انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے گا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ عالمی استکبار مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتاہے، لیکن الحمداللہ اب مسلمان بیدار ہو چکے ہیں اور دشمن کی سازشوں کا مقابلہ مشکل نہیں، جس کی مثال عراق، شام اور لبنان میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں پر امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور اسکے اتحادی پورا یورپ مل کر بھی ناکام و نامراد ٹھہرے، شیطانی اتحاد کو اُن کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ان استعماری طاقتوں کا مقابلہ آئندہ بھی وحدت اور یگانگت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا ہے کہ انشاءاللہ پچیس سال آنے سے پہلے اسرائیل نابود ہو جائے گا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول  کی تیسری برسی کے موقع پر  شہداءکی یاد میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ملک بھر میں تعزیتی تقاریب کا انعقاد کیاجائے گا، کارکنان چراغاں کا اہتمام کریں،انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو غم ہمارے دلوں میں سانحہ عاشورہ، سانحہ اربعین اور سانحہ یوم علی ؑ کی طرح تروتازہ ہے، اس افسوس ناک واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کررکھ دیا تھا، کئی برس گذرجانے کے باجود اس سانحے کا احساس آج بھی ہمارے وجود کو لرزادیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کے معمار ان ننھے شہداءکا پاکیزہ لہو تقاضہ کرتا ہے کہ ان کے قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے لیکن مقام افسوس ہے کہ اس سانحے کا مرکزی کردار کالعدم تحریک طالبان کا سفاک درندہ صفت دہشت گرد احسان اللہ احسان آج بھی نا صرف زندہ ہے بلکہ ہمارا سرکاری مہمان بنا بیٹھا ہے ، علامہ احمد اقبال رضوی نے اعلیٰ عدلیہ اور چیف آف آرمی اسٹاف سے مطالبہ کیا ہے کہ شہدائے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کے زخموں کا بہترین مداواہ صرف اور صرف احسان اللہ احسان اور دیگر قاتلوں کی پھانسی ہے لہذٰا اس برسی کے موقع پر ان معصوم شہداءکے قاتلوں کو تختہ دار تک پہنچا کر شہداءکے خانوادگان کے زخموں کامرہم فراہم کریں ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطینی زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بعض عرب ممالک(سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر) اب فلسطینی مسئلے کو وہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جو سن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دے رہے تھے اور نہ ہی ان ممالک کے لئے اسرائیل ایک غیر قانونی غاصب وجود رہا ہے بلکہ یہ ممالک اسرائیل کی جانب ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جس کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور جس سے تعاون لیا جاسکتا ہے ۔

ان ممالک کا خیال ہے کہ انہیں اسرائیل کے حوالے سے مزید عملی (Pragmatic)اور حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنا چاہیے ۔

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی یہ حقیقت پسندی عرب رائے عامہ اور عربوں کی مجموعی سوچ کے دائرے کو پھلانگنا نہیں چاہتی اور زیادہ سے زیادہ وہ اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے میں غیر جانب دارانہ کردار اپنانے کی کوشش کرے گی ۔

ظاہر ہے کہ عرب رائے عامہ کو پھلانگنے کا مطلب حکمرانوں کیخلاف عرب عوام کا ردعمل ہوگا جو ان کے اقتدار کے لئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔
ان عرب ممالک نے اسی نام نہاد حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائزکرنے کی جانب قدم اٹھانا شروع کردیا ہے لیکن یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو رائے عامہ کی ہمواری تک پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ کسی برے عمل کی انجام دہی کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے یا پھر جیسے کہ ہر برا کام خفیہ و پوشیدہ انداز سے انجام دیا جاتا ہے ۔

 اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ’’مسئلہ فلسطین ‘‘کی رائج اصطلاح کی جگہ ’’اسرائیل عرب تنازعہ ‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا اور یہ اصطلاح تیزی کے ساتھ عرب مخصوص زرائع ابلاغ میں عام ہونے لگی یہاں تک کہ الحیات جیسے اخبار نے دس اکتوبر کو اپنے ایک مضمون میں ایک گام آگے جاتے ہوئے ’’اسرائیلی فلسطینی موضوع‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا ۔

اس مضمون سے بات واضح تھی کہ وہ اس سارے مسئلے کو دو اطراف کے درمیان جاری کشمکش اور جنگ و جدال کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

سات اکتوبر کو الشرق الاوسط اخبار میں ایک سعودی رائٹر نے 1973کی جنگ کے حوالے سے لکھا کہ ’’اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید کسی قسم کی توسیع پسند جنگ نہیں کی ۔۔۔اسرائیل نے اس کے بعد جو بھی جنگیں کیں ہیں وہ سب دفاعی نوعیت کی تھیں خواہ وہ لبنان میں ہو جیسا کہ فلسطینی جماعت پی ایل او کیخلاف یا پھر حزب اللہ کیخلاف ۔۔‘‘ مضمون نگار نے بڑے ظالمانہ انداز سے یہ بھی لکھا کہ ’’جو کچھ اسرائیل نے غزہ میں کیا وہ صرف چند آپریشنز تھے ۔

عرب حکمران شروع سے ہی فلسطین کے مسئلے میں اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں انکے سیاسی بیانات اور ان کے عمل میں موجود تضاد واضح ہے۔

حال ہی میں استنبول میں ہونے والی ہنگامی اسلامی سربراہی کانفرنس کے پہلے ہی سیشن میں اکثر اہم عرب ممالک کے سربراہ غائب تھے شائد وہ قبلہ اول سے مطلق اس حساس نوعیت کے مسئلے کو اس قدر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اب بھی چاہتے ہیں زبانی کلامی بیانات پر اکتفا کریں ،عرب اور مسلم عوام کی بھر پور خواہش تھی کہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس کچھ عملی اقدامات کے بارے میں اعلان کرے جیسے فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ ،پہلے گام کے طور پرامریکی سفیروں کو بلاکر احتجاج ریکارڈ کرانا اور روابط کے خاتمے کی دھمکی دیناتاکہ ٹرمپ اپنا اعلان واپس لے ،اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنا اور فلسطینی انتفاضہ کی مکمل حمایت کا اعلان کرنا ۔۔۔

لیکن اگر بغور اوآئی سی کے اعلامیے کو پڑھا جائے تو یہ اعلامیہ ماسوائے خالی بیانات اور تشہیرات کے کچھ بھی اپنے اندر ٹھوس چیز نہیں رکھتا ۔

استنبول میں ہونے والے اس اجلاس میں سب سے سخت لب و لہجہ اردگان کا تھا لہذا مسلم امہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ دنیا بھر کے حریت پسند انسان اردگان سے یہ توقع رکھ رہے تھے کہ وہ اس اجلاس ترکی میں اسرائیلی سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان تو کرے گا لیکن اردگان نے سوائے جذباتی گفتگو کے عملی طور پر نہ تو سفارتخانہ بند کرنے کی بات کی اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ جاری تجارت اور میگا پروجیکٹس سے پچھے ہٹنے کی بات کی ۔

فلسطین صدر محمود عباس کی طویل اور تکراری گفتگو میں ایک بھی بار ’’مزاحمت اور انتفاضہ ‘‘کا تذکرہ نہیں ہوا وہ بھی اردگان کی مانند صرف بار بار جذباتی الفاظ کو دہرانے کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہ کہہ سکا جیسے عملی اقدام کہا جاسکے ۔

اسرائیلی تجزیہ کار سچ کہا کرتے تھے کہ عرب کچھ دن خوب شور مچاینگے لیکن سچائی وہ بھی جانتے ہیں ،نیتن یاہو نے بھی سچ کہا تھا کہ ہمارا مسئلہ عرب حکمران نہیں ہیں بلکہ وہ رائے عامہ ہے جو عرب و مسلم ممالک کی سڑکوں پر موجود ہے ‘‘

لہذا دنیا بھر کے حریت پسندوں کو چاہیے کہ وہ اس ظلم اور ناانصافی کیخلاف آواز اٹھاتے رہیں مسلم و عرب عوام کو چاہیے کہ وہ آواز اٹھاتے رہیں اور فلسطین میں موجود انتفاضہ کی پیٹھ گرماتے رہیں یہاں تک حکمران مجبور ہوں کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں ۔


تحریر۔۔۔۔حسین عابد

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ترجمان سید حمید حسین نقوی نے کہا کہ ا مریکی اقدام نے امت مسلمہ کے دل میں خنجر پیوست کر دیا ہے۔امریکہ کو عالمی قوانین کی ہرگز پرواہ نہیں اور نا ہی دنیا کے امن سے کچھ مطلب اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے اس نے دنیا بھر میں انسانوں کا قتل عام کیا ہے۔بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر فوری طورپر امریکہ سفیرکو وزات خارجہ میں طلب کیا جائے۔حکومت پاکستان اس مسئلے اپنے موقف کو واضع طور پر پیش کرئے۔

ان کا مذید کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین اس مسئلے پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گی قبلہ اول مسلمانان عالم کا دل ہے،اس کیخلاف امریکہ اور اسرائیل کی سازش کو ہم کبھی کامیاب ہونے نہیں دینگے، اسرائیل انشااللہ دنیا کے نقشے سے جلد مٹ جائیگا،اسرائیل کے خاتمے کا کاونٹ ڈاون شروع ہو چکا،عالم اسلام کا بچہ بچہ غاصب انسانیت دشمن صہیونی ریاست کیخلاف لڑنے اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہاں ہے تمام اسلامی ممالک کو مل کر اس ناسور کا خاتمہ کرنا ہو گا اگر ایسا بروقت نہ ہوا تو پوری دنیا کا وجود بلعموم اورملت اسلامیہ بالخصوص خطرے میں ہے نیز اگر 41ممالک کا اسلامی اتحا د القدس کی آزادی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو اس کے قیام پر سوالیہ نشان ہے،انشاء اللہ ظالموں جابروں کے خاتمے کا وقت آ پہنچا ہے،وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل اور اسکے سرپرست امریکہ کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائینگے،مسلمان متحد ہو کر امریکہ اسرائیل اور اسکے اتحادی پٹھوں کیخلاف ہر سطح پر آواز بلند کریں،یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اسے ہم سرانجام دیتے رہیں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree