The Latest

یہ اللہ والے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے روس، ایران اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں فوعہ اور کفریا کے علاقوں سے 5 ہزار اور دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقے مادایا اور زبدانی سے 2200 افراد کا انخلا کیا جانا تھا، 15 اپریل 2017ء کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے لئے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے محاصرے والے علاقے راشدین میں جمع تھے، کچھ لوگ اس علاقے سے نکلنے کے لئے بسوں پر سوار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے کہ اس دوران ایک خودکش دھماکہ کرکے ایک سو چھبیس کے لگ بھگ بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے۔

مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دہشت گردی کی تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے دونوں ہی چونکہ بہت زیادہ اللہ، اللہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں، اس لئے عام لوگ بھی انہیں پکا مسلمان اور مجاہد ہی سمجھتے ہیں۔ ان اللہ والوں نے چن چن کر مسلمانوں کے ڈاکٹروں، ادباء، شعراء، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے جوانوں، سکول کے بچوں، حتٰی کہ قوالوں اور نعت خوانوں کا بھی قتل عام کیا۔ انہوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات، اولیائے کرام کے آستانوں اور قائد اعظم کی ریزیڈنسی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ عراق، شام، افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان سمیت جہاں ان کا بس چلا انہوں نے عام مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے مقدس اور محترم مقامات پر حملے کئے۔

اسلام دشمنوں نے، ان کے اللہ اللہ کے نعروں سے  خوب فائدہ اٹھا یا انہیں منہ مانگے فنڈز فراہم کئے اور ان کے نعرہ تکبیر اور انہی کی شمشیر کے ذریعے مسلمانوں کے گلے کٹوائے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے بعد اب انہیں ایک نئے انداز میں مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا انداز پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے، اس کی ایک مثال افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ملاحظہ فرمائیں، جہاں دو سال پہلے ایک ستائیس سالہ، قرآن مجید کی حافظہ کو لوگوں کے ہجوم نے قرآن مجید کی شان میں گستاخی کا الزام لگا کر اتنا زدوکوب کیا کہ وہ مر گئی، اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگائی گئی، پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا، پھر اسے دریا میں پھینکا گیا، جہاں سے بعد میں اس کی لاش نکالی گئی، اس کے تابوت کو خواتین نے کندھا دیا اور  پھر اسے دفن کیا گیا، قانونی کارروائی اور میڈیا کی تحقیقات نے گستاخی کے الزام کی تردید کی،  تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازی اور نیک و باحیا خاتون تھی اور اس پر گستاخی کا الزام بالکل جھوٹا تھا، لیکن جن کا مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنا تھا، انہوں نے اپنا کام کیا اور بس۔۔۔۔

اس کے ٹھیک دو سال بعد بالکل وہی کہانی مردان یونیورسٹی میں بھی دہرائی گئی، جہاں ایک طالب علم کو نعوذ باللہ گستاخ رسول کہہ کر اتنا پیٹا گیا کہ وہ  ہلاک ہوگیا، کابل کی کہانی کی طرح پولیس یہاں بھی موجود تھی، لیکن بے بسی کی ایکٹنگ کرتی رہی، اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ آدمی اتنا بد کردار تھا کہ اسے یونیورسٹی نے بھی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس طالب علم کی کونسی بدکاری، یونیورسٹی کو پسند نہیں تھی، اس کے لئے آپ اس لنک پر موجود اس کا وہ انٹرویو دیکھ لیں، جو اس نے اپنے قتل سے صرف دو دن پہلے دیا تھا۔

یہ تھی اس کی بد کرداری جس کی  سزا اسے دی گئی، آپ اس کا انٹرویو سنیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس طرح کے آدمی پر جیب سے چرس برآمد ہونے کا الزام تو لگ نہیں سکتا تھا، لہذا اس پر گستاخی کا الزام لگا دیا گیا۔

انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ  وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جا رہا، اس سے ہماری ڈگریاں متاثر ہو رہی ہیں اور کچھ پروفیسرز نے دو، دو اور تین تین عہدے سنبھال رکھے ہیں، ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار تک کیوں لی جاتی ہے۔ اس نے ان مسائل کے حل کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد مجمع عام نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ وہی اللہ اکبر کے نعرے جو شام میں خودکش لگاتے ہیں اور جو کابل میں قاتلوں کے ہجوم نے لگائے، وہی مردان کا ہجوم بھی لگا رہا تھا۔ ابھی مردان یونیورسٹی میں اللہ اکبر والوں کے ہجوم کی گونج باقی ہی تھی کہ لیاقت میڈیکل ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین لغاری کو  لاہور سے داعش کے ساتھ ہم کاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب داعشی فکر مدارس کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔

اگر ہمارے سکیورٹی ادارے داعشی و طالبانی فکر کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ کسی بھی یونیورسٹی کے اسٹاف میں جب تک داعشی و طالبانی فکر موجود نہ ہو، اس وقت تک یونیورسٹی کے طلباء میں داعشی سرایت نہیں کر سکتے۔ عین اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پنجاب یونیورسٹی لاہور بھی نعرہ تکبیر ۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اسٹاف میں بھی اللہ والے اپنا کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی مشعل گل ہونے کو ہے۔ اگر ہمارے حکام اور عوام، تعلیمی درسگاہوں میں ان گل ہوتی ہوئی مشعلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھئے! غفلت کاعلاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے، جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امورروابط ملک اقرار حسین نے یوم اقبال ؒکے موقع پرمرکزی سیکریٹریٹ سےجاری اہنے ایک بیان میں کہاہے کہ آج پوری پاکستانی قوم مصور پاکستان کے سامنے شرمسار ہے،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی 79 ویں برسی ایسے حالات میں منائی جارہی ہے جبکہ وطن عزیز میں کرپشن بدامنی اور ناانصافی اپنے عروج پر ہے،وطن عزیز کے اعلیٰ ترین منصبوں پہ کرپٹ بدکردار اور نااہل افراد براجمان ہیں ، وطن عزیز کی موجودہ کیفیت یقینا شاعر مشرق کی روح کو تڑپا رہی ہوگی،صوبوں ،علاقوں، زبانوں اور مسلکوں میں تقسیم شدہ پاکستان انصاف اور امن کی بھیک مانگتا پاکستان کرپشن اور قرضوں میں دبا پاکستان یقینا قائد اور اقبال کا پاکستان نہیں ہوسکتا،ہمیں معاشرے میں مصور پاکستان علامہ محمداقبال کے افکار کی ترویج کےلئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے تاکہ نظریہ پاکستان کو دوام مل سکے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پانامہ کیس کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کی طرف سے وزیراعظم پر عائد الزامات کی مکمل تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ ہی انہیں مجرم قرار دیتا ہے۔عدالت عالیہ کہ دو سینئر ترین ججز نے واضح طور پر کہا ہے کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے جبکہ باقی تین ججز کی جانب سے اس پر مزید تحقیقات کا حکم دی گیا ہے اسکے بعد بھی نواز شریف کا وزارت عظمی کے منصب پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ۔دو سینئر ججوں کی طرف سے انہیں نا اہل قرار دیا جا چکا ہے تاہم عدالت کے کلی فیصلے نے انہیں ضمیر کی عدالت میں دھکیل دیا ہے۔ کوئی بھی باضمیر آدمی ان الزامات کے بعد کسی عہدے پر قائم رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ جب تک اپنی بے گناہی ثابت نہ کردے۔وزیر اعظم کو عدالتی فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سے کسی قسم کی امید رکھنا فضول ہے۔اٹھارویں گریڈکا سرکاری افسر اور دیگر ماتحت افسران وزیر اعظم سے پوچھ گچھ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ جے آئی ٹی وزیر اعظم کو بچانے کے لیے ایک محفوظ راستہ ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کو عدالت عالیہ سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔پاکستان کی عوام ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتی ہے لیکن آج کہ عدالتی فیصلہ سے پاکستانی عوام کو مایوسی ہوئی ہے اور اس فیصلے نہ ملک کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔محض منصوبوں کے اعلان سے خوشحالی نہیں آتی بلکہ خوشحال معاشرہ ایسے معاشرے کو کہا جاتا ہے جہاں ہر فرد کو بلا تخصیص صحت، تعلیم ،رہائش اور بجلی سمیت تمام سہولتیں آسانی سے حاصل ہوں۔پاکستان میں لوگ غربت کے باعث خودکشیاں کرنے اور اپنے جگر کے ٹکروں کو زہر دینے پر مجبور ہیں جب کہ حکمران اقتدار بچ جانے پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ملک کے بحرانوں کا بنیادی سبب صرف یہی ہے کہ حکمرانوں کی تما م تر کوششیں عوام کو بچانے کی بجائے اقتدار بچانے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب حکمرانوں نے اپنا فیصلہ نہ سنایا تو پھر ان کا فیصلہ عوامی عدالت کرے گی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ سیاسیات کا ایک اہم اجلاس مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد نقوی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں پانامہ کیس کے ممکنہ فیصلے اور اس کے مختلف پہلووں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ 20اپریل کا دن پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل ہو گا۔حکمران تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اپنی بدعنوانی چھپانے میں ناکام رہے ہیں۔عدالت عالیہ کی طرف سے پاناما کیس کے فیصلے کی تاریخ کے تعین کے بعد کرپٹ حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کی سیاسی تنزلی کے آغاز کا دن ہے۔ حکمرانوں کی سیاسی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔انہوں نے کہا عدالت عالیہ کا فیصلہ عدلیہ کے وقار میں یقیناًاضافے کا باعث ہو گا۔ تمام سیاسی قوتوں کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن قبول کیا جائے ۔مرکزی سیکرٹری سیاسیات نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا واضح اور شفاف فیصلہ عالمی سطح پر پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے تاریخی اور یادگار تاثر چھوڑے گا۔  

وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی کی مسلسل جدوجہد کے بدولت سانحہ شب عاشور جیکب آباد کے زخمیوں میں چیکس تقسیم کی تقریب ڈی سی آفس جیکب آباد میں منعقد ہوئی اس موقع پر ڈی سی آغا شاہنواز بابر پٹھان، مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی، پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر میر لیاقت خان لاشاری، سید احسان شاہ ، چیئرمین عباس خان جکھرانی ، شہداء کمیٹی کے ذمہ داران اور زخمی موجود تھے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ جیکب آباد میں شب عاشور کا سانحہ دھشت گردی کا انتہائی بھیانک واقعہ تھا، اس سانحے میں ملوث مجرموں کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکانا اور جیکب آباد ،شکارپور سمیت ملک بھر میں دھشت گردی کے اڈوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ جیکب آباد میں شہداء کا یادگار ٹاور تعمیر کیا جائے۔ سانحہ سہون شریف کے متاثرین کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا، سانحے کو دو ماہ گذر گئے نہ وارثان شہداء کو امدادی رقم ملی اور نہ ہی زخمیوں کو امداد دی گئی۔ سانحے کے زخمی علاج کے لئے دربدر ہیں، سندہ گورنمنٹ کی نا اہلی کے سبب سندہ میں دھشت گردی کی وارداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین ،پہلے دن سے سانحہ سہون شریف کے متاثرین کے ساتھ ہے، آئندہ بھی ہر محاذ پر متاثرین کے حق میں آواز بلند کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ شہداء کے وارثوں کو ملازمتیں دی جائیں اور شب عاشور پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے شہید محمد شریف جتوئی کے قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ زائرین کی مشکلات حکمرانوں کی پیدا کردہ ہیںجس کا مقصد امریکہ اور آل سعود کو خوش رکھنا ہے۔ زائرین کے لئے جان بوجھ کر مشکلات کھڑی کی گئی ہیں، کئی کئی روز تک مرد، خواتین ، بزرگ اور بچوں کو بارڈر پر روکا جاتا ہے،محکمہ حج و اوقاف کا شعبہ زائرین ، زائرین کے مسائل سے لا تعلق اور غیر فعال ہے۔
آخر کس قانون کے تحت ، بلوچستان بارڈر پر زائرین کو روک کر این او سی طلب کیا جاتا ہے اور زائرین کو بارڈر پر محصور رکھا جاتا ہے؟نوازلیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت زائرین کے مسائل فی الفور حل کرے۔
                  
انہوں نے کہا کہ سانحہ سہون شریف کے متاثرین کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا، سانحے کو دو ماہ گذر گئے نہ وارثان شہداء کو امدادی رقم ملی اور نہ ہی زخمیوں کو امداد دی گئی۔ سانحے کے زخمی علاج کے لئے دربدر ہیں، سندہ گورنمنٹ کی نا اہلی کے سبب سندہ میں دھشت گردی کی وارداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین ،پہلے دن سے سانحہ سہون شریف کے متاثرین کے ساتھ ہے، آئندہ بھی ہر محاذ پر متاثرین کے حق میں آواز بلند کریں گے۔
                 
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری دھشت گردی کے خلاف اورزائرین کرام کے مسائل کے حل کے لئے  جمعہ 28  اپریل کو یوم احتجاج منائیں گے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مقتول بہت براتھا،  وہ ملحد، مشرک ، ناصبی اور بدبخت تھا،  اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے  روس سے سول انجئیرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی تھی لہذا وہ کافر بھی تھا، اس کے ملحد ہونے ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ وہ کسی دینی تنظیم کا ممبر بھی نہیں تھا،  الغرض وہ چرس پیتا تھا، نشہ کرتا تھا، شراب فروخت کرتا تھا۔۔۔ یہ  بھی اہم بات ہے کہ  مشال خان کے موبائل اورسوشل میڈیاسے کوئی  توہین آمیزموادبرآمدنہیں ہوا،[1] تاہم پھر بھی  آپ جو چاہیں اس کے بارے میں کہہ لیں۔

اب جنہوں نے اسے قتل کیا ہے ، ان کی اسلام دوستی، شرافت  اور ان کے مہذب ہونے کا اندازہ آپ اس کےقتل کی ویڈیو دیکھ کر خود سے لگا لیجئے!؟ ہر باشعور انسان جب اس ویڈیو کو دیکھتا ہے تو اسے خود بخود یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس  کے قاتل کتنے ، مہذب، اسلام پسند اور شریف  شہری ہیں۔

دوسری طرف سیکورٹی اداروں کی بے بسی اور بے حسی کو اپنی جگہ رہنے دیجئے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ  اس ملک کی اہم  سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس قتل کے بعد کسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔  عمران خان سمیت اکثر شخصیات نے صرف زبانی کلامی مذمت پر ہی اکتفا کیا ہے اور کسی نے مقتول کے جنازے میں شریک ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ،  مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں نے ہاسٹل کے جس کمرے میں اسے گولی ماری اور تشدد کیا، اس کمرے کی دیوار پر مشال خان نے خود لکھ رکھا ہے کہ ’’اللہ سب سے بڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں‘‘۔[2]

اب قاتلوں کی اسلام پسندی اور منصف مزاجی کا اندازہ اس سے بھی  لگا لیجئے کہ  مشال کے قتل کے بعد اس  کی یونیورسٹی سے اس کی معطلی کا نوٹیفکیشن سامنے آ گیا۔ نوٹیفکیشن پر قتل کے دن کی ہی تاریخ لکھی ہے۔ تفتیش کاروں کیلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسی نوٹیفکیشن نے طلبہ کو مشتعل کیا؟

 اگر مشال نے توہین کی تو تفتیش سے پہلے معطل کیسے کر دیا گیا؟  ایک دوسرا نوٹیفکیشن بھی اسی روز جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مشال کو معطل نہیں کیا کیا گیا بلکہ  اس کے دو ساتھیوں کو معطل کیا گیا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ  مشال نے کچھ ماہ پہلے اپنے فیس بک اکائونٹ پر لکھا تھا کہ کسی نے اس کا جعلی فیس بک اکائونٹ بنا رکھا ہے۔ جعلی اکائونٹ سے گستاخانہ پوسٹ مشال کے قتل کے کئی گھنٹے بعد کی گئی۔ مشال زندہ ہی نہیں تھا تو اس کے جعلی اکائونٹ سے کس نے پوسٹ کی؟[3]

اگر قاتل اپنے دعووں میں سچے ہوتے تو تب بھی ان کے پاس  قانون کو  اپنے ہاتھ میں  لینے کا کوئی جواز نہیں تھا  اور قتل کی واردات کے بعد جعلی نوٹیفکیشنز کا جاری کروانا اور اس کے جعلی اکاونٹ سے گستاخانہ پوسٹس کا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاتل کتنے سچے اور اسلام پسند ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں میں یونیورسٹی کے اسٹاف کے لوگ بھی موجود تھے، اسٹاف کے لوگوں کا شامل ہونا اس بات کی واضح اور شفاف دلیل ہے کہ اس کے  قتل کا فیصلہ کہیں اور کیا گیا ہے۔[4]

تیسری اہم بات یہ ہے کہ  مشال کو کمرے میں دو گولیاں مار کر پھر گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور اس کے بعد مجمع عام نے اللہ اکبر کے نعرے لگاکر ثواب حاصل کیا۔  قاتل نے پہلے گولیاں ماریں اور پھر مجمع عام اس پر کود پڑا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے لوگوں کو پہلے سے ہی اس کام کے لئے  ذہنی طور پر تیار کیا گیاتھا۔ اتنے لوگوں کا لاش کو زدوکوب کرنا اور اس پر کودنا یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی  مشتعل شخص کی کارروائی نہیں بلکہ ایک پلاننگ کا نتیجہ ہے۔

اس طرح بلوہ عام میں لوگوں کا کسی شخص کو پیٹ پیٹ کر ماردینا اور قانونی اداروں کا اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کے ہاتھوں سے بڑا ایک ہاتھ موجود ہے جو قانون کے ہاتھوں  پر بھی اپنی گرفت رکھتا ہے۔

وہ ہاتھ اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اس کی گرفت کے باعث بالکل بے بس ہیں، یوں تو یہ سب کو معلوم ہے اور ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کس کے قبضہ گروپس ہیں اور کون شدت پسندوں کو پال رہاہے!؟

 دودھ بیچنے والے گامے سے لے کر ریڑھی لگانے والے جورے تک ،سب کو پتہ ہے کہ کون یونیورسٹیوں میں داعش اور طالبان کی فکر کو در آمد کر رہاہے، کس کے ہم فکر افراد یونیورسٹیوں کے سٹاف میں بیٹھ کر نہتے طالب علموں کا استحصال کرتے ہیں!؟  کون قانون کا لٹیرا ہے، کون دہشت گردوں کے لئے فنڈنگ کرتا ہے؟ کون ہے جو نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر قانون، مذہب اور  لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے!؟ کون   طلبا   سے طاقت اور دھونس  کی زبان میں بات کرتا ہے، کون تعلیمی اداروں میں  کلنک کا ٹیکہ ہے۔۔۔ سب جانتے ہیں لیکن اگر نہیں پتہ تو ہمارے سیکورٹی اداروں کو نہیں پتہ۔

سیانے کہتے ہیں کہ  آپ ایک عدد گاجر لے کر اس کے دوٹکڑے کر لیں، ایک ٹکڑے کو پانی اور چینی کے شیرے  میں ڈال کر رکھ دیجئے اور دوسرے کو پانی اور نمک کے محلول میں رکھ دیجئے،  کچھ عرصے  کے بعد ایک ٹکڑا مربّے میں اور دوسرا اچار میں تبدیل ہو جائے گا ۔ گاجر ایک ہی تھی لیکن ماحول کا اختلاف اس کے ذائقے  اور تاثیر کو تبدیل کردے گا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ  اپنی آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے پاک ، پاکستان ورثے میں دیں  اور اپنے  ملک کی  حقیقی معنوں میں حفاظت کریں تو ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کے ماحول کو شدت پسندی سے پاک کرنا ہوگا اور یونیورسٹیوں کے اسٹاف میں موجود، طالبان اور داعش کی ہم فکر  کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لاہور) ملک بھر سے شیعہ سنی علماء و مشائخ کا دارالعلوم حزب الاحناف میں مشترکہ اجلاس ،اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی خصوصی شرکت،ملک میں انتہا پسندی فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لئے ،،اتحاد امت مصطفی  فو رم،،کے قیام کا اعلان کیا گیا،علماء و مشائخ نے متفقہ طور پر علامہ پیر شفاعت رسول نوری کو اتحاد امت مصطفی فورم کا مرکزی صدر اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماسید اسدعباس نقوی کو مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے علماء و مشائخ کی اس کاوش کو ملک میں امن عامہ اور اتحاد بین المسلمین کے لئے سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ شیعہ سنی اسلام کے دو بازو ہیں ان میں اختلافات کو ہوا دینے والے اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں،ملک دشمنوں نے مسلم امہ کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اسلام کے روشن چہرے مسخ کرنے کی کوشش کی،الحمداللہ ان محب وطن اور حقیقی علماء و مشا ئخ نے آج اس اتحاد کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے ،کہ پاکستان میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرزندن بیدار ہیں اوردشمن کی ہر سازش کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں،جس طرح قیام پاکستان کے لئے شیعہ سنی علماء و عوام نے متحد ہوکر جدوجہد کی انشااللہ پاکستان بچانے کے لئے بھی ہم متحد ہو کر میدان عمل میں حاضر رہیں گے۔

عرفان ولایت کنونشن وعلمائے شیعہ کانفرنس

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ایک اور کامیاب پروگرام عرفان ولایت کنونشن ہر حوالے سے ایک مثالی پروگرام تھا جس میں تنظیمی معاملات کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ عمومی پروگرامز بھی کئے گئے جشن مولود کعبہ امام متقیان کی شان میں منعقد ہونے والا جشن اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ولایت علی ؑپر کتنا گہرا ایمان رکھتی ہے عشق مرتضیٰ ؑ میں قصیدہ خوانی اور مقررین کے بیان تذکرہ امام متقیان کرتے رہے اور عاشقان مولا علی ؑ ولایت علی میں جھومتے رہے اور اپنی روح کی تسکین کرتے رہے ۔
    
شب شھداءبھی ایک اچھی سوچ کا حامل پروگرام تھا جس میں شھداءکے بچوں کی شرکت نے اس کو چار چاند لگا دئیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ شھداءکی تصاویر کے آگے پھول پتیاں نچھاور کی گئیں چراغاں کیا گیا اور اس پروگرام کی اہم بات یہ تھی کہ متذکرہ شھداءمیں صرف ملت جعفریہ کے شہدا ہی کا تذکرہ نہیں کیا گیا بلکہ ہر اس پاکستانی شہیدکا ذکر تھا جس نے پاکستان کی عظمت حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس میں شیعہ سنی کے ساتھ ساتھ پولیس آرمی اور دیگر سیکورٹی فورسز کے شہداءکی تصاویر کو بھی انتہا کی خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہوا تھا ،یہ یقینا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے ایک منفرد انداز تھا ۔

تنظیمی نشستوں میں تنظیمی کارکردگی رپوٹس پیش کی گئیں جن کو دیکھ کر اور سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر سیاسی ومذہبی دباﺅ کے باوجود مجلس وحدت مسلمین پاکستان ہرآنے والے دن میں آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے عزم سے کبھی متزلزل نہیں ہو گی۔اور شیعہ حقوق کی جنگ لڑتی رہے گی اور آخر کار کامیابی اس کا مقدر بنے گی ۔

کم ترین وسائل اور بدترین دشمنی میں آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اخلاص سے جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک کے اندر جو شیعہ سنی بھائی چارہ کی فضا قائم کی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی ، دستوری  ترامیم بھی لائی گئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اندر یہ فکر موجود ہے کہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر مناسب ترامیم کر کے آگے بڑھا جائے۔

یہاں رک کر میں پاکستان کی شیعہ برادری کو بالخصوص اور مظلومین پاکستان کو بالعموم دعوت دیتا ہوں کہ آئیے اور قوم سازی کی اس تحریک کا حصہ بنئیے اگر آپ ملک عزیز پاکستان اور پاکستان میں بسنے والی ملت جعفریہ اور مظلومین کی محرومیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں شخصیت پرستی کے بتوں کو توڑ کر نظریات کی خاطر میدان میں نکلنے والوں کا ساتھ دیں کیونکہ یہ بات جتنی جلدی آپ کو سمجھ آجائے اتنی ہی جلدی قوم فروشوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور اہداف کے حصول کو جلدی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

امید ہے وہ افراد وہ ادارے وہ شخصیات جو ملت کی سربلندی اور عظمت چاہتے ہیں میرے اس پیغام پر غور کریں گے اور اپنی قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں گے ۔دوسری طرف پاکستان کے تمام اداروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں ہم دہشت گرد نہیں ہیں ہم نے اپنے خون سے دہشت گردوں کو روکا ہے ۔ہم غدارِ وطن نہیں بلکہ میں نے ہمیشہ وطن کے غداروں کو بے نقاب کیا لہذآپ پاکستانی ادارے اس بات کا ادراج کریں اور ملت تشیع کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو روکیں یہی ملک وقوم کے لئے بہتر ہے ۔

علامہ راجہ ناصر عباس کی بے باک نڈر اور مخلص قیادت اس وطن عزیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گی ہمیں اور بھی شہادتیں دینی پڑی تو ہم دیں گے،ہماری تاریخ گواہ ہے نہ ماضی میں ہم کبھی میدان سے بھاگے اور نہ ہی آج راہ فرار اختیار کرنے والے ہیں۔

تنظیمی فعالیت میں تیزی کے لئے تجویز کئے گئے اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر بہت ساری چیزوں کو چھوڑ رہا ہوں ،بس یہی کہوں گا کہ شیعہ علماءکااتنی بڑی تعداد میں علماءشیعہ کنونشن میں شریک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ علماءکرام نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور دشمنوں کے منفی پراپیگنڈے کسی کام کے نہیں ،آﺅ سونے اور لوہے کی پہچان کرو اپنے شعور کو کسوٹی بناﺅ پرکھنے کا انداز بدلو اور جو درد رکھتا ہے کچھ کرنا چاہتا ہے اس کا ساتھ دو میدان میں نکلو پاکستان میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے منظم ہو جاﺅ اپنا معاشی، معاشرتی ، سیاسی، اخلاقی ، مذہبی ، سماجی وروحانی کردار ادا کرکے یہ بات ثابت کردو کہ آپ واقعا پیروکاران محمد وآل محمد ہو ۔

آﺅ اس ملک کو محبت سے بھر دو نفرتوں کو دفن کردو آﺅ آج وقت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ؟تا کہ مولا کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ تم نے میری سیرت پر کیسا عمل کیا ہے ؟تا کہ اے عزاداران امام حسینؑ اس سوال سے بچ جاﺅ کہ میری کربلا میں قربانی کے مقاصد کے حصول کے لئے تم نے کیا کیا؟۔

آﺅ آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاﺅ تاکہ تاکہ امام زمانہؑ کے ظہور کی راہیں ہموار ہو سکیں ۔

خدا وند متعال محمد وآل محمد واصحاب محمد کے صدقہ اور طفیل ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے(الہی آمین)

رہزنوں کا رہبروں سے رابطہ محفوظ ہے
لٹ گیا میرا وطن اور فیصلہ محفوظ ہے


تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی  

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم رضا عابدی و دیگر رہنماوں نے کہا ہے کہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی حیدرآباد کی میڈیکل طالبہ کی لاہور آپریشن کے دوران گرفتاری نے پاکستان میں داعش کی فعالیت اور نوجوانوں کی اس میں شمولیت سے انکاری ریاستی اداروں کی کارکردگی اور دعوو ¿ں کی پول کھول دی ہے، طالبہ کا داعش میں شمولیت کیلئے حیدرآباد سے لاہور اور پھر شام جانا اور پاکستان واپسی کے بعد لاہور سے گرفتار ہونا ثابت کرتا ہے کہ پورے ملک میں داعش اور اسکی فرچائز کالعدم دہشتگرد تنظیموں کا نیٹ ورک اور سہولت کار موجود ہیں، ان خیالات کا اظہار رہنماو ¿ں نے وحدت ہاو ¿س کراچی میں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں علامہ مبشر حسن، علامہ صادق جعفری، علامہ علی انور،علامہ اظہر نقوی، علامہ سجاد شبیر رضوی، علامہ احسان دانش، تقی ظفر و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

اس موقع پر رہنماوں نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر سے درجنوں طالبات اور ناجوانوں کی داعش سمیت کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک میں شمولیت پر محب وطن حلقے چیخ چیخ کر حکومت اور ریاستی اداروںکو ملکی سلامتی و بقاءکو درپیش اس خطرے کی طرف متوجہ کرتے رہے، لیکن کرپشن میں مصروف حکمرانوں اور نااہلی و غفلت کے شکار ریاستی اداروں کیجانب سے ماضی کی طرح اسے محض افواہ قرار دیکر نظرانداز کیا جاتا رہا، آج جب داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی حیدرآباد کی میڈیکل طالبہ کی گرفتاری لاہور سے عمل میں آ چکی ہے تو اس سے حکومت اور ریاستی اداروں کے ”داعش کو پاکستان میں قدم رکھنے نہیں دینگے، داعش یہاں اپنا سکہ نہیں جما سکتی“ جیسے سب دعوے دھرے کے دھرے ثابت ہوگئے ہیں۔ رہنماو ں نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر سے داعش کے نیٹ ورک اور اس میں نوجوانوں کی شمولیت کو محض افواہ قرار دیکر مزید نظرانداز کرنے کے بجائے آپریشن ردالفساد کے تحت پروفیشنل جامعات، جالجز سمیت تمام تعلیمی اداروں میں فی الفور گرینڈ آپریشن کرکے داعش اور اسکی فرنچائز کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورک اور انکے سہولت کاروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے،اس کے ساتھ ساتھ کراچی سمیت سندھ بھر کے دہشتگردی میں ملوث سینکڑوں نام نہاد مدارس کے خلاف بھی فی الفور کارروائی عمل میں لائی جائے، جو سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی لڑائی کے باعث تعطل کا شکار ہو چکی ہے، اسکی نذر نہیں کیا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree