The Latest

کلام الامام امام الکلام{نہج البلاغہ}

وحدت نیوز(آرٹیکل) کائنات میں اس دور اور اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں سے ایک قرآن کریم ہے جو ختمی المرتبت کا ایک زندہ معجزہ ہے ۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ کوئی قرآن کے چیلنج کے باوجود بھی قرآن کی طرح ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی قرآن کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔دوسرا صحیفہ سجادیہ ہے جو امام زین العابدین  علیہ السلام کی دعاوں اور مناجات اور معشوق ازل سے کئے گئے راز و نیازپر مشتمل ہے ۔جو علوم و معارف کا گنجینہ،سیر و سلوک کا جامع دستور عمل ہے اور فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر ہے کہ عصر حاضر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔تیسرا نہج البلاغہ ہے جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔اسی لئے ہر عصر اور ہر دور کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرانا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہیں ۔کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو  علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔

نہج البلاغہ علوم اور معارف کا وہ گراں بہا سرمایہ ہے جس کی اہمیت اور عظمت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور ہر عہد کے علماو ادباء نے اس کی بلندی اور رفعت کا اعتراف کیا ہے ۔یہ صرف ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ ،حکمت و اخلاق کاسر چشمہ اور معارف ایمان کا ایک انمول خزانہ ہے ۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دھلی ہوئی زبان چوس کر پروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوھر دکھائے کہ ہر سمت سے [فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق] کی صدائیں بلند ہونے لگیں. بیروت کے شھر ت آفاق مسیحی ادیباور شاعر پولس سلامہ اپنی کتاب [اول ملحمہ عربیہ عید الغدیر]میں لکھتے ہیں "نہج البلاغہ مشہور ترین کتاب ہے جس سے امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کتاب سے بالاتر سوائے قرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی اور اس کے بعد چند اشعار پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:یہ معارف و علوم کا معدن اور اسرار رموز کا کھلا ہو ادروازہ ہے ۔یہ نہج البلاغہ کیا ہے ؟ایک روشن کتاب جس میں بکھرے ہوئے موتیوں کو فصاحت و بلاغت کی رسی میں پرووئے گئے ہے ۔یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک ایسا  باغ ہے جس میں پھولوں کی لظافت،چشموں کی صفائی اور آب کوثر کی شیرنی انسان کو نشاط بخشتی ہے ۔جس کی وسعت اور کنارے تو آنکھوں سے نظر آتے ہیں مگر تہ تک نظریں پہنچنے سے قاصرہیں ۔1

کلام امیر المومنین علیہ السلام زمانہ قدیم سے ہی دو ا متیازات کا حامل رہا ہے ۔اور ان ہی امتیازات سے اس کی شناخت ہوتی ہے۔ایک فصاحت و بلاغت اور دوسرا اس کا متعد د جہات اور مختلف پہلووں پر مشتمل ہونا ہے ۔ان میں سے ہر ایک امتیاز اپنی  جگہ کلام علی{علیہ السلام} کی بے پناہ اہمیت کے لئے کافی ہوتا ،چہ جائیکہ ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا ،یعنی ایک گفتگو جو مختلف بلکہ کہیں کہیں بالکل متضاد جہتوں اور میدانوں سے گزر رہی ہے  اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے کمال فصاحت و بلاغت کو بھی باقی رکھے ہوئے ہے ۔اس نے کلام حضرت علی علیہ السلام کو معجزے کی حد سے قریب کر دیا ہے ۔اسی وجہ سے آپ کا کلام خالق اور مخلوق کے کلام کے درمیان رکھا جاتا ہے ۔02

حضرت علی علیہ السلام کے ساتھی جو فن خطابت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتے تھےآپ کی خطابت کے شیدائی تھے۔انہی شیدائیوں میں سے ایک ابن عباس ہے جیسا کہ جاحظ نے لکھا ہے وہ خود هی ایک زبردست خطیب تھے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی باتیں اور تقرریں سننے اور ان سے لطف اندوز ہونےکا اشتیاق چھپایا نہیں ہے ۔چناچہ جب حضرت علی علیہ السلام اپنا مشھور خطبہ [خطبہ شقشقیہ ] ارشاد  فرما رہے تھے  ابن عباس وہاں موجود تھے  خطبے کے دوران کوفے کی ایک علمی شخصیت نے  ایک خط آپ کو دیاآپ  نے خطبہ روک دیا اور یہ خط پڑھنے کے بعد کلام کو آگے نہ بڑھائے ۔ابن عباس نے کہا کہ مجھے اپنی عمر میں کسی بات کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس تقریر کے قطع ہونے کا افسوس ہو اہے ۔ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کے ایک مختصر خط کے بارے میں جو خود انہی کے نام لکھے  گئے تھے  کہتے ہیں " پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے میں مستفید نہیں ہوا ہوں۔03

 معاویہ  ابن ابی سفیان جو آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ بھی آپ کے کلام کی غیر معمولی فصاحت و بلاغت  اور زیبائی کا معترف تھا ۔محقق ابن ابی محقن حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑکر معاویہ کے پاس گئے اور اس کو خوش کرنےکے لئے کہا" میں ایک  گنگ ترین شخص کو چھوڑ کرتمھارے پاس آیاہوں "یہ چاپلوسی اتنی منفور تھی کہ خود معایہ نے اس شخص کو ڈانٹتے ہوئے کہا "وائے ہو تجھ پر،تو علی کو گونگا ترین شخص کہتا ہے جب کہ قریش علی سے پہلے فصاحت سے واقف بھی نہیں تھے ۔علی نے ہی قریش کو درس فصاحت دیا ہے۔04

جو افراد آپ کے ان خطبات کو سنتے وہ بہت زیادہ متائثر  ہو جاتے  تھے ۔آپ کے موعظے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیتے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری کر دیتے تھے۔سید رضی مشھور خطبہ [غرا ]نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں [جس وقت حضرت علی علیہ السلام نے یہ خطبہ دیا تو لوگوں کے بدن کانپ اٹھے ،اشک جاری ہو گئے اور دلوں کی دھڑکنیں بڑھ گئیں۔05

 ہمام ابن شریح آپ  کے دوستوں میں سے تھے جن کا دل عشق خدا سے لبریز اور روح مصونیت سے سرشار تھی ۔آپ کوا صرار کرتے ہیں کہ خاصان خدا کی صفات بیان کیجئے ۔جب آپ نے خطبہ شروع کیا اور جوں جوں آگے بڑھتے گئے  ہمام کے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی گئی اور ان کی متلاطم روح کے تلاطم میں اضافہ ہو تا گیا اور کسی طائر قفس کی مانند روح قید بدن سے پرواز کے لئے بے تاب ہو گئے کہ اچانک ایک ہو لناک چیخ نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا جو ہمام کی چیخ تھی ۔جب لوگ اس کے سرہانے پہنچے تو روح قفس عنصری  سے پرواز کر چکی تھی ۔آپ نے فرمایا :میں اسی بات سے ڈر رہا تھا ۔عجب، پر بلیغ موعظہ آمادہ قلوب پر اسی طرح اثر کرتا ہے۔06

  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تنہا امام  علی علیہ السلام ہی وہ ذات  ہے جس کے کلام کو لوگوں نے حفظ کرنے کا اہتمام کیا ۔ابن ابی الحدید عبد الحمید کاتب سے جو انشاء پردازی میں ضرب المثل ہے اور دوسری صدی ہجری  کے اوائل میں گزرا ہے نقل کرتے ہیں : میں نے{حضرت }علی {علیہ السلام }کے ستر خطبے حفظ کیا اور اس کے بعد میراذہن یوں جوش مارتا تھا جیسا جوش مارنے کا حق رکھتا ہے۔علی الجندی لکھتے ہیں کہ لوگوں نے عبد الحمید سے معلوم کیا تمھیں بلاغت کے اس مقام پر کس چیز نے پہنچایا ؟اس نے کہا "حفظ کلام الاصلع ۔علی کے خطبوں کی مرہون منت ہے ۔

عبد الرحیم ابن نباتہ جوکہ خطبائے عرب میں اسلامی دور کا نامورخطیب ہے اعتراف کرتا ہے کہ میں نے فکر و ذوق کا سرمایہ حضرت  علی علیہ السلام سے حاصل کیا ہے ۔ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس کا یہ قول نقل کیا ہے : میں نے حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی سو فصلیں ذھن میں محفوظ کر لی ہے اور یہی میرا وہ نہ ختم  ہونے والا خزانہ ہے۔مشہور ادیب ،سخن شناس اورنابغہ ادب جاحظ جس کی کتاب البیان و التبین ادب کے ارکان چھارگانہ میں شمار ہوتی ہے میں بار بار حضرت علی [علیہ السلام] کی غیرمعمولی ستائیش اور حد سے زیادہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ البیان و التبین کی پہلی جلد میں ان افراد کے عقیدے کے بارے میں لکھتے ہیں {جو سکوت اور صداقت کی تعریف اور زیادہ بولنے کی مذمت کرتے تھے }:زیادہ بولنے کی جو مذمت آئی ہے وہ بے ہودہ باتوں کے سلسلے میں ہے نہ کہ مفیدو سود مند کلام کے بارے میں ورنہ حضرت علی [علیہ السلام] اور عبد اللہ ابن عباس کا کلام بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔07

اسی جلد میں جاحظ نے حضرت علی [علیہ السلام] کا یہ مشہور جملہ نقل کیا ہے [قیمۃ کل امرء مایحسنہ]ہر شخص کی قیمت اس کے علم و دانائی کےمطابق ہے ۔اور پھر اس جملے کی وضاحت اور تشریح میں لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں "ہماری پوری کتاب میں  اگر صرف یہی  ایک جملہ ہوتا تو کافی تھا ۔بہترین کلام وہ ہے جو کہ ہونے کے باوجود آپ کو اپنے بہت ہونے سے بے نیاز کر دے اور معنی لفظ پنہاں نہ رہیں بلکہ ظاھر و آشکار ہوں ۔پھر کہتے ہیں گویا خدانے اس مختصر جملے کو اس کے کہنے والے کی پاک نیت کی مناسبت سے جلالت کاایک پیراھن اور نور حکمت کا لباس پہنا دیا ہے۔8

ابن ابی الحدید  اپنی کتاب کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :حق تو یہ ہے کہ لوگوں نے بجا طور پر آپ کے کلام کو خالق کے کلام کے بعد اور بندوں کے کلام سے بالاتر قرار دیا ہے۔لوگوں نے تحریر و تقریر دونوں  فنون آپ سےسیکھے ہیں ۔آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگوں نے آپ کے کلام کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ جمع اور محفوظ کیا ہے ۔اسی طرح کتاب شرح نہج البلاغہ کی چوتھی جلد میں بھی ابن ابی الحدید امام کے اس خط کے بارے میں جو آپ نے مصر میں معاویہ کی فوج کے تسلط اور محمد ابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بصرہ کے گورنر عبد اللہ ابن عباس کے نام لکھا تھا اور انہیں اس سانحہ کی خبردے تھی ،لکھتے ہیں : فصاحت نے اپنی باگ دوڑ کس طرح اس مرد کے سپرد کر دی ہے ۔الفاظ کی بندش کو دیکھے جو یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور خود اس طرح اس کے حوالے کر دیتے ہیں جیسے زمین سے اپنے آپ بلا کسی پریشانی کے چشمہ ابل رہا ہو۔سبحان اللہ ،مکہ جیسے شہر میں پروان چڑھنے والے اس عرب جوان کا کیا کہنا کہ جس نے فلسفی و مفکر کی صورت بھی نہیں دیکھی لیکن اس کا کلام حکمت نظری میں افلاطون و ارسطو کے کلام سے زیادہ بلند ہے جو حکمت عملی سے آراستی بندوں کی بزم میں بھی نہیں بیٹھا ۔جس نے بہادروں اور پہلوانوں سے تربیت حاصل نہیں کی لیکن روئے زمین پر پورے عالم بشریت میں شجاع ترین  انسان تھا ۔خلیل ابن احمد سےسوال کیا گیا کہ علی شجاع ہیں یا عنبہ و بسطام؟ اس نے کہا :عنبہ و بسطام کا موا زنہ انسانوں سے کرنا چاہیے علی مافوق بشر ہیں۔9

۔علی الجندی اپنی کتاب [علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ] کے مقدمے میں مولائے کائنات کی نثر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: آپ کے کلام میں ایک خاص قسم کی موسقی کا آہنگ ہے جو احساسات کی گہرائیوں میں پنجے جمادیتا ہے ۔سجع کے اعتبار سے اس قدر منظوم ہے کہ اسے نثری شعر کہا جا سکتا ہے ۔10

حوالہ جات:
۱۔ نہج البلاغۃ،مفتی جعفر حسین۔
۲۔ جاحظ ،البیان و التبین،ج۱،ص۲۳۰۔
۳۔ نہج البلاغہ ،خط،۲۲۔
۴۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص  ۲۶۔
۵۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۸۱۔
۶۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص ۲۷۔
۷۔ جاحظ البیان و التبین،ج۱۔
۸۔ ایضا۔
۹۔ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ ،ج۴۔
۱۰۔ علی الجندی،علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ۔


تحریر:۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(ڈی آئی خان) پاک آرمی کے کامیاب آپریشن میں ملک پاکستان میں فرقہ وریت کو پیدا کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کے اعزائم کھل کر سامنے آئے جس سے ثابت ہوا ملک بچانے والے کون اور ملک بگاڑنے والے کون ہیں ، دس محرم 2013 راولپنڈی مسجد پر حملے کے نتیجے میں ملوس افراد کو پاک آرمی کے کامیاب خیبر فور آپریشن نے بے نقاب کر دیا۔ مسجد پر حملہ شیعہ یا کسی بریلوی سنی نے نہیں بلکہ تکفیری دہشت گردوں نے کیا۔اللہ تعالی نے ملک پاکستان کے دشمنوں کو بے نقاب کر کے شیعہ سنی محبت کو اور مضبوط کر دیا۔آئی ایس آئی اور پاک فوج کی کاوشوں کو سرہاتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک کی خاطر اپنا کردار ادا کیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس سازش میں ملوس پنجاب حکومت کے وزیر قانون اور وزیر اعلی کو بھی انصاف کے کٹھرے میں لایا جائے۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس نے ثابت کر دیا کہ ملک میں کوئی شیعہ سنی تفریق نہیں ۔ ہم پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں ، شیعہ سنی باہم متحد ہیں لیکن تکفیری طالبان و سہولت کار ملک کے لیے زہر قاتل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعداپنی گفتگو میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ترجمان کی تحقیقات پر مبنی پریس کانفرنس نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں کوئی شیعہ سنی فساد نہیں ، 2013میں راجہ بازار میں ہونے والا واقعہ شیعہ سنی کو آپس میں لڑانے کی واضح اور کھلی سازش تھی ۔ وہ واقعہ مملکت خداد پاکستان و آزاد کشمیر میں افراتفری پھیلانے کا ایک ذریعہ بنایا جارہا تھا۔ مکتب تشیع پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ انہوں نے مسجد کو آگ لگائی لوگوں کے گلے کاٹے ۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مکتب تشیع پرامن و محب وطن مکتب ہے۔

 انہوں نے پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد پنجاب حکومت نے منافقانہ کردار ادا کیا۔ ہمارے جوانوں کو پابند سلاسل کیا ۔ لوگوں کو مجالس منعقد کرنے پر دھمکایا گیا ۔ کالعدم جماعتوں کا آلہ کار رانا ثناء اللہ اس میں پیش پیش تھا۔ پنجاب حکومت نے ملت تشیع کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ مگر سلام ہو پاک فوج پر جس نے سارے معاملے کا پر پردہ چاک کرتے ہوئے ناقدین اور جلوسوں اور عزاداری کو ختم کرنے کی باتیں کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنے قائد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو کہ جنہوں نے شیعہ سنی علماء و اکابرین کو اکٹھا کرتے ہوئے تکفیریوں کی اس سازش کو اسی وقت بے نقاب کر دیا تھا۔ وہ سنی علمائے کرام جو اس وقت ہمارے ساتھ کھڑے تھے ہم انہیں ان کی حق گوئی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

مولانا طالب حسین ہمدانی نے کہا ملک میں اب کالعدم تنظیموں کو واقعاً کالعدم کردینا چاہیے۔ علامہ تصور حسین نقوی الجوادی پر حملہ بھی انہی واقعات کی ایک کڑی ہے۔ یہاں پر بھی مذموم کوشش کی گئی مگر شیعہ سنی عوام و قائدین نے ملکر ناکام بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتظامیہ سے کہتے ہیں کہ اگر وہ اس کیس کو حل نہیں کر سکتی تو پاک فوج سے مدد طلب کر ے تا کہ یہاں پر شیعہ سنی تفریق پیدا کرنے والوں کو قوم جان سکے۔ پتہ چلے کہ ریاست کے امن کو کس نے تار تار کرنے کی ایک کوشش کی تھی ۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک اعلیٰ عدالتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے راجہ بازار سمیت تمام واقعا کی تحقیقات کروائی جائیں ۔ حکومتوں میں بیٹھے ان کالی بھیڑوں بھی بے نقاب کیا جائے جو ان واقعات کی بنیاد پر اپنی سیاست کرتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے اندر علامہ تصور حسین نقوی کے کیس کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے تا کہ ریاستی امن کو تہہ و بالا کرنے والوں کو شیعہ سنی عوام پہچان سکے۔

وحدت نیوز(کراچی)مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندہ کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ امریکی غلامی سے اس ملک و ملت کو سوائے خسارے کے کچھ نہیں ملا لہذا اب وقت آچکا ہے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنی قسمت کے فیصلے خود کریں۔شیطان بزرگ امریکہ کا دھمکی آمیز رویہ قبول نہیں، امریکیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ امریکہ اپنے شرمناک کردار کے باعث اقوام عالم کی نظر میں منفور ہوچکا ہے۔ پاکستان کے عوام ، امریکی سامراج سے نفرت کرتے ہیں۔
                 
انہوں نے کہا امریکہ دنیا بھر میں دھشت گردوں کا سب سے بڑا حامی اور سرپرست ہے۔ بدنام زمانہ دھشت گرد گروہ داعش سے لے کر تمام دھشت گردوں کے تانے بانے امریکہ سے ملتے ہیں۔امریکہ اقوام عالم کا مجرم ہے اور اسے ان لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون ناحق کا حساب دینا ہوگا جو امریکنوں کے ہاتھوں بہایا گیا۔
                  
انہوں نے کہا کہ اب وقت آچکا ہے کہ ہم امریکی اتحاد سے جان چھڑائیں،اور اینٹی سامراج بلاک کا حصہ بنیں۔  انہوں نے کہا کہ راولپنڈی سانحہ کے مجرم بے نقاب ہونے پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں۔ پاک فوج ایک باوقار ادارے کی حیثیت سے دھشت گردی کی مزید سانحات میں ملوث مجرموں کو بھی بے نقاب کرے۔ سانحہ سہون شریف ، شکارپور، جیکب آباد،کوئٹہ، پاراچنار کے مجرموں کو بے نقاب کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

وحدت نیوز (لاہور) امریکہ کو دنیا بھر میں شکست کا سامنا ہے،اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے نہیں دینگے،پاکستان کی غیور عوام امریکی صدر کی ہرزہ سرائی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں،امریکی سفیر کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا جائے،اور ملک میں امریکی اہلکاروں کی نقل وحمل کو محدود کیا جائے،جمعہ کے روز پنجاب بھر میں امریکی صدر کی ہرزہ سرائی کیخلاف یوم مذمت منایا جائے گا،پاکستان کیخلاف میلی نظر سے دیکھنے والوں کو وہ سبق سکھائیں گے ،جسے وہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ راجہ بازار پر آئی ایس پی آر کی میڈیا بریفنگ ہمارے موقف کی تائید ہے،اس سانحے کے ذمہ دار پنجاب کے متعصب حکومت ہے،جس نے صرف ملت جعفریہ کی دشمنی میں سانحے کے بعد ہمارے اوپر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے،ہمارے پرامن پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل تباہ کیے،ہمارے ساتھ مقبوضہ کشمیر والوں جیسا سلوک کیا گیا،ہم شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کیخلاف ہر قسم کے قانونی آئینی کاروائی کریں گے،ن لیگی حکومت نے پاکستان میں بسنے والے پانچ کروڑ ملت جعفریہ کی توہین کی،اور تکفیری دہشتگردوں کی خوشنودی کے لئے ہمیں بدترین انتقام کا نشانہ بنایا،سانحہ راوالپنڈی میں ہمارے مساجد و امام بارگاہوں کو نذر آتش کروانے اور بے گناہوں کے قتل عام کے ذمہ دار پنجاب حکومت ہے،علامہ مبارک موسوی نے ایم ڈبلیو ایم لائرونگ کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے جو قانونی پہلووں کا جائزہ لے کر پنجاب کے متعصب حکمرانوں کیخلاف عدالتوں سے رجوع کر ینگے۔

وحدت نیوز(راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین راولپنڈی شعبہ خواتین کی سیکرٹری جنرل قندیل زہرا کاظمی نے سانحہ عاشور راولپنڈی کی سازش بے نقاب کرنے پر پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے قومی سلامتی کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ کے بعد وہ نام نہاد علما و دانشور منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جو سانحہ کے دوران ملت تشیع کو اس واقعہ کا ذمہ دار ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اول روز سے ایم ڈبلیو ایم کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں شیعہ سنی اختلافات قطعی طور پر نہیں ہیں۔ہم نے اخوت و وحدت کا ہمیشہ عملی مظاہرہ کیا ہے۔راجہ بازار مسجد کو آگ لگانے کی سازش کا مقصد راولپندی کی پرامن فضا کو آلودہ کر کے فرقہ واریت کی آگ کو پورے ملک میں پھیلانا تھا۔اس موقعہ پر شیعہ سنی اکابرین نے جس دانشمندی اور بصیرت کا ثبوت دیا وہ لائق تحسین ہے۔سانحہ کے پس پردہ تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ عاشور کی سازش آشکار ہونیکے بعد ہمارے نوجوانوں پر مقدمات کا کوئی جواز نہیں رہتا ہمارامطالبہ ہے کہ اس ایف آئی آر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے فی الفور خارج کیا جائے۔۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر حملوں کی دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے جمعہ کے روز ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ 25اگست کو بعد از نماز جمعہ ملک کے مختلف شہروں میں’’ امریکہ مردہ باد‘‘ ریلیاں نکالی جائیں گی۔پاکستان کے عوام امریکہ کی پاکستان اور اسلام دشمنی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ہوں۔

انہوں نے کہا پاکستان کی سالمیت و بقا کو نئے خطرات درپیش ہیں۔خطے میں داعش کو لانے کی امریکی چال کی راہ میں ہم رکاوٹ بنیں گے۔پاکستان کو شام یا عراق نہیں بننے دیا جائے۔پاکستان کو امریکی بلاک سے نکل جانا چاہیے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ہمارا ہاتھ سوائے لاشوں کے اور کچھ نہیں آیا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی عالمی برادری نے ہر پلیٹ فارم پر تعریف کی ہے جبکہ امریکہ نے ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ کیا۔ ڈومور کے مطالبے کا جارحانہ اندازقومی وقار پر حملہ ہے جس کا جواب اسی انداز سے دیا جانا چاہیے۔ پاکستان امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی کالونی نہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے۔پاک فوج اوربے گناہ شہریوں کی کم و بیش ایک لاکھ لاشوں کو ہم کندھا دے چکے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کی معشیت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے والے مذموم عناصر کی پشت پناہی امریکہ اور کے حواری کر رہے ہیں۔ امریکہ کا مکار صدر افغانستان میں لگی ہوئی آگ پاکستان منتقل کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ہمیں مصلحت پسندی کا شکار بننے کی بجائے دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا۔امریکہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں بلکہ اپنے مفادات کا یار ہے۔امریکہ کا وجود اس خطے کے لیے خطرہ ہے ۔اس سے چھٹکارا حاصل کرنا کا یہ بہترین وقت ہے۔

انہو ں نے مزید کہا کہ  پاکستان کا آج کا جرات مندانہ فیصلہ ہماری آنے والی نسلوں پر بہت بڑا احسان ہو گا۔دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔دنیا نئی تشکیل کے مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ امریکہ سے تعلقات محدود کر کے ہمیں چین سمیت خطے کے دوسرے ممالک کی طرف جھکاؤ کو بڑھانا ہو گا۔چین اپنی مضبوط معیشت کے ساتھ سپر پاور کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خطے میں چین کا سب سے بڑا حریف بھارت ہے۔ امریکہ اور بھارت شاطرانہ چالیں چل رہے ہیں۔۔پاکستان کو بھی حکیمانہ اور با بصیرت فیصلے کرنے ہوں گے۔بھارت اور امریکہ کے مابین اربوں ڈالر کی تجارت کا ذکر اور بھارت کی تعریف کر کے پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسیوں میں یوٹرن ہی امریکی صدر کی دھمکی بہترین جواب ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکہ اور بھارت وطن عزیز کے لیے سنگین خطرہ بن جائیں گے۔

وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان حکومت کی بینائی سے محروم افراد کے حقوق سے مجرمانہ چشم پوشی قابل مذمت ہے۔نابینا افراد کے تعلیم و تربیت اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے ۔حکومت اور سوسائیٹی کی عدم توجہ سے معاشرے کا یہ طبقہ آج انتہائی اقدام کی طرف بڑھ رہا ہے جو حکومت اور معاشرے کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری سیاسیات غلام عباس نے کہا ہے کہ بینائی سے محروم افراد کی تعلیم و تربیت کے نام پرصرف ایک کمپلیکس تعمیر کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔اس کمپلیکس میں نابینا افراد کیلئے صرف پرائمری کی حد تک تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور رہائش کی سہولیات نہ ہونے سے دیگر اضلاع کے نابینا افراد بنیادی تعلیم کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔بلائنڈ ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں نے وحدت ہائوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنمائوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا ۔اس موقع پر بلائنڈ ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں کو بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے حکومت کی عدم توجہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کوسڑکوں پر چونہ لگاکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ڈرامے بند کرکے معاشرے کے اصل مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔گلگت بلتستان کے نابینا افراد میں ٹیلنٹ موجود ہے اور اس علاقے کے بلائنڈ افراد نے کرکٹ کے میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں بلائنڈ افراد پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور خود پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی معاشرے کے اس طبقے کو ان کا جائز مقام دیا جارہا ہے لیکن گلگت بلتستان حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نابینا افراد کو دیوار سے لگادیا ہے اور آج نابینا افراد حالات سے تنگ آکر انتہائی اقدام کا سوچ رہے ہیں جو کہ حکومت اور سوسائٹی دونوں کیلئے شرم کا مقام ہے۔انہوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ نابینا افراد کو تعلیم و تربیت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کیلئے سرکاری ملازمتوں میں بھی کوٹہ مخصوص کریں تاکہ بینائی سے محروم افراد بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔انہوں نے بلائنڈ ایکشن کمیٹی کے وفد کو احتجاج میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔

فتنہ راولپنڈی 2013

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آخر کار چار سال گزرنے کے بعد انھوں نے دیوبندی وتکفیری دھشگردوں کے اصلی چہرے سے پردہ اٹھایااور پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے سامنے مدلل انداز سے خود دھشگردوں کے زندہ اعترافات کے ساتھ فتنہ راولپنڈی روز عاشورا 2013  کو واضح کیا اور اس فتنہ کے اغراض ومقاصد بھی انہیں دھشگردوں کی زبانی پوری قوم نے سنے ،اس لئے آج پوری قوم آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سلام پیش کرتی ہے، لیکن حق بات یہ ہے کہ ابھی اس فتنے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،اس فتنے کے سب کرداروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ابھی فقط اس فتنے کا پہلا کردار ادا کرنے والا گینگ چار سال بعد گرفتار گیا اور ابھی دوسرے اور تیسرے اور باقی سب گینگز کے افراد کو گرفتار کرنا باقی ہےاور مندرجہ ذیل حقائق سامنے لانا باقی ہے

* اسکی پلاننگ کس فرد اور ادارے نے کی ؟
* کیا یہ فقط بیرونی انڈیا اور افغانستان کی ہی پلاننگ تھی یا اندرونی دشمن بھی اس میں شریک تھے؟
* وہ اندرونی دشمن کون ہیں ؟ کیا وہ مشخص ہوئے یا نہیں ؟
* اگر مشخص ہیں تو وہ کون کون ہیں ؟
* کیا انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ؟
* انکے سہولت کار پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص روالپنڈی میں کون کون تھے؟
* وہ گرفتار ہوئے یا نہیں؟

دوسرا گینگ:  

اس سانحے کے ایک دن بعد جب ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ کرفیو کے ایام میں راولپنڈی کے اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے وھاں کے اھل سنت اور اھل تشیع سے جو آنکھوں دیکھا حال سنااس کے مطابق ابھی ایک اور گینگ کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے جس نے مدرسہ تعلیم القران اور مسجد کو آگ لگانے کے بعد نزدیک ہی 6 اہل تشیع کی  مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا.ان مساجد وامام بارگاہوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھواں، آتش زدہ قران مجید اور دینی کتابیں، مقدسات کی بیحرمتی ، تکفیری جتھوں کی بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے خوفزدہ لوگ اور سہمی ہوئی  مستورات یہ سب  المناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔

اس فتنہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ان منظم جتھوں کو گرفتار کرنا اور ان سے تفتیش کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ بقول اہلیانِ راولپنڈی کے تقریبا 100 کے لگ بھگ  افراد تھے جن کے پاس آتش گیر مواد ، اسلحہ اور  لاٹھیاں تھیں اور ایسے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگانے کے لئے بڑھ رھے تھے جیسے انھوں نے باقاعدہ پریکٹس اور مشقیں کیں ہوں اور انکے پاس نقشے اور  معلومات بھی تھیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ بہت بڑی منظم سازش تھی اور بہت سارے اندرونی وبیرونی کردار ملوث ہیں۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ

* یہ آگ لگانے والے افراد کون تھے ؟
* کیا واقعا لال مسجد سے آئے تھے جیسے بعض عینی شاہدین نے کہا تھا؟
* اگر لال مسجد سے نہیں آئے تو کہاں سے منظم طور پر سے آئے اور آگ لگانے اور دھشگردی پھیلانے کے بعد چلے گئے ؟
* انکا تعلق کس مدرسے ، علاقے اور مرکز سے تھا. کیونکہ مقامی عینی شاہدین اور سیاستدانوں کے بقول وہ راولپنڈی کے نہیں تھےآخر وہ کون تھے.؟
* کیوں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ؟

تیسرا گینگ

تیسرا گینگ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا پر فتنے کی آگ بھڑکانے والا تھا  جو برما ، فلسطین اور شام وغیرہ کے بچوں کی تصویریں اور مظالم دکھا رھا تھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کر رھا تھا کہ اہل تشیع نے مدرسے ، مسجد اور مارکیٹ کو آگ لگا دی اور بچوں کو قتل کیا اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہا تھااور جلتی پر پٹرول ڈال رھا تھا یقینا اس گروہ کی بھی مکمل تیاری تھی اور نشر کرنے کے لئے پہلے ہی مواد تیار کر چکا تھا۔
انکو گرفتار کر کے تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے کہ
یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون کون تھے.؟
ان کا تعلق کس ادارے یا پارٹی یا گروہ سے ہے  ؟
کس کے کہنے پر فتنہ پھیلا رہے تھے. ؟

چوتھا گینگ

اس فتنے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کردار یہ وہ چوتھاگینگ کر رھا تھا کہ جس کے کردار

* انتھا پسند اور تکفیری آئمۃ مساجد جو پورے ملک میں آگ لگانے پر کام کر رہے تھے
* تکفیری فتوے دینے والے مفتیان
* فتنے کو تقویت دینے والے وفاق العلماء ، مدرسے ، مذہبی ادارے اور تنظیمیں
* مذہبی وسیاسی متعصب قائدین
* ضمیر فروش صحافی اور اینکر پرسنز
* دولت کی خاطر ملک کی سالمیت کا سودہ کرنے والے ٹی وی چینلز کے مالکان

ان سب میں کون کون اس فتنے اور سازش کا باقاعدہ حصہ تھے، اسکی بھی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئےاور مجرم خواہ جتنا ہی با اثر ہو اسے عدالت کے کٹھڑے میں لانا چاہئےاور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے۔

رد المظالم:

راولپنڈی اور اطراف کے بیگناہ سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا،انکی زندگیاں معطل ہوئیں اور انھوں نے بیگناہ ہونے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی طور پر نقصانات برداشت کئے۔

اور ریاستی ادروں کے مزید بھی ظلم وستم اور تشدد  کا نشانہ بننے والے ان افراد کی مظلومیت ثابت ہو گئی.  کیا وزارت داخلہ کے پاس اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہی سہی پاکستانی قوم اور بالخصوص جن پر ظلم کیا ہے ان سے معافی مانگے اور جو انکا مالی نقصان ہوا اور انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں حکومت انہیں اسکا معاوضہ ادا کرے اور جھوٹی الزام تراشی کرنے والے شیعہ قوم  سے معافی مانگیں۔


تحریر۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی

جذام سے بھی بد تر مرض

وحدت نیوز(آرٹیکل)جسمانی علاج کے مرکز کو ہسپتال کہتے ہیں،  لوگ اپنی جسمانی شفا یابی کے لئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ان جسمانی امراض میں سے ایک متعدی مرض جذام یا کوڑھ بھی  ہے ۔۱۹۵۸ میں  جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی ایک ڈاکٹر خاتون  نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ موصوفہ کی اس وقت عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔اس تیس سالہ کافرہ عورت نے ایک مسلمان ملک میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج معالجے پر کمر باندھ لی۔

قابلِ ذکر ہے کہ  اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا،لوگ کوڑھ کو بیماری کے بجائے عذاب الٰہی سمجھتے تھے اور  کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر  ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرا دی گئی تھیں جو کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ  منہ اور سر لپیٹ کر مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینکتے تھے اور یوں ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطوں کے اندر بیمار انسان سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔

ایسے میں اس  خاتون نے جرمنی سے کراچی آنے کا فیصلہ کیا   اورکراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انہوں نے اس مرض سے مقابلے کے لئے سوشل ایکشن پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے دو مقاصد تھے ایک لوگوں کو یہ باور کرانا کہ کوڑھ  عذابِ الٰہی نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور دوسرا یہ مقصد تھا کہ اس اس کارِ خیر کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں،  انہیں دونوں مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی اور  ملک کے متعدد حصوں میں جذام کے علاج کے مراکز قائم ہوتے گئے یہانتک کہ  ۱۹۹۶ میں عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو  لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکتی بلکہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایشا کا پہلا ملک تھا جسے لپریسی کنٹرولڈ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

دوسری طرف  حکومت ِ پاکستان نے 1988 میں  موصوفہ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت  بھی دی اور انہیں  ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز ، جناح ایوارڈ  اور نشان قائداعظم عطا کیا گیا اسی طرح آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

یہ سارے اعزازات اپنی جگہ لیکن مجھے جس چیز نے تعجب میں ڈالا وہ یہ تھی کہ ہمارے مطابق ایک کافرہ عورت نے بیمار انسانوں کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج ہم سب کوڑھ سے بھی بدترین مرض مذہبی و علاقائی تعصب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

عدمِ برداشت، شدت پسندی، دھونس، سفارش ، رشوت، غیبت و تہمت اور قتل و غارت  کا وائرس عام ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے ہمیں اپنے روحانی مراکز یعنی مساجد و مدارس کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن کیا کریں اب ہمارے ملک میں کوئی مسجد بھی اسلامی کی مسجد نہیں رہی ، ہر مسجد ایک مخصوص فرقے کی ہے ، کوئی دوسرے فرقے والا اس میں داخل ہونے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور بعض دینی مدارس تو اس عدم برداشت اور نفرتوں کے اصلی مراکز ہیں ۔۔۔

مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کا ملوث ہونا، نورین لغاری کا داعش کو جوائن کرنا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے گردے نکال کر بیچ دینا اور جعلی سٹنٹ ڈالنا، بعض مساجد سے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے جاری ہونا، بعض مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ دئیے جانا، ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سوچنا، بلوچی اور پٹھان و پنجابی و سندھی کے جھگڑے ،  یہ سب کیا ہے۔۔۔!؟

ایسے میں ہم سب کو اور خصوصا ہمارے دینی و سیاسی مصلحین کو سوچنا چاہیے کہ اگر ایک کافرہ عورت ہم مسلمانوں کے ساتھ محبت اور خلوص  کا برتاو کر کے پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک بنا سکتی ہے تو کیا ہم لوگ ایک دوسرے سے محبت آمیز اور خلوص بھرا برتاو کر کے اس ملک کو شدت کنٹرولڈ اور کرپشن سے پاک ملک نہیں بنا سکتے۔

کیا ہمارے اندر ایک کافرہ عورت جتنی بھی پاکستان میں بسنے والے  انسانوں سے محبت نہیں ہے۔ یا پھر ہم سب  جذام سے بھی کسی بڑے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں!!!


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree