The Latest

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے ذیلی فلاحی ادارے خیر العمل فاونڈیشن کے تحت عمار یاسر سوسائٹی فیز ون کے رہائشیوں کی سہولت کے لئے واٹر سپلائی پروجیکٹ کا افتتاح کردیا گیا ہے، تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے رہنماوں مولانا غلام محمد فاضلی، ثمر عباس ،عارف رضا، اسد زیدی اور نیاز کاچو نے گذشتہ اتوار اس واٹر پروجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا ، اس موقع پر علاقہ مکینوں نے مجلس وحدت مسلمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقہ کا دیرانہ مسئلہ پانی کا تھا اس مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھ کر ایم ڈبلیو ایم نے حل کروایاہم انکے شکر گذار ہیں۔
 
 واضح رہے کہ عمار یاسر سوسائٹی شیعہ و سنی مسلمانوں کی سیکڑوں گھر وں پر مشتمل آباد ی ہے ، جہاں پر فراہی آب کا مسئلہ کئی عرصہ سے درکار تھا، علاقہ مکین دور دراز سے استعمال کا پانی اپنے گھر میں لاتے تھے، عوامی خدمت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علاقہ مکینوں کی درخواست پر ایم ڈبلیو ایم ضلع ملیر کے فلاحی شعبہ خیر العمل فاونڈیشن نے لوگوں کی ضرورت پورا کرنے کے لئے وائٹر پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے۔

وحدت نیوز (ہٹیاں بالا) انجمن سجادیہ ؑ  ضلع ہٹیاں بالا کے بانی صدر، مجلس وحدت مسلمین ضلع ہٹیاں کے سابق فعال تنظیمی ساتھی سید سجاد حسین ہمدانی مختصر علالت کے بعد انتقال کر گے،مرحوم کی نماز جنازہ آبائی گاوں امراء ساون میں علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی اقتداء میں اداکردی گئی،تفصیلات کے مطابق نماز جنازہ میں عزیزواقارب کے علاوہ علامہ مفتی سیدکفایت حسین نقوی ممبراسلامی نظریاتی کونسل ،علامہ طالب حسین ہمدانی،علامہ فضل عباس نقوی،علامہ سید منیر ہمدانی،وزیراعظم آزادکشمیر کے فرزند راجہ عثمان حیدرایڈووکیٹ،مرکزی نائب صدر پی پی آزادکشمیر صاحبزادہ اشفاق ظفرایڈووکیٹ،مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر فریدخاں،سابق امیدوار اسمبلی سید حسنین علی کاظمی،،جعفریہ سپریم کونسل آزادکشمیرکے صدرسیدشبیربخاری،مسلم کانفرنس یوتھ ونگ آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل سیدیاسرنقوی،ممبرمجلس عاملہ مسلم کانفرنس مرزاآصف علی مغل،قاضی شمیم اعوان،کیپٹن(ر)عبدالودوداعوان،،صدرپریس کلب مرزااسلم،عارف کشمیر،سیدشاہد ہمدانی،ذیشان حیدرکاظمی،شہرت یافتہ نعت خوان سیدظہورحسین بخاری، سیدعارف کاظمی،سید مبارک نقوی،سیدظہورنقوی ،عوام علاقہ اور سینکڑوں مذہبی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی ،آہوں اور سسکیوں میںسپردخاک،مرحوم سیدسجادحسین ہمدانی مجلس وحدت مسلمین ضلع ہٹیاں کے فعال بنیادی کارکن ہونے کیساتھ علاقائی تنظیم انجمن سجادیہ ؑ ضلع ہٹیاں بالا کے صدر بھی رہے کچھ عرص قبل بزنس کے سلسلہ میں حجازمقدس کے شہرریاض میں اقامت پزیر تھے،کچھ عرصہ قبل عزیزواقارب سے ملاقات کے لئے پاکستان واپس آئے توبیمار پڑگے شفاانٹرنیشنل اسلام آبادمیں دوران علاج انتقال کر گے، اس موقع پر تعزیتی ریفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا جس سے خطاب میں علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے کہا کہ مرحوم انتہائی اعلی اخلاق کے مالک اور حافظ قران تھے موصوف نے اپنی ساری زندگی مخلوق خدا کی خدمت میں گزاری اور موصوف کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جو ہردلعزیز شخصیات  کی مالک ہیں مولائے کائنات کے فرمان کے مطابق کہ ’’زندہ رہو تو لوگ تمھارے ملنے کامشتاق ہوں اور مر جاو توتم پر روئیں ‘‘آج سینکڑوں افراد کی آئیں اورسسکیاں مرحوم کے اچھے اخلاق اور کردار کی علامت ہے،علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیرکی ریاستی واضلاع کی قیادت نے مرحوم کی رحلت پر گہرے رنج وغم کااظار کرتے  ہوئے مرحوم کے بلندی درجات کے لئے دعا کی ہے۔

وحدت نیوز(لاہور) دہشتگردی کیخلاف جنگ سے توجہ ہٹانے کے لئے مشرق وسطیٰ کی  پروکسی وار کو پاکستان درآمد کرنے کی سازش ہورہی ہے،افغان جہاد کے قیمت پاکستان چکانے میں مصروف ہے ایسے میں مشرقی وسطیٰ میں جاری پراکسی وار کے نام پر ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والے کس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے؟یمن ،بحرین،اور فلسطین میں عالمی استعمارکے مظالم پر لب کشائی نہ کرنے والے آج اسرائیل اور امریکہ کی شکست کو اسلام سے جوڑ کر اُمت کو گمراہ کر رہے ہیں،پاکستان کی افتصادی ترقی کو روکنے کے لئے دشمن ہمیں باہم دست و گریبان کرنے کی کوشش میں ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے ضلع لاہور کے کارکنان سے صوبائی سیکرٹریٹ میں کرخطاب کرتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا شدت پسندی کو ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے،تمام مکاتب فکر کے علماء و دنشوروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کی مذمت کرے جو معاشرے میںت شدت پسندی کے ذریعے معصوم عوام کو گمراہ کرتے ہیں،اسلام امن و رواداری کا دین ہے،نفرت اور شدت پسندی کے ذریعے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے والے استعمار کے آلہ کار ہے،اور ملک میں بدامنی  کے ذمہ دار بھی ہیں۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود ڈومکی نے کہا ہے کہ کراچی میں معروف شیعہ رہنما سید زین رضوی سمیت شیعہ جوانوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواانتہائی قابل مذمت ہے،ایم ڈبلیوایم رہنما زین رضوی سمیت دیگر شیعہ جوانوں کی غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف کل بروز  جمعہ سندھ بھر میں یوم احتجاج منایا جائے گا،  ملت جعفریہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے اور زین رضوی سمیت دیگر شیعہ جوانوں کی فوری بازیابی عمل میں لائی جائے۔ وحدت ہاؤس کراچی میں ہنگامی تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سکریٹری جنرل علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ معروف شیعہ رہنما زین رضوی سمیت کئی شیعہ جوانوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا نتہائی قابل مذمت ہے، ملت جعفریہ کے خلاف متعصبانہ کارروائیوں کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پْرامن شہریوں کو اغوا کر کے غیر معینہ مدت کیلئے غائب کر دیا جانا بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے، ملت جعفریہ زین رضوی کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے، بصورت دیگر ملت جعفریہ حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے، ملکی حساس صورتحال کے پیش نظر حکومت کی جانب سے پُرامن محب وطن ملت تشیع کو انتقام کا نشانہ بنانا مملکت خداداد کے خلاف سازش ہے۔ صوبائی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے غیر آئینی اقدامات پر آواز بلند کرنے والی قوتوں کو خاموش کیا جارہا ہے، لیکن یہ حکومرانوں کی بھول ہے کہ وہ اس طرح کی ظالمانہ کارروائیاں کرکے اپنی کرپشن چھپا لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک طرف تو کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور تکفیری دہشتگردوں کو آزاد چھوڑ رکھا ہے، جبکہ دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان کا رُخ محب وطن ملت تشیع کی طرف موڑ رکھا ہے ، ملت جعفریہ کے رہنماؤں کے خلاف ناروا اقدامات حکمرانوں کے متعصبانہ رویہ پر دلالت کرتے ہیں، انکا یہ طرز عمل انکے اقتدار کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اگر زین رضوی سمیت تمام لاپتہ شیعہ جوانوں کی فی الفور بازیابی عمل میں نہیں لائی گئی تو کسی بھی سنگین صورتحال کی تمام تر وفاقی حکومت پر عائد ہو گی۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے تحت شہید آیت اللہ شیخ باقر نمر کی شہاد ت کے موقع پر انکی بلندی دراجات کے لئے مجلس ترحیم و دعائے توسل کا اہتمام وحدت ہاوس جعفرطیار سوسائٹی میں کیا گیا جس میں کارکناں سمیت مومنین نے شرکت کی، شیخ نمر کی پہلی برسی کی مناسبت سے ہونے والی اس مجلس ترحیم سے ایم ڈبلیو ایم ضلع ملیر کے ڈپٹی جنرل سیکرئٹری علامہ غلام محمد فاضلی نے خطاب کیا جبکہ دعا توسل کی برادران نے اجتماعی تلاوت کی اس دوران شہید نمر کی بلند دراجات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلومین کی فتح و نصرت اور نائیجریا کے آیت اللہ شیخ زکزکی اور انکی اہلیہ کے لئے بھی خصوصی دعائیں کی گئی ، بعد از دعا مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا غلام محمد فاضلی نے کہا کہ آیت اللہ شیخ باقر النمر کا قتل آل سعود کے گناہوںمیں سے عظیم گناہ ہے انہوں کہا کہ اس نفس ذکیہ کا قتل آل سعود کی بادشاہت کے خاتمہ کا سبب فراہم کرے گااور اللہ ہمیں شہید کے قاتلوں کا انجام اس دنیا میں ہی دکھا دے گا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر من و عن عمل ہو رہا ہے۔علامہ ناصر عباس نے کہا کہ عوام سے غلط بیانی وزارت عُظمی جیسے اہم اور اعلیٰ منصب کی توہین ہے۔اگر نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو تا تو کالعدم جماعتوں کو وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے اہم شہروں میں جلسے کی قطعاََ اجازت نہ دی جاتی۔نیشنل ایکشن پلان میں نفرت انگیز تقاریر اور موادکو قابل تعزیز قرار دیا گیا ہے لیکن تکفیری عناصر تفرقہ بازی پھیلانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔سوشل میڈیا سمیت مختلف ذرائع سے ان کا صوتی و بصری مواد حاصل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس قانون کو دہشت گردوں کے خلاف کم اور انتقامی کاروائیوں کے لیے زیادہ استعمال کیاجا رہا ہے۔دہشت گردوں کی بجائے محب وطن افراد کو شیڈول فورتھ میں ڈالا جا رہا ہے۔سی ٹی ڈی حکام بے گناہ افراد کو گھروں سے رات کی تاریکی میں غائب کر کے لے جاتے ہیں۔فوجی عدالتوں کے قیام کے باوجود وہ تمام سانحات ابھی تک زیر التوا ہیں جن میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ محض اخباری بیانات جاری کرنے سے ملک میں امن نہیں آئے گا اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کرداعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان آنے کی دعوت دینے والے شخص پر ہاتھ ڈالنے سے وزارت داخلہ کا معذوری ظاہر کرنا دہشت گردی کے خلاف حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کے نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل کے بیان کو عملی شکل دی جائے۔

وحدت نیوز (ڈی آئی خان) مجلس وحدت مسلمین ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل تہورعباس شاہ نے کہا کہ پولیس کے جوانوں پر قاتلانہ حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ڈی آئی خان میں دہشتگردوں اور تکفیریوں نے شہریوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ایک ماہ کے اندر یہ دہشتگردی کی تیسری واردات ہے۔ یہ واقعات ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کئے گئے ہیں، تاکہ ڈیرہ کے پرامن شہری ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوں، انتظامیہ کو چاہئے کہ فوری طور پر دہشتگردی کے خلاف کارروائی کرے۔ بدقسمتی سے ابھی تک مولانا حماد فاروقی اور شرافت حسین کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہئے، ساتھ ہی پاک فوج کو پورے شہر اور گرد و نواح میں مکمل آپریشن کرنا چاہئے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ایم ڈبلیو ایم اپنے رکھوالوں (محکمہ پولیس) کے ساتھ کھڑی ہے۔

وحدت نیوز (ہنگو) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی مسئولین نے ضلع کوہاٹ اور ہنگو کے تین روزہ دورہ کا آغاز کر دیا ہے، تاکہ علاقہ کے مختلف علماء کرام، معزز شخصیات اور تنظیمی لوگوں کیساتھ ملاقات کرسکیں۔ اس دورے کا مقصد نہ صرف مختلف شخصیات سے ملاقات کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تنظیمی و علاقائی صورتحال اور آئندہ ہونے والے صوبائی شوریٰ کے اجلاس کے انعقاد پر صلاح مشورہ کرنا بھی ہے۔ علامہ اقبال حسین بہشتی کا کہنا تھا کہ ہنگو اور اطراف کی شیعہ آبادی نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر لڑ کر طالبان و دہشتگردوں سے ملک و قوم کا دفاع کیا ہے اور آج داعش کے سنگین خطرے کے باوجود فورسز انہی رضاکاروں سے اسلحہ جمع کرکے، انہیں درندوں کے سامنے خلع سلاح کر رہی ہیں، جو کہ ملک دشمنوں کیلئے باعث اطمینان اور ملک دوستوں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں بیلنس پالیسی کا ایک اور شاخسانہ ،مجلس وحدت مسلمین کراچی ضلع وسطی کے سیکریٹری جنرل سید زین رضا رضوی کو کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے سادہ لباس اہلکاروں نے گرفتار کرلیا ہے،تفصیلات کے مطابق گذشتہ نصف شب زین رضا رضوی  کے گھر سی ٹی ڈی کی بھاری نفری نے چھاپہ مارکرانہیں گرفتار کرلیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے، اہل خانہ کے مطابق سکیورٹی اہلکار زین رضا کی موٹر سائیکل بھی ہمراہ لے گئے ہیں، واضح رہے کہ زین رضا رضوی ضلع وسطی میں سیاسی وسماجی سرگرمیوں میں کافی فعل شخصیت ہیں جن کی اتحاد بین المسلمین کے قیام کے لئے بھی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

زین رضا رضوی کی بلاجواز گرفتاری پر مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی اور کراچی ڈویژ ن کے سیکریٹری جنرل میثم عابدی نے درعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو چادر اور چار دیواری کی پامالی قرار دیا ، رہنمائوں نے کہاکہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ظالم اور مظلوم کوایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا عمل مسلسل جاری ہے جس سے ملت جعفریہ کے اضطراب میں شدت آتی جا رہی ہے ،حکمران ایم ڈبلیوایم کے مسلسل سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں ، زین رضا رضوی بے قصور ہیں سکیورٹی داروں کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے وگرنہ ان کی گرفتاری اغواءشمار کی جائے گی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔
 
کرم ایجنسی:
کرم ایجنسی پاکستان کی تمام ایجنسیز میں سے خوبصورت ترین اور اہم ایجنسی ہے۔ یہاں پر اکثریت طورى قبائل آباد ہیں۔ ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل انتہائی اہم علاقہ پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگر ہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال اور اکثریتی شیعہ  آبادی ہونے کی وجہ سے تکفیری، وہابی و دیوبندی عسکری گروہوں، سیاسی قوتوں اور انکے بانیان و سہولتکار مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، جنہوں نے پے در پے حملوں اور مسلسل سازشوں سے اسے میدان جنگ بنا رکھا ہے، یہ علاقہ باقی تمام قبائلی علاقوں کی نسبت افغان دارالحکومت کابل سے نزدیک اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کا دارالخلافہ اور صدر مقام پارا چنار ہے۔

پارہ چنار:
پارا چنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ پارا چنار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کرم ایجنسی کا ایک خوبصورت اور اہم شہر ہے، جو افغانستان کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ جو تمام قبائل و ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا اور دلکش اور خوبصورت شہر ہے۔ اس ایجنسی کے لوگ پشتو، اردو، فارسی اور انگریزی زبان بولتے ہیں۔ اسکا کل رقبہ  3,310 کلو میٹر ہے اور آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

طوری و بنگش قبائل کی وطن دوستی:
پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
1۔ پارہ چنار کے سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھے جاتے ہیں۔
2۔ فوج و ایف سی پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہے، جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتٰی کہ فوج و ایف سی کے اہلکار پارہ چنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتے ہیں۔
3۔ جب پاکستان آرمی کو ملک میں قیام امن کیلئے آپریشنز اور قربانیوں کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی علاقے کے بہادر سپاہی و آفیسرز پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔
4۔ طوری و بنگش قبائل کسی ملک دشمن قوت کے آلہ کار نہیں اور نہ انکے کسی سے روابط ہیں۔ انہوں نے ملک میں نہ کبھی خودکش حملے کئے اور نہ ہی جی ایچ کیو و پی این ایس مہران پر حملوں جیسی دہشتگردی میں حصہ  لیا۔
5۔ انھوں نے کبھی افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی انکے ہاں بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں۔
6۔ اسے علاقے کے لوگ معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں، ماضی میں مری معاہدہ ہو یا حکومتی سرپرستی میں ہونے والے دیگر معاہدے، انہیں تکفیری دہشتگردوں نے ہی ہمیشہ توڑا ہے۔

حکمرانوں کا رویہ:
1۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ حکمرانوں نے سوتیلی ماں جیسا سلوک اور ریاستی دہشت گردی جیسا انداز اپنا رکھا ہے۔ ارباب اختیار کی طرف سے تکفیری دہشتگردوں کے لئے ہی صرف ترقیاتی پیکیج دیئے جاتے ہیں، انھیں عدالتوں کے ذریعے عبرت ناک سزا دینے کی بجائے  VIP پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے ملک میں دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
2۔ یہ لوگ اس ملک کے محب وطن شہری ہیں اور انکے جان و مال اور ناموس کی حفاظت حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، یہ باقی شہریوں کی طرح ٹیکس دیتے ہیں اور شمال مغربی سرحد کے محافظ بھی ہیں۔ انکی وجہ سے کوئی وطن دشمن قوت خواہ اندرونی ہو یا بیرونی، پاکستان کے پہلو کو زخمی یا داغدار نہیں کر سکتی۔
3۔ گذشتہ تین دھائیوں یعنی جب سے پاکستان میں سعودی اور امریکی نفوذ میں اضافہ ہوا، انھوں نے وہابیت، تکفیریت اور نفرتوں کی ترویج شروع کی، انکے جوار میں مخصوص وہابی تکفیری سوچ کے حامل افراد کی مسلح تنظیمیں اور گروہ بنے، اس وقت سے اس علاقے کے عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، کیونکہ انکے خلاف لشکر کشیاں، دھماکے، قتل و غارت اور حملے معمول بن چکے ہیں، ہماری حکومت اور مسلح افواج نے ہمیشہ تماشائی کا رول ادا کیا ہے اور ہمیشہ حملہ آوروں کو روکنے کی بجائے سبز جھنڈیاں دکھائی گئیں۔
4۔ حکمرانوں کی طرف سے پریشر ڈالا جاتا رہا کہ لوگ پہاں سے ہجرت کر جائیں، تاکہ یہ علاقے دہشگردوں کے پاس چلے جائیں۔ ضیاء الحق  کے دور میں (1984-1987) تو اس علاقے کے مہاجرین کے لئے بھکر اور میانوالی کے علاقوں میں کیمپ بھی بنائے گئے۔ دوسری طرف طالبان اور دیگر جھادی تکفیری گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا، انہوں نے بھی طوری و بنگش قبائل کی عوام کا گھیرا تنگ کیا اور ظلم کی داستانیں رقم کیں، لیکن غیرتمند اور بہادر طوری و بنگش عوام نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

جنرل ضیاء دور سے ابتک تکفیری دہشتگردوں کے حملے:
1۔ 1981ء و 1982ء میں کرم ایجنسی کے تمام متعصب سنی قبائل نے افغان مہاجرین کے ساتھ مل کر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول کر دادو حاجی کے سارے خاندان قتل کر دیئے اور صده قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا، جو آج تک آباد نہیں ہوسکے۔
2۔ 1987/88ء ضیاءالحق کے دور میں پاکستان میں وحدت اسلامی کے علمبردار اور شیعہ مسلک کے قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی متعصب قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کر دیا، جو صده قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل و ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، بعد میں طوری لشکر نے انہیں پسپا کرکے واپس صده کی طرف دھکیل دیا، لیکن دسیوں گاؤں جلائے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کر دی گئیں۔ 17 دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس لڑائی میں انتظامیہ نے مداخلت نہیں کی۔
3۔ 1996ء میں رسول اللہ (ص) کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب علیہما السلام کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا، جو کئی ہفتے تک جاری رہی۔ پارا چنار ہائی سکول میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا، جسے بعد میں صدارتی تمغہ دیا گیا۔

4۔ 2001ء میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پر لشکر کشی کی گئی، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاه پر بمباری کی گئی، جس میں درجنوں لوگ قتل کئے گئے۔
5۔ 2007ء میں طالبان نے انجمن سپاه صحابہ پاراچنار کے سیکرٹری جنرل کیساتھ ملکر 12 ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں حسین مرده باد اور یزید زنده باد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز کیا۔ جس میں حکیم الله محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے متعصب سنی قبائل کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاه سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پانچ ہزار سے زیاده ہلاکتیں ہوئیں۔ صده کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتار کر قتل کئے گئے۔ یہ لڑائی پانچ سال تک جاری رہی۔
6۔ 2011ء میں شلوزان تنگی اور خیواص میں فسادات ہوئے۔ جس میں خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیاده لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔

پارہ چنار کا تقریباً ساڑھے چار سالہ محاصرہ (2007 تا 2011)
کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پارا چنار تک رسائی کے واحد راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کر دیا، یہ پارا چنار کو پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراه تقریباً ساڑھے چار سال تک بند رہی۔ اسی طرح پارا چنار شہر اور اطرف کے علاقوں کا محاصره جاری رہا۔ اس علاقے کے طوری و بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے کا سفر طے کرکے پارا چنار پہنچتے تھے۔ انکی زندگی کا نظام معطل کر دیا گیا، حکومت، ایف سی اور فوج سب انکے سامنے خاموش اور ان کے جرم میں برابر کے شریک رہے۔ پارہ چنار غزہ کے اسرائیلی محاصرے کی طرح کئی سال محصور رہا۔ طوری و بنگش قبائل پر عرصہ زندگی ہر لحاظ سے تنگ کر دیا گیا، حتٰی کہ انکے بچے ادویات و خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ 26 جولائی 2011ء کو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سربراہی میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اعلٰی سطحی وفد کاروان امن لیکر اسلام آباد سے روانہ ہوا، جس میں دوائیں، غذائی اجناس اور زندگی کے دیگر لوازمات پر مشتمل سامان سے بھرے دسیوں ٹرک شامل تھے، جنہوں نے آکر اس ساڑھے چار سالہ محاصرے کو توڑا اور ٹل کے زمینی راستے سے یہ کاروان پارہ چنار میں وارد ہوا، جس کا وہاں کی عوام نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔

تازہ ترین بین الاقوامی حالات اور ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں میں شیعہ دشمن پالیسی:
1۔ متحدہ عرب امارات حکومت کی متعصابہ پالیسی اور حکومت پاکستان کی خاموشی
گذشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی افراد کو متحدہ عرب امارات نے مذہبی تعصب اور انتقام کی پالیسی کے تحت نکالا، جن میں سب سے بڑی تعداد طوری اور بنگش قبائل کے افراد کی تھی۔ ہماری حکومت نے نہ تو کوئی قابل ذکر احتجاج کیا اور نہ ہی ان بے روزگار ہونے والے افراد کی مدد کی۔ یہ لوگ جہان ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب تھے، وہیں اپنے اپنے خاندانوں کا سہارا اور انکے کفیل تھے، انکے بے روزگار ہونے سے اس علاقے کے لاکھوں پاکستانی متاثر ہوئے، لیکن حکومت نے ذرا برابر ہمدردی نہیں دکھائی۔ یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ خلیجی ریاست نے فقط شیعہ تعصب کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس علاقے کا  اقتصادی لحاظ سے استحصال اور انکی دفاعی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے ایک منظم پالیسی کے تحت یہ قدم اٹھایا۔

2۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا رخ دہشتگردی زدہ شیعہ عوام کی طرف موڑنا
طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اہل تشیع کو انفرادی اور اجتماعی طور پر قتل کرتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں، آج انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں نے نئی پالیسی طے کی ہے کہ دہشتگردی کیخلاف اس جاری جنگ کا رخ محب وطن شیعہ عوام کی طرف موڑا جائے، انکا پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور سیاست میں نفوذ ہے اور یہ سعودی اشاروں پر چلتے ہیں۔ درست ہے کہ پاکستانی عوام کے ارادے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی وجہ سے یہ ہماری فوج کو  یمن پر مسلط کردہ جنگ کا ایندھن نہیں بنا سکے، لیکن اپنے آقاوں کو راضی کرنے اور ڈالر و ریال کمانے کے لئے پاکستان کو خطرناک بحران میں جھونک رہے ہیں، اس ٹاسک کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات قابل ملاحظہ ہیں۔

3۔ پاک آرمی کو عوامی حمایت سے محروم کرنا
دہشتگردی کے خلاف اس جنگ سے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ دہشتگردوں کے زیر قبضہ علاقوں کی آزادی، کبھی سوات میں، کبھی وزیرستان، کبھی دیگر قبائلی اور شہری علاقوں میں انکے خلاف آپریشن میں ہزاروں فوجی جوان و آفیسرز درجہ شھادت پر فائز ہوئے، انکی وجہ سے سرحدوں پر موجود خطرات کے سیاہ بادل شہر شہر پر منڈلانے لگے، ملک اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے بحرانوں کا شکار ہوا، پاکستان کی شیعہ سنی عوام اور اقلیتوں نے اپنی فوج کا مکمل ساتھ دیا اور کسی حد تک کامیابیاں ہوئیں، لیکن دیوبندی اور وہابی سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں نے ہمیشہ روڑے اٹکائے، اب یہی قوتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ پاک آرمی کو محب وطن عوام کے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ گذشتہ 3 شعبان کو پارہ چنار میں پاک آرمی کے ہاتھوں بیگناہ 4 شیعہ افراد کو قتل کیا گیا، لیکن اہل تشیع نے سازش کو بھانپتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد آرمی کے ذمہ داران نے اپنی غلطی کا اعتراف اور قبول کیا کہ 3 شعبان کو شہید ہونے والے افراد قومی شہید ہیں، انکے ورثا کی ایسے ہی مدد کی جائے گی، جیسے قومی شھداء کے لواحقین کی مدد کی جاتی ہے۔ لیکن شاید تکفیری نفوذ کا ایجنڈا نہیں رکا۔ کوہاٹ کے نواحی علاقے سے آرمی آپریشن کے ذریعے وہ دفاعی اسلحہ جو علاقے میں قیام امن کی ضمانت تھا، جس کے ذریعے قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والے، پاک آرمی اور عوام پر حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اسے تحویل میں لے لیا گیا اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ یہ اسلحہ کبھی بھی عوام اور فوج کے خلاف استعمال نہیں ہوا تھا۔ ابھی پھر تیسرا خطرناک تریں حملہ پارہ چنار کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ آرمی میں موجود تکفیری نفوذی عناصر پارہ چنار کو نہتا کرنے کے درپے ہیں، حالانکہ اس علاقے کے اطراف میں تکفیری قوتیں مسلح اور پورے پاکستان میں انکی دہشتگردی کی کارروائیاں زوروں پر ہیں، انکے حملوں کے ڈر سے زائرین ابھی بھی کانوائے کی شکل میں جاتے ہیں۔

4۔ دہشتگردوں كو سياسی طور پر مضبوط کرنا:
پاکستان میں تکفیریت اور نفرتوں کے بانی حق نواز جھنگوی کے فرزند کو فقط پنجاب اسمبلی میں ہی نہیں پہنچایا گیا بلکہ اس دہشتگرد کو امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ ملک میں امن اور دہشتگردی کے پیمانے بدلے جا رہے ہیں۔ یوں نظر آ رہا ہے کہ ہمارے حکمران ملک کی باگ دوڑ دہشتگردوں کے حوالے اور انھیں عسکری طور پر مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
5۔ حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی كي مدد:
حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔


تحریر۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree