وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین کے ممبر قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان حاجی رضوان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی بی میں کامیاب ہڑتال کر کے عوام نے ثابت کر دیا کہ حکومت کی جانب سے جاری عوام کش پالیسیاں منظور نہیں ہیں۔ عوام پر جبری طور ٹیکسز نافذ کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا ہے۔ اگر حکومت ٹیکس لگانے کی شوقین ہے تو گلگت بلتستان کو آئینی دائرے میں لائے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اخباری بیانات اور جھوٹے اعلانات کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کئے ہیں مگرحقیقت اس کی بلکل برعکس ہے۔ حاجی رضوان نے کہا کہ لیگی حکومت کا کام صرف اخباری بیانات دینا رہ گیا ہے۔ دو سال کا عرصہ گزرنے کو ہے ایک پائی کا کام نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اخباری بیانات کی دنیا سے نکل کر عملی طور پر عوامی مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ہوگا، ورنہ ان کی حالت پیپلز پارٹی سے بھی بدتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ لیگی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام حسن موسی کالج میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے کہا کہ زائرین کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے،تمام زائرین چہلم امام حسین علیہ السلام میں شریک ہوں گے ،مکتب اہلبیت وطن عزیز پاکستان کا فطری دفاع ہے،قائد اعظم اورعلامہ اقبال کا تصور پاکستان عملی کریں گے،زائرین کربلا و مشہد کی مشکلات کافوری ازالہ وفاقی وصوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے،اس موقع پر کارکنان اور عمائدین نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور دیگر مقررین میں مرکزی سیکریٹری وحدت یوتھ ڈاکٹر یونس حیدری اور کوآرڈینیٹر مرکزی سیاسی سیل آصف رضا ایڈوکیٹ بھی شامل تھے۔

وحدت نیوز(بہاولپور) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی کے مختلف اضلاع کے تنظیم سازی کے حوالے سے دورہ جات جاری، وہاڑی اور لیہ کے بعد علامہ اقتدار حسین نقوی کا بہاولپور کا دورہ، دورہ بہاولپور کے دوران ضلعی سیکرٹری جنرل سید اظہر حسین نقوی ایڈووکیٹ کی رہائش گاہ پر ضلعی کابینہ اور رہنمائوں سے ملاقات، اس موقع پر صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، صوبائی رابطہ سیکرٹری سید علی رضا زیدی، ضلعی سیکرٹری جنرل سید اظہر حسین نقوی، مولانا زمرد حسین، مولانا نور اکبر، اعجاز حسین، خواجہ سعید حسین اور دیگر موجود تھے۔ علامہ اقتدار حسین نقوی نے گفتگو کرتے ہوئے لاپتہ شیعہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے جاری مہم کے حوالے سے علمائے کرام کی قربانیوں اور کاوشوں سے آگاہ کیا، علامہ اقتدار نقوی کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے لاپتہ جوانوں کی بازیابی تک تحریک کا سلسلہ جاری رہے گا، تشیع کا دشمن دراصل پاکستان کا دشمن ہے، دشمن ملک میں انتشار کی فضا ہموار کرنا چاہتا ہے، پوری قوم اپنے علمائے کرام کے شانہ بشانہ ہے، علامہ اقتدار نقوی نے تربیت اور تنظیم سازی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے کردار اور افعال میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے، ہمارا کردار ہی ہمارا اصل آئینہ ہے، اُنہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران بہاولپور ڈویژن میں مجالس عزاء اور جلوس ہائے عزاء کے انعقاد پر جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں اُنہیں فوری طور پر ختم کیا جائے، عزاداری سید الشہداء ہمارا آئینی و قانونی حق ہے، ہم کسی صورت بھی اس سے دستبردار نہیں ہوں گے، ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی نے کہا کہ ملت تشیع پُرعزم، باوقار اور حوصلہ مند قوم ہے، ہمارا دشمن ہمیں کئی بار آزما ہوچکا ہے، لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ ملت تشیع پاکستان کے بقاء اور استحکام کی ضامن ہے، اُنہوں نے مزید کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی اضلاع کے دورہ جات کا سلسلہ جاری ہے، ان دورہ جات کا بنیادی مقصد تنظیم سازی اور تربیتی عمل کو آگے بڑھانا ہے، بعدازاں علامہ اقتدار حسین نقوی نے صوبائی رابطہ سیکرٹری سید علی رضا زیدی کے سُسر کی بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں عیادت کی اور صحت یابی کے لیے دُعا کرائی۔

وحدت نیوز (رپورٹ: ایس جعفری) لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادگان کے پُرزور مطالبے پر علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ احمد اقبال رضوی اور انکے رفقاء نے احتجاجی بھوک ہڑتال اور رضاکارانہ گرفتاری ختم کر دی، جس کے بعد کراچی میں جاری احتجاجی جیل بھرو تحریک اور بھوک ہڑتال ختم کر دی گئی ہے، جبکہ لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی تحریک کے نئے لائحہ عمل کا اعلان بدھ کو پریس کانفرنس کے ذریعے کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ کئی سالوں سے درجنوں لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ملت جعفریہ نے کراچی سے جیل بھرو احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس کے پہلے مرحلے میں 6 اکتوبر بروز جمعہ خوجہ شیعہ اثناء عشری جامع مسجد کھارادر کے باہر بعد نماز جمعہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید حسن ظفر نقوی نے لاپتہ ثمر عباس کے 90 سالہ بوڑھے والد علمدار حسین، تصور رضوی ایڈووکیٹ اور رضی حیدر رضوی کے ہمراہ ہزاروں احتجاجی شہریوں کی موجودگی میں احتجاجاً اپنی گرفتاری پیش کی تھی، جنہیں بغدادی تھانے میں رکھا گیا تھا۔

 جیل بھرو تحریک کے دوسرے مرحلے میں 13 اکتوبر بروز جمعہ جامع مسجد مصطفٰی عباس ٹاؤن کے باہر بعد نماز جمعہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی، شہید علامہ حسن ترابی کے فرزند عارف ترابی، جعفر حسین زیدی سمیت کئی افراد نے احتجاجاً اپنی گرفتاری پیش کی، جنہیں شارع فیصل تھانے منتقل کیا گیا تھا۔ 19 اکتوبر کو ملت تشیع کے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور حکومت کی مسلسل بے حسی کے خلاف بزرگ شیعہ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی نے بغدادی تھانے میں احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف شروع ہونے والی جیل بھرو تحریک کے تیسرے مرحلے میں 20 اکتوبر بروز جمعہ جامع مسجد و امام بارگاہ دربار حسینی، حسین آباد برف خانہ ملیر کے باہر بعد نماز جمعہ ہزاروں احتجاجی مظاہرین کی موجودگی میں آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے رہنماء مولانا محمد ناظم علی آزاد نے کئی رفقاء کے ہمراہ احتجاجاً گرفتاری پیش کی تھی۔

 لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف علامہ حسن ظفر نقوی کی جانب سے شروع کی گئی بھوک ہڑتال کی حمایت میں 21 اکتوبر کو انچولی شاہراہ پاکستان میں ایک احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ قائم کیا گیا، جس میں آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماء صغیر عابد رضوی اور حسن رضا سہیل نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا۔ آج 23 اکتوبر بروز پیر لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادگان کراچی کے شارع فیصل تھانے پہنچے، جہاں انہوں نے علامہ سید احمد اقبال رضوی سے لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف دی گئی رضاکارانہ گرفتاری ختم کرکے تھانہ چھوڑنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ اگر علماء کرام گرفتاری ختم کرکے تھانہ سے باہر نہیں آئیں گے تو ہم بھی ابھی اپنی گرفتاری پیش کر دینگے۔ لاپتہ شیعہ افراد کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ ہماری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ ہمارے سروں کے تاج علمائے کرام جیلوں میں بند رہیں، لہٰذا ہم اپنے علمائے کرام سے درخواست کرتے ہیں کہ فی الفور اپنی گرفتاری ختم کریں، کیونکہ یہ ہماری عزت و ناموس کا مسئلہ ہے۔ جس پر احتجاجاً گرفتاری دینے والے علامہ احمد اقبال رضوی اور انکے رفقاء نے اسیران کے خانوادگان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے گرفتاری ختم کر دی۔

 بعد ازاں لاپتہ افراد کے خانوادگان علامہ احمد اقبال رضوی اور انکے رفقاء کے ہمراہ بغدادی تھانے پہنچے اور بزرگ شیعہ عالم دین علامہ سید حسن ظفر نقوی سے بھی بھوک ہڑتال اور گرفتاری ختم کرکے تھانہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا، جس پر علامہ سید حسن ظفر نقوی اور انکے رفقاء نے بھی خانوادگان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بھوک ہڑتال اور گرفتاری ختم کر دی۔ جس کے بعد علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ احمد اقبال رضوی رفقاء سمیت لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادگان کے ہمراہ انچولی شاہرائے پاکستان پر قائم بھوک ہڑتالی کیمپ پہنچے، جہاں انہوں نے پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی تحریک کے نئے لائحہ عمل کا اعلان لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادگان اور شیعہ مسنگ پرسنز ریلیز کمیٹی کی جانب سے 25 اکتوبر بروز بدھ کو کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ کراچی سے شروع ہونے والی شیعہ مسنگ پرسنز ریلیز کمیٹی کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اب تک مختلف شہروں میں 7لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں،
سب سے پہلے لیہ سے تعلق رکھنے والے دو اہل تشیع جوان نسیم عباس اور شاہین عباس بازیاب ہو ئے، دوسرے مرحلے میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتہ تین شیعہ افراد کو ظاہر کردیا گیا ہے اور انہیں مقامی پولیس کی تحولیل میں دیا گیا ہے، ان لاپتہ افراد میں محسن علی، محمد اسلم اور محمد رمضان شامل ہیں جو کئی عرصہ سے لاپتہ تھے، تاہم اب انہیں پولیس نے ظاہر کردیا ہے۔تیسرے مرحلے میں کراچی سے گذشتہ ایک برس سے لاپتہ شمشیر حسین ولد راحت حسین کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جس سے ان کے اہل خانہ کی لانڈہی جیل میں ملاقات بھی کروادی گئی ہے، آخری اطلاعات آنے تک کراچی کا ایک اور عزادارامبر رضا ولد محمد حسین بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گیا۔علمائے کرام کی جانب سے شیعہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کراچی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا گیا تھا  انکا مطالبہ ہے کہ جب تک سارے شیعہ لاپتہ افراد کو ظاہر نہیں کیا جاتا یہ احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔

علامہ حسن ظفر نقوی کی زیر قیادت شروع ہونے والی  جیل بھرو تحریک اور بھوک ہڑتال سے لاپتہ افراد کے خانوادگان اور شیعہ قوم کا حوصلہ بلند ہوا ہے، وہ اپنے آپ کو تنہا  نہیں سمجھ رہے، اس تحریک نے خانوادگان و قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ تمام قومی وملی تنظیمیں  اور  علمائے کرام اتحاد اور وحدت کے ساتھ انکے شانہ بشانہ میدان  عمل میں ثابت قدمی کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، دوسری جانب سے تحریک نے سالوں سے موجود جمود کوبھی  توڑ ڈالا ، سیاسی عسکری حلقوں کو اس حساس مسئلے کی جانب  متوجہ کیا، جنہوں نے اس مسئلے کو پس پشت ڈال رکھا تھااور حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر لاپتہ شیعہ جوانوں کی بازیابی کا عمل شروع کر دیا، جس پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بھی کسی حد تک سکھ کا سانس لیا ہے اور انہیں امید ہے کہ باقی ماندہ لاپتہ جوان بھی جلد اپنے پیاروں سے ملیں گے۔

وحدت نیوز(کراچی) لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کے لئے چلائی جانے والی شیعہ مسنگ پرسنز ریلیز کمیٹی کی جیل بھرو تحریک تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے تحریک کے روح رواں اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سید حسن ظفر نقوی  نے بغدادی تھانے میں ہی تادم مرگ بھوک ہڑتال کاآغا ز کردیا ہے، مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت نے لاپتہ شیعہ علماء وجوانوں کی بازیابی کیلئے مختلف سطح کے حکومتی اور عسکری حکام سے بھی ملاقاتیں اور رابطے کیئے  اور اسکے ثمرات بھی آنا شروع ہوگئے ہیں،اطلاعات کے مطابق جبری طور پر گمشدہ شیعہ علماءو جوانوں کی بازیابی کیلئے کراچی سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک آغاز کے بعد سب سے پہلے لیہ سے تعلق رکھنے والے دو اہل تشیع جوان نسیم عباس اور شاہین عباس بازیاب ہو ئے، دوسرے مرحلے میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لاپتہ تین شیعہ افراد کو ظاہر کردیا گیا ہے اور انہیں مقامی پولیس کی تحولیل میں دیا گیا ہے، ان لاپتہ افراد میں محسن علی، محمد اسلم اور محمد رمضان شامل ہیں جو کئی عرصہ سے لاپتہ تھے، تاہم اب انہیں پولیس نے ظاہر کردیا ہے۔تیسرے مرحلے میں کراچی سے گذشتہ ایک برس سے لاپتہ شمشیر حسین ولد راحت حسین کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جس سے ان کے اہل خانہ کی لانڈہی جیل میں ملاقات بھی کروادی گئی ہے، آخری اطلاعات آنے تک کراچی کا ایک اور عزادارامبر رضا ولد محمد حسین بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گیا۔علمائے کرام کی جانب سے شیعہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کراچی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا گیا تھا  انکا مطالبہ ہے کہ جب تک سارے شیعہ لاپتہ افراد کو ظاہر نہیں کیا جاتا یہ احتجاجی تحریک جاری رہے گی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) موت سب کو آنی ہے، موت کا دکھ بھی سب سہتے ہیں، لیکن خدا نہ کرے کہ کسی کے عزیزو اقارب میں سے کوئی لاپتہ ہو جائے،  اس وقت یہ دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب لاپتہ ہونے والوں کو محض شک و شبہے کی بنیاد پر اغوا کر لیا جائے۔ شنید یہ ہے کہ بعض لوگوں کو محض اپنی نوکری کی دھاک بٹھانے کے لئے بھی اغوا کر لیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی کم فکر کو کسی طریقے سے حکومت مل گئی ، اس نے برسر اقتدار آتے ہیں اپنے آبائی علاقے میں کرفیو نافذ کروادیا، کرفیو کی وجہ سے لوگ بھوک، پیاس اور بیماریوں سے مرنے لگے ، جب کافی لوگ مر کھپ گئے تو اس نے کرفیو ہٹانے کا حکم دیا، کسی نے ظلِّ الٰہی سے سوال کیا کہ سرکار کرفیو لگانے کی وجہ کیا تھی؟

ظلِّ الٰہی نے مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ مجھے کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔

ابھی یہی حال ہمارے ہاں عوام کا ہو رہا ہے، ایجنسیوں کے چھوٹے موٹے اہلکار کسی کو گھر سے، کسی کو دکان سے، کسی کو گاڑی سے، کسی کو مدرسے سے، کسی کو راستے سے پکڑ کر لے جاتے ہیں، کسی پر فیس بک چلانے کا، کسی پر تقریر کرنے کا ، کسی پر فون کرنے کا ، کسی پر فون اٹینڈ کرنے کا ، کسی پر نعرہ لگانے کا اور کسی پر رات گئے گھر سے نکلنے کا الزام ہے ، ان ملزموں کے بارے میں  اعلی افسران کو یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ یہ سب  ملک دشمن عناصر اور را کے ایجنٹ ہیں۔

جب ان بے چاروں کو دھر لیا جاتا ہے اور ان کےبارے میں مزید  کوئی ملک دشمنی کا ثبوت بھی نہیں ملتا تو انہیں مستقل طور پر گم ہی کردیا جاتا ہے۔

یوں اعلی حکام سمجھتے ہیں کہ ملک دشمنوں پر گرفت ڈالی جارہی ہے جبکہ نچلا طبقہ لوگوں پر اپنا رعب جمانے میں مصروف رہتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ بلوچوں میں کچھ علیحدگی پسند دھڑے بھی ہیں لیکن کیا یہ بات بھی ٹھیک نہیں کہ  بلوچوں کی اکثریت، محبِّ وطن اور ملک و ملت کی وفادار ہے ، پھر کیوں بلوچوں میں بحیثیت ِقوم، خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔۔۔!؟

برجستہ ملک دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ، عام بلوچوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور عام بلوچوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔

ممکن ہے اس ظالمانہ رویے سے  بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں کچھ لوگوں کا رعب تو جم جائے لیکن یہ رویہ ملک و قوم کے حق میں نہیں ہے۔ ہماری ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کو اعلی سطح پر بیٹھ کر اس رویےّے کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

اس سے کسی کو انکار نہیں کہ دہشت گردی کے ٹریننگ حاصل کرنے والے لوگ ملک کے لئے خطرہ ہیں لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ خود ہماری حکومتوں نے جہاد کے نام پر دہشت گردی کے مراکز قائم کئے اور  بعض دینی مدرسوں کو اسلحے سے لیس کیا۔ اب اسی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر لوگوں کو لا پتہ کیا جارہا ہے کہ فلاں کو فلاں نے فون کیا تھا اور فلاں کی فلاں کو کال آئی تھی۔

لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسی واضح کرے  اور دہشت گردی کے مراکز کو سیل کر دے چونکہ  سارے  جہادی مراکز ہماری حکومت کی سرپرستی میں ہی چل رہے ہیں۔ماضی میں دہشت گردوں کی تربیت کرنے والے ایک مرکزی مدرسے کو تیس کروڑ کی گرانٹ تک دی گئی ہے۔

لہذا اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہے تو عوام کو اغوا کرنے کے بجائے ، دہشت گردوں کے مراکز کو سیل کرنے میں سنجیدگی دکھائے۔ابھی حالیہ دنوں میں ہی قومی اسمبلی کےاراکین کےدہشت گردوں سے تعلقات پر مبینہ آئی بی فہرست کیخلاف وزراء اور حکومتی ارکان واک آوٹ بھی کر چکے ہیں۔ ہم اس فہرست کے بارے میں صرف اتنا تبصرہ کریں گے کہ جب کہیں سے دھواں اٹھتا ہے تو آگ بھی لگی ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کتنے ہی لوگوں کو اس بہانے سے مختلف مقامات سے اٹھا لیا گیا ہے کہ ان میں سے فلاں عراق میں اور فلاں شام میں جنگ لڑنے کے لئے گیا تھا، ہم اپنے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار اعلیٰ حکام سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے جوانوں کو ملک سے باہر جا کر لڑنے کا راستہ کس نے دکھا یا ہے۔۔۔!؟

جن لوگوں نے پاکستانی جوانوں کو جہاد کے نام پر مسلح کیا ہے اور انہیں پاکستان سے باہر جاکر لڑنے اور پاکستان کے اندر ایک ریاست تشکیل دینے پر ابھارا ہے ، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں، لہذا یہ انتہائی مذموم فعل ہے کہ اصلی مجرموں کی تو دست بوسی کی جاتی ہے اور انہیں اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے راہیں ہموار کی جاتی ہیں اور غریب لوگوں کے بچوں کو اغوا  کرلیا جاتا ہے۔

یہ غریبوں کی اولاد ، یہ بے کسوں کے بچے ، یہ سالہا سال سے لاپتہ  جوان،  چاہے سندھی ہوں، پنجابی ہوں، پٹھان ہوں، بلوچ ہوں، شیعہ ہوں یا سنی ہوں ، یہ سب ہمارا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔

ہمارے اداروں کو چاہیے کہ انہیں اغوا اور لاپتہ کرکے پیشہ ور مجرم بنانے کے بجائے انہیں دہشت گردی کے بحران  سےنکالنے میں ان کی مدد کریں اور ان کے اخلاق و کردار کی تعمیرِ نو کریں۔  

ہم ارباب علم و دانش اور صاحبانِ اقتدار کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا علاج دہشت گردی سے نہیں ہو سکتا، لوگوں کو اغوا اور لاپتہ کرنا یہ خود ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔

دہشت گردی کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی  کے مقابلے میں دہشت گردی کرنے کے بجائے، مناسب حکمتِ عملی کے اعتبار سےسابقہ حکومتوں کی غلطیوں کا ازالہ  کیا جائے اور اصلی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈال کرعوام کو خوشحالی، امن  اور سکون   کا پیغام  دیا جائے۔

 ہم یہ نہیں کہتے کہ اغوا اور لاپتہ ہونے والے لوگوں سے غلطیاں نہیں ہوئیں لیکن بحیثیت پاکستانی  ہم یہ گلہ کرنے کا تو حق رکھتے ہیں کہ سرکاری ایجنسیاں بھی وہی غلطیاں  دہرا رہی ہیں۔اگر کچھ لوگ قانون کے ساتھ عدم تعاون کے مرتکب ہیں تو  سرکاری ادارے تو قانون کی پابندی کریں  اور   لوگوں کو قانونی کارروائی کے لئے عدالتوں میں پیش کریں۔

اس وقت گم شدہ لوگوں کے لواحقین کی طرف سے جیلیں بھرو تحریک ہمارے اندر اس احساس کو بیدار کرنے کے لئے ہے کہ  موت کا دکھ   تو سبھی سہہ لیتے ہیں، لیکن خدا نہ کرے کہ کسی کے عزیزو اقارب میں سے کوئی لاپتہ ہو جائے،  کاش یہ احساس ہمارے ریاستی اداروں  کے اعلیٰ حکام   میں بھی  بیدار ہوجائے۔

 
تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree