وحدت نیوز(قم المقدسہ) مرکزی سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے ایم ڈبلیوایم قم سیکریٹریٹ سے بیرون ممالک مقیم مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان، ذمہ داران، سپوٹرزاور ملت جعفریہ کے تمام طبقات سے تعلق رکھنےوالے افراد کے نام پیغام میں کہاہے کہ گذشتہ چند سالوں سے حکومت پاکستان کے امنیتی اداروں نے بیلنس پالیسی کے تحت ماورائے آئین و عدالت مذھب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اس وقت ہماری ملت کے درجنوں بیگناہ افراد لا پتہ اور گرفتار ہیں،مجاہد ملت علامہ سید حسن ظفر نقوی حفظہ اللہ نے اپنی ملت کے ان افراد کی رھائی کے لئے اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جراتمندانہ اقدام کیا ہے.  اور مظلوموں کے حق اور  اسیر و لاپتہ افراد کی رھائی اور بازیابی کی تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز اپنی گرفتاری کے اعلان کے ساتھ کیا ہے، ہم انکے خلوص وشجاعت ودلیری کو سلام پیش کرتے ہیں،اب ملت کے ہر غیرتمند فرد کی ذمہ داری ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس تحریک کی  کامیابی اور اسیران ملت کی رھائی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

انہوں نے مزید کہا  کہ جیسے ماضی میں ملت پر آنے والے ہر مشکل وقت میں بیرون ملک مقیم ہماری غیرتمند ملت کے علماء کرام اور  ہر طبقہ کے خواتین وحضرات بالخصوص نوجوان میدان عمل میں حاضر نظر آئے اور اپنے موثر احتجاجی اقدامات سے بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ظلم وناانصافی پر مبنی پالیسیوں اور فیصلوں  کو تبدیل کرنے کے لئے حکومت وقت پر پریشر ڈالا،  مظلوموں کے حق کی حمایت کی،ان شاء اللہ تعالیٰ اس مرحلے پر بھی بھر پورکردار ادا کریں،تاکہ یہ بیگناہ ہمارے بھائی جلد از جلد آزاد ہوں اور آپ ان گمشدہ اور بیگناہ گرفتار کئے جانے والے افراد کی دکھی اور غمزدہ ماؤں ،بہنوں اور بے سہارا بیوی بچوں کا سہارا بن کر انکی دعائیں حاصل کر سکیں،اور دنیا پر ثابت کریں کہ ہماری ملت کے یہ سپوت تنہا نہیں ، ہم وہ قوم ہیں جو اپنے بیگناہ افراد پر ظلم وزیادتی برداشت نہیں کرتے اور انہیں زندانوں میں نہیں رہنے دیں گے،امید ہے کہ آپ اپنی توانائی اور وسعت کے مطابق حسب سابق اس تحریک کی کامیابی میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل یعقوب حسینی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک بھر سے جبری گمشدہ شیعہ علماءوجوانوں کی عدم بازیابی اور علامہ حسن ظفر نقوی کے احتجاجاًگرفتاری دینے کے اعلان سے اظہار یکجہتی کیلئے بروز جمعہ سندھ بھر میں پر امن یوم احتجاج منایا جائے گا، انہوں نے تمام ضلعی سیکریٹری جنرل صاحبان کا ہدایات جاری کیں کےبعد نماز جمعہ احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیئے جائیں، تاکہ بےجرم وخطاجبری طور پر لاپتہ شیعہ علماء وجوانوں کی بازیابی کیلئے ریاستی اداروں اور مقتدر شخصیات کے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑاجاسکے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے جمعہ کے روز گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہے گزشتہ کئی سالوں سے ملت تشیع کے سینکڑوں نوجوان لاپتا ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں سے ہمارے نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا گیا۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد خود کو ایجنسیوں کا اہلکار ظاہر کر کے رات کی تاریکی میں ہمارے نوجوانوں کو اغوا کرتے رہے۔ آج تک ان مغوی نوجوان کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ ہم مطالبات کر کر کے تھک چکے ہیں۔لاپتا نوجوانوں کے اہل خانہ کا اضطراب ہمارے لیے اب ناقابل برداشت ہے۔اگر ہمارے لوگ مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔عدالت کے علم میں لائے بغیر کسی کو حراست میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کے منافی اور آئین و قانون سے متصادم ہے۔ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف گزشتہ کئی سالوں سے احتجاج بھی کئے جاتے رہے اور دھرنے بھی دیئے گئے لیکن حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔کراچی یوم عاشور کے مرکزی جلوس میں مسنگ پرسنز کے اہل خانہ اور دیگر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملت تشیع کے جبری گمشدہ افراد کو اگر بازیاب نہیں کرایا گیا تو پھر میں اپنی گرفتاری پیش کروں گا۔اس موقعہ پر متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ فارق ستار بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ قوم کے مغوی نوجوانوں کی عدم بازیابی کے خلاف جمعہ کے روز بعد از نماز جمعہ جامع مسجد کھارا دار کراچی میں وہ احتجاجاََ اپنی گرفتاری پیش کریں گے۔بعض ازاں رضاکارانہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ملک بھر میں شروع کیا جائے گا اور اس وقت تک وہ رہا نہیں ہوں گے جب تک ملت کے لاپتہ نوجوانوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتی اور انہیں رہا نہیں کیا جاتا۔

61ہجری کا محرم

وحدت نیوز(آرٹیکل)60 ہجری جونہی ختم ہوئی ِ60ہجری کا محرم بڑے افسوس اور غم و اندوہ میں غرق ہو کر، بڑی بے تابی سے، حزن سے بھرے ہوئے اور مجبوری کے عالم آغاز ہوا اس لئے کہ نواسہ رسول ؐ سال کی ابتدامیں کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا اور یہ لوگ خدا کے ساتھ راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔

آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے  ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا ۔

اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا !میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔راستے کی مشکلات و مصائب جھیلتے ہوئے آل محمد کا یہ قافلہ بڑی آب وتاب کے ساتھ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا پہنچ گئے۔آل محمد کو 61ہجری کی ابتدا میں ہی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور یہ مہینہ آل محمد اور ہر انصاف پسند انسان کے لئے نہ بھولنے والا مہینہ ثابت ہوا اور قیامت تک کے لئے یہ مہینہ اسی غم و اندوہ کے ساتھ شروع ہونے کو ہی اپنا فخر سمجھنے لگا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سواکیا ہے
ایک ضرب یداللہ ہی ایک سجدہ شبیریؑ

نواسہ رسولؐ نے بد عتوں ،گمراہیوں ،ظلم و استبداد اور شرک و استحصال کے خلاف قیام کیا۔اس مہینہ میں نواسہ رسولؐ کو حق پرستی اور عدل پروری کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کربلا کی تپتی ہوئی صحرا کو نواسہ رسولؐ اور ان کے 72 ساتھیوں کے خون سے سیراب کیا گیا ۔ یوں اسلامی معاشرہ ہمیشہ کے لئے درندہ صفت ،حکمرانوں ،استحصال و استکبار اور ظلم و نا انصافی کے خونچکاں پنجوں میں گرفتارہو گیا ۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو  یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔

اصول دین نہ بچاتے جو کربلا والے
 ورق ورق یہ کہانی بکھر گئی ہوتی
بچا لیا اسے سجدہ ،حسین ؑ کا ورنہ
 نماز ،عصر سے پہلے ہی مرگئی ہوتی

محرم زندہ دل انسانوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ واقعہ کربلا صرف حسین بن علی علیہ السلام اور یزید کے درمیان چھڑ جانے والی جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور حق نے اپنا سر کٹوا کر باطل کو ہمیشہ کیلئے سر نگوں کر دیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے قافلہ کےساتھ کربلا پہنچے اوروہاں امام عالی مقام نے  کربلا کے تپتےہوئے  صحرا میں  انسانوں کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیا۔

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تو  نے

آج کا محرم کربلا کی یاد ہے اور یہ محرم ہل من کی آواز ہے ۔ محرم سرفروشان حق کی ناقابل شکست ولولہ ہے ،محرم ظلمت کی گٹھاوں سے طلوع ہونے والی نوید سحر ہے ۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں عاشورہ برپاہوئی ۔یوم عاشور ہ جو میزان حق و باطل ہے ، جس روز سید الشہدا ء  علیہ السلام نے اپنے با وفا اہل بیت واصحاب کے ساتھ بنی امیہ کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقش نوچ پھینکا اور کربلا کی تپتی ہوئی ریگستان میں  یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ۔

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
 دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نداد دست د ر  دست   یزید
حقائے کہ بنا لا الہ است حسین ؑ

جب تک بے کس مظلوم انسانوں کی آخری امید حجت خدا امام زمانہ ؑ کا ظہور نہیں ہو گا اور وہ عظیم الہی انقلاب بر پا نہیں ہو گا جو تمام انسانیت کی فلاح اورنجات کا ضامن ہے عزاداران حسین ؑ محرم مناتے رہیں گے ،راہ حق میں سروں کوقربان کرتے رہیں گے ، سینوں میں گولیاں کھاتے رہیں گے ، مشکلات ومصائب جھیلتے رہیں گے اور اپنی جانوں کو  نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرتے رہیں گےاور غم حسین  میں اس وقت تک آنسو بہاتے رہیں گے جب تک باطل کو بہاکر نہیں لے جائے گا۔

قتل حسین ؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

آج بھی یزیدی فکر دنیا میں پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کر کے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔ آج شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے چیلے داعش ،القاعدہ اور طالبان اسلام ناب کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان  بزرگ امریکہ، اسرائیل ،سعودی عرب ا ور  ان کے دستر خوان پر  پلنے والے  یزیدی افکار رکھنے والےعناصر کو علم ہونا چائیے کے شیعیان حید کرار اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کرتےرہیں گے اور ان کا غم مناتے رہیں  گے اور قیامت تک یہ سلسلہ  بڑی آب و تاب  کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔

تحریر :محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) وہ زمانہ کہ جہاں ہر طرف ظلمت ہی ظلمت تھی ۔ نہ انسان تھا نہ انسانیت ۔ ۔ جہان ہر طرف غلامی ، ظلم ، استبداد ، محکومی وجہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ عین اسی وقت نور کی ایک نحیف سی کرن نے وہاں سراٹھایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کرن سورج کا سماں پیش کرنےلگی ۔۔اور اپنے اطراف کو کچھ اس طرح اجالا بخشاکہ " جہاں جہالت کے اندھیروں نے زندگی کو اجیرن بنارکھا تھا " وہاں زندگی نے سر اٹھایا ۔وہی لوگ کہ جو مفہوم انسان و انسانیت سے کوسوں دور تھے ، دنیا کے مہذب ترین تمّدن کی آغوش میں آ بیٹھے ۔ ۔۔۔۔مگر پھرکیا ہوا۔۔۔۔۔؟

زمانے نے اپنا رخ ایک بار پھر بدلا۔۔۔زمانے کو مفہوم آزادی ، علم و زندگی سے آگاہ کرنیوالے اس  عظیم رہنما کوگزرے ابھی تقریباْ ۵۰ سال ہی ہوئےتھے کہ  پھر سے اندھیرے روشنیوں پر چھانے لگے ۔ سب کچھ دھندلا سا دیکھائی دینے لگا ۔  اسلام کی نورانی تعلیمات کو جہالت و مفاد پرستی کے اندھیروں نےہر طرف سے گھیر لیا ۔۔۔مگر اس بار انداز بدل کر ۔۔۔نبی اکرمﷺ کے زمانے میں  اسلام  کے مقابلے میں کفر تھا مگرحسینؑ ابن علی ؑ کے زمانے میں اسلام کے مقابلے میں مسلمان  تھے ۔۔کل باہر کے دشمنوں سے مقابلہ تھا مگر آج اندر کے دشمن سے نبردازمائی تھی، کل کا دش،من خود کو بت پرست کہتا تھا لیکن آج کا دشمن خود کو خلیفہ المسلمین اور توحید پرست کہہ رہاتھا ۔۔اور رہی بات اسلامی معاشرے کی تو معاشرہ اس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے کہ مسلسل گمراہی کی آغوش میں جا رہا ہے ۔۔حتی معاشرے نے حق و باطل کے معیار کو اس قدر بھلا دیا تھا کہ مسندِ رسولﷺ پر یزید جیسا شخص بیٹھ گیا تھا اور لوگ خاموش تھے۔

قرآنی نکتہ نظر سے کوئی بھی قوم و ملت جو" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کرنے لگے" اس  کی  دو بنیادی وجوہات ہیں ۔۔

۱۔ذکر خدا سے غافل ہونا ۔

۲۔شہوات طلبی [شہرت ، دولت و اقتدار  طلبی۔۔۔۔]

اور جب قومیں و ملتیں ایسی ہو جائیں کہ جو اعمال میں مفسد ہوں اور دشمن ان کے اندر ڈیرے لگائے بیٹھا ہو تو ان حالات میں خداوند متعال کو موسیٰ جیسے نبی کو40دنوں کے لئے طور پر بلانا پڑتا ہے ۔۔۔۔تاکہ ان40دنوں میں یہ پتہ چل جائے کہ کون خدا پرست ہے اور کون گوسالہ پرست۔۔

61ہجری میں بھی حالات کچھ اسی طر ح کے تھے ۔۔بقول سید الشہداع  " اسلام فقط لوگوں کی زبانوں کا چسکا بن  چکاتھا" حق کو باطل اور باطل کو حق شمار کیا جانے لگا تھا ۔۔اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ دشمن خود مسلمانوں کی صفوں میں خیمہ زن تھا ۔۔لوگ باطل کو حق سمجھ کر اس کی پیروی کر رہے  تھے ۔۔۔پس ضروری تھا کہ کوئی موسی ٰ ہو جوفعرون وقت کے خلاف قیام کرے اور باطل  کو   حق سے جدا کرے۔۔۔

اسی ضرورت کے پیش نظر امام حسین ع نے  وقت کے فرعون کے خلاف کربلا کے میدان میں اسلام کو بچانے کے لئے قیام م کیا ۔۔ اس بار  بھی امام حق کے مقابلے میں تخت پر ایک فرعون  بیٹھا ہوا تھا ۔ ۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔عاشورا ہی وہ دن تھا کہ جب حسین ابن علی  [ع] نے فرعون کے تخت کو ٹھوکر مار کر خود کو خداوند سے ملاقات کے لیے پیش کیا ۔۔حسینؑ ابن علی کا وہ خون کہ جو پہلے دن غریبانہ و مظلومانہ طریقے سے بہایا گیا  آہستہ آہستہ  زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ 40ویں روز [اربعین ] کو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ وسط آسماں میں ایسا چمکا کہ جس کی  چمک سے باطل کو حق کے دائرے سے باہر آنا پڑا ۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔عاشورا ۔۔تا۔۔۔۔اربعین  کی اس 40روزہ  مدت نے لوگوں پر حق و باطل اس قدر واضح کر دیا کہ لوگ باطل کے خلاف عملا آواز اٹھانے لگے ۔۔۔۔

عاشور کے بعد ۴۰ روز ۔۔یعنی۔۔۔حق و
باطل کی جدائی کے ایام

عاشور کے بعد   ۴۰روز ۔۔یعنی ۔۔۔تلوار پر خون کی فتح کے ایام

عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔ظلم و
ظالم و  طاغوتی نظام سے بیزاری کے ایام

عاشور کے بعد  40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔غدیر سے تجدید عہد کے ایام

عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔یزید و
یزیدیت کی ذلت و رسوائی کے یام

عاشور کے بعد 40روز۔۔۔یعنی ۔۔۔درس علم
، شجاعت ، عزت و آزادی کے ایام

عاشور کے بعد 40روز ۔۔۔یعنی ۔۔۔استغاثہ
حسینی پر لبیک کہنے کے ایام ۔۔

بقول ڈاکٹر شریعتی کے  "وہ لوگ جو امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے ، انہوں نے فریضہ حسینی انجام دیا ،جو بچ گئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ فریضہ زینبی انجام دیں ورنہ وہ یزیدی ہیں ۔ "

دس محرم کو کربلا ختم نہیں ہوتی بلکہ فریضہ زینبیؑ کا آغاز ہوجاتا ہے۔


تحریر۔۔۔ساجد علی گوندل

وحدت نیوز(آرٹیکل) بھوک بڑی ظالم چیز ہے، بھوکے انسان کو پیٹ کے سوا سب کچھ بھول جاتا ہے،البتہ پیٹ کی بھوک تو خشک روٹی کی ایک ٹکڑے سے بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن عقل کی بھوک یعنی ہوس   ایسے نہیں مٹتی۔

جن کی عقل بھوکی ہو وہ مرغ مسلم کھا کر بھی بھوکے رہتے ہیں، ہوس میں مبتلا لوگ  کبھی سیر نہیں ہوتے ۔ان کے سامنے کچھ حرام و حلال یا حق و باطل نہیں ہوتا وہ صرف دولت سمیٹنے کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔

 اگر ان کی دنیا خطرے میں پڑے تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے کوفے والے بھی تھے،جب کوفیوں نے  یہ سوچا کہ حکومت ملے گی تو انہیں بھی مال و دولت ہاتھ آئے گا چنانچہ انہوں نے حضرت مسلم ؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں مال و دولت ملنے کے بجائے جان  جانے کا خطرہ ہے  تو حضرت مسلمؑ کو تنہا چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔

انہوں نے جب شام سے لشکر کے آنے کی جھوٹی خبر سنی اور اپنی تنخواہ کو بیت المال سے کاٹے جانے کی دھمکی سنی تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہوگئےاور انہوں نے  اپنے تیروں کے رخ ابن زیاد سے موڑ کر امام حسین(ع) کی طرف کر لیے۔

دنیا داروں کی حقیقت یہی ہے کہ  جو امام حسین(ع) نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے کہ

لوگ دنیا کے اسیر ہیں اور دین صرف ان کی زبان کا لقلقہ ہے(لقلقہ زبان کے اوپر لگے ہوئے پانی کو کہتے ہیں جو تھوڑی سی ہوا سے خشک ہو جاتا ہے)

لوگ اس وقت تک دین کی اطاعت کرتے ہیں جب تک ان کی معیشت چلتی ہے لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جب عمر ابن سعد چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا تو عروہ بن قیس سے کہا کہ حسین(ع) کے پاس جاو اور ان سے پوچھو کہ  وہ کس لیے اس سرزمین پر آئے ہیں!؟  

عروہ اس ماموریت پر راضی نہیں تھا یعنی وہ امام حسین(ع) کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اس نے امام کو کوفے میں آنے کیلئے خط لکھا ہوا تھا ۔اب وہ امامؑ کا سامنا نہیں کرنا چاہتاتھا۔

عروہ بن قیس کے پیٹ میں بھوک نہیں تھی، اس کے دماغ میں بھوک تھی۔وہ بھوکا تھا، اقتدار، نعام ، اور منصب کا۔

لیکن دوسری طرف بریر بن خضیر ھمدانی تھے جو اپنے وقت کے زاھد،عابد،قاری اور مفسرقرآن تھے اور اپنے وقت کے بہترین جنگجو تھے ۔ جب وہ میدان کربلا میں پہنچے تو  انہوں نے کوفیوں کو مخاطب کرکے کہا :

اے اہل کوفہ واے ہو تم پر!آیا وہ خطوط جو تم نے لکھے تھے وہ عھد و پیمان جو تم نے باندھے تھے ان سب کو بھول گئے ہو؟

واے ہو تم پر۔آیا اہل بیت پیامبر کو دعوت نہیں دی تھی، اپنی طرف نہیں بلایا تھا !آیا ان پر جان نثار کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟

لیکن جب اہل بیت ؑ نے تمہاری طرف رخ کیا تو ان کو ابن زیاد کے حوالے کردیا اور اب (پردیس میں) ان پر پانی بھی بند کردیا ہے۔فرزندان پیامبر کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کر رہے ہو تم کو کیا ہو گیا ہے۔

خدا تم کو قیامت کے دن پیاسا رکھے تم بد ترین امت ہو۔

اس کے جواب میں کوفیوں نے کہا کہ :اے فلاں!تم کیا کہہ رہے ہو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا

ہاں کوفی سچ کہہ رہے تھے! انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، جب انسان کی عقل پردنیا کا  لالچ سوار ہو جائے تو  پھر اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔

آج ہمیں بھی جب حسینؑ اور یزید ، حق اور باطل ، حرام اور حلال کا فرق سمجھ میں نہ آئے تو ایک مرتبہ اپنی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کس چیز کی  ہوس نے ہمیں اہل کوفہ کی طرح اندھا ، بہرہ اور گونگا کردیا ہے۔

جوآج  ابھی حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کی حمایت نہیں کرتا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتا اسے یقین کرلینا چاہیے کہ  میں ابھی لشکر یزید میں ہوں۔

تحریر۔۔۔سجاد مستوئی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree