وحدت نیوز(آرٹیکل) درد اسی کو ہوتا جس کا کوئی چلا جائے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ درد اس وقت ہوتا ہے جب کسی کا کوئی عزیزگم ہوجائےاوراس کی تلاش میں دن رات ایک کردیں اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں کہ شاید میرےبیٹے،باپ ،بھائی یا شوہر کا کوئی سراغ مل سکے ۔ لیکن جب آگےسے یہ کہا جائے کہ اپنے پیاروں کو سرد خانوں ،یا تھانوں میں تلاش کرو! ہو سکتا اپنی مراد کو پہنچ جائو ! تویقین کریں یہ سن کر جو دل پر چوٹ لگتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔جب ہر طرف سے امید ٹوٹنے لگے توپھر کچھ صاحبان علم ودانش نے یہی فیصلہ کریں نا! اگر انہیں واپس نہیں کرتےہو، تو ہمیں بھی ان تک پہنچا دو ۔ہو سکتا ہمارے اس عمل سے کسی عمررسیدہ باپ ،ستم رسیدہ ماں،بہن کا بیٹا اور بھائی یا کسی کا سہاگ بچ جائے اور ان کی دعائوں کے ظفیل ہم بھی اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور اپنے کریم پروردگار سے یہ کہہ سکیں کہ آج ہم نے اپنی اخلاقی ،قومی اور ملی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ تو ہم سب پر رحم فرما ۔ظالمین کو ان کے انجام تک پہنچا!!

کسی نےمجھ سے سوال کیا کہ تحریک آزادی ،تحریک انقلاب ، عوامی تحریک کا تو سنا تھا مگر جیل بھرو تحر یک کا پہلی بار سن رہا ہوں ۔ہوسکتا ہے مجھے اس کا سامنا نہ رہا ہو یا پھر ۔۔۔ جیل بھرو تحریک آخر ہے کیا؟لوگ تو پولیس اور تھانے کا نام سن کے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ان پرپولیس والے بے جا ظلم نہ کریں ،اور تو اور پولیس کی ڈر سے لوگ کسی احتجاج ،ریلی اور تحریک وغیرہ میں شرکت کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں لیکن یہ لوگ جیل بھرو تحریک کا آغاز کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر رہے ہیں؟آخر کیوں؟کیا انہیں اپنی زندگی عزیز نہیں ہے؟کیا ان کےبال بچے نہیں ہے؟اور اگر زندگی سب سے پیاری ہے تو زندگی کو خطرے میں ڈال کر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ٹھوری دیر سوچنے کے بعدوہ بولے جیل بھرو تحریک کا آغاز اس لئے ہوا ہے تاکہ کسی معصوم بچے کو اس کے باپ کے چہرئے کی زیارت ہوسکے، ستم رسیدہ ماں اور بہن اپنے گم شدہ بیٹے اور بھائی کا دیدار کر سکیں اور عمر رسیدہ باپ اپنے بوڑھاپے کے وقت کےسہارے کا سایہ دیکھ سکے،کاش ہم اس ملک میں پیدا ہی نہ ہوتے توکم از کم ہم اس اذیت سے ہمکنار بھی تو نہ ہوتے ،ٹھیک کہا نا میں نے،،وہ بولے!!اس کی داد رسی کے لئے میرئے پاس سوائے جی جی کےکہنے کو اور کچھ نہ تھا،جب وہ چلے گئے تو میں سوچ میں پڑ گیااور سوچنے لگا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے ؟ یقیناًآپ اس بات سے مانوس ہیں کہ ملک عزیز پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے،اس دو قومی نظریے کا فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن ہو تاکہ مسلمان اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی گزار سکیں،انہیں اپنے طوروطریقے سے زندگی گزارنے کی مکمل آذادی ہو اور جب وطن عزیز اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے وجود میں آیا توانگریزوں اور ہندوؤں کے ظلم سے مجروح اور بے بس مسلمانوں کے قائد، قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے نوزائیدہ مملکت کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا:’’ کہ آپ لوگ آج کے بعد آفیسراور حکمران کی روپ میں اس قوم اور اس ملک میں بسنے والے تمام مسلک ورنگ ونسل کے خدمت گزارہیں،اس ملک کو بچانے کے لئے آپ نے ایک خادم کی سی خدمت انجام دینا ہے‘‘ اور آپ نے یہاں تک فرمایا تھا:’’کہ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے جان اورمال کے آپ محافظ ہے۔‘‘
لیکن افسو س آج اس وطن عزیز پاکستان میں قائداعظم ؒکے فرامین کا مذاق اڑائی جارہا ہے،قائداعظم ؒ کے فرمان کے مطابق کسی بھی شہری کے جان ومال کے ذمہ دا ری سرکاری کرسی پہ بیٹھے ہوئے لو گوں پر عائد ہوتی ہے،ایک عام سپاہی سے لیکر اسٹبلشمنٹ اور وزیر اعظم تک سب کے سب اس ذمہ داری کو انجام تک پہنچانے میں برابر کے شریک ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ چور، لٹیروں اور کرپٹ مافیا نے ملک کو آج اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ایک عام شہری اپنے ہی غلاموں کے آگے ہاتھ پھیلائے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے اور یہ لوگ اپنے محسنوں کے خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اور ہم ایک ایسی جمہوریت کے ہاتھوں غلام بنے ہوئے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو حفاظت دینے سے بالکل قا صرہےیہی وجہ ہے کہ مسنگ پرسنز کی تعداد آئے روز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے،اعلی عہداران کوسب معلوم ہے کہ کون کہاں ہے ؟سب کچھ جانتے ہوئےبقول قائداعظم ؒکے قوم کے یہ خادم اعلیٰ عوامی خدمت سے لاتعلق ہیں ہیں ،ان سے مسنگ پرسن کی ریکوری نہ ہو نے سے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یا تو اعلی عہداران شہریوں کی گمشدگی میں خود شیریک ہیں یا جان بوجھ کے اس ملت کو تنگ کر رہے ہیں،جناب اعلی اس ملک کو بنانے میں تمام شہریوں کا حصہ ہے اور تمام فرقے کے لوگ اس ملک کو وجود میں لانے کے لئے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے خدارا !اس ملت کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں ،اس ملک میں اتنا ہمارابھی حق ہے جتنا تمہارا حق ہے،ملک عزیز پہلے سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے ایسے میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ گمشدہ افراد کی ریکوری کو یقینی بنائے تاکہ مسنگ پرسنزکی فیملیز کو ذہنی سکون حاصل ہو اور شہر ی آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو سکیں۔
 

تحریر۔۔۔۔ظہیر کربلائی

وحدت نیوز(آرٹیکل) افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، غیرت مند لوگ اپنی ماں کی طرح ریاست سے محبت اور اس کی حفاظت کرتےہیں، بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں چند سالوں سے اس دھرتی کے بیٹے لاپتہ ہونا شروع ہو گئے ہیں،  ان لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں فی الحال  ٹھیک طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن  کی  اگست2017کی  جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد 1372 ہے، عوام کی سہولت کے لئے کمیشن نے www.coioed.pk کے نام سے ویب سائٹ بنا دی ہے جس پر کیسوں کی تفصیل اور سماعت کی تاریخوں سمیت دیگر معلومات دستیاب ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ پنجاب لاہور میں کمیشن کا باضابطہ طور پر سب آفس قائم کر دیا گیا ہے اس سب آفس کا رابطہ نمبر042-99210884ہے۔

تاہم دوسری طرف آزاد ذرائع کےمطابق صرف بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ  ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔

ہماری دانست کے مطابق اب ریاستی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چایے۔ مثلا بلوچستان کے عوام کو جسمانی طور پر اغوا کرنے کے بجائے ان کےانسانی حقوق ادا کئے جائیں، انہیں وڈیروں کی غلامی اور قبائلی تعصب سے نکالا جائے ، تعلیم اور صحت سمیت رفاہِ عامہ  پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کے عوامی  مطالبات کو  بخوشی قبول کیا جائے اور غلط فہمیوں کو ختم کر کے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔

 اسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے اگر لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز ہماری ایجنسیوں کو پتہ ہیں، بلا شبہ ان پر پابندی لگنی چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ جہاد کے عنوان کو اپنے لئے مخصوص کرے ، کسی بھی مدرسے یا مولوی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ جہاد کا علم بلند کرے۔

اگر حکومت کو یہ ضرورت ہے کہ لوگوں کو جہاد کی تربیت دی جائے تو یہ کام مسلکوں، مسجدوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر  حکومتی مراکز میں ، حکومت کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔

تعلیمی اداروں سے کلاشنکوف کلچر اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ماضی کے این سی سی کے کورس کی طرح کے کورسز لانچ کر کے جوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جانی چاہیے۔

اسی طرح جن لوگوں کو افغانستان، شام یا کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کے شک میں اٹھایا گیا ہے،حکومت کو ماننا چاہیے کہ ان سارے مسائل میں خود حکومت ہی قصور وار ہے۔

ملک میں کسی کو بھی مسلکی ، علاقائی یا لسانی بنیادوں پرہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے،  لیکن ہمارے ہاں ماضی میں حکومت نے ایک مخصوص مسلک کو عسکری تربیت دی اور ان کے لئے بیرونِ ملک جاکر لڑنے کے دروازے کھولے، آج اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب حکومتی ادارے انہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں۔

اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاد کے حوالے سے تمام مسالک و مکاتب کے لئے یکساں پالیسی کااعلان کرے ، اور  جو لوگ حکومت کی نئی جہاد پالیسی کو تسلیم کریں اور تعاون کا عہد کریں ، انہیں اغوا اور لاپتہ کرنے کے بجائے ، اُن سے ملک کے دفاع کے لئے استفادہ کیا جائے۔

ماضی میں جب حکومت خودایک مخصوص فرقے کے  لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر مسلح کرتی تھی تو اس سے خود بخود دوسرے مسالک کے لوگوں کو بھی مسلح ہونے کی ترغیب ملتی تھی۔ یہ اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آج عقیدے کی جنگ میں پاکستانی جوان ہر محاز پر نظر آتے ہیں۔

یہ حکومت کی ہی بنائی ہوئی پالیسی ہے لہذا اب حکومت کو ہی اس کا مثبت حل سوچنا چاہیے۔اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین نے جیلیں بھرو تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، سرکاری اداروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ ان افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کو اپنے اعتماد میں لیں اور  ملکی سلامتی کے لئے ان سے عہد لے کر ان کے پیاروں کو ان کے حوالے کریں۔

 یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہذا جولوگ اپنے وطن کے وفادار ہیں انہیں عقوبت خانوں سے رہائی ملنی چاہیے۔یہ وقت کی آواز، انسانی ضمیر کا فیصلہ  اور یہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لاہور) ملت تشیع کے لاپتہ افراد اگرم مجرم ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے،ہم کسی جرائم پیشہ افراد کی دفاع نہیں کرینگے،پڑھے لکھے نوجوانوں کو محض بیلنس پالیسی کی آڑ میں اُٹھا لینا یہ کہاں کا انصاف ہے،ہم حکومت وقت اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلیج کرتے ہیں کہ وہ ایک فرد ایسا دکھا دیں جس نے ملکی سلامتی کے اداروں ،افواج پاکستان،پولیس اور کسی سرکاری تنصیبات میں خدانخواستہ کسی حملے یا اس کی منصوبہ بندی میں شریک رہا ہو،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ہم لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں،لاپتہ افراد کے لواحقین آئینی قانونی جدو جہد کر رہے ہیں اور ان مظلوموں کا ساتھ دینا ہر پاکستانی پر فرض ہے۔علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ ایک طرف ہمیں شناخت کرکے قتل کیا جارہا ہے ،دوسری طرف ہمارے بے گناہ افراد غائب ہو رہے ہیں آکر ہم انصاف لینے کہا جائیں،ہم حکومت وقت اور مقتدر قوتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خدا را مظلوموں پر مزید ظلم کرنا بند کر دیں اور بے گناہ گمشدہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے،ہمیں سٹرکوں چوراہوں پر نکلنے پر مجبور نہ کیا جائے،بے گناہ افراد کی گمشدگی پر احتجاج ہمارا آئینی قانونی حق ہے اس سے ہمیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کیا ہے ؟ آج تک اس کی کوئی متفقہ علمی تعریف سامنے نہیں آسکی ۔ ہر ایک کی نظر میں اس کی مختلف تشریح ہو سکتی ہے ۔ میری نظر میں جب کوئی فرد ، گروہ ، ادارہ یا حکومت دوسروں کے بنیادی حقوق کا احترام کئے بغیر ان پر ماؤرائے آئین اپنی مرضی ، سوچ ، نظریہ ، پالیسی یا عقیدہ دھونس دھمکی یا تشدد کے ذریعے زبردستی مسلط کرنا چاہے تو اسے دہشت گردی کہتے ہیں ۔دہشت گردی کی تاریخ اور پس منظر میں جائیں تو کتابوں پر کتابیں لکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ مختصریہ کہ دہشت گردی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔دہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا نظریہ کا فرما ہوسکتا ہے ۔ عقاید کی ترویج کے نام پر ہونے والے جہاد ، فاشزم کی آڑ میں ہونے والی جنگیں ، نظریاتی تبدیلی کے نام پر برپا ہونے والے انقلابات اور کشور کشائی اور فتوحات کے نام پر دنیا بھر کے حملہ آوراور جنگجوؤں کی قتل و غارت ، لوٹ مار ، آبرو ریزی اور سروں کے مینار بنائے جانے کے عمل ، طاقت کے حصول یا معاشی اور سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرنے کی خاطر لڑی جانے والی براہ راست یا بالواسطہ جنگوں کو میرے خیال میں دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ،یہ الگ بات ہے کہ کسی مخصوص نظریے کا حامی اپنے مخالفین کی گردنیں کاٹنے اور انہیں سولیوں پر لٹکانے کے عمل کو حق بجانب ، جہاد یا انقلاب کا نام دیتے ہیں جبکہ انکا یہی جہاد اور احسن عمل ان کے مخالفین کی نظر میں غیر انسانی عمل اور دہشت گردی کے سوا کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا ۔

دنیا کی جدید تاریخ میں دونوں عالمی جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور اوران کے بعد کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ نے نہ صرف پوری دنیا کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لئے رکھا بلکہ اس سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے باوجود آج بھی دنیا کے اکثر ممالک دونوں عالمی طاقتوں کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس رہے ہیں ۔ہمارا اپنا خطہ بھی گزشتہ تقریباَ کئی دہائیوں سے ایسی ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔اس دہشت گردی کی مختلف وجوہات اور محرکات ہو سکتےہیں لیکن میرے خیال میں کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کا زیادہ ہاتھ ہے جو خطے میں اپنی من پسند پالیسیاں نا فذ کرنا چاہتی ہیں ۔

 اسی کی دہائی میں وطن عزیز میں برپا ہونے والےغیر معمولی حالات ( انہیں آپ چاہیں جو بھی نام دیں) دراصل سوشلزم کے علمبردار سوویت یونین اور سرمایہ دار ممالک کے سرخیل امریکہ کے درمیان جاری کشمکش کا نتیجہ تھے جنہوں نے پورے خطے کو جنگ و جدل اور ناآرامی کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا جس سے یہاں کی عوام لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک نکلے پر قادر نہیں ہوسکی ۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان میں جس ترتیب اور مختصر وقفوں سے تبدیلیاں رونماء ہوئیں وہ بلا شک و شبہہ ان دو عالمی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا شاخسانہ تھیں ۔ جن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کی زندگیاں قربان ہوئیں اور کروڑوں لوگ اپنی خاک اور گھربار چھوڑ کر غیر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ اسی قتل و غارت اور مہاجرت کا نتیجہ تھا کہ ان جنگ زدہ انسانوں کی ایک پوری نسل تعلیم اور بہتر روزگار سے محروم رہی جسے بعد میں مختلف طاقتوں نے بطور Tool اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا ۔

اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ پی ڈی پی اے کی حکومت کو ناکام بنانے اور سوویت یونین کو زک پہنچانے کے لئے امریکہ نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو جہاد کے نام پرافغانستان اور پاکستان کی سرزمین پر آباد کیا جوعرب ممالک کے پیسے اور امریکی و پاکستانی اسلحے کے زور پر لوگوں کی لاشیں گراتے رہے ۔ اس امریکی جہاد کے دوران جہاں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت خطے میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا وہاںعرب شیوخ نے داخلی چپقلش اور امت مسلمہ کی امامت حاصل کرنے کی دوڑ نے یہاں فرقہ واریت کو بھی اپنے عروج پر پہنچادیا ۔اور اس طرح جہادیوں کو پال پوس کر پاکستان اور افغانستان سمیت وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پھیلا کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی ممالک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا ۔

یہ ایک اتفاق ہرگز نہیں تھا ،جب پاکستان اور افغانستان میں عرب جہادیوں کی آمد شروع ہو گئی تھی جنکا مقصد بظاہر سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لینا تھا ۔ اس دوران عرب ممالک کی سرپرستی میں نہ صرف پورے پاکستان میں دینی مدرسوں کے نام پر جہادیوں کی تربیت گاہوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ امریکہ اور عربوں نے ملکر علاقے میں اسلامی انقلاب کے اثرات کے خاتمے کے لئے مختلف فرقہ پرست گروہوں کو نوازنے کی بھی ابتدا کی۔اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان کی سرزمین پر فرقہ واریت کی کشمکش اور پراکسی جنگ کا آغاز ہوا ۔

اکتوبر 1985 کا مہینہ پاکستان کوعملی طور فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کا نقطہ آغاز تھا جس ماہ جھنگ میں سپاہ صحابہ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ بعد میں اسں تنظیم کے بطن سے پھوٹنے والے دیگر گروہوں (لشکر جھنگوی وغیرہ)نے مل کر پنجاب میں قتل و غارت کا جو سلسلہ شروع کیا اس نےپنجاب پر حاکم شریف خاندان کو ایک ایسے معاہدے پر مجبور کردیا جس کا بظاہر مقصد پنجاب کو اس فرقہ وارانہ دہشت گردی سے نجات دلانا تھا ۔لیکن باطن میں کچھ اور منصوبے اپنے اندر سموئے ہو ئے تھی ۔ اس معاہدے کے بعد نہ صرف وہاں کی سنّی فرقہ پرست تنظیمیں نواز شریف کی اتحادی بن گئیں بلکہ انہوں نے پنجاب سے کوچ کرکے اپنا مرکز بلوچستان میں منتقل کردیا ۔

ان فرقہ پرست گروہوں نے اپنی کاروائیوں کے لئے پہلے پہل آر سی ڈی شاہراہ پر واقع بلوچ علاقے مستونگ کا انتخاب کیا جو پاکستانی اور ایران کو ملانے والی معروف بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے ،یہاں اپنے پاؤں جمانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے انہی خاندانوں کا صفایا کرنا شروع کیا جو اپنا مسلک ترک کر کے شیعہ ہوچکے تھے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا جو ان کے خیال میں شیعہ مسلک اختیار کرکے علاقے میںشیعہ اثرو نفوذ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے تھے ۔اور دہشت گردوں کی نظر میں یہ سب کچھ (مسلک کی تبدیلی ) ہزارہ برادری کی وجہ سے ہو رہا تھا ۔ اور دہشت گردوں کو ایجنسیوں نے جو غلط رپورٹ دی اسی کے تناظر میں وہ اپنا کام کرنے لگے دوسرا اس ہزارہ ٹارگٹ کلنگ میں امریکہ ، اسرائیل ،عرب ، افغانستان اورہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں لوکل دہشت گردوں کے ذریعے بلوچستان میں فعال تھیں اور مقصد صرف اور صرف بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص تھا ۔ یہ بھی عالمی جنایتکار طاقتوں کا ایک فتنہ ہے جو خطے میں پھیلا رہیں۔
    
 تب سے لیکر اب تک ہزارہ قوم کی نشل کشی (ٹارگٹ کلنگ) کے زمرجتنے دہشت گرد حملے ہوئے اور جس طرح ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یاد رہے کہ خطے میںموجود دہشت گردوں کی تکفیری سوچ کےحامل دہشت گردوں کی مالی معاونت کا تسلسل، جنہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق آل سعود اور دیگر خلیجی ملکوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر ملتے رہے ہیں ۔ دوسری طرف الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسی بھی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق ہندوستان بھی پاکستان کے اندر بعض ایسے دہشت گرد گرہوں کی سرپرستی کر رہا ہے جوبڑی تعداد میں مخالفین کے قتل میں ملوث ہیں ۔ جہاں تک حکومتی اور ریاستی اداروں کا تعلق ہے تو انہوں نے جس طرح بے گناہ لوگوں کے قتل عام سے متعلق اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں کہ انہوں نے پنجاب کو بچانے اور بوقت ضرورت ان گروہوں سے ماوارائے قانون کام لینے کی خاطر ان کے سروں پر دست شفقت رکھ کران کا رخ بلوچستان بالخصوص ہزارہ قوم کی طرف موڑ دیا گیا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ اگست 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا اسے اتفاق ہر گز نہیں کہا جاسکتا ۔یاد رہے نواب بگٹی کے قتل کے بعد نہ صرف تیزی آئی بلکہ صوبے میں آباد سیٹلرز کے قتل میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ اسی دوران بلوچستان کے آئی جی پولیس کا وہ بیان شاید اکثر لوگوں کی نظروں سے گزرا ہوگا جس میں انہوں نے ٹارگٹ کلنک کا علاج ٹارگٹ کلنگ کو قرار دیا تھا ۔ جس کے بعد نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور ٹارکلنگ میں تیزی آئی بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ۔

 ہزارہ قوم کے بے رحمانہ قتل عام کا ایک مقصد بلوچوں کی تحریک آزادی سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے جس میں مقتدر قوتیں کافی حد تک کامیاب رہیں ۔اور اس کے پیچھے بھارت نواز بلوچوں کا ہاتھ رہا ہے ۔
 
 یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ دسمبر 2013 میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس کے مطابق حکومت نے ان "محب الوطن” اور "عوام دوست” گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا اعلان کیا تھا جنہیں انکے بقول اسلم رئیسانی کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا اور جو وسیع پیمانے پر صوبے میں دہشت گردی اور قتل و غارت میں ملوث تھے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ گروہ نہ صرف بلوچوں کے اغوا اور قتل عام میں ملوث تھے بلکہ ہزارہ قوم کے خلاف ہونے دہشت گردی کے واقعات میں بھی انہی گروہوں کا ہاتھ تھا ۔

کچھ لوگ اس دہشت گردی کے پیچھے ان بین الاقوامی قوتوں کا ہاتھ تلاش کرتے ہیں جن کی نظریں بلوچستان کے جغرافیائی محل وقوع اور یہاں کی معدنیات پر ٹکی ہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا معصوم ہزارہ بچّوں ، عورتوں ، بو ڑھوں اور جوانوں کا قتل عام صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان کے خزانوں کی کنجی حاصل کی جا سکیں ؟میری ناقص معلومات کے مطابق بلوچستان سے زیادہ معدنیات اور قدرتی وسائل تو مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیائی ممالک میں ہیں ۔ لہٰذا ان کا گھیراؤ کرنے کے بجائے ان پر براہ راست کمندیں کیوں نہیں ڈالی جاتیں ؟ یہ  بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اورکیا وجہ ہے کہ ان پر ڈورے ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔ بلکہ ان سے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں ؟

لہٰذا میری نظر میں خطے با لخصوص پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ علاقائی طاقتوں کی کشمکش بالخصوص عرب نوازتکفیری دہشت گردوںاور را کے علاقے میں موجود ایجنٹوں کو قرار دیا جاسکتا ہے جو اپنی تھیو کریٹک اقتدار کو سنبھالادینے اور اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے خطے کو فرقہ وارانہ جنگ میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی عوام کے مسائل سے چشم پوشی ، عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مجرمانہ غفلت ۔، ریاستی اداروں کی آپس کی لڑائی بلکہ خارجی طاقتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے ان کے ماورائے آئین اقدامات بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اس دہشت گردی کی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ اس دہشت گردی اور قتل و غارت میں کچھ مقامی گروہ اورلینڈ مافیا کے کچھ حلقے بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو بقول ہزارہ گی ” آؤ رہ غٹول دیدہ مائی خود خو بّر مونہ ” یعنی جو موقع محل دیکھ کے اپنا کام نکالتے ہیں ۔اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بیگانہ ہوکر اپنی حدود میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں ۔وہ اونچی دیواروں اور ناکوں کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔کاروبار ، تعلیم اور ملازمت کے دروازے ان پر مسدود ہو چکے ہیں اور وہ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنا گھر بار ترک کرنے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔اب رہا یہ سوال کہ دہشت گردی سے چھٹکارا کیسے پایا جا سکتا ہے ؟ تو میرے خیال میں یہ سوال جتنا سیدھا ہے اسکا جواب اتنا ہی ٹیڑھا ۔

اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فرقہ واریت کی آڑ میں ہم پر مسلط کی گئی اس دہشت گردی کے پیچھے کچھ بین الاقوامی یا طاقتور علاقائی قوتیں ملوث ہیں جنہیں کچھ داخلی قوتوں اور اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ تو ہمیں اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا پڑے گا کہ ہمارے اندر ان قوتوں سے لڑنے کی کتنی سکت ہے ؟کیا اگر ہم سارے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں (جو میری نظر میں ناممکن اور غیر فطری سوچ ہے) تو کیا ہم اس دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ؟کیا ہمآل سعود،افغانستان اورانڈیا سمیت تمام علاقائی یا بین الاقوامی کھلاڑیوں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ خدا کے لئے وہ ہماری جان بخش دیں ؟کیا ہم بلوچوں سے اس بات کا تقاضا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی جدو جہد ترک کرکے ، صبر شکر کرکے بیٹھ جائیں؟یا پھر کیا ہم اجتماعی مہاجرت کر سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو ہمیں ہر حال میں باعزت طریقے سے زندہ رہنے کا گُر اپنانا ہوگا ۔

ہمیں اپنی صفیں ٹھیک کرنی ہونگیں اور (تمام تر اختلافات کے باوجود جو ایک فطری عمل ہے )ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایک دوسرے کو حوصلہ دینا ہوگا ۔ہمیں دوسروں کے نظریات اور عقاید کا اتنا ہی احترام کرنا ہوگا جتنا ہم اپنے نظریات کا کرتے ہیں ۔معاشرے میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہوگا اور اس کی ابتدا اپنے آپ سے کرنی ہوگی ۔دہشت گردی اور قتل عام سے ڈر کر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس ظلم کے خلاف ہرفورم پرآواز بلند کرکے ہمیں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ۔باہمی اختلافات اور گروہی ،قبائلی اختلافات کا شکار ہیں ۔ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے ہو نگے اورایک دوسرے کے دکھ درد میں عملاَ شریک ہونا ہوگا ۔ہمیں ہر حال میں مذہبی شدت پسندی اور تکفیری مائنڈ سیٹ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور ایسے عناصر کا راستہ روکنا ہوگا جو معاشرے کو منافرت اور عدم برداشت کی طرف لے جا رہے ہیں ۔مجھے امیدہے کہ اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بے شک دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہ کر سکیں لیکن ایک ایسی سوچ کی بنیاد ضرور ڈال سکتے ہیں جو ہماری نئی نسل کو دہشت گردی سے پاک ماحول فراہم کرنے میں معاون ثابت ہواور یہ وہی سوچ ہےجس کی سفارش قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے فرمودات میں ملتی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے ہم ایک ہو جائیں اور قوم و ملت کی خاطر اپنا کرادار ادا کر سکیں ۔

اللہ تعالیٰ نےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک قومی پلیٹ فارم دیا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جیسے بہادر انسان کا ساتھ دیا ہے جس نے قوم میں مایوسی کے بت کو توڑا ہے ۔ہمیںمخلص ہوکر اس تنظیم کاساتھ دینا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ہاتھ مضبوط کرنے ہونگے ۔ جس نے ہمیں ہمت دی کہ آج بھی ہم میں وہ رمق موجود ہے ۔ جس سے ہم دہشت گردی جیسی ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں مگر آپ نے دیکھا کہ مسنگ پرسن کے معاملے پر خاموشی طاری تھی ۔ ہر ایک ایک دوسرے کی طرف دیکھتا اور سر جھکا لیتا ۔ اب جب مجلس وحدت مسلمین کے غیور دوستوں نے راجہ صاحب کی ہم آہنگی سے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ہے تو کئی برادران نے اپنے تیروں کا رخ مجلس کے راہنمائوں کی جانب پھیر دیا ۔ جبکہ دیکھا جائے تو وہ دس بیس سال اور بھی گزر جاتے اور مجلس یہ اقدام بھی نہ اٹھاتی تو ان برادران نے چپ کا روزہ تو رکھا ہی ہوا تھا ۔ بہرحالان کے اس اقدام سے نہ مجلس کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی علامہ راجہ ناصر عباس یا مجلس کے دوسرے راہنمائوں کو ۔تاریخ میں ایسے کئی کرداراپنی موجودگی کا اظہار اسی طرح کرتے آئے ہیں ۔

اگر ہم نے وحدت کو اپنا لیا اور ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو گئے تو یقین کرلیں وہ دن دور نہیں جب ہم ایک باوقار قوم کی طرح اس وطن میں جی سکیںگے اور اپنا رول ادا کر سکیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔ اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو آئے دن ہزارہ برادری کی طرح ہم بھی اس ٹارگٹ کلنگ کے لئے تیار رہیں ۔ویسے تو پاکستان پورا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر بلوچستان بالعموم اور ہزارہ بالخصوص اس دہشت گردی کا آئے روز شکار ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بحق چہاردہ معصومین ؑ ان تمام شہداء ملت کو جنہوں نےوطن عزیز اور ملت نجیب و شریف کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں ،انہیں اعلیٰ علیّن میں جگہ عطا فرمائے ۔

 آخر میں ہمارے لاکھوں کروڑوں سلام ہوں ان شہداء پر، جن کے خون سے یہ چمن لہلہا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں نے نذرانے دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن چاہے ان کے سروں سے فٹبال کھیلے، ان کے گلے کاٹے، انہیں ناپاک فوج کہے، ان کے خلاف کفر کے فتوے دے اور نئی دہلی سے لے کر تل ابیب تک پورا عالم کفر ایک ہو جائے، اس کے باوجود پاک فوج کے جوان کبھی بھی ارض وطن پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ان شاء اللہ ۔

نصرمن اللہ و فتح قریب

تحریر : ظہیر کربلائی

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ ایک طرف ملت جعفریہ کو دہشتگردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف محب وطن افراد کو بے بنیاد اور غیر آئینی و قانونی طور پر کئی سالوں سے لاپتہ کیا جا رہا ہے، ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، ہم مجاہد عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی کی جانب سے کراچی سے شروع کی جانے والی جیل بھرو تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں، خوش آئند بات یہ کہ اس جیل بھرو تحریک میں تمام جماعتیں متحد ہیں، علامہ حسن ظفر نقوی کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی گرفتاری دیں گے، ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام منعقدہ 41 ویں ''مہدویت اُمید بشریت '' کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سید ناصر عباس شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان سے محبت اور اس کے لئے قربانیاں دینے کی سزا دی جا رہی ہے، دشمن جان لیں کہ یہ قوم کراچی سے پاراچنار اور خیبر سے گلگت تک متحد ہے، اگر ہمارے لاپتہ جوانوں کو رہا نہ کیا گیا تو ملک گیر ''جیل بھرو'' تحریک شروع کریں گے جو حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دے گی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی وزیر دفاع و خارجہ کے ذریعے مستقبل میں پاکستان کو سخت پیغام پہچانے کے بارے میں میڈیا میں جو اطلاعات آ رہی ہیں ان پر کسی کو قطعی کوئی تشویش نہیں،امریکہ کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف ہرزہ سرائی اس کی بھارت نوازی اور چین وپاکستان دشمنی کی واضح دلیل ہے، پاکستانی ریاست کی جانب سے جہادی گروپوں کی حمایت کے الزامات کی قلعی افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے یہ کہہ کر کھول دی ہے کہ داعش کو امریکہ سپورٹ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قومی وقار کا تقاضہ ہے کہ امریکہ کے کسی بھی پیغام کا جواب اسی لب و لہجے میں دیا جائے، ارض پاک سپر پاور کے زعم میں مبتلا کسی ملک کی کالونی نہیں بلکہ ایک خودمختار ریاست ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا سب سے بڑا حمایتی ہمیشہ امریکہ رہا ہے۔ امریکہ کا ہدف دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ ان ممالک پر لشکر کشی کرنا ہے جہاں امریکہ مفادات کے مخالفین موجود ہیں۔

علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اسامہ کی تلاش اور کیمائی ہتھیاروں کے بہانے افغانستان اور عراق پر حملے کے پس پردہ امریکی عزائم اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ امریکہ عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ امت مسلمہ کا اتحاد امریکہ کی موت ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے استعماری و طاغوتی طاقتوں کے خلاف کھل کر میدان میں نکلنا ہو گا۔ انہوں نے کہا افغانستان پاکستان کا پڑوسی اور مسلم برادر ملک ہے۔ افغانستان کے ساتھ بااعتماد دوستانہ تعلقات باہمی مفادمیں ہیں، جو قوتوں ہمارے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتیں ہیں وہ خطے کے اجتماعی مفادات کی دشمن ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کا قاتل امریکہ دوستی کے لبادے میں چھپا ہوا امت مسلمہ کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھ اکہ امریکی بلاک سے کنارہ کشی مسلمانوں کی بقا کی شرط ہے۔ اگر امریکی اہداف کا بروقت ادارک نہ کیا گیا تو پھر تنزلی و بربادی کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree