وحدت نیوز (آرٹیکل) زندہ قومیں اپنے محسنوں کی یاد منایا کرتی ہیں اور اگر کوئی  محسن  ایسا ہو جس کا احسان صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر ہو تو ان کی یاد میں مجالس کا اہتمام اور انعقاد  عقلِ سلیم اور فطرت ِ انسانی  کا تقاضا ہے اور  اگر یہ مجالس ہمیں حسین (ع) کی اس آفاقی تحریک کے ساتھ منسلک اور متمسک رہنے کا ذریعہ بنیں تو انکی ارزش اور قیمت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ عزاداری کا مقصد صرف غم حسین (ع) میں  گریہ اور آنسو بہانا نہیں ہے   بلکہ جب ایک عزادار صفِ عزا میں شریک ہو جاتا ہے  تو وہ اپنے آپ کو اس مقصد سے ہماہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس مقصد کے لیے سید الشھداء(ع) نے اتنی عظیم قربانی دی ہے۔

شہید مطہری (رہ) فرماتے ہیں:  شہید کے لئے رونے کے معنی' اس کی شجاعت میں شرکت' اس کی روح سے ہم آہنگی اور اس کے جذبہ شہادت سے موافقت کے ہیں۔ (فلسفہ شہادت۔ ص ٥٤)

لہذا عزاداری اور  ان مجالس کے انعقاد کا مقصدصرف گریہ اور آہ  و زاری  نہیں ہے،  بلکہ عزاداری کا مقصد یہ ہے کہ ان مجالس کے ذریعہ مکتب ِ اہل بیت (ع)کو زندہ رکھا جائے۔

 روایت ہے کہ ایک دن امام صادق(ع) نے اپنے صحابی فضیل سے پوچھا: اے فضیل! کیا تم لوگ ہمارے جد بزرگوار حسین ابن علی(ع)کے لئے مجالس عزا کا انعقاد اور پھر ان مجالس میں ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو؟ فضیل نے کہا: جی ہاں مولا! ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں'ہم ایسی مجالس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ امام (ع) نے فرمایا: ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں۔  رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَنَا، اللہ تعالیٰ  اس شخص پر رحم کرےجو ہمارے امر (مکتب) کو زندہ کرے۔ (وسایل الشیعہ، حدیث نمبر ۱۵۵۳۲)

امام خمینی (رہ) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ سید الشھداء اباعبداللہ الحسین (ع) کے غم میں بہنے والے اشکوں کی ارزش اور قیمت کم نہیں ہے بلکہ یہ ظلم و بربریت کے خلاف ایک تحریک ہے "ہمارا (یوں) جمع ہونا اور گریہ کرنا ایک سطحی عمل نہیں ہے، بلکہ  ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں' ہم وہ قوم ہیں جو ان اشکوں سے سیلاب بنا کر اسلام کے خلاف کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کو پاش پاش کرتی ہے۔'' (صحیفہ نور۔ ج ٨۔ ص ٢٩)

کربلا کی یہ تحریک ایک عالمی اور آفاقی تحریک ہے، کیوں کہ امام حسین (ع) نے پوری انسانیت کو بیداری اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا تھا اور فرمایا تھا کہ "لعین نے مجھے شہادت اور بیعت میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب میں مخیر کر رکھا ہے، لیکن " هَيْهَاتَ مِنِّا الذِّلَّةُ " زلت ہم (اہل بیت (ع)) سے بہت دور ہے" (موسوعہ کلمات الامام الحسین، ص ۴۲۳) اور فرمایا:  " إِنِّيْ لا أَرَيَ الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَالحَياةَ مَعَ الظّالِمِينَ إِلّا بَرَما " میں راہ خدا میں شہادت کو اپنے لیے سعادت اور زندہ رہ کر ظالموں کے ساتھ جینے کو اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ (مناقب، ابن شهر آشوب،ج۴، ص۶۸)

اور جب لعین نے بیعت کا مطالبہ کیا تو امام (ع) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ میں تو حسین بن علی ہوں، میری رگوں میں تو علی(ع) کا خون دوڑ رہا ہے، میرا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یاد رکھ " مِثْلِی لَا یُبَایِعُ مِثْلَه "  مجھ جیسا بھی اس ( یزیدلعنہ)جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور واضح کیا کہ اے ظالم! تو  میری بیعت پر اصرار مت کر، کیونکہ  یہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔

سجدے میں سر جھکا ہوا، نیزے پہ سر بلند

اقرار بھی کمال ہے، انکار بھی کمال

امام حسین (ع) نے رہتی دنیا تک انسانوں کو حریت اور آزادی کا درس دیا  اور انہیں خبردار کرایا کہ اگر کہیں عزت و حمیت کا مسئلہ ہو، اگر کہیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی بات ہو تو ڈرو مت، اگے بڑھو، باطل کے مقابلے میں سیسہ پلائی فولاد کی مانند ڈٹ جاؤ اور  ظلم و ستم کی زنجیریں توڑ ڈالو چاہے اس راہ میں تمھیں اپنی جان، مال اور سب کچھ کیوں قربان نہ کرنا پڑے اور آج  دنیا بھر میں آزادی کی جو تحریکیں نمودار ہو رہی ہیں  انہوں نے یہ درس کربلا اور عاشورا سےلیا ہے۔

ظالم کے سامنے نہ جھکائے جو اپنا سر

سمجھو کہ اس کے ذہن کا مالک حسین (ع) ہے

یہی تو وجہ ہے کہ آج نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کا ہر آزاد فکر انسان حسین (ع) کا عاشق، گرویدہ اور مداح ہے۔

این حسین (ع) کیست کہ عالم ھمہ دیوانہ اوست

این چہ شمعی است کہ عالم ھمہ پروانہ اوست

وقت کے یزید (لعنہ) نے تو حسین (ع) والوں کی آواز دبانے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ خود تو صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود حسین (ع) کی یاد آج بھی زندہ ہے اور  قیامت تک زندہ  رہے گی۔

میری نظر میں کربلا والوں کی یاد کی بقاء کا راز یہ ہے کہ دربارِ شام میں علی(ع) کی بہادر اور شیردل بیٹی اور حسین (ع) کی تحریک کی محافظ و پاسبان بی بی زینب (س) نے شام میں یزید (لعنہ) کو چیلنج دی  تھی، جب اہل حرم کے سامنے  یزید (لعنہ) اقتدار کے نشے میں مست تخت پر بیٹھا تھا، تو سیدہ (س) نے اپنے تاریخی خطبہ دیا اور فرمانے لگی: كِدْ كَيْدَكَ وَ اجْهَدْ جُهْدَكَ فَوَ اللہ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا،اے لعین! تو جتنا مکر و فریب کر سکتے ہو کر لو، جتنی کوشش کر سکتے ہو کرلو، پس  اللہ  کی قسم!  تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکتا (لہوف، ص ۱۸۱ تا ۱۸۶، نفس المہموم، ص ۲۵۳ تا ۲۵۶، بحارالانوار جلد۴۵، ص ۱۳۳- ۱۳۵)

یہ زینب کبریٰ (س) کی دعاؤں کا اثر ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کربلا والوں کی یاد ابھی زندہ ہے اور انکی یہ تحریک بڑی تیزی سے پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے، یہ کوئی معجزہ سے کم نہیں کہ آج افریقا کے جنگلوں میں بھی حسین (ع) حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔


ذرا بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع)


تحریر۔۔۔۔ ساجد مطہری

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے عاشورا 1436ھجری کے موقع پر امت مسلمہ کے نام مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ عاشورا وہ عظیم واقعہ جس نے اسلام کو نئی زندگی دی،سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اپنے جد رسول خدا (ص)اور پدر امیر المومنین (ع) کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے خدا کا دین بچایا، اسلام رسول پاکؐ لائے تھے اور لوگوں تک پہنچایا جبکہ اسلام کو امام حسینؑ نے بچایا تھا۔ جب امام حسینؑ سے کہا گیا کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں تو آپؑ نے فرمایا اناللہ وانا الیہ راجعون۔ جب یزیدجیسے حکمران ہو جائیں تو اسلام کو الوداع کہنا چاہیے۔ یعنی اسلام ختم ہو جائے گا۔ عبادات، معاملات، اسلام کا نظام سیاست، اسلام کا نظام حقوق، نظام عدل، نظام معیشت، نظام اخلاق، اسلام کا نظام تعلیم وتربیت عرضیکہ اسلام کی ثقافت و تہذیب مر جائے گی،اس لئے ہم کہتے ہیں کی امام حسینؑ نے اسلام کو بچایا۔ اسلام کی تعلیمات کو بچایا، اصول دین بچائے فروع دین بچائے، اسلام کے اقدار کو بچایا ۔ لہذٰا واقعہ کربلا ہمیں اس بات کی طرف دعوت دیتا ھے کہ ہم اسلام کی حفاظت اور اسلام کو بچائیں اور اس راستے میں اگر جان بھی دینا پڑے تو جان دیں، یعنی تمام اسلام کو اور اسکی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ امام حسینؑ نے زمین کربلا پر تمام دینی تعلیمات کو نئی زندگی دی۔ امام حسینؑ نے نماز کو حیات بخشی ، وہ نماز کہ جو انسان کو خدا کے قریب کرتی ھے، بلندیو ں کی طرف لے جاتی ھے۔ اگرچہ یزیدی لشکر بھی نماز پرھتا تھا لیکن انکی نماز بے روح تھی مردہ تھی۔ اگر انکی نماز درست ہوتی تو وہ باطل کیساتھ نہ ہوتے بلکہ حق کیساتھ ہوتے ۔ امام حسینؑ نے ہمیں کربلا کے میدان میں سبق دیا کی انسانوں کی خاطر ، مظلوموں کی خاطر، دین کی خاطر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو نکل آؤ ، ہجرت کرنا پڑے تو ہجرت کرو، قربانی دینا پڑے تو قربانی دو۔ ایثار اور وفا کے اعلیٰ ترین نمونے ہمیں کربلا میں ملتے ہیں ۔ تما م انسانی ارزشیں، اخلاص، برادری اخوت اور ہمدردی کے بہترین نمونے بھی ہمیں کربلا سے ملتے ہیں۔ انسانوں کے حق حیات کی پاسداری ہمیں کربلا میں ملتی ہے۔ لہٰذا ہم نے کربلا سے سیکھنا ھے۔ وفا کو ، حیا کو ، پاکدامنی کو ، غیرت کو ، انسانی شرف و شرافت کو سیکھنا ھے۔ اللہ کی بندگی اور عبادت کے طریقوں کو سیکھنا ھے۔ کربلا مکتب اور عظیم درسگاہ ہے۔ کربلا عظیم مرکز و محورہے تمام آزادی پسندوں کا ۔ کربلا دعوت دیتی ہے کہ ہمیں حریت پسند رہنا ہے۔ آزادی کا پرچم اٹھائے رکھنا ھے۔ عدل و انصاف کا پرچم اٹھا ئے رکھنا ھے۔ انسانوں کے حقوق کی جنگ لرتے رہنا ہے۔ کربلا ہمیں حوصلہ دیتی ہے، ہمیں ہمت دیتی ہے۔ کربلا ہماری ہدایت و رہنمائی کرتی ہے۔

 

انہوں نے مذید کہا کہ  پاکستان اس وقت جن حالات کا شکار ہے، بد امنی ہے، دہشتگردی ہے، تفرقہ ہے، نفرتیں ہیں، ہمارے وطن کا استقلال ختم ہو چکا ہے۔ حکو مت کمزور ہے، استعماری طاقتیں پاکستان میں بے جا مداخلت کرتی ہیں۔ ہمارے وطن کو انھوں نے کھلونا بنایا ہوا ہے ۔ ہم کربلا سے عزم وحوصلہ لیتے ہوئے ، آزادی اور حریت کا درس لیتے ہوئے اپنے وطن کو ان سازشوں سے بچا سکتے ہیں۔ اپنے وطن کو محبتوں کی جنت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ نفرتوں کی جہنم سے نکال سکتے ہیں۔ ہم اپنے وطن میں بسنے والوں کو وحدت کی بہشت میں لا سکتے ہیں۔ اس ملک کو اسکا استقلال لو ٹا سکتے ہیں۔ کربلا میں سب کچھ ہے ہمارے لئے۔ اگر ہم کربلا سے سبق لیں گے تو اس ملک کو باوقار ملک بنا سکتے ہیں۔ اہل وطن عظیم قوم بن جائیں گے۔ کربلا وحدت کی لڑی میں پروتی ہے۔ کربلا آزادی کے متوالوں کا قبلہ ہے۔ کربلا عدل کی جدوجہد کرنے والوں کا مرکز ومحور ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان ایام میں اس عظیم درسگاہ سے سبق سیکھیں۔ خودسازی کریں، اپنے آپ کو سنواریں۔ اپنے عقائد کو کربلا سے لیں،اپنی سیرت و کردار کو کربلا کے آئینے میں تشکیل دیں۔ تا کہ ہم دنیا و آخرت کی سعادت کو پا سکیں اور ہم عزت سے جئیں اور عزت سے مریں۔ کربلا میں مولا حسینؑ نے بتلایا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ ظالموں کے آ گے جھکنا نہیں بلکہ خون کے آخری قطرے تک قیام کرنا ہے۔ کربلا حوصلوں کا رزق بانٹتی ہے۔ کربلا شجاعت کی خیرات دیتی ھے۔ اور ہم کربلا کے محتاج ہیں، ہمیں کربلا کی ضرورت ہے۔ کربلا کی جنگ جو ظلم کے خلاف تھی 61ہجری سے لیکر پوری زندگی کیلئے ہے اور پوری کائنات کی ہر زمین کربلا ہے۔ سارے زمانے کربلا کے محاصرے میں ہیں۔ کربلا سے کوئی آگے نہیں نکل سکتا۔ کربلا پیشوا ہے، کربلا امامت کرتی ہے۔ ہم نے مولا حسینؑ کی پیروی کرنی ہے اور دنیا وآ خرت کی سعادت کو پانا ہے۔ امید ہے کہ ہم کربلا سے سیکھیں گے اور پاکستان میں رہتے ہوئے دنیا کے تمام مظلوموں کیساتھ اظہار یکجہتی کریں گے اور انکی مدد کریں گے۔ پاکستان کی سرزمیں پر ظلم کے نظام کی بساط کو لپیٹ کر عدل کے پرچم کو بلند کرتے ہوئے عدل کو نا فذ کریں گے۔

Page 4 of 4

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree