راحیل شریف اور نئی دلدل میں پھنستا پاکستان

27 مارچ 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) جنرل (ر) راحیل شریف پاکستان کی تاریخ میں واحد جنرل گذرے ہیں جنہیں پاکستانی قوم نے خوب عزت دی یہاں تک کہ انکی ریٹارئرمنٹ کے معمالہ پر بھی قوم نے افسردگی کا اظہار کیا گیا ، جنرل (ر) راحیل شریف کی وجہ مقبولت انکا دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدام، فوجی عدالتوں کے ذریعہ دہشتگردوں کو سزائیں دلوانا اور قومی وقار کو بلند کرنا تھا، عوام ان سے بے حدمحبت کرتی اور انہیں قومی ہیرو تسلیم کرتی تھی حتیٰ کہ سول قیادت سے زیادہ فوجی قیادت پر عوام کا اعتماد تھا۔

لیکن جنرل (ر) صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں اس وقت کمی واقع ہوئی جب انہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے ایک متنازعہ فوجی اتحاد کی قیاد ت سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کی، اسکی وجہ خود سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے یہ نام نہاد اسلامی اتحاد تھا جسکے اہداف اور عزائم تک دنیا کے سامنے آشکار نہیں ، جبکہ اس اتحاد کی تاسیس ہی ایک ایسے ڈرامائی انداز میں ہوئی جس کی وجہ سے اس اتحاد پر کافی سوالات اُٹھےمثال کے طور پر ۱۵ دسمبر کو اس سعودی فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آیا، باقاعدہ سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمدبن سلمان نے اس فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا جس میں کہا گیا سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے اس فوجی اتحاد میں34اسلامی ممالک شامل ہیں ، ان 34ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا،اگلے دن ۱۶ دسمبر کے اخبارات اور نیوز ویب سائٹ سرچ کرکے دیکھے جاسکتے ہیں پاکستانی وزارت خارجہ نے صاف صاف اعلان کردیا تھا کہ پاکستان کو اس سعودی اتحاد کے قیام کا علم نہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرئٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ سعودی قیادت میں بنے والے فوجی اتحاد میں پاکستان کا نام سن کر حیرانی ہوئی ہے، انہوںنے کہاکہ ریاض میں موجود پاکستانی سفیر سے اس خبر کی وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ سعود ی عرب نے پاکستان کے ساتھ بادشاہ اور غلاموں والا سلوک رو رکھا تھا ،بادشاہ کے بیٹے نے پاکستان کو یہ بتانا بھی گوار ا نہیں کیا کہ وہ پاکستان کو فوجی اتحا د میں شامل کررہے ہیں۔

یقیناً پاکستان کی گستاخی بادشاہ سلامت کو ناگوار گذری ہوگی اور انہوںنے ہمارے بخشو حکمرانوں کی جب کلاس لی اور انہیں احسانات یاد دلائے ہونگے تو پھر کھسیانی بلی کی طرح اس اتحاد میں شامل ہونے کی خبر یں بھی سامنے آنے لگیں ،لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس اتحاد میں شامل ہونے کی واضح مخالفت کی تھی ،پارلیمنٹ سے منظوری نا ملنے کے بعد بادشاہ سلامت نے مذہبی کارڈ استعمال کیا او ر پھر ہم نے دیکھا یہ نائب ولی عہد سے لے کر امام کعبہ تک نے پاکستان کے دورہ جات کیئے اور اس اتحاد میں شامل ہونے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشیش کی، پاکستان کی شدت پسند نظریات کی حامل جماعتوں سے ان شخصیات کی مسلسل ملاقتوں اور سعودی عرب کے سرکاری دورہ جات کے بعد دفاع حرمین شرفین کانفرنسز، ریلیاں، جلسے جلوس اور فارم تشکیل پاتے بھی ہمیں دیکھائی دیئے ، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ، لیکن پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے فیصلہ کرنے والے ادارے پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتیںاور کئی صحافتی و سنجیدہ حلقے ناصرف جنرل راحیل شریف کے اس اتحاد کے سربراہ بننے بلکہ یمن جنگ میں براہ راست ملوث ہونے پر شدید مخالف ہیں۔

اس مسئلے کو جاننے کے لئے اس سعودی فوجی اتحاد کے بننے اور اسکی مخالفت کرنے کی وجہ کو باریکی سے سمھجنے کی ضرورت ہے۔

سعودی اتحاد کیوں بنا؟

 سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ سعودی عرب کی قیادت میں دہشتگرد ی کے خلاف جنگ کے لئے ایک نیا اسلامی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے یہ اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں کام کرے گا اور اس کا ہیڈ کوارٹرز ریاض میں قائم کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی اور زمین پر فساد برپا کرنے والے اداروں اور گروہوں کے خلاف جنگ کو مربوط بنانا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 34 مسلمان ملکوں کا یہ اتحاد مسلک اور عقیدہ کی تخصیص کے بغیر ہر اس گروہ کے خلاف کارروائی کرے گا جو دہشت گردی کے ذریعے معصوم افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے اس نئے عسکری اتحاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا اعلان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نےخود کیا کیونکہ عام طور سے شاہی قیادت اس طرح میڈیا کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی، شہزادے محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں کہا کہ عراق ، شام ، لیبیا ، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مربوط کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ یہ اتحاد اس وقت عمل میں آیاتھا جب یمن  میں سعودی عرب کو بری طرح شکست کا سامنا کرناپڑ ا، عرب ممالک پر مشتمل فوج یمن میں ان عزائم کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی جسکے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے یمن پر یہ جنگ مسلط کی گئی تھی، جبکہ اقوام متحد ہ کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کروانے کے بعد محمدبن سلمان نے اپنی شکست چھپانے کے لئے اس نئے اسلامی اتحاد کا ڈرامہ کیا یہی وجہ تھی کہ اس اتحاد میں شامل کیئے جانے والے بیشتر ممالک اس اتحاد کے حوالے سے لاعلم تھے، کیونکہ یہ اتحاد یمن میں جنگ بندی کے بعد فوراً ری ایکشن کےطور پر سامنے آیا تھا۔ لہذا اس اتحاد میں انہی ممالک کو سعودی عرب کی جانب سے شامل کیا گیا جنکےبارے میں انہیں یقین تھاکہ بغیر بتائے بھی یہ ممالک سعودی اتحاد میں شامل ہونے پر راضی ہوجائیں گے، جبکہ اسکے مقابل وہ ممالک جو سعودی سیاسی تسلط سے آزاد ہیں انہیں اس اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔دوسری جانب اس دوران شام و عراق میں بھی سعودی عزائم کافی حد تک خاک میں مل رہے تھے۔

ایک اور اہم نقطہ کہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ عراق ،شام ،مصر وغیرہ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جائے گی لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ متاثرہ ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں، جبکہ یمن کا نام محمد بن سلمان کی جانب سے براہ راست نہیں لیا گیا جس سے وہ برسرپیکار ہیں۔

لہذا خلاصہ سامنے آیا کہ اس اتحاد کے ظاہری مقاصد کے ساتھ ساتھ خفیہ مقاصد بھی ہیںجو وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہورہے ہیں، جسکی ایک مثال عرب میڈیا کی اس خبر کے بعد سامنے آئی کے پاکستانی فوج کو یمن بارڈر پر تعینات کردی گئی ہے، اسی طرح کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سعودی عرب اپنی بادشاہت کے تحفظ کے لئے ایک عسکری اتحاد تشکیل دے رہا ہے کیونکہ تیزی سے تبدیل ہوتے علاقائی حالات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آل سعود کی بادشاہت اب زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اتحاد عالم اسلام کے بنیادی ترین مسئلہ فلسطین پر خاموش ہے ، یہ خاموشی اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے اس اتحاد کی اصل کمان امریکا و اسرئیل کے ہاتھ میں ہے اور شام و عراق و یمن میں داعشی پروجیکٹ کی ناکام کے بعد اس اتحاد کے ذریعہ مکروہ عزائم حاصل کیے جائیں گے ۔

سعودی اتحاد اور پاکستان

اس سعودی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر پارلیمنٹ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ ہم کسی بھی بین الاقوامی مسئلہ میں خود کو شامل نہیں کرسکتے جبکہ ہم خود حالات جنگ میں ہیں، دوسری جانب سے یہ رائے بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے ناکہ کسی کا فریق بن جائے کیونکہ روز روش کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ سعودی فوجی اتحاد یمن کے خلاف تشکیل پارہا ہے جبکہ دوسر ی جانب اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس اتحاد کو سعودی عرب ایران کے مشرق وسطی اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے استعمال کرے گا یہاں سے یہ اتحاد فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلے گا۔لہذا پاکستان کی باوقار پارلیمنٹ میں اس جنگ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ہمارے بخشو حکمران بادشاہ سلامت کی نافرمانی کرنے سے خود کو نا روک سکے۔

جنرل راحیل شریف اور سعودی اتحاد
جنرل (ر) راحیل شریف کی شخصیت بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے داغ دار ہورہی ہے،جسکا براہ راست فائدہ لیگی حکمرانوں کو پہنچ رہا ہے ، سامنے جنرل صاحب کو رکھ کر یہ لیگی حکمرانوں عرب بادشاہوں سے اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنارہے ہیں، دوسری جانب جنرل صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صورت میں اس اتحاد کی کمان سنبھالیں گے، اب جبکہ وہ قیادت سنبھالنے جارہے ہیں تو کیا ہمیں یہ سمھجنا لینا چاہئے کہ سعودی عرب نے جنرل صاحب کوثالثی کا کردار ادا کرنے کی اجازت دیدی ہے ؟ کیا بادشاہ صفت افراد سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو اتنے اختیارات دیے دیں گے؟

سابق لیفٹنٹ جنرل عبدالقادر بلوچ جو کہ وفاقی وزیر بھی انہوںنے بھی ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جنرل (ر) راحیل شریف اگر اس فوجی اتحاد کی قیادت کو قبول کرتے ہیں وہ متنازعہ شخصیت بن جائیں گے اور جو بھی عزت انہوںنے کمائی ہیں وہ گنواں بیٹھیں گے۔

واضح رہے کہ ۲۵ مارچ کو ملک کے وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ حکومت نے سعودی درخواست پر جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کا این او سی جاری کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کو ایک با ر پھر پارلیمنٹ میں اُٹھانے کا اعلا ن کیا ہے۔

پاکستان کو اس اتحاد کا حصہ کیوں نہیں بنانا چاہئے!

کیونکہ
پاکستان افغانستان کے مسئلے میں شامل ہونے کا نتیجہ دیکھ چکاہے، جسکا خمیازہ ہم ۳۰ سال سےسہہ رہے اور ۶۰ ہزار پاکستانی افغان جنگ کے نتیجے میں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس اتحاد میں شامل ہونا پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کی نفی ہے ، کیونکہ ہمارا آئین ہمیں اسلامی ممالک سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے پر زور دیتا ہے،اس اتحاد میں شامل ہوکر اسلامی دنیا میں پھوٹ پڑنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہونے والے۔

اس اتحاد میں شامل ہونا سعودی جرائم میں پاکستان کو شامل کرنے کے معترادف ہوگا، کیونکہ کسی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سعودی عرب ہی دنیا بھر میں شدت پسند تنظیموں اور دہشتگردوں کو مالی و لوجسٹک تعاون فراہم کرتا رہا ہے۔

اس اتحاد کو عالمی سطح پر ایران مخالف اتحاد سمجھا جارہا ہے، جبکہ ایران پاکستان سے اپنے بارڈر بھی شیئر کرتا ہے لہذا پڑوسی سے تعلقا ت بگاڑ کر سمند پار بیٹھے بادشاہ کو خوش کرنا بے وقوفی تصور کی جائے گی۔

اس اتحاد کے ذریعہ پاکستانی فوج کے لئے عالم اسلام خصوصاً ان ممالک میں جہاں سعودی عزائم کی تکمیل کے لئے یہ اتحاد استعمال ہوگا وہاں کے مسلمانوں کے دلوں میں احساسات اور جذبات میں کمی واقع ہوگی۔

پاکستان کے اندار موجود ۵ کڑور سے زائد شیعہ مسلمانوں کے خدشات میں اضافہ ہوگا۔

کیونکہ اس لئے کہ پاکستان کا کسی بین الاقوامی الائنس میں شامل ہونے کا فیصلہ تنہا وفاقی حکومت نہیں کرسکتی ۔

لہذا پاکستان ملک کی مخلص قیادت ،پارلیمنٹ اور حکمرانوں سے بھی درخواست ہے خدارا ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کو کسی نئی دلدل میں داخل ہونے سے بچائیں،  ہم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کرنے کا ٹھیکا نہیں اُٹھا رکھا ، اگر سعودی عرب کی حکومت گرتی ہے تو گرنے دیں کیونکہ اپنی اس حالت کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اور رہی با ت حرمین شرفین کی تو اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے اُٹھائی ہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

تحریر۔۔۔۔سید احسن مہدی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree