تقیہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

21 جولائی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) تقیہ {وقایہ}سے ہے اور اس کا لغوی معنی کسی چیز کوخطرے سے بچاناہے جیساکہ تقوی بھی اسی مادہ سے ہے ۔تقوی سے مراد محرمات الہی سے نفس کو بچانا ہے لہذا تقیہ سے مراد اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنے مذہب  کے خلاف  کسی عقیدےاور عمل کا اظہار کرنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں تقیہ سے مراد انسان کا ممکنہ ضرر سے بچنے کی خاطر  حق کےخلاف کسی کے قول یا فعل کی موافقت کرناہے۔دوسری عبارت میں تقیہ سےمراد اپنے قول و فعل سے ایسی چیزوں کا اظہار کرنا جو احکام دینی کے خلاف ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنی یا کسی دوسرے شخص کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر سکے ۔

تقیہ حقیقت میں ایک اصل عقلی ہےجو قاعدہ اہم و مہم پر استوار ہے ۔عقلاءکی سیرت بھی یہی ہے کہ جب ان  کے جان ،  مال اور عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی تو وہ  ان کی حفاظت کی خاطر اپنے عقائد کے خلاف  اظہار کر کے اس خطرے کو برطرف کرتےتھے۔آج بھی انسانی معاشرےمیں یہ سیرت جاری ہے جیساکہ بعض موارد میں جان ،مال اور عزت و آبرو سے اہم کوئی فریضہ خطرے میں پڑ جائے تو  اس چیز کو مقدم قرار  دیتے ہوئے جان ، مال اور عزت و آبرو سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔اگرچہ مختلف  مذاہب  کے پیروکاروں  کے درمیان اہم و مہم کے مصادیق میں اختلاف نظر ممکن ہے لیکن یہ اختلافات  عقلاء کا  اصل تقیہ پر متفق ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا جیساکہ بعض مواردکے اہم ہونےمیں تمام عقلاء متفق ہیں مثلا معاشرے میں امن و امان قائم کرنا۔عقلاء معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے  جان ومال تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتےہیں۔

قرآن کریم کی بعض آیتیں واضح طورپر تقیہ کو ایک شرعی اصل  کے طور پر بیان کرتیں ہیں قرآن کریم  میں ارشاد رب العزت ہے:{ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ  وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِکَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّہِ فیِ شئٍَ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَئۃ}مومنین کو چاہیےکہ وہ اہل ایمان کوچھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے ، اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگرتم ان {کے ظلم}سےبچنےکے لئے کوئی طرز عمل اختیار کرو{تو اس میں مضائقہ نہیں}۔اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنا ئیں اور اگر کوئی ایسا کرے توخدا کی بارگاہ میں اس کے لئےکوئی مقام نہیں ہے یعنی یہ کام خدا کی رضا اور خوشنودی کے خلاف ہے مگر یہ کہ کافروں سے خوف محسوس کرے اور تقیہ کے شرائط فراہم ہو ں تو اس وقت کفار سے دوستی اوران کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دوسرے مقام پر فرماتا ہے:{ مَن کَفَرَ بِاللَّہِ مِن بَعْدِ إِيمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَ قَلْبُہُ مُطْمَئنِ بِالْايمَانِ وَ لَکِن مَّن شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِيم}جو شخص اپنے ایمان کےبعد اللہ کا انکار کرے{اس کےلئے سخت عذاب ہے}بجز اس شخص کے جسےمجبورکیا گیا ہواور اس کا دل ایمان سےمطمئن ہو {توکوئی حرج نہیں }لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پراللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑاعذاب ہے ۔اس آیت کی روشنی میں جو شخص ایمان لانے  کےبعد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے تووہ عذاب الہی کا مستحق ہے مگر وہ افراد جو کفر اختیار کرنےپرمجبور ہو اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر کفر اختیارکرے حالانکہ ان کے دل ایمان سےسرشار ہو تو ایسے افراد عذاب الہی کا مستحق نہیں ہیں اور یہ قانون تقیہ ہے ۔ مذکورہ آیت  جناب عمار یاسر کے بارےمیں نازل ہونے پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے ۔جناب عمار، ان  کے والدین {یاسر اورسمیہ}اور بعض اصحاب کفار کے ہاتھوں سخت اذیت و آزار سے دوچار ہوئے جنہیں ان لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برائت کرنے کا حکم دیا تھا ۔جناب عمار کے والدین نے ایسا  کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں انہیں شہید کر دیا گیا مگر جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے کفر کا  اقرار کیا جس کی وجہ سےوہ بچ  گئے لیکن اپنے  اس عمل پر پشیمان ہو کر روتے ہوئےپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپؐ کو اس واقعہ سے آگا ہ کیا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:پھرکبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جوبھی تم سے کہلائیں کہہ دینا اسی وقت آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَکْتُمُ إِيمَانَہُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبی الله ۔۔۔} اور آل فرعون میں سے ایک مومن جواپنا ایمان چھپا ئے ہوئے تھا کہنےلگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہوجو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔آل فرعون کےمرد مومن نے حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا اور اس نے آپؑ سے خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا ۔علاوہ ازیں اس نے آپ ؑکو فرعون کےپیروکاروں کے منصوبےسےآگاہ کیا جو آپ ؑکو قتل کرنا چاہتے تھے ۔{ قَالَ يَامُوسیَ إِنَّ الْمَلاء یاْتَمِرُونَ بِکَ لِيَقْتُلُوکَ فَاخْرُجْ إِنی ّ لَکَ مِنَ النَّاصِحِين}اس نےکہا اے موسی!دربار والے تیرےقتل کے مشورے کر رہےہیں،پس {یہاں سے}نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سےہوں۔ یہ شخص اپنےعقائد کوفرعونیوں سےچھپاتا تھا اور خود فرعونیوں  کے عقائد کے مطابق عمل کرتا تھا اگرچہ یہ حق کے خلاف تھا لیکن اپنی اور حضرت موسی علیہ السلام کی جان بچانے کے لئے وہ تقیہ کرتا تھا۔قرآن کریم اس کےاس عمل کو بڑے احترام سے یاد کیاہے ۔

فخر الدین رازی اس آیت {لَّايَتَّخِذِالْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَمِن دُونِ الْمُؤْمِنِين۔۔} کی تفسیرمیں لکھتےہیں: آیت کا  ظہورصرف کفار سے تقیہ کرنے پر دلالت کرتاہے لیکن امام شافعی  کا نظریہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے حالات رونما ہو جائیں جیسے مسلمان اور کفار کےدرمیان ہوا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی جان کی حفاظت کےلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔امام شافعی کی نظر میں جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرنا مسلما ًجائز ہے جبکہ مال  کے نقصان کی صورت میں بھی تقیہ کے جائز ہونے کو ترجیح دی گئی ہےکیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :{حرمۃ مال المسلم کحرمۃدمہ}مسلمانوں کا مال ان کے خون کے مانند محترم ہے۔نیز آپؐ نےفرمایا:{من قتل دون مالہ فہوشہید}اگرکوئی شخص اپنے مال کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ شہید ہوگا۔یعقوبی اور دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ جب بسربن ابی ارطاۃ نے مدینہ پر حملہ کیا اور جابربن عبد اللہ کو  اپنےپاس بلا یا تو جابر نے ام سلمہ سےکہا :اس شخص کی بیعت کرنا ضلالت ہے لیکن اگر بیعت نہ کروں تو یہ مجھےقتل کر دےگا ۔ام سلمہ نے کہا :اس کی بیعت کرو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کر  کے اپنی قوم کے مخصوص مراسم میں شرکت کرتے تھےاور ان کی طرح مخصوص لباس پہنتے تھے ۔طبری اپنی  کتاب تاریخ میں مامون عباسی کی حکومت کےزمانے میں پیش آنے والے واقعات مخصوصاً قرآن  کےمخلوق اور حادث ہونے کے بارےمیں لکھتے ہیں:بہت سارے قضات اور محدثین نے مامون کے خوف سے بچنے کے لئے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا لیکن جب بعض  لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا اور ان کے اس عمل کی مذمت کی تو انہوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار یاسر کی مثال پیش کی ۔یہ واقعہ اس بات پر واضح طورپردلالت کرتا ہے کہ تقیہ ایک عمومی قاعدہ ہے جو صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔جب بھی تقیہ کے شرائط فراہم ہوں تو انسان اس پر عمل کر سکتا ہے خواہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہو یا کفار کے مقابلے میں ۔

آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس عقلی و شرعی قاعدے کےبارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:{لاایمان لمن لاتقیۃلہ}جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں  ہے{ولا دین لمن لا تقیۃ لہ}جوتقیہ نہیں کرتااس کا کوئی دین نہیں ہے{التقیۃ من دینی ودین آبائی}تقیہ میرےاور میرے آباءواجداد کے دین میں شامل ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے ۔ تقیہ کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سےمعلوم ہوتاہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام دوقسم کے تقیہ پر عمل کرتے تھے اوراپنے پیروکاروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرماتے تھے۔1۔تقیہ خوفی 2۔تقیہ مدارائی تقیہ خوفی کےبارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔تقیہ خوفی کبھی انسان کی اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر ،کبھی دوسرے مومنین کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر اور کبھی دین ومذہب کی حفاظت کی خاطر کیاجاتا ہے ۔ تقیہ مدارائی بھی تقیہ کی ایک قسم ہے اور یہ اس مقام پر ہےجہاں انسان کی جان ،مال اور عزت و آبرو کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس روش پر عمل کرنے سے انسان بہتر طریقے سے دینی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے اورمسلمانوں کے درمیان اخوت کی فضا قائم کرسکتا ہے۔ جن احادیث میں تقیہ کوسپر اور ڈھال قرار دیا ہے جیسا کہ  امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: التقیۃ ترس المؤمن و التقیۃ حرز المؤمن}تقیہ مومن کے لئےڈھال ہے اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے ۔اس سے مراد تقیہ خوفی ہے اور جن احادیث میں آداب معاشرت اور اچھے اعمال کےبارے میں کہا گیا ہے وہ اکثرتقیہ مدارائی ہیں  ۔یعنی ان احادیث کا مقصد مخالفین کو مذہب شیعہ کی طرف جذب کرنا ہے اگرچہ اس کے ذریعے شیعوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔

جناب ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:جن کاموں کی وجہ سے ہماری سرزنش ہوتی ہو ان سے پرہیز کرو کیونکہ ناصالح فرزند کے کاموں کی وجہ سے اس کےباپ کی بھی سرزنش ہوتی ہے  ۔جن افرادکے بارے میں تمہاراخیال ہو کہ  وہ تم میں سے ہیں ان کے لئے باعث زینت بنو نہ باعث شرمساری وذلت۔ان کے{اہل سنت} نماز جماعت میں شریک ہو جاوٴ،ان کے بیماروں کی عیادت کرو،ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ہر نیک عمل کو ان سے پہلے انجام دو۔اس کے بعد آپ ؑنے فرمایا:{والله ماعبدالله بشئی احب الیہ من الخباء}خدا کی قسم خداوند متعال کی خباء سےزیادہ محبوب کسی چیز کےذریعےعبادت نہیں ہوئی ہے۔ہشام نے {خباء} کےبارےمیں سوال کیا تو  آپؑ نے فرمایا:{التقیۃ}ائمہ اہل بیت علیہم السلا م کی متعدد احادیث میں آیت کریمہ{اورنیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے، آپ{بدی کو} بہترین  نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عدوات تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔اور یہ {خصلت}صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو برے نصیب والے ہیں }سے مرادتقیہ لیا ہے ۔واضح رہے کہ اس تقیہ سے مراد تقیہ مدارائی ہے۔اس بات پر واضح دلیل اس آیت سے پہلی والی آیت ہے جو توحید اور خدا پرستی کی طرف دعوت دیتی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلی اللہ وَ عَمِلَ صَلِحًا وَ قَالَ إِنَّنی مِنَ الْمُسْلِمِين}ا
اور اس شخص کی بات سےزیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایااور نیک عمل کیا اورکہا:میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔


حوالہ جات:
1.    سید محسن امین ،نقض الو شیعۃ،ص181۔
2.    آل عمران،28۔
3.    نحل،106۔
4.    مجمع البیان،ج3،ص388۔تفسیر الکشاف،ج2،ص430۔تفسیر ابن کثیر،ج4،ص228۔
5.    غافر،28۔
6.    قصص،20۔
7.    آل عمران،28۔
8.    مفاتیح الغیب ،ج6،ص13۔تفسیررازی ،ج8،ص13۔
9.    تاریخ یعقوبی،ج2،ص100۔
10.    تاریخ طبری،ج10،ص292۔
11.    وسائل الشیعۃ،ج6،
12.    وسائل الشیعۃ،ج11،حدیث،6۔
13.    وسائل الشیعۃ،باب26،حدیث،2۔
14.    فصلت،34،35۔
15.    فصلت،33۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree