مقتدیٰ صدر کا سعودی عرب کا دورہ اور اس کے اثرات

02 اگست 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) عراق میں صدر پارٹی کے رہنما سید مقتدی صدر نے پچھلے اتوار (30 جولائی) کو اپنے سعودی عرب کے دورے میں سعودی امیر اورنئے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں طرفین نے دونوں ملکوں کے درمیان موجود مسائل پر بات چیت کی ۔ اخباری ذرائع کے مطابق مقتدی صدر کا یہ دورہ سعودی عرب کی طرف سے رسمی دعوت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملکوں عراق-سعودی عرب کے تعلقات تعاون اور اعتماد کی فضا پر قائم نہیں تھے۔ 2003 سے اب تک عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے۔ عراق میں  نظام کی تبدیلی پر سعودی عرب کچھ خوش نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہےکہ سابق صدر صدام کے دور  میں بھی سعودی عرب اور عراق کے تعلقات کچھ اچھے نہیں رہےتھے۔

سعودی عرب کی عراق کے حوالے سے پالیسی پچھلے آٹھ سالوں میں (نوری مالکی کے دوسرے عہد حکومت اور حیدر عبادی کے دور میں) حیرت اور کشمکش پر مبنی رہی ہے۔ اور اب وہ چاہتا ہے عراق کے سیاسی میدان میں اس کا اہم کردار ہو۔ لیکن اب تک سعودی عرب نے عراق میں جتنی مداخلت کی ہے وہ  "منفی پہلو" سے ہی کی ہے جن کا مقصد علاقے میں عراقی حکومت کے مفادات کو نقصان پہنچانا تھا۔

اسی حوالے سے سابق وزیر اعظم نوری مالکی نے اپنے مختلف بیانات میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب نے دہشت گردوں اور عراقی اپوزیشن لیڈرز کو بہت زیادہ سپورٹ کیا ہے۔ اسی طرح عراق میں خودکش حملوں اوربم دھماکوں میں سعودی عرب کا ہاتھ رہا ہے۔

دوسری طرف نئے عراقی وزیر اعظم حیدر عبادی، جنہوں نے نور مالکی کے بعد 2014 میں اس عہدے کا حلف لیا تھا، نے ہمیشہ عراق سعودی عرب تعلقات کو بہتر بنانےاور اس میں موجود  سرد مہری کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں ، 25 سال کے بعد بغداد میں اپنی سفارت کھولی، اور ثامر سبہان کو نیا سفیر مقرر کیا۔ اس کے  دو مہینے بعد سعودی عرب نے صوبہ کردستان کے دار الحکومت اربیل میں قونصل خانہ بھی کھول لیا تھا۔

لیکن نئے سعودی سفیر کے بغداد پہنچتے  ہی عراق میں احتجاجات نے شدت پکڑ لی تھی۔ ان احتجاجات میں صدر پارٹی (مقتدی صدر)کے لوگ پیش پیش تھے۔ اسی طرح اربیل میں قونصل خانہ کھولنے کے بعد کردستان کی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے تھے۔

حیدر عبادی کی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجات میں سعودی سفیر سہبان کا کردار اہم تھا۔ اسی طرح حشد شعبی کے خلاف سعودی سفیر کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا اورعراق کے سعودی عرب سے  سیاسی تعلقات بہت بگڑ گئے تھے۔عراقی عوام نے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ عرصے بعد عراقی حکومت نے سعودی عرب سے اپنا  سفیر تبدیل کرنے اور سہبان کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اسی دوران اربیل میں موجود سعودی قونصل خانے نے کردستان اور مرکزی حکومت کے تعلقات بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی حوالے سے عراق میں قطر کے سفیر "زاید سعید راشد کمیت الخیارین" نےڈیلی صباح کے ساتھ  اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا  کہ سعودی بادشاہ کے مشیر "عبد اللہ بن عبد العزیز بن محمد ربیعہ" نے کرد علاقے کا دورہ کیا تھا اور کردستان صوبے کے صدر مسعود بارزانی سے ملاقات کی تھی اور اربیل کے لیے بہت زیادہ مالی امداد کا بھی اعلان کیا تھا۔ اور پھر ربیعہ نے بارزانی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے تعلقات مقتدی صدر سے بہتر کریں تاکہ  اس طرح عراقی شیعوں میں پھوٹ ڈالا جا سکے۔

اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ ثامر سہبان، سابق عراقی سفیر، جو اس وقت سعودی وزارت خارجہ میں خلیجی ممالک کے امور کے وزیر ہیں، اس وفد میں پیش پیش تھا جس نے صدری تحریک کے رہنما  سید مقتدی صدر کا جدہ ائیرپورٹ پر پرتپاک استقبال کیا تھا۔

اس بات سے قطع نظر کہ مقتدی صدر کے  اس دورے کا مقصد کیا ہے، سعودی عرب کا عراق سے جارحانہ رویہ، عراق کے اندرونی معاملات میں سعودیہ کی منفی مداخلت اور دوسری طرف مقتدی صدرکا آل سعود خصوصا نئے ولی عہد پر حد سے زیادہ اعتماد عراق کے اندر نئی سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوں گے۔ اسی طرح سےان تمام چیزوں کا تعلق صدری تحریک  اور اس کے صدر مقتدی کے سیاسی مستقبل سے بھی ہے۔

دوسری طرف عبد المہدی نے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا ہے کہ مقتدی کا سعودی عرب کا دورہ اگر کچھ حد تک دو طرفہ مسائل کے حل میں مددگار ہو، اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نئی فضا قائم کرے، اسی طرح خلیجی ممالک کے قطر کے ساتھ بحران کے حل، یمن جنگ کی روک تھام، بحرین کے بحران کا خاتمہ، ایران سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے مقتدی صدر اپنا کردار ادا کریں تو یہ دورہ مناسب وقت پر مفید  دورہ ہوگا۔

ترجمہ۔۔ عباس حسینی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree