وحدت نیوز(آرٹیکل) انحرافات آتے رہتے ہیں، یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں، عوام منحرف ہوجائیں تو خواص ان کی اصلاح کرتے ہیں، عوام کے منحرف ہونے سے نظریات اپنی جگہ مستحکم رہتے ہیں، لیکن اگر خواص منحرف اور آلودہ ہو جائیں تو وہ نظریات کو بھی اپنی جگہ سے ہلانے اور بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے پاکستان کی تاریخ موجود ہے، نظریاتی طور پر یہ ملک اس لئے بنایا گیا تھا کہ سارے مسلمان اس میں ملکر رہیں گے لیکن کچھ خواص نے اپنے سے بلند منصب پر بیٹھے ہوئے خواص کی اطاعت کرنے کے لئے اس ملک میں دیگر مکاتب کی تکفیر شروع کردی جس سے بڑے پیمانے پر بگاڑ پیدا ہوا اور عوامی سطح پر خون خرابہ ہوا۔
معاشرے میں ظاہری طور پر حکمرانوں اور سرکاری شخصیات کو سب سے بلند مقام حاصل ہوتا ہے، جب معاشرے میں کسی بلند منصب پر بیٹھے ہوئے افراد کثیف، آلودہ اور غلیظ ہو جاتے ہیں تو ان سے ٹپکنے والی غلاظت ، نشیب اور اطراف کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ اس لئے خواص کا نحراف ، عوام کے انحراف کی نسبت بدترین اور زیادہ نقصان دہ ہے۔
پاکستان میں نظریہ پاکستان کے ساتھ جتنا بھی ظلم ہوا، اور پاکستانیوں کو جس قدر بھی خاک و خون میں غلطاں کیا گیا اس کی ایک اہم وجہ پاکستان کے سیاسی و سرکاری خواص کا خود نظریہ پاکستان سے منحرف ہوجانا ہے۔
جب معاشرے کی بڑی سطح کے خواص امریکہ کے مفادات کے لئے پاکستان کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئےتو اس کے اثرات نیچے عوام تک دیکھنے کو ملے اور بعض دینی و مذہبی درسگاہیں اور سکول وکالج بھی اس در آمد شدہ نام نہاد جہاد اور شدت پسندی کی لپیٹ میں آئے۔
جس طرح ایک انسان میں حواس خمسہ ہوتے ہیں اور اُس کی متفاوت حِسیں ہوتی ہیں، اگر انسان کے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیں تو اس کے لئے یہ خوبصورت اور دلکش زندگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔بالکل اسی طرح ایک معاشرے کی بھی مختلف حِسیں ہوتی ہیں،جیسے فنون لطیفہ، شعرو شاعری، مصوّری، موسیقی ۔۔۔ ان حِسوں میں سے ایک حِس ہے برائی کے خلاف ردِّ عمل دکھانا۔
جب کسی معاشرے کے خواص کثیف اور آلود ہوجاتے ہیں تو وہ معاشرہ مریض ہو جاتا ہے اور اس وقت اُسے برائی کے خلاف بے حسی کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ جب برائی کے خلاف ردّعمل ختم ہوجاتا ہے تو لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ معاشرے کے سب سے بلند منصب پر کیسا شخص بیٹھا ہوا ہے!؟
لوگ فقط کھاتے پیتے ہیں، افزائش نسل کرتے ہیں اور مرجاتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کی گردن میں کس کی غلامی کی زنجیر پڑی ہوئی ہے، ان کی محنت کا ثمر کون کھا رہا ہے، وہ کس کی دست بوسی کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ تصاویر بنوا کر فخر محسوس کر رہے ہیں، ان کی آئندہ نسلیں کس کی غلامی میں جئیں گی اور ان کے ملک کا مستقبل کیا ہوگا!؟
جب معاشرہ برائی کے مقابلے میں بے حس ہوجاتا ہے، سچ اور جھوٹ کے معرکے میں غیرجانبدار ہوجاتا ہے، اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرتا ، کھرے اور کھوٹے میں فرق نہیں کرتا تو پھر وہ آٹے کی ایک بوری اور چند ڈالروں کے گرد گھومنے لگتا ہے، پیٹ بھرنے کے لئے بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے، مسلمان مسلمان کی تکفیر کرتا ہے اور اسلامی ریاست میں پر امن غیر مسلموں کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں۔
یہ معاشرتی انحطاط، اخلاقی زوال، باہمی نفرتیں اور انسانوں کے درمیان فاصلے در اصل معاشرے کے سب سے بلند منصب پر غیر صالح اور مفسد لوگوں کے بیٹھنے کی وجہ سے ہیں۔
ہر دفعہ الیکشن آتا ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ لوگوں کو برائیوں کے خلاف بیدار کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے،اس موقع پر عوام میں برائیوں کے خلاف ردّعمل کی حس کو بیدار کیا جانا چاہیے، لوگوں کو یہ راستہ نہ دکھایاجائے کہ دو بروں میں سے کم برے کا انتخاب کریں بلکہ لوگوں کے سامنے اچھے ، متقی اور صالح افراد کو انتخاب کے لئے پیش کیاجانا چاہیے۔
یہ ہمارے دانشمندوں خصوصاً، وکلا، اساتذہ اور میڈیا پرسنز کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ درپیش سیاسی انتخابات میں عوام کی درست رہنمائی کریں اور اہلیانِ پاکستان کو نظریہ پاکستان کے مطابق امیدواروں کے انتخاب کا شعور دیں۔
جب ہم عوام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایک خاتون کسی بھی طور پر معاشرتی امور سے غافل یا لا تعلق نہیں رہ سکتی۔خواتین کے لئے دینِ اسلام میں حضرت فاطمہ الزہراؑ اور حضرت زینبؑ بنت علیؑ نمونہ عمل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے میں فتنہ و فساد عروج پر ہو اور مسلمان خواتین اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کریں اور معاشرے کے اعلی ترین منصب پر بے اصول اور بے دین لوگ براجمان ہوں اور مسلمان خواتین اُن کے خلاف جدوجہد نہ کریں۔
لہذا پاکستان میں انتخابات کے موقع پر برائیوں کے خلاف ردّ عمل دکھانے میں اور کرپٹ خواص کو دیوار کے ساتھ لگانے میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
معاشرہ اس وقت برائیوں کے خلاف بے حس ہوجاتا ہے جب کرپٹ خواص مختلف بہانوں سےلوگوں کو بے وقوف بنا لیتے ہیں، اور اپنے کالے کرتوتوں پر لوگوں کو خاموش اور بے حِس رہنے پر قانع کر لیتے ہیں۔
ہم کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے!اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیاہم اپنی آئندہ نسلوں کو انہی کرپٹ خواص کی غلامی میں دیں گے یا پھر ان کے خلاف جدجہد میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.