وحدت نیوز(آرٹیکل) انڈہ مزے دار تھا، اگرچہ چوری کا تھا لیکن ماں نے خوب مرچ مصالحے ڈال کر بنایا تھا، اگلے دن گھر میں مرغی پکی وہ بھی بہت مزے دار تھی، اگرچہ وہ بھی چوری کی تھی، اگلے دن بکری کا گوشت پکا ، وہ بھی بہت ہی مزے دار تھا اگرچہ وہ بھی چوری۔۔۔ پھر ایک دن گھر میں ہر چیز خوبصورت اور بڑھیا تھی اگر چہ ہر چیز چوری کی تھی، بالاخر چور پکڑا گیا، قانونی کارروائی ہوئی، عدالت نے موت کی سزا سنائی ، چور نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا کہ اسے اس کی ماں کے ساتھ ملوایا جائے، ماں آئی تو اس نے کہا کہ وہ اپنی ماں کے کان میں کوئی خصوصی بات کرنا چاہتا ہے،جس کے بعد ماں کے کان کو دانتوں سے پکڑ کر اس نے چبا ڈالا۔
اس نے وجہ یہ بتائی کہ مجھے ڈاکو بنانے کا اصلی سہرا میری ماں کے سر جاتا ہے۔ جس دن میں انڈہ چوری کر کے لایا تھا اگر اسی روز میری ماں مجھے ڈانٹ دیتی تو میں مرغی اور بکری چوری نہ کرتا اور آخرکار اتنا بڑا چور بن کر پھانسی کے پھندے پر نہ جھولتا۔
سلطانہ ڈاکو کی یہ کہانی تقریبا ہم سب نے سُن رکھی ہے۔
ضیاالحق نے پاکستان میں جس شدت پسندی کے بیج بوئے تھے، میاں نواز شریف نے اسی فصل کو سینچا تھا، زرداری صاحب نے اسے اپنے انداز میں پروان چڑھایا تھا اور عمران خان صاحب انہی شدت پسندوں کے مدرسے کو بھاری گرانٹ عطا کر کے انہیں اپنی سرپرستی کا عندیہ دے چکے ہیں۔
چند سالوں سے قدیمی طالبان کا ٹرینڈ، زرا بدنام ہوگیاہے ، سیاسی لیڈروں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ ان کے جلسوں میں سپاہِ صحابہ، لشکر جھنگوی، داعش اور القاعدہ کے کلاشنکوف بردار نظر آئیں لہذا شدت پسندی کو ایک جدید انداز میں سیاسی طور پر استعمال میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس جدید طرز کو پھیلانے کے لئے بھی ہمارے سیاستدانوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے، اس کا آغاز سیاست میں گالیوں سے کیا گیا، اگر شیخ رشید صاحب نے بلاول کو ایک فنکارہ کے نام سے یاد کیا تو عمران خان نے آزاد کشمیر کے صدر کو گھٹیا اور زلیل آدمی کہا صرف یہی نہیں بلکہ کسی کے بارے میں کہا کہ مونچھوں سے پکڑ کر گھسیٹوں گا اور کسی کے بارے میں کہا کہ گریبان سے پکڑوں گا، باقی رہی سہی کسر امیر طریقت مولانا خادم رضوی کی گالیوں نے پوری کر دی۔
اب کسی پر سیاہی پھینکی جاتی ہے اور کسی پر جوتا اور کسی کو تھپڑ مارے جاتے ہیں، یہ ہے وہ سیاسی کلچر جو ہمارے سیاسی اشرافیہ نے ہماری نئی نسلوں کو دیا ہے۔
مذہبی طالبانوں کے ساتھ ساتھ اب سیاسی طالبان تیار کئے گئے ہیں تاکہ کوئی سمجھدار اور شریف آدمی پاکستان کی سیاست میں آنے کی سوچے بھی نہیں، جس طرح پہلے ہر طرف کلاشنکوف بردار دندناتے پھرتے تھے اب ہر طرف بدتمیز ، بداخلاق اور جوتا بردار لشکر مٹر گشت کریں گے جس کے بعد ایک دوسر ے کے صوبے میں جانا تو دور کی بات ایک دوسرے کے محلے میں جانا بھی خطرناک ثابت ہوگا۔
یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا کہ کچھ جذباتی لوگ ایسا کر رہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل سوچ کارفرما ہے تاکہ سیاست میں آئندہ وہی چل سکے جس کے پاس غنڈے اور بدمعاش ہوں۔
بھلا عشقِ رسولﷺ کا گالیوں، بدتمیزی اور بداخلاقی کے ساتھ کیا جوڑ بنتا ہے۔اس شدت پسندی کو ضیالحق کے دور میں انڈے کی صورت میں ہی ختم کردیا جاتا تو مسئلہ حل تھا لیکن بعد والوں نے اسے کامیابی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا اور اب اسے جدید صورت میں استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی کے طالبان کلاشنکوف بردار تھے اور نئے طالبان جوتا بردار ہیں۔اب اسے ہی طاقتور سمجھا جائے گا جس کی پشت پر جوتا برداروں کا لشکر ہوگا اور وہی سیاست کی وادی میں قدم رکھنے کی سوچے گا جس کے پاس جوتا بردار فورس ہو گی۔یہ سیاہی پھینکنا، جوتے مارنا اور تھپڑ لگانا نئی سیاست کی ابتدا ہے۔ہمیں ایک باشعور قوم ہونے کے ناطے اس سلسلے کو یہیں پر روکنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح مذہبی میلان رکھنے والے لوگ ماضی میں خونخوار طالبان ، داعش اور القاعدہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں اسی طرح اب نئے طالبان، القاعدہ اور داعش کو بھی مذہبی حلقوں سے ہی ڈھونڈا جارہاہے۔یہ ہمارے مذہبی اور دینی حلقوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نام نہاد سیاستدانوں کی چالوں کو سمجھیں اور ان کے ہاتھوں میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہ ہوں۔
طالبان چاہے کلاشنکوف بردار ہو ں یا جوتا بردار بدنامی تو مذہب کی ہی ہوتی ہے اور یہی ہمارے ہاں کے لبرل سیاستدان چاہتے ہیں۔ اسی طرح اگر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا کلچر فروغ پائے گا تو دینی حلقے خود بخود دیوار کے ساتھ لگ جائیں گے لہذا دیندار اور باشعور افراد کو اس طرح کے منفی رجحانات کی فوراً حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے سکیورٹی اداروں سے کہا کہ جو بھی ملزمان ہیں، یہ ان کا انفرادی عمل ہے، جامعہ نعیمیہ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ دیگر مذہبی اداروں اور شخصیات کو بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کے افراد سے اظہار لاتعلقی کریں اور ملک کو سیاسی انارکی کے بجائے اسلامی سیاست کی ڈگر پر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔بحیثیت قوم ہمیں اس جدید شدت پسندی کی لہر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس جدید شدت پسندی کا بانی بھی کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی سیاستدان ہیں اور ان کے اپنے مذموم مقاصد ہیں۔لہذا اس طرح کے افعال کو عشق رسول ﷺ کہنا سراسر مکار سیاستدانوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.