وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ چار دھائیوں سے امریکہ اور غرب اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پٹرول گیس اور دیگر وسائل کو لوٹنے کے لئے انھوں نے مختلف ممالک کے نظاموں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا. انکے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک ابھر کر سامنے آیا. انھوں نے خباثت سے مذھبی رنگ دیکر جہان اسلام کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہمارے مخالف تو بس شیعہ مسلمان ہیں. اور سنی مسلمان ہمارے اتحادی ہیں. حالینکہ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کے عوام کا ہوا جہاں پر اکثریت اھل سنت مسلمانوں کی ہے. اور امریکہ وغرب کی ان مسلط کردہ جنگوں میں اگر کوئی اعداد وشمار پر نظر کرے تو سب سے زیادہ قتل ہونے والے بھی اھل سنت مسلمان ہی ہیں. اس وقت جب مقاومت کی حکمت عملی و استقامت اور جوابی کارروائیوں سے اس خطے میں امریکہ شکست سے دوچار ہے. اور دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
امریکہ اور غرب نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ وامارات کو لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مصر ، لبنان وسوریہ ، فلسطین وعراق اور یمن وبحرین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر استعمال کر لیا ہے کہ اب سعودیہ کا چہرہ پورے جہان اسلام میں امریکی اشاروں پر ناچنے اور خطے کے ان مذکورہ ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے اور انکے امن امان کو تباہ برباد کرنے ، آباد وشاد ممالک کو ویران کرنے کے لئے دہشگردی کی کھلی مدد کرنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہے. اقوام عالم میں آل سعود کے خلاف بہت نفرتیں جنم لے چکی ہے. وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ کوئی مسلمان انہیں اپنا پیشوا وراھنما قبول کر سکے. اب انکےطاقتدار کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے اور انکی قیادت کا خاتمہ ہونے والا ہے . اقبال نے تو بہت عرصہ پہلے جہان اسلام کی نجات کا فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
مقاومت کا بلاک ہر گز فقط شیعہ بلاک نہیں بلکہ اس میں عراق ولبنان وشام وفلسطین ویمن کے اھل سنت صوفی ، مسیحی ، درزی ، ایزدی ، عاشوری ، علوی ، زیدی واسماعیلی. نیشنلسٹ وکیمونسٹ ولیبرل وغیرہ سب شامل ہیں . اور امریکہ واسرائیل کی استعماری پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انکی غلامی کی بجائے انکے خلاف قیام اور ہر وسیلہ سے مقاومت کرنے کے موقف پر متحد ہیں۔
لیکن شاید امریکہ اور اسرائیل کی پیدا کردہ نفرتوں کا شکار مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو درک کرنے کے قابل نہیں. اس لئے اب امریکہ کو شکست دینے والے مقاومت کے بلاک کے محور مرکز سے ھٹ کر سنی سیاسی اسلام کے دعویدار اخوان المسلمین جہان اسلام کو قیادت کا جدید نظام فراھم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. جبکہ سعودی عرب اب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ھاتھ پاوں مار رھا ہے. انہیں ایرانی مسلمان بھائی کلمہ شھادت پڑھنے والا اسلام دشمن اور اسرائیلی وصہیونی ویہودی اسلام کا کا ھمدرد اور دوست نظر آتا ہے اس لئے ایران سے تعلقات منقطع کرتے ہیں اور امریکا وغاصب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر فخر کرتے ہیں۔
تاریخ عصر حاضر کے تناظر میں عالمی سنی قیادت
– پہلی عالمی جنگ سے پہلے جہان تسنن کی زعامت وقیادت ترکی کے پاس خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی۔
– اس کے کے بعد تدریجا سعودیہ کو یہ قیادت تفویض کی گئی. اور پورے سنی جہان اسلام کا سرپرست اور قائد وراھبر ال سعود کو بنایا گیا۔
– جب اردغان کو طاقتور کیا گیا تو اسے پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دکھایا گیا. اور اس نے سنی اسلام سیاسی ( اخوان المسلمین ) کو جذب کیا۔
– جب مصر میں محمد موسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے خلافت وقیادت سنی اسلام کی انگڑائی لی. سعودیہ نے جنرل سیسی کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔
– قطر کے اخوانی رجحانات نے اسے سعودیہ کا دشمن بنایا۔
– مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسرائيل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور حماس کی حمایت کی . تو ملائشیا میں سعودی نواز حکومت لائی گئی۔
– نون پریس کی رپورٹ کے مطابق کوالمپور میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس ہے۔
– 2014 کو مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسلامی مفکرین کی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ” اسلام کا سیاسی وفکری نظام ” بلائی۔
– دوسری بین الاقوامی کانفرنس بھی کوالمپور میں بعنوان ” ترقی واستحکام کے لئے حریت ودیموکریسی کا کردار ” منعقد کی کئی۔
– تیسری بین الاقوامی کانفرنس اخوان کے نفوذ کے ملک سوڈان میں بعنوان ” الحکم الرشید ” یعنی حکومت راشدہ منعقد ہوئی۔
– چوتھی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں ” الانتقال الدیمقراطی ” منقعقد ہوئی۔
– ابھی 18 سے 21 دسمبر 2019 کو پانچویں کانفرنس بعنوان “قومی استقلالیت کے حصول میں تعمیر وترقی کا کردار ” اور امت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے جس میں پانچ ممالک ملائشیا ، ترکی ، پاکستان ، قطر اور انڈونیشیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے البتہ شرکت کے لئے 50 کے قریب اسلامی ممالک کہ جن میں ایران بھی ہے ان کو دعوت دی گئی ہے. اس کے علاوہ جہان اسلام کے 450 مفکرین کو بھی ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے. کانفرنس کے انعقاد کے بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ یہ مفکر کیا فقط اھل سنت ہیں یا کسی شیعہ مفکر کو بھی دعوت ہے. یا پھر اھل سنت میں سے بھی فقط اخوان المسلمین عالمی کے مفکرین اور انکے طرفدار ہی مدعو ہیں یا دیگر اھل سنت مفکرین بھی شریک ہو رہے ہیں۔
– ملائشیاء کے وزیر اعظم مھاتیر محمد نے اپنے بیان میں جن زیر بحث آنے والے اہم مسائل کا تذکرہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
مسلمانوں کی مجبورا ھجرت ، اقتصادی مسائل ، قومی وفرھنگی شناخت ، اسلام فوبیا ، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرتیں ، انٹرنیٹ وٹیکنالوجی، ترقی واستقلال ، صلح امن اور دفاع ، استقامت اور حکومت راشدہ ، عدالت وآزادی وغیرہ شامل ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور ملیشیاء کے ساتھ ملکر امت کو درپیش مسائل کہ جن میں فلسطین اور روھینگیا کے مسلمانوں کے مسائل ہیں اس سلسلے میں تعاون کو بہتر بنائیں گے. اور ان مشکلات کا حل تلاش کریں گے۔
ترکی کے صدر کے مشیر یاسین اقطای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ سعودی عرب ،امارات ،اور مصر وغیرہ طاقتور ملک میانمار ، کشمیر ، فلسطین ، ترکستان ، سوریہ کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں جبکہ یہی وہ ممالک ہیں جو یمن ، لیبیا اور مصر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور جو کچھ ان پر گزر رہا ہے یہی ان مسائل کا موجب و منبع ہیں۔
ملائشیاء کانفرنس اور قضیہ فلسطین
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کو اولویت دی جائے گی. امریکی سفارتخانے کے قدس شريف میں منتقل ہونے اور اسے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی امریکی تائید کے بعد جب دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی گئی. تو اسی دوران اقوام متحدہ میں عربی واسلامی ممالک کی نمائندگی میں ترکی کے صدر نے قرار داد پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بلاواسطہ مذاکرات ہونے چاہئیں. جسے 128 اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا.
فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ھنیئۃ کی شرکت بھی متوقع ہے. امریکہ واسرائیل اب فلسطین کے مسئلے پر حماس سے معاملات پر راضی ہیں. بشرطیکہ اس کا عسکری ونگ کنٹرول ہو جائے. جیسے پہلے یاسر عرفات اور محمود عباس سے معاملات چلتے رہے اور حماس وجہاد اسلامی اور مقاومت کے باقی گروہ دشمن رہے. اب یوں نظر آ رھا ہے کہ حماس محمود عباس کی جگہ لینے والی ہے اور یہی معاملات کرے گی. اور پوری دنیا کے اخوان المسلمین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ترکی اور قطر کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ، بحرین، اردن ومصر کے تعلقات قائم ہیں. حماس اسرائیل مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملائشیا وپاکستان ودیگر اسلامی ممالک کے راستے ہموار ہو جائیں گے. فقط مقاومت کا بلاک کہ جس میں ایران ، عراق ، شام ، لبنان اور یمن و فلسطینی مقاومتی گروہ ہیں وہ غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل رہ جائیں گے۔
قطری اقتصادی تعاون اور مالی امداد کا منصوبہ
قطر گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے. اور اسرائیلی قطری تعلقات اور الجزیرہ کی شکل میں میڈیا کے شعبے میں تعاون بھی سب جانتے ہیں. قطر نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ملکر اقتصادی تعاون اور اسلامی ممالک کی ترقی کے لئے مالی امداد کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے. جس کے لئے تین مراکز بنائے جا رہے ہیں. مشرق وسطیٰ کے لئے مالی امداد وتعاون کا مرکز دوحہ میں اور یورپ کے لئے ترکی میں اور ایشیا کے باقی ممالک کے لئے کوالمپور میں مرکز بنایا جائے گا. اس پر دوحہ ، استنبول اور کوالمپور حکومتوں کے مابین معاملات طے پا چکے ہیں. اور تینوں مراکز کے لئے 3 ٹریلین ڈالرز کی امداد کا بجٹ بھی طے پا چکا ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی