بلتستان: ناکام ترقیاتی منصوبوں کا قبرستان کیوں؟

30 دسمبر 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو بلتستان کے چپے چپے میں جانے کا اتفاق ہوا اور وقتا فوقتاً دور دراز علاقوں میں دورے کا اتفاق بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ میں ایک ایسی شخصیت کے ساتھ رہتا ہوں جس کی پوری ذندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ 'جس کے اوقات غریبوں کے مسائل کے حل میں گزرتے ہیں جس کی ذندگی کے اکثر ایام سفر میں ہی گزرتے ہیں۔ ایک ایسا مرد حر جو غریبوں کی آواز ہے، مافیا اور چوروں کے خلاف سب سے ذیادہ صدائے احتجاج بلندکرنے والا، اور ظالم کے خلاف سب سے طاقتور آواز کے مالک عالم مبارز مجاہد ملت آغا سید علی رضوی۔ حالیہ دنوں میں ان کی ہمراہی میں بلتستان کے کچھ علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس مرد حر کی قیادت میں ہم بشو گئے انتہائی پر خطر اور کٹھن راستوں(ایک تو راستہ بہت ہی تنگ اور برف کی وجہ سے خطرناک ) سے ہوتے ہوئے ہم کھر پہنچے، جہاں پر علاقے کے زعماء، علماء اور جوانوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور مختصر پروگرام منعقد کیا واپسی پہ جب ہم ایک خطرناک موڑسے مڑ رہے تھے تو سمت مخالف سے گاڑی آرہی تھی، بڑی مشکل سے ہم نے کراس کیا۔ خطرناک راستہ اور راستے کی خستگی کو دیکھ کر ایک عالم سے راستہ اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھا تو اس نے عجیب داستان غم سنایا، جس نے مجھے بھی ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کروانے پے مجبورکیا، اور اس تحریر کے ذریعے سے بلتستان کے بارے میں کچھ حقائق ضبط تحریر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام آگاہ ہوں اور ان مافیاوں کے خلاف جدوجہد کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر نمائندہ کو اے ڈی پی کے مد میں کڑوروں روپے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کاجال بچھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ مگربلتستان کے کسی بھی علاقے میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ جس طرح بجلی کی پیداوار کے نام پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کے ساتھ پاور ہاؤس بنایا جاتا ہے، جبکہ آئے روز بجلی نہ کہیں نظر آتی ہے اور نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بلکہ دن بدن لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب کے لئے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

اسکی ایک وجہ جو سمجھ آئی وہ شاید اس دورے کے دوران سنی گئی روداد سے واضح ہو۔ جب میں بشو پہنچا اور وہاں کے مسائل جاننے کی کوشش کی تو ایک صاحب نے کچھ حقائق کا اظہار کیا وہ کہتا ہے کہ اس روڑ کے لئے ایک نمائندہ نے ایک کڑور کا اعلان کیا مگر ٹھیکہ درٹھیکہ ہوتا ہوا ابھی منصوبے پہ ذیادہ سے ذیادہ 22 لاکھ خرچ کیا گیا ہے  اور اس پیسے کی وجہ سے کچھ بھی کام نہیں ہوا۔ بس دو جگہوں پہ دیوار بنائی گئی ہے اور ایک دو جگہوں پے تھوڑا سا راستہ کشادہ کرنے کے لئے کاٹا گیا ہے اور بس۔ اسی طرح دیگر منصوبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے حتی کی چند لاکھ روپے والے منصوبوں میں بھی یہی ہوتاہے۔ جہاں انجیئنر اور ٹھیکہ دار کی ملی بھگت سے کھانے اور کمانے کا جن سوار ہوتا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ان چوروں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔

 جبکہ ہم سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد دوسال تک ٹھیکہ دار اور انجیئنر دونوں ذمہ دار ہیں۔ اگر معمولی بھی کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ٹھیکہ دار کو سخت ترین سزادی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان خصوصا ہمارے خطے میں اس کے بلکل برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل مفاد پل اور پاور ہاوس کی تعمیر پر بضد ہیں کیونکہ اس میں کمانے اور کھانے کے لئے پیسہ بہت ہے۔ جب ایک منصوبہ دوچار بار فروخت ہوجائے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ مثلا  کچورا میں تین پاور ہاوس موجود ہیں مگر دو پاور ہاوسز کی صرف عمارتیں کھڑی ہیں۔ اسی طرح ہرپو پاور ہاوس کی بھی عمارت ہے مگر بجلی نہیں ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستانی اداروں میں خصوصا گلگت بلتستان میں نوکری بکتی ہے، ضمیر کا سودا ہوتا ہے مگر افسوس! یہاں تو کمیشن پر ٹھیکہ بھی بکتا ہے اور جب ایک ٹھیکہ ایک دو تین بار بک جائے توجتنا پیسہ اس منصوبے پہ لگنا چاہئے اتنا پیسہ نہیں لگتا جتنا اس کام کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ نتیجتا کسی بھی علاقے میں کوئی ترقیاتی  کام ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔

ایک مثال سکردو شہر کی سڑکوں کی بھی ہے۔ شہر کی مختلف سڑکوں کو ری کار پیٹ کرایا گیا مگر تین ماہ کے قلیل عرصے میں ری کارپیٹنگ کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ سڑکیں پھرسے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کچورا پل کسی ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ ملا تھا۔ اس نے کسی دوسرے ٹھیکہ دارکو فروخت کیا۔ کتنے ہی پاور ہاوسز کی بڑی بڑی عمارت تو نظر آتی ہے مگر کہیں بجلی نظر نہیں آتی۔ پھراس سے ذیادہ افسوس اور دکھ ان بے حس بیورکریٹس اور مفاد پرست کمیشن خوروں پر ہوتا ہے۔ جو جو پاور ہاوس کی عمارت بنانے پہ بضد نظر آتے ہیں خصوصا مقپون پاور ہاوس۔ جس کی تعمیر پر اہل مفاد بضد ہیں جبکہ اہل علاقہ مخالف ہیں۔ کیاعمارت تعمیر کرنا کافی ہے ؟جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری عمارتیں بلکل تیار ہیں بلکہ کچھ توبوسیدہ ہوگئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ کسی جگہ منظور ہوتا ہے توجتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک منصوبہ ایک بار ٹینڈر اور کئی بار مختلف ہاتھوں سے بکتا ہوا پیسہ کم ہوجاتا ہے۔ اور اس جرم میں ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ شریک ہیں ۔ خصوصا انتظامیہ کے لوگ جو دولت مندوں کے سامنے بلی اور غریبوں کے سامنے شیر نظر آتے ہیں۔ نتیجہ گلگت بلتستان جیسے چھوٹے شہروں میں بہت سارے ترقیاتی منصوبوں پرکام ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ورنہ چھوٹے سے شہر میں اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو بے مثال شہر بن سکتا ہے۔

تحریر : شیخ فدا علی ذیشان



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree