وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ کتاب، نجف اشرف کے علما اور طلاب سے شہید کی د و تاریخی تقریروں پر مشتمل ہے۔جب عراق کی بعثی حکومت کی طرف سے اسلامی نظریات کو نابود کرنے، مومنین،علما اور طلاب کو ملک بدر،شکنجہ واذیتوں کا سلسلہ شروع ہوا توایسے میں شہید نے ان حالات کے پیش نظر پہلی تقریر میں اس امتحان و آزمائش کے مختلف پہلووں، علما کے طرزفکر اور حوزہ ہائے علمیہ کے امت کے ساتھ ارتباط کے مراحل کو بیان کیا اور دوسرے خطاب میں ابتلا وآزمائش کے قرآنی مفہوم پر روشنی ڈالی۔
شہیدؒ آزمائش کے بارے میں اسکے دو پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آزمائش کا موضوعی پہلو یعنی وہ حالات،ماحول اور خارجی اسباب جو کسی آزمائش کو وجود میں لاتے ہیں اور ذاتی پہلو سے مراد جس شخص پر امتحان آیا ہے اس کا ذاتی موقف اور اس کا شعور اور ادراک اور اس کا مثبت یامنفی کردار ہے جو اس امتحان میں موثر ہے۔ پھرفرماتے ہیں کہ آزمائش کے موقع پر انسان، تین قسم کے موقف ا پنا سکتا ہے اور اپنے تصور کے مطابق قدم اٹھا تا ہے۔ پہلا احساس انفرادی اور شخصی،دوسرا علاقائی اور وطنی اور تیسرا احساس آفاقی اور دینی احساس ہے۔ اس گفتگوکے بعد شہید اس وقت کردوں و عربوں کی جنگ اور ملت عراق کو درپیش مشکل(جہاں حوزہ علمیہ کے وجود،علما اور طلاب کی جان کو خطرات لاحق تھے) کو بطور مثال پیش کر کے ان تینوں احساسات کی وضاحت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مسائل کو انفرادی اور علاقائی نکتہ نظر سے بالاتر ہو کر دین اور شریعت کی نگاہ سے دیکھنے پر زور دیتے ہیں اور اس سلسلے میں علما اور طلاب کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہیں۔
حوزہ ہاے علمیہ کے چار مراحل:
آخر میں حوزہ ہای علمیہ نے جن مراحل کو امام عصر کی غیبت سے اب تک طے کیا ہے، کویوں بیان کرتے ہیں کہ ن میں سے پہلا مرحلہ انفرادی روابط کا مرحلہ، ائمہ اطہار کے شاگردوں کے زمانے سے شروع ہو کر علامہ حلی کے زمانے تک ہے جہاں مومنین انفرادی طور پر علما سے رابطہ کرتے تھے۔ دوسرے مرحلے میں مرجعیت کا نظام شہید اول سے شروع ہوا اور تیسرے مرحلے میں مرکزیت اور ہم آہنگی کا زمانہ ہے جو کہ شیخ محمد حسین کا شف الغطا سے شروع ہوا۔ اور بالاخر چوتھا مرحلہ قیادت ورہبری کا ہے اور علما اور فقہا نے ہمیشہ دین اور آفاقی احساس کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔
آزمائش کافلسفہ اور ہمار طریقہ کار:
دوسرے حصے میں ابتلا وآزمائش کے قرآنی مفہوم کے ذیل میں شہید فرماتے ہیں کہ ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں دو عامل بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ خداوندعالم سے مکمل اور بھر پور تعلق و رابطے کے احساس کانہ ہونا، ۲۔ ہمارے معاشرے کی بے عملی۔ اس حالت سے نجات کے لیے ضروری ہے بعض نکات کی طرف توجہ دی جائے۔
۱۔جذبہ ایثار اور قربانی:
یعنی شخصی اور انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر قربان کرنے کا جذبہ انسان میں وجود میں آئے۔
۲۔ اسلوب عمل میں تبدیلی:
ایک باعمل انسان کو اپنے عقائد ونظریات پر پابند رہتے ہوئے ان پر عمل کرنے کے اسلوب میں لچک اور تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ دینا کے ماحول،مسائل،مشکلات او ر ضروریات بدل گئی ہیں۔
۳۔ حسابی عقل اور سماجی عقل:
آخرمیں شہید نے عقل کے دو انداز بیان کیے ہیں جن میں سے ایک عقل ریاضی اور دوسرے کو عقل اجتماعی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اور اجتماعی مشکلات کے اصل سبب کو ان امور میں بھی ریاضی اور اصولی عقل کا استعمال قرار دیتے ہیں اور اجتماعی مسائل میں عقل اجتماعی کے استعمال پر تاکید کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں
”اجتماعی مسائل اجتماعی شعور سے وابستہ ہیں اور یہ اجتماعی شعور فکر کی پختگی،تجربات،زمانے کے حالات اور عالمی مسائل سے واقفیت کے ذریعے ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھیں اورعالمی مسائل اور تجربات سے واقفیت حاصل کریں۔