وحدت نیوز(تہران) اردو زبان طلبہ جامعات تہران اور ایم ڈبلیو ایم شعبہ امور خارجہ کے تعاون سے تہران میں القدس کانفرنس کا انعقاد۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری امور خارجہ اور معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے بیت المقدس کی تاریخ اور مذہبی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال نے بیت المقدس اور اس کی ملحقہ سرزمینوں کو بابرکت قرار دیا اور انبیا علیہم السلام سے نسبت ہونے کی وجہ سے سرزمین فلسطین ایک خاص تقدس کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا فلسطین پر صیہونیوں کا قبضہ ایک تدریجی عمل اور عرب حکمرانوں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول ہر ایک مخصوص وقت کے بعد جب صیہونی فلسطین کے نئے حصے پر قبضہ کرتے تو عرب حکمران پرانے حصے پر قبضے کو بھول جاتے اور یوں عرب حکمرانوں کی تدریجی عقب نشینی آج صدی کی ڈیل نامی معاہدے پر آکھڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے عرب حکمرانوں کی مسئلہ فلسطین کے بارے خیانتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب حکمران طول تاریخ میں صیہونیوں کے ہم نوا رہے اور ہمیشہ اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے درپے ہیں اور اس وقت صدی کی ڈیل کی تقویت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ نے امت اسلامیہ کے اہم مسائل کو حکومتوں سے لیکر عوام کے ہاتھ میں دے دیا کیونکہ امام خمینی ملت اسلامیہ پر یقین رکھتے تھے کہ وہ شعائر اللہ کی حفاظت کرنے اور اسلام کی سربلندی کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شیرازی نے ایران کو مزاحمت کی علامت اور مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج مشرق وسطی میں اسلام کے شعائر کی حفاظت اور سربلندی میں ایران اور نظام ولایت کا کردار نمایاں ہے۔ انہوں نے کہا عالم کفر ایران کے شیعہ ہونے سے نہیں بلکہ ایران کے مزاحمتی ہونے کیوجہ سے ایران سے خائف ہے وگرنہ شیعہ تو ایران کا سابق بادشاہ رضا شاہ بھی تھا۔ انہوں نے کہا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی دو طاقتیں بہت نمایاں ہیں ایک اسرائیل اور دوسری سعودی عرب۔ ان کے بقول سعودی عرب کی جانب سے یمن میں ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے بعد دنیا کے بدترین مظالم کی مثال ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل جمہوری طریقے سے فلسطین کے حقیقی باشندوں کے درمیان ریفرنڈم ہے کہ وہ اپنے ملک اور ملک پر قابض طاقتوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے حالیہ غیر منصفانہ، ظالمانہ اور مکارانہ صدی ڈیل میں سعودی حکومت کے توسط یا کسی دیگر دباو کیوجہ سے اسرائیل کا ساتھ دیا تو اصولی طور پر اسے مسئلہ کشمیر سے ہاتھ دھونا اور اس کے اصولی موقف کی کمزوری کا باعث بنے گا کیونکہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے حق خودارادیت اور جمہوری اقدار کشمیر کے لیے ٹھیک لیکن فلسطین کے مسئلے میں ٹھیک نہ ہوں۔
اردو زبان طلبہ جامعات اور ایم ڈبلیو ایم کے تعاون سے تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس کے دوسرے خطیب کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے معروف دانشور ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی کامیابی اس دنیا کی کامیابی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کامیابی اور شکست کا معیار آخرت ہے اور ماہ مبارک رمضان آخرت کی کامیابی میسر کرنے کے لیے بہترین موقع ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو شکست سے دچار کرنے والے عناصر اس وقت بھی اسلام کے خلاف متحد اور اسلام کی ہر کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے سرگرم ہیں۔
انہوں نے کہا اسلامی دنیا میں زبان، ثقافت اور دیگر تہذیبی علامات کا فرق اس استعمار کا منصوبہ تھا جو اسلامی تہذیب کی طاقت سے خائف تھے۔ بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کے بارے صیہونیوں کے پروپیگنڈا کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین اسلام سے قبل سلطلنت روم کے تحت کنٹرول تھا اور خود فلسطینیوں نے خلیفہ دوم کے زمانے میں مسلمان حکمرانوں کو خط و کتابت کے ذریعے فلسطین کی تمام سرزمین ان کے اختیار میں دینے کا اعلان کیا تھا صرف اس شرط کے ساتھ کہ مسلمان انہیں مذہبی آزادی اور رفاہ، تعلیم اور صحت میں آباد کریں گے کیونکہ غیر مسلمان سلطلنتیں اپنے زیر تسلط علاقوں کو برباد جبکہ مسلمان اپنے زیر تسلط علاقوں کو رفاحی، تعلیمی، صحت و تہذیبی لحاظ سے آباد کرتے تھے۔
انہوں نے کہا ہمارے زمانے کا استکبار بھی اسی سلطلنتی ڈگر پر چل رہا ہے کہ وہ جہاں بھی گیا اس نے ان خطوں کو تباہ و برباد اور غارت کیا ہے جبکہ اسلام ہمیشہ خطوں کو آباد کرنے کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے قدس کو عالم اسلام کی مظلومیت کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر قدس آزاد ہوجائے تو عالم اسلام آزاد ہوجائے گا۔ ان کے بقول فلسطین پر ظلم و ستم اور بربریت ایک آدھ دن کی بات نہیں بلکہ یہ ظلم و ستم عشروں پر محیط ہے۔
انہوں نے کہا فلسطین فلسطینیوں کا ہے چاہے وہ مسلمان فلسطینی ہوں یا عیسائی اور یہودی، کسی تیسری طاقت کو حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطین پر مسلط ہو یا ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا فلسطین سے لاکھوں فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور، ہزاروں کو شہید، ہزاروں اب بھی اسرائیلی جیلوں میں جبکہ لاکھوں گھر تباہ و برباد کئے گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ حق دنیا کے کونسے قانون اور اصول کے مطابق ہے کہ ایک گروہ آئے ایک ملک کے باشندوں کے ساتھ اور خصوصا مسلمان اکثریت کے ساتھ طاقت کے زور پر یہ ظلم روا رکھے۔
انہوں نے کہا صیہونی پروپیگنڈا مشینری ہاتھ میں ہونے کے سبب ظالم اور مظلوم کی جگہ کو ایکدوسرے سے تبدیل کرنے کے درپے ہیں وہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں ان کے بقول ایک فلسطینی بچے کا غلیل سے اسرائیلی فوجی کی طرف پھینکا پتھر تو دہشت گردی ہے لیکن اسرائیل سے فلسطینیوں پر داغے جانے والے میزائل دہشت گردی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا صیہونی بین الاقوامی اداروں کو بھی یہ باور کروانے کے درپے رہتے ہیں کہ اسرائیلی مظلوم جبکہ فلسطینی ظالم ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا مسئلہ فلسطین یہود و اسلام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قابض طاقتوں کے منصوبوں کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا صیہونیت کا حضرت موسی علیہ السلام اور یہودیت کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ صیہونیت کی بنیادیں ایک سیکولر مغربی گمراہ مفکر ہرزل کے افکار پر مبنی ہیں اور ہرزل کے بقول اسرائیل کی تشکل کا ہدف مشرق وسطی میں مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک تھانیدار کی تعیناتی ہے۔ انہوں نے کہا مسئلہ فلسطین ایک شہر اور ایک ملک کی بات نہیں بلکہ سارا مغرب اس مسئلے میں صیہونیوں کی پشت پر نظر آتا ہے پس مسئلہ مغربی مفادات اور منصوبے کا ہے۔
یہود کے قتل و کشتار کے افسانے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طول تاریخ میں کسی مسلمان حکمران یا مفکر نے یہودیوں کے قتل کا فتوی نہیں دیا ہے اگر تاریخ کے کسی حصے میں یہودیوں کے قتل کی داستان مان بھی لیں تو وہ مسلمانوں نے نہیں کیا جنہوں نے وہ قتل کیا ہے انتقام اور یہودیوں کی سرزمین کے قیام کی جدوجہد ان کے خلاف ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا یہودی اور عیسائی ایکدوسرے کے تاریخی دشمن ہیں۔ اسلام نے آکر ان کے درمیان صلح کی بنیاد رکھی اور ان کی ایکدوسرے سے دشمنی کا باعث بننے والی داستانوں کو جھوٹ قرار دیا اور اس حوالے سے شفافیت سامنے لائی لیکن اس وقت تاریخ کے یہ دو سرسخت ترین دشمن اپنے مشترکہ مفادات کی خاطر عالم اسلام کے مقابلے میں متحد ہیں۔
ڈاکٹر ازغدی نے کہا مقبوضہ فلسطین پر قابض صیہونیوں کا یہودیت اور فلسطین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ مغربی مفادات کا تحفظ کرنے والی ایک سیاسی جماعت ہے جس کا انیسویں صدی سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ ڈاکٹر ازغدی نے بین الاقوامی اداروں کی جانبداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی ادارے امریکہ اور چند دیگر استعماری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور انہوں نے صیہونیوں اور سعودیوں کو عالم اسلام میں قتل و کشتار کا لائسنس دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا جو ملک بھی قرآن، مسجد، حجاب، آزادی اور انتخابات کی مخالفت اور اس سے مقابلہ کرے گا وہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کی بنیاد خود فراہم کرے گا۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ استعمار شدت پسندی کی وجہ خود ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت دو گروہ ایسے ہیں جو مسئلہ قدس کی اہمیت کم کرنے کے لیے سرگرم ہیں ایک طرف انسانی حقوق کے نام پر امریکہ اور برطانیہ جبکہ دوسری طرف جہاد کے نام پر وہابیت اور تکفیریت جس کی سربراہی سعودی عرب کے حکمران کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا جس طرح صیہونیوں کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح سعودی حکمرانوں کا وہابیت اور دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ لوگ بے دین اور خطے میں مغربی طاقتوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا سعودی حکمرانوں نے اسلامی بیداری کو داخلی اور فرقہ وارانہ جنگوں میں تبدیل کرکے استکبار اور امریکہ کی سب سے بڑی خدمت کی ہے۔
ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا یاد رکھیے اسرائیل نے مذاکرات کیوجہ سے عقب نشینی نہیں کی ہے بلکہ حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین کے جہاد اور شہادتوں اور شہیدوں کے خون کی تاثیر کی وجہ سے عقب نشینی کی ہے۔ انہوں نے کہا ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا پھر حزب اللہ اور حماس کی مزاحمت کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسرائیل ۳۳ دن بعد صلح کی درخواست کرتا نظر آیا۔ انہوں نے کہا یہ ۳۳ دن پھر ۲۲ دنوں تک محدود اور حالیہ جنگ میں مزاحمتی بلاک کے مجاہدین نے اسرائیل کو صرف ۴ گھنٹے بعد گھٹںے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور وہ جنگ بندی کی درخواستیں کرنے لگا۔ انہوں نے کہا اگر مزاحمتی بلاک کی یہ عوامی پشت پناہی کی حامل مزاحمت جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جس دن سپاہ اسلام کے مجاہدین بیت المقدس میں داخل ہوجائیں گے۔تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس میں اردو زبان طلبہ جامعات کے علاوہ تہران میں مقیم پاکستانی کمیونٹٰی کے متعدد افراد نے بھی شرکت کی۔