خوراک، رہائش، صحت، تعلیم، روزگار انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں اور وہ انہی طبقات کو دستیاب ہیں جو ان کی بھاری قیمت چکا سکتے ہیں،علامہ علی اکبر کاظمی

08 مئی 2023

وحدت نیوز(ٹوبہ ٹیک سنگھ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ پنجاب کے صوبائی صدر علامہ سید علی اکبر کاظمی اور ان کے وفد کے اعزاز میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے عمادین کی جانب سے صبح ناشتے کی ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا جسمیں شہر کے سرکردہ مذہبی اور تنظیمی افرادکو دعوت دی گئی تھی ۔ دستر خوان پر ناشتہ کرنے کے بعد علامہ سید علی اکبر کاظمی نے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کریم سے گفتگو کی ۔ جس میں انہوں نے کہا کہ :عدم استحکام، استحکام کا نہ ہونا، کمزوری، ناپائیداری اور غیر یقینی کیفیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ وہ معاشرے جوعدم استحکام کا شکار ہوںجو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہوں، جہاں ریاستی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہو اور جہاں کی آبادی کی اکثریت گردوپیش کے حالات اور مستقبل کے حوالے سے مطمئن نہ ہو۔ اللہ تعالی نے سورۃ قریش میں انسانیت پر اپنے دو انعامات کا ذکر کیا ہے جن میں پہلا انعام بھوک کی حالت میں رزق کا میسر آنا (یعنی معاشی خوشحالی) اور دوسرا خوف کی حالت میں امن کا پیدا ہونا (یعنی سیاسی استحکام) شامل ہیں۔اسی طرح سورۃ نحل میں قرآن حکیم نے ایک ایسے معاشرے کو بطور مثال پیش کیا ہے جس میں رزق کی فراوانی اور اطمینان و سکون کی کیفیات کا غلبہ تھا لیکن اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری اور اس کے احکامات کی نافرمانی کے نتیجے میں اس معاشرے پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط ہو گیا۔ ان واضح ہدایات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے جہاں انسانوں کی اکثریت بھوک، غربت، غیر یقینی اور خوف کا شکار ہو، جبکہ صرف ان معاشروں کو مستحکم قرار دیا جاسکتا ہے جہاں انسانوں کو امن و اطمینان اور معاشی خوشحالی میسر ہو۔زندہ قومیں اپنے ماضی اور حال کا کھلے دل و دماغ سے جائزہ لیتی ہیں اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی میں وہاں کا ریاستی نظام (یعنی پارلیمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ) مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  ریاستی نظام کا بنیادی کام ملک میں موجود مختلف شناختوں، پیشوں اور قومیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا، انہیں ایک مرکز پر اکٹھا کرنا، عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لئے پالیسیاں ترتیب دینا اور معاشرے میں خوف اور عدم اطمینان کا خاتمہ کر کے امن اور سکون کی فضاء پیدا کرنا ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں امن اور خوشحالی کا غلبہ ہے یا پھر بھوک اور خوف کا ؟ اس سوال پر غور و فکر اور تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بنیادی انسانی حقوق (خوراک، رہائش، صحت، تعلیم، روزگار) انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں اور وہ انہی طبقات کو دستیاب ہیں جو ان کی بھاری قیمت چکا سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 80 فی صد سے زائد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ صحت اور تعلیم پر ریاستی خرچ کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ 60 فی صد سے زائد بچے اور مائیں غذائی کمی کا شکار ہیں۔ جو معاشرہ اپنی آنے والی نسل کو مناسب خوراک بھی نہ دے سکے، اس کے تاریک مستقبل کا اندازہ لگانا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔دوسری طرف پورے ملک میں فرقہ واریت، عدم برداشت، لوٹ مار اور تقسیم در تقسیم کا ماحول غالب ہے۔ چاہے امیر ہو یا غریب، یہاں کوئی شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ اسی لئے ہر شخص جلد از جلد، زیادہ سے زیادہ مال اور وسائل حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اپنے خاندان کی حفاظت کرسکے۔ ایک دیہاتی ان پڑھ سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری نوجوان تک سب کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح وہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ نہ تو یہاں ان کی محنت کے قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں سماجی اطمینان اور عزت حاصل ہے۔ یہی وہ عدم استحکام کی کیفیت ہے جس کا شکار ہمارا پورا معاشرہ ہو چکا ہے۔۔آج پاراچنار میں اور جنوبی وزیر ستان جو کچھ ہوا سوائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عملی طور پر کسی نے احتجاج کیا ۔ یہ قوم کی بے حسی ہے ۔ پہلے ہم معاشرے میں استا د کے احترام اور اس کے فقدان پر بات کرتے تھے ۔اب تو دن دیہاڑےڈیوٹی پر مامور مقدس پیشے سے وابستہ افراد جن کا پیشہ انبیاء اور آئمہ کا ہے انہیں شہید کیا جارہا ہے ، جب تک ہم اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ حق وباطل کا ٹکرائو ہمیشہ سے آمنے سامنے ہے۔ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ کی امید کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔معاشرے میں عدم برداشت اور انتشار کے کچھ اسباب یہ چیزیں ہیں جن سے ہم نے آزادی حاصل کرنی ہے  1۔ جدید نوآبادیاتی نظام2۔ کمزور اور طفیلی معیشت3۔جاگیرداری نظام4۔سرمایہ داری نظام5۔طبقاتی نظام تعلیم6۔ریاستی اداروں کا ٹکراؤ7۔تکفیری سوچاور اس کے روٹس کا خاتمہ8۔۔آئین و قانون کی بالادستی کا نہ ہونا۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree