وحدت نیوز (گلگت) گیارہ سال پرانے کیس کو فوجی عدالت بھیجنا صوبائی حکومت کی بیلنس پالیسی ہے دو رینجرز اہلکاروں کے قتل کے الزام میں 14 افراد کوٹرائل کیا جاسکتا ہے تودو سیدانیاں سمیت 7 افراد کے قتل میں ملوث رینجرز کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ کیوں؟جبکہ کراچی میں رینجرز کی حراست میں ایک شہری کی ہلاکت پر انکوائری ہوسکتی ہے تو سات بیگناہ افراد کے قتل کی ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوئی ؟صوبائی حکومت کے اس اقدام کے خلاف فورس کمانڈر گلگت بلتستان اس ظالمانہ اقدام کے خلاف نوٹس لے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ 13 اکتوبر کو رینجرزکی جانب سے گلگت شہر میں اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں مرکزی جامع مسجد تک کو نہیں بخشا گیا اور اسی فائرنگ کے نتیجے میں سات بیگناہ افراد لقمہ اجل بن گئے ۔اس قتل عام کے خلاف متعلقہ تھانوں میں باضابطہ ایف آئی آر کیلئے درخواستیں جمع کروائی گئیں لیکن تعصب کی بناء پر ان ساتوں قتل کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوئی اور عدالتی کمیشن مقرر کیا گیا جس کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں لائی گئی اور صوبائی حکومت نے بد نیتی کو پر مبنی دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ جوڑ کر اس بلوا کیس کو فوجی عدالت میں بھیجا گیا جوکہ انتہائی زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو چاہئے آغا شہیدضیاء الدین رضوی کیس سمیت شاہراہ قراقرم پر جو واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں شناخت کرکے ملت تشیع کے بیگناہ مسافروں کو تہ تیغ کیا گیاہے ان تمام کیسز کو فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیاجائے۔ صوبائی حکومت مخصوص ذہنیت کی حامل ہے اور ملت تشیع کو دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک نہیں کرے گی تو حکومت ہٹاؤ مہم چلانے پر مجبور ہونگے اور گلگت بلتستان میں مردوزن سڑکوں پر آئینگے اور وہ دن حکومت کا آخری دن ہوگا۔