وحدت نیوز (اسلام آباد) ڈی آئی خان میںمسلسل فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جمعہ کے روز ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ کے پی کے حکومت نے ڈی آئی خان کو دہشت گردوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ایک ماہ میں تیرہ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان گذشتہ کئی عرصے سے ملت جعفریہ کا مقتل گاہ بن چکا ہوا ہے،آئے دن بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ دہشتگرد اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وردیوں میں ملبوس آتے ہیں،اور باآسانی واردات کرکے فرار ہوتے ہیں،ڈیرہ اسماعیل خان کے تحصیل پروہ میں دہشتگردوں نے پولیس وین پر حملہ کیا ایس ایچ اور کو شہید کیا اور ساتھ میں پمفلٹ بانٹ کر گئے جس میں باقاعدہ یہ درج تھا کہ ہم شیعہ آباد اور افراد کو نشانہ بنائیں گے،اس وقت وہاں کے رہائشی ایک کرب کے عالم میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں،گذشتہ رات ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں تین موٹر سائیکلوں پر سوار دہشتگرد وں نے تحصیلدار حق نواز کے جواں بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کی مزاحمت پر انکے دو چچا شہید اور بات کو زخمی کر دیا،اس سے کچھ دن پہلے ذاکر قیصر شائق جو کہ ٹی ایم اے کا ملازم ہے کو دن دیہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا،اور قاتل باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
علامہ احمد اقبال رضوی نے کہاکہ خیبر پختونخواہ میں جاری اس دہشتگردی کی لہر کو روکنے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل ناکام نظر آتے ہیں،ایک طرف نیشنل ایکشن پلان عملدرآمد کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ملت جعفریہ کے بے گناہ افراد کا قتل عام جاری ہیں،راوالپنڈی چاندنی چوک پر بھی بھرے بازار میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو گذشتہ رات گولیوں کا نشانہ بنایا گیا،قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قتل کے محرکات کو بھی سامنے لائیں۔ڈیرہ اسماعیل خان میں ہم مکمل بے رحمانہ فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں،اور پولیس کے صفوں میں موجود دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں ،جن کے بارے میں خود حکومتی رپورٹس موجود ہیں،ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم ایک بار پھر سے اپنے مطالبات کے لئے سٹرکوں پر نکل آئے
انہوںنے مزیدکہاکہ ریاست عوام کی جان مال کی تحفظ کے ذمہ دار ہیں وزیر اعظم خود اس ظلم بربریت پر ایکشن لیں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مظلومین کو تحفظ فراہم کریں،ہم اس جمعہ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف یوم احتجاج منائیں گے،اگر یہ سلسلہ نہ روکا تو ہم اپنے مطالبات کے حصول کے لئے ہر قسم کا آئینی قانونی اور جمہوری احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔پریس کانفرنس میں مرکزی رہنما ایم ڈبلیو ایم علامہ اعجاز بہشتی ،سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین ،مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات سید حسنین زیدی ،علامہ شیر علی انصار ی بھی موجود تھے ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) ڈیرہ اسماعیل خان کے مظلومین کو آج آپ کی حمایت کی ضرورت ہے،ڈیرہ اسماعیل کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے، مائیں جوانوں کے لاشے دیکھ دیکھ کر تھک چکی ہیں، بہنوں کے اشک خشک ہوچکے ہیں، بوڑھے کاندھوں میں جوان بیٹوں کے مزید جنازے اٹھانے کی ہمت نہیں رہی، گھر یتیم بچوں سے بھر چکے ہیں، خواتین کے سہاگ روز اجڑ رہے ہیں، بھائیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی تنظیم سازی کمیٹی کے رکن سید عدیل عباس زیدی نے اپنے ایک بیان میں کیا۔
انہوں نے کہاکہ آج ڈیرہ اسماعیل خان کے مظلومین پورے پاکستان کیطرف دیکھ رہے ہیں، جس طرح ہم سب نے ملکر پاراچنار کا محاصرہ توڑا، کوئٹہ سانحہ پر ملک گیر دھرنوں سے رئیسانی حکومت ختم کی، اب وقت آگیا ہے کہ پورے پاکستان کے شیعہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مظلوم مومنین کی مدد کیلئے آگے بڑھیں اور جمعتہ المبارک کو ملک گیر احتجاج کے دوران پرامن طریقہ سے اپنی مضبوط آواز بلند کریں۔ نوجوان سوشل میڈیا پر بھرپور طریقہ سے اس ایشو کو اجاگر کریں، سیاسی و سماجی طبقات کو اپنا ہم آواز بنائیں، بیرون ملک پاکستانی اس انسانی المیہ پر اپنا رول ادا کریں، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کو متحرک کریں،تاکہ اس قتل عام کے سلسلے کو روکا جاسکے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) سابق چیئرمین وحدت یوتھ پاکستان اورسابق صدر علی پور بارایسوسی ایشن سید فضل عباس نقوی ایڈوکیٹ کے چچااور سُسرمحترم اور بزرگ عالم دین الحاج مولانا سید رسول بخش محمدی نقوی کی رحلت پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی قائدین نے دلی رنج وغم اور افسوس کا اظہارکیاہے، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے مشترکہ تعزیتی پیغام میںمرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ، علامہ سید احمد اقبا ل رضوی،ناصرعباس شیرازی، علامہ شفقت حسین شیرازی،علامہ باقرعباس زیدی، علامہ اعجازبہشتی، علامہ مختارامامی، علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ سید ہاشم موسوی، اسدعباس نقوی،نثارفیضی،مہدی عابدی، ملک اقرارحسین، علی احمر زیدی ودیگر نے مرحوم ومغفورالحاج مولانا سید رسول بخش محمدی نقوی کے جہان فانی سے کوچ کرجانے کو اہل خانہ سمیت پوری قوم کے لئے بڑانقصان قراردیاہے، رہنماؤں نے کہاہےکہ مرحوم کی دین وملت کے لئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا، بزرگ عالم دین کی رحلت سے جو خلاءپیداہواہے اس کاپر ہونا مشکل ہے، دکھ کی اس گھڑی میں ہم تمام پسماندگان بالخصوص برادر بزرگوار سید فضل عباس نقوی کے غم میں برابرکے شریک ہیں اور بارگاہ خداوند متعال میںدعاگو ہیں کہ مرحوم کی مغفرت اور تمام لواحقین کو صبر جمیل مرحمت فرمائے۔
وحدت نیوز (لاہور) یوم خواتین کی آڑ میں مغرب زدہ سوچ کو مسلط نہیں کرنے دیں گئے ۔یوم خواتین پر کچھ این جی اوز کی جانب سے اسلامی معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں ، ان خیالات کا اظہار رکن پنجاب اسمبلی ومرکزی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان محترمہ سیدہ زہرانقوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کے ساتھ سڑکوں پر آنے والی خواتین اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی پر عمل پیر ا ہیں ان کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے بینرز اور ان کے نعرے نا صرف اسلامی قوانین سے بغاوت بلکہ ہمارے مشرقی اقدار کےبھی منافی تھے ،اس حساس نوعیت کے مسئلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری نوٹس لینا چاہئے اور ان کے پس پردہ چھپے عزائم کو بے نقاب کرکے ایسے ملک دشمن آلہ کاروں کو نشان عبرت بنانا چاہئے۔
زہرانقوی نے کہاکہ ایسے مظاہرےدہشتگردی پر قابو پانے کے بعد ملک کو ایک اور سنگین اخلاقی جرم کی طرف لے جانے کی ایک قبیح سازش ہے جسے قوم کبھی کامیاب نہیں ہونے دےگی،ہمارے لئے رول ماڈل جناب سید ہ فاطمہ زہراؑ کی ذات اقدس ہے ۔اسلام نے جو عزت ومنزلت اور حقوق عورت کو ماں بیٹی بہن اور بیوی کے روپ میں عطا کیئے ہیں آج کی دنیا کا کوئی معاشرہ ایسی مثال پیش نہیں کرسکتاہے ۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیدہ زھرا نقوی صاحبہ کی جانب سے طلبہ وطالبات کی کیریئرکاؤنسلنگ کے لئے حکومتی سطح پراقدامات کے مطالبے کی قراردادپنجاب اسمبلی میں منظور کر لی گئی،محترمہ سیدہ زھرا نقوی نے نوجوان طبقے کی کیریئر کاونسلنگ سے متعلق قرار داد پنجاب اسمبلی میں پیش کی تھی۔
قرارداد کے متن میں کہاگیاکہ ہمارے ملک میں حکومتی سطح پرمناسب کیریئرکاؤنسلنگ نہ ہونے کے باعث بہت سے طلباءوطالبات یونیورسٹی میں داخلے کے وقت اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق مناسب تعلیمی شعبہ منتخب نہیں کرپاتے جس سے نا صرف نوجوان کی صلاحیتیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ وہ ملکی ترقی واستحکام کے لئے خاطر خواہ خدمات سرانجام نہیں دے پاتے، اس طرح بہت سے اہم شعبے ماہرین سے محروم رہ جاتے ہیںکیونکہ بالعموم لوگوں کی توجہ چند خاص شعبوں پر مرکوز ہوجاتی ہے۔
لہذٰا اس ایوان کی رائے ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل کی خاطرنوجوان طلبا و طالبات کے ذوق اور صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی شعبہ جات میں ان کی بھرپور راہنمائی کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کا مستقبل ضائع نہ ہو اور وہ ملکی ترقی و استحکام کیلئے اپنی بھرپور خدمات انجام دے سکیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، کسی کو دشمنوں کے جنگی طیارے گرا کر عزت ملتی ہے اور کسی کو اپنوں پر ٹینک چڑھا کر تمغے ملتے ہیں۔ ہر تمغہ عزت کا باعث نہیں بنتا، کبھی کبھی ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ آیئے! آج دو بھولی بسری کہانیاں سنیں۔ ایک عزت کی کہانی ہے، دوسری ذلت کی کہانی ہے۔ پہلی کہانی فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم کی ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے اس بہادر شاہین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور بہادری سے نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ 1965ء میں وہ پی اے ایف بیس سرگودھا میں تعینات تھے۔ بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھارتی ایئر فورس کا جنگی طیارہ مار گرانے پر انہیں ستارۂ جرأت ملا۔ اگلے ہی سال انہیں اردن بھیج دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن پر حملہ کیا تو سیف الاعظم نے دو اسرائیلی جہاز تباہ کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں عراق بھیج دیا گیا اور وہاں بھی انہوں نے دو اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اردن کے حکمران شاہ حسین نے سیف الاعظم کو فوجی اعزازات تو دیئے، لیکن وہ سیف الاعظم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر عمان کی سڑکوں پر گھومنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
سیف الاعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وہ بنگلہ دیش ایئر فورس کا حصہ بن گئے اور 1979ء میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسری کہانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی ہے۔ وہ 1970ء میں پاکستان کی طرف سے اردن بھیجے گئے۔ ستمبر 1970ء میں شاہ حسین نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اردن سے نکالنے کیلئے ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں ٹینک بھی استعمال ہوئے۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی۔ اس آپریشن کے دوران پی ایل او اور اردن کی فوج میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مہاجرین بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کی کامیابی پر شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو بھی ایک تمغہ دیا، لیکن یہ تمغہ ضیاء الحق کیلئے کبھی عزت کا باعث نہ بن سکا۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کے آپریشن پر احمد ندیم قاسمی نے ’’اردن‘‘ کے نام سے اپنی نظم کو ان الفاظ پر ختم کیا؎
جو ہاتھ ہم پہ اٹھے
ہمارے ہی ہاتھ تھے
مگر ان میں کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس سے پوچھیں؟
چلو، چلیں آئینوں سے پوچھیں
آئینوں سے کیا پوچھتے؟
یہی بریگیڈیئر ضیاء الحق 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے کہا کہ افسوس اردن میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھانے والا پاکستان کا حکمران بن گیا۔ ضیاء الحق نے فلسطینیوں کیساتھ جو کیا، اسے پاکستانی قوم بھول چکی ہے، لیکن فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پی اے ایف کے ایک اور بہادر شاہین عبدالستار علوی نے شامی ایئر فورس کے مگ 21 کے ذریعے اسرائیلی طیارہ مار گرایا اور پاکستان کیلئے عزت کمائی۔ مجھے لبنان اسرائیل جنگ کے دوران لبنان اور شام میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں مجھے مصر کے راستے غزہ جانے کا اتفاق بھی ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں سے ننھے فلسطینی سنگ بازوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے فائر سے خون میں نہاتے دیکھا۔ بیروت سے غزہ تک اور دمشق سے قاہرہ تک، میں جہاں بھی گیا عربوں کو پاکستان کے پائلٹ یاد تھے۔ وہ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی تحسین کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ جنرل ضیاء الحق کی مذمت کرنا نہیں بھولتے تھے۔
یہ مت دیکھئے کہ عرب ممالک کے حکمران پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ عرب ممالک کے عوام پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کیخلاف اتحاد ختم ہو جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کیساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ کیا اس مشورے کے پیچھے پاکستان کا مفاد ہے یا کسی اور کا مفاد ہے؟ 2018ء میں امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کی نئی کتاب Fear یعنی ’’خوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق، شام، لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی داہام الانازی نے عربی اخبار ’’الخلیج‘‘ میں ’’ریاض میں اسرائیلی سفارتخانہ کیلئے ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہیئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے، کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عرب میڈیا میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں یا نہیں؟ سعودی حکومت اس معاملے پر فی الحال خاموش ہے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ مسلم ممالک کی بڑی اکثریت نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کئے۔
ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، الجزائر، صومالیہ، سوڈان، شام، ایران، یمن، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، تیونس اور دیگر ممالک شامل ہیں، لہٰذا پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کر لو، تاکہ باقی مسلم ممالک کو بھی یہ مشکل کام کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے اسرائیل اور بھارت کا پاکستان دشمن اتحاد ختم ہو جائیگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے ایک نئے اتحاد میں شامل کرنے کی تیاری ہے۔ کیا پاکستان کا یہ اقدام ہمارے آئین کی دفعہ 40 کی خلاف ورزی نہیں ہوگا، جو پاکستانی ریاست کو اسلامی اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کا پابند بناتی ہے؟ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے یا کرائے کا گوریلا بننا ہے۔؟
کوئی مانے یا نہ مانے، آج پاکستان کو اسرائیل کی نہیں، اسرائیل کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے یورپ میں حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 28 یورپی ممالک میں سے 9 یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسپین، فرانس اور آئرلینڈ بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کو نہیں مانتی۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے، کیونکہ دنیا پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر حریمی کاربن کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل جیوش اینٹی زیاونسٹ نیٹ ورک (آئی جے اے این) کے نام سے یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے اور اسرائیلی ریاست کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔
اس تنظیم کی بانی برطانوی مصنفہ سیلما جیمز خود یہودی ہیں۔ آج اسرائیل کیلئے سیلما جیمز اور نوم چومسکی جیسے دانشور دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز کی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھائیں، اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فائدہ کسے ہوگا؟ پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ مسئلۂ فلسطین کا حل مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہیں کھولے گا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے دبائو یا چند ارب ڈالر کے عوض مشرقِ وسطیٰ میں وہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے، جو 1970ء میں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے اردن میں کی تھی۔
تحریر: حامد میر
"بشکریہ روزنامہ جنگ"