وحدت نیوز (لاہور) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیر انتظام اور متحدہ طلباء محاذکے زیر اہتمام پنجابی کمپلکس لاہور میں وحدت اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شیعہ سنی مسلمانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اس تقریب کا آغاز حافظ محمد علی نے تلاوت قرآن مجیدسے کیا ،مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ناصر شیرازی ایڈووکیٹ سمیت متحدہ طلباء محاذ اور امامیہ اسوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر سید سرفرازنقوی ،جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی،جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور متحدہ طلباء محاذ کی رکن تنظیموں کے سربراہان نے خطاب کیا۔
یہ سیمینار صحیح معنوں میں وحدت المسلمین کا مظہر تھا،جس میں تمام مسالک کے جید علمائے کرام،طلبا تنظیموں کے رہنما،معروف شخصیات اور دیگر افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے ، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکرا اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری امور خارجہ، المصطفیٰ فاونڈیشن نارتھ امریکہ اور ولایت ٹی وی کے چیئرمین علامہ سید ظہیر الحسن نقوی عارضہ قلب میں مبتلاہونے کے باعث امریکہ کے مقامی اسپتال میں داخل کردیئے گئے ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق انہیں دل کا معمولی دورہ پڑا تھاجس کے باعث انہیں اسپتال میں داخل کرلیا گیا ہے ،ضروری ٹیسٹ اور چیک اپ کے بعد انہیں اسپتال سے فارغ کردیا جائے گا، علامہ ظہیر الحسن نقوی کی علالت پر مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ،مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصرعباس شیرازی، مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی اور دیگر نے اپنے مشترکہ بیان میں ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور ان کی جلد مکمل صحت یابی کی دعا کی ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان مسائل کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ نا اہل حکمران ہیں،صحت ،تعلیم اور روزگارکی فراہمی سمیت بنیادی اہداف پر کوئی ایسی حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی جسے بہترین نتائج کی حامل قرار دیا جا سکے۔پڑوسی ممالک سے بگڑتے ہوئے تعلقات ناکام خارجہ پالیسی کا عکاس ہیں۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تنظیمی اجلاس میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں انصاف ناپید ہو چکا ہے۔ طبقاتی تفریق لوگوں میں مایوسی پیدا کر رہی ہے جس سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔میرٹ کی بجائے اقربا پروری ،سفارش ،رشوت اور اختیارات کی بالادستی ہر شعبہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ریاست اور عوام کے تعلق میں دانستہ طور پر دوری پیدا کی جارہی ہے تاکہ حب الوطنی کے جذبات کو دلوں سے نکالا جا سکے۔پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوان روز گار کے لیے دربدر جبکہ اعلی عہدوں کو من پسند افرا دمیں بانٹا جا رہا ہے۔قومی اداروں کو حکمران ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔دہشت گردی کے خاتمے میں حکومت کی سنجیدگی اخباری بیانات کی حد تک دکھائی دے رہی ہے۔حکمرانوں کے طرز عمل سے یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ انہیں ملک و قوم کے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک وجہ بے روزگاری بھی ہے۔مختلف ممالک میں پڑھے لکھے لوگوں کو با عزت روزگار فراہم کرنے کے لیے صنعتیں لگائی جاتیں ہیں لیکن یہاں صعنت سازی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے ۔ملک کے چھوٹے بڑے مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات برائے نام ہیں۔سرکاری تعلمی اداروں میں داخلے کے رجحان میں واضح کمی تعلیم کے میدان میں بُری طرح ناکامی کو آشکار کر رہی ہے۔انہوں نے کہا موجودہ حکمران ملک سنوارنے کے لیے اقتدار میں نہیں آئے ۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی نے پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پر داغدار کیا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول میں قیمتی اور معصوم انسانی جانوں کا ضیاع وہ ناقابل تلافی نقصان ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔انہوں نے کہ دہشت گرد گروہوں نے مختلف مقامات کو نشانہ بنا کر ارض پاک کو ایسے قابل اور ہونہار افراد سے محروم کیا جو قوم کا قیمتی سرمایہ تھے۔ملک میں دہشت گردی کی تقویت کا بنیادی سبب وہ تکفیری گروہ ہیں جو تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے موجودگی کے باوجود یہ طاقتیں پوری ڈھٹائی سے ملک میں نظریاتی مخالفین کے قتال اور کفر کے فتوی دینے میں مصروف ہیں۔اگر ان کو نہ روکا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کا عندیہ قابل ستائش ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر ضروری تساہل دہشت گردوں کے حوصلوں میں اضافہ کرے گا۔ دہشت گرد گروہوں کے سہولت کار وں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔حکومت کی راہ میں حائل سیاسی مجبوریاں ان کالعدم جماعتوں پر ہاتھ ڈالنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیاسی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے جن کی شر انگیز تقریریں قومی سلامتی کے منافی ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 12 سال(83-95 ھجری) کی مدت پر مشتمل ہے،
۲۔ اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دوران امامت میں گزاری گئی زندگی جو تقریبا 19 سال کی مدت(95-114 ھجری) پر محیط ہے اور
۳۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے اپنے دوران امامت پر مشتمل مدت جو تقریبا 34 سال(114-148 ھجری) ہے اور تمام ائمہ علیھم السلام کی مدت امامت سے زیادہ ہے۔
ہماری بحث امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے تیسرے حصے پر متمرکز ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی مدت امامت کے دوران بنی امیہ کے پانچ اور بنی عباس کے دو خلفاء یکے بعد از دیگرے برسراقتدار آئے۔ بنی امیہ کے خلفاء یہ تھے:
۱۔ ھشام بن عبدالملک،
۲۔ ولید بن یزید،
۳۔ یزید بن ولید عرف ناقص،
۴۔ ابراہیم بن ولید،
۵۔ مروان بن محمد عرف مروان حمار۔
مروان حمار بنی امیہ کے سلسلے کا آخری حکمران تھا۔ اسکے دور میں اسلامی سلطنت بین عباس کی سرکردگی میں ایک وسیع بغاوت کا شکار ہو گئی جو بنی امیہ کے سلسلہ خلافت کے خاتمے اور بنی عباس کے برسراقتدار آنے کا باعث بنی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی بنی عباس کے دو خلیفوں کے ہمراہ تھی۔
۶۔ عبداللہ بن محمد عرف سفاح،
۷۔ ابوجعفر منصور عرف دوانیقی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی دوران امامت زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
۱۔ اسلامی معاشرے کے تشخص کی بحالی کیلئے علمی جدوجہد اور
۲۔ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی اور اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے انقلابی ہدف کی حفاظت اور اسکا تسلسل۔
ہم اس مضمون میں دوسرے حصے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی تمام تر سیاسی جدوجہد کا محور کربلا کے مشن کو زندہ رکھنا اور اسے منحرف ہونے سے بچانا تھا۔ لہذا اس کیلئے آپ علیہ السلام نے دو بنیادی کام انجام دیئے۔
۱۔ اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السلام کے مشن کو صحیح اور درست انداز میں پیش کیا، اور
۲۔ خود اور اپنے مخلص شیعوں کو تمام ایسی سیاسی تحریکوں میں شرکت سے دور رکھا جنکا مقصد جاہ طلبی اور حکومت پر قبضے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات انجام دیئے:
۱۔ حضرت امام حسین علیہ السلام
جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے،
امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے سفر کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی مکتب امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور کربلا کے ہدف کو آگے بڑھانے میں صرف کر دی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کثرت کے ساتھ کربلای معلی جایا کرتے تھے اور باقاعدگی سے امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی نظر میں یہ عمل امام حسین علیہ السلام کے مشن کو زندہ رکھنے اور اسے جاری رہنے میں انتہائی اہم کردار کا حامل تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شیعیان اور محبین کو بھی زیارت قبر مبارک امام حسین علیہ السلام کی بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ ایک موقع پر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر آپ میں سے کوئی شخص اپنی ساری زندگی حج کرنے میں گزار دے لیکن حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے نہ جائے تو گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حق ادا نہیں کیا، کیونکہ حسین علیہ السلام کا حق وہ حق ہے جسکا ادا کرنا خدا نے تمام مسلمانوں کیلئے واجب قرار دیا ہے"۔(مزار شیخ مفید، صفحہ 37)۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
"جو شخص بھی چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوان پر مدعو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زائران امام حسین علیہ السلام میں شامل ہو جائے"۔ (کامل الزیارات، باب 43، صفحہ 121)۔
۲۔ مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا انعقاد:
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشھداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔
ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"،
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، اسکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدت الحسین فقل لاعظمہ الزکیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے جد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں اور انکے پاکیزہ بدن کو مخاطب کر کے کہیں ۔۔۔۔۔"
امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۳۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سلطنت اسلامی کے مختلف مقامات پر انقلابی تحریکوں نے جنم لیا جن میں سے سب سے زیادہ معروف حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام کی انقلابی تحریک تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اگرچہ واضح طور پر اس انقلابی تحریک کی حمایت کا اعلان نہیں کیا لیکن اندر ہی اندر اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور حضرت زید رح کے ہمراہ شہید ہونے والے تمام افراد کے گھر والوں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ آپ علیہ السلام نے حضرت زید کی تحریک کو انقلاب حسینی کا نام دیا اور انکے بارے میں فرمایا:
"ایسا مت کہیں کہ زید نے بغاوت کی ہے۔ زید ایک سچے عالم تھے اور ہر گز طاقت کے خواہاں نہ تھے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خاندان پیغمبر کے پسندیدہ شخص کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو حتما اپنے وعدے پر عمل کرتے۔ انہوں نے حکومت سے ٹکر لی تاکہ اسکا خاتمہ کر سکے"۔(کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104)۔
۴۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے شیعیان کو حکومت
امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔
کی کسی پیمانے پر بھی مدد کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے فقہی حکم "اعوان ظلمہ" کو متعارف کروایا جسکے تحت ظالم حکمرانوں کی مدد شرعا حرام تھا۔ ایک شخص جس کا نام عذافر تھا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ لین دین کرتا رہتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
"قیامت کے دن جب تمہیں بھی ظالم افراد کے ساتھ شامل کیا جائے گا تو اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی؟"۔
امام علیہ السلام کے اس جملے نے اس شخص کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ سخت غمگین ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد دکھ اور غم کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی متعدد روایات موجود ہیں جن میں ظالم حکومت سے مقابلہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔(وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 127)۔
یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام پوری طرح سیاسی طور پر سرگرم عمل تھے اور جہاں تک آپ علیہ السلام کیلئے ممکن تھا مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی فرماتے تھے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ لہذا جب ابوسلمہ خلال نے بنی امیہ کے خلاف امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بیعت کرنے کی پیشکش کی تو آپ علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد کہا:
"مجھے ابوسلمہ سے کیا کام؟، وہ کسی اور کا پیروکار
امام صادق علیہ السلام اگر دیکھتے تھے کہ کوئی شخص یا گروہ صرف اور صرف طاقت اور حکومت کے حصول کیلئے سیاسی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے تو نہ صرف خود اسکے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پیروکاروں کو بھی انکی ہمراہی سے سختی سے منع فرماتے تھے۔
ہے"۔
جب قاصد نے امام صادق علیہ السلام سے اصرار کیا کہ خط کا جواب ضرور دیں تو آپ علیہ السلام نے اپنے خادم سے چراغ منگوایا اور ابوسلمہ کے خط کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ قاصد نے پوچھا کہ جواب کیا ہوا؟۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"جواب یہی تھا جو تم نے دیکھ لیا، جو کچھ دیکھا ہے جا کر اپنے دوست کو بتا دو"۔ [مروج الذھب، جلد 3، صفحہ 253؛ الفخری، صفحہ 154]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ابوسلمہ کی نیت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ انکے ساتھ مخلص نہیں ہے اپنی حکومت کے چکر میں ہے اور امام علیہ السلام کی شخصیت کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اس حقیقت کا مزید علم اس بات سے ہوتا ہے کہ ابوسلمہ نے ساتھ ہی علویوں کی دو اور شخصیات حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بیٹے عمر اشرف اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے پوتے عبداللہ محض کو بھی لکھے جن میں انکی بیعت کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اسی طرح بنی عباس کے بانی ابومسلم خراسانی نے بھی امام صادق علیہ السلام کو خط لکھا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی پیشکش کی۔ امام علیہ السلام نے اسکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اسے جواب میں لکھا:
"تم میرے ساتھیوں میں سے نہیں ہو اور یہ وقت بھی میرے قیام کا وقت نہیں ہے"۔(ملل و نحل شہرستانی، جلد 1، صفحہ 142)۔
امام صادق علیہ السلام کو معلوم تھا کہ انکے ساتھ تعاون انہیں حکومت تک پہنچانے کا سبب بننے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا اور انکی شکست کی صورت میں سوائے اپنے پیروکاروں کیلئے خطرات مول لینے کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
اگر ہم امام صادق علیہ السلام کی سیاسی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ آپ علیہ السلام سیاست برای سیاست کے قائل نہیں تھے بلکہ سیاست کو اعلی اسلامی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام پوری طرح ہوشیار تھے کہ خود اور آپکے پیروکار کسی کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔ امام صادق علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو تاکید کرتے تھے کہ نہ بنی امیہ اور نہ ہی بنی عباس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ اس طرح امام علیہ السلام نے ان دونوں جاہ طلب اور دنیا پرست ٹولوں کا مقابلہ کیا۔
تحریر:آیت اللہ العظمیٰ جعفرسبحانی
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور فلاح وبہبود علامہ سید باقر عباس زیدی ملی یکجہتی کونسل سندھ کے نائب صدر، ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات سیدعلی حسین نقوی ممبر مصالحتی کمیشن ملی یکجہتی کونسل سندھ اور ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری امور تربیت علامہ محمد صادق جعفری ممبر خطبات جمعہ کمیشن ملی یکجہتی کونسل سندھ نامزد ہو گئے ہیں ، تفصیلات کے مطابق ملی یکجہتی کونسل صوبہ سندھ کا انتخابی اجلاس ادارہ نورحق میں سربراہ ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ڈاکٹر ابولخیر محمد زبیراور سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آئندہ تین سال کیلئے صوبائی کابینہ کے اراکین کا انتخاب عمل میں لایا گیا،جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر، جمعیت علمائے پاکستان کے علامہ قاضی احمد نورانی سیکرٹری جنرل ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور فلاح وبہبود علامہ سید باقر عباس زیدی نائب صدر،ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات سیدعلی حسین نقوی ممبر مصالحتی کمیشن ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے سیکریٹری امور تربیت علامہ محمد صادق جعفری ممبر خطبات جمعہ کمیشن اور دیگر اراکین کا چنائو عمل میں آیا ۔