وحدت نیوز(آرٹیکل) افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔باشعوراقوام اپنے بہادر جرنیلوں کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں،استعمار جب بھی کسی ملک کو توڑنا چاہتاہے تو سب سے پہلے اس کی فوج کو کمزور کرتاہے،چونکہ صرف کمزور فوج ہی استعمار کی آلہ کار بنتی ہے۔جب تک کسی ملک کی ملی فوج مضبوط رہتی ہے ،اس ملک کا پرچم سربلند رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک و اقوام کی طرح ملت پاکستان بھی اپنی فوج سے والہانہ عشق اور لگاو رکھتی ہے۔
ہمارے ہاں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تقرر بنیادی طور پرجی ایچ کیو کی جانب سے ہی کیا جاتاہے۔ابتدائی طور پر جی ایچ کیو کی طرف سے سینئر ترین فوجی افیسرز کی فہرست وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم کو بھیجی جاتی ہے۔فہرست کا مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے دہانے پر کھڑے آرمی چیف سے اس بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔
جب وزیرا عظم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو صدر مملکت کو اعلان کرنے کے لئے مجوزہ نام بھیج دیتے ہیں۔یوں وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں۔چنانچہ صدر مملکت کو کمانڈر انچیف بھی کہاجاتاہے۔
مذکورہ مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پرلیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقررکردیاہے۔یہ دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھا لیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ریٹائرڈ ہوں گے۔
جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجویشن کے علاوہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرنے کے علاوہ انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔
اسی طرح لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو بھی پروفیشنل اعتبار سے ایک مثالی افیسر سمجھا جاتاہے۔ وہ فورٹ سل اوکلوہوما (امریکا)، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کیمبرلے (برطانیہ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ۔
یہاں پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے چلییں کہ کوئی بھی شخص جتنا باصلاحیت اور لائق ہوتا ہے ،اس سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ مملکت پاکستان ہمارے پاس ایک الٰہی نعمت ہے اورہمارے مسئولین کے پاس اس کی اہم پوسٹیں ایک خدائی امانت ہیں۔چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں مملکت خداداد میں دین اور ملک و قوم کی خدمت کا شرف حاصل ہوتاہے۔
اس وقت ہمارا ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کے حل کی اصلی کلید پاکستان آرمی کے پاس ہی ہے۔لہذا ملت پاکستان اپنے سپہ سالاروں سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاس ملت کو مسائل سے نجات دلائیں۔
اس وقت ہمارے اہم مسائل کی فہرست ہم پیش کئے دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے نئے سپہ سالار ،ان مسائل کو حل کرنے میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔
۱۔مسئلہ کشمیر اور پاکستانی فوج کا کردار
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج کبھی بھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتی لیکن اس مسئلے کو کشمیری عوام کی منشا اور رضایت کے بغیر حل بھی نہیں کیاجاسکتا۔دشمنوں کی چالوں اور اپنوں کی نااہلی کے باعث گزشتہ چند سالوں سے اس مسئلے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت کنٹرول لائن پر پائی جانے والی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود یہ جان لیجئے کہ موجودہ کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کو اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کا براہِ راست اثر اہلیانِ کشمیر پر پڑا ہے۔کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو اپنا جزوِایمان سمجھنے والے کشمیری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں تو کسی ہندو کی گولی کے بجائے کسی تکفیری کے فتوے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
پاکستان کو اپنی آخری اور اصلی منزل سمجھنے والے کشمیریوں کی نئی نسل اپنے ابا و اجداد کے فیصلے پر نظر ثانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس وقت پاکستان میں پائے جانے والے تکفیری عناصر کے حوالے سے پاکستانی فوج کو فیصل کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلہ کشمیر کے سلسلےمیں پاکستان سے تکفیریت کا خاتمہ ضروری ہے۔
دشمن پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے،لہذا پاکستانی فوج کو بھی تکفیریت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۲۔جہادی گروہ ضرورت یا مصیبت
بلاشبہ پاکستان نے کسی دور میں روس اور ہندوستان سے نمٹنے کے لئے جہادی گروپوں کو تشکیل دیا تھا۔اب یہ گروپس اپنے اصلی خطوط سے منحرف ہوچکے ہیں اور اپنے اصلی محازوں کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں نہتے عوام کا خون بہارہے ہیں۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جو گروپس آئین پاکستان اور افواج پاکستان کی تابعداری کرتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہیں انہیں باقی رہنا چاہیے لیکن جو قائد اعظم کو کافر اعظم ،پاکستان کو کافرستان، ملت پاکستان کو کافر و مشرک ،آئین پاکستان کو شرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ،ایسے گروپوں کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔
ایسے گروپ، ہماری نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف ابھارتے ہیں،اپنے ہی ملک کے خلاف اکساتے ہیں اور خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔
ایسے گروہوں کو فعالیت کی اجازت دینا در اصل پاکستان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔لہذا افواج پاکستان کو سب سے پہلے اپنے ان اندرونی دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
۳۔ملکی اثاثوں کی حفاظت
ملکی اثاثوں میں صرف ایٹمی اثاثہ جات نہیں آتے بلکہ ہمارے ملک کے اصلی اثاثہ جات وہ دانشور ،پولیس آفیسر اور آرمی کے جوان ہیں جو اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں شعرا،ادبا،دانشمندوں اور پولیس و فوج کی قیمتی شخصیات اس کے علاوہ سکول کے بچوں کو شہید کیا جارہاہے۔
موجودہ صورتحال پاکستان آرمی کے سامنے ہے،اب فوج کو چاہیے کہ ایٹمی اثاثوں کی طرح اہم شخصیات اور مراکز کی حفاظت کو بھی اپنی اولین ترجیح قرار دے۔
۴۔دوسرے ممالک کے نفوز کا خاتمہ
پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد اور سرپرستی کے حوالے سے،افغانستان ،ہندوستان اور سعودی عرب کا نفوز کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔دہشت گرد گروہ جہاں اندرونی طور پر ہمیں کمزور کرتے ہیں وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو دھچکا لگتاہے۔پاکستان کی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے مفاد کے خلاف دیگر ممالک کے اشاروں پر چلنے والے تمام نیٹ ورکس کو توڑا جائے اور ایسے اداروں کو سیل کیاجائے۔ یہ کام پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لائے بغیر نہیں ہوسکتا۔
۵۔پاکستان آرمی سے فرقہ واریت کا خاتمہ
اگرچہ پاکستان آرمی بظاہر ہرقسم کی فرقہ واریت سے پاک ادارہ ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کو آرمی میں رائج کیاگیا۔اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا،لہذا پاکستان آرمی سے فرقہ وارانہ سوچ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے اور فرقہ واریت کی جگہ بھائی چارے،اخوت اور مواخات کی عملی ٹریننگ کے لحاظ سے اقدامات کئے جانے چاہیے۔
۶۔کرپشن کا خاتمہ
پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی ملک ہے۔جولوگ اس ملک میں کرپشن کرتے ہیں وہ در اصل ملک و قوم کے غدار ہیں۔ان غداروں سے نمٹنے کے لئے پاکستان آرمی کے پاس شفاف اور بااختیار مانیٹرنگ سیل ہونا چاہیے۔
یاد رکھئے !کرپشن صرف بڑی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ میڈیسن کمپنیوں،پلاٹوں کی خریدوفروخت، تھانے، کچہری ،نادرا ،برقیات اور دیگر اداروں میں میں چپراسی اور اردلی کی سطح سے شروع ہوتی ہے اور اوپر کی سطح تک جاتی ہے۔
لوگ پریشان حال ہیں،کہیں میرٹ نہیں کہیں شنوائی نہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔برقیات والے بغیر میٹر ریڈنگ کے بل دیتے ہیں،واٹر سپلائی والے کئی ہفتوں تک پانی ہی نہیں دیتے،دہشت گرد دندناتے ہیں،عدل بکتا ہے،انصاف سسکتاہے،مخلوق خدا بے بس ہے۔
آرمی کے ایسے شکایات سیل ہونے چاہیے جہاں لوگ اپنی چھوٹی موٹی شکایات سے لے کر بڑے بڑےمسائل تک سب کچھ لے کر جائیں اور آرمی کے دیانتدار ادارے کی زیر نگرانی عوامی مسائل حل کئے جائیں۔اس طرح سے ریاست پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور جذبہ حب الوطنی میں بھی اضافہ ہوگا۔
۷۔قبائلی علاقہ جات
قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔جب تک قبائلی علاقہ جات قومی ٓارمی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے اس وقت تک ملکی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوںمیں نصاب تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اجتماعی اور قومی شعور کو پروان چڑھایاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات کی تعمیروترقی میں بھی مسلح افواج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور وہاں کےعوام کے ساتھ مکالمے کی فضا کو بہتر بنانا چاہیے۔
۸۔شمالی علاقہ جات کے آئینی حقوق
پورے ملک خصوصا شمالی علاقہ جات کے عوام اور پاک فوج یک جان دو قالب ہیں۔پاک فوج کو شمالی علاقہ جات کے عوام کے آئینی حقوق کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چونکہ جنرل باجوہ کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے لہذا شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے آئینی حقوق کے حوالے سے ان سے امیدیں لگانے میں حق بجانب بھی ہیں۔
۹۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد
نیشنل ایکشن پلان کو اس کے حقیقی اہداف کی طرف پلٹانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ملکی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔فوج کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی تحفظ ہے اور یہ تحفظ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بغیر ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔جو جرنیل اس امتحان میں پورے اترتے ہیں آئندہ نسلیں ان کی عظمت کے گن گاتی ہیں اور جو اس امتحان میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (سکھر) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکر یٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے ایک وفد کے ہمراہ ڈی آئی جی سکھر فیروز شاہ سے ملاقات کی، اس موقع پر صوبائی سیکریٹری تبلیغات علامہ محمد نقی حیدری ،صوبائی سیکریٹری یوتھ فدا حسین سولنگی، ڈپٹی سیکریٹری جنرل ضلع خیر پور مولانا سعید احمد سعید،ضلعی سیکریٹری عزاداری مولانا ملازم حسین ،سید غلام شبیر نقوی و دیگرشریک ہوئے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین، ملت جعفریہ کی نمائندہ ، ملک گیر جماعت ہے ، جو ملک میں امن کے فروغ اور اتحاد بین المسلمین کے لئے سر گرم عمل ہے ۔خیرپور انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت جعفریہ کے آئینی حقوق اور مذہبی آزادیوں کا احترام کرے اور کالعدم دہشت گرد جماعت کے خلاف گھیرا تنگ کرے ۔ہمیں سندہ کے مختلف اضلاع خصوصا خیر پور میں دہشت گردوں کی فعالیت اور مراکز کی نفرت انگیز سر گرمیوں پر بھی تشویش ہے۔اس موقع پر مولانا سعید احمدنے خیرپور کے مسائل سے ڈی آئی جی کو آگاہ کیا۔
اس موقع پر ڈی آئی جی فیروز شاہ نے کہا کہ ایام عزا میں مجلس وحدت مسلمین نے قیام امن کے سلسلے میںہر سطح پر پولیس اور انتظامیہ سے بھر پور تعاون کیا جو قابل ستائش ہے ۔کالعدم جماعت کی سر گرمیوں پر ہماری نظر ہے ۔انہوں نے مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) سی پیک ایک معمہ ہے جس پر حکومت کی پوزیشن روز بروز الجھتی جارہی ہے،اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین سی پیک میں صوبے کو محروم رکھے جانے کا واویلا کررہے ہیں لیکن صوبائی وزراء اس میگا پراجیکٹ سے خاطر خواہ فائدے سمیٹنے اور خطے میں خوشحالی کی منادی کرتے نہیں تھکتے۔صرف یہی نہیں بلکہ حکمران جماعت اور ان کے حامی اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں حزب اختلاف اور ناقدین کے اعتراضات کو مخالفین کی مایوسی پھیلانے اور حتیٰ کہ اس منصوبے کے خلاف سازش کرنے کی انتہائی سنگین الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے ،لیکن کیا کہا جائے کہ اب یہ باتیں صرف مخالفین ہی نہیں بلکہ انتہائی ذمہ دار حلقے بھی ببانگ دھل اقتصادی راہداری منصوبے میں حصہ نہ ملنے پر صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔اس سلسلے میں چیئرمین اقتصادی راہداری کونسل سنیٹر طلحہ محمود نے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے " صوبائی حکومت سی پیک میں اپنا حصہ نہیں مانگ رہی ہے" انہوں نے اس سیاق و سباق میں بہت کچھ کہا ہے جس کی تفصیلات اخبارات میں موجود ہیں (بحوالہ روزنامہ بادشمال مورخہ 26 نومبر 2016) ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں وہ یہ کہ موصوف کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ دوسرے صوبے سے ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں کاروباری اور سماجی شعبے میں ایک عرصے سے خدمات انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔اسی کو کہتے ہیں جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے۔
گلگت بلتستان جو اقتصادی راہداری منصوبے کا گیٹ وے ہے لیکن بظاہر تمام حکومتی دعوئوں کے برعکس ابھی تک گلگت بلتستان میں کوئی بڑا منصوبہ سی پیک میں شامل ہونے کے مستند ثبوت سامنے نہ آسکے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے جو سنیٹر سید مشاہد حسین نے گلگت بلتستان سی پیک میں شامل نہ ہونے کا انکشاف کیا اور اس حوالے سے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اقتصادی راہداری منصوبے نے بھی خطہ گلگت بلتستان میں کوئی منصوبہ اس حوالے سے نہ رکھے جانے کا آن ریکارڈ آبزرویشن دی چنانچہ اتنے زیادہ معتبر ذرائع سے آنے والی خبروں اور اطلاعات کو مخالفین کی ریشہ دوانیاں قرار دیکر عوام کو بیوقوف بنانا سی پیک کی قطعاً کوئی خدمت نہیں بلکہ افسوناک اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ یہ بات بھی قابل ملاحظہ رہے کہ صوبائی وزراء اکثر ایسی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں ۔کبھی گلگت سکردو روڈ،کبھی گلگت میں میڈیکل کالج،کبھی دیامر باشہ ڈیم اور نہ جانے کون کونسے منصوبے سی پیک کا حصہ قرار دئیے جاتے ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبہ ایک عظیم ترقیاتی منصوبہ ہے جو دنیا بھر میں زیر بحث ہے،دوست اور دشمن سب اس میگا پراجیکٹ پر اپنے تاثرات اور رد عمل دے رہے ہیں۔دوست اس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کررہے ہیں،روس،ایران اور ترکمانستان اور دیگرکئی ممالک نے اس منصوبے میں اپنی شمولیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور مستقبل قریب میں کئی اور ممالک بھی ان کے پیچھے پیچھے اس عظیم منصوبے کا حصہ بننے کی تیاری کررہے ہیں۔ہندوستان اور دیگر کئی طاقتیں اس منصوبے سے ناخوش ہیں ،ان حالات میں اس منصوبے کو بہترین حکمت عملی اور شفاف طریقے سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے اربوں ڈالر کا یہ عالمی سطح کا منصوبہ زبانی کلامی خرچ سے تو نہیں چل سکتا بلکہ اس حوالے سے سالوں پہلے تخمینے، تجزیئے اور پورا پورا حساب کتاب کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے اگر صوبائی حکومت اور وفاق نے گلگت بلتستان کو اس کے حصے کا کوئی منصوبہ دیا ہوتا تو لامحالہ اس پراجیکٹ کے کسی بھی مرحلے میں مرتب نقشوں اور بجٹ میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا لیکن ابھی تک اس کی تصدیق کسی بھی فورم پر تاحال سامنے نہیں آئی۔چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو طفل تسلیوں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے اس اہم ترین خطے کو سب سے پہلے اس میگا پراجیکٹ کی اکائی تسلیم کرتے ہوئے قابل عمل منصوبے بنائے اور حقائق تسلیم کرے ورنہ صوبائی حکومت کے دعوئوں اور اعلانات کی حیثیت کوکوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
گلگت بلتستان فطری اور جغرافیائی طور پر پاک چین دوستی اور تجارت کا بلا شرکت غیرگیٹ وے ہے۔یہ رشتہ دونوں خطوں کے مابین قیام پاکستان سے صدیوںقبل سے قائم ہے،اس دوستی اور تعلق میں کسی خاص پارٹی یا جماعت سے زیادہ ان تہذیبی، جغرافیائی قربت اور تاریخی قدروں کا عمل دخل رہا ہے۔ صدیوں قبل چینی سیاح اور بدھ مت کے پیروکار مذہبی دوروں اور سیاحت کیلئے اس علاقے سے گزرتے رہے ہیں جس کے شواہد آج بھی گلگت بلتستان کی مختلف وادیوں میں پتھروں اور چٹانوں پر کندہ ہیں،لہٰذا کوئی سازش یا طاقت ان خطوں کی آپس کے رشتوں اور تعلق کو خراب نہیں کرسکتی، چنانچہ اس حوالے سے حکومت کو چندان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان اسباب کی روک تھام پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے جو عوام میں اس حوالے سے بد گمانیاں پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام اور یہاں کا بچہ بچہ اپنی تاریخ اور روایات کا امین ہے آج ہمارے بھائی نہ صرف سیاچن اور کارگل میں پانی مادر وطن کا دفاع کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ہیں بلکہ پاکستان کے ایک ایک چپے کے دفاع کیلئے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔انشاء اللہ گلگت بلتستان کے عوام بیرونی دشمنوں کی ہر سازش کے سامنے قراقرم اور ہمالیہ کی چٹانوں کی مانند سربلند اور سربکف دفاع کیلئے آمادہ و تیار ہیں تاہم گلگت بلتستان کے عوام کی خلوص اور سادگی کا جواب بھی ویسا ہی ملنا چاہئے۔یہ بھی یاد رہے کہ گلگت بلتستان معاشی افلاس، بیروزگاری اور دیگر گوناگوں مسائل کے دلدل میں ہے خطے کو اس کیفیت سے نکالنے اورآنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے صوبائی حکومت کووفاق سے اپنا حصہ لینے کیلئے دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے اور اختلاف اور مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی کیونکہ تاریخ میں وہی کردار امر ہوتے ہیں جو سچائی اور حقیقت کیلئے قیام کرتے ہیں،چل چلائو کے خوگر تاریخ کے صفحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔
تحریر: عالمگیر حسین
ای میل:This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (ہری پور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبرپختونخوا کے سیکریٹری جنرل علامہ محمد اقبال بہشتی کی سربراہی میں وفد نے ضلع ہری پورکاتفصیلی دورہ کیا، اس موقع پر مختلف نوعیت کے پانچ عوامی اجتماعات منعقد کیئے گئے،مانکرہ میں علامہ اقبال بہشتی کے نمازجمعہ سے خطاب کے بعد، ضلعی کابینہ سےمیٹنگ، پھر خواتین کے ضلعی ویونٹ سیٹ اپ سے تنظیمی امور پر گفتگو ہوئی۔اسکے بعدحطار میں یونٹ سے میٹنگ اورمغربین کے بعدٹیکسلایونیورسٹی میں طلباءسے "قیام وپیام عاشورہ وفاتحان کربلاودمشق" کے موضوع پر خطاب کیا گیا۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں دہشتگردوں کے ٹریننگ کیمپس اور اڈے موجود ہیں، چپے چپے پر دہشتگردوں کی نرسریاں قائم کی گئی ہیں، کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں، پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور سندھ حکومت ان معاملات کو سنجیدہ لے اور دہشتگردوں کیخلاف فی الفور ایک بھرپور آپریشن کیا جائے گا،کیونکہ کالعدم تنظیمیں ملکی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ کراچی میں اہل تشیع پولیس اہلکاروں پر مسلسل حملے باعث تشویش ہیں، ڈی ایس پی ٹریفک فیض علی شگری کا بہیمانہ قتل اور ڈی ایس پی گلبرگ ظفر حسین پر قاتلانہ حملہ صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، اعلیٰ عسکری اور حکومتی شخصیات نیشنل ایکشن پلان کے تناظرمیں شہر قائد میں مکمل امن وامان کے کھوکلے دعوں میں مصروف ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بھر میں کالعدم تنظیموں اور دہشتگرد عناصر کیخلاف فوجی آپریشن ہونا چاہئے، اگر فوجی آپریشن میں کوئی رکاوٹ یا مشکل ہے تو پولیس اور رینجرز کے ذریعے آپریشن کیا جائے، کیونکہ جو دہشتگردی وانا اور وزیرستان میں ہو رہی تھی، اس کا رخ اب کراچی سمیت سندھ کی طرف موڑا جا رہا ہے، مستونگ سمیت بلوچستان سے دہشتگرد یہاں آتے ہیں، سندھ میں ان کے سہولت کارموجود ہیں،دہشتگردوں کا سندھ میں آنا جانا ایک بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں کالعدم تنظیمیں ناصرف آزادانہ فعالیت جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ آئے روز محب وطن اہل تشیع مسلمانوں کو دہشتگردی و بربریت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے، سندھ سمیت ملک بھر میں افراتفری و بدامنی پھیلانے کی سازشوں میں مصروف کالعدم دہشتگرد تنظیمیں ہی ملکی سالمیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں، سیکورٹی ادارے ان کالعدم تنظیموں کیخلاف موثر حکمت عملی کے تحت کارروائی عمل میں لائیں۔علی حسین نقوی نے کہا کہ ہم شہید ڈی ایس پی فیض علی شگری کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ، جبکہ ڈی ایس پی ظفر حسین کی مکمل صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں .
وحدت نیوز (میانوالی) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تنظیم سازی عدیل عباس زیدی اور سیکرٹری فلاح و بهبود علی رضا طوری نے ضلع میانوالی کا تنظیمی دوره کیا، اس موقع پر انہوں نے ایتام کمیٹی کی تشکیل دی جبکہ ضلعی تنظیمی کارکردگی کا تفصیل کے ساتھ جایزه لیا گیا، صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی عدیل عباس نے اعلان کیا کہ آئندہ صوبائی کابینہ کے دورے کے موقع پر ضلعی کابینہ کی تقریب حلف برداری منعقد کی جائے گی۔