وحدت نیوز(لاہور) امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نو منتخب مرکزی صدر سرفراز نقوی کے اعزاز میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام و المسلمین علامہ مبارک علی موسوی کی طرف سے پر تکلف استقبالیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر علامہ مبارک علی موسوی نے سرفراز نقوی کو آئی ایس او پاکستان کا مرکزی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے قومی و ملی امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ استقبالیہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مبارک موسوی کا کہنا تھا کہ آئی ایس او کی ملت تشیع کیلئے خدمات قابل قدر ہیں، تنظیم کو ملت تشیع کی مضبوطی کیلئے تربیتی امور پر عملی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او نے ہمیشہ نوجوانوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آئی ایس او نوجوانوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ کیلئے بالخصوص اور ملت پاکستان کیلئے بالعموم آئی ایس او کی خدمات لائق تحسین ہیں، تعلیم کا شعبہ ہو یا خدمت کا آئی ایس او کے کارکن ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ آئی ایس او سے ملت جعفریہ کو بہت سے امیدیں وابستہ ہیں، آئی ایس او ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ ملت کو مایوس نہ کرے اور ہمیشہ ہم نے تعلیم کا میدان ہو یا ملت جعفریہ کے معاملات نوجوانوں کی مثبت انداز میں رہنمائی کی ہے اور آئی ایس او نے ہمیشہ اپنے فیصلے خود کئے ہیں کسی کے آلہ کار کے طور پر کبھی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او اپنی روایت برقرار رکھے گی اور تعلیمی و ملی میدان میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتی رہے گی۔ تقریب کے آخر میں شہدائے ملت جعفریہ کے درجات کی بلندی کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ایک عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر زائرین کرام اور طلاب کے ساتھ ہتک آمیز رویہ قابل مذمت ہے، حکومت دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی بجائے پُرامن شہریوں کو محصور کرنے پر تلی ہے، جب تک دہشت گردوں کا خاتمہ اور اُن کے سرپرستوں کو عبرتناک انجام سے دوچار نہیں کیا جائے گا ملک میں امن ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں قافلہ سالاران کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد میں شامل قافلہ سالاروں نے علامہ اقتدار حسین نقوی کو کوئٹہ اور تفتان میں پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کیا اور اس حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کی اپیل کی۔ علامہ اقتدار حسین نقوی نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک لمبے عرصے سے حکومت کی ان کارستانیوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اب مزید خاموش نہیں رہیں گے، وفاقی حکومت زائرین کے مسائل کو فوری طور پر حل کرے اور سیکیورٹی کے نام پر محصور کرنے سے باز آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر کوئٹہ اور تفتان بارڈر پر زائرین کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ محرم الحرام کے موقع پر ملک کے بھر لاکھوں عزادار کربلا معلی میں امام حسین کی روز شہادت پر جمع ہوتے ہیں ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ محرم الحرام سے قبل زائرین کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں اگر حکومت نے اہانت کا سلسلہ ترک نہ کیا تو محرم الحرام میں جلوسوں کا رُخ حکمرانوں کے ایوانوں کی جانب ہو گا۔ اس موقع پر زوار غلام رضا، زوار حسن رضا کاظمی، زوار جام مہتاب حسین، زوار عرفان حیدر اور دیگر موجود تھے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) دنیا میں جتنے کامیاب اقوام رہے ہیں ان کی کامیابی میں تعلیم کا اہم کردار رہا ہیں، ترقی یافتہ اقوام یہ جان چکے ہیں کہ تعلیم کامیابی کا راز ہے۔ ہمیں دنیا کے عظیم اقوام میں اپنا شمار کروانا ہے تو تعلیم کا سہارا لینا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ زیور ہے جو انسان کے کردار، افعال، افکار اور کارکردگی میں ایسی خوبصورتی لے آتا ہے جو انسان کا رویہ ہ تبدیل کرکے ایسے ایک مثبت سوچ کا مالک اور معاشرے کو سنوارنے والا بنا دیتا ہے دیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ولایت جعفری نے کیا انہوں نے تعلیم کو ترقی کیلئے ضروری اور طلباء کو ملک کا عظیم سرمایاقرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طلباء اپنے تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں اور بہترین تعلیمی کارکردگی سے ملک و قوم کے فخرکا باعث بنے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں قوم کے نوجوانوں کا پڑھائی اور تعلیم کی طرف رجحان خوش آئیند ہے ہمارے نوجوان تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو گئے ہیں اور بے حد دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے تعلیم کو کامیابی کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم کو اپنی کامیابی کے حصول کیلئے با شعور عوام اور تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماج کی یہی اکائیاں بڑے سرمایوں کا کام کرتی ہے اور تعلیم کے حصول کے بعد طلباء کل کو معاشرے کے اہم ارکان ہوتے ہیں اور بہترین معاشرہ بہترین قوم اور ملک تشکیل دیتا ہے، اسکولوں میں بہتر تعلیمی نظام سے مثبت نتائج نکلیں گے اساتذہ کے قابلیت پر کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہتا مگر حکومت کو چاہئے کہ وقتاً فوقتاً اور جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کیلئے بھی کارگاہ رکھیں جائے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) وطن عزیز پاکستان کے یوم دفاع کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹریٹ سے جاری شدہ بیان میں ان تمام شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے اس سرزمین کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کر کے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق ادا کیا، دنیا ہمارے جوانوں کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما ایم پی اے آغا رضا نے کہا کہ 6 ستمبر 1965 ہماری آزمائش کا دن تھا ، شائد دشمن یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ ہمیں با آسانی شکست دے کر ہمارے پیارے وطن پر قبضہ کر لیں گے مگر ہم نے اس وقت اتحاد، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کا ساتھ دے کر دشمن کو ذلیل کر دیا اور انہیں یہ بتا دیا کہ ہم ایک ہیں اور اس وطن کیلئے ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس دن پاکستان کے جوانوں نے دلیری، بہادری اور جرأت کی نئی تاریخ رقم کردی اور مخالف فوجی قوت جو ایک بڑی تعداد میں تھی، کے ارادوں کو چکنا چور کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارا ملک اللہ کے نام پر قائم ہوا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا وجود اس دنیا سے نہیں مٹا سکتی۔ آغا رضا نے 1965 جنگ کے ہیرو جنرل موسیٰ خان ہزارہ جو اس وقت کے کمانڈر اینڈ چیف تھے، کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہزارہ شیعہ قوم نے ہمیشہ اور ہر میدان میں وطن عزیز سے وفا کی ہے۔ بات صرف 1965 کی جنگ کی نہیں بلکہ ہر میدان اور ہر معاملے میںشیعہ ہزارہ قوم نے پاکستان کی سلامتی کیلئے کوششیں کی ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے اجداد پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں ہم نے ملک کو بچانے کیلئے قربانیاں دی ہیں۔بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ اُس دور کے ہم وطنوں نے اپنے فرائض انجام دے دیئے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس وطن کی بقاء کیلئے کھڑے رہیں۔ آج پاکستان کو تخریبی اور تکفیری عناصر سے خطرہ ہے اور ہمیں ان تکفیریوں کو ختم کرکے پاکستان کو سلامت رکھنا ہے۔
وحدت نیوز(کراچی ) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سکرٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم نے پی ایس 127 ملیر کے ضمنی انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ ملیر کے عوام کو انکے حقوق دلانے کیلئے اپنی شناخت کے ساتھ الیکشن میں بھرپور حصہ لے کر جمہوری عمل کو تقویت بخشنے میں اپنا کردار ادا کریں گے،عوام 8ستمبر کو بلاخوف وخطرخیمے کے نشان پر مہر لگاکر ایم ڈبلیوایم امیدوار علی عباس کو میاب بنائیں،اپنے بیان میں ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سکرٹری سیاسیات سید علی حسین نقوی نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مجلس وحدت مسلمین کی حمایت حاصل کرنے کے دعوے بے بنیاد، غلط بیانی، پروپیگنڈہ اور دروغ پر مبنی ہیں، جو عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے واضح کیا جاتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مجلس وحدت مسلمین سے حمایت کی طلبگار رہیں، لیکن حلقہ پی ایس 127 ملیر کے عوام کے حقوق کی خاطر ہم نے کسی کی حمایت کرنے کے بجائے خود انتخابات میں بھرپور شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب انہوں نے ملیر جعفر طیار و دیگر علاقوں میں مختلف کارنر میٹنگز سے خطاب اور عمائدین و معززین کے وفود سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے قدم بڑھایا ہے، اگر عوام نے اعتماد کیا تو ہم ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے، عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ہر گھڑی مجلس وحدت مسلمین موجود ہے، تعلیم، صحت اور صفائی جیسے بنیادی حق عوام سے چھین لیا گیا ہے ہم اسے واپس دلائیں گے اور حلقہ کی خوشحالی کو بحال کریں گے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)امید اپنے اندر کشش رکھتی ہے۔انسان جس طرف امید پاتا ہے اس طرف کھچا چلاجاتاہے۔کوئٹہ اور مسئلہ تفتان کے حوالے سے اکثر لوگوں کی امیدیں جہاں پرمجلس وحدت مسلمین اور دیگر قومی و دینی تنظیموں سے سے وابستہ ہیں وہیں پر لوگ ملکی سلامتی کے ضامن اداروں سے بھی ناامید نہیں ہیں۔لوگ یہ امید رکھتے ہیں سرکاری ادارے اور قومی تنظیمیں ،حکومتی ایوانوں تک ان کے مسائل کو پہنچانے اور حل کروانے میں موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔
گزشتہ روز کوئٹہ اور تفتان کے مسئلے پر پاکستانیوں کی پھر ایک نشست ہوئی۔نشست میں اس چیز کی ضرورت کو محسوس کیاگیا کہ اس مسئلے کو اس کی حقیقی شکل میں سامنے لایاجائے اور لوگوں کے اندر سے ظلم سہنے اور ظلم برداشت کرنے کی عادت کو ختم کیاجائے۔حد اقل جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہ زبان کھولنے کی جرات تو کرے۔
یہاں پر یہ وضاحت دینا بہت ضروری ہے کہ کوئٹہ میں موجود شیعہ کانفرنس کا تعلق کسی بھی صورت میں مجلس وحدت مسلمین یا کسی اور شیعہ تنظیم سے نہیں ہے۔شیعہ کانفرنس خود ایک مستقل ادارہ ہے ،جس کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ یہ فقط ایک مخصوص سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتاہے۔
شیعہ کانفرنس چونکہ حکومتی سرپرستی میں کام کررہی ہے لہذا اس کو براہ راست روکنا مجلس وحدت مسلمین ،یا کسی بھی دوسری تنظیم کے بس کی بات نہیں۔اسی طرح ہزارہ کمیونٹی، خود شیعہ کانفرنس سے نالاں ہونے کے باوجود اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی۔
لہذا ہمیں اپنے ہزارہ برادران اور مجلس وحدت جیسی تنظیموں سے امیدیں باندھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس سلسلے میں ہم سب کو باہمی اعتماد اور اتحاد کے ساتھ مل کر فعالیت کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں پر حکومت کے لئے بھی ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لے۔ماضی کی حکومتوں نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک اقلیتی فرقے کو مسلح کرکے اہل سنّت اور اہل تشیع کا قتل عام کروایاگیا۔پاکستان کی سب سے بڑی اکثریت اہل سنت ہیں۔انہوں نے وہابی ،اہلحدیث اور دیوبندی مسلک کی آڑ میں بنائے جانے والے دہشت گردوں کی دہشت گردی کو صبر کے ساتھ برداشت کیا لیکن دہشت گردی کو اختیار نہیں کیا۔
اہل سنت کے بعد دوسرا بڑا فرقہ اہل تشیع کا ہے۔اہل تشیع کو بھی شدت اور تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا لیکن اہل سنت کی طرح اہل تشیع کی عوام اور قیادت نے بھی کبھی دہشت گردی اور فرقہ واریت کو نہیں اپنایا۔
حالات جتنے بھی سنگین ہوئے اہل سنت اور اہل تشیع نے مل کر دہشت گردوں اور دہشت گردی کی مخالفت کی۔
حکومتی ادارے اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ آج اگر پاکستان باقی ہے تو وہ صرف اور صرف اہل سنت اور اہل تشیع کے صبرو تحمل اور حب الوطنی کی وجہ سے باقی ہے۔
موجودہ حکومت کو جہاں سابقہ حکمرانوں کے بنائے گئے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو توڑنے اور ان کے خلاف آپریشن کرنے کی ضرورت ہے وہیں پاکستان کے اہل سنت اور اہل تشیع کی حب الوطنی کو سراہنے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کی بھی ضرورت ہے۔
یہ پاکستان کے اہل سنت اور اہل تشیع کے لئے فخر کی بات ہے کہ ان کی تاریخ دہشت گردی اور بے گناہوں کے خون سے پاک ہے۔انہوں نے ہمیشہ اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے قانونی،آئینی اور سیاسی جدوجہد کی ہے۔
بانی پاکستان سے ان کا لگاو،سر زمین پاکستان سے ان کی محبت،دیگر مسالک و مذاہب کے ساتھ ان کا حسنِ اخلاق ،دیگر مکاتب کی عبادت گاہوں کا ان کے ہاں احترام ،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں ان کا کوئی دہشت گردی کا اڈہ نہیں ہے اور یہ ہمیشہ دہشت گردی کے مراکز اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اب یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی حب الوطنی کی قدر کرے۔ان کے دکھوں کا مداوا کرے،ملک کو سنوارنے اور بچانے کے لئے ان کے صبرو تحمل کو سراہے اور ملک دشمن عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرے۔
اس وقت کوئٹہ اور تفتان میں زائرین کے ساتھ شیعہ کانفرنس یا ایف سی جو کچھ کررہی ہے ،وہ محب وطن لوگوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر زیادتی کی جارہی ہے۔شیعہ کانفرنس یا ایف سی کا فقط نام شیعہ کانفرنس یا ایف سی ہے ورنہ کام وہی ہورہاہے جو سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی کاہے۔
لوگوں کو ہراساں کرنا،بے عزت کرنا،دھونس جمانا،بھتہ اور رشوت وصول کرنا یہ سب انسانی و پاکستانی اقدار و اخلاق کے منافی ہے۔
میں یہاں پر یہ وضاحت دینا بھی ضروری سمجھتاہوں کہ خود شیعہ کانفرنس اور ایف سی میں بھی دیندار،محب وطن اور شریف لوگ موجود ہیں ،انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور کرپٹ عناصر کو لگام دیں۔
ایسے میں حکومتی سطح پر چند کاموں کو فوری طور پر انجام دیاجانا چاہیے:۔
۱۔شکایات سیل قائم کیاجائے۔
آرمی کا ایک بااختیار شکایات سیل قائم کیاجائے جو زائرین کی شکایات کو فوری طور پر سنے ،درج کرے،تحقیقات کرے اور مجرموں پر ہاتھ ڈالے۔
یاد رہے کہ زائرین کو قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے اور شکایت درج کروانے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے ، انہیں بتایاجائے کہ اگر کوئی آپ سے بدتمیزی کرے،رشوت لے،خواہ مخواہ بٹھائے یا کسی بھی طرح کی ازیت کرے تو فورا ان نمبروں پر رابطہ کریں۔
۲۔میڈیا ٹرائل اور تحقیقاتی کمیشن کا قیام
اب تک کرائے بڑھا کر اور کانوائے کے نام پر زائرین سے جو رقم بٹوری گئی ہے ،اس سلسلے میں میڈیا ٹرائل کیا جائے اور تحقیقاتی کمیشن بنایاجائے جو اس بات کا جائزہ لے کہ کتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی گئی ہے،اس لوٹے ہوئے پیسے کو سرمایہ داروں سے اگلواکر دوبارہ کم از کم حکومتی خزانے یا اوقاف میں ڈالاجائے اور آئندہ زائرین پر خرچ کیاجائے۔
۳۔خفیہ ادارے اور صحافی حضرات اپنی فعالیت کوبڑھائیں۔
ملکی سلامتی کے ضامن خفیہ اداروں اور محب وطن صحافیوں کو چاہیے کہ وہ سادہ لباس میں زائرین کے روپ میں ایف سی اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی سرگرمیوں کا نوٹس لیں۔
۴۔پاراچنار اور مسئلہ کوئٹہ و تفتان
علمائے کرام بھی پاراچنار کی طرح مسئلہ کوئٹہ و تفتان کو اپنی ترجیحات میں رکھیں،زائرین کو درپیس مشکلات کو صبر و تحمل سے سنیں اور مسلسل ان کی شکایات سرکاری اداروں تک پہنچاتے رہیں۔
۵۔ محرم و صفر کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی ضرورت
پاکستان کی انفرادیت اور حسن یہی ہے کہ یہ ملک مذہبی رواداری کی خاطر بنایا گیاہے۔ہر سال محرم الحرام اور صفر میں چہلم امام حسینؑ کے لئے کربلاجانے والے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوجاتاہے۔
اس موقع پر مفاد پرست عناصر بھی پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان ایام میں شکایت سیل کو ہنگامی بنیادوں پر فعال کیاجائے اور زائرین کی خدمت کے لئے ساری تنظیمیں اور ادارے وغیرہ مل کر قومی سطح پر سبیلیں وغیرہ بھی لگائیں اور حفاظتی انتظامات میں بھی سیکورٹی اداروں کا ہاتھ بٹائیں۔
۶۔ کانوائے اور بلوچستان ہاوس
ہر ہفتے میں ایک مرتبہ کانوائے کو یقینی بنایاجائے اور کوئٹہ سے نکلنے کے بعد زائرین کو مختلف چیک پوسٹوں پر ہراساں کرنے اور دیگر کسی بھی ہاوس میں محصور کرکے بھتہ وصول کرنے سے گریزکیاجائے۔
میں نے مسئلہ تفتان و کوئٹہ کے سلسلے میں ہونے والی چند نشستوں میں یہ درک کیا ہے کہ ملت پاکستان آج بھی ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو اپنا محافظ سمجھتی ہے اور لوگوں کی امیدیں پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں سے سے وابستہ ہیں ۔۔۔پس۔۔۔امیدوں کے یہ چراغ جلتے رہنے چاہیے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.