وحدت نیوز(فیصل آباد) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹری تعلیم اور ممبرضلعی امن کمیٹی ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سربریدہ جمہوریت کے سہارے ملک کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ کون سی جمہوریت ہے، جس میں عوام کو بنیادی حقوق تک حاصل نہیں۔ فیصل آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے رہنما کا کہنا تھا کہ سی پیک اور گوادر پورٹ منصوبے ہمارے وطن کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے منصوبے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سرحدوں کے اندر کچھ بھی برا کرنے والوں کے لئے کسی کو نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت المسلمین سانحہ کوئٹہ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتی ہے اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد جس انداز میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے ضرب عضب بھی شروع کر دیا گیا، اس سے قوم کی ہمت بندھی تھی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، لیکن نیشنل کو ایکشن پلان صرف ضرب عضب اور کراچی آپریشن تک محدود سمجھ لیا گیا اور صرف اس کی جزئیات پر عملدرآمد ہوا، اس لئے باقی ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ترجمان علامہ مختار امامی نے لاہور میں صوبائی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم پنجاب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقدہ اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں ہمارے مسائل حل نہ ہوئے تو 2 ستمبر کو وزیراعلٰی ہاوس کے سامنے مطالبات کے حق میں دھرنا دینگے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے بے حس حکمرانوں کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور معاملات جوں کے توں ہیں، البتہ پنجاب حکومت کی سطح پر ہمارے رابطے جاری ہیں، تاہم مطالبات پر عملدرآمد کے لئے کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی، ہماری تیاریاں مکمل ہیں، ان شاء اللہ 2 ستمبر کو بھرپور دھرنا ہوگا، ہم نے مذاکرات کا دروازہ کسی کیلئے بند نہیں کیا، لیکن اپنے موقف سے کسی بھی صورت ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کی حمایت ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، سول سوسائٹی، وکلاء کرچکے ہیں، جو مکمل آئینی و قانونی مطالبات ہیں، ہمارے دھرنے کا کوئی سیاسی مقصد نہیں، ہمارا احتجاج بنیادی انسانی حقوق کے حصول و ملک میں مذہبی آزادی کیلئے ہے، جس کا وعدہ قیام پاکستان کے موقع پر بابائے قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا، ہمارے مطالبات فکر اقبال کی عکاسی ہیں، ہم ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد چاہتے ہیں، کالعدم جماعتوں کیخلاف ملک بھر میں بھرپور کارروائی کی جائے، تاکہ دہشتگردی کے اس عفریت سے ملک و قوم کو نجات ملے، پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہرگز نہیں ہونے دینگے، عزاداری سید الشہداء کیخلاف کسی بھی قدغن کو ہم ملکی آئین و قانون سے متصادم سمجھتے اور اسے مسترد کرتے ہیں، علماء و ذاکرین پر بین الصوبائی و ضلعی پابندیاں عزاداری سید الشہداء کو محدود کرنے کی کوشش ہیں، جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پریس کانفرنس میں علامہ حسن ہمدانی، علامہ ناصر مہدی، سید حسین زیدی، شیخ عمران علی بھی شریک تھے۔
وحدت نیوز(لاہور ) پنجاب کے محب وطن عوام بیدار ہوجائیں اور دو ستمبر کے دھرنے کو کامیاب بنائیں، کرپٹ اور نالئق حکمرانوں کو اب کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت کریں پانچ کروڑ مکتب تشیع وطن عزیز میں بستے ہیں مگر ہماری جان ومال غیر محفوظ ہیں آئے روز ہمارے جوانوں کو شہید اور بے گناہوں پر ایف آئی آر کا ٹی جاتی ہے اور عزاداری سید شہدء کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حکومت سُن لیں ہم پُر امن ہیں اور پُر امن طریقہ سے اپنے جائز حقوق لے کر رہیں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ اعجاز حسین بہشتی نے ۲ستمبر پنجاب ہاوس دھرنے کے حوالے سے آگاہی مہم کے دوران جامع مسجد شیعہ کشمیریاں موچی گیٹ میں مومنین سے خطاب کے دوران کی۔ان کا مزید کہناتھا کہ مظلوم کا خون ظلوم کے ایوانوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو، ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام نے قائد وحدت کا پُرجوش استقبال کر کے یہ ثابت کر دیا کی وہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں۔
وحدت نیوز(لاہور) ترجمان مجلس وحدت مسلمین علامہ مختار امامی نے صوبائی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم پنجاب میں دوستمبر وزیراعلیٰ ہاوس دھرنا کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین اپنے مطالبات کی حق میں دو ستمبر بعد از نماز جمعہ وزیر اعلی ہاوس کے سامنے دھرنا دیگی,لاہورڈویژن سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں رابطہ مہم مکمل ہو گئے ہیںدھرنے کی قیادت سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کریں گے,علامہ راجہ ناصر عباس جعفری روضہ امام حسین سے لائے گئے پرچم کے ہمراہ دھرنے میں شریک ہونگے،انہوں نے کہا کہ عزاداران امام حسین کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر و سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی دھرنے میں شریک ہونگے,ہمارا دھرنا مکمل طور پر پرامن ہوگا رکاوٹ ڈالنے کی صورت میں حکومت ذمہ دار ہوگیہم نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور کالعدم جماعتوں کیخلاف بلاتفریق مکمل کاوائی چاہتے ہیں عزاداری امام حسین پر کسی بھی قسم کی قد غن آئین پاکستان کیخلاف ہے ہم اسے کسی بھی صورت قبول نہیں کرینگے,ہم بنیادی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں جو ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) جس حیات طیبہ کی طرف اللہ نے دعوت دی ہے وہ زندگی نظام امامت ہے اگر دل میں ولایت آل محمد ص ہے تو وہ حیات اور زندگی ہے ورنہ مردگی ہے۔ جس زندگی میں ولایت امام زمان علیہ السلام نہ ہو وہ مردہ ہے اور زندگی کا تصور امام حسین علیہ السلام نے بیان فرما یا، ظالم کے ساتھ زندگی ننگ ہے اور عزت کی موت سعادت ہے. دو ستمبر کو ظالم کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنا ہے تاکہ حیات طیبہ اور حقیقی زندگی نصیب ہو. قاید وحدت کی قربانی کو علی علیہ السلام کے چاہنے والے یاد رکھیں گے محبوب قاید نے بھوک ہڑتال کر کے اس قوم پر احسان کیا ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اور مرکزی سیکریٹری تبلیغات علامہ اعجاز بہشتی نے 2 سمبتر پنجاب اسمبلی دھرنے کے سلسلے میں جامع فاطمیہ عزیز پلی میں مومنین سے خطاب کے دوران کیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا ظالم حکمران اب بھی حوش کے ناخون لیں اور ظلم و زیادتی کے سلسلے کو بند کریں اور ہمارے جائز مطالبات کو فوری تسلیم کریں، انشاء اللہ 2 ستمبر کو پنجاب بھر سے محب وطن شہری شرکت کریں گے اور مطالبات تسلیم ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہیں اور اپنے علمی و معنوی ارث کو ہاتھوں ہاتھ وصول کرتی ہیں۔۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم مفتی صاحب سے اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
یوں تو مفتی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن میں اس وقت ان کی زندگی کے صرف ایک ورق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہاہوں۔زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔
بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔
۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان "محمد حسین شاد" سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔
پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔
یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں"شاد" کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر "شاد" کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔
۶جولائی کو تین بجے صبح "شاد" کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔
مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ آج بھی مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔
ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب "حساس ادارے" کا مطالعہ کر لیجئے۔
آج بھی جب سرکاری ادارے ،زائرین کو لوٹتے ہیں،دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں،ملک کے اائین کو پامال کرتے ہیں، تو مفتی جعفرحسین قبلہ کی اقدار کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مفتی صاحب والا کردار ادا کریں۔
یاد رہے کہ سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۳ئ کو قبلہ مفتی جعفر حسین اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا قومی و تنظیمی راستہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا انتخاب کریں تا کہ ہم اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔
نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.