وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل اور رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیدہ زہر انقوی الحمد اللہ روباصحت ہوکر دوبارہ پنجاب اسمبلی پہنچ گئی ہیں ۔
ایم پی اے سیدہ زہرا نقوی نے پنجاب اسمبلی کے سیشن میں شرکت کی اور دوران سیشن سڑکوں کی مرمت اور لائبریری ٹیسٹ سے متعلق سوالات کیئے۔
محترمہ سیدہ زھرا نقو ی نے اپنی صحتیابی کے لیے کی گئی دعاؤں اور نیک خواہشات پر اراکین اسمبلی کا شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) آیت اللہ سید علی خامنہ ای جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے آئینی رہبرِ اعلی ہیں وہیں عالم تشیع کے فقیہ اور مرجع تقلید بھی ہیں۔ ایرانی نظامِ حکومت میں ملک کا سب سے بڑا منصب ولی فقیہ کا ہے جس پر ایک جامع الشرائط مجتہد بلواسطہ منتخب کیا جاتا ہے۔ (اہل علم کے درمیان ولی فقیہ کے انتخاب کے حوالے سے دو علمی نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ہر دو صورت میں عملی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب 88 رکنی مجتہدین کی شورای اکثریت رائے سے ایک جامع الشرائط مجتہد کو ولی فقیہ کے عہدے کے لیے چنتی ہے)۔ آیت اللہ خامنہ ای کی بطور ایک سیاسی رہنما خصوصیات کے علاوہ ان کی علمی حیثیت اور تقویٰ و پرہیز گاری بطور خاص دنیا بھر خصوصاً عالم اسلام اور خصوصاً عالم تشیع میں ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی بنیادی وجہ ہے۔ یعنی آیت اللہ خامنہ ایک دینی مرجع تقلید اور جامع الشرائط مجتھد ہونے کے ناطے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت کے حامل ہیں۔
گزشتہ چند دن سے کچھ پاکستانی اخباروں اور سوشل میڈیا کی خبروں میں آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں سے متعلق ایک خبر زیرِ گردش ہے۔ اس خبر کے مطابق ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ ای 2 کھرب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ اس خبر میں بتایا جا رہا ہے کہ بظاہر سادگی اور کفایت شعاری کی تلقین کرنے والے آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے ملکی قرضوں سے دوگنا اور مجموعی ملکی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ اس خبر کا ذریعہ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے سے جاری اعداد و شمار بتایا جارہا ہے۔ پہلی نظر میں یہ خبر انتہائی پریشان کن ہے کہ ایک دینی رہنما اور فقیہ کے اتنے اثاثے کیسے اور کیونکر ہوسکتے ہیں؟۔ اسی پریشانی اور تشویش کیوجہ سے صبح سے متعدد احباب رابطہ کرکے تفصیلات پوچھ اور اس پر چند معلومات جمع کر کے ارسال کرنے کا تقاضا کر چکے ہیں۔ اسی تقاضے کے پیشِ نظر اس حوالے سے چند معلومات آپ عزیزوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے نے 25 اپریل سنہ 2019 کو اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کے ذریعے یہ بیان دیا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے 2 کھرب امریکی ڈالر ہیں جبکہ ایران میں بہت سارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ فیس بک کی اس پوسٹ کے مطابق کرپشن نے ایرانی نظام کو جکڑ رکھا ہے اور یہ نظام کے ہر حصے تک سرایت کر چکی ہے۔ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کی دلیل کیا تھی؟۔ اس کی بنیاد کس ادارے کی کونسی تحقیقات تھیں؟ عراق میں قائم سفارت خانے کی جانب سے ایک تیسرے ملک کے سربراہ کے بارے ایسے بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات سے فی الحال صرف نظر کرتے ہیں اور اس حوالے سے اسی قوی احتمال پر اکتفاء کرتے ہیں کہ یہ امریکی سفارت خانے کا ایک سیاسی بیان تھا جس کی بنیاد کسی قسم کی حقیقی تحقیقات نہیں تھیں۔ ورنہ وہ تحقیقات ضرور سامنے لائی جاتیں تاکہ اہل علم و دانش اس کی صحت پرکھ سکتے۔ عراق کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اسی وقت امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کو بے بنیاد اور دینی مرجعیت کی توہین قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی تھی۔
اس سے قبل دسمبر 2018 میں امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان کے ذریعے آیت اللہ خامنہ ای پر کھربوں ڈالر اثاثوں کا الزام لگایا تھا۔ قبل ازیں نومبر 2013 میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کے عنوان سے 12 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں آیت اللہ خامنہ ای کے تحتِ اختیار ایک مالی اور فلاحی ادارے "ستاد اجرائی فرمان امام خمینی رح" کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس ادارے کے کل اثاثے 95 ارب ڈالر ہیں اور یہ ادارہ فردِ واحد آیت اللہ خامنہ ای کی ملکیت ہے۔ کیا یہ ادارہ آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت ہے اور وہ اس سے ذاتی مفاد لیتے ہیں؟۔ اس سوال کے جواب کے لیے اس ادارے کی قانونی حیثیت اور عملی فعالیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ایرانی دستور کی دفعہ 49 کے مطابق "حکومت پر لازم ہے کہ وہ ربا، غصب، رشوت، فراڈ، چوری، اموات کے اموال کی فروخت سے حاصل، موقوفات کے غلط استعمال کے ذریعے ہتھیائی اور سرکاری عہدوں کے غلط استعمال سے کمائی جانے والی دولت کو لیکر اس کے حقدار تک پہنچائے اور اگر مال کا کوئی مالک نہ ہو تو وہ مال بیت المال کو منتقل ہو جائے گا۔ اور یہ کام قانونی تشریفات اور تحقیقات اور شرعی قانونی ثبوتوں کی بنا پر انجام دیا جائے گا۔" شیعہ مکتبِ فکر کے علمی نظریے کے مطابق بیت المال کے تصرف کا اختیار صرف حاکمِ شرع کو حاصل ہے اور ایرانی نظام حکومت میں ولی فقیہ کو حاکم شرع کی حیثیت حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے لیے ایران کی منتخب پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق چار طرح کے اموال ولی فقیہ سے متعلق ہیں۔ 1) حکمِ حکومتی سے حاصل کئے گئے اموال، 2) آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے ذریعے حاصل ہونے والے اموال، 3) مجہول المالک، بلا صاحب اموال اور ارث بلا وارث، 4) خمس اور اہل ذمہ سے حاصل ہونے والے اموال۔
دنیا بھر کی طرح ایران میں بھی ان اموال کی جمع آوری اور مصرف کے لیے ایک قانونی میکانیزم ایجاد کیا گیا ہے۔ اس میکانیزم کو نافذ کرنے کے لیے جو ادارہ بنایا گیا ہے اس کا نام "ستاد اجرایی فرمان امام خمینی" ہے جو عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے تحتِ اختیار ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کو رہبر معظم انقلاب منصوب کرتے اور یہ ادارہ آئینی لحاظ سے انہی کی زیرِ نگرانی چلتا ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی دو مختلف فیلڈز معاشی اور فلاحی شعبوں میں فعالیت کرتا ہے۔ معاشی شعبوں میں فعالیت کے لیے ملکی قانون کے مطابق 37 کے قریب معاشی کمپنیاں بنائی گئی ہیں جو ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دواسازی، تعمیرات، بینکنگ و چند دیگر شعبوں میں فعالیت کرتیں اور ملکی قوانین کے مطابق حکومت کو ٹیکس ادا کرتیں ہیں۔ ان کمپنیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سینکڑوں فلاحی شعبوں میں خرچ کی جاتی ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی مالی امور کے لحاظ سے عدلیہ سے وابستہ شعبہ احتساب کے سامنے جبکہ اندرونی طور پر سپریم کورٹ کے چند (ر) ججوں پر مشتمل نگران کونسل کے سامنے جوابدہ ہے۔
ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی (رح) سپریم لیڈر کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی اب تک سپریم لیڈر کی جانب سے اس ستاد سے کوئی ذاتی مالی فائدہ اٹھانے کا ثبوت سامنے آیا ہے بلکہ یہ ستاد عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے زیر اختیار ایک عام المنفعہ ادارہ ہے جس کے ذریعہ بیت المال میں شامل اموال کو ریگولائز کیا جاتا ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ میں ایک عام المنفعہ ادارے کی ثروت کا حساب کتاب کر کے اسے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت قرار دئیے جانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ایسے ہی جیسے ہم کسی وزارت خانے کے مجموعی اثاثوں کا تخمینہ لگا کر انہیں وزیر کی ذاتی ملکیت قرار دے دیں۔ قاری کی توجہ حاصل کرنے اور رپورٹ کو معتبر دکھانے کے لیے بعض جگہوں پر حقیقت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے بطور مثال اس رپورٹ میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے کہ "ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی رح کے اثاثوں سے آیت اللہ خامنہ ای کے ذاتی استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے" جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ اثاثے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں کیونکہ اگر ذاتی ہوتے تو وہ ان کا ذاتی استعمال کرتے۔ اس رپورٹ کے تناقض اس رپورٹ کو ناقابلِ اعتبار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح روئٹرز کی رپورٹ میں متعدد دوسری جگہوں پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔
پاکستانی اخباروں کے لیے خبر جعل کرنے والے نے فیس بک کی ایک مبہم پوسٹ کو بنیاد بنا کر ایک دینی رہبر اور عالم تشیع کے مرجع تقلید پر الزام لگایا ہے جو باعث افسوس اور صحافتی اقدار کے خلاف ہے کہ ایک اہم بین الاقوامی شخصیت پر بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اتنا بڑا الزام لگا دیا جائے۔ یہ خبر جعل کرنے والے کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت ملکی قرضوں سے دوگنا ہے یعنی بقول اس کے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت 2 کھرب ڈالر ہے تو ایران پر 1 کھرب ڈالر قرضہ ہونا چاہیے جبکہ بین الاقوامی اداروں کے آخری اعداد و شمار کے مطابق ایران کا ملکی قرضہ صرف 10 ارب ڈالر ہے۔ خبر بنانے والے نے یہاں بھی غلط بیانی سے کام لیا جو اس کی بدنیتی کی دلیل ہے۔
ایران سمیت ہر ریاست کے حکمران قابلِ تنقید اور قابل اعتراض ہیں۔ اس سے کفر صادق آتا ہے نہ کوئی بین الاقوامی یا قومی جرم سرزد ہوتا ہے لیکن کسی رہنما کے بارے خصوصاً ایک دینی رہبر اور فقیہ کے بارے بات کرتے ہوئے پیشہ وارانہ اصولوں اور اقدار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لیکن پیسے اور شہرت کی لت نے ہمارے معاشرے سے اصولوں اور اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا حقیقی اثاثہ ان کی علمی حیثیت، پرہیز گاری اور دنیا کے کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دل میں ان کی محبت اور ان سے عشق ہے جو کسی خبر رساں ادارے کے تخمینوں میں آسکتا ہے نہ چھینا جاسکتا ہے۔ کچی دیواروں کے دو کمروں کے گھر میں رہنے والا یہ درویش سید ریاست کا منتخب آئینی سربراہ ہونے کے باوجود خزانہ داری سے تنخواہ لیتا ہے نہ کسی قسم کی مراعات۔ ذاتی زندگی کے اخراجات وجوہات شرعیہ سے بھی نہیں لیتا۔ لگژری گاڑی، کوٹھی یا بنگلہ تو دور کی بات اس کے پاس تو ذاتی سائیکل بھی نہیں ہے۔ چند چاہنے والوں کی طرف سے بھیجے گئے ہدیہ جات سے ذاتی زندگی کے اخراجات چلاتا ہے۔ چاہنے والوں کی طرف سے ملنے والے قیمتی تحفے اگر مالیاتی حیثیت میں ہوں تو بیت المال کو اور نوادرات کی شکل میں ہوں تو امام علی موسیٰ ابن رضا علیہ السلام کے حرم کے میوزیم کو ہدیہ کر دیتا ہے۔ ناجانے اس بوڑھے درویش سید پر کھربوں ڈالر کے اثاثوں کا الزام لگا کر دشمن کس کے ذہن میں کیا ڈالنا چاہتا ہے جبکہ ان کی زندگی آئینے کی طرح شفاف اور واضح ہے جس کا کئی بار دشمن بھی اقرار کر چکے ہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای کے دامن پر ذاتی زندگی کے حوالے سے کوئی داغ نہیں ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید ابن حسن
وحدت نیوز(ہنگو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے جامع مسجد رسول اعظم ؐہنگو میں ”سیرت النبی ؑ و اتحاد امت کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا فتنہ نفاق بین المسلمین ہے جس کی بنیاد علم و آگہی کی بجائے شرانگیزی و انتشار پر رکھی گئی ہے۔امت مسلمہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے والی طاغوتی قوتیں اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔دنیا بھر کے مسلمان اس وقت صرف تقسیم ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی ہیں۔
ان کا کہناتھاکہ یہود و نصاری کا اولین ہدف امت مسلمہ کو زندگی کے ہر شعبے میں تنزلی کا شکار کرنا ہے۔متعدد اسلامی ممالک اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن کر شیطانی ایجنڈے کی راہ ہموارکرتے آئے ہیں۔ان باطل قوتوں کو شکست دینے کے لیے واحد ہتھیار ”اتحاد امت“ ہے۔دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو کر اسلام کا مضبوط دفاع بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دین اسلام محبت و اخوت کا مذہب ہے جس میں عصبیت کی قطعی گنجائش نہیں۔جو لوگ مسلک کے نام پر نفرت و انتشار کا بازار گرم رکھنا چاہتے ہیں وہ اسلام کے دشمن ہیں انہیں خیر خواہ نہیں کہا جا سکتا۔تمام مکاتب فکر اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو دور رکھیں۔اتحاد امت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے۔ جس کے فروغ کے لیے علما و مشائخ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی قوم کی فکری و شعوری تربیت کریں۔امت مسلمہ کی بیداری دشمنوں کے ناپاک عزائم کی موت ثابت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کا مقصددین اسلام کی بالادستی اور کفر کو سرنگوں کرنا تھا۔اسلام کی سربلندی کے لیے سیرت نبویؐ کو مشعل راہ بنانا ہو گا۔اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کر کے پوری امت تباہ حالی سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔کانفرنس میں ڈپٹی کمشنر ہنگو سمیت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی، علامہ شبیر بخاری، علامہ غلام حُر شبیری اور علامہ وحید عباس کاظمی نے بھی شرکت کی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور نوجوانان علامہ اعجازحسین بہشتی نے مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیوایم میں وحدت یوتھ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ کسی بھی قوم کے نوجوان اس کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔قوموں کی ترقی و تنزلی میں نوجوانوں کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔جس قوم کے نوجوان اپنے فکری ورثے کے امین ہوتے ہیں وہ قومیں کبھی سرنگوں نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا عصرحاضر میں نوجوانوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔معاشرتی آزادی کے نام پر مغربی معاشرہ جس نظریہ کی ترویج کرنا چاہتا ہے اس کا مقصد نوجوان طبقے کو زمانے کی رنگینیوں میں الجھا کر بے راہ روی کی غلاظت میں دھکیلنا ہے۔ثقافتی یلغار کے ہتھیار سے یہود و نصاریٰ اپنے مذموم عزائم کے تکمیل کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
علامہ اعجاز حسین بہشتی نے مزید کہا کہ معاشرتی و اسلامی اقدار متروک ہوتی جارہی ہیں۔ہمارے نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ مسلم معاشرے کی اپنی شناخت ہے جس کی بنیاد پاکیزگی و طہارت ہے۔ مسلم معاشرہ کسی مدر پدر آزادی کا قائل نہیں۔یہود و نصاریٰ کو اس وقت سب زیادہ خطرہ عالم اسلام کے باعمل نوجوانوں سے ہیں۔یہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا دور ہے۔ماضی میں جو جنگیں میدان میں لڑی جاتی تھیں آج وہ میڈیا پر لڑی جاتی ہیں۔ آج دشمن ہمیں قیدی بنانے کی بجائے ہماری سوچ کو اسیر کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ عالم اسلام کے اذہان سے ان کے اسلاف کی قدرومنزلت اور مقام کو دھندلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو دشمن کے ہتھیار کو دشمن کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی بجائے ان کے خلاف استعمال کرنا ہو گا۔اس کے لیے دینی بصیرت و حکمت ضروری ہے۔نوجوان اسلامی تعلیمات کو اپنی ڈھال بنا کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر کی طرح جیکب آباد میں بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف یوم احتجاج منایا گیا۔
احتجاجی مظاہرے سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی ،پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے ضلعی صدر ندیم قریشی، مہران سوشل فورم کے چیئرمین عبدالحئی سومرو ،سول سوسائٹی ضلع جیکب آباد کے چیئرمین آغا غضنفر پٹھان ،منصب علی شیخ ،حسن رضا غدیری اور ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی سیکرٹری جنرل حاجی سیف علی ڈومکی نے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام اور ھدایت انسانی کا جامع دستور ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے پوری دنیا مل کر بھی اس کی مثل اور نظیر لانے سے عاجز ہے۔
انہوں نےکہا کہ عالمی سامراجی طاقتوں نے اپنے استعماری عزائم کی راہ دین اسلام کی تعلیمات کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے اسلام ہراسی کے مذموم ایجنڈے پر کام کیا۔ اسلام کے مقدس نام پر امریکہ اور سامراجی طاقتوں نے پہلے دھشت گرد تنظیموں کو قائم کیا پھر میڈیا کے زور پر ان کو کوریج دے کر اسلام کے خلاف مہم شروع کی۔
علامہ مقصودعلی ڈومکی نےمزیدکہا کہ قرآن کریم کی توہین ناقابل برداشت ہے اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اقوام متحدہ اسلامی مقدسات کی مسلسل توہین کے خلاف قانون سازی کرے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی نے پاکستان کی طرف سے ناروے واقعہ کے خلاف او آئی سی اور یورپی یونین میں قرار داد پیش کرنے کے فیصلے کو لائق تحسین قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اضطراب کا باعث ہے۔ اس افسوسناک واقعہ پر حکومت کا موقف عوامی امنگوں کا عکاس ثابت ہو گا۔مذہب کے معاملے میں جذباتی ہونا ایک فطری عمل ہے۔دین اسلام ہمیں جان،مال،اولاد سب پر مقدم ہے۔ وہ استکباری قوتیں جو اسلامی کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں وہ مذموم ہتھکنڈوں سے دین اسلام کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کر کے اس کے تشخص کو داغدار کرنا چاہتی ہیں۔اسلام کے مقدسات کی توہین کرنے کا مقصد امت مسلمہ کو مشتعل کرنا ہے۔دشمنوں کے ایسے شر پسندانہ اقدامات کو حکمت و تدبر سے ناکام بنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام امن کا داعی ہے لیکن جب دین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے تو پھر اللہ کے حکم کے مطابق ہمیں ترجیحات بدلنے کا بھی مکمل اختیار حاصل ہے۔اس وقت صیہونی و نصرانی قوتیں پوری دنیا میں اسلام کے خلاف بے بنیادپروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ انہی منفی طاقتوں کے شنکجے میں ہے۔جو مسلمانوں کو دہشت گرد اور خونخوار ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔اس غیر حقیقی اور خود ساختہ بیانیے کو رد کرنے کے لیے امت مسلمہ کا اتحاد اولین شرط ہے۔عالم ک±فر کو سرنگوں کرنے کے لیے عالم اسلام کو باہم متحد ہونا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اسلامی مقدسات کی توہین پر پوری امت مسلمہ سے ایک جیسی آواز بلند ہونی چاہیے۔ جس میں خوف یا مصلحت کا کوئی عنصر موجود نہ ہو۔