وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات و فوکل پرسن حکومت پنجاب برائے بین المذاہب ہم آہنگی سید اسد عباس نقوی سے پنجاب کے مختلف قافلہ سالاروں کے وفدنے ملاقات کی اور انہیں زائرین کو درپیش مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا۔
قافلہ سالاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اسدعباس نقوی نے بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت کی وفاقی وزیرمذہبی امور پیر نور الحق قادری سے اس سلسلے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور انہیں ویزہ کے حصول سے لے کر سفر کے تمام مراحل میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ صرف آگاہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے حل کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زائرین کے حوالے سے ہم ایسی حکومتی پالیسی کے خواہاں ہیں جس سے زائرین کو دوران سفر کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے وزارت مذہبی امور کو تجاویز بھی دی گئیں ہیں جنہیں سراہا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ مخصوص گروہ قافلہ سالاروں کے روپ میں زائرین کے لیے شدید مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ اسے لوگوں کو آشکارکرنا انتہائی ضروری ہے۔قافلہ سالاروں کو چاہیے کہ ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ تفتان بارڈر پر زائرین کا غیر ضروری اور تکلیف دہ قیام بھی ایک انتہائی تشویش ناک مسئلہ ہے جس کی وجہ بعض اوقات قافلہ سالاروں کی ناقص انتظامی منصوبہ بندی بنتی ہے۔تاہم اس مشکل کا مستقل حل نکالنا ہو گا تاکہ مرد و خواتین اور بزرگوں کو بارڈر پر طویل قیام نہ کرنا پڑے۔ملاقات کرنے والے قافلہ سالاروں میں ندیم حیدر عابدی، سید محمد جاوید زیدی،سید نجم عباس،سید قاسم حسین،حکیم اسد زیدی،سجاد حسین،محمد نعیم صدیقی،سید صفدر عباس نقوی،،مظہر بھوانہ اور سید علی رضا شامل تھے۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) سندھ کے ثقافتی دن کی مناسبت ڈسٹرکٹ پریس کلب جیکب آباد میں سٹی فورم کے زیراہتمام ثقافتی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں مختلف سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کے رہنما شریک ہوئے۔اس موقع پر ثقافتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندھ کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے جس کا قدیم شہر موئن جو دڑو چار ھزار سال پہلے سندھ کے عوام کی تہذیب و ثقافت کو بیان کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سندہ کے ثقافتی دن کے موقع پر ھم سندھ دھرتی اور اس کی عوام سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ سندھ کی ثقافت حیاء اور غیرت پر مبنی ہے لہذا ثقافتی تہوار کے نام پر خواتین کا سڑکوں پر ناچنا سندھ کی ثقافت نہیں لہذا عورتوں کو پگڑیاں پہنانے والے غلط راستے پر چل رہے ہیں کہیں یہ مرد خود دوپٹہ نہ پہن لیں۔ سندھ کی ثقافت اسلامی اقدار کی عکاس ہونی چاہئے۔
انہوں نےکہا کہ سندھ کے عوام کو تعلیم پر توجہ دینی ہوگی اور جہالت کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا۔ جبکہ سندھ سے قبائلی جھگڑوں اور کاروکاری کے نام پر معصوم انسانوں کے قتل عام کو روکنا ہوگا۔انہوں نےکہا کہ سندھ اولیاء کی دھرتی ہے جنہوں نے مذہبی رواداری کا پیغام دیا مگر کچھ سماج دشمن عناصر یہاں بم دھماکے کرکے نفرتوں پیغام دیتے ہیں۔
وحدت نیوز(کراچی) قرآن مجید کی بے حرمتی پر اقوام متحدہ اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے۔ناروےمیں اسلامی مقدسات کی توہین پر او آئی سی سمیت تمام مسلم ممالک کو اپنا بھرپور احتجاج رکارڈ کروانا چاہئے۔
اطلاعات کے مطابق قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف ملی یکجہتی کونسل سندھ کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ صادق جعفری کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک خصوصاً ناروے توہین آمیز خاکوں اور کتاب اللہ قرآن پاک کی بےحرمتی کر کےدنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا رہاہے۔
انھوں نے کہا کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سربراہی میں ملک بھرمیں آل پارٹیز کانفرنسز اور ملک گیر بھرپور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرتے ہوئے یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستانی قوم سمیت پوری امت مسلمہ رسولؐ اللہ اور کتاب اللہ کی توہین کو کسی صورت برداشت نھیں کرے گی۔
علامہ صادق جعفری کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی امن اور انسانی حقوق کےاداروں کو مسلمانوں کے حوالے سے اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔عالمی امن اور بھائی چارے کا درس دینے والے عالمی رہنماء اسلامی مقدسات کی بدترین توہین پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہ جان لیں کہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، لیکن اللہ کے حبیبؐ اور کتاب اللہ امت مسلمہ کی مشترکہ میراث اور مقدسات ہیں، اور ان کی حفاظت کے لئے ہم کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نھیں کریں گے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ ہے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کیلئے شدید مشکلات کھڑی کر دیں ہیں، موجودہ صورتحال میں متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، تحریک انصاف کی ”تبدیلی“ کے نعرے کو حوصلہ افزا تب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب ملک میں بسنے والوں کا نظام زندگی بہتر ہوتا دکھائی دے۔
اپنے ایک بیان میں علامہ باقر زیدی نے کہا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے بلاتاخیر ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے، محض خوشنما نعروں سے عوام کو خوش نہیں کیا جا سکتا، ملک میں پڑھے لکھے افراد کو روزگار کی عدم فراہمی ان کے خاندانوں کیلئے بے چینی میں اضافہ کا باعث ہے،جسے دور کرنا ہوگا۔
علامہ باقر زیدی نے کہا سندھ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں لاقانونیت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کیا ہے، قتل و غارت، ڈکیتی اور لوٹ مار کی آئے روز وارداتیں قانون کی عمل داری پر سوالیہ نشان ہیں، جرائم کے واقعات میں تیزی امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے حکام بالا کی چشم پوشی مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے، جو نامناسب ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کے مسائل کے حل اور بنیادی حقوق پر خصوصی توجہ دی جائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جب عادل عبد المہدی نے عراق کی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا اس وقت یہ ملک غیر ملکی قرضوں ، کرپشن اور بےروزگاری کی دلدل میں غرق ہو چکا تھا. داعش اور دیگر تکفیری دہشتگردی کے گروہوں نے اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. اجتماعی طور پر ملک کی عوام کے مابین کرد ، سنی اور شیعہ کی بلند دیواریں کھڑی کی جا چکی تھیں. ایسے حالات میں اس نے ملک کی تعمیر وترقی ، عوام کی فلاح وبہبود اور روشن مستقبل کے لئے"عراق اولا" کے عزم کے تحت اپنی سیاسی واقتصادی پالیسی بنائی. اور ملک کے زخمی جسم اور نظام کے لاغر بدن میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے اور راسخ شدہ جراثیم پریشان ہوئے. تمام تر خود غرض ملکی لٹیروں اور بیرونی استعماری طاقتوں کے لئے اسکی یہ روش ناقابل قبول تھی. اور انکے مفادات کا خطرہ لاحق ہو چکا تھا. اس لئے اب اس حکومت کا چلنا اور سیاسی استحکام اور اقتصادی پالیسیوں کا روکنا اندرونی مافیا اور بیرونی لٹیروں کے لئے ضروری ہو گیا تھا. اس لئے سب نے ملکر ایسے حالات بنائے کہ اسکو مجبورا استعفیٰ دینا پڑا. اور ملک وعوام کے مستقبل کو مجہول کی طرف دھکیل دیا گیا. اور دوسرے الفاظ میں عراق کے استقلال اور روشن مستقبل کی خاطر عادل عبدالمہدی نے ناتوان وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی سیاسی خود کشی کو قبول کیا لیکن مسلط کرپٹ نظام اور طاقتور طاقتوں کو ایک مرتبہ جھنجوڑ کر رکھ دیا.
عراقی وزیراعظم کے اھم اقدامات
1- عراق کی زیر بناء کو مضبوط کرنے اور اقتصادی طور پر استقلالیت کے لئے متعدد آپشنز کی طرف توجہ دی اور عراقی تیل کی فروخت کے لئے نئی منڈیوں کی طرف رخ کیا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی عراق نے اردن اور مصر سے اس سلسلے میں اقتصادی معاھدے کئے. اور عراق جو کہ افریقی منڈی سے بہت دور تھا ان معاہدوں کے بعد اسے وہاں تک رسائی حاصل ہوئی. اس اقدام کی اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اگر ابنائے ھرمز کے ذریعے تیل کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ بھی پیدا ہو جائے تو عراق کے پاس تیل کی ترسیل کے لئے ایک متبادل راستہ ہو گا.
2- اسی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے عراق نے بجلی کی پیدوار کے منصوبے کو ترقی دینے کے لئے جرمنی کی سیمنس کمپنی کے ساتھ ایک سنہری معاہدہ کیا. اور اسی بجلی پیداوار بڑھانے کے لئے الزبیدیۃ بجلی گھر اور صلاح الدین میں ایک بجلی گھر کے منصوبے کو وسعت دی.
3- زراعت کی پیداوار کو بڑھانے اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے. ملک کی غذائی امنیت کے استحکام کے لئے گندم کے ذخیرے کے لئے پائیدار کنکریٹ کے بڑے بڑے اسٹور تعمیر کئے. کہ جن میں چار ملین ٹن گندم اسٹور ہو سکتی ہے جس سے تین سال تک عراق کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے. کسانوں سے گندم کی خریداری کا آسان میکانیزم بنایا کہ جس میں بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے دور اور 6 لاکھ دینار فی ٹن کے ریٹ پر بے سابقہ اور بروقت فقط 72 گھنٹوں میں کسانوں کو مالیاتی ادائگیاں کی گئیں.
4- سب سے اھم اقدام 19 سے 23 ستمبر 2019 کا پانچ روزہ چین کا دورہ تھا کہ جس کے نتیجے میں " النفط مقابل الاعمار " یعنی تیل بالمقابل تعمیر عراق کا معاھدہ طے پایا. اور جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین دس سال کے دوران 500 بلین ڈالرز ٹریڈ کی سطح جا پہنچی. اور طے پایا کی چینی کمپنیاں فوری طور پر کام شروع کریں گی. اور عملی طور پر 40 چائنی کمپنیوں نے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کا کام شروع بھی کردیا.
یہ سارے اقدامات نہ تو کرپٹ سیاستدانوں کے لئے قابل قبول تھے اور نہ ہی عراق کے فیصلوں پر مسلط بین الاقوامی طاقتوں کے لئے قابل قبول تھے. چین کے ساتھ ان ھونے والے معاہدوں کے بعد عادل عبدالمہدی کے خلاف کرپشن کی عادی بااثر شخصیات اور بھاری بھاری کمیشن لینے والے گروہ اور استکباری طاقتیں سب ملکر سامنے آ گئے . امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ نے ٹویٹ کیا. " کہ بالکل معقول نہیں کہ ہم عراق کو آزاد کرائیں اور معاملات غیروں سے ہوں " اور پھر تو ملکی وبین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا الیکٹرانک فورسسز نے عادل عبدالمہدی پر چڑھائی کر دی. اور عراق میں گذشتہ 16 سال سے ہونے والی ساری کرپشن ، بے روزگاری اور عوام کی محرومیوں کا زمہ دار فقط اور فقط عادل عبدالمہدی اور اسکی حکومت کو قرار دیا.
ملاحظہ: کالم کے اختتام پر رائٹر لکھتا ہے کہ عادل عبدالمہدی صحافیوں ، میڈیا اینکرز، بوٹ چاٹنے والوں اور مکھیوں کے چہرے صاف اور خوبصورت بنانے والوں کے حق میں بہت کنجوس تھا.
(عراقی رائٹر عبدالکاظم حسن الجابری کے کالم سے ماخوذ ، بتاریخ 12/11/2019 )
ترجمہ وتحریر: علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل) دور حاضر میں مسئلہ فلسطین نت نئے پیچیدہ سیاسی نشیب و فراز کا شکار ہے۔ایک طرف عالمی سامراجی حکومت شیطان بزرگ امریکہ ہے کہ جس نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال اس جعلی ریاست کی بے پناہ پشت پناہی کی ہے اور فلسطین پر ناجائز تسلط کا دفاع کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے صہیونیوں نے فلسطین میں عرب فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور ان کو کچلنے کے لئے کھربوں ڈالر کا اسلحہ صرف امداد کے نام پر فراہم کیا ہے جس کے نتیجہ میں صہیونیوں نے گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے مظلوم عوام کا خون پانی کی طرح بہایا ہے۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نے صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام ہی نہیں کیا بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے اپنی گھروں سے بھی نکال باہر کیا ہے۔
آج فلسطینیوں کی زمینوں پر صہیونی بستیاں آباد ہیں جبکہ اس زمین کے اصل باسی مہاجر اور پناہ گزین بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومتوں نے جہاں اسرائیل جیسی جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے براہ راست سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا ہے وہاں دوسری طرف اسی غاصب و جعلی صہیونی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لئے خطے میں عدم استحکام پھیلانے اور خطے کی ریاستوں کو اسرائیل کے سامنے تسلیم کرنے کے لئے سات ٹریلین ڈالرز گذشتہ چند ایک سالوں میں شام، عراق اور لبنان جیسے ممالک میں دہشت گرد تنظیم داعش اور اس کے ہمنواؤں کے لئے خرچ کئے ہیں اور اس بات کا اعتراف امریکی حکومت کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں۔
آج مسلمان دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کا ہے۔ مسلم دنیا کے تمام مسائل کی فہرست میں فلسطین کا مسئلہ پہلے نمبر پر موجود ہے اور اس کے حل کے لئے اگر کوئی آسان اور موثر طریقہ اپنایا جا سکتا ہے وہ صرف اور صرف مسلما ن ممالک کی حکومتوں اور عوام کا باہمی اتحاد اور وحدت ہے کہ جو نہ صرف دنیائے اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے کارگر ثابت ہو گا بلکہ دنیائے اسلام کے دیگر تمام مسائل جو دشمن کی جانب سے صرف اسلئے پیدا کئے گئے ہیں کہ مسلمان حکومتوں کو ان میں الجھا کر رکھا جائے تا کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل محفوظ ہو جائے۔
یہا ں پر مجھے ایک واقعہ یا د آ رہا ہے کہ جب گذشتہ سالوں میں ایران اور یورپی ممالک کے پانچ ممالک کے مذاکرات یعنی پی فائیو پلس ون جاری تھے اور پھر ایک اہم ترین معاہدے پر پہنچے تھے تو اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ اسرائیل آئندہ پچیس برس کے لئے مسلمان دنیا کے خطرے اور بالخصوص اسرائیل کے دشمن ایران سے محفوظ ہو گیاہے لیکن دوسری جانب ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ جس میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح فلسطین کے عوام کے حقوق کا دفاع کرنے اور فلسطین کی آزادی کو یقینی اور حتمی ہونے کے ساتھ ساتھ وعدہ الہی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل ان شاء اللہ آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا۔
اس بیان کے بعد عرب دنیا میں بالخصوص اور یور پ میں مسلمان نوجوانوں میں جوش اور جذبہ کی نئی لہر دوڑ گئی تھی اور فلسطین کی آزادی کی تحریکیوں حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے اس بات کا خیر مقدم کرتے ہوئے عزم کیا تھا کہ خطے میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ہر سطح پر ناکام بنایا جائے گا۔بہر حال یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ دنیائے اسلام کے سب سے اہم مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے اسلامی دنیا کا اتحاد او آئی سی کی رسمی کاروائیوں سے بڑھ کر ہونا چاہئیے۔اس عنوان سے مسلمان و اسلامی حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ فلسطین سمیت دنیائے اسلام کے تماممسائل کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔
حالیہ دنوں ہی ذرائع ابلاغ پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا بھر سے ایران میں جمع ہونے والے اسلامی دنیا کے مایہ ناز مفکروں، مفتیان کرام، خطباء عظام اور اسکالروں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے نابودی کو یقینی قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کی سربلندی کو حتمی و خدا کا وعدہ قرار دیا۔انہوں نے مسلم دنیا کے اسکالروں اور مفتیان کرام سمیت سیاسی ومذہبی شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل اور امت اسلامی کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ مسلمان حکومتوں کو چاہئیے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اپنی متحدہ اور مشترکہ کوششوں کو سرانجام دیں اور باہم اتحاد اور وحدت کو عملی بنانے کے لئے کم سے کم درجہ کا اتحاد یہ ہے کہ مسلمان و اسلامی ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت یہی ہے کہ مسلم دنیا کے مشترکہ دشمن کو پہچانا جائے۔آج امریکہ جن مسلم ممالک کی پشت پناہی کرتے ہوئے مسلمان ممالک کو باہم دست و گریباں کرنے میں مصروف ہے کل یہی امریکہ ان مسلمان حکومتوں اور ملکوں کے خلاف بھی کسی قسم کے اقدامات سے گریز نہیں کرے گا۔
لہذا مسلمانوں کی نجات باہمی اتحاد میں ہے اور مسئلہ فلسطین کے درست راہ حل کے لئے مسلمانوں کا کم سے کم اتحاد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں اور اتحاد کا بلند ترین مرتبہ یہ ہے کہ تمام مسلمان حکومتیں اپنے علم و تمد ن سے ایک دوسرے کی مدد کریں اور ترقی کی راہیں ہموار کریں۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر آج مسلمان حکومتیں اتحاد و یکجہتی کے کم سے کم درجہ کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیوں کو عالم اسلام و انسانیت کے سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اور فلسطین سمیت دنیا کے مظلوموں کی مدد کے لئے خرچ کریں تو یقینا یہ بات درست ہو گی کہ اسرائیل کی جعلی ریاست آئندہ پچیس برسوں میں دنیا کے نقشہ پر نہیں ہوگی۔آج مسلم دنیا میں فلسطین، کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، برما اور دیگر کئی ایک مقامات پر مسلمان اقوام صرف اور صرف عالم اسلام کے کم سے کم درجہ کے اتحاد یعنی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے پرہیز کرنے کے متمنی ہیں۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی