The Latest
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا ہے پاکستانی عوام کو درپیش تمام مشکلات اور مسائل کا واحد حل قومی اتحاد اور وحدت امت ہے ، اگر پوری قوم یک زبان ہو کر دہشت گردی ، لاقانونیت اور دیگر معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کے تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں ، انہوں نے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ، بالخصوص سانحہ بابو سر ٹاپ، سانحہ چلاس اور کوئٹہ میں شیعہ قتل عام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی خاموشی کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے پندرہ ستمبر کو اسلام آباد میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ا عوام کو مسائل و مشکلات کے گرداب سے نکالنے کے لیے اٹھایا جانے والا مستحسن اور موثر اقدام قرار دیا ۔ علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ موجودہ ملکی حالت کے تناظر میں پوری قوم کو ا یک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے اور اور ظلم و ناانصافیوں کے خلاف قومی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ مجلس وحدت مسلمین ایک نظریاتی جماعت ہے جس نے ہر مشکل گھڑی اور ہردور ابتلا میں قوم کو حوصلہ دیا اور عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتے ہوئے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ، انشاء اللہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے اٹھا یا جانے وا لا یہ اقدام بھی نتیجہ خیز ثابت ہو گا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ اور پھر مرکزی سیکرٹری جنرل کی قیادت میں ایگزکٹیو کیمٹی کی اہم میٹنگز کے بعد ملک بھر میں شیعہ نسل کشی کے خلاف احتجاجی تحریک کے آغاز کے لئے ایم ڈبلیو ایم ضلع راولپنڈی اور اسلام آباد کی ایک اہم میٹنگ ہوئی اس میٹنگ کی ابتداء میں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مختصر گفتگو کی ۔
آپ نے اپنی گفتگو میں ضلع کے عہدہ داران کو آل شیعہ کانفرنس اور احتجاجی تحریک کے حوالے سے اہم ہدایات دیں اور رہنمائی کی آپ نے فرمایا کہ تاریخ تشیع خون کی سرخی سے استقامت اور شجاعت سے لکھی گئی ہے ہم میدان میں حاضر ہیں ،دشمن ہماری بیداری سے خوف زدہ ہے اور ہمیں اپنے اصولی اور اصلی اہداف سے ہٹانا چاہتا ہے ،کیونکہ ہم اس وطن کی پہلی دفاعی لائن ہیں لہذا ہمیں بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہیے ہم کبھی بھی میدان سے ہٹنے والے نہیں ۔
اس اہم میٹنگ میں احتجاجی تحریک کے سلسلے میں لگائی جانے والی احتجاجی کیمپ اور آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کے بارے میں ضلع کے عہدہ داران نے گفتگو کی اور تقسیم کار کیا
واضح رہے کہ یہ احتجاجی کیمپ اسی ہفتے میں دارالحکومت اسلام آباد میں لگائی جائے گی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے سانحہ بابوسر، سانحہ یوم القدس کراچی اور دیگر شہدائے ملت جعفریہ پاکستان کے ایصال ثواب کے لئے عزاخانہ زہرا ( س ) سولجر بازار کراچی میں ایک مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔ مجلس سے خطاب ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ترجمان علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کیا۔ مجلس میں علامہ آفتاب حیدر جعفری، علامہ شبیر الحسن طاہری اور دیگر علمائے کرام کے علاوہ مومنین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر نوحہ خوانی کے فرائض ممتاز نوحہ خوان علی صفدر نے انجام دیئے۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملت جعفریہ کی نسل کشی میں حکمران اور چیف جسٹس ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تھپڑ پر سوموٹو ایکشن لینے والے چیف جسٹس کو گلگت اور کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں ملت جعفریہ پر پے در پے حملے نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ صابر ہے اور اپنے عزم و استقامت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائے گی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کی ایگزکٹیو کیمٹی نے گذشتہ روز اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اہم فیصلہ جات کئے جن میں سے ایک اہم فیصلہ مزید صلح مشورے اور مشترکہ لائحہ عمل کے لئے آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا ہے
اس سے قبل بھی مجلس وحدت مسلمین نے عزداری کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے ایک اہم آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلائی تھی جس کے انتہائی مفید اور اہم نتائج برآمد ہوئے تھے اس کانفرنس سے قبل ملک بھر میں ایک خاص اندازسے عزاداری کے جلوس کے خلاف ایک منظم پروپگنڈہ شروع ہوچکا تھا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا کہنا ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں بھی بلا تفریق تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو دعوت دی جائے گی جو مل بیٹھ کر ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام کے حوالے سے ممکنہ اقدامات پر غور کرینگے
البتہ مجلس وحدت مسلمین ملک میں ملت جعفریہ کے قومی پیلٹ فارم ہونے کی حثیت سے صرف آل پارٹیز کانفرنس ہی کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ دیگر ضروری اقدامات کی جانب بھی ملت کو متوجہ کررہا ہے جن میں پرامن احتجاج،احتجاجی کیمپ ،اہم ملاقاتیں وغیرہ شامل ہیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ کی ایگزکٹیوکیمٹی کا اہم اجلاس مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی صدارت میں ہوا جس میں ملک بھر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اہم فیصلہ جات ہوئے اس اہم اجلاس میں مرکزی کیمیٹی کے جو اراکین موجود تھے ان میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ،علامہ محمد امین شہیدی،علامہ شبیر بخاری،علامہ حسنین گردیزی،علامہ مظہر کاظمی،ناصر عباس شیرازی،اقراحسین شامل تھے ۔کیمیٹی نے ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے اپنی شدید فکرمندی کااظہار کرتے ہوئے حکومت اور سیکوریٹی فورسز کی جانب سے اس مسئلے پر عدم توجہ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ،اجلاس میں شہدائے ملت جعفریہ کے لئے فاتحہ پڑھی گئی اور لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا
کیمٹی کے اہم فیصلے
کیمٹی نے اس سلسلے میں اہم فیصلہ جات کئے جن میں سے چند ایک یہ ہیں
الف:شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے 15ستمبر کو اسلام آباد میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی
ب:اسلام آباد میں اس مسئلے کے حل کے لئے ایک احتجاجی و تشہیراتی کیمپ لگایا جائے گا
ج:اس مسئلے کے مستقل راہ حل کی تلاش کے لئے مختلف جماعتوں ، شخصیات اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کے ساتھ ملاقاتیں کی جاینگی
جبکہ 8/9ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے مرکزی شوری کے اجلاس کا ایک اہم ایجنڈہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ہی ہوگا
تفصیلات
مجلس وحدت مسلمین نے ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ، بالخصوص سانحہ بابو سر ٹاپ، سانحہ چلاس اور کوئٹہ میں شیعہ قتل عام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی خاموشی کیخلاف آئندہ کا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے پندہ ستمبر کو آل پاکستان شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کانفرنس اسلام آباد میں طلب کی گئی ہے جس میں تمام شیعہ تنظیموں کے سربراہان، جید علمائے کرام اور اہم شخصیات کو دعوت دی جائیگی۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ اور آئندہ کا لائحہ عمل جاری کیا جائیگا۔
آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی مرکزی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ تین روز تک جاری رہنے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں سانحہ بابوسر اور ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف اسلام آباد میں مستقل احتجاجی کیمپ لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، یہ کیمپ اس وقت تک لگا رہے گا جب تک شیعہ قوم کے مطالبات نہیں مان لیے جاتے اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ کیمپ میں تمام سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد کو شرکت کی دعوت دی جائیگی۔
مرکزی کابینہ نے 8،9 ستمبر کو اسلام آباد میں تنظیمی کنونشن بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ تنظیمی کنونشن میں ملک بھر سے 80 سے زائد اضلاع کے تنظیمی عہدیداران اور چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان کے صوبائی عہدیدارن شریک ہونگے۔ تنظیمی کنونشن میں ایم ڈبلیو ایم کی شوریٰ عالی اور شوریٰ نظارت کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں ملک کی بدلتی ہوئی صورتحال اور تنظیمی لائحہ عمل پر غور کیا جائیگا۔ مرکزی کابینہ نے علماء اور ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ایک وفد گلگت بلتستان بھیجنے کی بھی منظوری دی، یہ وفد گلگت بلتستان جا کر تمام سیاسی و مذہبی تنظیموں سمیت اہم شخصیات اور سانحات میں متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کرے گا اور حالیہ ہونے والے نقصانات پر اپنی جائزہ مرتب کرے گا جس کی روشنی میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
مرکزی کابینہ کے اجلاس میں سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری، علامہ محمد امین شہیدی، علامہ شبیر بخاری، علامہ مظہر حسین کاظمی، سرفراز حسینی، ناصر عباس شیرازی اور اقرار حسین سمیت دیگر شریک تھے۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے عزاداری سیل کے سربراہ حیدر علی مرزا کی قیادت میں میکلوڈ روڈ لاہور میں شہریوں نے گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث گروہ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع حیدر علی مرزا نے کہا کہ پاکستان میں ملت تشیع کے لئے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور وفاقی حکومت اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں کرفیو سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جبکہ عید کی چھٹیوں پر وہاں جانے والے طلباء اور سرکاری ملازمین ابھی تک واپس نہیں آ سکے جبکہ خصوصی طیارہ سروس بھی شروع نہیں کی گئی جو وفاقی حکومت کے دوہرے معیار کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع محب وطن قوم ہے اور ہم نے ہی پاکستان بنایا تھا اور اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں، حکومت نے اگر دہشت گردوں کو لگام نہ دی تو ہم راست اقدام کرنے پر مجبور ہوں گے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔
حیدر علی مرزا نے کہا کہ کوئٹہ، کراچی اور گلگت بلتستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں امریکہ ملوث ہے اور ان کے مقدمات امریکی قونصل جنرل کے خلاف درج کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو مخصوص سازش کے تحت خانہ جنگی میں دھکیلا جا رہا ہے ہم ملک دشمن قوتوں کی یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین بہت جلد اس پر اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرئے گی اور ہم خود ملک میں قیام امن کا فارمولا دینگے جس کے بعد امریکی غلام حکمرانوں کو بھی اپنے اقتدار کے لالے پڑ جائیں گے
میں سچا مسلمان کیسے بنوں؟ وسعت اللہ خان
ایک سنی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لئے کہاں تک جائے، کیا کرے ؟؟؟
شاید شیعوں کو مارنے سے میرا کام نہیں چلے گا۔ شائد اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
تو کیا بو علی سینا کی قبر پر جا کے تھوک دوں؟
بابائے الجبرا الخوارزمی کے فارمولے جلا دوں؟
بابائے کیمیا جابر بن حیان کی ہڈیاں زمین سے نکال لوں؟
بابائے فلکیات البیرونی کے مزار کو آگ لگادوں؟
مورخ المسعودی کی تاریخِ اسلام حرام سمجھ لوں؟
حضرت معروفِ کرخی کے تصوف، ملا صدرا کے نظریہِ وجودیت اور سیّد علی ہمدانی کی تبلیغ کو شرک کے خانیمیں رکھ دوں؟
عمرِ خیام کی رباعیات چھلنی کر دوں؟
شاہ نامہ والے فردوسی کا تہران یونیورسٹی میں لگا مجسمہ گرا دوں؟
ڈاکٹر علی شریعتی کو مرتد مان لوں؟
جو بھی قلی قطب شاہ، میر، غالب، انیس، دبیر، اکبر الہ آبادی، جوش، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور جون ایلیا کے شعر پڑھے، پڑھائے یا حوالہ دے، کیا اس کا منہ نوچ لوں؟
اردو کا سب سے بڑا ناول آگ کا دریا، دریا برد کردوں؟ خاک اچھا ہوگا ایسا ناول جسے قرت العین جیسی شیعہ نے لکھا ہو۔
اور صادقین نامی شیعہ کی قرانی کیلی گرافی کسی تہہ خانے میں چھپا دوں؟
کیا جہانگیر کی ایرانی محبوبہ نور جہاں کو بھی ذہن سے مٹا دوں؟
تاج محل کو ڈائنامائیٹ لگا دوں جس میں سنی شاہ جہاں کی شیعہ اہلیہ ممتاز محل سو رہی ہے؟
نادر شاہ کا تذکرہ صفحات سے کیسے کھرچوں؟
بتائیے حیدر علی شیعہ اور شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے والے فتح علی ٹیپو سلطان کے ساتھ کیا کروں؟
جنگِ آزادی کی ہیروئن بیگم حضرت محل کا تذکرہ کہاں لے جاؤں؟
جس شخص کو بانیِ پاکستان کہا جاتا ہے اس پر سے شیعت کا دھبہ کیسے مٹاؤں؟ اسے تو غالباً سنی علامہ اقبال نے ضد کرکے انگلستان سے بلوایا تھا نا۔
اور یہ راجہ صاحب محمود آباد اپنی شیعت بھول بھال کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت پر دامے درمے کیوں قربان ہوگئے۔ شاید وہ پاکستان کو شیعہ ریاست بنانا چاہتے تھے۔تبھی تو !!!!
اور ایوب خان کو کسی راسخ العقیدہ نے بروقت کیوں مشورہ نہیں دیا کہ ایک سنی اکثریتی نظریاتی ملک کی حسّاس فوجی قیادت ایک ہزارہ شیعہ جنرل موسی کے حوالے نا کرے۔ اور دیکھو ایوب خان نے مزید کیا غضب کیا کہ پینسٹھ کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری بھی جنرل موسی کو تھما دی۔
اور سادہ لوح سنیوں نے یہ کیا کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کندھے پر اٹھا لیا۔ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ وہ شیعہ ہے اور سینہ زوری دیکھو کہ خبردار کرنے کے باوجود بھی اس کی بیٹی کو دو دفعہ وزیرِ اعظم بنا لیا ؟؟؟
شاید گلگت اور بلتستان کے شیعوں کو بالکل ٹھیک سزا مل رہی ہے۔ آخر کس نے کیپٹن حسن، صوبیدار میجر بابر اور ان کے ساتھیوں کو کہا تھا کہ خود ہی بندوق اٹھا لیں، خود ہی کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کی غلامی کندھوں سے اتار پھینکیں اور آزادی کمانے کے لگ بھگ بیس روز بعد ہی پاکستان سے آئے ہوئے پہلے پولٹیکل ایجنٹ کو سیلوٹ مار کے گلگت بلتستان کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ آج بھی ان کی نسلیں اس پر اتراتی ہیں کہ باقی پاکستان تو میز پر بنا۔ ہم نے اپنا حصہ بندوق سے آزاد کروایا۔ مگر ان نسلوں کو اتنی عقل نہیں
ہے کہ قومی شناختی کارڈ پر اپنا نام ہی تبدیل کروالیں۔
اور یہ نگر اور ہنزہ کی اسماعیلی شیعہ ریاستیں کس برتے پر پاکستان میں مدغم ہو گئیں؟
جانے کیا سوچ کر حوالدار لالک جان انیس سو ننانوے میں کارگل کی چوٹیوں پر جان دے کر نشانِ حیدر والوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ تو کیا میں یہ مطالبہ کردوں کہ اس شیعہ سے نشانِ حیدر واپس لیا جائے اور اسے شہید نہ کہا جائے اور یہ نشانِ حیدر کس نے نام رکھا؟ کیا پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز کا نام نشانِ صحابہ، نشانِ جھنگوی، نشانِ جیش، نشانِ طالب یا نشانِ قاعدہ رکھتے ہوئے ہتک محسوس ہوتی ہے ؟؟؟
مجھے پانچ سال کی عمر میں انگلی پکڑ کے اے بی سی ڈی سے متعارف کرانے والے استاد کے سنگِ مزار پر سے حمید حسن نقوی کا نام کھرچوا کے دلاور خان یا خورشید صدیقی یا اسلم فاروقی یا بابر بلوچ یا پھر بھگوان داس لکھوانے سے کیا کام چل جائے گا ؟؟؟؟
بتائیے نا! آخر کیا کروں خود کو ایک اچھا سچا مسلمان ثابت کرنے کے لئے ؟؟؟؟
ماخوز شدہ بی بی سی اردو سائئڈ
العارف ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا مختار امامی کا کہنا ہے پولیس اور رینجرز ملت جعفریہ کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے، ریاستی سرپرستی میں شیعہ عمائدین کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، دہشت گرد شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور شیعہ عمائدین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب پولیس اور رینجر کی جانب سے فرقہ وارانہ اور مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے جائیں گے تو پھر شہر میں قیام امن کیے ممکن ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس، رینجرز و دیگر میں سے کالی بھیڑوں اور متعصب افسران اور اہلکاروں کو نکالیں، تاکہ دہشت گردوں کے سرپرستی کا سلسلہ ختم ہو۔
مولانا مختار امامی کا کہنا تھا کہ صرف آٹھ گھنٹے کے اندر تین شیعہ عمائدین سید فراز حسین، شہزاد عباس اور اے ایس آئی گوہر عباس کا دن دہاڑے قتل عام پولیس اور رینجرز کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعلٰی سندھ فوری طور پر ملت جعفریہ کے قتل میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سرپرست پولیس اور رینجرز افسران کو گرفتار کریں، تاکہ شہر میں بڑھتے ہوئے ملت جعفریہ کے قتل عام کے سلسلہ کو روکا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کراچی کا ضلع وسطی ملت جعفریہ کی مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے اور صرف گذشتہ تین سالوں میں سو سے زیادہ علماء کرام، ڈاکٹرز، تاجروں اور اساتذہ کو قتل کیا جاچکا ہے، لیکن کسی ایک کا بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایس ایس پی ضلع وسطی کیپٹن عاصم قائم خانی کے کالعدم تنظیموں سے رابطے کا نوٹس لیا جائے اور شیعہ نوجوانوں کے قتل میں اس کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
گلگت بلتستان حکومت نے مسافر گاڑیوں کی حفاظت کے لیے پلان کو حتمی شکل دے دی ہے۔ شام 4 بجے سے بشام اور بصری چیک پوسٹ سے مسافر گاڑیاں کانوائے کی صورت میں چلیں گی جبکہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ہر مسافر بس میں سیکورٹی گارڈ کی موجودگی یقینی بنائیں گے۔ جمعرات کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی ہدایت پر سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر فیصل ظہور اور آئی جی بی گلگت بلتستان کیپٹن (ر) عثمان ذکریا کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد سے چلنے والی گاڑیاں شام 4 بجے تک ہر صورت میں بشام پہنچیں گی۔ اسی طرح گلگت سے چلنے والی گاڑیاں بھی شام کے 4 بجے تک بصری چیک پوسٹ پہنچیں گی۔ بصری چیک پوسٹ سے تمام گاڑیوں کو کانوائے کی شکل میں بشام پہنچایا جائے گا۔ قراقرم ٹاسک فورس گاڑیوں کی حفاظت پر مامورہو گی۔ قراقرم ٹاسک فورس کے جوانوں کی کل تعداد 422 ہے جن کو 31 گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں۔ قراقرم ہائی وے پر بصری تک قراقرم ٹاسک فورس مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی جبکہ بصری چیک پوسٹ سے بشام اور بشام سے واپس بصری چیک پوسٹ تک خیبرپختونخواہ حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہو گی۔ ٹرانسپورٹ کی تمام بڑی کمپنیاں ہر گاڑی کے اندر کمپنی کی طرف سے حفاظتی گارڈ فراہم کریں گی جبکہ گلگت شہر میں موٹر سائیکل کی سواری پر تا حکم ثانی مکمل پابندی ہو گی۔
اس قبل بھی حکومت اس قسم کے کئی پلان بنا چکی ہے جس پر دو فیصد بھی عمل نہیں ہوا ،پلان کے نام پر کروڑوں روپے حاصل کئے جاتے ہیں جس کی بعد بندر بانٹ کی جاتی ہے
عوام احتجاج کرے تو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے اور حکومت اپنے حامیوں کے زریعے ڈرا دھمکاتی ہے
عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اب حکومتی سیکوریٹی اداروں پر ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے روز روز نئے نئے ناکام پلان نے عوام کو بے اعتمادی کا شکار کیا ہے اور عوامی مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام کو ہمسائیہ ممالک میں تعلیمی اور ضروریات زندگی کے حصول کے لئے مکمل زمینی راستے کھولنے کے ساتھ ساتھ ضروری اقدامات انجام دئے جائیں
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر میں آج یوم احتجاج منایا گیا، اس موقع پر کوئٹہ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء علامہ سید ہاشم موسوی نے سانحہ بابوسر اور یوم القدس کراچی کیخلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ نماز جمعہ کے بعد شام کو شیعہ نسل کشی کیخلاف ایک احتجاجی ریلی کوئٹہ امام بارگاہ نیچاری علمدار روڈ سے برآمد ہوئی۔ ریلی کے شرکاء نے بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے۔ جن پر حکومت اور انتظامیہ کیخلاف نعرے درج تھے۔ ریلی میں سینکڑوں مظاہرین نے شرکت کی۔ ریلی کی قیادت امام جمعہ کوئٹہ اور مجلس وحدت مسلمین کے رکن شوریٰ علامہ سید ہاشم موسوی اور رکن شوری عالی علامہ مقصود علی ڈومکی کر رہے تھے کر رہے تھے۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید ہاشم موسوی نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کراچی سے لیکر گلگت تک پاکستانی شیعہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے لیکن ملک کی ریاستی قوتیں اس وحشیانہ تشدد کیخلاف کوئی ردعمل نہیں دیکھا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کیخلاف کام کرنے والے سازشی عناصر شیعہ سنی میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں لیکن دونوں مکاتب فکر کے رہنماؤں نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کو ہی ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے شیعہ عوام کو پاکستان کے دوسرے اہل تشیع سے الگ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
علامہ سید ہاشم موسوی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی میں ملوث عناصر کیخلاف جلد کارروائی کی جائے۔ بصورت دیگر پاکستان کے تمام شیعوں کو اسلام آباد کارخ کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک پاکستان کے اہل تشیع عوام نے صبر کا دامن تھامے رکھا ہے لیکن ہمارے صبر کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی اور علامہ ولایت حسین جعفری، سردار سعادت علی ہزارہ نے بھی خطاب کیا۔ احتجاجی ریلی بہشت زینب (ہزارہ قبرستان) پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ جہاں پر شُہدائے کوئٹہ کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔