The Latest
گلگت بابوسر دہشت گردی میں معجزانہ طور پر بچنے والے استور کے 22 سالہ امتیاز نامی نوجوان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد 30 سے 40 تک تھی۔ جن کے لمبے بال تھے اور کمانڈو وردی میں ملبوس تھے۔ جن کے ہاتھوں میں رسہ، بلیٹ، میں خنجر بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے چاروں اطراف سے گھیر لیا اور مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کیے اور مشکوک لوگوں سے کلمہ بھی پوچھا۔ حملہ آور بول رہے تھے اور لب و لہجہ سے خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے لمبے بالوں سے گمان تھا کہ وہ خواتین ہیں۔ اپنے بارے میں بتایا کہ دوران شناخت وہ گاڑی کے نیچے گھس گئے اور گاڑی کے ٹینک سے لپٹ کر بیٹھے رہے، جب غیر مطلوب لوگوں کو گاڑی میں بٹھا کر روانہ کر دیا تو ڈیڑھ کلومیٹر دور جا کر ڈرائیور سے خیریت معلوم کی اور گاڑی میں بٹھا کر علاقے سے نکال دیا۔
عینی شواہدین نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد 20 سے 25 تک ہے۔ جن میں زیادہ کا تعلق استور سے ہے۔ 11 افراد کا تعلق استور سے، 2 کا تعلق کراچی سے، 2 کا نگر سے اور ایک شخص کا تعلق بگروٹ سے اور 2 کا تعلق گوجر خان پنجاب سے ہے۔ یاد رہے 30 جولائی 2012ء کو مرکزی حکومت وزارت داخلہ سے سیکرٹری داخلہ کے ایک مراسلہ آیا جن میں شاہراہ قراقرم پر دہشت گرد دوبارہ سے کوئی کارروائی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ سانحہ کوہستان میں ملوث فاروق نامی دہشت گرد جس کا تعلق جاگیر من عبدالجبار کا بیٹا ہے، اپنے دہشت گرد ساتھیوں جن کا تعلق مکار کوئی جاگیر بین اور کشروٹ سے ہے رابطہ میں ہے۔ انہیں کوہستان آنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس خدشے کا اظہار مرکزی مسجد بو کمیٹی کے چیف سیکرٹری کے آفس میں ایک مہینہ قبل آئی ایس آئی کے کرنل نے اپنے بریفینگ میں بتایا تھا لیکن مقامی حکومت اور ایجنسیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے اور ان کی نقل و حمل کو تباہ کرنے کی بجائے انہیں مواقع فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ مذید منظم انداز میں گلگت بلتستان میں شیعوں کا قتل عام کریں۔ سانحہ منادر کے پس پردہ حقائق کو اب تک حکومت منظر عام تک نہیں لائی بلکہ چلاس، کوہستان میں طالبان دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، جس کے بارے میں ایجنسیوں کو پہلے سے معلوم ہے۔ مگر کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ نامعلوم حکومت اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کیوں کر رہی ہے؟
سابق چرمین بلدیہ گلگت کیا کہتے ہیں؟
سانحۃ بابوسر چلاس محض ایک حادثہ نہیں بلکہ مکمل منصوبہ و سازش ہے۔ وزارت داخلہ نے قبل از وقت علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کی جانب سے ممکنہ دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نام گلگت بلتستان حکومت کو آگاہ کیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ جس کا نتیجہ درجنوں بے گناہ مسافروں کو شہید کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار محمد الیاس سابق چیئرمین بلدیہ گلگت اور آرگنائزر آل مسلم لیگ نے اپنے بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع دیامر میں طالبان دہشت گردوں کا نیٹ ورک منظم ہو چکا ہے۔ جس کا ثبوت مسلسل تین دہشت گردی کے واقعات ہیں لیکن حکومت نے نہ تو گزشتہ دہشت گردی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کی، محض نام بتا دیا، ہر جرگے سے ملی بھگت کر کے چند افراد کی گرفتاری پر اکتفاء کیا لہٰذا اس مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت پر دیامر جرگے کے اراکین کے خلاف دہشت گردی میں مدد دینے کی پاداش ہیں۔ دہشت گردی ایکٹ کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں ورنہ گلگت بلتستان کو سوات اور وزیرستان بنانے کی ناپاک سازش کامیاب ہو سکتی ہے
مجلس وحدت مسلمین اسلام آباد اور راولپنڈی کے زیر اہتمام جی سکس مرکزی جامع مسجد سے ایک احتجاجی ریلی بر آمد ہوئی جس کی قیادت ڈپٹی سیکرٹری پنجاب علامہ اصغر عسکری ,ایم ڈبلیوایم اسلام آباد و پنڈی کے سیکرٹری صاحبان مولانا فخر عباس علوی اور مسرورنقوی کے علاوہ علامہ شیخ سخاوت قمی کر رہے تھے جبکہ انجمن دعائے زہرا اور دیگر انجمنوں کے ذمہ دار بھی شریک تھے
ریلی مرکزی مسجد سے برآمد ہوکر علم غازی عباس علمدار ع کے سائے میں ڈی چوک پہنچی جہاں شرکاء نے علامتی دھرنا دیا اور تقاریر کیں
اپنی تقاریر میں علامہ اصغرعسکری اور علامہ سخاوت قمی نے جی بی حکومت کو اس سانحے کا اصل ذمہ دار ٹھراتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان میں کئی ہوئے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا بلکہ استور جیل سے ناقص حکومتی انتطامات کے سبب خطرناک دہشتگرد فرار ہوئے
مقررین نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ حکومتی اداروں اور سیکوریٹی فورسز کو اہل تشیع کے قتل عام کا کوئی دکھ نہیں کیونکہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کئے جارہے
مقررین عدلیہ پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس اور عدلیہ لگتا ہے کہ غیر جانب دار ادارہ نہیں رہا کیونکہ اہل تشیع کے قتل عام کا کہیں بھی ایک دفعہ نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ الٹا دہشت گردوں کو آزاد کیا جارہا ہے
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا سانحہ بابوسر ٹاپ گلگت اور کامرہ پر تعزیتی پیغام
انا للہ و انا الیہ راجعون
ایک بار پھر ماہ رمضان میں دین اور وطن دشمن قوتوں نے وطن عزیز کے باوفا سپوتوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔ آج جبکہ رمضان المبارک کےآخری عشرے میں امت مسلمہ عبادت میں مصروف ہے توسفاک دہشت گردوں نے کامرہ ایئربیس پر حملہ کر کے ایک جوان کو شہید کر دیا جبکہ دوسری طرف گلگت جانے والی مسافر بسوں پر حملہ کر کے 20 سے زائد بے گناہ مسافروں کو شہید کر دیا۔
ہم ان وحشت ناک اور المناک سانحوں سے گھبرائیں گے نہیں اور نہ ہی ان سانحوں کا مقابلہ سر جھکا کر کریں گے بلکہ ہم آل محمد ؐ کی محبت میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور تیار رہیں گے۔
ہمیں اب یقین ہو چکا ہے کہ ہمارے قاتل ریاستی سرپرستی میں ہمارا قتل عام کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے سانحوں کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ کرنا اور ان کے خلاف ایکشن نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ سفاک دہشت گرد ریاستی سرپرستی میں ملت تشیع کا قتل عام کر رہے ہیں۔
اے عظیم ملت تشیع پاکستان! ان سانحات سے مایوس نہ ہونا بلکہ اپنی باہمی وحدت و اتحاد کو اور زیادہ مضبوط کرنا۔ ہم چودہ سو سال سے یزیدیت کے تعاقب میں ہیں، دہشت گردی اور بربریت ،راہ حق سے ہمیں ہر گز ہٹا نہیں سکتی۔ دہشت گردوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور انشاء اللہ فتح و کامرانی مظلوموں کی ہو گی۔
ہم جانتے ہیں کہ اصلی دشمن کون ہے۔ آج شام سے لے کر سانحہ بابوسرٹاپ گلگت تک دین داروںکے قتل عام کے پیچھے عالمی سامراج خاص کر امریکہ اور اسرائیل اور اس کے گماشتوں کا کام ہے۔
گلگت بلتستان کے راستوں مسلسل ایک ہی انداز میں محبان وطن کا قتل عام سکیورٹی کے اداروں کے لیے ایک ایسا بنیادی سوال ہے جو اب ہر خاص و عام کے ذہن میں پیدا ہو چکا ہے۔
میں آخر میں ملت کے تمام ذمہ داروں سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ ان نازک حالات میں اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اکٹھے ہو جائیں اور مل کر راہ حل کو تلاش کریں۔ میں اس المناک سانحے پر امام زمانہ ؑ ، رہبر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای اور شہداء کے گھرانوں اور پاکستان کی عوام کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
ناصر عباس جعفری
مرکزی سیکرٹری جنرل
مجلس وحدت مسلمین پاکستان
کراچی مجلس و حدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے کاغان کے علاقے بابوسرمیں گلگت جانے والی مسافر بس پر حملے 25 سے زائد شیعہ مسافروں کی المناک شہادتوں کے خلاف محفل
شاہ خراسان سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما مولانا امین شہیدی مولانا مرزایوسف حسین علامہ آغا آفتاب جعفری، مولانا محمد کریمی،محمد مہدی ،علی اوسط کہنا تھا کے وفا قی و صوبائی حکومت کی جانب سے ملت جعفریہ کو عید الفطر کا تحفہ 25خون آلود لاشوں کی صورت میں موصول ہوگیا ہے۔حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملت جعفریہ کے تحفظ میں ناکامی پر مستعفی ہو جائیں ۔استعماری تنخواہ دار مزدور پاکستان میں امریکی ٹھیکے پر ملت جعفریہ کی نسل کشی میں مصروف ہیں گذشتہ 6 ماہ میں مذہبی دہشت گردی کا یہ مسلسل تیسر ا بڑا دردناک سانحہ رونما ہو گیا اور ہمارے ملک کے اعلی ٰ اختیاراتی ادارے عدلیہ ، حکومت اورفوج خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اگر ماہ اپریل میں چلاس کے مقام پر اور اس سے پہلے کوہستان میں40 بیگناہ شیعہ مسافروں کی جن میں خواتین ، بچے، بزرگ اور جوان بھی شامل تھے کی بسوں سے اتار کر گولیوں سے بھونے جانے کا سختی سے نوٹس لے لیا جاتا اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا تو آج یہ اور مزید 20 جنازے نہ اٹھانے پڑتے حکومت وقت کو متنبہ کرتے ہیں کے جلد از جلد کوہستان ، چلاس ، بابوسر اور دیگر علاقوں میں پہلے ہوئے دہشت گردوں کے اس نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کلین اَپ کرے ورنہ ملت جعفریہ اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتی ہے۔اس موقع پر مظاہرین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جو دہشتگردوں ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نعرے لگا رہے تھ
مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ترجمان فدا حسین نے اپنے ایک بیان چلاس میں بابوسر کے مقام پر ہونے والے المناک سانحے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ بابوسر کو گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے عوام کو یوم آزادی کے موقع پر تحفہ سمجھیں یا عید کے موقع پر عیدی۔؟ انہوں نے کہا اس جیسے حادثے کا امکان اس وقت سے متوقع تھا، جب سے حکومت کی ملی بھگت سے چلاس اور استور سے انتہائی خطرناک نوعیت کے دہشت گردوں کو چھڑایا گیا تھا۔ ماہ رمضان مبارک میں امریکہ کے ایجنٹوں کی یہ سیاہ کاری ہے، جنہیں جی بی حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
فدا حسین نے مزید کہا کہ ہم گلگت بلتستان میں امریکی مداخلت اور پر اسرار سرگرمیوں کے بارے میں بالخصوص یو ایس ایڈ کے حوالے سے حکومت کو واضح کرتے رہے ہیں لیکن حکومت چند کھوٹے سکوں کی خاطر بھیگی بلی بنی رہی اور اپنا حصہ وصول کرتی رہی ہے۔ اگر اب بھی حکومت بالخصوص پاک فوج گلگت بلتستان میں امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کی سرگرمیوں کو نہیں روکتی ہے تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ اور اس کے ایجنٹ گلگت بلتستان کو بھی افغانستان بنا کر دم لیں گے۔
پچیس سے زائد افراد کی المناک شہادت پر گلگت میں خومر سڑک کو احتجاجا مظاہرین نے بلاک کردی ہے جبکہ بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین بلتستان کی جانب سے یادگار چوک پر احتجاج جاری ہے احتجاج کی قیادت مقامی ایم ڈبلیو ایم رہنماوں کے علاوہ مرکزی سیکریٹری امور جوان علامہ اعجاز بہشتی بھی کر رہے ہیں جبکہ معروف اور ہر دلعزیز عالم دین آغا علی موسوی بھی تشریف فرما ہیں
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور واقعے پر ذمہ دار اپنی ناہلی کو تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ قاری حنیف کے جنازے کو مانسرہ سے سکردو لایا جائے
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا سانحہ بابوسر ٹاپ گلگت اور کامرہ پر تعزیتی پیغام
انا للہ و انا الیہ راجعون
ایک بار پھر ماہ رمضان میں دین اور وطن دشمن قوتوں نے وطن عزیز کے باوفا سپوتوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔ آج جبکہ رمضان المبارک کےآخری عشرے میں امت مسلمہ عبادت میں مصروف ہے توسفاک دہشت گردوں نے کامرہ ایئربیس پر حملہ کر کے ایک جوان کو شہید کر دیا جبکہ دوسری طرف گلگت جانے والی مسافر بسوں پر حملہ کر کے 20 سے زائد بے گناہ مسافروں کو شہید کر دیا۔
ہم ان وحشت ناک اور المناک سانحوں سے گھبرائیں گے نہیں اور نہ ہی ان سانحوں کا مقابلہ سر جھکا کر کریں گے بلکہ ہم آل محمد ؐ کی محبت میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور تیار رہیں گے۔
ہمیں اب یقین ہو چکا ہے کہ ہمارے قاتل ریاستی سرپرستی میں ہمارا قتل عام کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے سانحوں کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ کرنا اور ان کے خلاف ایکشن نہ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ سفاک دہشت گرد ریاستی سرپرستی میں ملت تشیع کا قتل عام کر رہے ہیں۔
اے عظیم ملت تشیع پاکستان! ان سانحات سے مایوس نہ ہونا بلکہ اپنی باہمی وحدت و اتحاد کو اور زیادہ مضبوط کرنا۔ ہم چودہ سو سال سے یزیدیت کے تعاقب میں ہیں، دہشت گردی اور بربریت ،راہ حق سے ہمیں ہر گز ہٹا نہیں سکتی۔ دہشت گردوں کے دن گنے جا چکے ہیں اور انشاء اللہ فتح و کامرانی مظلوموں کی ہو گی۔
ہم جانتے ہیں کہ اصلی دشمن کون ہے۔ آج شام سے لے کر سانحہ بابوسرٹاپ گلگت تک دین داروںکے قتل عام کے پیچھے عالمی سامراج خاص کر امریکہ اور اسرائیل اور اس کے گماشتوں کا کام ہے۔
گلگت بلتستان کے راستوں مسلسل ایک ہی انداز میں محبان وطن کا قتل عام سکیورٹی کے اداروں کے لیے ایک ایسا بنیادی سوال ہے جو اب ہر خاص و عام کے ذہن میں پیدا ہو چکا ہے۔
میں آخر میں ملت کے تمام ذمہ داروں سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ ان نازک حالات میں اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اکٹھے ہو جائیں اور مل کر راہ حل کو تلاش کریں۔ میں اس المناک سانحے پر امام زمانہ ؑ ، رہبر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای اور شہداء کے گھرانوں اور پاکستان کی عوام کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
ناصر عباس جعفری
مرکزی سیکرٹری جنرل
مجلس وحدت مسلمین پاکستان
سانحہ بابوسر ٹاپ میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق پچیس سے تیس افراد کی شہادت کنفرم ہوچکی ہے جبکہ اطلاعات آرہی ہیں کہ اس سانحے میں پانچ سے چھ علمائے کرام بھی شہید کئے گئے ہیں جن میں
میں سے ایک عالم دین کی شناخت ہوگئی
مولانا شیخ قاری حنیف کا تعلق استور سے تھا لیکن وہ پچھلے کئی سالوں سے کراچی میں آباد تھے جبکہ سکردو میں بھی ان کی رہائش تھی
اس کے علاوہ شہداء میں غلام نبی ،مشرف،یعقوب ،ڈاکٹر نثا،ردولت علی ،اشتیاق،ساجد،مظاہر،جلال الدین،غلام مصطفی شامل ہیں جبکہ باقی شہداء کی شناخت جاری ہے
راولپنڈی سے گلگت جانے والی بسوں سے مسافروں کو اتار کر25افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایاگیا
اطلاعات کے مطابق راولپنڈی سے گلگت جانے والی4بسیں جب ناران کے علاقے میں پہنچیں تو تقریباً 40دہشت گردوں نے جو فوجی وردیوں میں ملبوس تھے ،ان بسوں کو محاصرے میں لے کر تمام مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر شیعانِ حیدرِکرار ؑ کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا۔شہید ہونےوالوں کی تعداد 25سے زائدبتائی جاتی ہے۔ شہیدہونے والے افراد میں معروف عالم دین قاری حنیف صاحب بھی شامل ہیں ۔
اس دلخراش سانحے پر مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے دس روزہ سوگ اور عید الفطر کو یوم سوگ کے طور پہ منانے کا اعلان کیاہے۔ مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین، پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری اور دیگر قائدین نے اس سانحے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس سے پہلے سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان کے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا تو آج سینکڑوں خاندان سوگوار نہ ہوتے ۔انہوں نے کہا کہ عید سے دو روز قبل کامرہ میں طالبان کا حملہ اور بسوں پر نہتے مسافروں پر فائرنگ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے اور ایسی سنگین واردات سیکوریٹی اداروں کی نہ بے بسی کو ظاہرکرتی ہے بلکہ اب ان کی وفاداری پر سوالیہ نشان بھی اٹھارہی ہے ۔تسلسل کے ساتھ ایسے بڑے سانحات وزیر اعلی گلگت بلتستان کی نہ صرف ناہلی کو بیان کرتےہیں بلکہ صوبائی اور مرکزی حکومت کی مجرمانہ غفلت پر بھی دلالت کرتے ہیں۔
سکردو سے ایم ڈبلیوایم میڈیا سیل کے نمائندے کے مطابق سانحہ بابوسر ٹاپ کے اکثر شہدا کا تعلق استور سے ہے جبکہ کچھ کا تعلق گلگت سے بتایا جاتا ہےاور اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بسوں میں کچھ اہم علمائے کرام بھی تھے
حملہ آوروں نے فوجی وردی پہن رکھی تھی جنہوں نے بابوسر ٹاپ کے قریب ٹھنڈا پانی نامی جگہ پر مسافر گاڑیوں کو روکا اور شناخت کرنے کے بعد اہل تشیع مسافروں پر فائرنگ کی دہشت گردوں نے اس سے پہلے گاڑیوں کے ساتھ سیکوریٹی کے نام پر بٹھائے گئے ایک ایک پولیس اہل کار کو بھی گولی ماری
واضح رہے کہ سانحہ چلاس اور کوہستان کے بعد بعض مسافربسوں نے ناران کاغان راستے کو بھی استعمال کرنا شروع کردیا تھا کہ جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نسبتا محفوظ راستہ ہے
دو بڑے سانحوں کے بعد بھی گلگت بلتستان کی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے میں پس پیش سے کام لیا اور آج حکومت کے اسی پس وپیش کے نتیجے میں تیسرا برا سانحہ رونما ہوا