The Latest
اگرچہ اسرائیل گذشتہ چند سالوں سے ایران پر حملہ ،ایرانی ایٹامک پلانٹ پر حملہ ،ایرانی فوجی تنصیبات پر حملہ جیسی باتیں اس قدر کرچکا ہے کہ اب تو زرائع ابلاغ بھی باوجود صیہونی کنٹرول کی زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے اسرائیل مسلسل اس قسم کی باتیں کرتا آیا ہے ایران نے اسرائیل کی ان باتوں کو نفسیاتی جنگ کا حصہ قراردیکر کسی بھی قسم کے ممکنہ حملے کے جواب کے لئے خود کو تیار کہا ہے
بلکہ ایرانی عسکری عہدہ داران یہ کہتے آئے ہیں کہ اسرائیل کے کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں ایران جوابا پہلے منٹ میں کئی ہزار میزائل داغے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے
ایٹمی توانائی کے مسئلے پر ایران پر لگائی جانے والی نئی پابندیوں کے بعد ایک بار پھر اسرائیل نے جنگ اور حملے کی رجز خوانیاں شروع کی ہوئی ہیں بلکہ اب تو ٹی وی چینل پر تجزیہ کار اس خیالی جنگ اور اس کے بعد کی صورت حال پر منٹ بائی منٹ رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں
کبھی کہاجاتا ہے کہ یہ جنگ صرف ایک ہفتہ چلے گی تو کبھی ایک ماہ کی بات کی جارہی ہے ساتھ ساتھ ایرانی میزائیلوں کے مقابل اسرائیلی ڈیفنس کے بارے میں کہا جاتا ہے اسرائیلی اور امریکی فلاں فلاں قسم کے میزائل کام آسکتے ہیں جبکہ اسرائیل پر اتنے میزائل برس سکتے ہیں
اگر اسرائیلی اور بعض اسرائیلی ہمنوا میڈیا کو دیکھاجائے تو یوں لگتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ شروع ہو چکی ہے اور بس اب جنگ کے نتائج اسرائیل کے حق میں نکلنے والے ہی ہیں
حال ہی میں اسرائیل کے ایک سابق جنرل کا کہنا ہے کہ ایسی کسی جنگ کی صورت میں یہ جنگ کم از کم ایک ماہ جاری رہے گی اور اس میں اسرائیل کے زیادہ سے زیادہ پانچ سو افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں
اس جنرل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ میزائلوں کی زد میں ہیں اور جاپان جیسے زلزلے کی صورت حال بن سکتی ہے
ادھر اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگ کی انہی باتوں کے سبب پہلے سے بیمار اسرائیل معیشت مزید خراب ہورہی ہے
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اس قسم کی کسی بھی جنگ کی مخالف نظر آتی ہے
اسرائیل کے معروف اخبار یدیعوت احرنوت نے امریکی اعلی رتبے کے عہدہ داروں سے یہ بات نقل کی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے امکانات تقریبا معدوم ہوچکے ہیں ایران اوریورپی ممالک کے ترکی میں ہونے والے مذاکرات کی نسبتا مثبت پیشرفت اور اسرائیلی عہدہ داروں کے درمیان اس مسئلے کو لیکر اختلافات کی شدت دو ایسے عوامل ہیں کہ اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کر سکتا
اسرائیل کو ایران پر حملے سے باز رکھنے والے عوامل ان کے نزدیک خواہ کچھ بھی ہوں لیکن دنیا جانتی ہے کہ جو اسرائیل لبنان کی ایک جماعت کے ساتھ ایک ماہ سے زائد عرصہ جنگ نہ کرسکا وہ ایران جیسے ایک بڑے ملک کے ساتھ کس طرح جنگ کی جرات کرسکتا ہے
ممکن ہے کہ کسی وقت اسرائیلی ایسی کوئی بھی حماقت کر بیٹھیں لیکن بقول ایرانی جنرل کے ایران پر حملہ جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے لیکن پھر اس کے اختتام کا تعین ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایران کے ہاتھ میں ہوگا
ایران کا یہ دعوا صرف دعوا نہیں کیونکہ اس سے قبل ایران پر صدام کی جارحیت میں بالکل ایسا ہی ہوا جنگ کا آغاز صدام نے کیا لیکن پھر اس کا اختتام اس کے ہاتھ میں نہیں رہا اور آٹھ دن میں تہران پہنچنے کے خواب نے آٹھ سال تک طوالت اختیار کیا اور پھر دنیا نے صدام کا انجام بھی دیکھ لیا
تجزیہ اور رپورٹ (وحدت میڈیا مانیٹرینگ ڈسک )
عالم اسلام اور دنیاکے باضمیر انسان ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعے کو قبلہ اول کی آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور اس دن کی بنیادعالم اسلام کی عظیم شخصیت اور دنیا کے عظیم انسانوں میں سے ایک یعنی حضرت امام خمینی نے رکھی تھی اور قبلہ اول پر صیہونی قبضے کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کو درست سمت دی تھی لیکن یوم القدس صرف قبلہ اول سے ہی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اب یہ دن کمزور کئے گئے انسانوں کا ظالم اور مستکبر قوتوں کے خلاف اپنے ارادے اور ہمتوں کو نئے عزم و حوصلہ دینے کا نام ہے
اس سال پاکستان میں یوم القدس کے حوالے سے ملک کے کونے کونے میں تیاریاں جاری ہیں اور چند دن قبل تمام مکاتب فکر کی مشترکہ تنظیم ملی یکجہتی کونسل نے بھی یوم القدس پر زور دیا ہے اگرچہ اس سے قبل مختلف جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے اس دن کی تیاریاں جاری تھیں جن میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان ،امامیہ اسٹوڈینس آرگنائزیشن پاکستان،فلسطین فاونڈیشن اور شیعہ علماء کونسل شامل ہیں
آئے کہ ذیل میں ہم مختلف ممالک اور شخصیات کی جانب سے اس سلسلے میں کیا کچھ کہا جارہا ہے بیان کرتے ہیں
مقبوضہ فلسطین :یوم القدس کے دن امت اسلامیہ اور ملت عرب قبلہ اول کی آزادی کے لئے جدوجہد کی تجدید کا دن ہے
یورپ اور امریکہ: یورپ اور امریکہ میں اسلامی جماعتوں اور تنظیموں نے یوم القدس کی تیاریاں شروع کردیں العالم ٹی وی کے مطابق یورپ کے اکثر ممالک میں اس وقت عالمی یوم القدس کی تیاریاں عروج پر ہیں جہاں مسلمان اور باضمیر انسان اس دن کو منانے کے لئے بھر تیار نظر آتے ہیں
حوزہ علمیہ قم:مراجع عظا م نے یوم القدس کو اللہ کے دن اور خدائی دن سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس دن قبلہ اول کی آزادی کی خاطر گھروں سے نکلنا عبادت اور ایسا عمل ہے کہ جس سے امام زمانہ ع راضی ہو اور اس دن امت اسلامیہ کا احتجاج قبلہ اول کی آزادی کو قریب جبکہ غاصبوں کی امیدوں کو نامراد کرتا ہے واضح رہے کہ اس دن ایران کی آبادی کا زیادہ تر حصہ یوم القدس میں شریک ہوتا ہے
یمن:یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کی سرنگونی کے بعد اس وقت یوم القدس کی تیاریاں انقلابی زور شور سے جاری ہیں عدن شہر کی سڑکوں پر اس وقت القدس کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں عدن سے ایک اہم سیاسی سماجی شخصیت حسین زید بن یحی نے المنار ٹی وی کو بتایا کہ اس سال یمن میں یوم القدس خاص جذباتی کیفیت رکھتا ہے اور عدن شہر میں یوں لگتا ہے کہ گویا پورا شہر القدس کی تیاریاں کرہا ہے
عراق:اکثر شہروں میں یوم القدس کی مکمل تیاریاں عروج پر ہیں صدام کے بعد عراق شایددوسرا ملک ہو جہاں یوم القدس انتہائی جذبے اور عزم کے ساتھ بھرپور انداز سے منایا جاتا ہے
بحرین:ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت الوفاق نے اعلان کیا ہے کہ یوم القدس کے دن کے آغاز کے پہلے ہی سکینڈ میں اللہ اکبر القدس لنا کے نعروں کے ساتھ ریلیاں برآمد ہونگی اگرچہ بحرین کے بادشاہ قبلہ اول کی آزدی کے اس دن کے نہ صرف مخالف ہیں بلکہ اسرائیل مخالف ہر کام کو ناپسند کرتے ہیں
تیونس: میں ڈکٹیٹر شب کے خاتمے کے بعد یوم القدس منانا شروع کردیا تھا اس وقت تیونس کے مختلف شہر یوم القدس کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہے ہیں قومی تنظیم برائے مقاومت کے رہنما احمد کحلاوی کا کہنا ہے کہ یوم القدس ہمیں اس اہم فریضے کی جانب متوجہ کرتا ہے جو قبلہ اول کے حوالے سے ہمارے اپر فرض ہے
دیگر ممالک جن میں مصر ،بوسنیا،روس ،چین ،ہندوستان ،بنگلہ دیش ،افریقی ممالک وغیرہ شامل ہیں میں بھی یوم القدس کی تیاریاں جاری ہیں
لبنان میں یوم القدس کا اپنا ایک مخصو ص انداز ہے جہاں نہ صرف القدس کی ریلی برآمد ہوتی ہے بلکہ لبنان کی سیاسی و عسکری جماعت فوجی مارچ بھی کرتی ہے اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے عملی جدوجہد کا مظاہرہ بھی کرتی ہے اس عظیم پروگرام میں لبنان نے تمام مکاتب فکر کے لوگ شریک ہوتے ہیں
اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستانی وقت کے مطابق رات تقریبا بارہ بجے کے بعد مکہ مکرمہ میں شروع ہوا ،یہ اجلاس سعودی عرب کی جانب سے بلایاگیا ہے اور اس کا مقصد شام کے بحران میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام اور مشرق وسطی کی صورت حال پر گفتگو کرنا ہے
سعودی عرب کے بادشاہ نے اجلاس سے افتتاحی خطاب میں ایک ایسے مرکزکی بنیاد رکھنے کی ضرورت جانب متوجہ کیا جو بین المذاہب ڈئیلاگ اور قربت کو فروغ دے سعودی بادشاہ نے امت اسلامیہ کو باہمی طور پر بھائی چارگی اور اعتدال پر تاکید کی ۔
سعودی بادشاہ نے مختلف ممالک کے سربراہان کو ویلکم کیا اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو اپنے دائیں جانب جگہ دی جبکہ قطر کے بادشاہ کو اپنی دوسری جانب بٹھایا
او آئی سی کی اس سربراہ کانفرنس میں پاکستان سے صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ حنا ربانی شرکت کر رہے ہیں ۔
ایران صدر کی اس کانفرنس میں شرکت یا عدم شرکت پر عرب میڈیا پہلے سے ہی مخصوص پروگرام نشر کرچکا تھا اور مختلف قسم کے تبصرے اور تجزیے کررہا تھا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام کی موجود ہ صورت حال سے ہی عبارت تھی الجزیرہ جیسے منفی روجحانات رکھنے والے چینل نے منفی پروپگنڈے کی ایک مہم لانچ کی ہوئی تھی
صدر احمدی نژاد کی شرکت اور پھر سعودی بادشاہ کے ساتھ والی نشست پر بٹھائے جانے کے بارے میں الجزیرہ نے عجلت میں اسے اچانک اور ایک بڑی تبدیلی کا نام دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شام کے بارے میں ایرانی موقف میں تبدیلی واقع ہوئی ہے
ادھر شام کے ایک مبصر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے بلائے جانے والے اس اجلاس کا اصل ہدف اس بیرونی ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچانا ہے جسے امریکہ اسرائیل اور ترکی و قطر نے تشکیل دیا ہے اور اس کا مقصد شام میں اسرائیل نواز نظام کا قیام ہے
(رپورٹ ایم ڈبلیوایم میڈیا مانیٹرینگ ڈسک)
آئمہ کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر۔۔خطابات ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
آئمہ عليہم السلام کي زندگي کو ہميں درس حيات اور اسوہ عمل کے طور پر ديکھنا چاہئيے ، يہ مناسب نہيں کہ ہم صرف ايک شاندار قابل فخر يادگار کے عنوان سے اس کا مطالعہ کريں۔ يہ چيز اسي وقت ممکن ہے جب ان عظيم ہستيوں کي سياسي روش اور ان کے طريقہ کار پر بھي توجہ ديں۔
جہاں تک ميرا اپنا تعلق ہے مجھے آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے اس رُخ نے خاص طور پر متاثر کيا ہے اور ميں اس حقيقت کے اظہار ميں کوئي مضائقہ نہيں سمجھتا کہ ميرے ذہن ميں يہ خيال ١٩٧١ کے سخت ترين امتحان و آلام کے ايام ميں پيدا ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل بھي اعلائے کلمہ توحيد اور استقرار حکومت الہي کے سلسلہ ميں آئمہ کا مجاہدانہ کردار اور ان کي قربانياں و فداکارياں ميرے پيش نظر تھيں۔ پھر بھي وہ نکتہ جو اس دور ميں ناگہاني طور پر ميرے ذہن ميں روشن ہوا وہ يہ تھا کہيں ان بزرگواروں کي زندگي (اس ظاہري تفاوت کے باوجود جس کو ديکھ کر بعض لوگوں نے ان کے کردار ميں تضاد کا گمان کيا ہے(دراصل مجموعي طور پر ايک مسلسل طولاني تحريک ہے جو ١١ھ سے شروع ہو کر دو سو پچاس سال تک مسلسل جاري رہي اور ٢٦٠ ھ ميں جو غيبت صغريٰ کے شروع ہونے کا سال ہے ختم ہوئي۔ يہ تمام ہستياں ايک ہي زنجير کي کڑياں ہيں، ايک ہي شخصيت ہيں اور اس ميں کوئي شک نہيں کيا جاسکتا کہ ان سب کا راستہ اور مقصد ايک ہي ہے۔ پس امام حسن مجتبيٰ ٴامام حسين ٴ سيد الشہدا اور امام سجاد زين العابدين ٴ کي زندگيوں کا عليحدہ عليحدہ جائزہ لينے اور پھر لا محالہ اس خطرناک غلط فہمي کا شکار ہوجانے کے بجائے کہ ان تينوں آئمہ کي زندگيوں کا بظاہر باہمي فرق ان ميں ٹکراو اور تضاد کي نشاندہی کرتا ہے ہميں چاہئيے کہ ان سب کي زندگيوں کو ملا کر ايک ايسے انسان کي زندگي فرض کريں جس نے دو سو پچاس سال کي عمر پائی ہو اور جو ١١ ھ سے لے کر ٢٦٠ ھ تک ايک ہي منزل کي سمت مسلسل طور پر گامزن رہا ہو۔ اس طرح اس عظيم اور معصوم زندگي کا ايک ايک عمل قابل فہم اور لائق توجيہہ ہوجائے گا۔
ہر وہ انسان جو عقل و حکمت سے مالا مال ہوگا، چاہے وہ معصوم نہ بھی ہو، جب وہ اتنی طويل مدت طے کرے گا تو حتمی طور پر وقت اور حالات کے تحت مناسب حکمت عملي اختيار کرے گا۔ ممکن ہے وہ کبھي تيز رفتاري کو ضروري سمجھے اور شايد کبھي سست رفتاري ميں مصلحت جانے، حتيٰ ممکن ہے کبھي وہ کسي حکيمانہ تقاضے کے تحت پسپائي بھي اختيار کرے۔ ظاہر ہے وہ لوگ جو اس کے علم و حکمت اور ہدف و مقصد کے بارے ميں علم رکھتے ہيں اس کي عقب نشيني کو بھي پيش قدمي شمار کريں گے۔ اس نکتہ نظر سے اميرالمومنين علي ابن ابي طالب ٴ کي زندگي امام حسن مجتبی کي زندگي کے ساتھ اور ان کي زندگي سيد الشہدائ امام حسين ٴ کي زندگي کے ساتھ اور آپ ٴ کي زندگی ديگر آٹھ آئمہ کي زندگيوں کے ساتھ ٢٦٠ ھ تک ايک مسلسل تحريک کہی جاسکتي ہے۔
يہ وہ خيال تھا جس کي طرف ميں اس سال متوجہ ہوا اور پھر اسي نکتہ کے ہمراہ ميں نے ان عظيم ہستيوں کي زندگيوں کا مطالعہ شروع کيا اور جيسے جيسے ميں آگے بڑھتا رہا ميري اس فکر کو تائيد حاصل ہوتي گئي۔
البتہ اس موضوع پر تفصيلي گفتگو ايک نشست ميں ممکن نہيں ہے ليکن اس حقيقت کے پيش نظر کہ پيغمبر اسلام ۰ کي ذريت طاہرہ يعني آئمہ معصومين کي پوري زندگي ايک خاص سياسي موقف کے ہمراہ رہی ہے، بنابر ايں يہ اس قابل ہے کہ اس (سياسي موقف (کو جداگانہ طور پر مستقل عنوان کي حيثيت سے زير بحث لا يا جائے۔لہذا ميں يہاں اس سلسلہ ميں مختصر طور پر کچھ عرض کرنے کي کوشش کروں گا۔
ميں گزشتہ سال اپنے پيغام ميں آئمہ طاہرين ٴ کي زندگي ميں گرم جدوجہد کي طرف اشارہ کرچکا ہوں، آج ذرا تفصيل سے اس کا جائزہ لينا چاہتا ہوں۔پہلي چيز يہ عرض کرنا ہے کہ سياسي جدوجہد يا گرم سياسي جدوجہد جسے ہم آئمہ کي جانب منسوب کررہے ہيں اس سے ہماري مراد کيا ہے؟
مراد ي يہ ہے کہ آئمہ ٴ کي مجاہدانہ کوششيں محض ايسي علمي ، اعتقادي اور کلامي نہ تھيں جس طرح کي کلامي تحريکوں کي مثاليں اس دور کي تاريخ اسلام ميں ملتي ہيں جيسے معتزلہ و اشاعرہ وغيرہ کي تحريکيں۔ آئمہ کي علمی نشستيں، درسي حلقے ، بيان حديث و نقل معارف اسلامي اور احکام فقہي کي تشريح و توضيح وغيرہ فقط اس لئے نہ تھے کہ علم فقہ يا علم کلام سے متعلق اپنے مکتب فکر کي حقانيت ثابت کردي جائے بلکہ آئمہ کے مقاصد اس سے کہيں بلند تھے۔
اسي طرح يہ اس قسم کا مصلحانہ قيام بھي نہ تھا جيسا کہ جناب زيد شہيد اور ان کے بعد ان کے ورثا يا بني الحسن ٴ کے دوران نظر آتا ہے۔ حضرات آئمہ ٴ نے اس قسم کا کوئي مبارزہ نہيں کيا۔ البتہ اسي مقام پر يہ اشارہ کرديناضروري ہے (اگر ممکن ہوا تو بعد ميں تفصيل پيش کروں گ( کہ آئمہ معصومين ٴ نے قيام کرنے والے ان تمام لوگوں کي بطور مطلق مخالفت بھي نہيں کي، اگرچہ بعض کي مخالفت بھي کي ہے۔ البتہ اس مخالفت کا سبب ان کا مصلحانہ قيام کرنا نہيں تھا بلکہ کچھ اور دوسري وجوہات تھيں۔ بعض کي بھرپور تائيد بھي کي ہے بلکہ بعض ميں پشت پناہی اور مدد کے ذريعہ شرکت بھي کي ہے۔ اس سلسلہ ميں امام جعفر صادق ٴ کي يہ حديث قابل توجہ ہے، آپ ٴ فرماتے ہيں:
’’ لوددت ان الخارجي يخرج من آل محمد و علي نفقہ عيالہ۔‘‘
’’ مجھے يہ پسند ہے کہ آلِ محمد ۰و علي ٴ ميں سے کوئی خروج کرنے والا قيام کرے اور ميں اس کے اہل و عيال کے اخراجات کا کفيل بنوں۔‘‘
اس (کفالت و ذمہ داري( ميں مالي امداد، آبرو کي حفاظت ، مخفي جائے تحفظ مہيا کرنا يا اسي طرح کي دوسري مدد بھي شامل ہے۔ ليکن جہاں تک ميري نظر جاتي ہے، آئمہ نے بہ نفس نفيس خود امام وقت کي حيثيت سے مصلحانہ قيام ميں کبھي شرکت نہيں کي۔
چنانچہ آئمہ عليہم السلام کي گرم سياسي جدوجہد سے مراد نہ تو وہ مذکورہ پہلی علمی جدوجہدکي صورت ہے اور نہ ہی يہ دوسري نوعيت کا مصلحانہ قيام بلکہ اس سے مراد ايک سياسي ہدف اور مقصد کے تحت جدوجہد ہے۔۔۔۔ (جاری ہے
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کراچی کے علاقے لسبیلہ میں ایم ڈبلیو ایم کے فعال سماجی کارکن سید ساجد کاظمی کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طورپر قاتلوں کی گرفتاری عمل میں لائی جائے
علامہ امین شہیدی نے ملک بھر میں بے گناہ اہل تشیع کے قتل عام کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ ان بے گناہوں کے قتل کی صرف رپورٹ درج کر کے کاغذ بھرنے کے سواکوئی عملی قدم نہیں اٹھارہی
انہوں نے رمضان کے مبارک مہینہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس رحمت و عفو و درگذر کے مہینے میں صرف وہ لوگ اس قسم کے افعال انجام دیتے ہیں کہ جنکا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا
ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم نے یوم پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جبکہ پورا ملک یوم آزادی کا جشن منارہا ہے تو ملک دشمن عناصر نے ہم سے ایک مخلص ،دیندار وطن دوست ہم وطن کو چھینا ہے
علامہ امین شہیدی نے شہید کی شہادت پر ان کے بازماندگان اور دوستون کو تعزیت پیش کرتے ہوئے دعا کی کہ اللہ اس مبارک مہینے میں بحق محمد و آل محمد شہید کو بلندی درجات عنایت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت کرے
مجلس وحدت مسلمین کراچی کے زیر اہتمام ماہ دعاو مناجات ماہ رمضان کے آخری عشرے میں معرفت قرآن کے نام سے مسجد و امام بارگاہ سید الشہداء میں اعتکاف کا اہتمام کیا گیا ہے اس اعتکاف میں اس وقت تک سیکنڑوں روزہ دار مومنین شامل ہونے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں جبکہ اس وقت مزید روزہ دار تشریف لارہے ہیں
آج رات اعتکاف کی روح پرور فضاء میں اسلامی موضاعات پر علمائے کرام خطاب کرینگے جبکہ دعااور مناجات کی سعادت بھی حاصل ہوگی
آج کے پروگرام کے مطابق مولانا عارف کاظمی صاحب دعا کی قرائت کرینگے جبکہ مولانا عرفان حسینی خطاب کرینگے
وطن عزیز کے چھیاسٹویں جشن آزادی کی مناسبت سے یوں تو اسلام آباد رات کو چراغاں اور آتش بازی سے روشن نظر آرہا تھا تو دن کے وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے لگائے گئے بینرز نے دارالحکومت کو چارچاند لگادیا ہواہے
ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے جوڑواں شہروں کی اہم شاہراہوں اور چوکوں پر لگائے گئے جشن آزدی مبارک کے بینرز تمام ہم وطنوں کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں
ایم ڈبلیو ایم کہ جس نے انتہائی مشکل وقت میں اہل وطن کو اپنے وطن کی دفاع،استحکامت اور استقلال کی خاطر متعدد بڑے اجتماعات کے زریعے وطن دوستی کے فروغ کا شعور دیا اور ہم سب ایک ہیں کا نعرہ لگاکر وطنیت کے مقابلے میں کھڑے تمام بتوں کو مسمار کرتے ہوئے باہمی برداشت ،اخوت و برادری،بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے اور دیتی رہے گی
کیونکہ مجلس وحدت کی جماعتی سوچ کی بنیاد دینداری،اسلامی اور قومی قدروں کی پاسداری،اسلامی وحدت،وطن دوستی ،جمہوریت ،جیسے عناوین پر قائم ہے
لاہور( )مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی آفس لاہور میں ہونے والی جشن آزادی پاکستان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کے لئے ہمیں خود انحصاری اور جذبہ قربانی کی ضرورت ہے۔
اغیار کے آگے ہاتھ پھیلانے والوں کو آزاد قوم نہیں کہتے جب تک ہمارے حکمران امریکہ جیسے شیطانی قوتوں کے تابع ہوں اس وقت تک پاکستان کو آزاد ریاست کہنا درست نہیں۔آئے دن ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوتا ہے ۔سلالہ چیک پوسٹ پر درجنوں محب وطن افواج پاکستان کو شہید کیا جاتا ہے۔ کیا یہ آزاد قوموں کی نشانیاں ہیں۔ استعماری قوتوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے حکمرانوں سے جب تک نجات حاصل نہیں کرینگے ہم آزاد قوم نہیں کہلا سکتے۔ پاکستان کو اللہ تعالی ٰ نے ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان بے حس اور بے ضمیر حکمرانوں نے عوام کی حالت زار کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے۔ کہ لوگ ایٹمی پاور پاکستان میں دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیںآزادی کا درس ہمیں ایران ، وینزویلا او ر شمالی کوریا سے لینا چاہیے۔ وہاں کے حکمران عوام اپنے ملک اور ملت کے ساتھ مخلص اور نڈر ہیں پاکستان کی 65واں یوم آزادی منار ہے ہیں آپ ذرا سوچیں روشنیوں کے شہر کراچی میں جشن آزادی کی رات 8لاشوں کاتحفہ بلوچستان کے محروم عوام پر ریاستی جبر و تشدد ، گلگت بلتستان کے محب وطن لوگوں پر محرومیوں کے سائے اور ریاستی جبر کا شکار کیا ہم آزاد پاکستان اسی کو کہتے ہیں؟
جس ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی شیطانوں نے بربریت اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا اور ہم نے خاموشی سے اپنی بے ضمیری کا مظاہرہ کیا ۔ کیا یہ آزادقوم اور آزاد پاکستان میں نہیں۔ ذرا سوچیں!
بابائے قوم نے اور علامہ اقبال نے ایسی آزاد ریاست کے لئے جد وجہد کی تھی؟
کبھی اے نوجوان مسلم !تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں کا تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارا
اجلاس میں صوبائی کابینہ اور ضلع کابینہ کے تما م ارکان نے شرکت ک
پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام کی ذمہ دار پوری دنیا ہے، جس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے ذمہ دار عرب ہیں، جنہوں نے اپنے ہی بھائیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور صہیونیوں نے فلسطینیوں کو ترنوالہ سمجھ رکھا ہے۔
لاہور پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے علامہ عبدالخالق اسدی، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران، فلسطین فاؤنڈیشن کے عمار رضا زیدی، سنی تحریک کے مجاہد عبدالرسول، انجمن طلبہ اسلام کے عثمان محی الدین، جماعت اہلسنت کے صاحبزادہ افضال نورانی اور تحریک ناموس رسالت محاذ کے محمد علی نقشبندی نے بھی خطاب کیا۔
جبکہ اس پروگرام کا اہتمام پی ایف پی نے کیا تھا
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام جشن نزول قرآن کا نفرنس کا انعقاد ایمبسڈر ہوٹل شملہ پہاڑی میں کیا گیا۔ جس میں تما م مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت کی ۔ کانفرنس
کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ منہاج القرآن کے ڈرایکٹر ڈاکٹر علی اکبر الازھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کی پُرنور گھڑیوں میں اس مبارک محفل کا انعقاد دلوں میں مسرت اور پاکیزگی کا باعث ہے۔قرآن ایک ایسی جلیل القدر کتاب ہے کہ جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں اوراس کے حقائق اور تعلیمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت انسان اپنے علم کی وسعتیں عبور کر رہا ہے اور تسخیر کرنے کا دعوی کر رہاہے۔لیکن جب ان کو ٹرائل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اس وقت ان کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جوتاقیامت ہمارے لئے مشعل آئین ہے۔ آج قرآن کی وارث امت مسلمہ بے وارث دیکھائی دیتی ہے ہر طرف مسلمان مارے جا رہے ہیں اور ان پر ظلم ہو رہا ہے تو اس میں قصور قرآن کا نہیں ہے بلکہ ان علماء کا ہے جہنوں نے امت مسلمہ کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا ہے۔کفار اس وقت امت واحد ہوگئے ہیں جن کی تازہ مثال امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا ہے جو متحد ہوکر مسلمانوں کو چن چن کر مارہے ہیں اور ادھرہم ہیں کہ اثر تک نہیں ہوتا۔
قومی ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب عزت مآب قاضی حسین احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل ہوا انہوں نے قرآن کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کتاب جہاد ہے۔جب مسلمان جہاد کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا میں زلت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں حکومت بنانا کو ئی مشکل کام نہیں ہے معاشرے کی اقدار کو پامال ہونے سے بچایا جائے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’ تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘‘
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکر ٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے خطاب کر تے ہوئے کہاکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہماری پستی کی وجہ قرآن سے دوری ہے قرآن مردوں کے لئے نہیں بلکہ زندہ لوگوں کے لئے ہے۔اگرمسلمان قوم قرآنی احکامات پر عمل کرے تو دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفاء منازل طے کر سکتی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ قرآن وہ کتا ب ہے کہ جس پر کسی بھی مسلک کو اختلاف نہیں اس پر سب متحد ہیں ۔قرآن کے مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا حقیت میں سیرت رسولؐاور ائمہ اطہارؑ ہے۔ کیونکہ ہمارے نبی اکرم ص کی زندگی مجسم قرآن ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے چھوٹے مسائل پر تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان کے حوالے سے جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ استعمار کو شکست دے سکے۔مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ ابوذر مہدوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآن آئین زندگی ہے جو زندگی ہائے شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے ۔ قرآن وحدت ملت کا واحد حل اور راستہ ہے اور قران ہی کو نقطہ نظر بنا کر تمام اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔