The Latest
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قیام کے نتیجے میں ملت تشیع میں قومی، سیاسی، سماجی حوالوں سے موجود طویل جمود کا خاتمہ ممکن ہوا۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے سربراہ حجتہ السلام و المسلمین مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین، صوبائی سیکریٹری جنرل مولانا مختار احمد امامی اور ضلعی سیکریٹری جنرل سجاد اکبر زیدی نے ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ملیر کیجانب سے 5 اسٹار لان جعفر طیار سوسائٹی میں منعقدہ قرآن کانفرنس و دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم کے سیاسی میدان میں وارد ہونے سے قومی سطح پر ملت تشیع اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قیام کے نتیجے میں ملت تشیع میں قومی، سیاسی، سماجی حوالوں سے موجود طویل محرومیوں کا ازالہ ممکن ہوا ہے۔
مولانا مختار امامی نے کہا کہ قرآن فقط ایک کتاب نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مسلمان تعلیمات قرآن پر عمل پیرا ہوکر اپنی تمام اجتماعی، سیاسی، معاشرتی اور انفرادی مشکلات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ سجاد اکبر زیدی نے تقریب میں شریک تمام مہمانان گرامی مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین، مولانا مختار امامی، محمد مہدی، صابر کربلائی (ترجمان فلسطین فاؤنڈیشن)، توفیق الدین (امیر جماعت اسلامی ضلع ملیر)، راؤ محمد اقبال (ڈی ایس پی ملیر)، اعجاز زیدی (صدر جعفر طیار سوسائٹی) اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
فلسطین فاونڈیشن بلوچستان کے زیر اہتمام کوئٹہ میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا عنوان "فلسطین فلسطینیوں کا وطن" تھا۔ کانفرنس کی صدارت علامہ مقصود علی ڈومکی نے کی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر کمانڈر خدائیداد خان مہمان خاص تھے۔ کانفرنس سے جمہوری وطن پارٹی نظریاتی کے
مرکزی رہنماء محمد یوسف نوتیزئی، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء علامہ سید ہاشم موسوی، بلوچ قوم پرست رہنما میر عبدالروف ساسولی، ممتاز عالم دین آقا مبشری نے خطاب کیا۔
کانفرنس میں مشہد حرم مطہر رضوی کے ممتاز بین الاقوامی قاری قرآن کریم جناب مہدی شجاع نے تلاوت کلام پاک کا شرف حاصل کیا۔ اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نےکہا کہ آزادی فلسطین کی منزل قریب ہے اور اقوام عالم اسرائیل غاصب کے خلاف متحد ہورہی ہیں۔ کوئٹہ کی سر زمین کے غیور فرزندان اسلام نے آزادی بیت المقدس کے لئے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔ ان پاکیزہ صفت روزہ داروں کا خون ناحق اسرائیل کی بربادی کا باعث ہوگا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ANP کے مرکزی نائب صدر کمانڈر خدائیداد خان نے کہا کہ عرب دنیا میں برپا ہونے والے انقلاب نوید آزادی ہیں۔ ہم تحریک آزادی فلسطین کے حامی ہیں۔ اس موقعہ پر نور زہراء نےترانہ پڑھی
مجلس وحدت مسلمین ضلع لاہور کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد اقبال کامرانی نے القدس کمیٹی کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوم القدس کو یوم اللہ قرار دیا گیا ہے، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ قبلہ اول کی آزادی کے لئے آواز بلند کرئے اور استعماری قوتوں سے اظہار نفرت اور بیزاری کرے۔ القدس کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو دعوت دیں اور اس دن کی اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ جمعۃ الوداع کو تمام مسلمان یک زبان ہو کر قبلہ اول کی آزادی کے لئے آواز اٹھائیں۔
انہوں نے پنجاب حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پی ایچ اے سے مطالبہ کیا کہ یوم القدس کے تشہیری مہم کو مٹانے اور اشتہارات کی بے ادبی سے باز رہیں کیونکہ یہ تشہیری مہم کسی کی ذاتی نہیں بلکہ صرف اور صرف قبلہ اول اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے لاہور میں یوم القدس کے دعوتی بینرز اور پینا فلیکس آویزاں کئے ہیں جنہیں پی ایچ اے کے ارکان نے ہٹانے کی کوشش کی ہے ہم ان پر واضح کرتے ہیں کہ یہ ہمارا ملی فریضہ ہے بطور مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پی ایچ اے کے اہلکار فلسطینی بھائیوں سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ہمارے بینرز اور پینا فلیکس کو نہیں چھیڑیں گے۔ اس موقع ایم ڈبلیو ایم لاہور کے ترجمان مظاہر شکری نے کہا کہ امام خمینی (رہ) کے حکم سے آج پوری دنیا کے غیرت مند مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا میں امت مسلمہ متحد ہو کر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔ مظاہر شگری نے کہا کہ اگر مسلمان متحد ہو کر ایک ایک بالٹی بھی اسرائیل کی جانب بہا دیں تو یہ اس پانی میں غرق ہو کر تباہ ہو جائے گا۔
آج شب جبکہ دنیا رسول اکرم ص کے چچازاد بھائی امیر المومنین حضرت علی ع کی شب ضربت کی رات پر سوگوار ہے تو دوسری طرف چینوٹ میں بدنام زمانہ سفاک قاتل اور تفرقہ انگیز شخص ملک اسحاق اور اس کے حامیوں عزداری کے لئے آنے والے عزاداروں کو راستے میں پکڑ کر زودکوب کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی مسجد میں شرپسند اور نفرت انگیز گفتگوکرتے ہوئے منافرت انگیز نعرے لگائے جس پر چینوٹ کے عزادار سرپااحتجاج ہوئے اور شرپسندی کی جانے والی مسجد کے باہر جمع ہوے اور دھرنا لگا دیا چند گھنٹوں کے دھرنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آگئی عزاداروں کا مطالبہ تھا کہ شرپسندوں اور تشدد کرنے والوں کو فورا گرفتار کیا جائے نیز بدنام زمانہ سفاک قاتل ملک اسحاق کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کیا جائے بڑی تگ دو کے بعد آخر کار ڈی پی او چینوٹ کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے مذاکراتی ٹیم میں مولاناسید حیدرنقوی مدرس جامعہ بعثت۔سید اخلاق الحسن صوبائی سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت،سید افتخار حیدرشاہ ضلعی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت ،سید عاشق بخاری،ضلعی کابینہ ممبر مجلس وحدت ،شامل تھے اس مذاکراتی ٹیم نے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جو آخری اطلاعات تک جاری تھے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿۱﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿۲﴾لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿۳﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿۴﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿۵﴾
ھزار مہینہ تریاسی سال بنتے ہیں یعنی ایک رات کی عبادت تریاسی سالوں کی عبادت سے افضل ہے۔کیونکہ قرآن اس رات میں نازل ہوا ہے۔ قرآن کے نازل ہونے میں خود قرآن بشارت دیتا ہے کہ قرآن ماہ مبارک رمضان میں<<شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن>>(بقرہ : 185) شب قدر میں نازل <<انا انزلنا فی لیلۃ القدر>>(قدر:1) ہوا ہے۔
اور یہ نزول دو طرح کا رہا ہے ایک نزول دفعی یعنی ایک بار نازل ہوا۔ شب قدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ایک ساتھ نازل ہوا ہے اور دوسرا نزول ، نزول تدریجی ہے جو کہ پیغمبر اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چالیس کی عمر میں بعثت کے دن نازل ہونا شروع ہوا اور آنحضرت کی عمر مبارک کے 63 ویں سال تک نازل ہوتا رہا ہے، جوکہ 23 سال نازل ہوتا رہا ہے۔ یعنی قرآن ایک ساتھ ایک بار شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری مرتبہ 23 سال آھستہ آھستہ نازل ہوتا رہا ہے۔
شب قدر کو شب امامت اور ولایت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خود قرآن کہتا ہےکہ اس رات میں فرشتے ، ملائکہ اور ملائکہ سے اعظم ملک روح بھی نازل ہوتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھنا ضروری ہے کہ نازل ہوتے ہیں ، نازل ہوئے نہیں۔
کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : << تنزّل الملائکۃ والروح فیھا>> تنزل فعل مضارع ہے یعنی نازل ہوتے ہیں نازل ہوئے نہیں کہا گیا ہے۔ تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کس پر نازل ہوتے ہیں۔ آپ اور مجھ پر تو فرشتے نازل نہیں ہوتے ہیں۔ پیغمبر( اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تو آنحضرت پر نازل ہوتے تھے آنحضرت کے بعد کس پر نازل ہوتے ہیں؟۔
ظاھر سی بات ہے اس پر نازل ہوں گے جو پیغمبر کے بعد پیغمبر کا جانشین ہوگا ، جو معصوم ہوگا ، جو صاحب ولایت ہو۔جی ہاں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے بعد حضرت حسن مجتبی اور آپ کے بعد حضرت حسین اور آپ کے بعدحضرت علی زین العابدین اور آپ کے بعد حضرت محمد باقر اور آپ کے بعد حضرت جعفر صادق اور آپ کے بعد حضرت موسی کاظم اور آپ کے بعد حضرت علی الرضا اور آپ بعد حضرت محمد جواد اور آپ کے بعد علی النقی اور آپ کے بعد حسن عسکری علیہم السلام اور آپ کے بعد قطب عالم امکان مھدی آخر الزمان (ارواحنافداہ) کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں <<تنزّل الملائکۃ >> اور انسانوں کے سال بھر کے مقدرات بیان کرتے ہیں۔
اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات کو پا لیں ایک رات میں عمر بھر کی عبادت کا ثمرہ پا سکیں گے۔ کیونکہ اللہ نے شب قدر کو ھزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے << لیلۃ القدر خیرمن الف شھر>>(قدر:4) شب قدر کی رات ھزار مہینوں سے افضل ہے۔ ھزار مہینہ یعنی 83 سال۔ یعنی ایک اچھی عمر۔ اس لئے چاہئے کہ اپنے لئے سعادت کی زندگی اللہ سے طلب کریں۔
جس زندگی میں دنیا بھی آباد ہو آخرت بھی آباد ہو۔ اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ <<یا ایھا النّاس انّما بغیکم علی انفسکم>> (یونس:23) لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔
اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زماں (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی تائید کریں گے۔ اور جو کوئي شقاوت کی زندگی چاہے وہ شب قدر میں توبہ کرنے کے بجائے گناہ کرے ، یا توبہ کرنے سے پرھیز کرے ، تلاوت قرآن ، دعا اور نماز کو اھمیت نہیں دے گا ، اسطرح اس کے نامہ اعمال سیاہ ہوں گے اور یقینا امام زماں (ارواحنا فداہ) اسکی تقدیر کی تائید کریں گے۔
جو کوئی عمر بھر شب قدر میں سال بھر کے لئے سعادت اور خوشبختی کی تقدیر طلب کرنے میں کامیاب ہوا ہوگا وہ اسکی حفاظت اور اس میں اپنے لئے بلند درجات حاصل کرنے میں قدم بڑھائے گا اور جس نے شقاوت اور بد بختی کی تقدیر کو اختیار کیا ہوا وہ توبہ نہ کرکے بدبختی کی زندگی میں اضافہ کرے گا۔
شب قدر کے بارے میں اللہ نے تریاسی سالوں سے افضل ہونے کے ساتھ ساتھ اس رات کو سلامتی اور خیر برکت کی رات قرار دیا ہے۔ << سلام ھی حتی مطلع الفجر>> اس رات میں صبح ہونے تک سلامتی ہی سلامتی ہے اس لئے اس رات میں انسان اپنے لئے دنیا اور آخرت کے لئے خیر و برکت طلب کرسکتا ہے۔
اگر دل کو شب قدر کی عظمت اور بزرگی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جس شب کے بارے میں اللہ ملائکہ سے کہہ رہا ہے کہ جاو اور فریاد کرو کہ کیا کوئی حاجب مند، مشکلات میں مبتلا ، گناہوں میں گرفتار بندہ ہے جسے اس شب کے طفیل بخش دیا جائے ؟ اگر اس نقطے کی طرف توجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ یہ رات ایک عمر بھر کی مخلصانہ عمل سے افضل ہے۔
اس بات کو نہیں بھولتے ہیں کہ یہ رات تقدیر لکھنے کی رات ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں بندہ اللہ کی نظر رحمت کو اپنی طرف جلب کرکے سعادت دنیا اور آخرت حاصل کرسکتا ہے تو یقینا ہمیں شب قدر کے ثواب حاصل ہوں گے۔ اس لئے ہمیں چاہیئے فراخدلی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں تمام عالم کے لئے دعا کریں کہ اے اللہ تم اسے بھی عطا کرتے ہو جو تمہیں مانتا ہے اور اسے بھی عطا کرتا ہے جو تمہیں انکار کرتا ہے اس شب کے طفیل ہم سب کو صراط المستقیم کی طرف ھدایت فرما۔
دنیا کے جس کونے میں جو کوئي بھی ظالم کے چنگل میں پھنسا ہے اسے آزادی نصیب فرما۔ عالم اسلام کےمشکلات کو برطرف فرما۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونے کے لئے راہ ھموار فرما۔ اسی طرح جامع الفاظ میں اللہ کی بارگاہ میں درخواست کریں کہ ہم سب کا دنیا اور آخرت آباد فرمائے۔ یہی تو رات ہے جس میں ہم سب اپنے اور دوسروں کے لئے سعادت اور خوشبختی طلب کرسکتے ہیں۔
شب قدر میں شب بیداری کی بہت سفارش کی گئ ہے۔مگر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ شب بیداری میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اگر گناہ کی گنجایش ہے تو پھر سونا ہی بہتر ہے۔ اخلاق کے استاد حضرت آيت اللہ مظاھری (مدظلہ العالی) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ: نقل کیا گیا ہے کہ ایک ظالم اصفھان کے ایک عالم بزرگوار کے پاس آ گیا اور سوال کیا کہ شب قدر میں میرے لئے کون سی عمل بہتر ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے لئے سونا بہتر ہے۔ یہ شخص چلا گیا اور رات بھر سو گیا صبح جب بیدار ہوا تو سوچنے لگا کہ اس عالم دین نے کتنی اچھی بات کہی اگر میں رات بھر جاگے رہتا پتہ نہیں مجھ سے کیا کیا گناہ سرزد ہو جاتا۔ اس لئے شب قدر کی رات اللہ کے ساتھ لو لگانے کی رات ہونی چاہئے۔ غیبت ، تہمت اور گناہ سے خالی اور پاک ہونی چاہئے۔
شب قدر میں نماز اور قرائت قرآن کا خاص اھتمام ہونا چاہئے۔ شب قدر میں حسب توان نماز اور تلاوت قرآن کا اھتمام کیا جانا چاہئے۔ اس رات میں سو رکعت پڑھنے کی خاص سفارش کی گئ ہے۔ قرآن کے ساتھ انس و محبت اور تلاوت بھی بہت ضروری ہے۔ پیغمبر اکرم <صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم> اور ائمہ معصومین <علیہم السلام> قرآن کی تلاوت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کیا کرتےرہے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کیا کریں اور اس کے سایے میں اپنے آپ کو محفوظ کریں۔
خدا کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لئے مخصوصا قرآن کے ذریعہ انسان عظیم مقامات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس رات میں اس رابطے کو بہت زیادہ مظبوط بنایا جاسکتا ہے۔استاد محسن قرائتی (مدظلہ العالی) شب قدر کے بارے میں خاص تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں شب قدر کو اپنے حساب کا دن رکھنا چاہئے۔
رقومات شرعی نکالنی ہے وہ شب قدر میں ہی متعین کرنی چاہئے۔ سال بھر کتنا صدقہ دوں اسی رات میں ایک رقم مختص کرنی چاہئے۔ کتنا قرض دوں۔ کتنے لوگوں کی مدد کروں غرض ھر نیک کام کا اھتمام کرنے کا ارادہ اور منصوبہ شب قدر میں بنانا چاہئے کیونکہ اس رات اللہ ھر کام کو ھزار کے ساتھ ضرب دیتا ہے۔
یعنی اگر ھم شب قدر میں ایک خرمہ افطاری دیتے ہیں یعنی ھزار خرمہ افطاری میں دیا۔ ایک روزہ دار کو افطار کراتے ہیں یعنی ھزار روزہ داروں کا افطار کرایا ہے۔ ایک فقر کو مدد کرنے کا ارادہ کیا ہے یعنی ایک ہزرا فقیروں کو مدد کرنے کا رادہ کیا ہوا ہے۔ میں یہاں پر اضافہ کروں کہ اگر شب قدر میں ایک ظالم کے خلاف نفرت کا اظہار کیا یعنی ھزرا ظالموں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ایک مظلوم کی یاری کا ارادہ کیا ہے تو ھزار مظلوموں کی یاری کا ارادہ کیا ہے۔
تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اگر انیس کی رات کو پانے میں کوتاھی ہوئي ہو یا اکیس کی رات میں کوتاھی ہوی ہو تیس کی رات کو پانے کی ھر ممکن کوشش کریں کیونکہ تییس 23 کی رات انیس اور اکیس سے افضل ہے۔ ان تین شب قدروں میں اسی رات کو زیادہ احتمال دیا جاتا ہے۔ اس رات میں ھر انسان کی ھدایت اور امام کے ظہور کے لئے دعا کریں۔
اللھُمَّ عَجِّل لِوَلِیِّکَ الفَرَجَ
شب قدر, شب امامت و ولایت ہے کہ جس رات میں قرآن کی تلاوت ، نماز اور دعا میں گزارنے والا ھزار مہینوں کی کی عبادت کی فضلیت کو پانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جن کے بارے میں اللہ نے << لیلۃ القدر خیر من الف شھر>> کہہ کے اشارہ کیا ہوا ہے کہ قدر کی رات ھزار مھینوں سے افضل ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ کربلا گامے شاہ کو دو
برس بیت گئے ہیں لیکن آج تک اس سانحہ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کا نیٹ ورک تلاش کیا جا سکا، اس حوالے سے ملت جعفریہ میں اضطراب پایا جاتا ہے، پوری ملت جعفریہ بالخصوص شہدا کے ورثا سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب تک سانحہ کربلا گامے شاہ کی تحقیقات کا کسی نتیجہ پر نہ پہنچنا ہماری ایجنسیوں اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، ہم اس سانحہ کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینی(رہ) کے حکم پر ہر سال امت مسلمہ جمعہ الوداع کو یوم القدس کے نام سے مناتی ہے اور مجلس وحدت مسلمین بھی پورے ملک میں ملی یک جہتی کونسل پاکستان، آئی ایس او اور دیگر قومی اور اسلامی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ مل کر 28 رمضان المبارک کو لاہور میں مرکزی ریلی مسجد صاحب الزمان اسلام پورہ سے نکالے گی جس کی قیادت علمائے کرام کریں گے اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین، بچے اور نوجوان شریک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملی یک جہتی کونسل نے بھی جمعہ کو یوم آزادی القدس منانے کا اعلان کیا ہے ہم اس اعلان کو ملت اسلامیہ پاکستان اور جہان اسلام کیلئے نوید مسرت سمجھتے ہیں اور اپنے تعاون کی بھرپور یقین دہانی کرواتے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ رمضان المبارک میں جلوس عزاداری حضرت امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام اور یوم القدس کی ریلیوں کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور کریں اور سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے حکم پر ماہ رمضان کے آخری عشرہ کو ہفتہ نزول قرآن کے عنوان سے منائیں گے اور اس سلسلے میں مرکزی پروگرام 24 رمضان کو الحمراء میں ہو گا جس سے مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد سمیت مختلف مکاتب فکر کے علماء، علمی و قلمی شخصیات شریک ہوں گی۔
علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ ہم وزیر قانون پنجاب کی دوغلی پالیسی سے پنجاب حکومت کو بارہا آگاہ کرتے رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے ہمارے خدشات اور مطالبات کو بالائے طاق رکھ کر موصوف کو صوبے میں فری ہیند دے رکھا ہے ہم یہ بات حکومت کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کا نتیجہ آئندہ الیکشن میں نواز لیگ بھگت لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے منشور کے مطابق کوئی شیعہ کسی ایسی جماعت کو ووٹ نہیں دے گا جس کا تعلق اور رابطہ کسی دہشت گرد تنظیم سے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا حقیقی سرپرست امریکہ ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور نیٹو سپلائی کی بحالی اس کا شاخسانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک گروہ جسے سب مسلمان مسترد کر چکے ہیں یہی وہ گروہ ہے جو مساجد اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے کرتا ہے اور قرآن مجید جلاتا ہے ایسے عناصر کے ساتھ دوستی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ ووٹر ہیں تو دہشت گرد کسی کا ووٹر یا سپورٹر نہیں ہوتا بلکہ وہ معاشرے اور ریاست کا مجرم ہوتا ہے اس سے تعلق رکھنے والا بھی اس کے جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے لہذا وزیر قانون پنجاب کو ہم دہشت گردوں کا ساتھی تصور کرتے ہیں اور پنجاب حکومت پر واضح کرتے ہیں کہ ایسے عناصر سے پارٹی کو پاک کیا جائے جو بدنامی کا باعث ہیں۔ اس موقع پر ذوالفقار علی اسدی، علامہ ابوذر مہدوی، علامہ محمد اقبال کامرانی، سید اسد عباس نقوی اور افسر رضا خان بھی موجود تھے۔
رہبر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کل شام یونیورسٹیوں کے ایک ہزار کے قریب ذہین اور سرگرم طلباءکی ملاقات میں انصاف پسندی پر مبنی اقتصاد اور سرمایہ دارانہ نظام کے موضوع پر اسلام کے نقطہ نظرکے بارے میں فرمایا کہ ایران کے اقتصاد پر انصاف پسندی پر مبنی نگاہ کی ضرورت ہے اوریہ بنیادی آیین کی 44ویں شق سے کوئی اختلاف نہیں رکھتا-
رہبر مسلمین نے اس بات پر تاکید کی کہ یورپ اور مغربی ممالک میں دن بدن بڑھتے ہوئے موجودہ اقتصادی مشکلات کا اصل سبب سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت یعنی فﺅدالیزم ہے –
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے "مزاحمتی اقتصاد" کو جارحیت پر مبنی اقتصاد سے مختلف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ "مزاحمتی اقتصاد" کا مطلب ،اقتصادی میدان میں اپنے دفاع کےلئے بلند دیوار کھڑی کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دباو¿ اور پابندیوں کے باوجود ملک کی ترقی وپیشرفت کے راستے کھلے رہیں -
آپ نے ایک اسٹوڈنٹ کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی بیداری کی تحریک میں سرگرم اسٹوڈنٹس تنظیموں کے ساتھ تعلقات دوسری اسٹوڈنٹس تنظیموں کے لئے ضروری ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سافٹ جنگ میں دشمن کےاہداف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے مکمل یقین ہے کہ آپ طلباءکوسافٹ جنگ میں کمانڈروں کی حیثیت حاصل ہے اور اسی لئے میری تاکید ہے کہ آپ طلباءسافٹ جنگ میں دشمن کے اصل اہداف یعنی ایرانی عوام اور حکام کی سوچ میں تبدیلی کی بابت ہوشیار رہیں –
آپ نے سافٹ جنگ میں عوام کے دل ودماغ اور سوچ وارادے کو دشمن کے نشانے پر قراردیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن کو آشکارا طور پر اس بات پر تاکید ہے کہ ہمیں ایرانیوں کی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیئے یعنی عوام یہ سوچ لیں کہ سامراج اور عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مزاحمت ہمارے مفاد میں نہیں ہے اور
آپ طلباءکوسافٹ جنگ میں ہوشیار کمانڈروں کی طرح دشمن کے اصل اہداف کا ادراک کرکے اس کا صحیح مقابلہ کرنا چاہیئے -
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے تاکید کی ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ شام کی نابودی کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غرب شام کے مسئلے پر کسی قسم کے مذاکرات انجام پانے نہیں دیتا اور اسکی راہ میں جان بوجھ کر رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ شام میں رخ پانے والے واقعات انتہائی افسوسناک اور دل کو دہلا دینے والے ہیں اور اگر شام کے مسئلے کا کوئی پرامن حل نکالنے کی کوشش نہ کی گئی اور اسے فوجی طریقے سے ہینڈل کیا گیا تو مستقبل میں مزید انسان سوز اور بھیانک واقعات سامنے آئیں گے۔
اسرائیل اور تکفیری سوچ خطے کیلئے دو بڑے خطرے ہیں:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ خطہ دو بڑے خطرات سے مواجہ ہے، ایک اسرائیل اور دوسرا تکفیری سوچ۔ انہوں نے کہا کہ تکفیری سوچ کا اسلام، دین، مذہب اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عالم اسلام اور عرب دنیا میں تکفیری سوچ پھیلائی جا رہی ہے اور بعض عرب ممالک اپنی تیل کی آمدنی سے اس تکفیری سوچ کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔
شکست کا خوف لبنان پر اسرائیلی حملے میں رکاوٹ ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے لبنان میں اسلامی مزاحمت کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخصوصا 2000ء کے بعد اس مزاحمت نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت اسرائیلی منصوبوں اور سازشوں کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جب بھی لبنان پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں شکست کا خوف اسے اس اقدام سے باز رکھتا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس وقت لبنان کی اسلامی مزاحمت اسرائیل کیلئے سب سے بڑی پریشانی میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہ 2000ء اور 2006ء میں حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں اسرائیل کی ذلت آمیز شکستوں کا قدرتی نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے اسرائیل آج خطے کے حالات سے سوء استفادہ کرتے ہوئے لبنان پر حملہ ور ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل کو عرب ممالک کی عظیم افواج سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ان افواج کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اسکی مرضی سے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں، اسرائیل لبنان پر حملہ ور ہونے کا قوی انگیزہ رکھتا ہے لیکن جو چیز اسکے سامنے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے وہ اسلامی مزاحمت کے ہاتھوں ایک اور شکست کا خوف ہے، چونکہ حزب اللہ لبنان ایک ایسی عوامی تنظیم ہے جو انتہائی طاقتور اور شکست ناپذیر ہو چکی ہے۔
ماہ رمضان المبارک کو نماز فجر میں سجدہ معبود میں امیرالمومنین حضرت علی (ع) کی پیشانی جس وقت خون میں غلطاں ہوئی اور پیغمبر اسلام (ص)کے وضی و جانشین ، یتیموں اور بےکسوں کے حامی کا سر مبارک شمشیر ظلم سےشگافتہ ہوا تو مشکلکشا ، شیر خدا ، شاہ لافتی کے شاگرد جبرائیل امین نے تڑپ کر آواز دی " ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ" خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے،
سن40 ھ ق حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں عبد االرحمن بن ملجم کےقاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوۓ ۔
حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .
روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔ حضرت علی (ع) نماز صبح کیلۓ مسجد کوفہ کی طرف روانہ ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوبھی بیدار کیا جو پیٹ کے بل سویا ہوا تھا اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔
جب حضرت محراب میں پہنچے اور نماز فجر کا آغاز کیا تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے زہر آلودہ تلوار سے آپ کے سر پر وار کیا اور آنحضرت کا سر زخمی ہوگیا .
حضرت علی علیہ السلام محراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔
بعض نمازگذار ا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباہر کی طرف دوڑ پڑے اور بعض حضرت علی (ع) کی طرف بڑھے اور کچھ سر و صورت پیٹنے اور ماتم کرنے لگے ۔
حضرت علی (ع) کے سر مبارک سے خون جاری تھا آپ نے فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول (ص)نے میرے ساتھ کیا تھا ۔
حضرت علی (ع) نے اپنےفرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔اس کے بعد حضرت کو مسجد سے گھر لایا گیا اصحاب آپ کے ہمراہ تھے آپ نے گھر پہنچنے کے بعد امام حسن مجتبی سے فرمایا: اصحاب سے کہہ دیجئے چلے جائيں کیوں کہ مجھ سے زینب و ام کلثوم ملنے کے لئے آرہی ہیں۔ 20 رمضان کو حضرت علی(ع) نے بڑے درد و غم میں بسر کیا طبیب نے کہا زہر کا اثر پورے بدن میں پہنچ گیا ہے اب علاج ممکن نہیں ہے اور کائنات کے امیر21 رمضان کواپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔
روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علی (ع) کےسرمبارک پر شمشیر ماری تو زمین لرز گئی ، مسجد کوفہ کے دروازے لرز گئے غیب سےہاتف نے پکارا " قد قتل وصی مصطفی (ص) " محمد مصطفی کے جانشین کو قتل کردیا گیا ہے جبرئيل امین نے آواز دی: تھدمت و اللہ اركان الھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء؛ خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے درخشاں ستارے کو خاموش کیا گيا اور تقوی و پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی ابن ملجم نے شھید کیا۔اس طرح خدا کے ولی اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے (ص) کے جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا، اور امام حسن(ع) و امام حسین(ع) اور حضرت زینب (س)و حضرت ام کلثوم (س)کے سر سے ان کے باپ کا سایہ ختم کردیا اور سیدا شباب اہل الجنۃ کو یتیم بنادیا۔
آج کل یوں تو پوراعالم اسلام امریکی وصیہونی سازشوں کےچنگل میں نظرآرہاہے لیکن دنیاکی سب سےبڑی جمہوریت کادعوی کرنےوالے ہندوستانی سیاستداں بھی مسلمانوں کوہراساں کرنے اور انھیں طرح طرح سے خوف و وحشت میں مبتلا کرنےکی سازشیں رچتےرہتےہيں۔
اوریوں ہندوستان کےعوام اور اس کےاندر پائي جانےوالی سب سےبڑی اقلیت فی الحال بےشمارمسائل کاشکار ہے۔اوراس کاسب سےبڑا ثبوت ہندوستان میں ہرسطح پر مسلمانوں کوہراساں کئےجانےکےلئےکھیلاجانےوالا کھیل ہے۔
ریاست یوپی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی بھاری شکست کےفورا بعد، مسلمانوں سےاپنی ہار کابدلہ لینےاور مسلمانوں کوسبق سکھانےنیزساتھ ہی صیہونی حکومت کوخوش کرنےکےلئےبالعموم مسلمانوں اوربالخصوص فلسطینیوں کےحق میں آواز بلند کرنےوالے بےباک صحافی سیدمحمداحمد کاظمی کی چارج شیٹ کےبغیرحراست اورپھرسعودی عرب سےانجینئرفصیح محمود کااغواء ، جامعہ الفلاح کے دوطلباء کی علی گڑہ ریلوےاسٹیشن سےغیرقانونی گرفتاری ، قتیل صدیقی کی پوناجیل میں موت ،پھرڈرامائی اندازمیں ابوجندال کاظاہر ہونا، ریاست اترپردیش کےضلع رائےبریلی میں مسلمانوں کےپورےگاؤں کونذرآتش کردیاجانااورانتہاپسند ہندولیڈرتوگڑیاکادس ہزار افراد کےساتھ پورےگاؤں کودوبارہ گھیرکرمسلمانوں کےخلاف اشتعال انگيزنعرےبازي اورانھیں خوف زدہ کرنا، بریلی میں ہندومسلم فساد کرانا، اورپھرآسام ميں مسلمانوں کی نسل کشی کوئی اتفاق نہيں ہے گذشتہ تین مہینےکےدوران مسلمانوں کےخلاف ہونےوالےان واقعات کوشایدکوئی بھولا بھالاانسان ہی اتفاقی واقعہ یاسنگھ پریوار کی سازش سمجہ سکتاہے کیونکہ سعودی عرب سے فصیح محمود کواغواکرنا یا ابوجندال کوحاصل کرنا مرکزی حکومت کےعلاوہ کسی کےبس کی بات نہيں جامعہ الفلاح کےطلبہ کوکشمیرمیں ان کےوالدین کوپولیس اسٹیشن میں بلاکریوپی حکومت کےاہلکار رہا نہيں کراسکتے ، اس وقت دہلی کی ریاستی اور مرکزی حکومتوں پرکانگریس کاقبضہ ہے ۔ ریاست مہاراشٹر میں ہائی سیکورٹی جیل کےاندرقتیل صدیقی کاقتل فی الحال بی جےپی اورشیوسیناکےبس کاروگ نہيں جبکہ یوپی میں بی جےپی کےاندروہ دم خم نہيں کہ وہ فساد پرفساد کرواسکے۔اورجہاں تک ریاست آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی کامعاملہ ہے تو بی جےپی یاکسی دوسری فرقہ پرست پارٹی کی وہاں کوئی پکڑ نہیں ہے یہ ریاست کانگریس کامضبوط گڑہ ہے البتہ ہمارا مقصد صرف کانگریس پارٹی کوموردالزام ٹھرانایا بی جےپی کوکلین چٹ دینا یایہ ثابت کرنانہيں کہ بی جےپی یہ سب کچہ کرنانہيں چاہتی بلکہ برس ہابرس سےمسلمانوں کےخلاف کانگریس کی گھناؤنی سازش سےپردہ اٹھانا اور آسام ميں پانچ ہزار مسلمانوں کوخاک وخون میں غلطاں کردیئےجانےکےدلخراش واقعےکی جانب رائےعامہ کومتوجہ کرنا ہے اوریہ بتاناہے کہ ہندوستان میں آئےدن اس طرح کی حرکتوں کااصلی ذمہ دار کون ہے؟آسام کےفسادہ زدہ علاقے سے ملنےوالی رپورٹوں سےپتہ چلتاہےکہ اس علاقےمیں تقریباپانچ ہزارمسلمانوں کاقتل عام ہوا ہے جبکہ لاکھوں افراد کےگھربارجلادیئےگئےہيں اورانھیں آوارہ وطن ہونےپرمجبورکردیاگیاہے۔جبکہ پچیس سےزیادہ مسجدوں میں آگ لگادی گئی اور انھیں شہید کردیاگیااورمسلمانوں کےگھروں پربلڈوزر چلادیئےگئےہیں اورڈرےسہمےباقی بچےمسلمان تین سوسےزیادہ ریلیف کیمپوں میں زندگی گذارنےپرمجبورہیں۔سرکاری سطح پر صرف پچھترافراد کےمارےجانےکی خبرہے لیکن فسادزدہ علاقےکھوکھراجھار کادورہ کرنےوالےایک صحافی کےمطابق یہ سرکاری رپورٹ حقیقت سےکافی دور ہےاوربی ٹی سی کی طرف سےجورپورٹیں پیش کی جارہی ہیں اسی کوصحیح ماناجارہاہے ۔ رپورٹ کےمطابق فساد زدہ علاقےسے روز بروز مزید لاشیں برآمد ہورہی ہیں اور اس سےبڑی بات یہ ہے کہ جہاں لوگ مارےگئےہيں وہاں توکوئی جاہی نہيں پارہا ہے وہاں تواب بھی مسلمانوں کےگھروں کوبلڈوزروں سےمسمارکیاجارہا ہے اوربوڈو قبائل کی جانب سےدھمکی دی جارہی ہےکہ انھیں دوبارہ بوڈولینڈ میں داخل نہیں ہونےدیاجائےگا۔ریلیف کیمپ میں پناہ لینےوالےعزيزعلی کاکہنا ہے کہ پولیس بھی مسلمانوں پرہی گولیاں برساتی ہے اورآر پی ایف کےجوان کھڑےتماشہ دیکھتےرہتےہیں۔